غیر نتیجہ خیز جلسے
پچھلے سو سال میں ہم نے عوام کی جس نہج پر تربیت کی ہے یہ اس کا نتیجہ ہے کہ ان کا ذہن کسی علمی و سنجیدہ گفتگو سننے کا متحمل نہیں ہوسکا۔ ان کو وہی خطبا اور شعرا چاہیے جو ان کے جاہلانہ و سوقیانہ مزاج کو تفریحی غذا فراہم کر سکے۔ اس کے مکمل ذمہ دار ہمارے یہ علما و قائدین ہیں جو اس طرح کے جلسوں کے ٹھیکیدار بنے بیٹھے ہیں۔ مسلک کے سلگتے ہوئے مسائل، حالات حاضرہ پر بولنے کے لیے کسی کی زبان نہیں کھلتی اور کسی شخصیت کے خلاف بولنے میں گلے کا خون خشک ہوجاتا ہے، رگیں پھول جاتی ہیں۔
ڈاکٹر اقبال لاہوری نے کہا تھا :
”جب کسی قوم پر زوال آتا ہے ،تو وہ قوم جوشیلی تقریروں اور جذباتی نعروں کی خوگر ہوجاتی ہے“۔
ہمارا آج یہی حال ہوچکا ہے۔ بےعمل اور بےعلم مقرروں کو بلاکر ہم مذہبی انتہا پسندی کو فروغ دے رہے ہیں۔ آج ہمارے عوام باعمل عالم دین اور صحیح معنوں میں دانشوروں اور مفکروں کی صورتوں کو دیکھنے کے لیے ترس رہے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ مدرسوں سے وابستہ باعمل عالم اور خطبا کو بلانے کی کوشش کریں، قوم کو بےوقوف بنانے اور اپنی برتری کا نعرہ لگوانے کا عمل ترک کردیں۔
{مقالہ: نیپال اور نیپالی مسلمانوں کودرپیش چیلنجیزاسبا ب اور حل}
از:مفتی محمد رضاقادری مصباحی ― استاذ: جامعہ اشرفیہ، مبارک
No comments:
Post a Comment