Wednesday, July 31, 2019

مغربی سیاست کا خطرہ، گذشتہ سے پیوستہ۔۔۔

مغربی سیاست کا خطرہ، گذشتہ سے پیوستہ۔۔۔: Valuable articles, World Domain,writers and thinkers in various languages, a collection of articles on humanity and socialism,

3 तलाक* पर कुछ ज़रुरी बातें

3 तलाक पर कुछ ज़रुरी बातें

जो मुस्लिम समाज कि माँ बहनों को समझना चाहिए.....  या उनको समझाना चाहिए गुजारिश है कि पोस्ट पूरी पढ़ें....

(1)मर्द ने गुस्से में आकर तलाक बोल दिया​
(2) ​औरत ने भी गुस्से में पुलिस में शिकायत कर दी​
(3) ​पुलिस ने मर्द को गैर जमानती अपराध में जेल में    डाल दिया​
(4) ​अब औरत की जिम्मेदारी है कि वह साबित करे कि मर्द ने तलाक बोला है जो कि बहुत मुश्किल है।​
(5) ​साबित हो गया तो मर्द को 3 साल कैद की सजा।
(6) ​अब औरत और बच्चों को कोन देखेगा?​
(7) ​औरत अब दुसरी शादी भी नहीं कर सकती क्योंकि सुप्रीम कोर्ट के आदेश के अनुसार उनका तलाक नहीं हुआ​
(8) ​अब उस औरत के सास ससुर, देवर जेठ ननद उसको उसी घर में रखेंगे क्या जिनके बेटे को उसने जेल में बंद करा दिया?​
(9) ​अब मर्द क्या उस औरत को अपनी बीवी मानेगा जिसने उसे 3 साल जेल की सजा दिलवाई?​किसी भी हालत में नहीं
(10) ​अब वो मर्द उसे कानूनी तौर पर तलाक देगा।​
(11) ​इस सब प्रक्रिया में जो उनमें आपसी सुलह की गुंजाइश थी वह भी खत्म हो जाएगी​
इस तरह मियां बीवी और उनके बच्चों की जिन्दगी बर्बाद हो जाएगी
​जो पार्टी हम मुसलमानों को गद्दार, देशद्रोही, कटवा, मुल्ला, आतंकवादी, पाकिस्तानी​ से सम्बोधित करती हैं जो ​गाय, बीफ और लव जिहाद के नाम पर मुसलमानों का कत्ल करती​ हैं, क्या वो कभी ​मुसलमानों का भला​ सोच सकती हैं?
​तीन तलाक बिल मुसलमान, शरियत और मुस्लिम औरतों के हक में नहीं बल्कि मर्द और औरत के खिलाफ़ हैं।

ڈیجیٹل ٹکنالوجی دنیا کا چیلنج /Digital Universal Challenges

Islamic Culture is a platform of interpersonal intelligence. Valuable articles, scientific research and valuable words for great researchers, multilingual writers and thinkers. A collection of articles on humanity and socialism, and how Islam leads towards peace and satisfaction.




ڈیجیٹل ٹکنالوجی دنیا کا چیلنج /Digital Universal Challenges: Valuable articles, World Domain,writers and thinkers in various languages, a collection of articles on humanity and socialism,

बाज़" ऐसा पक्षी जिसे हम ईगल भी कहते है।

"बाज़" ऐसा पक्षी जिसे हम ईगल भी कहते है।
 जिस उम्र में बाकी परिंदों के बच्चे चिचियाना सीखते है उस उम्र में एक मादा बाज अपने चूजे को पंजे में दबोच कर सबसे ऊंचा उड़ जाती है। पक्षियों की दुनिया में ऐसी Tough and tight training किसी भी ओर की नही होती।
मादा बाज अपने चूजे को लेकर लगभग 12 Kmt. ऊपर ले जाती है। जितने ऊपर आधुनिक जहाज उड़ा करते हैं और वह दूरी तय करने में मादा बाज 7 से 9 मिनट का समय लेती है।
यहां से शुरू होती है उस नन्हें चूजे की कठिन परीक्षा। उसे अब यहां बताया जाएगा कि तू किस लिए पैदा हुआ है? तेरी दुनिया क्या है? तेरी ऊंचाई क्या है? तेरा धर्म बहुत ऊंचा है और फिर मादा बाज उसे अपने पंजों से छोड़ देती है। धरती की ओर ऊपर से नीचे आते वक्त लगभग 2 Kmt. उस चूजे को आभास ही नहीं होता कि उसके साथ क्या हो रहा है। 7 Kmt. के अंतराल के आने के बाद उस चूजे के पंख जो कंजाइन से जकड़े होते है, वह खुलने लगते है।
लगभग 9 Kmt. आने के बाद उनके पंख पूरे खुल जाते है। यह जीवन का पहला दौर होता है जब बाज का बच्चा पंख फड़फड़ाता है।
अब धरती से वह लगभग 3000 मीटर दूर है लेकिन अभी वह उड़ना नहीं सीख पाया है। अब धरती के बिल्कुल करीब आता है जहां से वह देख सकता है उसके स्वामित्व को। अब उसकी दूरी धरती से महज 700/800 मीटर होती है लेकिन उसका पंख अभी इतना मजबूत नहीं हुआ है की वो उड़ सके।
धरती से लगभग 400/500 मीटर दूरी पर उसे अब लगता है कि उसके जीवन की शायद अंतिम यात्रा है। फिर अचानक से एक पंजा उसे आकर अपनी गिरफ्त मे लेता है और अपने पंखों के दरमियान समा लेता है।
यह पंजा उसकी मां का होता है जो ठीक उसके उपर चिपक कर उड़ रही होती है। और उसकी यह ट्रेनिंग निरंतर चलती रहती है जब तक कि वह उड़ना नहीं सीख जाता।
यह ट्रेनिंग एक कमांडो की तरह होती है। तब जाकर दुनिया को एक बाज़ मिलता है अपने से दस गुना अधिक वजनी प्राणी का भी शिकार करता है।
हिंदी में एक कहावत है... *"बाज़ के बच्चे मुँडेर पर नही उड़ते।"*
बेशक अपने बच्चों को अपने से चिपका कर रखिए पर उसे दुनियां की मुश्किलों से रूबरू कराइए, उन्हें लड़ना सिखाइए। बिना आवश्यकता के भी संघर्ष करना सिखाइए।
वर्तमान समय की अनन्त सुख सुविधाओं की आदत व अभिवावकों के बेहिसाब लाड़ प्यार ने मिलकर, आपके बच्चों को "ब्रायलर मुर्गे" जैसा बना दिया है जिसके पास मजबूत टंगड़ी तो है पर चल नही सकता। वजनदार पंख तो है पर उड़ नही सकता क्योंकि "गमले के पौधे और जंगल के पौधे में बहुत फ़र्क होता है।"

