نئے بادشاہ کا انتخاب اس شرط پر کہ سال پورا ہونے پر اسے موت کے منہ میں جاناہوگا
ایک ملک کا حکمران چن نے کا بالکل انوکھا طریقہ تھا،وہ سال کے ختم ہوتے ہی ایک نئے بادشاہ کو اس شرط پر تخت نشین کرتے کہ سال پورا ہوتے ہی اسے ایک جزیرے میں نظر بند کردیا جائے گا۔یہ جزیرہ کوئی غیر معمولی جزیرہ نہ تھا،یہاں ہر طرح کے درندے اور خونخوار جانور پائے جاتے تھے،مانو کہ وہ کسی شکاری کا بے صبری سے انتظار کر رہے ہوں۔جب کوئی انسان اس سن سان جزیرے میں داخل ہوتا وہ کسی نہ کسی درندے کی خوراک بن جاتا۔
ایک ملک کا حکمران چن نے کا بالکل انوکھا طریقہ تھا،وہ سال کے ختم ہوتے ہی ایک نئے بادشاہ کو اس شرط پر تخت نشین کرتے کہ سال پورا ہوتے ہی اسے ایک جزیرے میں نظر بند کردیا جائے گا۔یہ جزیرہ کوئی غیر معمولی جزیرہ نہ تھا،یہاں ہر طرح کے درندے اور خونخوار جانور پائے جاتے تھے،مانو کہ وہ کسی شکاری کا بے صبری سے انتظار کر رہے ہوں۔جب کوئی انسان اس سن سان جزیرے میں داخل ہوتا وہ کسی نہ کسی درندے کی خوراک بن جاتا۔
کسی کو معلوم نہیں ہے کہ اس جنگل نما جزیرے میں جانے کے بعد کتنے بادشاہوں کی موت ہوئی ، اس بار ، شہر میں داخل ہونے والا نوجوان کسی دور دراز کے علاقے سے چن کر لایا گیا تھا، سب نے آگے بڑھ کر اس کو مبارکباد دی۔اور اسے بادشاہت کی چابی سونپ دی گئی۔وہ تخت پر بیٹھتے ہی حیرت زدہ ہونے کے ساتھ ساتھ بہت خوش ہوا، اس نے پوچھاکہ جو بادشاہ مجھ سے پہلے تھا وہ کہاں گیا؟
درباریوں نے اسے ملک کا قانون بتایا ؟ کہ ہر شہنشاہ کو ایک سال بعد جنگل نما جزیرے میں چھوڑ دیا جاتا ہے اور ایک نیا شہنشاہ چن لیا جاتا ہے۔ یہ سن کر وہ ایک بار پھر پریشان ہو گیا۔
لیکن پھر اس نے اپنی دانشمندی کا استعمال کرتے ہوئے کہا: کہ مجھے اس جگہ لے چلوجہاں تم پرانے بادشاہوں کو چھوڑ آتے ہو۔
درباریوں نے سپاہیوں کو ساتھ لیا اور بادشاہ سلامت کو جنگل میں لے گئے تاکہ انہیں وہ جگہ دکھائیں۔وہاں پہنچ کر شہنشاہ اس جگہ کا اچھی طرح جائزہ لے کر واپس لوٹ آتا ہے۔
دوسرے دن وہ پہلا حکم یہ دیتا ہے کہ میرے محل سے جنگل تک ایک سڑک بنائی جائے اور جنگل کے وسط میں ایک خوبصورت محل تعمیر کیا جائے ،جہاں ہر طرح کی سہولیات موجود ہوں اور محل کے آس پاس خوبصورت باغات لگائے جائیں۔
