Tuesday, August 13, 2019

جب چرم قربانی کی مالی حیثیت ختم ہو جائے


 جب چرم قربانی کی مالی حیثیت ختم ہو جائے
 جب چرم قربانی کی مالی حیثیت ختم ہو جائےتو بھی دیگر ناقابل انتفاع اعضا کی طرح اس کی تدفین جائز ہے،یہی میرا اصل مدعا تھا جسے بیان کیا گیا ہے،مگر قربانی سے قبل علمائے کرام اور مفتیان عظام نے عموما اس دوسری شق کو نظر انداز کردیا، جس سے ایک بحرانی کیفیت پیدا ہوگئی، یہی شق اگر پہلے بیان کردی جاتی تو بہت سے ادارے مزید مالی بھران سے بچ جاتے، مگر سیوا ایسا نہیں کیا جاسکتا، رہ گئی میری ایک پوسٹ یاکمنٹ کو یہ رنگ دینا کہ مفتی نظام الدین پر بے جااعتراض ہے تو یہ وہی غلطی ہے جس کاالزام خود مفتی نظام الدیں صاحب قبلہ مصباحی صدر شعبہ افتا اشرفیہ، مبارک پور اور ان کے ہم خیال دیگر محققین ومفتیان کرام پر ایک طبقہ لگاتا رہاہے، کہ وہ بعض مخصوص علمی شخصیت کے خلاف فتوی دیتے ہیں، حق یہ ہے کہ اہل علم اور مفتیان کرام جب بھی کوئی علمی یافکری خصوصا فقہی رائے پیش کرتے ہیں تو صرف رائے ہوتی ہے، کسی کے خلاف اعلان جنگ نہیں، میری اس پوسٹ کو اعتراض کانام دینا یہ عابد مصباحی جیسے بد طینت اور بغض پرور شخص کاکام ہوسکتا ہے،سوئے اتفاق مولانا رضاء الحق جیسے عالم دین بھی اس کی سازش کا شکار ہوگئے اور اسے نمک مرچ لگاکر اس اعتراض کو مزید گہرا کردیا. میں جو پوسٹ کی تھی وہ دراصل ایک ظریفانہ پوسٹ تھی، یعنی میڈیا کی زبان میں حالات حاضرہ پر تبصرہ، اب اس کو کسی ایک فرد سے جوڑنا انتہائی درجہ بد دیانتی ہے، چرم قربانی کے بارے میں مفےی نظام الدین صاحب قبلہ اس رائے میں متفرد نہیں ہیں، یہی رائے زیادہ تر مفتیان کرام کی ہے جیسا کہ روایت چلی آرہی ہے، مسئلہ اس و و ت پیدا ہوتا ہے جب کسی فقیہ کی رائے کو وحی الہی کادرجہ دے دیا جاتاہے، حالانکہ مفےی نظام الدین قبلہ کی تحقیقات فقہیہ عالیہ اسی روش کے خلاف ٹھوس علمی احتجاج ہیں، جس میں خود معترف اور قائل ہوں، اور مسلسل میڈیا میں ان کی خوبی کا اعلا ن واظیار ڈنکے کی چوٹ پر کرتا رہاہوں.
