Monday, July 22, 2019

عمدہ گفتگو

دنیا بھر میں اور خصوصاً جنوبی ایشیا میں کچھ عرصہ پہلے تک تقریباً سبھی مسلمان اچھی طرح جانتے تھے کہ اہلِ تصوف کا سماع نہ کوئی تفریحی سرگرمی ہے، نہ ہی کوئی ثقافتی مظاہرہ. اور یہ بھی واضح تھا کہ اس کا مقصد تفنن طبع بھی نہیں. اہل تصوف کے لیے سماع کی حیثیت وہ نہیں ہے جو مثلاً ایک عام باذوق شخص کے لیے محفل موسیقی کی ہوتی ہے. سماع حصولِ لذتِ ظاہر کا ذریعہ نہیں، ایک شیوہء طریقت ہے جس کی معنویت صوفیہ کے حلقوں میں غیر معمولی اہمیت کی حامل ہے. سماع صوفیہ کے لیے اپنی کوتاہیوں اور محرومیوں پر نوحہ و زاری ہے. غم و اندوہ کے دنوں میں باطنی حزن و ملال کے اظہار کی ممانعت کیسے ہو سکتی ہے؟ اسی احترام اور باہمی محبت کی وجہ سے بہت سے دیگر مسالک کے سلجھے ہوئے افراد بھی محافل سماع میں شرکت کرتے تھے اور اب بھی بہت سے لوگ یہ عملِ خیر انجام دیتے ہیں، اگرچہ یہ تعداد روز بہ روز کم ہوتی جاتی ہے.
اگر صوفیوں میں سے کچھ لوگ سماع کو عام محفل موسیقی ہی سمجھتے ہیں تو وہ غلطی پر ہیں. انھیں اپنے فکر و عمل کی اصلاح کرنی چاہیے. اگر سماع کے آداب ملحوظ نہیں رکھے جاتے ہیں تو یہ بھی بالکل غلط ہے. آداب کے ساتھ ہو تو سماع ہے ورنہ عام محفل موسیقی سے بھی بد تر ہے. نیز اہل تصوف کو یہ ادراک، اعتراف اور اظہار بھی کرتے رہنا چاہیے کہ سماع کسی صوفی پر بھی فرض نہیں ہے اور نہ ہی دین کا حصہ ہے.
انگریزوں نے اپنے استعماری مقاصد کے حصول کے لیے مختلف اسلامی مسالک میں دوریوں کو فروغ دیا جس میں مختلف زمانوں میں مختلف عالمی چال بازیوں کی وجہ سے شدت آتی گئی. گزشتہ دو تین عشروں سے اہل تصوف اپنے بہت سے ہم دردی رکھنے والوں سے محروم ہوتے جا رہے ہیں. اب اہل تصوف کسی مسلمان کو مشرک لگتے ہیں، کسی کو بدعتی، کسی کو گمراہ، کسی کو اہل بیت کے غالی عقیدت مند، کسی کو غمِ حسین کا احترام نہ کرنے والے، کسی کو جاہل اور کسی کو بے عمل لگنا شروع ہو گئے ہیں. اہل تصوف کا دامن ان تمام تہمتوں سے بری ہے. البتہ صوفیہ کی صفوں میں بھی کم پڑھے لکھے اور عقائد و اعمال میں کوتاہی کرنے والے لوگ ہیں اور اس صورت حال سے کوئی مسلک بھی محفوظ نہیں ہے.
پروفیسر معین نظامی صاحب دام ظلہ

No comments:

Post a Comment

Featured Post

*زحمت، رحمت اور فطرت* حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی جس کی بھلائی چاہتا ہے اس...