*اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِالْمُرْسَلِیْن*
*اَمَّا بَعْدُ! فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم*
*بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم*
*غفلت Ghaflat*
دُرُودشریف کی فضیلت
سرکارِمدینہ،راحتِ قلب وسینہ،صاحِبِ معطَّرپسینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ عافیّت نشان ہےاے لوگو! بے شک بروزِ قیامت اسکی دہشتوں اورحساب کتاب سے جلد نَجات پانے والا شخص وہ ہوگا جس نے تم میں سے مجھ پر دنیا کے اندر بکثرت دُرود شریف پڑھے ہوں گے ۔
[فِردَوسُ الاخبار، ج5ص378،حدیث8210]
*سونے کی اینٹ*
منقول ہے ایک نیک شخص کو کہیں سے سونے کی اینٹ ہاتھ لگ گئی۔وہ دولت کی مَحَبَّت میں مَسْت ہوکر رات بھر طرح طرح کے منصوبے باندھتا رہا کہ اب تو میں بَہُت اچّھے اچّھے کھانے کھاؤں گا،بہترین لباس سِلواؤں گا اور بَہُت سارے خُدّام اپناؤں گا۔اَلْغَرَض مالدار بن جانے کے سبب وہ راحتوں اور آسائشوں کے تصوُّرات میں گم ہوکر اُس رات ربِّ اکبر عَزَّوَجَلَّ سے یکسر غافِل ہوگیا۔صُبح اِسی دَھن کی دُھن میں مگن مکان سے نکلا،اِتِّفاقاً قبرِستان کے قریب سے اُس کا گزر ہوا،کیا دیکھتا ہے کہ ایک شخص اِینٹیں بنانے کے لیے ایک قَبْر پرمِٹّی گوندھ رہا ہے،یہ منظر دیکھ کر یک دم اُس کی آنکھوں سیغَفلت کا پردہ ہٹ گیا اور اِس تصوُّر سے اُس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے کہ شاید مرنے کے بعد میری قبرکی مٹِّی سےبھی لوگ اینٹیں بنائیں گے،آہ! میرے عالیشان مکانات اورعُمدہ مَلبوسات وغیرہ دھرے کے دھرے رَہ جائیں گے لہٰذا سونے کی اینٹ سے دل لگانا تو زندگی کوسراسر غفلت میں گنوانا ہے،ہاں اگر دل لگانا ہی ہے تو مجھے اپنے پیارے پیارے اللہ عَزَّوَجَلَّ سے لگانا چاہئے۔چُنانچِہ اُس نے سونے کی اینٹ ترک کی اور زُہد وقَناعت اختیار کی۔
*غفلت کے اَسباب* واقِعی دُنیا کی کثرت کی صُورت میں ملنے والی نعمت میں سراسر غفلت کا اندیشہ ہے،جو دُنیوی نعمت سے دل لگاتاہے وہ غفلت کا شِکار ہو کر رَہ جاتا ہے،غفلت پھر غفلت ہے، غفلت بندے کو ربُّ العزّت عَزَّوَجَلَّ سے دُور کردیتی ہے۔اچّھی تجارت بھی نعمت ہے، دولت بھی نعمت ہے،عالیشان مکان بھی نعمت ہے ،عُمدہ سُواری بھی نعمت ہے،ماں باپ کے لیے اولاد بھی نعمت ہے کسی بھی دُنیوی نعمت میں ضَرورت سے زِیادہ مشغولیّت باعِثِ غفلت ہے۔چُنانچِہ پارہ 28 سُوْرَۃُ الْمُنٰفِقُوْن کی آیت 9میں ارشاد ہوتا ہے *یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُلْهِكُمْ اَمْوَالُكُمْ وَ لَاۤ اَوْلَادُكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِۚ-وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَo
(ترجَمۂ کنزالایمان) اے ایمان والو! تمہارے مال نہ تمہاری اولاد کوئی چیز تمہیں اللہ (عَزَّوَجَلَّ) کے ذِکر سے غافِل نہ کرے اور جو ایسا کرے تو وُہی لوگ نقصان میں ہیں۔
اِس آیتِ مُقدَّسہ سے ان لوگوں کو درسِ عبرت حاصِل کرنا چاہئے کہ جن کو نیکی کی دعوت پیش کی جاتی ہے اورنَماز کے لیے بُلایا جاتا ہے توکہہ دیا کرتے ہیں جناب! ہم تو اپنے رِزْق کی فِکر میں لگے رہتے ہیں،روزی کمانا اور بال بچّوں کی خدمت کرنا بھی تو عبادت ہے ہمیں جب اِس سے فُرصت ملے گی تو آپ کے ساتھ مسجِدمیں بھی چلیں گے۔یقینا ایسی باتیں غفلت ہی کرواتی ہے۔
*مُردے کی چیخ وپکار بے کار ہے* صِرْف اور صِرْف دنیا کے دَھن کی فِراوانی کی دُھن میں مگن رہنے والوں،حُصولِ مال کی خاطِر دنیا کے مختلِف مَمالِک میں بھٹکتے پھرنے والو ں مگر مسجِد کی حاضِر ی سے کترانے والوں،اپنے مکانات کے ڈیکوریشن پر پانی کی طرح پیسہ بہانے والوں مگر راہِ خدا عَزَّوَجَلَّ میں خَرچ کرنے سے جی چُرانے والوں،دولت میں اِضافے کے لیے مختلف گُر اپنا نے والوں مگر نیکیوں میں بَرَکت کے مُعامَلے میں بے نیاز رہنے والوں کو خوابِ غفلت سے بیدار ہوکر جھٹ پٹ توبہ کر لینی چاہئے کہیں ایساا نہ ہو کہ موت اچانک آکر روشنیوں سے جگمگاتے کمرے میں فوم کے آرام دِہ گدّے سے مُزَیَّن خوبصورت پلنگ سے اُٹھا کر کیڑے مکوڑوں سے اُبھرتی ہوئی خوفناک اندھیری قبر میں سُلادے اور وہ چِلّاتے رَہ جائیں کہ یااللہ عَزَّوَجَلَّ! مجھے دوبارہ دنیا میں بھیج دے تاکہ وہاں جا کر میں تیری عبادت کروں۔