مسلم ہیں؟ آپ کو کرایہ پر مکان نہیں ملے گا
منور رانا کا مشہور شعر ہے: یہ دیکھ کر پتنگیں بھی حیران ہو گئیں۔ اب تو چھتیں بھی ہندو مسلمان ہو گئیں۔ رانا کی شاعری میں یہ اچھا شعر ہے لیکن ہندوستان کے موجودہ تناظر میں یہ زمینی حقیقت ہے اور اس زمینی حقیقت کا سب سے زیادہ سامنا اس مسلم طبقہ کو کرنا پڑتا ہے جو کسی بڑے شہر میں تعلیم حاصل کرنا چاہتا ہے، تجارت کرنا چاہتا ہے یا مزدوری کے بہانے ہی کوئی مکان کرائے پر لینا چاہتا ہے۔
سامنا یوں کرنا پڑتا ہے کہ اسے کرائے پر صرف اس لیے مکان دست یاب نہیں ہوتا کہ وہ مسلمان ہے۔ ہاں! اس برے کردار کا مظاہرہ بہت سنہرے بہانوں کی شکل میں ہوتا ہے جیسے: آپ نان ویج کھاتے ہیں اور ہم اپنے مکان میں اسے کھانے کی اجازت نہیں دے سکتے، اگر کوئی بلند ہمت یا لبرل قسم کا مسلمان اس بہانے کو نکارتے ہوئے یہ صفائی دے کہ وہ ٹھیٹھ ویجیٹیرین ہے تو دوسرا حیلہ یہ کیا جاتا ہے کہ آپ کے تعلقات غلط تنظیموں سے ہو سکتے ہیں یعنی دہشت گردی اور اسلامو فوبیا کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اگر کوئی سرکاری روزگار کا حوالہ دے یا اپنی اعلی علمی صلاحیتوں کا لوہا منوا لے اور ٹال مٹول کا کوئی بہانہ نہ چھوڑے تو اسی مکان کے دوسرے عام کرایہ داروں کے مقابل اس مسلمان کے لیے اتنا زیادہ کرایہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ وہ مستقل طور پر برداشت کرنے کے لائق نہیں ہوتا یعنی بہانہ کچھ بھی ہو بہر حال آپ مکان مالک کے لیے مسلمان ہیں اور یہ آپ کا وہ ناکردہ جرم ہے جو ہندوستان کے موجودہ سماج کے بڑے شہروں کو برداشت نہیں۔ یہ وہ خیالات ہیں جن کا اظہار ایڈووکیٹ محمد ادریس نے 1/ فروری 2019 میں انگریزی ویب سائٹ "نیوز کلک" کے لیے House Apartheid In Jaipur کے عنوان سے لکھے گئے اپنے ایک حالیہ مضمون میں کیا ہے۔
محمد ادریس فی الوقت جےپور راجستھان کی ہائی کورٹ میں ریسرچر کے طور پر کام کر رہے ہیں اور ازیں قبل جامعہ ملیہ اسلامیہ سے قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد سپریم کورٹ کے جج محترم آفتاب عالم صاحب کے ماتحت دو سال تک مشق کر چکے ہیں۔ بلند جذبات کا حامل یہ نوجوان بنیادی طور پر راجستھان کے ناگور ضلع کا رہنے والا ہے اور اپنے متعلقہ میدان میں بہترین صلاحیتوں کا مالک ہے۔ محمد ادریس کو دوران طالب علمی بھی جے پور میں کرائے پر مکان حاصل کرنے کے سلسلے میں بڑی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا تھا جس کی یادیں ان کے حاشیہ ذہن میں محفوظ تھیں لیکن بھولی بسری ہو چکی تھیں لیکن اب جب دوبارہ وہ بطور ملازم جےپور شفٹ ہوئے اور کرائے پر مکان تلاش کرنے کی کوششیں کیں اور اس بار پھر انہیں 2012 کی تلخ حقیقتیں اپنی نگاہوں کے سامنے نظر آئیں تو انھوں نے اپنے اس مقالے میں کھل کر ان کا اظہار کیا، کس موقع پر کس مکان مالک کا کیا ری ایکشن رہا وہ بھی لکھا اور زندگی کے ان تلخ مراحل میں ان کا ذاتی تاثر کیا ہے وہ بھی انہوں نے واضح انداز میں لکھا۔ان کا یہ مضمون درد مند، حساس طبع اور بلند فکر طبقے کے ساتھ ملت اسلامیہ کے سرمایہ دار طبقے کے لیے بھی لائق مطالعہ ہے۔
محمد ادریس ایک ایمان دار قسم کے مکان مالک کے تاثرات کو اپنے مضمون کی شہ سرخی بناتے ہوئے لکھتے ہیں:
One landlord told me, “Muslims live in filthy ghettos and use filthy language. Riots and street fighting are in their blood.”
