حرب و ضرب کی تعلیم وتربیت ھمیشہ سے انسانی زندگی کا لازمہ رہی ہے۔ ہاں زمانہ اور جگہ کے اعتبار سے اسکی نوعیت جداگانہ رہی ہے۔
ساڑھے چودہ سو سال پہلے ملک حجاز میں قبائل عرب کے درمیان جومروجہ طریقہ حرب وضر ب تھا اسلام آنے کے بعد بھی آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طریقہ حرب وضر ب کو لازما عام مسلمانوں کو اس کی تعلیم وتربیت کی ترغیب دی۔
چناں چہ وقت ضرورت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ صحابیات عظام رضی اللہ عنہن نے بھی اپنی جان و مال کی حفاظت کے لئے فنی تربیت کا مظاہرہ کیا ھے. پوری تاریخ اسلام اس کی گواہ ہے۔
حرب و ضرب کی تربیت یہ کھیل و تماشہ نہیں ہے بلکہ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم اپنی پرانی روایات کو زندہ کریں اور ملکی قانون کا لحاظ کرتے ہوئےآتشی اسلحہ چھوڑ دیں بقیہ ہر طرح کی تربیت حاصل کریں خواہ اس کا نام کچھ بھی ھو۔ مثلا لاٹھی، ڈنڈا،تلوار، بھالا تیر کمان بھوجالی۔ جسمانی کسرت مثلا جوڑو، کراٹا، اونچی چھلانگ، تیراکی،کمند ڈالنے کی تربیت مشکل حالات میں جان بچا کر بھاگنے کی ترکیب، تیز دوڑنے کا مشق، درختوں پر چڑھنے اور اترنے کا فن جنگلوں میں چھپ کر جنگلی جانوروں اور دشمنوں سے بچنےکی ترکیب وغیرہ وغیرہ الغرض یہ وہ سارے علوم و فنون ہیں جسکی شریعت نے بالکل اجازت دی ہے۔ موقع محرم الحرام شریف کا ھو یا کوئی اور تمام ائمہ مساجد سے اور سربراھان انجمن سے درخواست ہے کہ آنے والے دنوں میں خاموشی کے ساتھ میٹینگیں کرکے ہر گاؤں میں اسکی شروعات کریں چونکہ محرم الحرام کے موقع پر اس طرح کے مشقی پروگرام ھوتے تھے۔ اب اگر ہم اسی کو بہتر طور پر کریں گے تو غیروں کے ساتھ حکومت کو بھی انگشت نمائی کا موقع نہیں ملےگا۔
یہ ھمارے لیۓ بہتر موقع ھے
محمد شھادت حسین فیضی
Mob:. 9431538584
Mob:. 9431538584
No comments:
Post a Comment