Friday, July 19, 2019

نصاب تعلیم

تعلیم کسی بھی معاشرے کی ترقی کےلیے کلیدی حیثیت کی حامل ہے۔
تعلیم کی مثلث ہے؛ استاد ،طالب علم اور نصاب جس میں نصاب پہلی اینٹ ہے جس پر کسی قوم کی تعلیمی عمارت استوار ہوتی ہے۔
" تعلیمی نصاب یا Curriculum ”کا لفظی مطلب ہےایسا راستہ جس پر دوڑ لگائی جائے”ْ۔
بدقسمتی سے ہمارے ملک میں تعلیمی نصاب کے راستے بچوں کے لیے اتنے کٹھن ہیں کہ ان کے لیے منزل تک پہنچنا دشوار ہوچکا ہے۔
ایک اچھانصاب نہ صرف طالب علم کو خواندہ بنانا ہے بلکہ طالب علم کو اس کے ماحول سےمطابقت پیدا کرنے اور معاشی سرگرمیوں سے عہدہ برآ ہونے کے قابل بھی بناتا ہے۔
تعلیمی نصاب کا اولین مقصدطالب علم کی ایسی تربیت کرنا ہے کہ وہ عملی زندگی میں پیش آنے والے مسائل کو اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر سلجھاتے ہوئے معاشرے میں باوقارشہری کی حیثیت سے زندگی گزار سکے۔ 
طالب علم کی کردار سازی کے علاوہ اس کی فکری، تمدنی اور تہذیبی تربیت کا انحصار بھی تعلیمی نصاب پر ہوتاہے۔
ترقی یافتہ ممالک میں تعلیمی نصاب اس بنیاد پر مرتب کیا جاتا ہے کہ اسکولوں اور کالجوں سے فارغ ہونے والے طلبااور طالبات اپنے مضا مین میں ماہر ہوں۔
اگر کوئی طالب علم معاشیات سیکھ رہا ہے تو اسے ایک اچھا ماہر اقتصادیات اور ذمہ دار شہری بن کر نکلناہوگا۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہمارا تعلیمی نصاب اس معیار پر پورا نہیں اترتا جوطلباء کو ڈگری دینے کے علاوہ انہیں عملی زندگی میں کامیاب اور مہذب شہری بناسکے۔
ہمارے نظام تعلیم کا کوئی سمت متعین نہیں کہ ہمیں اپنے طالب علم کو کیا پڑھانا ہے؟ اور کس طرح پڑھانا ہے؟
ہمارے مدرسوں کا نصاب بجائے تطبیق کے بیشترجذباتیت پر مبنی ہے اور عصری اداروں کے نصاب میں فرسودہ روایات اور گھسی پھٹی کہانیوں کو نصاب کا حصہ بنا کر طلباء کی سوچ کو محدود کر دیا گیا ہے۔
ہر گزرتے دن کےساتھ سائنس ترقی کر رہی ہے۔لیکن ہمارے ہاں آج بھی گزشتہ صدی کا نصاب رائج ہے جس میں کئی نسلوں سے ترمیم نہیں کی گئی۔
عالمی اداروں کی رپورٹ کے مطابق ہم تعلیم کے میدان میں اقوام عالم سے دو دہائیاں پیچھے ہیں۔
نصاب تعلیم نسل نو کی نفسیات و ماحول کے تقاضوں پر پورا نہیں اترتا۔
مشہور فلسفی وہائٹ ہیڈ کا قول ہے “علم زیادہ ہے اور زندگی چھوٹی، اس لیے زیادہ مضامین مت پڑھائیں لیکن جو کچھ پڑھائیں اسے بھرپور انداز میں پڑھائیں”۔
ہمارے یہاں نصاب میں معیار کے بجائے مقدار پرزور دیا جاتا ہے۔
موجودہ دور میں درسی کتابیں اتنی ضخیم ہوچکی ہیں کہ بچے کے لیے ان کا پڑھنا تو کجا اٹھانا بھی بوجھ ہوتا ہے۔
درسی نصاب کی موجودہ کتابوں میں غیر ضروری مواد زیادہ ہوتا ہے جس کا عام زندگی سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔
اس پر ستم بالائے ستم یہ کہ نصاب میں اکثر ابواب اتنے خشک اور بورنگ ہوتے ہیں کہ ان میں بچے کی دلچسپی کے لیے کوئی چیز نہیں ہوتی۔ 
کتابوں کے اسباق بھی بےترتیب ہوتے ہیں جن سے بچوں کو اپنا ذہنی تسلسل برقرار رکھنے میں خاصی دشواری ہوتی ہے۔
نصاب کو عام فہم اور دلچسپ انداز میں ترتیب دیا جانا چاہیے۔
ملک کے مختلف دینی اداروں میں اپنا مخصوص تعلیمی نصاب رائج ہے جو کبھی ایک دوسرے کی نفی بھی کرتا ہے جس کی وجہ سے معاشرے میں تفریق اور عدم توازن کی فضا فروغ پارہی ہے۔
ایک بچے کی زبان کچھ اور ہوتی ہے لیکن اس کا نصاب کسی اور زبان میں ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ نفسیاتی دباؤ کا شکار ہوجاتا ہے۔
جرمنی، فرانس، چین ، جاپان سمیت ایسے کئی ممالک ہیں جنہوں نے اپنی ضروریات کے پیش نظر انگریزی کے بجائے اپنی قومی زبانوں میں تعلیمی نصاب تشکیل دیا اور آج ان کی شرح خواندگی اور معاشی ترقی دنیا کے لیے روشن مثال ہے۔
دینی نصاب تعلیم کا انحصار ریاستی ملکی اور عالمی سطح پر تبلیغی و دعوتی پالیسی پر ہوتا ہے جس میں مستقبل کے اہداف کا تعین کیا جاتا ہے اور درآمدہ ممکنہ مسائل اور چیلنجز کو فیس کرنے کوشش ہوتی ہے۔لہذا وقت اور حالات کے تحت جہاں دیگر ریاستی امور و معاملات تغیرات سے گزرتے ہیں وہیں تعلیمی اہداف کی جہتیں بھی لچکدار ہونی چاہیے۔
[ ] مدارس اسلامیہ میں جدید تعلیمی تکنیک کا فقدان ہے۔ اور جو منہج رائج ہے وہاں تطور عنقا ہے۔جب کہ زمانہ تغیر پذیر اور انسان جدت پسند ہے۔
[ ] (تلخیص ایک غیر مرقوم مضمون سے۔ م ں الأزهري)
[ ] یہ مضمون مدارس دینیہ کے لیے کارگر اور نتیجہ خیز نصاب کی ترتیب کے جذبے سے پوسٹ کر رہا ہوں تاکہ آپ حضرات اس پہلو پر اپنے تجربات و مشاہدات کی روشنی مشورے دیں۔۔۔ امید کہ آپ حضرات اس میں دلجسپی دکھائیں گے اور مفید معلومات فراہم کریں گے۔۔۔

No comments:

Post a Comment

Featured Post

*زحمت، رحمت اور فطرت* حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی جس کی بھلائی چاہتا ہے اس...