بین الاقوامی سطح پر جا کر اپنی قوم کے حق میں آواز اٹھانے کی بات تو رہنے ہی دیں اپنے ملک میں ماب لنچنگ اور مسلمانوں کے خلاف بڑھتے ہوئے تشدد خیز واقعات پر مشائخین عظام، پیران کرام، قوم کو بیچنے والے مسلم لیڈران اور راتوں رات قوم کو لوٹ کر چل دینے والے شعلہ بیان مقرر اور گلوگیر شعراء کی زبانیں گنگ کیوں ہیں... ان کے ذریعہ بنائ گئ بڑی بڑی کمیٹیاں اور تنظیموں نے اس قدر مجرمانہ خاموشی کیوں اختیار کیوں کی ہوئی ہے .. کیا ان کا کام اب صرف عید اور بقرعید کے چاند کا اعلان کرنا ہی رہ گیا ہے یا عقیدت اور نذرانے کی وصولی . کیا سب کے سب غزالی دوراں،جلال الدین سیوطی اور محی الدین ابن عربی بننا چاہتے ہیں یا کوئی اب بھی ہے جو امام احمد بن حنبل، اعلی حضرت، مجاہد ملت، مجاہد دوران، علامہ عبد العلیم میرٹھی بن کر قوم کی سہی قیادت کا فریضہ انجام دینا چاہتا ہے؟؟
سب کے سب دست بوسی اور مرکزی اداروں کی بنیاد ہی رکھنے کی آرزو رکھتے ہیں یا پھر اغیار کے بچوں کی طرح قیادت اور لیڈرشپ کی باقاعدہ تعلیمات کے ساتھ ساتھ اس تپتی ہوئی گرمی میں انڈیا اسلامک کلچر سنٹر میں آکر اپنی شخصیت سازی کے فن بھی سیکھنے چاہتےہیں؟؟؟،
سن لیں!! اگر یہی بے حسی اور روش باقی رہی تو وہ دن دور نہیں جب بأمر مجبوری آپ کی عقیدتمند عوام آپ کو کلیسا کے پادریوں کی طرح آپ کی خانقاہوں اور آپ کے مرکزی اداروں تک محدود کر دےگی....
فیاض احمد مصباحی
بلرام پوری
No comments:
Post a Comment