میں مفتیان کرام بالخصوص مولانا رضاء الحق راج محلی مصباحی سے معذرت کے ساتھ یہ استفسار کرنا چاہتا ہوں کہ وہ یہ ضرور واضح کریں کہ موجودہ حالات میں چمڑا مال ہے یا نہیں، جب کہ یہ چمڑا ایک دہائی قبل تین سو سے زائد مالیت کا ہوا کرتا تھا،قصائی اور تجاران چرم ایڈوانس میں رقم دے دیا کرتے تھے، مگرآج اسے کوئی مفت میں لینے کے لیے تیار نہیں ہے، ممکن ہے ملک کے بعض دیگر علاقوں میں صرت حال تھوڑی مختلف ہومگر دہلی جہاں اربوں روپے کا چمڑا بکتا تھا اور مدارس اسلامیہ اور مسلم تنظیمیں مالامال ہوجاتی تھیں، لیکن میں کل شب میں نے دہلی کے تمام دوستوں کو فون کرلیا مگر کسی کا چمڑا بکا نہیں تھا، میں نے دہلی کی صورت حال کو اپنی تنقیدی پوسٹوں میں بھی ظاہر کیاہے،کسی بھی مدرسے میں میرے علم کے مطابق خریدار نہیں آیا، میں بے وقوف ہوسکتا ہوں مگر وہ علما جو بڑے ذہین وفتین ہیں اور جن کا چرم کے تاجروں سے اچھے معاملات ہیں وہ بھی اپنا چرم نہیں بیچ سکے، حضرت قاری شان محمدصاحب خطیب وامام رضا مسجد خریجی کو فون کیا کیونکہ ان کے ایک رشتہ دار چمڑے کا کام کرتے ہیں، ا نھوں نے کہا کہ پہلے آپ چمڑا خریجی پہنچائیں،پھر دیکھیں گے، دیکھنے کا مطلب یہ میرے یہاں سے خریجی کم از بیس کیلو میٹر ہے، جس کا کرایہ ٹمپو سے کم از کم پندرہ سو روپے ہوئے، اور چمڑے کی قیمت بعض خوش قسمت مقامات پر دس روپے تھا اور زیادہ تر جگہوں پر دو روپے اور پانچ روپے تھا، اور پچاس فیصد جگہیں وہ تھیں جہاں کوئی مفت بھی لینے کو تیار نہیں، اب اگر میں اپنا چمڑا پہنچاتا تو کرایہ پندرہ سوروپےبہوتا اور مجھے دس روپے کے حساب سے اسی چمڑے کے آٹھ سو روپے ملتے مدرسے کو سات سو روپے کا نقصان ہوتا، اب میرے کمنٹ پر بھونکنے والے بتائیں کہ چمڑا مال رہا یا وبال جان بنا؟ مولانا بدرالدین صاحب وجے وہا،مولانا عبد الرشید صاحب موہن گارڈن، قاری انصار رضا شیو وہار، قاری آصف اسوہ مصطفی آباد، مولانا زین اللہ نظامی جسولہ وہار، مولانا شکیل احمد شاہین باغ، جناب ظیر بھائی شاہین باغ، مولانا محمد یعقوب صاحب بٹلہ ہاؤس وغیرے سے رابطہ کیا مگر آہ وبکا اور رنج وغم کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آیا، خود پچھلے سال چمڑا بڑی مشکل سے تیس روپے میں بکا تھا،امسال بعض علما نے مشورہ دیا کہ چمڑے کے ساتھ روپے بھی ادا کریں، دہلی میں بھیمتعدد مقامات پر ایسا کیا گیا، میں بھی اعلان کیا مگر لوگوں کو عجیب لگا، کہ یار چمڑا بھی دواور پیسہ بھی،چند لوگوں نے دیا باقی لوگ نظریں بچاکر چمڑا اسٹاک کرتے چلے گئے.میں مفتیان کرام کی توجہ چاہتا ہوں کہ یہ صورت حال افراط زر کی ہے جب پیسے کی قیمت گھت جائے اور سامان یعنی مارکیٹ کی ڈیمانڈ بڑھ جائے مثلا افریقہ کے بعض غریب ملکوں میں بوریوں میں روپیہ بھر کر سبزیاں خریدنے اور ریستوران میں چائے پینے جاتے ہیں, آج ایران کی صورت ح یہی ہے، امریکی پابندیوں کی وجہ سے سخت افراط زر کا شکار ہے، بینکوں کا انٹرسٹ جائز ہے، وجہ بیان کی گئی کہ اگر یہ رقم سرمایہ دار مسلمان بینکوں سے حاصل نہیں کریں گے تو رہ رقم مفاد مسلمان کے کے خلاف استعمال ہوگی مثال پیش کی جاتی ہے کہ بائی کلہ ممبئی کا شاندار تاریخی چرچ بھی ایک یا چند مسلمانوں کے انٹرسٹ کی رقم سے بناہے، اسی واقعے کے  بعد ہند کےمفتیان کرام کا رجحان انٹرسٹ کے جواز کی طرف ہوگیا، ممکن ہے دوستی شرعی وجوہات بھی ہوں، اس سے مجھے انکار نہیں، اور کمال تو یہ ہے کہ بریلویوں کے مقابلے میں دیا نہ وہابیہ اور غیرمقلدیت کارخ انٹرسٹ کے سے زیادہ سخت ہے. 