طلاق بل یعنی 30 جلائی 2019 کے بعد کیا؟

اب  ہمارے  لئے  دو  ہی  راستے  بچ  گئے  ہیں گزشتہ کل  ۳۰ جولائی ۱۹ ء کو راجیہ سبھا (ایوان بالا ) میں بھی طلاق بل کو منظوری مل گئی، جبکہ لوک سبھا میں تین بار حکمراں جماعت نے اس بل کو پاس کرایا ، یہ خبر یقینا ہم مسلمانوں کے لئے انتہائی تکلیف دہ اور افسوس ناک ہے لیکن اس سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے، اللہ تعالٰی شر میں بھی خیر کا پہلو نکالتا ہے ۔           کفر اور طاغوتی طاقت ایک پلیٹ فارم پر جمع ہے وہ ہمیں زیر کرنے کے لئے اور ہمارے عائلی نظام کو بدلنے اور کمزور کرنے  کے لئے ایڑی چوٹی کا زور صرف کر رہے ہیں اور کرتے رہیں گے ۔ اس بل کی نا معقولیت اور اس کے کمزور اور بے تکا ہونے پر اپنے اور غیروں نے کھل کر بحثیں کیں ۔ لیکن اس کے باوجود حکومت کی آنکھیں نہ کھلیں،اور ان پر جوں تک نہ رینگا ۔ جس سے یہ صاف ہوگیا کہ اس کا مقصد خواتین کو تحفظ فراہم کرنا نہیں بلکہ مسلمانوں کے عائلی اور معاشرتی قوانین کو نشانہ بنانا ہے ۔                     اب اگر ہم ان طاقتوں کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں تو ہمارے پاس دو ہی راستے ہیں ایک اپنی صفوں میں اتحاد و اجتماعیت اور دوسرا اسلامی احکام و مسائل عبادات و معاملات شرعی اور عائلی قوانین پر سو فیصد عمل ۔
اگر ہم نے موجودہ حالات میں ان دو راستوں کو نہیں اپنایا اور ان پر عمل پیرا نہیں ہوئے تو آگے اور مشکل اور دشوار و ناگفتہ بہ حالات کو جھیلنے کے لئے ہم تیار رہیں ۔
              اس کے لئے سب سے پہلے حضرات علماء کرام کو آگے آنا پڑے گا اور خود کو سو فیصد نمونہ بنانا پڑے گا کہ وہ اپنی عملی زندگی کو شریعت کے مطابق ڈھالیں اور اپنے مقدمات کو خود دار القضا میں حل کرائیں ۔      امت میں شریعت بیداری مہم کو رسمی نہیں بلکہ حقیقی صورت میں انجام دیں اس درد اور سوز کے ساتھ امت کے پاس جائیں کہ وہ شریعت کی پاسداری اور اس پر عمل کرنے پر مجبور ہو جائیں انہیں بتائیں کہ شریعت سے دوری ہی کی وجہ سے دشمن کو یہ موقعہ ملا ہے   اور وہ آج ہماری شریعت کا مذاق اڑا رہے ہیں ۔ اس میں دخل اندازی کر رہے ہیں  ۔ میاں بیوی میں شکایت اور  اختلاف ہو تو پہلے مرحلے میں وہ اوروں کو شامل کئے بغیر خود باہم گلے شکوے دور کریں ۔ اگر وہ اس اختلاف کو دور نہ کرسکیں تو اپنے خاندان کے مخلص حضرات کو جو اس رشتہ کے تئیں ہمدردی رکھتے ہوں ان کو اس میٹر میں شریک کریں اور ان کو فیصل اور حکم مان کر اپنے قضیہ کو رفع کرائیں ۔            اگر فیصل اور حکم کے تصفیہ کے بعد بھی معاملہ جوں کا توں رہے تو مرد کو حق ہے کہ وہ ایک طلاق دے اور دوران عدت اگر احساس ہوجائے تو رجوع کرلے ورنہ یہ طلاق رجعی   عدت کے بعد طلاق  بائن ہوجائے گی ۔ اب دونوں کہیں بھی اپنا رشتہ کرسکتے ہیں ۔ اگر  بعد میں کبھی یہ دونوں خود آپس میں نکاح کرنا چاہیں تو اس کی گنجائش باقی رہے گی ۔                       عام مسلمانوں کو شریعت کا علم بالکل نہیں ہے ان کو بتایا جائے کہ تین طلاق بیک وقت دینا انتہائی بری بات اور نازیبا عمل ہے ۔ اس لئے اس سے بچیں اور اگر مجبوری آجائے تو شریعت نے اسٹیپ بائے اسٹیپ جو طریقہ بتایا ہے اس پر عمل کریں ۔ مسلم اور غیر مسلم وکلاء جو طلاق نامہ تیار کرتے ہیں اس میں تین طلاق ہی  لکھتے ہیں اور اس پر دستخط کرواتے ہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ تین طلاق دینے ہی سے طلاق واقع ہوتی ہے ۔ ان کو کچھ بھی پتہ نہیں رہتا اس لئے ایسے موقع شریعت کے ماہر عالم کو ضرور بلایا جائے اور ان کی موجودگی میں ان کے ذریعے طلاق نامہ تیار کیا جائے ۔          لڑکی اور لڑکے کے بے جوڑ نکاح سے بچا جائے اور کفو اور معیار کا خیال رکھ کر رشتہ کرایا جائے صرف دولت اور پیسے کے بنیاد پر رشتہ نہ کیا جائے بلکہ بہتر ہوگا کہ کسی ذریعہ سے لڑکی کی پسند اور ناپسند بھی معلوم کرلی جائے لڑکا اور لڑکی کی جبری شادی نہ کی جائے ۔         ہر گاؤں اور محلہ کی سطح پر مسلمانوں کی کوئ تنظیم ہو جو امارت یا جمعیت یا پرسنل لا کے ماتحت ہو علماء اس کی سرپرستی کریں اور اس طرح کے مسائل کو آپس ہی میں حل کرنے کی کوشش کریں یا دار القضا سے حل کرائیں ۔ عصری عدالت جانے کی نوبت ہی نہ آئے ۔ پوری منصوبہ بندی کے ساتھ مسلمانوں کو عائلی نظام اور اسلام کے معاشرتی قوانین سے باخبر کریں اور اس کی خوبیوں حکمتوں اور اچھائیوں سے لوگوں کو واقف کرائیں ۔         
         دوسری طرف موجوہ حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے اور باطل سے آنکھ ملانے کے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنی کھوئ ہوئ طاقت کو واپس لائیں ہم متحد ہوں اور اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں ۔                 یاد رکھیں *امت مسلمہ* اس وقت بہت ہی نازک اور مشکل دور سے گزر رہی ہے ، دن بدن حالات بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں ۔ اسلام کے خلاف نفرت کا ماحول بنایا جارہا ہے ، دشمنان دین ہر چہار جانب سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ریشہ دوانیوں میں مصروف ہیں ۔ میڈیا چاہے مغربی ہو یا مشرقی یہ پورا پورا بکتا ہوا نظر آرہا ہے ۔ وہ لوگ پوری طاقت اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے اور زہر گھولنے میں صرف کر رہے ہیں ۔ تو دوسری طرف مسلمان خود آپس میں تسبیح کی دانوں کی طرح بکھر گئے ہیں ان کا شیرازہ منتشر ہوگیا ہے ، وہ مسلکی اور گروہی اختلاف کو دین کی خدمت سمجھ کر انجام دے رہے  ہیں۔ بہت سے لوگ تو اب اسلام اور دین کی نہیں مسلک کی تبلیغ میں طاقت و قوت صرف کر رہے ہیں اور مال و زر کا لالچ دے کر اپنے مسلک کو قبول کرنے پر آمادہ کر رہے ہیں ۔ وہ حضرات جن کو قدرت نے بلا کی ذہانت و فطانت صلاحیت و لیاقت اور فراست و عبقریت سے نوازا تھا اور جن کے اندر یہ صلاحیت تھی کہ وہ قوم و ملت کی مثبت قیادت کریں اور بیاباں کی شب تاریک میں قندیل رہبانی کا فریضہ انجام دیں وہ حضرات بھی اپنا اعتماد کھوتے نظر آرہے ہیں اور غیر ضروی بحث و مباحثہ اور بے وقت کے موضوعات میں اپنی توانائیاں صرف کرنے میں لگے ہوئے ہیں جن کی وجہ سے عوام و خواص میں بہت ہی غلط فہمیاں پیدا ہو گئی ہیں اور ان غلط فہمیوں کا سلسلہ دراز ہوتا جا رہا ہے  ۔         موجودہ حالات اور ملت اسلامیہ کا یہ انتشار و افتراق ہم سب سبے نظم و اتحاد کا طالب ہے یہ امت جو قیام عدل و انصاف کے لئے برپا کی گئ تھی اور لوگوں کے نفع رسانی کے لئے وجود میں آئ تھی آج قعر مذلت میں گرتی چلی جارہی ہے اپنی برتری اور افضلیت کھوتی چلی جارہی ہے ان حالات میں ضرورت ہے کہ اس کو اس کے منصب عظیم اور مقام بلند سے واقف کرایا جائے ۔              لیکن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  افسوس   کہ    نیکی اور معروف کی اشاعت بدی اور فساد کے خاتمہ کے لئے جس گروہ کو پیدا کیا گیا تھا وہ آج خود فساد میں مبتلا ہو گیا اور آج اس فساد و بگاڑ اور اختلاف کی وجہ سے خود اپنی زبوں حالی اور ہمہ جہت پسماندگی کے سبب دوسروں کے لئے درس عبرت بن گیا ہے ۔    ضرورت ہے کہ اختلاف و انتشار کو ختم کیا جائے اور امت میں نئے سرے سے امنگ و حوصلہ پیدا کیا جائے کہ وہ پھر جادئہ حق و صداقت پر گامزن ہو سکے ۔              ہمیں کسی حال میں اس حقیقت کو بھولنا اور فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ اتحاد و اتفاق کسی بھی قوم وملت کا قیمتی سرمایہ اور اس کے تحفظ و بقا کا ضامن ہوا کرتا ہے جو قوم اتحاد و اتفاق اور اجتماعیت و یکجہتی سے بہرہ ور ہوتی ہے اور اس دولت سے مالا مال ہوتی ہے وہی قوم اور ملت زمانہ میں پنپتی ابھرتی نکھرتی اور عروج و بلندی کی منزلیں طے کرتی ہے اس سے وہ اپنے وجود اور اپنی حیثیت کو باقی رکھتی ہے ۔ یہ اتحاد و اتفاق اور اجتماعیت امت مسلمہ کے لئے تو بمنزلہ محور و مرکز ہے عقیدئہ توحید سے لے کر تمام عبادات و اعمال میں یہی حقیقت و اجتماعیت جلوہ گر نظر آتی ہے ۔ قرآن و حدیث میں ہمیں جابجا اجتماعیت اور اتحاد و اتفاق پر زور دیا گیا ہے اور اختلاف و انتشار سے بچنے بلکہ اس دور رہنے کی تاکید کی گئ ہے ۔                   لیکن افسوس کہ  پڑا لکھا انتہائی کریم جنئیس اور انٹکیچول طبقہ بھی جو آیت قرآنی *ولا تنازعوا فتفشلوا وتذھب ریحکم* (اور مت جھگڑوا ورنہ ناکام ہو جاو گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی) پر چیخ چیخ کر گھنٹوں تقریر کرتا  ہے طلاقت لسانی کا جوہر دکھلاتا ہے  وہ خود اختلاف و انتشار کا معجون مرکب بنا رہتا ہے  ۔ ان کا خود کسی سے اتحاد نہیں یہ لوگ ہر جگہ اپنی ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد بنائے رہتے ہیں جب قوم کے رہبر اور واعظ خود عملی زندگی سے خالی ہوں گے بے عمل ہوں گے تو صرف زبانی زباں خرچ سے ملت کی تقدیر کبھی  نہیں بدلی ہے اور نہ بدلے گی ۔                     آج جب کہ اس امت کو (اور خصوصا ملت ہندیہ کو) نوع بنوع یورش و یلغار کا سامنا ہے اور ان حملوں کا نشانہ اس کا تشخص ،عقائد نظریہ دین و زندگی، تصور خالق و مخلوق اور تصور دنیا و آخرت ہے اور مقصد ان سب کو تبدیل کردینا ہے ایسے میں اس نئے طاغوتی طاقتوں اور طاغوتی نظام کے مقابلے میں یہ امت صرف اسی وقت کھڑی ہوسکتی ہے کہ اپنے رب کی رسی کو مضبوطی سے تھام لے آپس میں سیسہ پلائی دیوار بن جائے ۔ اور اپنے نہ ٹوٹنے والے مستحکم ستون سے پوری طرح چمٹ جائے ۔             حضرت امام مالک رحمہ اللہ کا وہ قیمتی فارمولا بھی ہمیں اپنے سامنے رکھنا پڑے گا ۔ انہوں نے فرمایا تھا *لا یصلح آخر ھذہ الأمة الا بما صلح بہ اولھا*
اس امت کے بعد کے دور کی اصلاح صرف اسی طریقے سے ہوسکتی ہے جس سے پہلے دور کی ہوئی تھی ۔ اور دور اول کی اصلاح کتاب و سنت اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے سے ہوئ تھی ۔
اللہ تعالٰی ہم سب کو اس کی توفیق بخشے آمین اور امت کو اجتماعیت کی لڑی میں پیرو دے آمین.

