Friday, July 19, 2019

ایک رلا دینے والا دلسوز واقعہ

 نظم کی صورت احباب کی خدمت میں
بھرنی تو پڑے گی تمہیں نقصان کی قیمت
بیٹی کے ہر اک خواب کی ارمان کی قیمت
مانگے گی وہ محشر میں گریبان پکڑ کر
تم کیسے چکا پاؤ گے اس جان کی قیمت
اک واقعہ بتلاتا ہوں میں ملکِ عرب کا
وہ دور مدینے میں تھا پیغمبرِ ربﷺ کا
اک آدمی دربارِ نبوتﷺ میں تھا حاضر
ایمان کی دولت ملی وہ پہلے تھا کافر
اس شخص نے آقاﷺ سے کہا ائے مرے آقاﷺ
جس وقت میں کافر تھا تب اک جرم کیا تھا
جو میرا قبیلہ کہے وہ مانتا تھا میں
بیٹی کی ولادت کو برا جانتا تھا میں
گھر میں مرے پیدا ہوئی ایک پھول سی بچّی
پر میں نے اسے اپنی ہی بے عزتی سمجھی
نفرت تھی مجھے اس سے، میں بے زار تھا اس سے
لیکن مری بیوی کو بہت پیار تھا اس سے
اس بچی نے عزّت مری ہر سمت اچھالی
بیٹی کی ولادت پہ مجھے ملتی تھی گالی
بانہوں میں جھلایا، نہ تو کاندھے پہ بٹھایا
میں نے نہ کبھی بیٹی کو سینے سے لگایا
چاہت ہی نہیں تھی، کوئی الفت ہی نہیں تھی
سینے میں مرے اس کی محبت ہی نہیں تھی
معصوم وہ کرتی تھی محبت کے اشارے
اور میں نے اِسی کرب میں کچھ سال گزارے
میں سوچتا رہتا تھا اسے مار ہی ڈالوں
کھوئی ہوئی عزت کو پھر اک بار میں پالوں
اک روز اسے لے کے نکل آیا میں گھر سے
وہ بچی بہت خوش تھی مرے ساتھ سفر سے
وہ توتلے انداز میں کرتی رہی باتیں
سنتا رہا ہنس ہنس کے میں اس بچّی کی باتیں
فرمائشیں کرتی رہی وہ سارے سفر میں
جاگی نہ محبت ہی مگر میرے جگر میں
صحرا میں چلا آیا میں بستی سے نکل کر
بچی بھی وہاں پہونچی مرے ساتھ ہی چل کر
سنسان جگہ دیکھ کے سرشار ہوا میں
اس بچی کی تدفین کو تیار ہوا میں
تب میں نے یہ سوچا کہ یہیں قبر بنالوں
اور آج ہی اس بچی سے چھٹکارا میں پالوں
جب میں نے کیا ایک گڑھا کھودنا جاری
اس وقت مرے ذہن پہ شیطان تھا طاری
گرمی تھی بہت چُور ہوا جب میں تھکن سے
اس وقت پسینہ نکل آیا تھا بدن سے
معصوم سی بچی کو ترس آگیا مجھ پر
ہاتھوں ہی سے اس بچی نے سایہ کیا مجھ پر
دم لینے کو بیٹھا جو ذرا مجھ سا کمینہ
وہ پونچھ رہی تھی مرے چہرے کا پسینہ
رہ رہ کے مرا ہاتھ بٹاتی رہی وہ بھی
اور قبر کی مٹی کو ہٹاتی رہی وہ بھی
میرے نئے کپڑوں پہ لگی قبر کی مٹّی
جو صاف کئے جاتی تھی وہ ننھّی سی بچی
وہ پوچھتی جاتی تھی کہ بتلائیں ناں بابا
کیا کھود رہے ہو مجھے سمجھائیں ناں بابا
میں چپ رہا اب اس کو میں بتلاتا بھی کیسے
وہ بوجھ تھی مجھ پر ، اسے سمجھاتا بھی کیسے
تیّار ہوئی قبر تو بچی کو اٹھایا
اور میں نے اسی قبر میں بچی کو بٹھایا
پہلے تو وہ خوش ہوتی رہی میرے عمل پر
اور خود پہ الٹتی رہی وہ مٹّی اٹھاکر
پھر خوف سے رونے لگی چلانے لگی وہ
ہاتھ اپنے ہلانے لگی لہرانے لگی وہ
ائے بابا مرے جان و جگر آپ پہ قربان
بتلائیے کیوں آپ پہ بھاری ہے مری جان
بس مجھ کو مرا جرم بتادیں مرے بابا
پھر شوق سے جو چاہو سزا دیں مرے بابا
روتی رہی چلاتی رہی پھول سی بچّی
جب تک بھی نظر آتی رہی پھول سی بچّی
اس دن مری رگ رگ میں تھا شیطان سمایا
اس بچی پہ تھوڑا بھی مجھے رحم نہ آیا
زندہ ہی اسے قبر میں دفنا دیا میں نے
اک جان پہ یہ کیسا ستم ڈھا دیا میں نے
وہ آدمی روتا رہا یہ بات بتاکر
اس شخص کے رخسار بھی اشکوں سے ہوئے تر
اک درد سے سرکارﷺ کی آنکھیں ہوئیں پُرنم
دل تھام کے روتے رہے سرکارِ دوعالمﷺ
سرکارﷺ کو جو بات رلائے وہ غلط ہے
اللہ کو جو طیش دلائے وہ غلط ہے
سرکارﷺ کو مانا ہے تو سرکارﷺ کی مانو
ہر بات مرے سیدِ ابرارﷺ کی مانو
اک فرض ملا ہے تو اسے دل سے نبھا لو
بیٹی کو محبت سے دل و جان سے پالو
بیٹی پہ تو جنت کی ضمانت ہے خدا کی
یہ بوجھ نہیں ہے یہ امانت ہے خدا کی
للہ کبھی بیٹی سے نفرت نہ کرو تم
قانونِ شریعت سے بغاوت نہ کرو تم
دنیا میں تم آئے ہو تو واپس بھی ہے جانا
محشر میں نہ پڑجائے تمہیں چہرہ چھپانا
فرحان کی نظروں میں ہے وہ شخص دوانہ
فرحان کی باتوں کو جو سمجھے گا فسانہ
بیٹی کی محبت میں کہیں بھول نہ جانا
بیٹی تو ہے اللہ کا انمول خزانہ
امت سے یہی کہہ گئے حسنین کے ناناﷺ
بیٹی تو ہے اللہ کا انمول خزانہ
جنت میں یہی تمکو دلائے گی ٹھکانہ
بیٹی تو ہے اللہ کا انمول خزانہ
بیٹی کی محبت سے مہکتا ہے گھرانہ
بیٹی تو ہے اللہ کا انمول خزانہ
بیٹی تو ہے اللہ کا انمول خزانہ
بیٹی تو ہے اللہ کا انمول خزانہ

No comments:

Post a Comment

Featured Post

*زحمت، رحمت اور فطرت* حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی جس کی بھلائی چاہتا ہے اس...