اس معاملے کا اب ایک دوسرا پہلو ملاحظہ کریں. جس نظر رکھنا ہر درد مندمفتی جے لیے ضروری ہے وہ یہ کہ ہندوستان میں مسلمانوں کو جن حالات کا سامنا ہے وہ فقہی کتابوں کی قدیم جزئیات سے بہت ھد تک مختلف ہے، ہندوستان اگر چہ ایک جمہوری ملک ہے، جس کا آئین ہے اور عدلیہ ہے، جس پر ہمیں پورا بھروسہ بھی ہے مگر اسی کے ساتھ ساتھ اس ملک میں مسلم دشمن فرقہ پرست طاقتوں کی بھی کمی نہیں ہے، جن میں خاص طور آر ایس ایس قابل ذکر ہے باقی تنظیمیں اسی کی جائز یا ناجائز اولاد ہیں، ان سب کا ایک مطمح نظر ہے کہ کسی طرح سے مسلمانوں سے ان ملی و ذہبی تشخص چھین لیا جائے، اس راہ میں ان کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ مدارس اسلامیہ ہیں، اس لیے ان کی توڑ کوشش ہے کہ کسی طرح تمام مدارس کو بند کردیا جائے، یاان کا زور توڑ دیاجائے، ان کو مالی وسماجی لحاظ سے بے دست وپا کردیا جائے، یا کم از کم ان کے رول جو محدود کردیا آئے، یوپی کے مدرسوں میں گورنمنٹ جو آید دیتی ہے اور اس کے نتیجے میں مدرسوں پر جوغیر شرعی قوانین نافذ کرتی ہے وہ بھی اسی مکروہ منصوبے کاایک حصہ ہے، دارالعلوم ندوۃ العلما پر بلااشتعال فائرنگ(اس سال میں ہی ندوہاسٹوڈینٹ یونین کاپرسیڈینڑ تھا، میرے ہی ہوسٹل پر حملہ ہوا تھا، ہم زمین پر لیٹ گئے تھے، ہمارے روم کی دیواریں آرمی کی رائفل کی گولیوں سے چھلنی ہوگیا تھا، ابھی حال ہی میں بغیر کسی قانونی حق کے دارالعلوم دیوبند کی لائبریری پر چھاپہ اور حملہ بھی اسی ناپاک منصوبے کا ایک حصہ ہے، مولانامحمد علی جوہر یونیورسٹی پر حملہ آور چھاپہ اور اس کے تمام اثاثہ جات کی لوٹ پاٹ اور اعظم خان پرپچاس سے زائد مقدمات کا رجسٹریشن اسی منصوبے کاایک حصہ ہے، یعنی مسلمانوں کو تعلیم کے میدان میں اپاہج بنادیا جائے،اب اصل مدعا پر آتا ہوں، وہ یہ مالیات کسی بھی تنظیم یاتحریک یا تعلیمی و تربیتی ادارہ کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، پیسہ نہیں ہوتا تو عالی گرھ یونیورسٹی سے لے کر الجامعۃ الاشرفیہ تک اور دارالعلوم دیوبند سے لے کر ندوۃ العلما تک کوئی ادارہ تعمیر نہیں ہوتا خواہ ان کاعقیدہ ومسلک کچھ بھی یو، مدرسوں کاذریعہ آمدنی صدقہ، زکات، عطیات، فطرہ وچرم قربانی ہے، ایام قرباں میں میں مدارس ایک جھٹکے میں حسب حیثیت، ہزاروں، لاکھوں روپے جمع کرلیتے تھے، پورے ملک میں چرم قربانی کاکاروبار ہزاروں کروڑ روپے کاہے، اسی لیے قربانی کا چمڑا فرقہ پرستوں کی آنکھوں میں کانٹا بن کے کھٹکتا رہاہے اور اس شعبے کو وہ مکمل طور پر مفلوج کردیا چاہتے تھے، اور بالآخر پچھلی نصف دہائی کے عرصے میں وہ اپنے مذموم مقصد میں کامیاب ہوتے دکھ رہے ہیں،کیونکہ اہل مدارس نے بکروں کی کھا کھینچنے اور اسے لوٹنے کے سوا اس کی حفاظت اور سرمایہ کاری کا کوئی نظم نہیں قائم کءا ہے، دعوت اسلامی کے بارے میں سناہے کہ انھوں نے بڑے بڑے ڈپو بنارکھے ہیں جہاں چمڑے کو محفوظ کیا جاتاہے اور غالبا ایسا پاکستان میں ہے، ہندوستان میں کیا پوزیشن ہے مجھے معلوم نہیں، در ہونا یہ چاہیے کہ کم از کم ضلعی یا تحصیل کی سطح پر چمڑا اسٹور کرنے اور اس کا محفوظ بنانے کا مرکز قائم کیا جائے اور ایک ضلع یاتحصیل کے چرم کو ایک رجسٹر میں مندرج کر کے سب کے حصے محفوظ کردیں، اور فورخت ہونے کے بعد سب کے حصے کی رقم ادارے کے اکاؤنٹ میں منتقل کردیا جائے. اگر ایسا نہیں کرسکے تو اگلے سال ہر مفتی کو یہ اعلان کرناہڑے گا کہ چرم قربانی اب مال نہ رہا،. 