बुरा समय एक अवसर भी होता है।

ईमानदारी से कहूं तो मुस्लिम समाज में भी एक नए और आधुनिक समाज सुधार आन्दोलन की आवश्यकता है। शिक्षा, रोज़गार, आधुनिक दृष्टि, जेंडर जस्टिस और फ़िरक़ों के बीच की नफरत को दूर करने के लिए अगर एक व्यापक सामाजिक आन्दोलन इस समाज के भीतर हो सका तो वह न केवल मुसलमानों बल्कि पूरे देश के लिए शानदार होगा। अगर ऐसा आंदोलन पहले हुआ होता तो तीन तलाक़ समाज के भीतर से ही ख़त्म किया जा सकता था और उसका फ़ायदा उठाने का किसी और को मौक़ा नहीं मिलता।
बुरा समय एक अवसर भी होता है।

تین طلاق بل کے بعد کی تدبیریں

تین طلاق بل ایوان بالا سے بھی منظور ہوگیا ہے اور اب یہ صدر جمہوریہ کے دستخط کے بعد اس ادھیادیش کی جگہ لے گا جو تقریبا دوسالوں سے نافذالعمل ہے۔گر چہ پچھلے دوسالوں میں اس تعلق سے مسلمانوں پہ کوئی بڑی مصیبت نازل نہیں ہوئی۔ باوجود اس کے کہ یہ (ادھیادیش)قانون سراسر ظلم و ناانصافی پہ مبنی ہونے کے ساتھ ساتھ مسلم پرسنل لاء اور ہمارے دین میں مداخلت ہے۔
اب جب کہ یہ بل قانونی شکل لینے والا ہے لہذا ہمیں اس کے بعد کی تدبیریں کرنا ناگزیر ہے تاکہ اس کالا قانون کے دینی و دنیاوی مضر اثرات کو کم سے کم تر کیا جاسکے۔
اس حوالے سے درج ذیل منصوبوں پہ کام کرنے کی سخت ضرورت ہے۔
1. قرآن و سنت کے مطابق احسن طریقہ طلاق کوعوامی موضوع سخن بنا کر خوب عام کیا جائے۔
2. ایک ساتھ تین طلاق جو قرآن و سنت کے خلاف اور حرام ہے،نیز موجودہ جبریہ ملکی قانون کے بھی خلاف ہے۔ اس لیے اس کو بھی ممبرومحراب سے لیکر چائے اور پان کی دکان تک عوامی مذاکرہ کی شکل دی جائے۔اور لوگوں کو تین طلاق سے بچنے کی سمت تاکید کی جائے۔
3. عام لوگ جو دین و سنت سے واقف نہیں ہیں وہ یہ سمجھتے ہیں کہ بیوی سے جدائی کے لیے تین طلاق دینا ضروری ہے چنانچہ ان پر جب جہالت کی کیفیت طاری ہوتی ہے تو وہ تین طلاق کہہ دیتے ہیں اور جب ہوش آتا ہے تو خود کو مصیبتوں میں گھراہوا محسوس کرتے ہیں اور افسوس کرتے ہیں جس کا کوئی فائدہ نہیں۔لہذا اس حوالے سے انہیں طلاق کے مسائل سکھائے جائیں۔
4. ایک طلاق سے ہی عدت گزرنے کے بعد بیوی جدا ہوجاتی ہے اور وہ دوسرے سے نکاح کر سکتی ہے اور اسی طرح  شوہر بھی آزاد ہو جاتا ہے ۔مذکورہ باتیں لوگوں کے دل و دماغ میں بٹھانے کی ضرورت ہے کہ بیوی سے مکمل جدائی کے لیے ایک ہی طلاق کافی ہے۔اور ایک ساتھ تین طلاق دینا شرعا حرام اور قانونا جرم ہے۔
جب ان باتوں سے عام مسلمانوں کی مکمل واقفیت ہوگی تو حالات جیسے بھی ہوں اور جس قدر بھی غصے کی کیفیت کیوں نہ ہو اس کے منہ سے ایک ہی طلاق نکلے گا اور وہ دو اور تین طلاق کہ طرف بڑھنے کی کوشش بھی نہیں کرے گا۔
إن شاء الله اگر ہم ایسا کر سکیں تو یقینا ہم گناہوں سے بھی بچیں گے اور ملکی قانون کے مضر اثرات سے بھی۔
5۔ میری ذاتی رائے ہے کہ علمائے دین و قائدین ملت ملک بند،روڈجام اور احتجاجی جلسہ و جلوس کو چھوڑ کر عوامی بیداری تحریک چلائیں اور تعلیمی بیداری کے ساتھ اتحاد و اتفاق کی ایسی مہم شروع کریں کہ ہم متحد ہو جائیں۔ ساتھ ہی ان معاملات کو ایسی خوبصورتی کے ساتھ عمل میں لائیں کہ حکومت کے برے منشاء پہ پانی پھر جائے۔
حکومت اس بل کو لاکر یہ چاہتی ہے کہ ہم مسلمان ٹکڑوں میں تقسیم ہوکر ذلیل و خوار ہوں اور ہمارے جذبات کا استحصال ہوتا رہے۔اگر مسلم قائدین اس مصیبت کو مسلمانوں کے لیے فال نیک بنانے میں کامیاب ہو جائیں تو یہ کارنامہ یقینی طور پر ایمانی بصیرت کا نتیجہ ثابت ہوگا۔
محمد شہادت حسین فیضی

ट्रिपल तलाक विधेयक मुस्लिम महिलाओ के लिए काला कानून

ट्रिपल तलाक विधेयक मुस्लिम महिलाओ के लिए काला कानून: एदार ए शरिया झारखंड..
रांची: एदार ए शरिया झारखंड का प्रेस कॉन्फ्रेंस  प्रदेश कार्यालय इस्लामी मरकज हिन्द पीडी रांची में एदार ए शरीया झारखंड के नाजिमे आला मौलाना कुतुबुद्दीन रिजवी की अध्यक्ष
Add caption
ता में हुई। जिस में ट्रिपल तलाक से संबंधित केंद्र सरकार द्वारा लोक सभा  और राज्य सभा में पारित किए जाने  पर चर्चा हुई एवं इस के हर कानूनी पहलू पर विस्तार से शरीअत एवं संविधान के जानकारों ने अपनी बातें रखीं. विचार विमर्श के बाद सर्वसम्मति से निर्णय लेकर कहा गया कि किंन्द्र सरकार द्वारा लाएगए ट्रिपल तलाक कानुन मुस्लिम महिला विरोधी है इस कानून से उन मुस्लिम महिला को मानसिक, आर्थिक एवं शारीरिक परेशानी बढ़ेगी जो ट्रिपल तलाक से पीड़ित होंगी. चुंके कानुनु के अनुसार जब एक पति अपनी पत्नी को तीन तलाक देगा तो वह तलाक मान्य नहीं होगी और तलाक देने के बावजूद पीड़ित महिला तलाक देने वाले पति की पत्नी रहेगी फिर उस मुस्लिम महिला के पति को क्रिमिनल एकट के तेहत तीन वर्षो की सजा सीधे तोर पर हो जाएगी. सरकार कहती है कि इस दोरान पत्नी एवं बचों का खर्चा पति देगा प्रश्न ये है कि जब पति जेल में बंद कर दिया गया है तो वह खर्च कैसे दे पाएगा बैंक से पैसे निकालने या अपनी संपत्ति बेचने का समय भी नहीं दिया गया फिर अचानक पत्नी अपना एवं अपने बाल बचों की देख रेख स्कूल खान पान फीस दवा एलाज इतनी सारी जिम्मेदारीयौं से वह मुस्लिम महिला मानसिक, शारीरिक एवं आर्थिक रूप से अतिरिक्त टूट जाएगी. फिर सरकार का कहना है कि उस का पति जब जेल से तीन वर्षों बाद बाहर आएगा तो पत्नी को उसी तरह उसी के साथ रहना पडेगा। एदारा ने कहा कि इस जटिल परकरण से मुस्लिम महिला का जीवन नरक बन जायगा एवं उसके लिए जिन्दगी जीना दुश्वार हो जाएगा. उस महिला की तकलीफें बढ़ जाएंगी एवं तनाव पूर्ण जीवन हो जाए गी।ऊलामा ए केराम ने कहा कि शरीअत के अनुसार एक साथ तीन तलाक देने से तीन तलाक मानी जाएगी एवं तलाक देने वाला पति गुनाहगार होगा उस पर दैन मोहर एवं ईददत खर्च वाजिब है पत्नी का सारा सामान भी देना होगा। ऊलामा ने कहा कि उसे तीन नहीं पांच वर्षों की सजा सुनाई जानी चाहिए लेकिन सरकार तलाक को तलाक तो पहले मान कर पत्नी को तो आजाद करने का कानून लाकर पीड़ित महिला को सशक्त करे मगर सरकार को तो चुनावी लाभ लेना है इस लिए मुस्लिम महिला को विकास के रास्ते पर लेजाना नहीं चाहेगी। बैठक में इस विधेयक का कड़ा विरोध किया गया एवं इस को मुस्लिम महिला विरोधी के साथ संविधान में दी गई धार्मिक स्वतंत्रता के विपरीत करार देते हुए नफरत की सेयासत करने एवं मुस्लिम महिलाओं के अधिकारों पर हमला करने का आरोप केंद्र सरकार पर लगाकर देश को कमजोर करने की साजिश बताया. और कहा कि केंद्र सरकार की नीयत साफ है तो हर सरकारी विभागों में 33% आरक्षण निर्धारित कर के दिखाए साथ ही जिन मुस्लिम महिलाओं के पति मॉब लिनचिंग के शिकार हुवे उन महिलाओं के साथ इन्साफ करे. बैठक में एदारा शरिया झारखंड के नाजिमे आला मोलाना क़ुतुबुद्दीन रिजवी, मोलाना जासीमुददीन खां, कारी ऐयूब रिजवी, मुफ्ती अब्दुल मालिक मिस्बाही, मोलाना डॉ ताजउद्दीन रिजवी, मोलाना नेजामुउद्दीन मिस्बाही, मोलाना मुफ्ती फैजूल्लाह मिस्बाही, मोलाना मुजीबउर रहमान, अधिवक्ता इरशाद खान, अधिवक्ता इम्तियाज अली, प्रो अब्दुल कायूम अंसारी, मोलाना मुफ्ती अब्दुल कुद्दूस मिस्बाही, मोलाना अशरफउल्ला फैजी, एस एम मोइन, मोलाना रे‍याजूद्दीन, मौलाना अब्बास, मौलाना आफताब ज़िया, मौलाना शाहिद रज़ा, मौलाना गुलाम हैदर, हाफिज जावेद, मौलाना मंज़ूर हसन बरकाती, मौलाना वारिस जमाल, मौलाना नसीम अख्तर ताज, मौलाना शमशाद मिस्बाही, मौलाना नेजाम मिस्बाही, आदी शामिल थे.
मौलाना कुतुबुददीन रिजवी 