بادشاہ کے حکم پر کام شروع ہوا ،اس دوران بادشاہ نے نہایت ہی سادہ زندگی گزارنا شروع کی، اس نے گو کہ خود کو کسی معمولی رعایہ کی زندگی میں ڈھال لی ہو۔وہ اپنی تمام تر آمدنی کو نئے جزیرے کی تعمیر میں صرف کرتا رہا۔خود اپنی نگرانی میں سارے کام کرواتا،یہاں تک کہ وقت رہتے وہ ویران جزیرہ ایک خوبصورت شہر میں تبدیل ہو چلا تھا۔
دھیرے دھیرے وقت گزرا اور سال پورے ہوے اور حسب دستور لوگوں نے نم آنکھوں سے بادشاہ کو جہنم نما جزیرے میں چھوڑنے کی تیاری شروع کردی۔
ہر طرف مایوسی کا پہرہ تھا،اور لوگ یہ خیال کر رہے تھے کہ یہ بادشاہ اتنا سادہ اور رعایہ پرور ہے، وہ اب ہم سے دور ہو رہا ہے، یہ سوچ کر لوگوں پر غم کے بادل گہرے ہو رہے تھے۔ہر کوئی دل ہی دل میں یہ دعائیں کر رہا تھا کہ کسی قدر یہ بادشاہ ہمیں چھوڑ کر نہ جائے۔
ہر طرف مایوسی کا پہرہ تھا،اور لوگ یہ خیال کر رہے تھے کہ یہ بادشاہ اتنا سادہ اور رعایہ پرور ہے، وہ اب ہم سے دور ہو رہا ہے، یہ سوچ کر لوگوں پر غم کے بادل گہرے ہو رہے تھے۔ہر کوئی دل ہی دل میں یہ دعائیں کر رہا تھا کہ کسی قدر یہ بادشاہ ہمیں چھوڑ کر نہ جائے۔
آج بادشاہ کی الواداعی کا آخری دن ہے!
بلکہ ایک محسن کی جدائی کا آخری دن!
لوگ بھاری دل سے جدائی کے پل کا انتظار کر رہے ہیں!
اچانک بادشاہ ان کے سامنے رونما ہوتا ہے اور لوگوں سے ہنس مکھ چہرے اور خوش و خرم لہجے میں ملتا ہے،لوگ دوسرے بادشاہوں کے برخلاف اس بادشاہ کو خوش دیکھ کر سکتے میں چلے جاتے ہیں............ ہر ایک اپنی طرف سے اس مسکراتے چہرے کی تعبیر شروع کردیتا ہے... کوئی کہتا ہے کہ زندگی میں سادگی سے جینے والے موت سے نہیں ڈرتے...تو کوئی کہتا ہے کہ یہ اللہ والے ہیں انہیں دنیا کا کوئی غم نہیں... غرض کہ ہر کوئی خود کو سمجھانے کی کوشش کر رہا ہے لیکن کسی کو حقیقت کا علم نہ تھا، یہاں تک کہ کسی نے ہمت جٹائی اور سوال کر ہی ڈالا کہ بادشاہ سلامت دوسرے بادشاہوں کے برخلاف آپ پر جدائی کے کوئی آثار کیوں نہیں؟
بلکہ ایک محسن کی جدائی کا آخری دن!
لوگ بھاری دل سے جدائی کے پل کا انتظار کر رہے ہیں!
