درس برائے طلبہ:
حضرت استاد العلماء علامہ مفتی حق النبي سکندری الازہری دامت برکاتہ شاہپور چاکر شريف.
اس جديد دور کے چیلنجز میں جہاں ہر چیز اپنے حقيقی معانی کھو کر مادیاتی حملوں کی زد میں ہے وہاں اس کائنات کی سب سے اہم چیز انسان اور وہ بھی مسلمان انتہائی بے یقینی کی کیفيت كا شكار ہے۔
مسلم نوجوان اپنے ذہن میں ہزارون سوالات لئیے پھر رہا ہے جنکا تعلق اسکے دین سے ہے نہ اسے کوئی گلے لگاکر اچھے طریقے سے سمجھانے والا ہے نہ ہی اس صلاحيت کے مذہبی عقول دستیاب ہیں جو جدید سوالات کے معقول جوابات دے سکیں۔
پوری دنیا میں مسلم نوجوانون کیلئے علماء نت نئے طریقوں سے انہیں دین کے قریب کرنی کی کوشش میں ہیں البتہ ایسا کوئی اقدام سرزمین پاک پر نظر نہیں آتا۔
دینی خطاب کی سطح نہایت سطحيت کو پہنچی ہوئی ہے کہ دقیق علمی مباحث يا تو زیر بحث ہی نہیں آتے کہ ان پر بحث کی صلاحيت والے ناپید ہیں یا ایسے مباحث زير بحث ہیں جو ہونے نہیں چاہئینن۔
مجھے سال میں ایک دو بار غيرملکی دوروں پر جانے کا اتفاق ہوتا ہے تو دیگر مسلم ممالک میں زیر بحث مسائل دیکھ کر حيرانی ہوتی ہے کہ سرزمین پاک وہند مین مبحوثہ مسائل کس قدر سطحيت کا شکار ہیں۔
بات چلی تھی نوجوانون سے تو اتنا کہنا ہے کہ پوری دنیا میں کئی ایسے نوجوان عالم اس نہج پر کام کر رہے ہیں کہ دینی مدارس سے ہٹ کر عام مسلم نوجوانون کیلئے انہین دینی علوم کو قدرے آسان لب ولہجہ میں جدید مناہج سے پہنچا رہے ہیں جسکا مقصد نہ تو انکو عالم بنانا ہے نہ مفتی وفقيہ بلکہ انکی فكری تربیت مقصود ہے جس سے وہ اپنی اسلامی اقدار کے بھی قریب رہیں اور دین اسلام پر علی سبیل العلم والدليل ثابت رہیں۔
ایسے مناہج قدیم کتب کی تبسیط پر مشتمل ہیں اگرچہ اب تک وہ انفرادی کوشش ہی ہیں پر نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر ہے۔
کیا وطن عزیز میں ایسی کوئی کوشش؟ تنظيم المدارس کی کل کائنات درس نظامی سے ہٹ کر کوئی کوشش ؟
جس تنظيم کو اس قدر پڑھا لکھا جہان دیدہ صدر ميسر ہو اور وہ بھی کچھ نہ کرسکے تو باقی بچارے کیا کرسکتے ہیں۔
فكری سوچ کا معیار اور سمجھ بوجھ کی قوت کا اندازہ کرنا ہو تو اس پوسٹ کے پیغام کو سمجھ لیجیئے پھر اس پر کمنٹس کے معیار کو جانچ لینا کافی ہوگا جس سے معاشرتی دینی علمی اپروچ کا معیار پتہ چل جائیگا۔
No comments:
Post a Comment