9199780992

तलाक पर कुछ jaruri points

3 तलाक पर कुछ jaruri points..जो मुस्लिम समाज कि माँ बहनो को समझना चाहिए.....  या उनको समझाना चाहीये गुजारिश है कि पोस्ट पूरी पढ़े....
  • (1)मर्द ने गुस्से में आकर तलाक बोल दिया​
  • (2) ​औरत ने भी गुस्से में पुलिस में शिकायत कर दी​
  • (3) ​पुलिस ने मर्द को गैर जमानती अपराध में जेल में डाल दिया​
  • (4) ​अब औरत की जिम्मेदारी है कि वह साबित करें कि मर्द ने तलाक बोला है जो कि बहुत मुश्किल है।​
  • (5) ​साबित हो गया तो मर्द को 3 साल कैद की सजा।​
  • (6) ​अब औरत और बच्चों को कोन देखेगा?​
  • (7) ​औरत अब दुसरी शादी भी नहीं कर सकती क्योंकि सुप्रीम कोर्ट के आदेश के अनुसार उनका तलाक नहीं हुआ​
  • (8) ​अब उस औरत के सास ससुर, देवर जेठ ननद उसको उसी घर में रखेंगे क्या जिनके बेटे को उसने जेल में बंद करा दिया?​
  • (9) ​अब मर्द क्या उस औरत को अपनी बीवी मानेगा जिसने उसे 3 साल जेल की सजा दिलवाई?​किसी भी हालत में नहीं1
  • (10) ​अब वो मर्द उसे कानूनी तौर पर तलाक देगा।​
  • (11) ​इस सब प्रक्रिया में जो उनमें आपसी सुलह की गुंजाइश थी वह भी खत्म हो जाएगी​
इस तरह मियां बीवी और उनके बच्चों की जिन्दगी बर्बाद हो जाएगी
​जो पार्टी हम मुसलमानों को गद्दार, देशद्रोही, कटवा, मुल्ला, आतंकवादी, पाकिस्तानी​ से सम्बोधित करती हैं जो ​गाय, बीफ और लव जिहाद के नाम पर मुसलमानों का कत्ल करती​ हैं, क्या वो कभी ​मुसलमानों का भला​ सोच सकती हैं??

​तीन तलाक बिल मुसलमान, शरियत और मुस्लिम औरतों के हक में नहीं बल्कि मर्द और औरत के खिलाफ़ हैं।
भाजपा चाहती है दोनों अलग होंगे पति जेल में मरेगा और पत्नी दर दर भटक कर कोई गन्दा काम कर लेगी
जो मुस्लिमों को बर्बादी कि तरफ लें जायेगी

यह सरकार मुस्लिमों के ख़िलाफ़ है. ((((यह पोस्ट मुस्लिम समाज की ओरतो को समझाने के लिए है ईसपर गैर मुस्लिम बहस न करे ।

طلاق ثلاثہ بل کے پاس ہونے کے بعد

طلاق ثلاثہ بل کے پاس ہونے کے بعد اب لکھنے سے زیادہ یہ کام کرنے کی ضرورت ہے:

  • سپریم کورٹ میں فوراً اسے چیلینج کیا جائے.
  • پروگراموں کے ذریعہ اس کی خامیوں سے عام مسلمانوں کو آگاہ کیا جائے.
  • نام نہاد سیکولر پارٹیوں کا علی الاعلان بائیکاٹ کیا جائے.
  • طلاق ثلاثہ کے مقدمات میں پھنسنے والے لوگوں کے مقدمات کی پیروی کرنے کے لئے لیگل سیل بنایا جائے.
  • صوبائی سطح پر غیر بھاجپائی سرکاروں سے اپیل کی جائے کہ وہ اس بل کی مخالفت میں اپنی اپنی ایوان میں بل پیش کریں.
  • علاوہ ازیں علماء کو ایئر کنڈیشن سے نکل کر عوام میں بیداری مہم چلانی چاہئے تاکہ عوام اس آفت کا شکار ہونے سے بچیں اور دارالقضاء کی اہمیت و افادیت کو واضح کیا جائے تاکہ لوگ کورٹ کے بجائے دارالقضاء سے رجوع کریں.
مہدی حسن عینی

Tuesday, July 30, 2019

موب_لنچنگ کا حکیمانہ آزمودہ علاج

امریکہ کی افریقی نژاد آبادی نے لنچنگ کا مقابلہ کیسے کیا!
یاسر ندیم الواجدی
ماب لنچنگ نہ بھارت کے لیے نئی چیز ہے اور نہی ملک سے باہر دنیا کے لیے۔ البتہ منظم ماب لنچنگ کی روایت بھارت میں نئی ہے، جب کہ امریکہ میں 1882 سے شروع ہوکر یہ روایت 1981 میں ختم ہوئی۔ لہذا یہ سمجھنا ضروری ہے کہ افریقی نژاد لوگوں نے منظم ہجومی تشدد کا کیسے مقابلہ کیا اور وہ کیا اسباب وعوامل تھے جن کی بنیاد پر سو سال کے عرصے میں 3446 لوگوں کو تشدد کرکے ہلاک کیا گیا۔ واضح رہے کہ مذکورہ عدد ایک اندازے کے مطابق ماب لنچنگ کے مجموعی کیسسز کا ایک چوتھائی سے بھی کم ہے۔ اس اعتبار سے امریکہ میں ہر ڈھائی دن میں ایک لنچنگ کا واقعہ ہوا ہے۔
1899 میں دی لنچنگ پرابلم کے عنوان سے ایک کتاب شائع ہوئی تھی جو اس وقت لائبریری آف کانگریس میں محفوظ ہے۔ مصنف نے اس وقت جو کچھ لکھا ہے، اس کا آج سے موازنہ کیجیے اور دیکھیے کہ بھارت میں ہجومی تشدد کرنے والوں اور امریکہ میں لنچنگ کرنے والوں کے درمیان کس قدر یکسانیت ہے، گویا آج کے دہشت گردوں نے اس دور کے دہشت گردوں کے حالات پڑھ کر یہ اقدامات شروع کیے ہیں۔ کتاب کے مطابق: "لنچنگ کا مقصد کالوں میں خوف پیدا کرنا اور معاشی، معاشرتی اور سیاسی میدانوں میں اپنی برتری برقرار رکھنا ہے". ایک افریقی نژاد شخص رچرڈ رائٹ کہتا ہے کہ "گوروں کے سامنے میرا خوف سے بھرا رویہ کسی تشدد کا نتیجہ نہیں تھا، مجھ پر کبھی تشدد نہیں ہوا، لیکن گوروں کے ذریعے اپنی نسل کے لوگوں پر ہونے والے جس تشدد کا مجھے علم تھا اس نے میرے رویے کو بدل کر رکھ دیا"۔
ان افریقی امریکیوں پر جو ایک طویل عرصے سے غلامی کی زندگی گزار رہے تھے اس وقت تشدد شروع ہوا، جب انھوں نے دستور میں دی ہوئی آزادی کا مطالبہ کیا اورسیاست میں حصہ داری کی غرض سے ووٹ کے لیے رجسٹریشن شروع کیا اور مقامی سطح کے الیکشن میں کھڑے بھی ہوگئے۔ کچھ علاقوں میں کالوں نے تجارت میں بھی قسمت آزمائی کی، جس کی وجہ سے مقامی گورے تاجروں نے ان کو دبانے کے لیے ہجومی تشدد کا سہارا لیا۔ کالوں پر عام طور سے تین طرح کے الزامات لگاکر تشدد کیا جاتا۔ یا تو ان کو کسی کے قتل میں ملوث مان لیا جاتا، یا پھر گوری عورت کے ساتھ ریپ کا الزام لگایا جاتا، حالانکہ وہ عورت اپنی مرضی سے کالے شخص کی محبت میں گرفتار ہوتی اور یا پھر مویشی چرانے کے الزامات لگاکر ہلاک کردیا جاتا۔ آج بھی بھارت میں مویشی سے متعلق الزامات کے تحت ہی ماب لنچنگ کے اکثر واقعات ہورہے ہیں۔
مذکورہ بالا کتاب کے مطابق: "لنچنگ کو ایک عوامی اجتماع کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ باقاعدہ مقامی اخبارات یا پھر پوسٹرز کے ذریعے لنچنگ کی اطلاع دی جاتی اور وقت مقررہ پر لوگ پہنچ جاتے۔ یہ لوگ اپنے آپ کو اپنی مخصوص طرز زندگی کا محافظ سمجھتے تھے۔ آج بھی واٹس ایپ وغیرہ کے ذریعے آنا فانا دہشت گرد جمع ہو جاتے ہیں اور اپنے آپ کو ایک مخصوص ثقافت کا علمبردار سمجھتے ہوے، وہ اپنے جرم کو انجام دیتے ہیں۔
مصنف کے مطابق: "مقامی اور ملکی میڈیا میں ان خبروں کو فوٹوز اور مکمل تفصیلات کے ساتھ شائع کیا جاتا۔ لنچنگ کرنے والے لوگ، لاش کے ساتھ فخریہ پوز دے کر فوٹو اترواتے اور خود ہی اخبارات کو ارسال کردیتے۔ اخبارات بھی ان تصاویر اور فراہم کردہ تفصیلات کو مرچ مصالحہ لگاکر شائع کرتے۔ مثلا دی نیویارک ورلڈ ٹیلی گرام میں چھپنے والی ایک سرخی کچھ یوں تھی: "ٹیکساس میں ہجوم نے ایک نیگرو کو ذبح کیا، مسلح لوگوں نے اس کا سینہ چاک کرکے دل نکال لیا"۔ ظاہر ہے کہ اس طرح کی سرخیوں سے ماب لنچنگ کا اثر دور تک جاتا تھا اور کالوں کو خوف میں مبتلا کر دیتا تھا۔
یونیورسٹی آف الینوائے کے کارلوس ہل نے دو ہزار نو میں اپنا پی ایچ ڈی مقالہ لکھا، جس کے عنوان کا ترجمہ ہے: "ھجومی تشدد کا مقابلہ: کالوں کی لنچنگ کے مقابلے کے لیے زمینی محنت"۔ اس کتاب میں مؤلف نے کالوں کے ذریعے لنچنگ کی بڑھتی ہوئی واردات کا مقابلہ کرنے کے حوالے سے تین طریقے ذکر کیے ہیں۔
1- علاقے سے راہ فرار۔ یہ طریقہ عام طور پر وہ شخص اپناتا تھا جس کو اندازہ ہوجاتا تھا کہ گورے اس کا شکار کرسکتے ہیں۔ وہ عام طور پر امریکہ کے جنوبی صوبوں سے شمالی صوبوں میں اپنے خاندان سمیت ہجرت کرجاتا تھا۔ لاکھوں افریقی نژاد لوگوں نے جنوبی علاقوں سے شمالی علاقوں میں ہجرت کی ہے۔
2- مسلح دفاع۔ کالے یہ طریقہ آخری علاج کے طور پر ہی اختیار کرتے تھے۔ انھیں جب یہ لگتا تھا کہ وہ مارے جائیں گے اور بھاگنے کا ان کے پاس کوئی راستہ نہیں پچتا تھا، تو وہ آخری دم تک اپنی جان کے تحفظ کے لیے لڑتے تھے۔ وہ عام طور پر اس طریقے کو اس لیے اختیار نہیں کرتے تھے کہ کہیں جواب میں گورے مزید کالوں کا قتل نہ کرنے لگیں۔
3- سوشل کیپیٹل تھیوری: یعنی کالوں نے اپنے مشترکہ خطرات کے پیش نظر اور اپنے مفادات کے تحفظ کی خاطر جگہ جگہ ادارے، تنظیمیں اور سوسائٹیاں قائم کرنی شروع کردیں، جن کے نتیجے میں کالے ایک ہی علاقے میں آس پاس رہنے لگے، ان کی تعلیمی صورت حال کچھ بہتر ہوئی اور اس کے نتیجے میں ان کے حقوق کے لیے اٹھنے والی مضبوط آوازیں پیدا ہوگئیں۔ مارٹن لوتھر کنگ جونیئر اور مالکم ایکس ان چنندہ لوگوں میں سے ہیں جنھوں نے گوروں کے ظلم کے خلاف اپنی کمیونٹی کو بیدار کیا اور طاقتور تحریکوں کی قیادت کی۔ مالکم ایکس جنھوں نے اسلام قبول کرلیا تھا تعلیمی بیداری میں بھی فعال رہے۔ شکاگو میں قائم کردہ ان کا کالج آج بھی موجود ہے۔ انھوں نے ڈیموکریٹس (ان کی مثال بھارت میں کانگریسی ہندو ہیں) اور ریبپلیکنز (ان کی مثال بی جے پی والے ہیں) کے درمیان موازنہ کرتے ہوے ریپبلیکنز کو ایسے بھیڑیے سے تشبیہ دی جو کھل کر حملہ کرتا ہے اور ڈیموکریٹس کو ایسی لومڑی سے جو بظاہر تو ساتھ رہتی ہے لیکن موقع ملتے ہی اپنا نوالہ بنالیتی ہے۔
افسوس اس بات کا ہے کہ بھارتی مسلمانوں کا ردعمل امریکی کالوں سے بدتر ہے، جب کہ وہ ایک طویل عرصے تک غلام رہے تھے اور مسلمان طویل عرصے تک حکمراں۔ کالوں کا اپنایا ہوا دوسرا طریقہ وقتی اور انفرادی طور پر کارگر تھا، جب کہ تیسرا طریقہ اجتماعی طور پر۔ بھارت میں مسلمانوں کو اس تعلق سے وسیع پیمانے پر بیداری لانے کی ضرورت ہے۔

