*سر فروشی کی تمنا آج میرے دل میں ہے*
*دیکھتے ہیں زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے*
ضمیر فروشوں اور دین کے جھوٹے ٹھیکے داروں نے اسی شعر کو پڑھ کر امت کے سر کٹوا ڈالے، امت کے غریبوں کو، رسول اللہﷺ کے دیوانوں کو مروا ڈالا، لیکن خود آج تک ظالموں کے خلاف کھڑے نا ہوئے،
انکے سر فروشی کی تمنا آج تک باہر نہیں آئی،
ہر روز موب لنچگ کے نام پر مسلمانوں کو مار جا رہا ہے، بیٹیوں کی عزتیں تار تار کی جارہی ہیں، زبردستی کفریہ نعروں پر مجبور کیا جارہا ہے، ہمیں دوسرے نمبر کا شہری قرار دینے کی کوشش کی جارہی ہے،
مدارس و مساجد پر حملہ ہو رہے ہیں،
تبھی ذہنوں میں ایک سوال اٹھتا ہے کہ آخر ان ظلم و ستم کی آندھیوں سے ہمیں نجات کون دلائے گا،
اس غریب امت کا سہارا کون بنے گا ، ان بیٹیوں کا محافظ کون ہے، کوئی تو ہو گا؟
یا پھر کوئی ہمارا قائد نہیں،کوئی ہمارا مرشد و رہبر نہیں؟
تو پھر یہ کون لوگ ہیں جو جلسوں میں آکر جذباتی تقریریں کرتے ہیں؟
یہ کون لوگ ہیں جو دین محمد اور امت مسلمہ کے لیے مر مٹنے کی چیج چیخ کر قسمیں کھاتے ہیں؟
یہ کون لوگ ہیں جو چند جملے بول کر غریبوں کے پیسوں سے اپنا پیٹ بھرتے ہیں، اور موٹے موٹے نذرانے لے جاتے ہیں؟
*جناب فاتح کشمیر صاحب،*
آپ کے بہادری کے چرچے تو بہت دور دور تک ہیں، ایوبی ابن زیاد، محمد بن قاسم کے بعد آنکھیں ترس رہی تھیں کسی فاتح کو دیکھنے کے لیے، پھر آپ پیدا ہوئے، یقین جانیں ہمیں تو لگا عالمگیری دور آنے والا ہے، کفر و ظلمت کی بدلیاں چھٹنے والی ہیں،
تبھی آپ کے کارنامے، آپ کے فتوحات نے آپ کو ہمارے لئے آئیڈیل بنا ڈالا،
اور دنیا کی سب سے متنازعہ جگہ جس کے سلسلے میں مذاکرات، اور جنگیں بے سود رہیں، آپ نے اس متنازعہ علاقے کو آپ نے فتح کر لیا، ارے آپ تو فاتح اعظم، بطل جلیل، رجل عظيم ہیں،
لیکن جب اخلاق کو شہید کیا گیا، جب تبریز کو پیٹا جا رہا تھا، تب آپ کہاں تھے کس محاذ پر مصروف جنگ تھے؟
فاتح صاحب جلدی آؤ، اناؤ، بہار، جھار کھنڈ، ایم پی اور پورے ہندوستان میں امت پر ظلم ہو رہا ہے،
آؤ ان کافروں کو تہہ و تیغ کردو، ان کافروں پر ہمیں فتح نصرت دلا دو،
ہم مظلوم ہیں ہمیں فاتح بنا دو، ہم مغلوب ہیں، غالب بنا دو، اللہ کے دین کو سر بلند کرنے آجاؤ،
فاتح صاحب یہ امت آپ کو کب سے پکار رہی ہے، اور 2014 سے چیج چیخ کر پکار رہی ہے لیکن آپ آئے نہیں؟
آپ کہاں مصروف ہیں؟ آپ کیوں نہیں آتے؟ کیا آپ فاتح کشمیر نہیں ہیں؟ کیا آپ نے کبھی لڑائی نہیں لڑی؟ کیا آپ نے کبھی کسی کو للکارا نہیں؟ کیا آپ نے کبھی کسی پر فتح حاصل نہیں کی؟
رہنے دیجئے آپ کچھ مت بولئے، آپ کے منہ سے اچھا نہیں لگے گا، ہم بتاتے ہیں آپ نے گالی گلوچ میں فتح حاصل کی ہے،
آپ امت کو لوٹنے والے لٹیروں میں غالب ہیں،
آپ اور آپ کی کتیا فوج امت کو لڑانے اور باٹنے میں سب سے آگے ہے،
