تین طلاق بل ایوان بالا سے بھی منظور ہوگیا ہے اور اب یہ صدر جمہوریہ کے دستخط کے بعد اس ادھیادیش کی جگہ لے گا جو تقریبا دوسالوں سے نافذالعمل ہے۔گر چہ پچھلے دوسالوں میں اس تعلق سے مسلمانوں پہ کوئی بڑی مصیبت نازل نہیں ہوئی۔ باوجود اس کے کہ یہ (ادھیادیش)قانون سراسر ظلم و ناانصافی پہ مبنی ہونے کے ساتھ ساتھ مسلم پرسنل لاء اور ہمارے دین میں مداخلت ہے۔
اب جب کہ یہ بل قانونی شکل لینے والا ہے لہذا ہمیں اس کے بعد کی تدبیریں کرنا ناگزیر ہے تاکہ اس کالا قانون کے دینی و دنیاوی مضر اثرات کو کم سے کم تر کیا جاسکے۔
اس حوالے سے درج ذیل منصوبوں پہ کام کرنے کی سخت ضرورت ہے۔
1. قرآن و سنت کے مطابق احسن طریقہ طلاق کوعوامی موضوع سخن بنا کر خوب عام کیا جائے۔
2. ایک ساتھ تین طلاق جو قرآن و سنت کے خلاف اور حرام ہے،نیز موجودہ جبریہ ملکی قانون کے بھی خلاف ہے۔ اس لیے اس کو بھی ممبرومحراب سے لیکر چائے اور پان کی دکان تک عوامی مذاکرہ کی شکل دی جائے۔اور لوگوں کو تین طلاق سے بچنے کی سمت تاکید کی جائے۔
3. عام لوگ جو دین و سنت سے واقف نہیں ہیں وہ یہ سمجھتے ہیں کہ بیوی سے جدائی کے لیے تین طلاق دینا ضروری ہے چنانچہ ان پر جب جہالت کی کیفیت طاری ہوتی ہے تو وہ تین طلاق کہہ دیتے ہیں اور جب ہوش آتا ہے تو خود کو مصیبتوں میں گھراہوا محسوس کرتے ہیں اور افسوس کرتے ہیں جس کا کوئی فائدہ نہیں۔لہذا اس حوالے سے انہیں طلاق کے مسائل سکھائے جائیں۔
4. ایک طلاق سے ہی عدت گزرنے کے بعد بیوی جدا ہوجاتی ہے اور وہ دوسرے سے نکاح کر سکتی ہے اور اسی طرح شوہر بھی آزاد ہو جاتا ہے ۔مذکورہ باتیں لوگوں کے دل و دماغ میں بٹھانے کی ضرورت ہے کہ بیوی سے مکمل جدائی کے لیے ایک ہی طلاق کافی ہے۔اور ایک ساتھ تین طلاق دینا شرعا حرام اور قانونا جرم ہے۔
جب ان باتوں سے عام مسلمانوں کی مکمل واقفیت ہوگی تو حالات جیسے بھی ہوں اور جس قدر بھی غصے کی کیفیت کیوں نہ ہو اس کے منہ سے ایک ہی طلاق نکلے گا اور وہ دو اور تین طلاق کہ طرف بڑھنے کی کوشش بھی نہیں کرے گا۔
إن شاء الله اگر ہم ایسا کر سکیں تو یقینا ہم گناہوں سے بھی بچیں گے اور ملکی قانون کے مضر اثرات سے بھی۔
5۔ میری ذاتی رائے ہے کہ علمائے دین و قائدین ملت ملک بند،روڈجام اور احتجاجی جلسہ و جلوس کو چھوڑ کر عوامی بیداری تحریک چلائیں اور تعلیمی بیداری کے ساتھ اتحاد و اتفاق کی ایسی مہم شروع کریں کہ ہم متحد ہو جائیں۔ ساتھ ہی ان معاملات کو ایسی خوبصورتی کے ساتھ عمل میں لائیں کہ حکومت کے برے منشاء پہ پانی پھر جائے۔