ایک مکان مالک نے مجھ سے کہا: "مسلمان گندی گلیوں میں رہتے ہیں اور گندی زبان کا استعمال کرتے ہیں۔ فسادات اور گلیوں کی لڑائی ان کے خون میں ہے"۔
ادریس نے نقل مکانی کے تعلق سے انسانی جذبات کی صحیح ترجمانی کی ہے:
شفٹ کرنے کا مطلب صرف جسم اور سامان کو منتقل کرنا نہیں ہوتا، دماغی طور پر بھی اپنے آپ کو منتقل کرنا ہوتا ہے اور یہ سب سے مشکل کام ہوتا ہے ۔
لیکن جب نقل مکانی کے اس تازہ غم پر بھی کسی کومذہبی تعصب کا سامنا کرنا پڑے تو اس مسافر ذہن کے دل و دماغ پر کیا نقوش ابھرتے ہیں، ادریس نے اپنے اس مضمون میں اس دماغی کیفیت کی خوب ترجمانی کی ہے۔
سن 2012 میں جب ادریس بطور طالب علم جے پور آئے، انھیں کسی نے کرایہ پر مکان نہ دیا، ایک مکان مالک کو شبہ ہو گیا اور اس نے ادریس کی بھولی شکل سے دھوکہ کھا کر یہ سمجھتے ہوئے اپنے پی جی میں رہنے کی اجازت دے دی کہ وہ مسلمان نہیں لیکن دو ماہ بعد جب اسے پتہ چلا کہ یہ ادریس ہے تو اس نے پولیس کی مدد سے ادریس کو اپنے پی جی سے باہر کیا اور مجبوراً ادریس کو کہیں دوسری جگہ ٹھہرنا پڑا۔ اس مکان مالک نے صاف کہا: وہ ادریس کے معصوم چہرے سے دھوکہ کھا گیا تھا کیوں کہ اسے ادریس شکل سے مسلمان کی طرح نظر نہیں آ رہا تھا۔
ادریس کا ماننا ہے کہ 2012 سے 2018 ہو گیا لیکن تعصب کی دبیز چادر آج بھی جوں کی توں تنی ہے، اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اس بار ادریس نے ایک ہتھکنڈہ اپنایا کہ اپنا پورا نام بتانے کی بجائے صرف نام کا پہلا جز بتاتے جس سے بارہا فائنل شناخت نہیں ہو پاتی لیکن جیسے ہی پورا بتایا جاتا اور یہ ظاہر ہوتا کہ ادریس مسلمان ہیں، ان کے مطابق : دوسری جانب سے واضح جواب ہوتا : مسلمان کے لیے کوئی رہائش نہیں۔
ادریس لکھتے ہیں:جب مجھے میری پسند کے مکان نہیں ملتے اور میں مسلمان ہونے کا جرم پوچھتا تو بہانہ بازی کی پہلی دلیل ہوتی: وہ ایسے لوگوں کو کرایہ دار نہیں بنانا چاہتے جو نان ویج کھاتے ہیں لیکن یہ صرف ایک بہانہ تھا، اسے رد کرنے کے لیے میں نے ان سے کہا کہ میں مکمل طور پر شاکاہاری ہوں اور کچھ بھی کھانا بنانا نہیں جانتا ، میں کھانا پکانا نہیں چاہتا، مجھے صرف رہنے کی جگہ چاہیے، میں باہر کھایا کروں گا ۔
لیکن اس معقول جواب پر بھی مکان نہیں ملتے اور گاہے گاہے تو جب مکان مالکان کو کوئی معقول بہانہ نہیں مل پاتا تو موجودہ شرح سے کئی گنا زیادہ کرایہ مانگتے تاکہ ایسے کرایہ دار کہیں دوسرا ٹھکانہ تلاش کرنے پر مجبور ہوں۔