اچانک بادشاہ ان کے سامنے رونما ہوتا ہے اور لوگوں سے ہنس مکھ چہرے اور خوش و خرم لہجے میں ملتا ہے،لوگ دوسرے بادشاہوں کے برخلاف اس بادشاہ کو خوش دیکھ کر سکتے میں چلے جاتے ہیں............ ہر ایک اپنی طرف سے اس مسکراتے چہرے کی تعبیر شروع کردیتا ہے... کوئی کہتا ہے کہ زندگی میں سادگی سے جینے والے موت سے نہیں ڈرتے...تو کوئی کہتا ہے کہ یہ اللہ والے ہیں انہیں دنیا کا کوئی غم نہیں... غرض کہ ہر کوئی خود کو سمجھانے کی کوشش کر رہا ہے لیکن کسی کو حقیقت کا علم نہ تھا، یہاں تک کہ کسی نے ہمت جٹائی اور سوال کر ہی ڈالا کہ بادشاہ سلامت دوسرے بادشاہوں کے برخلاف آپ پر جدائی کے کوئی آثار کیوں نہیں؟
بادشاہ نہایت سنجیدگی سے مسکرا کر جواب دیتا ہے کہ :
ان بادشاہوں کو وہاں جانے سے ڈر اس لیے لگتا تھا کہ وہ اس مختصر زندگی میں اس قدر مست ہوگئے تھے کہ انہیں کل کی کوئی خبر ہی نہیں تھی اور مجھے کوئی شرمندگی اس لیے نہیں کہ ہم نے سب کچھ کل اور وہاں کے لیے ہی کیا ہے.. ہم نے ایک سال کی اس چھوٹی سی لذت کو بھلا کر اس کل کی تیاری میں خود کو لگادیا تھا جہاں مجھے پوری زندگی رہنی ہے اور آج میں پوری تیاری کے ساتھ وہاں جا رہا ہوں، اب ہمیں وہاں جانے میں کوئی خطرہ نہیں ہے ۔
سنو اب وہ ویران اور کال کوٹھری نما جزیرہ خوبصورت جنت کی شکل اختیا کر چکا ہے۔
ان بادشاہوں کو وہاں جانے سے ڈر اس لیے لگتا تھا کہ وہ اس مختصر زندگی میں اس قدر مست ہوگئے تھے کہ انہیں کل کی کوئی خبر ہی نہیں تھی اور مجھے کوئی شرمندگی اس لیے نہیں کہ ہم نے سب کچھ کل اور وہاں کے لیے ہی کیا ہے.. ہم نے ایک سال کی اس چھوٹی سی لذت کو بھلا کر اس کل کی تیاری میں خود کو لگادیا تھا جہاں مجھے پوری زندگی رہنی ہے اور آج میں پوری تیاری کے ساتھ وہاں جا رہا ہوں، اب ہمیں وہاں جانے میں کوئی خطرہ نہیں ہے ۔
سنو اب وہ ویران اور کال کوٹھری نما جزیرہ خوبصورت جنت کی شکل اختیا کر چکا ہے۔
یہ سن کر درباریوں نے کہا کہ بادشاہ سلامت اب پرانے رسم و رواج کا خاتمہ ہوچکا ہے ، کیونکہ ہمیں ایک عقلمند بادشاہ کی تلاش تھی جو آج ہمیں مل گیا ہے،وہاں تو ہم ان بے وقوف شہنشاہوں کو چھوڑ دیتے تھے جو ایک سال کی خودمختاری کا لطف اٹھاتے تھے۔اپنی ساری زندگی کو بھول جاتے اور اپنے لئے کچھ نہ کرتے،”لیکن آپ نے دانشمندی کا مظاہرہ کر کے یہ ثابت کر دیا ہے کہ آپ کے علاوہ کوئی دوسرا ہمار بادشاہ نہیں ہوسکتا ! ہمیں اسی طرح کے ایک ذہین بادشاہ کی ضرورت تھی۔
دوستو! اس واقعہ سے پتہ چلا کہ یہ زندگی بہت تھوڑی ہے اور ہمیں دوسری زندگی میں کب جانا ہے اس کا کسی کو علم نہیں۔ اس لیے ہمیں آنے والی زندگی کو اس چھوٹی سی زندگی پر ترجیح دینی چاہیے۔ اس دنیا کو مسافر کی طرح جیو جس کی منزل دوسری دنیا ہے اور وہ ہے آخرت کی دنیا۔
ازقلم : محمد نورالدین ازہری
ہندی میں پڑھنے کے لیے کلک کریں
ازقلم : محمد نورالدین ازہری
ہندی میں پڑھنے کے لیے کلک کریں
No comments:
Post a Comment