Wednesday, July 24, 2019

وہ کاغذ کے ٹکڑوں پہ چور اور سپاہی

بہــت یاد آتا ہــــے گـــــــــزرا زمانہ۔
وہ گاؤں کی گلیوں میں پِیپَل پرانا

وہ باغوں میں پیــڑوں پہ ٹائر کے جھولے
وہ بارش کی بوندوں میں چھت پر نہانا

وہ اِملی کے پیـــڑوں پہ پتھر چلانا
جو پتھر کسی کو لگے بھـــاگ جانا

چھپا کر کے سب کی نظر سے ہمیشہ
وہ ماں کے دوپٹــــے سے سکے چرانا

وہ سائیکل کے پہئے کی گاڑی بــنـانا
بڑے فخــر سے دوسروں کو سکھانا

وہ ماں کی محبت وہ والد کی شفقت
وہ ماتھــــے پہ کاجل کا ٹیـــــکا لگانا

وہ کاغـــذ کی چـــــڑیا بنا کـــر اڑانا
وہ پڑھنے کے ڈر سے کتابیں چھپانا

وہ نرکل کی قلموں سے تختی پہ لکھنا
وہ گھر سے ســـــــبق یاد کرکے نہ جانا

وہ گرمی کی چھٹی مزے سے بِتــانا
وہ نانی کا قصّہ کہــــــــانی ســــنانا

وہ گاؤں کے میلے میں گــــڑ کی جلیبی
وہ سرکس میں خوش ہوکے تالی بجانا

وہ انگلی چھــــــــــپا کر پہیلی بجھـــانا
وہ پیچھے سے ”ہو“ کر کے سب کو ڈرانا

وہ کاغذ کے ٹکڑوں پہ چور اور سپاہی
وہ شادی میں اڑتا ہوا شـــــــــــامیانہ

مگر یادِ بچپـــــــن کہیں ســـــو گئی ہے
کہ خوابوں کی جیسے سحر ہو گئی ہے

یہ نفرت کی آندھی عداوت کے شعلے
یہ سیاست دلوں میں زہر بو گئی ہے

زباں بند رکھنے کا آیا زمانہ
لبوں پہ نہ آئے امن کا ترانہ

کہ جب مل کے رہتے تھے سب ہی مسلماں
نہیں آئـــــــــــے گا اب وہ موسـم سہـــانا

No comments:

Post a Comment

Featured Post

*زحمت، رحمت اور فطرت* حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی جس کی بھلائی چاہتا ہے اس...