ادریس لکھتے ہیں: کبھی کبھی ایسا لگتا تھا جیسے مکان مالکان کرایہ دار نہیں، داماد تلاش کر رہے ہیں جس میں ان کے موہوم معیار کے مطابق کڑی شرطیں ہوں۔ ادریس کی ملاقات ایک ایسے مکان مالک سے ہوئی جو کایستھ تھا، جب ادریس نے اسے اپنی صلاحیتوں اور سرکاری ملازمت کے بارے میں بتایا وہ بہت خوش ہوا لیکن جیسے ہی اس نے نام سنا، تمام خوشیاں کافور ہو گئیں۔
ادریس اپنا ایک تجربہ بیان کرتے ہیں جب 2013 میں حیدر آباد میں بم دھماکہ ہوا، ادریس نے فیس بک پر خبر پڑھی اور پڑھتے ہی اپنی مکان مالکن سے ٹی وی پر خبر دیکھنے کے لیے کہا۔ چند دنوں بعد مکان مالک سمیت دیگر کچھ رشتہ داروں نے ادریس کی یہ سوچ کر خفیہ جانچ شروع کر دی کہ اسے بم دھماکہ کی اتنی جلدی اطلاع کیسے ہوئی۔
ادریس کے تجربات کے مطابق عام طور پر مکان مالکان ایسے کرادیے دار چاہتے ہیں جو صبح کام پر چلے جائیں اور شام کو لوٹ آئیں ۔ اسی طرح اگر تعلیم یافتہ، مہذب یا مہذب نظر آنے والے کرایے دار مل جائیں، اچھا سمجھاجاتا ہے۔ ادریس کے مطابق: میں ان خوبیوں میں سے چند خوبیوں کا حامل تھا لیکن جیسے ہی میرا نام سنا جاتا، پورا تصور بدل جاتا۔ ادریس نے ایک بار ایک ایسے مکان مالک سے ملاقات کی، جس نے دعوی کیا کہ وہ ایک غیر سرکاری تنظیم میں کام کر رہا ہےاور تعلیم کے شعبے میں طویل تجربہ رکھتا ہے۔ وہ سب گھر والے کرایہ پر تیار تھے، بات مکمل ہو چکی تھی لیکن 10 منٹ کے بعد جب انھوں نے آخر میں نام پوچھا تو ان کا لبرل ازم ختم ہوگیا اور ان کے چہرے سے محسوس کیا جا سکتا تھا کہ یہ طے شدہ معاملہ صرف اس لیے کینسل ہو رہا ہے کہ کرایہ دار مسلمان ہے۔
ان تجربات کی روشنی میں ادریس کا ماننا ہے کہ مسلمانوں پر فرقہ واریت ، نسل پرستی اور مظالم تھونپے گئے ہیں۔ ملک بھر میں مسلمانوں کو گندے علاقوں میں رہنے کا الزام دیا جاتا ہے اور اسی طرح ان پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ دوسری ثقافتوں کے ساتھ مل جل کر نہیں رہتے بلکہ الگ رہنا پسند کرتے ہیں لیکن اصل حقیقت یہ ہے کہ انہیں ایسے علاقوں میں رہنے کے لیے مجبور کیا جا تا ہے اور اگر وہ ان گندے علاقوں سے باہر نکلنے کی کوشش کریں تب بھی انھیں خوش آمدید نہیں کہا جاتا۔
