Sunday, August 18, 2019

علماءودانشوران كا باہمي ربط وقت کی بڑی ضرورت


فكروعمل
علماءودانشوران كا باہمي ربط وقت کی بڑی ضرورت
ھندوستان کےمعروضی حالات میں وقت کا بڑا داعیہ یہ ہے کہ ہمارےوہ حساس علماءومشائخ مفکرین ومدبرین جونہ صرف یہ کہ مسلمانوں کےعالمی، قومی اور مقامی مسائل و ترجیحات سے واقف وآگاہ ہیں بلکہ ملت کے تئیں مخلص جذبات کی تسکین کے لیے صلاحیت و وسائل کے اعتبار سے سیاسی،سماجی،علمی مسائل و ضروریات کی گتھیاں سلجھانے کی انفرادی کوششوں میں مصروف اورسرگرم رہتے ہیں وہ اب اپنی فردیت کو اشتراکیت کا جامہ پہناکر، انفرادی کارگزاریوں سے ایک قدم آگے بڑھ کر مشترک ملی وقومی، شرعی وسیاسی مسائل و ضروریات کی عقدہ کشائی کرنے،باہمی افتراق وانتشار کی برہم زلفوں کو سنوارنے اور امت مسلمہ کے فکری، علمی، اخلاقی،اقتصادی انحطاط و زوال کے اسباب و علل کا پوری قوت کے ساتھ مقابلہ کرنے لئے اداروں، خانقاہوں کے انتساب کے باہمی افتخار،نسلی تفوّق و برتری کے ذہنی خمار،علمی مکابرہ و مجادلہ کے ماحولیاتی اثرات اور ان کے علاوہ ذاتی بغض وعناد کو پیدا کرنے والے دوسرے مھلک امراض کو شکست دیکر صرف اللہ و رسول صلي اللہ علیه وسلم کی رضا کے واسطے اولا خود کو مربوط و منظم کریں.پھر تنظیم کے متعینہ اہداف واغراض کو شرمندۂ تعبیر کرنے کے لائحۂ عمل،طریقۂ کار،صلاحیت و ذوق کے اعتبار سے اعضاء تنظیم کو تقسیم کار اور علمی و فکری مواد کی ہدایت و راہنمائی کے لئے ایسے تجربہ کار اور سینیرعلماء و مشائخ ،مفکرین و مدبرین کی نگرانی و سر پرستی حاصل کریں کہ جن کی ذوات قدسیہ جماعت اہلسنت کے صالح عقائد و نظریات کی صحیِح ترجمانی، علوم کی ترویج و اشاعت، تصنیف و تألیف،دعوت و تبلیغ، فروغ سنیت کے لئے اداروں، تحریکوں کی منصوبہ بندی اور قیام کی عظیم خدمات کی بنیاد پر اہل علم و فن کے ما بین منفرد اور مثالی تسلیم کی جاتی ہیں. ان شاء اللہ نتائج بھت بہتر ہوں گے.
واضح رہے کہ میری یہ مختصر تحریرصرف حساس علماء کی بارگاہ میں ایک عریضہ ہے اس کے علاوہ کچھ نہیں.۶ گر قبول افتد زہے عز و شرف.
ہاں تحریر کے آخری جملوں میں اپنے ان احباب علماء و دانشوران کو جو میری اس تحریر کی لفظی غلطیوں کو نظر انداز کرکے اس کے مقصد سے متفق ہوں گے حق محبت سمجھ کر یہ مشورہ ضرور دونگا کہ اسلام دشمن طاقتوں کی بربریت و جفاکشی،علماء سو اور سیاسی لیڈران کی ضمیر فروشی کے اس نازک دور میں ہندوستان کی سر زمین پر بظاہر ایسی کوئی مؤثر طاقت و قوت نظر نہیں آتی کہ  جس کی قیادت کے زیر سایہ مسلمانان ہند اپنے شرعی معاملات میں غیروں کی بیجا مداخلت کا دفاع ، ملی، مذبی تشخص و وقار کی  حفاظت اور الجھے ہوئے مسائل کا حل منظم انداز سے کر سکیں بس اھل بصیرت و بصارت علماء و مشائخ اہل فکر ونظر دانشوران کا باہمی ربط ہی ھند کے مسلمانوں کوحالات سے مقابلہ کرنے کی ہمت و توانائی دیکر بے لگام ، بد گمان اور مایوس ہونے سے بچا سکتا ہے.علامہ اقبال نے کہا تھا
فردملت ربط سے قائم ہے تنہاکچھ نہیں
موج ہے دریا میں بیرون دریا کچھ نہیں
   فاضل مصباحی

No comments:

Post a Comment

Featured Post

*زحمت، رحمت اور فطرت* حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی جس کی بھلائی چاہتا ہے اس...