مدینے کی ریاست کی ایک جھلک

مدینے کی ریاست کی ایک جھلک
.
سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کا گھر مسجد نبوی کے ساتھ تھا، اور اس مکان کا پرنالہ مسجد کی طرف تھا جب بارش ہوتی تو پرنالہ سے پانی گرتا جس کے چھینٹے نمازیوں پر پڑتے،
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے نمازیوں پر چھینٹے پڑتے دیکھے تو پرنالے کو اکھاڑ پھینکا،
سیدنا عباس آئے دیکھا ان کے مکان کا پرنالہ اتار دیا گیا ہے، پوچھا یہ کس نے اتارا،
جواب ملا امیر المومنین نے نمازیوں پر چھینٹے پڑتے دیکھے تو اسے اتار دیا،
سیدنا عباس نے قاضی کے سامنے مقدمہ دائر کر دیا،
چیف جسٹس ابی بن کعب رضی اللہ عنہ ہیں،
امیر المومنین ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی عدالت میں پیش ہوئے تو جج صاحب لوگوں کے مقدمات سن رہے ہیں اور سیدنا عمر عدالت کے باہر انتظار کر رہے ہیں، کافی انتظار کے بعد جب سیدنا عمر عدالت کے روبرو پیش ہوئے تو بات کرنے لگے، مگر ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے روک دیا کہ پہلے مدعی کا حق ہے کہ وہ اپنا دعوی پیش کرے، یہ عمر کے دور کا چیف جسٹس ہے،
سیدنا عباس دعوی پیش کرتے ہیں کہ میرے مکان کا پرنالہ شروع سے مسجد نبوی کی طرف تھا، زمانہ نبوی کے بعد سیدنا ابوبکر کے دور میں بھی یہی رہا لیکن عمر نے میرے مکان کا پرنالہ میری عدم موجودگی میں میری اجازت کے بغیر اتار دیا ہے، لہذا مجھے انصاف چاہیے،
چیف جسٹس ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں آپ بے فکر رہیں آپ کو انصاف ملے گا،
قاضی  نے سیدنا عمر سے پوچھا آپ نے سیدنا عباس کے گھر کا پرنالہ کیوں اتارا،
بائیس لاکھ مربع میل کا حاکم کٹہرے میں کھڑا ہو کر کہتا ہے، سیدنا عباس کے مکان کا پرنالہ مسجد نبوی کی طرف تھا جب بارش ہوتی ہے پرنالے سے پانی بہتا ہے اور چھینٹے نمازیوں پر پڑتے ہیں جس سے نمازیوں کو پریشانی ہوتی ہے اس لیے میں نے اسے اتار دیا،
آبی بن کعب نے دیکھا کہ سیدنا عباس کچھ کہنا چاہ رہے ہیں، پوچھا آپ کیا کہنا چاہتے ہیں؟؟
سیدنا عباس کہتے ہیں یہ جس جگہ میرا مکان ہے یہاں رسول پاک نے اپنی چھڑی سے مجھے نشان لگا کر دیا اور میں نے اسی جگہ مکان بنایا پھر جب پرنالہ نصب کرنے کا وقت آیا تو رسول پاک نے کہا چچا میرے کندھے پر کھڑے ہو کر اس جگہ پرنالہ نصب کر دیں میں نے نبی پاک کے کندھے پر کھڑا ہونے سے انکار کیا مگر بھتیجے کے اصرار پر میں نے ان کے کندھے پر کھڑا ہو کر یہاں پرنالہ نصب کیا یہاں پرنالہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے خود لگوایا تھا،
ابی بن کعب نے پوچھا اس کا کوئی گواہ ہے آپ کے پاس،
سیدنا عباس جلدی سے باہر گئے اور کچھ انصار کو لے کر آئے انہوں نے گواہی دی کہ سیدنا عباس سچ کہہ رہے ہیں،
یہ سنتے ہی سیدنا عمر کے ہوش اڑ گئے اور رونے لگے، آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی، اپنا پیارا نبی یاد آ گیا،  اور زمانہ نبوی کا منظر نظروں میں گھوم گیا،
عدالت میں سب کے سامنے یہ بائیس لاکھ مربع میل کا حاکم سر جھکائے کھڑا ہے، جس کا نام سن کر قیصر و کسری کے ایوانوں میں لرزہ طاری ہو جاتا تھا،
سیدنا عباس سے کہا مجھے نہیں معلوم تھا کہ یہ پرنالہ رسول پاک نے خود لگوایا ہے،
آپ چلیے میرے ساتھ جیسے رسول پاک نے یہ پرنالہ لگوایا تھا ویسے ہی آپ لگائیں،
چشم کائنات نے دیکھا!
وقت کا حاکم دونوں ہاتھ مکان کی دیوار سے ٹکا کر کھڑا ہو گیا بالکل اسی طرح جیسے رسول پاک کھڑے ہوئے تھے، سیدنا عباس امیر المومنین کے کندھوں پر کھڑے ہوئے اور دوبارہ اسی جگہ پرنالہ لگا دیا،
وقت کے حاکم کا یہ سلوک دیکھ کر سیدنا عباس نے مکان مسجد نبوی کو وقف کر دیا،
أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 210، الحديث رقم : 1790،

بی جے پی سرکار کرے ہے ہوشیار

بی جے پی سرکار کے تیور کو دیکھتے ہوئے اہل مدارس قبل از وقت اپنا قبلہ درست کرلیں!
(1)بیرونی طلبہ کے تمام کاغذات جمع کرانے کے بعد ہی اپنے یہاں داخلہ لیں!
(2)اپنے مدرسوں کی رجسٹریشن ضرور کرائیں
(3)مدرسوں کی زمین کے تمام کاغذات کوجو مہتم حضرات نے بڑی چالاکی سے اپنے نام کرا لی ہے اسے وقف کرتے ہوئے اپنے ادارہ کو ذاتی جاگیر سے بدل کر مدرسہ کی شکل دیں؟
(4)مدرسہ کے تمام حساب کتاب کارجسٹر،سی ،اے، سے آڈٹ کرائیں ؟
(5)مدرسے کی تمام رسیدات کے لئے اندراج رجسٹر بناکرامد و صرف کی تفصیل اپنے یہاں ضرور رکھیں؟
مدرسین و ملازمین کے مع اسناد کے تمام کاغذات لیکر ہی اپنے مدرسے میں تقرر کریں؟
(6)مقامی لوگوں کو اعتماد اور بھروسے میں لیتے ہوئے ان کو اپنے مدرسے کی کمیٹی یا شوری میں ضرور شامل کریں؟
(7)بیرونی طلباء کے ساتھ ساتھ مقامی طلبہ کا داخلہ لیتے وقت ان کے تمام کاغذات کی فوٹو کاپی اور انکی رجسٹر حاضری اپنے یہاں ضرور ریکارڈ میں رکھیں؟
(8)بیرونی طلبہ سے پڑھائی کے علاوہ کوئی دوسرا کام ہرگز نہ لیں جیسےمنڈی سے سبزی،بیکری سے ناشتہ کے لیئے پاپے مطبخ میں ان سے کھاناپکوانا،ان کو کوپن دیکر بازاروں میں چندہ کرانا؟
(9)بیرونی طلبہ کے لئے کھیل کود ورزش،صفائی ستھرائی قیام و طعام علاج و معالجہ کا معقول انتظام رکھیں؟
(10)کیرایہ پر چل رہے مدارس مکان مالکان سے مدرسہ چلانے کے نام پر اگریمنٹ اور مقامی پولس اشٹیشن سے اپنے مدرسہ کا ویریفکیشن ضرور کرائیں؟
(11)اگر آپ کے پاس بیرونی طلبہ کی تعداد کم ہے تو مقامی طلبہ کی تعداد میں اضافہ ضرور کر لیں؟
موجودہ سرکار کی تیور ہمارے مدرسوں کے تئیں ٹھیک نہیں ہے وہ تمام پرائیویٹ مدرسوں کی سرکاری جانچ ضرور کرائےگی جسکا اعلان کئی جگہوں پر ہو گیا ہے سرکار کو گائیڈ لائن مہیا کرا دیا گیا ہے وہ لگ بھگ مندرجہ بالا امور پر ہی جانچ کرےگی اس لیئے تمام مدرسوں سے اپیل کی جاتی ہے کہ وہ قبل ازوقت اپنا قبلہ درست کر لیں
پھر نا کہنا ہمیں خبر نا ہوئی!
اس اپیل کو تمام اہل مدارس کو پہچا دی جائے!
اپیل کردہ:
*اعجاز احمد خان رزاقی*
*کل ہند صدر انجمن اصلاح المدارس*