مولیٰ (عَزَّوَجَلَّ) !دوبارہ دنیا میں پہنچا دے میں وعدہ کرتا ہوں اپنا سارا مال تیری راہ میں لُٹادوں گا۔۔۔۔۔۔۔۔پانچوں نَمازیں مسجِد کے اندر پہلی صَف میں تکبیرِ اُولیٰ کے ساتھ باجماعت ادا کروں گا،تہجُّد بھی کبھی نہیں چھوڑوں گا بلکہ مسجِد ہی میں پڑا رہوں گا....... داڑھی تو داڑھی زُلفیں بھی بڑھالوں گا .....سر پر ہر وقت عِمامہ شریف کا تاج سجائے رہوں گا ....... یااللہ عَزَّوَجَلَّ! مجھے واپَس بھیج دے ....... ایک بار پھر مُہْلَت دے دے دنیا سے فیشن کا خاتِمہ کرکے ہر طرف سنّتوں کا پرچم لہرا دوں گا ....... پَروَرْدَگار عَزَّوَجَلَّ! صِرْف اورصِرْف ایک بارمُہْلَت عطا فرمادے تاکہ میں خوب نیکیاں کرلوں ....... رات دن گناہوں میں مشغول رہنے والے غفلت شِعاروں کی موت کے بعد چیخ وپکاریقینا لاحاصِل رہے گی۔ قراٰنِ پاک پہلے ہی سے مُتَنَبِّہ(یعنی خبردار) کرچکا ہے چُنانچِہ پارہ 28سُوْرَۃُ الْمُنٰفِقُوْن کی آیت 10 اور 11میں ارشاد ہوتا ہے
*وَاَنْفِقُوْا مِنْ مَّا رَزَقْنٰكُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ فَیَقُوْلَ رَبِّ لَوْلَاۤ اَخَّرْتَنِیْۤ اِلٰۤى اَجَلٍ قَرِیْبٍۙ-فَاَصَّدَّقَ وَاَكُنْ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ*
*وَلَنْ یُّؤَخِّرَ اللّٰهُ نَفْسًا اِذَا جَآءَ اَجَلُهَاؕ-وَاللّٰهُ خَبِیْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ۠o*
(ترجَمۂ کنزالایمان) اورہمارے دیئے میں سے کچھ ہماری راہ میں خرچ کرو قبل اس کے کہ تم میں کسی کو موت آئے پھر کہنے لگے،اے میرے رب! تُونے مجھے تھوڑی مدّت تک کیوں مُہْلَت نہ دی کہ میں صَدَقہ دیتا اور نیکوں میں ہوتا،اور ہرگز اللہ (عَزَّوَجَلَّ) کسی جان کو مُہْلَت نہ دے گا جب اُسکا وعدہ آجائے اور اللہ (عَزَّوَجَلَّ) کو تمہارے کاموں کی خبر ہے۔
دِلا غافِل نہ ہو یک دَم یہ دنیا چھو ڑ جانا ہے بَغیچے چھوڑ کر خالی زمیں اندر سمانا ہے
تِرا نازُ ک بدن بھائی جو لیٹے سَیج پھولوں پر یہ ہوگا ایک دن بے جاں اِسے کِرموں نے کھانا ہے
تُو اپنی موت کو مت بھول کر سامان چلنے کا زمیں کی خاک پر سونا ہے اِینٹوں کا سِرہانا ہے
نہ بَیلی ہو سکے بھائی نہ بیٹا باپ تے مائی تُوکیوں پھرتا ہے سَودائی عمل نے کام آناہے
کہاں ہے زَورِ نَمرودی ! کہاں ہے تختِ فِرعونی !
گئے سب چھوڑ یہ فانی اگر نادان دانا ہے
عزیزا! یاد کر جس دن کہ عِزرائیل آویں گے
نہ جاوے کوئی تیرے سَنگ اکیلا تُونے جانا ہے
جہاں کے شَغل میں شاغِل خداکے ذِکْر سے غافِل کرے دعوٰی کہ یہ دنیا مِرا دائم ٹِھکانہ
غُلامؔ اِک دَم نہ کر غفلت حیاتی پر نہ ہو غَرَّہ
خدا کی یاد کر ہر دم کہ جس نے کام آنا ہے
*انوکھی ندامت* مُکاشَفۃُ الْقُلُوب میں ہے حضرتِ سیِّدُنا شیخ ابوعلی دَقّاق عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الرَّزَّاق فرماتے ہیں ایک بَہُت بڑے ولیُّ اللہ رَحْمَۃُ اللہِ تعالٰی علیہ سخت بیمار تھے،میں عِیادت کے لیے حاضِر ہوا،اِردگرد مُعتَقِدین کا ہُجُوم تھا،وہ بُزُرگ رَحْمَۃُ اللہِ تعالٰی علیہ رو رہے تھے۔میں نے عرض کی اے شیخ! کیا دنیا چُھوٹنے پر رو رہے ہیں؟ فرمایا نہیں، بلکہ نَمازیں قضا ہونے پر رَو رہا ہوں۔میں نے عرض کی حُضُور! آپ کی نمازیں کیونکر قضا ہوگئیں ؟ فرمایا میں نے جب بھی سَجدہ کیا تو غفلت کے ساتھ اور جب سَجدہ سے سر اٹھایا تو غفلت کے ساتھ اور اب غفلت ہی میں موت سے ہم آغوش ہورہا ہوں،پھر ایک آہِ سَرد دلِ پُردرد سے کھینچ کر چارعَرَبی اَشعار پڑھے جن کا ترجَمہ یہ ہے.
(1) میں نے اپنے حَشر،قِیامت کے دن اورقبر میں اپنے رُخسار کے پڑا ہونے کے بارے میں غور کیا.