اسی مسئلے کاایک پہلو اور رکھنا آتا ہوں، وہ یہ کہ ہندوستان دنیا مین گوشت کا مبر ایک کااکسپورٹر ہے، کل تقریبا بتیس بڑی بیف کمپنیاں ہیں جن میں سے بڑا الکبیر ہے جوایک نان مسلم کاہے، اسی طر پچانوے فیصد کمپنیاں غیر مسلموں کی ہیں، ان کمپنیوں کے خلاف ہندو تنظیموں نے کبھی کوئی آواز بلند نہیں کی اور نہ حکومت نے کوئی کاروائی کی بلکہ ان سے ہزاروں کروڑ کا الیکشن فنڈ میں چندہ لیتی ہیں، معلوم ہوا کہ گئو رکشا کے نام پر مسلمانوں کے خلاف جوآتنک جاری ہے اس کاسبب مذہبی سے زیادہ معاشی ہے، ہندو تنظیمیں نہیں چ؛ ہتیں کہ یہ کاروبار مسلمانوں کے ہاتھ میں رہے یاان کی خوشحالی کاذریعہ بنے، پورے ملک میں جانوروں کی خریدوفروخت کاکام کرنے والے آج جانوروں کی زندگی جینے پر مجبور ہیں، کانپور میں چمڑا صنعت سے مسلمانو ہر ریال اور ڈالر کی بارش ہوتی تھی، مگر آج ساری ٹینریاں بند ہوچکی ہیں، چمڑا فیکٹری کا پانی مقدس دریا میں نہ جائے مگر روزانہ لاکھوں جلے ہوئے انسان ان کے حوالے کیے جاتے ہیں، اس پر کسی کواعتراض نہیں، کانپور کی ٹینری اجڑنے سے لاکھوں مسلمانوں کے بچے فاقہ کررہے ہیں اور گداگری پر مجبور ہیں، لاکھوں مزدوروں نے روزی روٹی کھودیا، ارب پتی مسلمان اج عید بقرعید میں بچوں کے لیے نئے کپڑے بنوانے سے کتعارہے ہیں، ان مسلمانوں کےیے کون آواز اٹھائے، مولوی عابد رضا مصباحی یامولانا رضاء الحق مصباحی؟
چمڑے اور ہڈی کاسارا کارخانہ جین برادری کے ہاتھوں میں ہے، گائے کی چربی اور سور کی چربی کا معاملہ انھیں کے ذریعے ہندوستان نفرت کاسبب بنا، پورے سال کڑوروں اربوں ٹن چمڑا ان کو سلاٹر ہاؤس ؤں اور نیٹ فیکٹریوں سے مل. جاتاہے، ان جو س ال میں ایک اہل مدرسہ اگر چمڑا نہ بھی دیں توسن کمپنیوں کو ذرہ برابر فرق نہیں پڑتا، اس لیے بائیکاٹ کاکءڑا بھی اپنے دماغ سے اہل مدرسہ نکال دیں. 