آپ تو فتنوں کے بادشاہ ہو، نافرمانوں، سرکشوں، بدتمیزوں، کے سپہ سالار آپ ہی تو ہو،
آپ نے تو ہمارے پیسوں، پر قبضہ کیا ہے، آپ نذرانوں اور نیازوں کے فاتح ہو،
بس کچھ دن اور اس کے بعد اسی گھٹیا ملعون فاتحانہ شان کیساتھ آپ امت مسلمہ کو چھوڑ کر رخصت ہو جائیں گے،
پھر آپ کی کتیا فوج آپ کے مزار پر جہاد اور غزوہ کرے گی، میلہ کروائے گی، اور آپ کے فتنوں، مکاریوں اور لوٹ مار کو کرامت، اور تصلب اور ولایت کا نام دے گی،
خیر آپ کو ایسی فاتحانہ شان مبارک ہو،
*مفکر اسلام صاحب،*
پوسٹروں میں اس لقب کیساتھ آپ کا نام دیکھا تو امید کی ٹوٹی ہوئی لڑیاں جڑنے لگیں،
کیونکہ ہم نے ایک سچے مفکر کو دیکھا ہے لیکن اب اسکا مستقر دیار ہند نہیں،
ہم نے سوچا آپ بھی انہیں کیطرح ہونگے اسی لئے جب شریعت پر حملہ ہوا ہم نے آپ کو پکارا،
آپ کو آواز دی ہمیں لگا آپ محافظ شریعت بن کر اٹھے گیں اتحاد کی راہ ہموار کریں گے، احتجاج و التماس کریں گے،
لیکن آپ تو مفکر بطن نکلے، آپ تو مفکراسلام سیٹھ نکلے،
آپ تو صرف اترانا جانتے ہیں، آپ تو بس خلافت اور دولت کے حریص نکلے،
آپ تو اسلام کے نام پر پیٹ پالتے ہیں، آپ تو دست بوسی چائے نوشی کے دلدادہ ہیں ، آپ تو اسٹیج کے فنکار، جھوٹے کلاکار ہیں ،
جو کچھ ہے آپ کی اونچی ٹوپی اور میٹھی آواز میں ہے آپ تو فکر امت سے خالی اور عاری ہیں ،
تمہیں تو عار بھی نہیں دلا سکتے، کیونکہ تم مردہ ضمیر، لکیر کے فقیر، بے تدبیر ہو،
خیر، اللہ سریع الحساب ہے،
*علامہ صاحب*
ارے اس آوارہ لقب سے ملقب بیچارو! تمہیں کیا کہیں، تم میں سے اکثر مردانگی سے دور، نسوانیت سے مغرور، حقیقت سے مفرور، پیٹ سے مجبور ہو،
میں نے سنا تھا کہ علامة کی ۃ برائے مبالغہ ہے،
لیکن یہ بھی سچ ہے کہ اس ۃ کو کو تائے تانیث سے بھی کچھ نا کچھ مناسبت اور لگاؤ ہے معناً نہیں تو صورتاً ضرور،
اسی لیے اکثر علاَّمات میں نسوانی فطرتیں آ ہی جاتی ہیں،
اسٹیج ہو، یا مسجد ومدرسہ یا پھر کوئی خانقاہ ہر جگہ علاَّمات اپنی مکاری، ننگے پن کا مظاہرہ کرتی رہتی ہیں،
جس بھی گلی میں جاؤ، چوہے بھلے نا ملیں علامہ تو ضرور مل جائیں گے، کوئی پوسٹر ایسا نہیں جس میں کوئی مولانا صاحب ہوں، سبھی علامہ ہیں،
دو سو روپے لوکل اسٹیجوں پر ملتے ہیں، لیکن ٹوپی پانچ سو والی لگاتے ہیں تاکہ علامہ دِکھ سکیں،
علاَّمات سے بس اتنی گزارش ہے کہ جہاں بھی رہو اہلسنت میں پھوٹ ڈالنے کی کوشش مت کرو، سب سے زیادہ علامات نے ہی اتحاد کی چادر کو تار تار کیا ہے،
ہمیں معلوم ہے آپ علاّمات کو بہت غصہ آتا ہے لیکن آپ کے غصے اور جلال سے امت کو فائدہ نہیں کیونکہ آپ کو غصہ آتا ہے تو آپ اپنی ہی چوڑیاں توڑ ڈالتے ہو،
اپنی چوڑیاں بچا کر رکھو کسی اسٹیج پر توڑو گے تو معاوضہ بھی مل جائے گا، بار بار بیوہ بننے کی مکاری اسٹیجوں پر ہی نفع بخش ہے ظلم و ظلم وستم سے لڑنے کے لئے علامتِ تانیث بلکہ مردانگی کی ضرورت ہے، جو تمہارے پاس بالکل نہیں.