(2) اِتنی عزّت و رِفعت کے بعد میں اکیلا پڑا ہوں گا اور اپنے جُرم کی بِناء پر رَہن (یعنی گِروی)ہوں گا اورخا ک ہی میرا تکیہ ہوگی
(3) میں نے اپنے حساب کی طَوالت اور نامۂ اعمال دیئے جانے کے وَقْت کی رُسوائی کے بارے میں بھی سوچا
(4) مگر اے مجھے پیدا کرنے والے اور مجھے پالنے والے! مجھے تجھ سے رَحمت کی اُمّید ہے ،تُو ہی میری خطاؤں کو بخشنے والا ہے۔
[مُکاشَفۃُ الْقُلوب ص22]
*روتا ہوا داخِلِ جہنَّم ہوگا*
اِس حِکایت میں کس قَدَر عبرت ہے۔ذرا ان اللہ والوں کو دیکھئے جن کا ہر لمحہ یادِ الٰہی عَزَّوَجَل میں بسر ہوتا ہے مگر پھر بھی انکِساری کاعالَم یہ ہے کہ اپنی عبادات و رِیاضات کو کسی خاطِر میں نہیں لاتے اور اللہ عَزَّوَجَل کی بے نیازی اور اُس کی خفیہ تدبیر سے ڈرتے ہوئے گِریہ وزاری کرتے ہیں۔اُن غفلت کے ماروں پر صَدکروڑ افسوس کہ نیکی کے نُون کا نُکتہ تک جن کے پلّے نہیں،اِخلاص کا دُور دُور تک نام و نشان نہیں مگر حال یہ ہے کہ اپنی عبادَتوں کے بُلند بانگ دعو ے کرتے نہیں تھکتے! اللہ عَزَّوَجَل کے نیک بندے گنا ہوں سے محفوظ ہونے کے باوُجُود خوفِ الٰہی عَزَّوَجَل سے تھر تھراتے کپکپاتے اور ٹَپ ٹَپ آنسو گراتے ہیں،مگر غفلت شِعار بندوں کا حال یہ ہے کہ بے دھڑک معصیَت کا سلسلہ چلاتے،اپنے گناہوں کا عام اعلان سُناتے اور پھر اس پر زور زور سے قَہقَہے لگاتے ذرا نہیں لجاتے،کان کھول کر سنئے ! حضرتِ سیِّدُنا ابن عبّاس رضی اللہ تعالٰی عنہما فرماتے ہیں جو ہنس ہنس کر گناہ کرے گا وہ روتا ہوا جہنّم میں داخِل ہوگا۔
[مُکاشَفۃُ الْقُلوب ص275]
*اگر ایمان برباد ہو گیا تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*
ہنس ہنس کرجھوٹ بولنے والوں،ہنس ہنس کر وعدہ خِلافی کرنے والو ں،ہنس ہنس کر ملاوٹ والا مال بیچنے والوں،ہنس ہنس کر فلمیں ڈِرامے دیکھنے والوں اور گانے باجے سننے والوں،ہنس ہنس کر مسلمانوں کو ستانے اور بِلااِجازتِ شَرعی اُن کی دل آزاریاں کرنے والوں کیلئے لمحۂ فکریہ ہے، اگر اللہ عَزَّوَجَلَّ ناراض ہوگیا اور اُس کے پیارے مَحبوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم روٹھ گئے اور غفلت کے سبب دِیدہ دلِیری کے ساتھ ہنس ہنس کر گناہوں کا اِرتِکاب کرنے کے باعث ایمان برباد ہوگیا اور جہنَّم مقدَّر بن گیا تو کیا بنے گا! ذرا دل کے کانوں سے خُدا ئے رَحمٰن عَزَّوَجَلَّ کا فرمانِ عبرت نشان سنئے!چُنانچِہ پارہ 10 سُوْرَۃُ التَّوْبَۃکی آیت82 میں ارشاد ہوتا ہے.
*فَلْیَضْحَكُوْا قَلِیْلًا وَّ لْیَبْكُوْا كَثِیْرًاۚ-*
(ترجَمۂ کنزالایمان) تو انہیں چاہیے کہ تھوڑا ہنسیں اور بَہُت روئیں۔
*موت کے تین قاصد*
مَنقول ہےحضرتِ سیِّدُنا یعقوب عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام اور حضرتِ سیِّدُنا عزرائیل مَلَکُ الْموت عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلاممیں دوستی تھی۔ایک بارجب حضرتِ سیِّدُنا مَلَکُ الْموت عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام آئے تو حضرت سیِّدُنا یعقوب عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام نے اِسْتِفسار فرمایا کہ آپ ملاقات کے لیے تشریف لائے ہیں یا میری رُوح قبض کرنے کے لیے؟ کہا ملاقات کے لیے۔فرمایا مجھے وفات دینے سے قبل میرے پاس اپنے قاصد بھیج دینا۔مَلَکُ الْموت عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام نے کہا میں آپ کی طرف دو یا تین قاصد بھیج دوں گا۔چُنانچِہ جب رُوح قَبض کرنے کے لیے مَلَکُ الْموت عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام آئے تو آپ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام نے ارشاد فرمایا آپ نے میری وفات سے قبل قاصِد بھیجنے تھے وہ کیا ہوئے؟ حضرتِ سیِّدُنا مَلَکُ الْموت عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام نے کہا سیاہ یعنی کالے بالوں کے بعد سفید بال، جِسمانی طاقت کے بعد کمزوری اور سیدھی کمر کے بعد کمر
کا جُھکاؤ،اے یعقوب (عَلَیْہِ السَّلام) !موت سے پہلے انسان کی طرف میرے قاصد ہی تو ہیں۔ [مُکاشَفۃُ الْقُلوب،ص21]
ایک عَرَبی شاعر کے ان دو اشعار میں کس قَدَر عبرت ہے ؎
مَضَی الدَّھْرُ وَالْأَیَّامُ وَالذَّنْبُ حَاصِلٌ وَجَاءَ رَسُوْلُ الْمَوْتِ وَالْقَلْبُ غَافِلٌ
(ترجَمۂ اشعار) وقت اور دن گزر گئے مگر گناہ باقی ہیں، موت کا فِرِشتہ آپہنچا اور دل غافِل ہیں.
نَعِیْمُکَ فِی الدُّنْیَا غُرُوْرٌ وَّحَسْرَۃٌ وَعَیْشُکَ فِی الدُّنْیَا مُحَالٌ وَّبَاطِلٌ
(ترجَمۂ اَشعار) تجھے دنیا میں ملنے والی نعمتیں دھو کا اور تیرے لیے باعثِ حسرت ہیں اور دنیا میں دائمی یعنی ہمیشہ باقی رہنے والی راحتیں پانے کا تصوُّرتیری خام خیالی(یعنی غلط فہمی) ہے۔