زمینی حقیقت کا سامنا کرتے ہوئے مسلمان کاروباریاں سے ملیں اور چمڑے کے تحظ اور سرمایہ کاری کی راہ نکالیں. افسو کہ ان پڑھ کسانوں نے آلو پیاز مچھلی کواستور کر نے کے لیے کولڈ اسٹ وریج بنا لیا مگر بڑے بڑے علامی مفتی، منطقی، فلسفی، صرف فلسفہ بگھارے رہ گئے، وجہ یہی ہے، کہ علما درسگاہ اور دارالافتا تک محدود ہیں، عملی زندگی سے یہ کوسوں دور ہیں، ایسے مفتیان کرام اپنے آپ کو حنگی بلکہ امام اعظم کاتلمیذ کہتے ہیں.جب کہ اعظم فرماتے ہیں کہ فقیہ کے لیے بازار میں أنا جانا مارکیٹ ریٹ معلوم کرتے رہنااز حد ضروری ہے جب کہ ایسے متمام موقر علما اور مفتیان کرام جاسوسا سلف شاگرد لاتے ہیں ءانوکر شاکر یاگھر والے، بلکہ بازار جانا وہ خلاف شان سمجھتے ہیں. 
سالک مصباحی کی اس نسئلے ہر جوبھی کمنٹ یاپوسٹ ہے اس انھیں حالات کے تناظر میں پڑھاجا ورنہ عابد مصباحی کی طرح مجھ بھونکتے رہیے مجھ پر کچھ فرق نہیں پڑتا. میں بستر پر لیٹے پیٹے یہ پوسٹ لکھ رہاہوں کل دن رات کی محنت نے پیچیش اور بخار نے حملہ کردیاہے، ایک مزدور بھر کام کرتا ہے. ام کو پانچ سو روپے کے کر گھنر جاتاہے، مجھے بہت سے لوگوں کی طرح کل چرم قربانی کاایک پیسہ بھی نہیں ملا، کئی گھنٹوں کی جان توڑ محنت کے بعد بڑی مشکل سے چمڑے کو ٹھکانے لگانے میں کامیاب ہوئے، دفن کریں تو بھی مسئلہ اور بازار تب بھی مسئلہ مگر دفن کرنے کی سورت میں یہ تسلی ہوگی کہ میرے چرم قربانی کے سرمائے سے مسلمانوں کاقتل عام یا وب لنچنگ کرنے کے لیے ترشول اور تلواریں تو نہیں خریدی جائیں گی؟ 
سالک مصباحی دہلوی
مورخہ 13اگست،بروز منگل
بارہ بج کر دس منٹ

مولانارضاء الحق مصباحی راج محلی کی تحریر حسب ذیل ہے

"قربانی کی کھال سے متعلق ایک فتوے پر بے جا اعتراض کا جواب #
سراج الفقہاء مفتی نظام الدین رضوی صدر شعبہ افتا جامعہ اشرفیہ مبارک پور سمیت جن مفتیان کرام نے قربانی کی کھال سے متعلق حکم شرعی بیان کیا ہے کہ قربانی کی کھال کادام چاہے جتنا کم ہو' اس کو جلاکر یادفن کرکے ضائع کرنا جائز نہیں ۔اس کی وجہ یہ بیان کی گئ ہے کہ وہ مال ہے اور اضاعت مال کی شرع اجازت نہیں دیتی ۔۔مسئلہ واضح ہے کہ اگرقربانی کی کھال کی مالیت کسی مقام پہ مفقود ہوجاے، کوئ خریدنے والا ملے نہ ہدیہ میں قبول کرنے والا ملے 'نہ کھال کا مالک اسے استعمال کرنے پر قادر ہو تواب اس کی مالی حیثیت باقی نہ رہی لہذا قربانی کے جانور کے دوسرے ناقابل انتفاع اعضا کی طرح کھال کو بھی دفن کرنے کا حکم ہوگا۔۔اگر کسی مقام پہ اس کی مالیت مفقود ہوگئ ہے تو وہاں وہ حکم شرع بھی مفقود ہوگا۔کیوں کہ حکم کی بنیاد وجود مالیت ہے۔جہاں یہ مفقود تو وہ مفقود۔۔۔لہذا بیان کردہ حکم شرع پر اعتراض لغو ۔۔۔
*رضاء الحق مصباحی راج محلی
١١،ذوالحجہ ١۴۴٠ھ"

(دراصل ہوا کیا ہے؟)
عالمی سامراجی طاغوتی سرمایہ دار طاقتوں کو شروع سے ہی برصغیر پاک و ہند کے مدارس و جامعات کے بارے میں شدید تحفظات رہے ہیں، کیونکہ یہ ان کے سیاسی معاشی اور معاشرتی ایجنڈے کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ہیں.
عالمی طاقتیں تسلسل کے برصغیر کے حکمرانوں سے ان مدارس و جامعات کو نتھ ڈالنے کا مطالبہ کرتی چلی آ رہی ہیں.