حکومت اس بل کو لاکر یہ چاہتی ہے کہ ہم مسلمان ٹکڑوں میں تقسیم ہوکر ذلیل و خوار ہوں اور ہمارے جذبات کا استحصال ہوتا رہے۔اگر مسلم قائدین اس مصیبت کو مسلمانوں کے لیے فال نیک بنانے میں کامیاب ہو جائیں تو یہ کارنامہ یقینی طور پر ایمانی بصیرت کا نتیجہ ثابت ہوگا۔
محمد شہادت حسین فیضی
اب جب کہ یہ بل قانونی شکل لینے والا ہے لہذا ہمیں اس کے بعد کی تدبیریں کرنا ناگزیر ہے تاکہ اس کالا قانون کے دینی و دنیاوی مضر اثرات کو کم سے کم تر کیا جاسکے۔
اس حوالے سے درج ذیل منصوبوں پہ کام کرنے کی سخت ضرورت ہے۔
1. قرآن و سنت کے مطابق احسن طریقہ طلاق کوعوامی موضوع سخن بنا کر خوب عام کیا جائے۔
2. ایک ساتھ تین طلاق جو قرآن و سنت کے خلاف اور حرام ہے،نیز موجودہ جبریہ ملکی قانون کے بھی خلاف ہے۔ اس لیے اس کو بھی ممبرومحراب سے لیکر چائے اور پان کی دکان تک عوامی مذاکرہ کی شکل دی جائے۔اور لوگوں کو تین طلاق سے بچنے کی سمت تاکید کی جائے۔
3. عام لوگ جو دین و سنت سے واقف نہیں ہیں وہ یہ سمجھتے ہیں کہ بیوی سے جدائی کے لیے تین طلاق دینا ضروری ہے چنانچہ ان پر جب جہالت کی کیفیت طاری ہوتی ہے تو وہ تین طلاق کہہ دیتے ہیں اور جب ہوش آتا ہے تو خود کو مصیبتوں میں گھراہوا محسوس کرتے ہیں اور افسوس کرتے ہیں جس کا کوئی فائدہ نہیں۔لہذا اس حوالے سے انہیں طلاق کے مسائل سکھائے جائیں۔
4. ایک طلاق سے ہی عدت گزرنے کے بعد بیوی جدا ہوجاتی ہے اور وہ دوسرے سے نکاح کر سکتی ہے اور اسی طرح شوہر بھی آزاد ہو جاتا ہے ۔مذکورہ باتیں لوگوں کے دل و دماغ میں بٹھانے کی ضرورت ہے کہ بیوی سے مکمل جدائی کے لیے ایک ہی طلاق کافی ہے۔اور ایک ساتھ تین طلاق دینا شرعا حرام اور قانونا جرم ہے۔
جب ان باتوں سے عام مسلمانوں کی مکمل واقفیت ہوگی تو حالات جیسے بھی ہوں اور جس قدر بھی غصے کی کیفیت کیوں نہ ہو اس کے منہ سے ایک ہی طلاق نکلے گا اور وہ دو اور تین طلاق کہ طرف بڑھنے کی کوشش بھی نہیں کرے گا۔
إن شاء الله اگر ہم ایسا کر سکیں تو یقینا ہم گناہوں سے بھی بچیں گے اور ملکی قانون کے مضر اثرات سے بھی۔
5۔ میری ذاتی رائے ہے کہ علمائے دین و قائدین ملت ملک بند،روڈجام اور احتجاجی جلسہ و جلوس کو چھوڑ کر عوامی بیداری تحریک چلائیں اور تعلیمی بیداری کے ساتھ اتحاد و اتفاق کی ایسی مہم شروع کریں کہ ہم متحد ہو جائیں۔ ساتھ ہی ان معاملات کو ایسی خوبصورتی کے ساتھ عمل میں لائیں کہ حکومت کے برے منشاء پہ پانی پھر جائے۔
حکومت اس بل کو لاکر یہ چاہتی ہے کہ ہم مسلمان ٹکڑوں میں تقسیم ہوکر ذلیل و خوار ہوں اور ہمارے جذبات کا استحصال ہوتا رہے۔اگر مسلم قائدین اس مصیبت کو مسلمانوں کے لیے فال نیک بنانے میں کامیاب ہو جائیں تو یہ کارنامہ یقینی طور پر ایمانی بصیرت کا نتیجہ ثابت ہوگا۔
محمد شہادت حسین فیضی
No comments:
Post a Comment