[ایضاً ص22]
*بیماری بھی موت کا قاصِد ہے*
معلوم ہوا کہ موت کے آنے سے پہلے مَلَکُ الْموت عَلَيْهِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام اپنے قاصد بھیجتے ہیں۔بیان کردہ تین قاصِدِین کے علاوہ بھی احادیثِ مبارکہ میں مزید قاصد ین کا تذکِرہ ملتا ہے۔چُنانچِہ مَرَض ، کانوں اور آنکھوں کا تَغَیُّر (یعنی پہلے نظر اچّھی ہونا پھر کمزور پڑجانا اور سننے کی طاقت کی دُرُستی کے بعد بہرا پن کی آمد ) بھی موت کے قاصد ہیں۔ہم میں سے بَہُت سے لوگ ایسے ہوں گے جن کے پاس مَلکُ الْموت عَلَيْهِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کے قاصِد تشریف لاچکے ہوں گے مگر کیا کہیے اِس غفلت کا! اگر سیاہ بالوں کے بعد سفید بال ہونے لگتے ہیں حالانکہ یہ موت کا قاصد ہے مگر بندہ اپنے دل کو ڈھارس دینے کے لیے کہتا ہے کہ یہ تو نَزلے سے بال سفید ہوگئے ہیں! اِسی طرح بیماری جو کہ موت کانُمایاں قاصِدہے مگر اس میں بھی سراسر غفلت برتی جاتی ہے حالانکہ بیماری ہی کے سبب روزانہ بے شمار افراد موت کا شکار ہوتے ہیں! مریض کو تو بَہُت زیادہ موت یاد آنی چاہئے کہ کیا معلوم جو بیماری معمولی لگ رہی ہے وُہی مُہْلِک صورت اختیار کرکے آن کی آن میں فنا کے گھاٹ اُتار دے پھر اپنے روئیں دھوئیں،دشمن خوشیاں منائیں اورمرنے والا موت سے غافِل مریض مَنوں مِٹّی تلے اندھیری قبر میں جا پڑے!آہ!اب مرنے والا ہوگا اور اُس کے اچھّے بُرے اعمال ۔
*جہنّم کے دروازے پر نام*
اے آج کے جنابو اور کل کے مرحومو!یاد رکھئے! جوگناہوں پر اَڑا رہا وہ راستہ بھول گیا،غفلتوں اور بے عملیوں کی تاریکیوں میں بھٹک گیااور خدا و مصطَفٰے عَزَّوَجَلَّ و صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ناراضیوں کی صورت میں قبر و آخِرت کے عذابوں میں پھنس کر رہ گیا،اب پچھتانے اور سر پچھاڑنے سے کچھ ہاتھ نہیں آئے گا،اب بھی موقع ہے جلد تر اپنے گناہوں سے سچّی توبہ کرکے نَمازوں ، رَمضانُ المبارَک کے روزوں اور سنّتوں بھری زندگی گزارنے کا عَہد کرلیجئے۔سنئے ! سنئے! سرکارِمدینہ،راحتِ قلب وسینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے جو کوئی ایک نَماز بھی قَصدًاترک کر دے گا،اُس کا نام جہنَّم کے اُس دروازے پر لکھ دیا جائے گا جس سے وہ جہنَّم میں داخِل ہوگا۔
[حِلْیَۃُ الْاولیاء ج7،ص299،حدیث1059]
اسی طرح ایک اورحدیثِ پاک میں ارشاد ِ عبرت بنیاد ہے جو ماہ رَمَضان کا ایک روزہ بھی بِلاعُذْرِشَرْعی ومَرَض قَضا کردیتاہے تو زمانے بھر کے روزے اُسکی قَضا نہیں ہوسکتے اگرچِہ بعد میں رکھ بھی لے۔
[تِرمِذی ج2،ص175،حدیث723]
*آنکھوں میں آگ* عورتوں کو تاڑنے والوں،اَمردوں کے ساتھ بدنِگاہی کرنے والوں،فلمیں ڈِرامے دیکھنے والوں،گانے باجے اور غیبتیں سننے والوں کو چاہئے کہ جھٹ توبہ کریں ورنہ یقینا عذاب سہا نہ جائیگا،منقول ہےجو کوئی اپنی آنکھوں کو نَظَرِحرام سے پُر کرے گا قِیامت کے روز اُس کی آنکھوں میں آگ بھردی جائے گی۔
[مُکاشَفۃُ الْقُلوب ص10]
*آگ کی سَلائی* حضرتِ علّامہ اَبُو الْفَرَج عبدُ الرّحمٰن بن جَوزی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی نَقْل کرتے ہیں عورت کے مَحاسِن ( یعنی حُسن و جمال ) کو دیکھنا ابلیس کے زَہر میں بُجھے ہوئے تیروں میں سے ایک تیر ہے، جس نے نامَحرم سے آنکھ کی حفاظت نہ کی اُس کی آنکھ میں بروزِ قِیامت آگ کی سَلائی پھیری جائیگی۔
[بَحرُ الدُّمُو ع ص171]
*آنکھوں اور کانوں میں کیل*
حضرتِ سیِّدُناامام حافِظ ابوالقاسِم سُلَیمان طَبَرانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّورانی نَقْل کرتے ہیں میرے میٹھے میٹھے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ایک منظر یہ بھی دیکھا کہ کچھ لوگوں کی آنکھوں اور کانوں میں کیل ٹُھکے ہوئے ہیں۔آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں عرض کی گئی یعنی یہ وہ لوگ ہیں جو وہ دیکھتے ہیں جوا نہیں نہیں دیکھنا چاہیے اور وہ سنتے ہیں جو انہیں نہیں سننا چاہیے۔
[اَلْمُعْجَمُ الْکبِیر لِلطّبَرانی،ج8،ص156،حدیث7666]
یعنی حرام دیکھنے اور سننے والوں کی آنکھوں اور کانوں میں کیل ٹُھکے ہوئے ہیں۔خبردا ر ! شیطان کے دھوکے میں آکر ٹی وی پر خبریں بھی نہ دیکھا کریں کہ خبروں کا بے پردہ عورتوں سے پاک ہونا دشوار ہوتا ہے۔یاد رکھئے! مرد عورت کو دیکھے یا عورت مرد کوبشَہوت دیکھے یہ دونوں کام حرام ہیں اور ہر فعلِ حرام جہنَّم میں لے جانے والا کام ہے۔
(وَالْعِیاذُ بِاﷲِ تعالٰی)
*آنکھوں میں پگھلا ہوا سیسہ*
منقول ہے:’’جو شخص شَہْوت سے کسی اَجْنَبِیَّہ کے حُسن وجمال کو دیکھے گا قیامت کے دن اُسکی آنکھوں میں سِیسہ پگھلا کر ڈالاجائے گا۔‘‘