لیکن یہاں کے حکمران مذہب کی خاطرخواہ قوت کے پیش نظر ان کے مطالبات کو حیلے بہانے سے ٹالتے رہے ہیں.
لیکن اب ان مطالبات میں جب شدت آئی اور عالمی طاقتوں نے بازپرس کی کہ ان مدارس کو مالی قوت کہاں سے فراہم ہو رہی ہے؟ تو انہیں بتایا گیا کہ زیادہ تر ان کا انحصار زکوٰۃ و عطیات اور قربانی کی کھالوں پر ہے.. تو مذکورہ ہر دو ذرائع پر حملے کا باقاعدہ پلان ترتیب دیا گیا..
زکوٰۃ وصولی کی راہوں کو مسدود کرنے کے لیے باقاعدہ ایک ضوابط نامہ ترتیب دے کر دینی مدارس کو پابند کیا گیا کہ وہ اپنے مخیرین کے نام سامنے لائیں، مقصد یہ تھا کہ اس طرح مخیرین پر ان کی آمدنی کو بنیاد بنا کر ہاتھ ڈالا جا سکے.
کھالوں کے حوالے سے پلان یہ تیار کیا گیا کہ ایک طرف تو مدارس کے لیے اجازت نامے کو لازمی قرار دے دیا گیا، جس میں اس مرتبہ تیرہ شرائط کے ساتھ کھالوں کی وصولی کی اجازت دی گئی.. دوسری طرف چمڑے کے تاجروں کے ساتھ باقاعدہ ساز باز کر کے کھالوں کی قیمت کو شرم ناک حد تک گرا دیا گیا... ساتھ ہی قیمتوں کے کنٹرول کو برقرار رکھنے کے لیے تمام تاجروں کو لائسنس کا پابند کر دیا گیا تاکہ مقابلہ بازی میں قیمتوں کے ریٹ بڑھنے نہ پائیں.
اس طرح عالمی طاقتوں کا جہاں مدارس کی کمر توڑنے کا ملعون ایجنڈا کامیاب ہوا وہاں برصغیر کی حکومتوں کو  خوب سرمایہ لوٹنے کا بھی موقع فراہم ہوا..
زیر نظر اسکرین شاٹ مولانا انصار مصباحی صاحب کے پوسٹ پر راقم کا تبصرہ تھا، دوسرے تبصرے میں میں نے یہ سوال کیا تھا کہ چمڑے کے مال ہونے کا تعین ہم کس وجہ سے کرتے ہیں؟
لیکن جواب سے محروم رہنے پر اب یہ سوال میں اہل علم کے سامنے پیش کرتا ہو اگر اس سوال کا جواب مل گیا تو شاید چمڑے کے سلسلے میں ابھی جو مختلف اداروں، مفتیان کرام اور علماء کے درمیان رسہ کشی چل رہی ہے اس کا حل سامنے آجائے اور بعض شدت پسند مولویوں کی تفسیق و تضلیل کا بازار بھی سرد پڑ جائے۔
دو دنوں پہلے "الکلیم دارالافتاء سیتا مڑھی بہار" نام کے اکاؤنٹ سے مجھ سے ذاتی میسینجر پر رابطہ کرکے میرے ایک کمنٹ میں شیئر کئے گئے اخباری تراشے کا اسکرین شاٹ پیش کرکے مجھ سے سوال کیا گیا کہ کھال وصولنے کا فیصلہ شرعی ہے یا غیر شرعی؟
میں نے مطالبہ کیا کہ پہلے آپ اپنا تعارف کرائیں کہ آپ کون ہیں اس کے بعد میں آپ سے اس مسئلہ پر گفتگو کروں گا کیوں کہ مجھے یہ اکاؤنٹ مشتبہ لگا، عام طور سے سوشل میڈیا پر دارالافتاء کسی کے ذاتی اکاؤنٹ سے نہیں بل کہ پیج سے چلتے ہیں اس اکاؤنٹ کا نام "الکلیم دارالافتاء سیتا مڑھی بہار" ہے اور پروفائل کے مطابق اس اکاؤنٹ کو استعمال کرنے والا ممبئی میں رہتا بھی ہے اور ممبئی کا رہنے والا بھی ہے، اور اس اکاؤنٹ سے کھال کے دفن کرنے کے عدم جواز پر مختلف مکاتب فکر کے اداروں کے فتاوے شئیر کیے گئے ہیں اور بعض فتاوی "رجوع لازم" کے شدت آمیز لاحقے کے ساتھ شیئر کیے گئے ہیں۔
بہر حال اگر چرم قربانی کی مالی حیثیت نص سے صراحتاً ثابت ہے تو اہل علم اس کی طرف رہنمائی فرمادیں اور جواز عدم جواز کی بحث ہی ختم!