داد کھجلی کیا ہے اور اس کا علاج کیا ہے؟

داد کھجلی کیا ہے اور اس کا علاج کیا ہے؟

داد ایک طرح کا پھنگل انفکشن ہے جو ایک بار ہو نے پر پوری بوڑی میں بہت تیزی سے پھیلتی ہے۔یہ کھجلی فنگس کی وجہ سے ہوتی ہے۔یہ بدن میں کہیں بھی اور کبھی بھی ہوسکتی ہے۔یہ ہر گروپ کے مردوعورت کو ہو سکتی ہے۔ مندرجہ ذیل طرح کے فنگل انفکشن عموما ہوتے ہیں:
athlete's foot.
yeast infection.
ringworm.
nail fungus.
oral thrush.

diaper rash.






علاج:

مختلف طریقہائے علاج میں مختلف انداز اختیار کیے جاتے ہیں۔طبِ یونانی میں خلطِ صفراء و بلغم کے مسہلات اور مصفیاتِ خون ادویہ کے علاوہ مقامی طور پر گندھک کے مراہم، کافور اور روغنِ گلاب میں تیار کردہ لوشن مسکنات کی حیثیت سے استعمال کرتے ہیں۔ مگر سب سے زیادہ راحت طبِ جدید کی دواؤں سے ہی حاصل ہوتی ہے کیونکہ یہ پھپھوند اور اس کے بذروں (Spores)کو ختم کردینے والی ہوتی ہیں۔ ان ادویہ میں مقامی طور پر لگانے کے لیے کریم، لوشن، مراہم اور پاؤڈر دستیاب ہیں۔بار بار ہونے والے پھپھوندی مرض کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہ جلد کی بیرونی سطح سے کچھ اندر بھی سرایت کر جاتی ہے خصوصاً سر اور ناخن کے؛ اس لیے اندرونی طور پر کھلانے والی چند گولیاں اور کیپسول بھی اب بازار میں دستیاب ہیں۔ مقامی طور پر لگانے کے لیے Terbinafine, Clotrimazole, Miconazole, Ketoconazoleجیسی کارگر دوائیں ملتی ہیں۔ اندرونی استعمال کے لیے Terbinafine, Griseofulvin, Fluconazole, Itraconazole دستیاب ہیں۔

داد کھجلی کی اسباب:
کسی insect bite  سے۔
سوکھے اور روکھے موسم کی وجہ سے۔
کسی طرح کے جلدی انفکشن کی وجہ سے۔
دوسرے کے استعمال شدہ صابون وغیرہ استعمال کرنے کی وجہ سے۔
کسی دوا سے الیرجی کی وجہ سے۔
بالوں میں ڈاون ڈرف کی وجہ سے۔

داد ہونے پر جسم پر اثرات یا لکشنڑ:

جگہ کا لال ہوجانا۔
پھنسی جیسے مواد سے بھرے ہوے نشان کا ابھرنا۔
کھجلی ہونا۔
انفکشن کی جگہ پر ابھار ہونا۔
چمڑوں کا سوکھنا اور اس میں پھٹن شروع ہوجانا۔

داد کھجلیخارش یا کھجلی جیسی بھی ہو عام طور پر بہت تکلیف دہ ہوتی ہے۔ اگر اسکا مناسب علاج نہ کیا جائے تو یہ نہ صرف پورے جسم پر پھیل سکتی ہے بلکہ یہ بیماری شدت بھی اختیار کرسکتی ہے۔ کھجلی کئی اقسام کی ہوتی ہے لیکن عام طور پر جو کھجلی عام ہے یہ جو نما کیڑے کے جلد میں چلے جانے اور اسکے انڈے دینے کے بعد پیدا ہوتی ہے اور اگر اسکا بروقت علاج نہ کیا جائے تو آپکے گھر کے تمام افراد کو بھی لگ سکتی ہے۔ ذیل میں کھجلی ہونے کی چند علامات اور اس سے نجات کے طریقے بتائے گئے ہیں۔کھجلی کی علامات:کھجلی میں عام طور پر کسی بھی شخص کا سونا مشکل ہوجاتا ہے اور رات کو متاثرہ شخص میں کھجلی مزید شدت اختیار کرلیتی ہے۔کھجلی کی بیماری میں مبتلا ہونے کی دوسری بڑی علامات جلد پر سفید دانے نمودار ہونا ہے۔ اور عام طور پر یہ دانے پورے جسم پر پھیل جاتے ہیں۔کھجلی کی صورت میں ہتھیلیوں سے جلد چھلکے کی صورت میں اترنا شروع ہوجاتی ہے۔کھجلی میں۔

کچھ مزید اثرات:

مبتلا ہونے کی صورت میں متاثرہ شخص کے جسم پر موجود دانے بھی سوکھنا شروع ہوجاتے ہیں۔ اور ان پر کھرنڈ آنے کے علاوہ جسم پر زغم بھی تشکیل پانا شروع ہوجاتے ہیں۔کھجلی ہونے کی وجوہات کیا ہیں:کھجلی کس وجہ سے ہوتی ہے یہ ایک اسکن انفیکشن ہے جو آپکی جلد میں جونما جراثیم کے جلد میں انڈے دینے کی وجہ سے ہوتی ہے اور اس کیڑے کا نام اسکیبیز ہے۔کھجلی ایک شخص سے دوسرے شخص کو منتقل بھی ہوسکتی ہے جیسے عام طور پر کسی سے گلے ملنے سے منتقل ہونا۔کھجلی کے جراثیم بہت تیزی سے پھیلتے ہیں اور یہ متاثرہ شخص کے تولیے اور بستر وغیرہ استعمال کرنے سے بھی ہوسکتی ہے۔کھجلی کا علاج:کھجلی کے علاج کیلئے اسکاباقاعدہ طبی علاج بہت ضروری ہے اسکے لئے عام طور پر ٹیسٹ بھی کیے جاتے ہیں ۔ پھر باقاعدہ علاج کے ذریعے کھجلی کی بیماری میں اسکے کیڑے کے انڈوں کو جسم سے ختم کیا جاتا ہے۔ عام طور پر اس کے علاج کیلئے ڈاکٹر آپ کو لوشن یا کریم وغیر تجویز کرتے ہیں۔

داد دراصل ایک انفیکشن ہے جسے جلد کی پھپھو ند بھی کہا جاتا ہے۔یہ جلد کے کسی بھی حصے میں ہو سکتا ہے پہلے یہ ایک ریش کی طرح ہو تا ہے۔ پھر آہستہ آہستہ پھیلنے لگتا ہے جو سرخ رنگ کے نشانوں کی طر ح ہو تا ہے۔ اس کو ٹھیک ہو نے میں وقت لگتا ہے اس لیے پر یشانہو نے کے بجائے تحمل سے اس کا علاج کر یں۔
پہلے داد والی جگہ پر تیز خارش ہو تی ہے جو نا قا بل بر داشت ہو تی ہے۔ بچوں میں یہ بیماری زیادہ پائی جاتی ہے۔چو نکہ یہ انفیکشن چھو نے سے بھی پھیلتا ہے اس لیے مطلو بہ شخص کو چھو نے سے گریزکریں ۔ اگر آپ کواس انفیکشن کا سامنا کرنا پڑتاہے تو آپ کو علاج سے زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے تا کہ اس انفیکشن کو روکا جا سکے۔

صفا ئی کا خیال رکھیں۔
اس بیماری سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ صفا ئی کا خا ص خیال رکھیں۔ دن میں دو بار نہا ئیں اور کسی اچھے صا بن کا استعمال کریں۔
اگر آپ کو انفیکشن کی علامات نظر آنے لگیں تو نیم کے پتوں کو پانی میں ابال کر اس سے غسل کر یں ۔

گندے کپڑے پہننے سے گر یز کر یں کیو نکہ یہ انفیکشن گندگی سے بڑھتا ہے۔
اگر آپ کی جلد پر داد چھو ٹا سا ہے تو اس پر اینٹی بیکٹیر یل کر یم لگا ئیں تا کہ اسے وہیں پر روکا جا سکے ۔