[ھِدایہ،ج2 ص368]
یقیناً بھابھی بھی اَجنَبِیّہ ہی ہے۔جو دَیْوَر وجیٹھ اپنی بھابھی کو قَصداً دیکھتے رہے ہوں،بے تکلُّف بنے رہے ہوں، مذاق مسخری کرتے رہے ہوں ،وہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے عذاب سے ڈر کر فوراً سے پیشتر سچّی توبہ کر لیں۔بھابھی اگر دَیْوَر کو چھوٹا بھائی اور جیٹھ کو بڑا بھائی کہدے اِس سے بے پردَگی اور بے تکلُّفی جائز نہیں ہوجاتی اور دَیْوَرو بھابھی بد نِگاہی،آپَسی بے تکلُّفی و ہنسی مذاق وغیرہ گناہوں کی دَلدَل میں مزید دھنستے چلےجاتے ہیں۔یاد رکھئے! جَیٹھ اوردَیوَر وبھابھی کا آپَس میں بِلاضَرورت وبے تکلُّفی سے گفتگو کرنا بھی مُسلسل خطرے کی گھنٹی بجاتا رہتا ہے ! بھلائی اِسی میں ہے کہ نہ ایک دوسرے کودیکھیں اورنہ ہی آپَس میں بِلاضَرورت اور بے تکلُّفی سے بات چیت کریں۔
دیکھنا ہے تو مدینہ دیکھئے
قَصرِ شاہی کا نظارہ کچھ نہیں
دَیْوَر وجَیٹھ اور بھابھی وغیرہ خبردار رہیں کہ حدیث شریف میں ارشاد ہوا،’’ اَلْعَیْنَانِ تَزْنِیَان‘‘یعنی آنکھیں زِنا کرتی ہیں۔
[مُسنَد اِمام احمد ج3،ص305، حدیث8852]
بَہَرحال اگر ایک گھر میں رَہتے ہوئے عورت کیلئے قریبی نامَحرم رشتہ داروں سے پردہ دشوارہو تو چہرہ کھولنے کی تو اجازت ہے مگر کپڑے ہرگز ایسے باریک نہ ہوں جن سے بدن یا سر کے بال وغیرہ چمکیں یاایسے چُست نہ ہوں کہ بدن کے اعضا جسم کی ہَیْئَت(یعنی صورت و گولائی)اور سینے کا اُبھار وغیرہ ظاہِر ہو ۔
*آتَش پرستوں جیسی صورت*
داڑھی مُنڈانا یا ایک مٹّھی سے گھٹانا دونوں کام حرام ہیں۔سیِّدُنا امام مسلِم رَحْمَۃُ اللہِ تعالٰی علیہ نَقْل کرتے ہیں ، اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے محبوب، دانائے غُیُوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے:’’مُونچھیں خوب پَست
کومُعافی دو (یعنی بڑھنے دو ) اور مَجوسیوں (یعنی آتَش پرستوں ) جیسی صورت مت بناؤ ۔‘‘
[مُسلِم ص154حدیث260]
اِس فرمانِ والا شان میں مسلمان کی غیرت کو للکار ہے، کیسی عجیب وغریب بات ہے کہ دعویٰ مَحَبَّتِ مصطَفیٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا کرے اور شکل و صورت دشمنانِ مصطَفٰے جیسی بنائے۔ ؎
سرکار کا عاشِق بھی کیا داڑھی مُنڈاتا ہے؟
کیوں عِشق کا چِہرے سے اظہار نہیں ہوتا؟
*کون کس سے پردہ کر ے؟*
پردے میں رَہ کر مجھے سننے والی اسلامی بہنو ! تم بھی سنو ! بے پردَگی حرام ہے،غَیر مردوں کوبَشَہوت دیکھنا حرام ہے اورفِعلِ حرام جہنَّم میں لے جانے والا کام ہے۔چچا زاد،تایا زاد، پھوپھی زاد ،خالہ زاد،ماموں زاد،چچی ،تائی ،مُمانی ان سب کا پردہ ہے،بھابھی اور دیور و جیٹھ کا پردہ ہے ،سالی اور بہنوئی کا پردہ ہے حتّٰی کہ نامحرم پیر اورمُریدنی کابھی پردہ ہے،مُریدَنی اپنے پِیر صاحِب کا ہاتھ نہیں چوم سکتی ، سر کے بالوں پر مرشِد سے ہاتھ نہیں پِھرواسکتی، لڑکی جب نو برس کی ہو اُس کو پردہ شروع کروائیے اور لڑکا جب بارہ برس کا ہوجائے اُسے عورَتوں سے بچائیے۔
*ناجائز فیشن کرنے والوں کا انجام*
سرکارِ مدینہ،راحَتِ قلب وسینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا (مِعراج کی رات) میں نے کچھ مَردوں کو دیکھا جن کی کھالیں آگ کی قَینچیوں سے کاٹی جارہی تھی ، میں نے کہا یہ کون ہیں ؟جبرئیلِ امین (عَلَيْهِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام) نے بتایا یہ لوگ ناجائز اَشیاء سے زِینت حاصل کرتے تھے۔اورمیں نےایک بدبودار گڑھا دیکھا جس میں شوروغَوغا برپا تھا، میں نے کہا:یہ کون ہیں ؟تو بتایا: یہ وہ عورَتیں ہیں جو ناجائز اَشیاء سے زِینت حاصل کرتی تھیں۔
[تاریخِ بغداد ج1، ص415]
یاد رکھئے!نَیل پالِش کی تہ ناخُنوں پرجَم جاتی ہے لہٰذا ایسی حالت میں وضو کرنے سے نہ وُضو ہوتا ہے نہ ہی نہانے سے غسل اُترتا ہے،جب وُضو وغسل نہ ہو تو نَماز بھی نہیں ہوتی، اسلامی بہنوں کی خدمت میں میرا مَدَنی مشورہ ہے کہ مَدَنی بُرقع اَوڑھا کریں ،نیز ایسے دستانوں اور جُرابوں کا اِہتِمام فرمائیں جن میں سے ہاتھ پاؤں کی رنگت نہ جَھلکتی ہو ،غیر مَردوں کے آگے اپنی ہتھیلیاں اور پاؤں کے پنجے بھی ہر گز ظاہِر نہ کیا کریں۔
*قَضا عُمری کرلیجئے* اگر خدانخواستہ نَماز روزے رَہ گئے ہیں تو اُن کا حِساب لگاکر قضا عُمری فرمالیجئے،اور تاخیر کی توبہ بھی کرلیجئے، نَماز کی قضا عُمری کاآسان طریقہ معلوم کرنے کے لیے دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ کتاب،’’نماز کے احکام‘‘ ہَدِیَّۃً حاصِل کر لیجئے۔اس میں وُضو، غسل ، نَماز اور قضا عُمری وغیرہ کے وہ اَہَمترین اَحکام بیان کیے گئے ہیں کہ پڑھ کر شاید آپ بول اُٹھیں،افسوس! اب تک وُضو و غسل اور نَماز کی دُرُست ادائیگی سے محرومی ہی رہی ہے !