میرے محدود مطالعہ میں مسند امام احمد بن حنبل کی ایک روایت ہے جسے امام احمد بن حنبل نے مسند المدنیین کے تحت حضرت قتادہ بن النعمان سے مروی ایک حدیث نقل فرمایا ہے جس میں قربانی کی کھال کے تعلق سے یہ الفاظ ہیں:
وَاسْتَمْتِعُوا بِجُلُودِهَا وَلَا تَبِيعُوهَا
"قربانی کی کھال سے نفع اٹھاؤ اور اسے فروخت نہ کرو"
اس روایت کی روشنی میں دو باتیں صراحتاً سمجھ میں آرہی ہیں:
١- قربانی کی کھال ذاتی استعمال میں لایا جائے لیکن یہ حکم وجوبی نہیں۔ (اس کو صدقہ کرنا بہر صورت لازم نہیں)
٢- اور اگر ذاتی استعمال میں نہیں لا سکتے تو اس کو فروخت بھی نہ کریں
اور ساتھ ہی ساتھ اشارتاً یہ بھی سمجھ میں آیا کہ:
١- عہد نبوی میں کھالوں کی خرید و فروخت ہو تی تھی
٢- اور اسی کی وجہ سے اس کی مالی حیثیت بھی تھی۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قربانی کرنے والا کھال کو ذاتی طور پر استعمال میں لانا بھی نہیں چاہتا اور فروخت بھی نہیں کرسکتا تو کیا کرے؟
فقہاء کرام نے بیان کیا کہ ایسی صورت میں کھال کو غریبوں کو صدقہ کردے۔ غریبوں کو صدقہ کرنے کا مقصد یہی ہے کہ غریب اس کو اپنے ذاتی استعمال میں لاکر اپنی ضرورت پوری کرلے یا اگر ذاتی استعمال میں نہیں لا سکتا تو اسے فروخت کرکے اپنی ضرورت پوری کرلے کیوں کہ قربانی کی کھال فروخت کرنے کی ممانعت اس کو نہیں ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کھال کی خرید و فروخت بند ہو جائے یا فروخت کا نفع معدوم ہوجائے تو اس کی مالی حیثیت برقرار رہے گی؟
اس کی اضاعت سے اضاعت مال کا تحقق ہوگا؟
اور اس کی اضاعت کرنے والے پر اضاعت مال کا حکم لگے گا؟

#نوٹ: اہل علم اپنی تحقیق پیش فرمائیں اور پوسٹ کو بنا سمجھے اضاعت مال کی حرمت یا عدم جواز کے فتاوے جواب میں شئیر کرنے سے گریز کریں کیوں کہ یہاں بحث کا یہ موضوع ہے ہی نہیں۔
شکریہ
عرفان احمد ازہری
یاد رہے کہ اب تیسرا اقدام یہ کیا جا رہا ہے کہ ان مدارس و جامعات کو سرکاری امتحانات کا پابند کر کے ان کی خود مختار تہذیبی فکر کو تباہ کرنے کے ایجنڈے پر زور شور سے عمل شروع ہو چکا ہے.

ایسے میں جب تک تمام مدارس کی جملہ تنظیمات سیسہ پلائی دیوار کی طرح متحد ہو کر کسی فکری  پالیسی کے تحت اس اسلام دشمن ایجنڈے کی مزاحمت نہیں کرتیں تب تک تمام مدارس مکمل طور پر شدید خطرات کی زد میں ہیں.
اب عالمی اور قومی طاقتیں دینی مدارس کی قوت کو توڑنے کے خلاف فیصلہ کن جنگ کرنے کے لیے میدان میں اتر چکی ہیں.
علامہ منظر محسن

No comments:

Post a Comment

Featured Post

*زحمت، رحمت اور فطرت* حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی جس کی بھلائی چاہتا ہے اس...