Sunday, August 4, 2019

مناظروں کے تناظر میں ایک تحریر

مناظروں کے تناظر میں ایک تحریر

ہم مسلمانان اہل سنت و جماعت ایک سچے دین و مسلک سے وابستگی کا اعزاز رکھتے ہیں، مگر افسوس کہ ایک طویل عرصے سے ہماری باگ دوڑ کچھ ایسے ہاتھوں میں ہے جو ناعاقبت اندیشی کی انتہا کو پہنچے ہوئے ہیں.
مسلکی عقائد و معمولات کے تحفظ کے لیے ڈیڑھ دو صدیوں سے تقریری و تحریری مناظروں کا کلچر ہمیں ورثے میں ملا ہے.
مسلک کی بقا کے لیے گہرا تفکر و تدبر رکھنے والے حضرات طویل غور و خوض کے بعد بجا طور پر اس نتیجے تک پہنچے ہیں کہ مناظروں کے کلچر نے اہل سنت کو نفع کم اور نقصان زیادہ پہنچایا ہے.
ان "ھل من مبارز" قسم کے مناظروں سے جو نقصانات پہنچتے ہیں وہ حسب ذیل ہیں.

انتشار و افتراق اور فتنہ و فساد میں اضافہ ہوتا ہے.

عداوتیں اور منافرتیں پروان چڑھتی ہیں.

علمی خمار دماغ پہ چڑھ کر اسے آلودہ کر دیتا ہے.

اتحاد و اتفاق پارہ پارہ ہو جاتا ہے .

تزکیہ نفس تباہ و برباد ہو کے رہ جاتا ہے.

فریق مخالف ضد میں آ کر قبول حق سے دور ہو جاتا ہے.

اغیار کو ہنسنے کا موقع فراہم ہوتا ہے.

عوام علماے کرام سے بد ظن ہو جاتے ہیں.

کفر، ضلال، الحاد اور باطل کو پھلنے پھولنے اور کھل کھیلنے کا موقع ملتا ہے.

سیکولر حکومتوں کو مولویوں کی آپس کی پھوٹ پر سکون و اطمینان حاصل ہوتا ہے.

سرمایہ، وقت اور صلاحیت جیسی قیمتی نعمتوں کا سراسر زیان ہوتا ہے.

دعوت و تبلیغ کی راہیں مسدود ہوتی ہیں.

حکمرانوں کے لیے مذہبی طبقے کو اپنے پنجہ استبداد میں دبوچنے میں بہت زیادہ آسانی حاصل ہوتی ہے.

اہل دین کا وقار، رعب اور دبدبہ جاتا رہتا ہے.

دین و مسلک کا نہایت مکروہ چہرہ دنیا کے سامنے آتا ہے.

مخالفین کو پروپیگنڈے کے لیے بہترین مواد فراہم ہوتا ہے.

لہٰذا ہماری سوچی سمجھی رائے کے مطابق یہ مناظرے باز صرف اپنی وقتی واہ واہ اور علمی دستار اونچی ثابت کرنے کے لیے اہل سنت کو تباہی و بربادی کے عمیق کھائیوں میں دھکیلنے کا سبب بن رہے ہیں، عوام اہل سنت کو ان کے جھنڈے اٹھانے اور نعرے لگانے کی بجائے انہیں اپنے سروں سے اتار پھینکنا چاہیے اور ان کا مکمل سوشل بائیکاٹ کرنا چاہیے، تاکہ انہیں اپنی اس بھیانک غلطی کا احساس ہو اور وہ آئندہ ایسی قبیح و شنیع حرکتوں سے باز آ جائیں.

باقی رہ گیا احقاق حق تو اس کے لیے اصولی طریقہ یہ ہے کہ سو پچاس جید و مستند علماے کرام کا بورڈ بنا کر انہیں مسائل سلجھانے کی ذمے داری سپرد کی جائے.
اگر بوجوہ بورڈ بنانے کے فریضے میں بے توجہی یا تاخیر سے کام لیا جاتا ہے تو بھی احقاق حق کے لیے مروجہ قسم کے مناظروں کی روش ترک کر کے شائستگی، متانت، سنجیدگی وغیرہ آداب اختلاف کی رعایت کرتے ہوئے اپنا اپنا نقطہ نظر تقریرا یا تحریرا لوگوں کے سامنے رکھ دینا چاہیے ، اب صحیح کیا ہے اور غلط کیا ہے، اس کا فیصلہ فہیم حضرات خود ہی کر لیں گے.. دھاڑ دھاڑ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں.
(عون محمد سعیدی مصطفوی بہاول پور)
21-7-2019

No comments:

Post a Comment

Featured Post

*زحمت، رحمت اور فطرت* حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی جس کی بھلائی چاہتا ہے اس...