ان شاءَاللہ عَزَّوَجَلَّ اب تمام اسلامی بھائی دل کے پکّے عزم کے ساتھ ہاتھ لہرا لہرا کر اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے فلک شگاف نعروں کے ذَرِیعے اپنے مَدَنی جذبات کا اظہار کیجئے۔نیّت کیجئے،اب میری کوئی نَماز قضا نہیں ہوگی ۔
(اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ) رَمَضانُ المبارَک کا کوئی روزہ قضا نہیں ہوگا ۔
( اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ)فلمیں ڈِرامے نہیں دیکھوں گا۔
( اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ) گانے باجے نہیں سنوں گا۔
(اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ) داڑھی نہیں مُنڈواؤں گا۔
(اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ)ایک مُٹھّی سے نہیں گھٹاؤں گا۔
( اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ)
*دعوتِ اسلامی کی مَدَنی بہار* آپ سب دعوتِ اسلامی کے مَدَنی ماحول سے وابَستہ ہوجائیے،عاشِقانِ رسول کے مَدَنی قافِلوں میں بہ نیّت ثواب سنتوں کی تربیّت کیلئے سفر اور روزانہ فکرِ مدینہ کے ذَرِیْعے مَدَ نی اِنْعامات کا رسالہ پُر کر کے ہرمَدَنی ماہ کے ابتِدائی دس دن کے اندر اندر اپنے یہاں کے ذ مّے دار کو جَمع کروانے کا معمول بنا لیجئے،اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ دونوں جہانوں میں بیڑا پار ہو گا۔آئیے! آپ کی ترغیب وتحریص کیلئے ایک مَدَنی بہار سنتے ہیں اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ آپ کا دل بھی جذباتِ تَأَثُّر سے سینے کے اندر جھوم اُٹھے گا اور اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ سینہ باغِ مدینہ بن جائے گا۔
*محمد احسان عطاری کا لاشہ*
بابُ المدینہ کراچی کے عَلاقے گُلبہار کے ایک ماڈَرن نوجوان بنام محمد اِحسان دعوتِ اسلامی کے مَدَنی ماحول سے وابَستہ ہوئے اور سگِ مدینہ عُفِیَ عَنْہُ کے ذَرِیعے سرکارِ بغدادحُضورِ غوثِ پاک رضی اللہ تعالٰی عنہ کے مُرید بن گئے۔ سرکارِ غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کے مُرید تو کیا ہوئے ان کی زندَگی میں مَدَنی انقِلاب برپا ہوگیا۔ ان کا رُخ ایک مُٹھّی داڑھی کے ذَرِیعے مَدَنی چِہرہ بن گیا اور سر مستِقل طور پر سبزسبز عمامہ کے تاج سے سر سبز وشاداب ہو گیا۔انہوں نے دعوتِ اسلامی کے مَدرَسَۃُ المدینہ(بالِغان) میں قرآنِ پاک ناظِرہ خَتم کرلیا اور لوگوں کے پاس خود جا جا کر نیکی کی دعوت کی دھومیں مچانے اور اِنفرادی کوشِش فرمانے لگے۔ایک دن اچانک انہیں گلے میں درد محسوس ہوا ، علاج بھی کروایا مگر درد بڑھتا گیا جُوں جُوں دوا کی کے مِصداق گلے کے مَرَض نے بَہُت زِیادہ شدّت اختیار کرلی یہاں تک کہ قریبُ الموت ہوگئے،اِسی حالت میں انہوں نے سگِ مدینہ عُفِیَ عُنْہُکا مَدَنی وصیّت نامہ جو کہ مکتبۃُ المدینہ سے ہَدِیَّۃً ملتا ہے اُسے سامنے رکھ کر اپنا وصیّت نامہ تیار کرواکر دعوتِ اسلامی کے علاقائی ذمّے دار کے حوالے کردیا اور پھر سدا کے لیے آنکھیں مُوند لیں۔بوقتِ وفات ان کی عمر تقریباً 35 سال ہوگی،انہیں گُلبہار کے قبرِستان میں سِپُردِ خاک کردیا گیا،حسبِ ِوَصیَّت ان کی قَبْر کے پاس کم و بیش بارہ گھنٹے تک اسلامی بھائیوں نے اجتِماعِ ذکر و نعت جاری رکھا۔وفات کے تقریباً ساڑھے تین سال بعد بروز منگل ،6جُمادَی الآخِرہ 1418ھ (7-10-97) کا واقعہ ہے کہ ایک اور اسلامی بھائی محمد عثمان عطاری کا جنازہ اُسی قبرِستان میں لایا گیا، کچھ اسلامی بھائی مرحوم محمداِحسان عطاّری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ البَارِی کی قَبْر پر فاتحہ کے لیے آئے تو یہ منظر دیکھ کر اُن کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں کہ قبر کی ایک جانب بَہُت بڑاشِگاف ہوگیا ہے اور تقریباً ساڑھے تین سال قبل وفات پانے والے مرحوم محمد اِحسان عطّاری سر پر سبز سبز عمامہ شریف کا تاج سجائے خوشبو دار کفن اَوڑھے مزے سے لیٹے ہوئے ہیں۔آناً فاناً یہ خبر ہر طرف پھیل گئی اور ر ات گئے تک لوگ محمد اِحسان عطاری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ البَارِی کے کفن میں لپٹے ہوئے ترو تازہ لاشے کی زیارت کرتے رہے۔تبلیغِ قراٰن و سنّت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک،دعوتِ اسلامی کے بارے میں غَلَط فَہمیوں کا شکار رہنے والے بعض اَفراد بھی دعوتِ اسلامی والوں پر اللہ عَزَّوَجَلَّ کے اس عظیم فضل و کرم کا کُھلی آنکھوں سے مُشاہَدہ کرکے تَحسین و آفرین پکار اُٹھے اور دعوتِ اسلامی کے مُحِب بن گئے۔
جو اپنی زندَگی میں سنّتیں اُن کی سجاتے ہیں
خدا و مصطَفٰی اپنا انہیں پیا را بناتے ہیں
*شھید دعوت اسلامی* یہ کوئی نیا واقِعہ نہیں شاید آپ کویاد ہوگا کہ 25 رَجَبُ المُرَجَّب 1416ھجری کو مرکزُ الاولیاء لاہور میں سنّتوں کے ادنیٰ خادِم سگِ مدینہ عُفِیَ عَنْہُ کی جان لینے کی کوشِش کے نتیجے میں دعوتِ اسلامی کے دو مبلّغین حاجی اُحُدرضا عطّاری اور محمد سجّادعطّاری رَحِمَھُمَ اللہُ الباری شہید ہوئے تھے۔تقریباً آٹھ ماہ کے بعد مرکزُ الاولیاء میں ہونے والی شدید بارِشوں کے نتیجے میں شہید ِدعوتِ اسلامی حاجی اُحُد رضا عطّاری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ البَارِی کی قبر مُنْہَدِم ہوگئی تھی،جب مجبوراً قبرکُشائی کی گئی تو ان کی لاش بِالکل تَرو تازہ برآمد ہوئی اور کئی لوگوں کی حاضِری میں شہید ِ دعوتِ اسلامی کو دوسریقَبْر میں منتِقل کیا گیا تھا۔ آخِرمیں میری تمام اسلامی بھائیوں اور اسلامی بہنوں سے مَدَنی التجاہے کہ دعوتِ اسلامی کے سنّتوں بھرے مَدَنی ماحول سے ہر دم وابَستہ رہئے۔دعوت اسلامی میں کوئی ممبر شپ نہیں ہے،آپ اپنے یہاں ہونے والے دعوتِ اسلامی کے ہفتہ وار سنّتوں بھرے اجتماع میں پابندی سے شرکت اور سنّتوں کی تربیّت کے مَدَنی قافِلوں میں عاشِقانِ رسول کے ساتھ سفر فرمایا کریں،سبھی کو چاہئے کہ اپنے اپنے شُعبے میں خوب سنّتوں کے مَدَنی پھول لٹائیں اور نیکی کی دعوت کی دھومیں مچائیں۔
بیان کو اختتام کی طرف لاتے ہوئے سنت کی فضیلت اور چند سنتیں اور آداب بیان کرنے کی سعادَت حاصِل کرتا ہوں۔ تاجدارِ رسالت،شَہَنشاہِ نُبُوَّت،مصطَفٰے جانِ رَحمت،شَمعِ بزمِ ہدایت،نَوشَۂ بز م جنت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ جنت نشان ہے جس نے میری سنت سے مَحَبَّت کی اُس نے مجھ سے مَحَبَّت کی ا و ر جس نے مجھ سیمَحَبَّت کی وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا ۔
[اِبنِ عَساکِر ج9،ص343]
سینہ تری سنّت کا مدینہ بنے آقا
جنت میں پڑوسی مجھے تم اپنا بنانا
*بچے کاعقیقہ کرنا سنّت مبارَکہ ہے‘‘ کے پچیس حُرُوف
کی نسبت سے عقیقے کے25 مَدَنی پھول*
فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم لڑکا اپنے عقیقے میں گِروی ہے ساتویں دن اُس کی طرف سے جانور ذَبح کیا جائے اور اُس کا نام رکھا جا ئے اور سرمُونڈا جائے۔‘‘
[تِرمِذی ج3،ص177،حدیث1527]
گِروی ہونے کا یہ مطلب یہ ہے کہ اُس سے پورا نفع حاصِل نہ ہو گا جب تک عقیقہ نہ کیا جائے اور بعض(مُحَدِّثین) نے کہا بچّے کی سلامتی اور اُس کی نَشو ونُما(پھلنا پھولنا) اور اُس میں اچّھے اَوصاف (یعنی عمدہ خوبیاں )ہونا عقیقے کے ساتھ وابَستہ ہیں.