مزید تدابیر و مفید علاج:
لہسن
لہسن کے دو تین جو ئے پیس کر انھیں متا ثر ہ جگہ پر لگائیں اور کسی کپڑے سے باندھ دیں لہسن کی اینٹی سیپٹک خصوصیات انفیکشن کو ختم کر دیں گی۔
ٹی ٹر ی آئل
یہ داد سے نجات کا سب سے پر انا نسخہ ہے۔اس آئل میں بر ابر مقدار میں پانی شامل کر لیں اور داد والی جگہ پر دن میں دو بار لگائیں ۔
سیب کا سر کہ
سیب کا سر کہ روئی میں بھگو کر متا ثر ہ جگہ پر لگائیں اور تین روز تک اس کا استعمال کر یں۔
ہلدی
ہلدی کا رس متا ثر ہ جگہ پر لگانے سے افا قہ ہو گا نیز ہلدی کو پانی میں ملا کر بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔
نمک اور سر کہ
سرکے میں تھو ڑا سا نمک شامل کر کے متاثرہ جگہ پر لگائیں اور پھر دو گھنٹے بعد ٹھنڈے پانی سے دھو لیں۔
تلسی کے پتے
تلسی کے پتے پیس کر اس کا عر ق داد والی جگہ پر لگائیں یہ عمل دن میں دو بار کر نے سے خارش میں بھی کمی آئے گی نیز اس انفیکشن سے چھٹکارا بھی ملے گا۔
کچا پپیتا
کچچا پپیتا داد والی جگہ پر ہلکا ہلکا ملیں اس میں مو جو د غذائی اجزاء انفیکشن کو ٹھیک کر دیتے ہیں۔
لیمن گر اس ٹی
یہ چائے دن میں تین بار استعمالکرنے سے افا قہ ہو گا اس کے علاوہ اس ٹی کے استعمال شد ہ ٹی بیگ متاثر ہ جگہ پر رکھنے سے فائدہ ہو گا۔
آلو
کچے آلو کارس پینے سے اس بیماری میں افاقہ ہو گا۔
سنگھا ڑا
لیموں کے رس میں خشک سنگھا ڑے کو گھس کر لگائیں پہلے جلن ہو گی پھر ٹھنڈ ک پڑ جائے گی کچھ دن کے استعمال سے افا قہ ہو گا۔
چقندر
اس سبزی کو زیادہ عر صہ کھانے سے اس بیماری سے شفاء ملتی ہے۔
ٹیلویژن پر دکھائے جانیوالے اشتہارات کی وجہ سے مریضوں کو’داد‘ یعنی شرمگاہ اور اس کے آس پاس کے مقامات کی کھجلاہٹ کو سمجھانا قدرے آسان ہوگیا ہے۔ لوگ خود بھی اشتہار میں دکھائے جانیوالے مراہم کا استعمال کر لیتے ہیں۔ کچھ کو آرام بھی مل جاتا ہے لیکن بہت سے مزید پریشان ہو کر دواخانوں میں حاضر ہوتے ہیں۔
’داد‘ ایک طفیلی مرض ہے۔ اس میں شدید کھجلی اور بے چینی ہوتی ہے۔ اس کا سبب کچھ پھپھوند (Fungus) ہیں۔ انھیں عام طور سے ’رِنگ ورم‘ (Ringworm)کہتے ہیں۔ یہ ایک غلط نام ضرور ہے کیونکہ اس میں کسی کیڑے کا کوئی عمل نہیں ہے؛ لیکن دورِ قدیم میں ایسا تسلیم کیا جاتا تھا کہ یہ کسی کیڑے کے کاٹنے سے لاحق ہوتا ہے اور دائرے کی شکل میں پھیلتا ہے۔ اس لیے یہ نام پڑگیا تھا۔ آج بھی اسی نام سے مشہور ہے۔ مگر بعد کے زمانوں میں تحقیقات سے یہ ثابت ہو گیا کہ اس کا سبب جلد پر اُگنے والی پھپھوند (Dermatophytes) یعنی جِلدی پھپھوند ہیں۔ علاوہ ازیں یہ صرف دائرے کی شکل میں نہیں پھیلتا بلکہ منحنی شکلوں میں بھی پھیلتا ہے۔ 
داد کا مرض جلد کی اوپری (بیرونی) سطح پر پیدا ہوتا ہے۔ اس کے معاون اسباب میں ’’گرمی (حرارت) اور نمی‘‘ والے علاقے ہیں یعنی جہاں پسینہ یا کوئی اور رطوبت (جیسے منہ، ناک اور کان کی رطوبتیں) کا اخراج ہوتا ہے۔ ان علاقوں میں اس کے سبب کھجلی، چھلکے اور پرت کی پیدائش اور سر، ڈاڑھی وغیرہ پر گنج بھی پیدا ہو جاتا ہے۔ یہ مرض ایک سے دوسرے فرد میں تیزی سے منتقل ہوتا ہے؛ خواہ راست تعلق سے یا پھر تولیہ، کنگھیاں، کپڑے یا زیر جامے اور حتیٰ کہ سوئمنگ پول یا باتھ روم (ٹب) کے مشترکہ استعمال سے بھی یہ مرض ایک سے دوسرے میں منتقل ہو جاتا ہے۔ کچھ پالتو جانور جیسے بلی، کتے، خرگوش وغیرہ بھی اس مرض سے متاثر ہوتے ہیں اور یہ اپنے نگراں یا مالک کو بھی متاثر  کرتے ہیں۔
یہ پھپھوند انسانی جلد کے اوپر ہی پلتی ہے۔ بالوں اور ناخنوں میں بھی ملتی ہے۔ پالتو جانوروں کی جلد میں بھی پناہ لیتی ہے اور مٹی میں بھی شامل رہتی ہے۔ اس لیے کس فرد کو کہاں سے پھپھوند نے متاثر کیا ہے اس کی تحقیق تقریباً ناممکن ہے۔ اس کی افزائش کے لیے بتایا جا چکا ہے کہ ’’گرمی اور نمی‘‘ کی موجودگی لازم ہے۔ایسے علاقے جہاں دو مقامات کی جلدیں آپس میں ملتی ہیں وہاں ’’گرمی اور نمی‘‘ بھی پائی جاتی ہے اس لیے وہاں اس مرض کے پیدا ہونے کا امکان زیادہ رہتا ہے جیسے کنجران (جانگھوں کی بغل)، بغل، انگلیوں کے درمیان، گردن وغیرہ۔
حالانکہ مرض ایک ہی ہے، یعنی ’’داد‘‘، علامات و علاج بھی تقریباً یکساں ہوتے ہیں لیکن (برائے علاج) جسم کے حصوں سے منسوب کر کے اس کے مخصوص نام دئیے گئے ہیں جیسے:
٭ Tinea barbae (یعنی ڈاڑھی کی پھپھوند) یہ عام طور سے نائی کے یہاں سے برآمد ہوتی ہے۔ ٭inea capitis (سر کی پھپھوند) مدرسوں اور اسکولی بچوں میں عام ہے۔ ٭ Tinea corporis (جسمانی جلد کی پھپھوند) اس میں داد کے امتیازی اور مخصوص چکتّے (چٹّے) ظاہر ہوتے ہیں۔ ٭inea cruris (کنجران کی پھپھوند) یہ شرمگاہ کے آس پاس رانوں کے بغلی علاقوں اور کبھی اعضائے مخصوصہ مردانہ و زنانہ کی جلد پر بھی شدید خارش اور چٹے پیدا کرتی ہے۔ ٭inea faciei (چہرے کی پھپھوند) ڈاڑھی کے علاقوں سے ہٹ کر پیدا ہونے والے یہ بھی بے حد عام اور مخرش چٹے ہیں۔ ٭inea manus (ہتھیلیوں کی پھپھوند) یہ انگلیوں کے درمیانی حصوں کی پھپھوند کے ساتھ واقع ہوتی ہیں اور ہاتھوں کے اگلے یا پچھلے حصوں پر پھیلتی ہے۔ باورچی خانوں اور بیکری وغیرہ کے ملازمین یا پانی کے کام کرنے والوں میں عام ہے۔ ٭inea pedis (پیروں کی انگلیوں کی پھپھوند) عام طور سے کھلاڑیوں، دھوبی، کنسٹرکشن ورکرس وغیرہ کو متاثر کرتی ہے۔داد کی تمام اقسام میں اس کا علاج سب سے مشکل ہوتا ہے اور عام طور سے مریض کو دوبارہ بھی گھیر سکتا ہے۔ ٭inea unguium (ناخنوں کی پھپھوند) اسے Onychomycosis بھی کہا جاتا ہے۔ 

علامات:

علامات تمام صورتوں کی یکساں ہیں یعنی شدید خارش (خصوصاً رات کے وقت)، اکثر سوزش، چھلکے یا پرت جھڑنا۔

اسبابِ معاونہ:

ذاتی صاف صفائی کی کمی،پسینہ کا زیادہ اخراج، بعض دوائیں جیسے اینٹی بایوٹک دواؤں کا زیادہ عرصہ تک استعمال اور اسی طرح اسٹیرائیڈ کا بھی طویل مدت تک استعمال، ہاتھوں اور پیروں کا مسلسل نم رہنا، مصنوعی ریشوں (جرسی jersey) سے بنے زیر جامے اور بنیان و موزوں کا استعمال، وغیرہ۔

علاج میں غفلت:

یہ بالکل عام بات ہے کہ علاج شروع کرنے سے چند دنوں میں ہی علامات جاتی رہتی ہیں۔ اور مریض محسوس کرتا ہے کہ اسے داد سے چھٹکارا مل گیا ہے۔ اس کے بعد وہ علاج میں غفلت برتنا شروع کر دیتا ہے۔ حالانکہ محض دو یا چار دنوں کے علاج سے پھپھوند یا فنگس پوری طرح سے ختم نہیں ہو جاتی بلکہ اسے تقریباً تین یا چار ہفتے لگتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر مریض ڈاکٹروں سے آکر یہ شکایت کرتے ہیں کہ مجھے علاج سے راحت مل جاتی ہے لیکن تمام تکالیف بار بار پلٹتی رہتی ہیں۔ اس لیے یہ یاد رکھنا چاہیے کہ محض دو یا تین دنوں کے علاج سے آپ اس مرض سے چھٹکارا نہیں پاسکتے بلکہ کم از کم تین تا چار ہفتے مسلسل علاج کرتے رہنا ضروری ہے۔

احتیاط:

درجِ بالا تمام ادویہ کا استعمال اپنے معالج کی نگرانی میں ہی اور اس کی ہدایت کے مطابق کرنا چاہیے۔ ابتدائے مرض میں ہی علاج شروع کردیا جائے تو مرض شدت بھی اختیار نہیں کرتا اور مکمل چھٹکارے کے امکانات بہت روشن ہوتے ہیں۔ بدن پر گیلے کپڑے (خصوصاً برسات میں) ہوں تو انھیں جلد سے جلد تبدیل کر لیا جائے۔ پانی کے کام کے بعد ہاتھوں اور پیروں کے علاوہ ناخنوں پر موجود پانی کو فی الفور سکھا لینا چاہیے