اختتامی نوٹ کے طور پرادریس اس بات کی تکرار کرتے ہیں کہ مسلم معاشرے کو ہر سطح پر الگ کیا جاتا ہے چاہے وہ ذات پات کے نام پر ہو، یا درجہ بندی کے نام پر، مذہب کے نام پر ہو، یا پیشے کے نام پر، صنف کے نام پر ہو، یا رنگ کے نام پر۔ اور امیدکرتے ہیں کہ ان کی تحریر سے آنے والی نسلوں کو یہ احساس ہوگا کہ ان کے پرکھوں کو کس طرح کی بد ترین نسل پرستیوں کا سامنا کرنا پڑا۔دریں اثنا انھیں ایک رہائشی مکان حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ معاشرے کو سمجھنے کے لیے حوصلہ افزائی کی بھی ضرورت ہے۔
ایڈووکیٹ ادریس کے ان تجربات اور احساسات سے اتفاق بھی کیا جا سکتا ہے اور اختلاف بھی لیکن ہندوستان کے موجودہ حالات کے تناظر میں اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے علاوہ اب ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں بچا کہ ہندو مسلم منافرت کی یہ زہریلی ہوا ہر گھر میں داخل ہو چکی ہے اور اب اس ملک میں نہ کوئی ایک جے پور ہے اور نہ کوئی ایک ادریس بلکہ ہر شہر جے پور ہے اور ہر مسلمان ادریس۔ اور اس ناحیہ سے یہ ہندی سماج کا وہ نازک پہلو ہے، جس پر مسلم معاشرے کو توجہ مرکوز کرنا از حد ضروری ہے۔
یہ نزاکت تب اور بڑھ جاتی ہے جب سروے یہ بتاتے ہیں کہ کسی بھی اچھے شہر میں آ کر بسنے کا رواج بڑی تیزی کے ساتھ پروان چڑھ رہا ہے اور اسی کے ساتھ بد قسمتی سے مسلمانوں کے تئیں شہروں میں مذہبی تعصب بھی بڑھتا جا رہا ہے اوریہ صورت حال دن بہ دن سنگین ہوتی جا رہی ہے۔
اس تعصب کا مسلمانوں کو تعلیم،تہذیب اورتجارت وغیرہ بہت سے اہم میدانوں میں نقصان ہوتا ہے۔ مسلم کرایہ دار اچھی رہائش نہ مل پانے کی بنیاد پر ذہنی دباؤ محسوس کرتے ہیں اور اسی الجھن کی وجہ سے بارہا نئے شہروں میں تعلیمی یا تجارتی سطح پر وہ کام یابی حاصل نہیں کر پاتے جو ان کا خواب ہوتی ہے۔ جبکہ کئی بار تعصب والی جگہوں پر رہائش مل جانے کی وجہ سے دین و دیانت سے دور ہوتے چلے جاتے ہیں بلکہ کئی مثالیں ایسی ملتی ہیں کہ غیروں کے درمیان رہائش کی بنیاد پر مذہب بھی داؤں پر لگا بیٹھتے ہیں۔ در اصل انسان کی زندگی میں اس کی رہائش اور رہائشی علاقے کی اتنی ہی اہمیت ہے جتنی کھان پان کی ہے کیوں کہ نسب اور خاندان سے اتنا نہیں سیکھا جا سکتا جتنا ماحول اور معاشرے سے سیکھا جا سکتا ہے۔ اسی لیے اچھی صحبت کو ضروری قرار دیا گیا ہے۔
اچھے اور مناسب رہائشی مکانات نہ مل پانے کی بنیاد پر بارہا طلبہ اپنا خاصا تعلیمی نقصان کر چکے ہوتے ہیں۔ بڑے شہروں میں اس کی بہت مثالیں ملتی ہیں۔ اس لیے ضروری ہو جاتا ہے کہ اس اہم مگر خاموش کام کی طرف بھی خاطر خواہ توجہ مبذول کی جائے ، جس کے طریقے یہ ہو سکتے ہیں:
(الف) ہر بڑے شہر میں مسلم ہاسٹلز، مسافر خانے یا کم سے کم کرائے کے مکانات دست یاب ہوں تاکہ دوسری جگہوں سے آنے والے مسلمانوں کو در بدر کی ٹھوکریں نہ کھانی پڑے۔ یہ ذمہ داری شہر کے معزز ، سرمایہ دار اور ذمہ دار حضرات اٹھائیں۔ اسی طرح علما کو بھی اس طرف پیش رفت کرنی چاہیے۔ مسلم تنظیمیں بھی انکم کی نیت سے یہ کام کر سکتی ہیں۔
(ب) مسلم سرمایہ دار حضرات تجارت کی نیت سے بالخصوص اچھے اور صاف ستھرے علاقوں میں اپنے فلیٹ بنائیں تاکہ تعلیم یافتہ اور نوکری پیشہ مسلمانوں کو مناسب ٹھکانے مل سکیں۔
(ج) ہاسٹل اور اسکولوں سے جڑے ہوئے افراد جہاں سستے علاقوں میں یہ سہولیات فراہم کریں، وہیں پاش علاقوں میں بھی اپنا کام پھیلائیں تاکہ جہاں ان کا دائرہ وسیع ہو، وہیں ہمارے ضرورت مند افراد کی ضرورتیں بھی پوری ہوں۔
(د) اسی طرح مسلمانوں کو یہ بھی چاہیے کہ ایک ملک کے باشندوں کے درمیان دشمنی کی جو دیوار اتنی وسیع ہو چکی ہے، اپنی حکمت عملی سے اسے ڈھانے کی مسلسل کوششیں کرتے رہیں تاکہ ہماری آئندہ نسلوں کو اس نا کردنی کا خمیازہ نہ بھگتنا پڑے۔
(ھ) مسلمانوں کی ایک اجتماعی ذمہ داری یہ بھی ہے کہ وہ صفائی ستھرائی، لڑائی جھگڑوں اور دیگر ترقیاتی کاموں کے تعلق سے اپنی اور اپنے علاقوں کی امیج شفاف بنانے کی فکر کریں اور اپنے اوپر چسپاں ہو چکے ان خواہی نخواہی الزامات کو دور کرنے کی مقبول مساعی کریں۔
(و) بہت ممکن ہے مسلم ہاسٹلز ہونے کی صورت میں جہاں ہم دوسروں کے دست نگر نہ رہیں، دوسرے ہماری پناہ گاہوں میں مکین ہوں اور نتیجتاً ہماری تہذیب و تمدن سے متاثر ہو کر ہمارے مذہب کے اسیر بھی۔ یعنی کہا جا سکتا ہے کہ یہ تجارتی پہلو بجائے خود تبلیغ دین کا ذریعہ بن سکتا ہے یا کم سے کم اسلام کے تئیں نادانوں کی بد گمانیاں دور کرنے کا سبب ہو سکتا ہے۔
در اصل مسلمانوں کی بڑی غلطی یہ رہی ہے کہ وہ غیروں کے ساتھ داعیانہ تعلقات استوار کرنے میں نا کام رہے ہیں جس کی وجہ سے دونوں طبقات کے درمیان باہمی نفرتوں کی خلیج بڑھتی رہی اور آج ان نفرتوں نے تعصب کی شکل اختیار کر لی ہے جبکہ ازیں قبل جب تک ہمارا مزاج داعیانہ تھا، اغیار ہم سے مانوس بھی تھے اور اسلام سے قریب بھی۔
تحریر:- خالد ایوب مصباحی شیرانی
No comments:
Post a Comment