[بہارِ شریعت ج3،ص354]
بچّہ پیدا ہونے کے شکریہ میں جو جانور ذَبْح کیا جاتا ہے اُس کو عقیقہ کہتے ہیں ( ایضاًص355)
جب بچہ پیدا ہو تو مُستحب یہ ہے کہ اُس کے کان میں اَذان و اِقامت کہی جائے۔اذان کہنے سے ان شاءاللہ تعالیٰ بلائیں دُور ہوجائیں گیخ بہتر یہ ہے کہ دہنے (یعنی سیدھے )کان میں چار مرتبہ اَذان اور بائیں (یعنی اُلٹے ) میں تین مرتبہ اِقامت کہی جائے بَہت لوگوں میں یہ رواج ہے کہ لڑکا پیدا ہوتا ہے تو اَذان کہی جاتی ہے اور لڑکی پیدا ہوتی ہے تو نہیں کہتے۔یہ نہ چاہیے بلکہ لڑکی پیدا ہو جب بھی اذان و اِقامت کہی جائیخ ساتویں دن اُس کا نام رکھا جائے اور اُس کا سرمونڈا جائے اور سر مونڈنے کے وَقت عقیقہ کیا جائے۔اور بالوں کو وَزن کر کے اُتنی چاندی یا سونا صَدَقہ کیا جائے
(ایضاً ص355)
لڑکے کے عقیقے میں دو بکرے اور لڑکی میں ایک بکری ذَبح کی جائے یعنی لڑکے میں نَر جانور اور لڑکی میں مادَہ مُناسِب ہے۔اور لڑکے کے عقیقے میں بکریاں اور لڑکی میں بکرا کیا جب بھی حَرَج نہیں.
(ایضاً ص 357)
(بیٹے کیلئے دو کی) اِستِطاعت (یعنی طاقت) نہ ہو تو ایک بھی کافی ہے
[فتاویٰ رضویہ ج20 ص586]
قربانی کے اُونٹ وغیرہ میں عقیقے کی شرکت ہوسکتی ہیں. عقیقہ فرض یا واجب نہیں ہے صرف سنّتِ مستحبَّہ ہے،(اگر گنجائش ہو تو ضرور کرناچاہئے،نہ کرے تو گناہ نہیں البتّہ عقیقے کے ثواب سے محرومی ہے) غریب آدمی کو ہرگز جائز نہیں کہ سُودی قرضہ لے کرعَقیقہ کرے.
[اسلامی زندگی ص27]
بچّہ اگر ساتویں دن سے پہلے ہی مرگیا تو اُس کا عقیقہ نہ کرنے سے کوئی اثر اُس کی شَفاعت وغیرہ پرنہیں کہ وہ وقتِ عَقیقہ آنے سے پہلے ہی گزر گیا۔ہاں جس بچّے نے عقیقے کا وَقت پایا یعنی سات دن کا ہوگیا او ربِلا عُذر باوَصف ِ استِطاعت (یعنی طاقت ہونے کے باوُجُود) اُس کا عقیقہ نہ کیا اُس کے لیے یہ آیا ہے کہ وہ اپنے ماں باپ کی شَفاعت نہ کرنے پائے گا
[فتاوٰی رضویہ ج20ص596]
عقیقہ ولادت کے ساتویں روز سنّت ہے اوریِہی افضل ہے،ورنہ چودھویں،ورنہ اکّیسویں21 دن۔
(ایضاً ص،586) اور اگر ساتویں دن نہ کرسکیں تو جب چاہیں کرسکتے ہیں،سنّت ادا ہوجائے گی
[بہارِ شریعت ج3،ص356]
جس کا عقیقہ نہ ہوا ہو وہ جوانی،بُڑھاپے میں بھی اپنا عقیقہ کرسکتا ہے.
[فتاوٰی رضویہ،ج20،ص588]
جیسا کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اعلانِ نُبُوَّت کے بعد خود اپنا عقیقہ کیا.