ازقلم : محمد نورالدین ازہری
ایڈیٹر اسلامک کلچر بلاگ



Monday, July 29, 2019

لا تخلط بين عالِمَيْن اثنين

*إلى الباحثين: (لا تخلط بين عالِمَيْن اثنين):
1- لا تخلط بين (القرطبي) صاحب التفسير، و(القرطبي) صاحب شرح صحيح مسلم، فاﻷول يكنى أبا عبدالله، والثاني يكنى أبا العباس.
2 - لا تخلط بين (ابن رشد) صاحب: المقدمات، والبيان والتحصيل، وبين (ابن رشد) صاحب بداية المجتهد ونهاية المقتصد، فاﻷول ابن رشد الجد، والثانى ابن رشد الحفيد.
3- لا تخلط بين (الزرقاني) اﻷب صاحب: "شرح مختصر خليل"، و(الزرقاني) الابن صاحب: "شرح الموطأ".
4- لا تخلط بين (القرافي) صاحب كتاب الذخيرة، والفروق، و(القرافي) صاحب شرح موطأ مالك ومختصر خليل، فاﻷول اسمه أحمد بن إدريس، والثانى اسمه محمد بن يحيى.
5 - لا تخلط بين (ابن عرفة) صاحب كتاب الحدود، وبين (ابن عرفة) صاحب الحاشية المشهورة على الشرح الكبير للدردير، فاﻷول تونسى، والثانى دسوقي.
6 - لا تخلط بين (المازري) صاحب شرح التلقين وإيضاح المحصول، و(المازري) صاحب التعليق الكبير فى المذهب المالكى.
7- لا تخلط بين (الزركشي) شارح مختصر الخرقي، و(الزركشي) صاحب البرهان في علوم القرآن، فالأول حنبلي، والثاني شافعي.
8- لا تخلط بين (ابن تيمية) الجد صاحب المحرر،
و(ابن تيمية) الحفيد أحمد ابن عبدالحليم.
9- لا تخلط بين (ابن عبد الهادي) صاحب المحرر في الحديث، و(ابن عبد الهادي) صاحب مغني ذوي الأفهام،
فالأول في القرن الثامن، والآخر في القرن العاشر، وكلاهما حنبلي.
10- لا تخلط بين (أبي الحسن) علي بن محمد بن عبد الحق الزرويلي وشهرته الصُّغيِّر (ت 719ه‍) صاحب "التقييد على المدونة"، و(أبي الحسن) علي بن محمد بن محمد بن خلف المنوفي المصري (ت939ه‍)، صاحب ”كفاية الطالب الرباني شرح رسالة أبي زيد القيرواني“ المقرر على المعاهد الأزهرية.
11- (اللقاني): هناك أربعة من علماء المالكية يحملون نفس النسبة  لقرية لقانة من قرى مصر: برهان الدين إبراهيم بن محمد اللقاني قاضي القضاة (ت 896 هـ)، وتلميذه: شمس الدين محمد بن حسن اللقاني، له حاشية على خليل (ت 935 هـ)، وناصر الدين اللقاني محمد بن الحسن، صاحب التصانيف، له شرح على مختصر خليل (ت 958 هـ)، وهو أخو شمس الدين، أما الرابع فمتأخر عنهم وهو أبو الأمداد برهان الدين إبراهيم بن حسن اللقاني، له حاشية على خليل وله نظم جوهرة التوحيد (ت1041هـ).
12 - لا تخلط بين (الشاطبي) صاحب الموافقات والاعتصام و(الشاطبي) " القاسم بين فِيرُّه" مصنف الشاطبية في القراءات.
13-  لا تخلط بين (ابن العربي) المعافري المالكي صاحب العارضة والعواصم وأحكام القرآن، و(ابن عربي) المتصوف صاحب الفصوص والفتوحات، وكلاهما "محمد".
14- لا تخلط بين (ابن حجر العسقلاني) المحدث صاحب الفتح، و(ابن حجر الهيتمي) شارح المشكاة، وكلاهما "أحمد".
15- لا تخلط بين (أبي حامد الغزالي) المشهور بحجة الإسلام، و(الغزالي) الكاتب المعاصر وكلاهما "محمد".
16- لا تخلط بين (نافع) مولى ابن عمر، وبين (نافع) القارئ عن وَرْش، وكلاهما مدنيان.
17- لا تخلط بين (الجويني) الأب، وابنه إمام الحرمين أبي المعالي صاحب البرهان والورقات.
18- لا تخلط بين (ابن كثير) المقرئ و(ابن كثير) المفسر.
19 - لا تخلط بين (الرازي) الفيلسوف الطبيب صاحب الحاوي والشكوك، و(الرازي) الأصولي المفسر المتكلم.
20- لا تخلط بين (الترمذي) المحدث الحافظ صاحب السنن،  و(الترمذي) الحكيم صاحب النوادر.
21- لا تخلط بين (أبي مسلم  الأصفهاني الأديب  ) محمد بن علي الأصفهاني المعروف بـابن مَهْرَيَزْد الأديب أو ابن مهرايزد د)*(366 - 459 ه‍ = 976 - 1067 م) في القرن الخامس الهجري
و(أبي سلم  الأصفهاني المفسر ) محمد بن بحر (254ـ322 ) هو من مفسري القرن الرابع الهجري من المعتزلة ، كان كاتبا ، نحويا ، أديبا ،متكلما، مفسرا ، ومن رجال الدولة العباسية
22- لا تخلط بين ( ابن قيم الجوزية ) تلميذ ابن تيمية  صاحب كتاب  "زاد المعاد "   أبو عبدالله محمد بن أبي بكر الزرعي الدمشقي كان والده قيّما -اي مديرا - على المدرسة الجوزية - التي انشأها يوسف ابن عبد الرحمن  الجوزي -
و بين (ابن الجوزي)  - ت 592 هـ - : فهو الحافظ أبو الفرج عبدالرحمن الجوزي صاحب كتاب" صيد الخاطر" " وتلبيس إبليس"
23- لا تخلط بین( الامام النووي) الدمشقي أبو زكريا يحيى بن شرف الحزامي صاحب" رياض الصالحين"و " الأربعين النووية" و"المنهاج" في الفقه
و(النووي الجاوي) الإندونيسي محمد بن عمر  من أندنويسیا صاحب "عقیدة العوام" و" التفسير المنير لمعالم التنزيل"،  وكلاهما شافعیان.
24- لا تخلط بين (نافع القاريء )و( نافع المحدِّث ) (نافع بن عبد الرحمن بن أبي نعيم الليثي ﺍﻟﻤﻘﺮﺉ (70–169هـ) صاحب قراءة أهل الجزائر وليبيا عندما نقول  قراءة ورش عن نافع
والثاني أبو عبد الله نافع المدني مولى عبد الله بن عمر بن الخطاب علامة في الفقه، كثير الرواية للحديث ثقة. ويعد مالك بن أنس أشهر من لازمه وحدث عنه. لا يعرف له خطأ في جميع ما رواه.

मेरे पास खुदरा पैसे नहीं

"दुनिया के सबसे धनवान व्यक्ति बिल गेट्स से किसी ने पूछा - 'क्या इस धरती पर आपसे भी अमीर कोई है ? बिल गेट्स ने जवाब दिया - हां, एक व्यक्ति इस दुनिया में मुझसे भी अमीर है। कौन -!!!!! बिल गेट्स ने बताया: एक समय मे जब मेरी प्रसिद्धि और अमीरी के दिन नहीं थे, मैं न्यूयॉर्क एयरपोर्ट पर था.. वहां सुबह सुबह अखबार देख कर, मैंने एक अखबार खरीदना चाहा,पर मेरे पास खुदरा पैसे नहीं थे.. सो, मैंने अखबार लेने का विचार त्याग कर उसे वापस रख दिया.. अखबार बेचने वाले लड़के ने मुझे देखा, तो मैंने खुदरा पैसे/सिक्के न होने की बात कही.. लड़के ने अखबार देते हुए कहा - यह मैं आपको मुफ्त में देता हूँ.. बात आई-गई हो गई.. कोई तीन माह बाद संयोगवश उसी एयरपोर्ट पर मैं फिर उतरा और अखबार के लिए फिर मेरे पास सिक्के नहीं थे।उस लड़के ने मुझे फिर से अखबार दिया, तो मैंने मना कर दिया। मैं ये नहीं ले सकता.. उस लड़के ने कहा, आप इसे ले सकते हैं, मैं इसे अपने प्रॉफिट के हिस्से से दे रहा हूँ.. मुझे नुकसान नहीं होगा। मैंने अखबार ले लिया...... 19 साल बाद अपने प्रसिद्ध हो जाने के बाद एक दिन मुझे उस लड़के की याद आयी और मैंने उसे ढूंढना शुरू किया। कोई डेढ़ महीने खोजने के बाद आखिरकार वह मिल गया। मैंने पूछा - क्या तुम मुझे पहचानते हो ? लड़का - हां, आप मि. बिल गेट्स हैं. गेट्स - तुम्हे याद है, कभी तुमने मुझे फ्री में अखबार दिए थे ? लड़का - जी हां, बिल्कुल.. ऐसा दो बार हुआ था.. गेट्स- मैं तुम्हारे उस किये हुए की कीमत अदा करना चाहता हूँ.. तुम अपनी जिंदगी में जो कुछ चाहते हो, बताओ, मैं तुम्हारी हर जरूरत पूरी करूंगा.. लड़का - सर, लेकिन क्या आप को नहीं लगता कि, ऐसा कर के आप मेरे काम की कीमत अदा नहीं कर पाएंगे.. गेट्स - क्यूं ..!!! लड़का - मैंने जब आपकी मदद की थी, मैं एक गरीब लड़का था, जो अखबार बेचता था.. आप मेरी मदद तब कर रहे हैं, जब आप इस दुनिया के सबसे अमीर और सामर्थ्य वाले व्यक्ति हैं.. फिर, आप मेरी मदद की बराबरी कैसे करेंगे...!!! बिल गेट्स की नजर में, वह व्यक्ति दुनिया के सबसे अमीर व्यक्ति से भी अमीर था, क्योंकि--- "किसी की मदद करने के लिए, उसने अमीर होने का इंतजार नहीं किया था ".... अमीरी पैसे से नहीं दिल से होती है दोस्तों किसी की मदद करने के लिए अमीर दिल का होना भी बहुत जरूरी है..

Featured Post

*زحمت، رحمت اور فطرت* حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی جس کی بھلائی چاہتا ہے اس...