انہیں بھی کچھ ڈنڈے لگانا ضروری ہے،
وقار ملت، تاج ملت، تاج الخطباء، نقیب ملت، وغیرہ وغیرہ
آپ لوگوں کو کیا کہیں آپ تو خود ہی چوہوں کیطرح چرا چرا کر پیٹ بھرتے ہیں اور گرگٹ کیطرح رنگ بدلتے ہیں ، تمہیں منہ لگانا ہی بے وقاری ہے اور بے عزتی ہے، تمہیں تو تمہارے مریدوں نے جب سے لقب دیا ہے، تبھی سے تمہارے دماغی توازن بگڑ گئے ہیں ، اس لیے تم لوگ اس لائق نہیں کہ تمہیں کچھ کہا جائے، تم اَن آفیشل بھکاری ہو، تمہارا کام تھا بھیک مانگ کر کھانا ،
لیکن آج کل تم لوگ امت کے گھروں میں ڈاکہ زنی کرنے لگے ہو، غریبوں کو لوٹنے لگے ہو، تمہاری حرام خوری زیادہ بہت بڑھ گئی ہے، پہلے والا کام شروع کر دو اس سے توبہ کر لو ورنہ بدنامی کے بعد بھیک بھی نہیں پاؤ گے.
*آخری گزارش :*
پیر صاحب، علامہ صاحب، صوفی صاحب، محدث صاحب، مقرر صاحب، پیرزادہ صاحب، ولیعہد صاحب، کچھ تو ہم امت کے لیے کرو، ورنہ ہم آپ کے مزار پہ کیسے آئیں گے، یہ کافر ہمیں ٹرینوں اور بسوں میں بھی نشانہ بناتے ہیں، ہمیں آپ کے عرس میں آنا ہے، مزار پر چادر چڑھانا ہے، نذرانہ دینا ہے، آپ حضرات کو جلسے میں بلانا ہے، چیخ کر نعرہ لگا کر جلسے کو کامیاب بنانا ہے ،
اگر حالات ایسے ہی رہے تو ہم آپ کے عرس میں نہ آ سکیں گے، پھر آپ کے شہزادے، پیرزادے کیا کھائیں گے؟
مقرر صاحب جلسے بند ہوجائیں گے تو تمہارا گھر کیسے بنے گا؟ بیوی کو مزار پر کیسے لے جاؤ گے؟
ابھی ہم امت کو آپ لوگوں پر بہت خرچ کرنا ہے،
ہم ہی سلامت نہ رہے تو آپ بےکار ہوجاؤ گے، آپ کی عزت، عظمت، آپ کے جلوے، جاہ جلال ہم سے ہیں،
ہم نہ رہے تو آپ کو کون پوچھے گا؟ کوئی نہیں پوچھے گا، ہم اسی طرح مرتے رہے تو ہم پہلے ختم ہو جائیں گے پھر آپ کی باری آئے گی،
تب تک آپ کی تدفین کے لئے کوئی باقی نہ رہے گا،
خیر ہم امت کے غریبوں سے تو آپ بڑی ٹوپی والے، مقرر، صوفی، پیر علامہ، محدث، وغیرہ وغیرہ صاحب ملاقات بھی نہیں کرتے،
تو بھلا ہمارے لیے آپ لوگ جان کیا دیں گے، قربانی کیا دیں گے، آپ لوگ تو سیٹھوں کے یہاں کھاتے ہیں، وہیں قیام کرتے ہیں، انہیں سے ملاقات کرتے ہیں،
اور انہیں کے لیے دل سے دعا بھی کرتے ہیں ، آپ ہمارے لیے دعا تک نہیں کرتے پھر تو ہمارے لئے جان دینا، احتجاج کرنا، و التماس کرنا آپ سے کیوں کر ممکن ہاں شاید اپنی فکر کر لو.
کسی کو لگے کہ میں نے کسی کی گستاخی کی ہے تو مجھ سے لڑنے جھگڑنے اور گالی دینے سے پہلے امت کے لیے کچھ کر گزرے میں اسکے پیروں پر گر کر معافی مانگ لوں گا،
سرور کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت اور دین ہی سے سب کو عزتیں اور عظمتیں ملی ہیں، جو اس امت کا وفادار نہیں،
جو تبلیغ دین کے نام پر اس امت کو لوٹے اس کا ادب احترام ہم نہیں کرتے، اور نہ کریں گے، چاہے کتنی بھی اس کی کرامتیں اور جلوے بیان کئے جائیں.
*نـــــوٹ:*
ہمارے اسلاف جو اس دار فانی سے کوچ کر گئے وہ اس تحریر کی زد میں ہر گز نہیں،
نیز میری یہ تحریر داد اور واہ واہی بٹورنے کیلئے نہیں ہے یہ ایک درد اور تکلیف ہے، بے شک اللہ عزوجل دل کے ارادوں کو جانتا ہے، اسی امید و آس ہے وہی سب کا کارساز ہے.
تحریر چوروں سے گزارش ہے کہ اس تحریر کو چرانے کی ہرگز کوشش نہ کریں ورنہ انجام برا ہوگا.
🖊..... *ذوالفقار احمد رضوی سبحانی*
📍................ *زلفی سبحانی*
No comments:
Post a Comment