[مُصَنَّف عبد الرزاق ج4،ص254،حدیث2174]
بعض (عُلمائے کرام)نے یہ کہا کہ ساتویں یا چودہویں یا اکّیسویں دن یعنی سات دن کا لحاظ رکھا جائے یہ بہتر ہے اور یاد نہ رہے تو یہ کرے کہ جس دن بچّہ پیدا ہو اُس دن کو یاد رکھیں اُس سے ایک دن پہلے والا دن جب آئے تو وہ ساتواں ہوگا،مَثَلاً جُمُعہ کو پیدا ہوا تو (زندگی کی ہر ) جُمعرات(اُس کا) ساتواں دن ہے۔
[بہارِ شریعت،ج3،ص356]
اگر ولادت کا دن یاد نہ ہو تو جب چاہیں کر لیجئے بچّے کا سر مونڈنے کے بعد سر پر زعفران پیس کر لگا دینا بہتر ہے
(ایضاً 357)
بہتر یہ ہے کہ عقیقے کے جانور کی ہڈّی نہ توڑی جائے بلکہ ہڈّیوں پر سے گوشت اُتار لیا جائے یہ بچّے کی سلامتی کی نیک فال ہے اور ہڈّی توڑ کر گوشت بنایا جائے اِس میں بھی حَرَج نہیں۔ گوشت کو جس طرح چاہیں پکا سکتے ہیں مگر میٹھا پکایا جائے تو بچّے کے اَخلاق اچّھے ہونے کی فال ہے۔
(ایضاً )
*میٹھا گوشت بنانے کے دو طریقے.*
ایک کلو گوشت،آدھا کلو میٹھا دَہی،سات دانے چھوٹی الائچی،50گرام بادام،حسبِ ضَرورت گھی یا تیل سب ملا کر پکا لیجئے،پکنے کے بعد ضَرورت کے مطابِق چاشنی ڈالئے۔زینت (یعنی خوبصورتی) کیلئے گاجر کے باریک ریشے بنا کر نیز کشمش وغیرہ بھی ڈالے جاسکتے ہیں.
ایک کلو گوشْتْ میں آدھا کلو چقَندر ڈال کر حسبِ معمول پکا لیجئے عوام میں یہ بَہُت مشہور ہے کہ عقیقے کا گوشْتْ بچّے کے ماں باپ اور دادا دادی،نانا نانی نہ کھائیں یہ مَحض غَلَط ہے اس کا کوئی ثبوت نہیں (ایضاً ) اس کی کھال کا وُہی حکم ہے جو قربانی کی کھال کا ہے کہ اپنے صَرْف میں لائے یا مساکین کو دے یا کسی اور نیک کام مسجد یا مدرَسے میں صَرْف کرے (ایضاً)
عقیقے کا جانور اُنھیں شرائط کے ساتھ ہونا چاہیے جیسا قربانی کے لیے ہوتا ہے۔اُس کا گوشت فُقَرا اور عزیز و قریب دوست و اَحباب کو کچّا تقسیم کر دیا جائے یا پکا کر دیا جائے یا اُن کو بطورِ ضِیافت و دعوت کِھلایا جائے یہ سب صورَتیں جائز ہیں.
[بہارِ شریعت، ج3،ص357]
(عقیقے کا گوشت) چِیل،کَوّوں کو کھلانا کوئی معنٰی نہیں رکھتا،یہ (یعنی چِیل،کوّے) فاسِق ہیں
[فتاویٰ رضویہ، ج20، ص590]
عقیقہ شکرِ ولادت ہے لہٰذامرنے کے بعد عقیقہ نہیں ہوسکتا لڑکے کے عقیقے میں کہ باپ ذَبح کرے دُعا یوں پڑھے.
*اللھُمَّ ہٰذِہٖ عَقِیْقَۃُ ابْنِیْ فُلانٍ دَمُھَا بِدَمِہٖ وَلَحْمُھَا بِلَحْمِہٖ وَعَظْمُھَا بِعَظْمِہٖ وَجِلْدُھَا بِجِلدِہٖ وَشَعْرُھَا بِشَعْرِہٖ اللھُمَّ اجْعَلْہَا فِدَائًً لِابْنِیْ مِنَ النَّارِ بِسْمِ ﷲِ ﷲ اَکْبَرْ ؎ ۔*
(ترجمہ) اے اللہ عَزَّوَجَلَّ !یہ میرے فُلاں بیٹے کا عقیقہ ہے اِس کا خون اُس کے خون،اِس کا گوشت اُس کے گوشت اِس کی ہڈّی اُس کی ہڈّی،اِس کا چمڑا اُس کے چمڑے اور اِس کے بال اُس کے بال کے بدلے میں ہیں،اے اللہ !اِس کو میرے بیٹے کے لئے جہنَّم کی آگ سے فِدیہ بنادے۔اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نام سے،اللہ سب سے بڑا ہے فُلان کی جگہ بیٹی کا جو نام رکھتا ہو لے بیٹی ہو تو دونوں جگہ اِبْنِیْ کی جگہ بِنْتِی اور پانچوں جگہ’’ہٖ‘‘کی جگہ’’ھا‘‘ کہے اور دوسرا شخص ذَبح کرے تو دونوں جگہ اِبْنِیْ فُلَاں یا بِنْتِِی فُلَاں کی جگہ فُلاں اِبْنِ فُلَاں یا فُلاَنَہ بَنْتِ فُلاَں کہے۔بچے کی اُس کے باپ اور لڑکی کی اُس کی ماں کی طرف نسبت کرے.
[مُلَخَّص از فتاوی رضویہ ج20،ص585] اگر دُعا یاد نہ ہو توبِغیر دُعا پڑھے دل میں یہ خیال کر کے کہ فُلاں لڑکے یافُلانی لڑکی کا عقیقہ ہے ،بِسْمِ اﷲِ اللہُ اَکْبَرْ پڑھ کر ذَبْح کر دے عقیقہ ہو جائے گا،عقیقے کے لئے دُعا پڑھنا ضَروری نہیں
[جنّتی زیور ص323]
آج کل عُمُوماً عقیقے کے لیے دعوت کا اِہتِمام کر کے عزیز واَقارِب کو بُلایا جاتا ہے جو کہ اچّھا عمل ہے اور شرکت کرنے والے بچّے کے لیے تحفے لاتے ہیں یہ بھی عُمدہ کام ہے۔البتّہ یہاں کچھ تفصیل ہے اگر مِہمان کچھ تحفہ نہ لائے تو بعض اوقات میزبان یا اُس کے گھر والے مِہمان کی بُرائی کرنے کے گناہوں میں پڑتے ہیں،تو جہاں یقینی طور پر یاحال ہو وہاں مہمان کو چاہئے کہ بِغیر مجبوری کے نہ جائے،ضَرورتاً جائے اور تحفہ لے جائے تو حَرَج نہیں،البتّہ میزبان نے اِس نیّت سے لیا کہ اگر مہمان تحفہ نہ لاتا تو یہ یعنی میزبان اِس(مہمان) کی بُرائیاں کرتا یابطورِ خاص نیّت تو نہیں مگر اِس(میزبان) کا ایسا بُرامعمول ہے تو جہاں اِسے (یعنی میزبان کو) غالِب گمان ہو کہ لانے والا اِسی طور پر یعنی(میزبان کے) شَرسے بچنے کیلئے لایا ہے تو اب لینے والا میزبان گنہگار اور عذابِ نارِ کا حقدار ہے اور یہ تحفہ اِ س کے حق میں رشوت ہے۔ہاں اگر بُرائی بیان کرنے کی نیّت نہ ہواور نہ اِس کا ایسا بُرا معمول ہو تو تحفہ قَبول کرنے میں حَرَج نہیں۔
No comments:
Post a Comment