فکری جنگ اسباب و نتائج
فکری،اعتقادی اور مذہبی دنیا میں اختلافی جنگ و جدال کی ایک الگ دنیا آباد ہے،یہ اختلاف اصول و فروع اور فروع کے فروع میں بھی پائے جاتے ہیں۔ان اختلافات کے کیا نتائج برآمد ہوے یا ہو سکتے ہیں اس سے پہلے یہ سمجھنا مناسب ہے کہ اس کے بنیادی اسباب کیا ہیں؟ تحقیق سے ظاہر ہے کہ لوگوں کے مابین اختلاف کے یہ اسباب ہیں:
فکری،اعتقادی اور مذہبی دنیا میں اختلافی جنگ و جدال کی ایک الگ دنیا آباد ہے،یہ اختلاف اصول و فروع اور فروع کے فروع میں بھی پائے جاتے ہیں۔ان اختلافات کے کیا نتائج برآمد ہوے یا ہو سکتے ہیں اس سے پہلے یہ سمجھنا مناسب ہے کہ اس کے بنیادی اسباب کیا ہیں؟ تحقیق سے ظاہر ہے کہ لوگوں کے مابین اختلاف کے یہ اسباب ہیں:
1.
رغبات و
خواہشات اور میلان قلب کا مختلف ہونا
2.
زوایہ فکرو
نظر اور طریق تفکیر کا اختلاف
3.
وہ فطری اور
غیرشعوری وراثتی اختلافات جس سے کوئی مفر نہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ جب ہم اپنی ذاتی اختلاف کو عقلی اور تاریخی رنگ میں
رنگ کر اسے صحیح ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو پھر وہی ایک غلطی ہماری نظر میں
صحیح اور دوسروں کی نظر میں غلط یا مفاد پرستی نظر آتی ہے جب کہ کوئی اسے مصلحت بھی
کہہ سکتا ہے۔اور ہر کوئی اپنے موقف کو عقلی ،تاریخی اور شرعی دلائل سے تقویت دینا
شروع کردیتا ہے۔
ماضی میں
ہوے ان اختلافات نے نہ جانے کتنے خونی اور تاریخی جنگ و جدال کو جنم دیے جو بنیادی طور پر تین طرح کے ہیں:
·
باطل کا آپسی اختلاف: یہ مصلحتوں کے
آپسی ٹکراو کے نتیجے میں ہوے جن میں اہم عنصر رنگ و نسل کی رہی۔ اللہ فرماتا ہے: بَأْسُهُم بَيْنَهُمْ شَدِيدٌ ۚ تَحْسَبُهُمْ جَمِيعًا وَقُلُوبُهُمْ شَتَّىٰ
ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا يَعْقِلُونَ" (الحشر: 14). ترجمہ:
ان کی لڑائی تو ان میں
آپس میں ہی بہت سخت ہے گو آپ انہیں متحد سمجھ رہے ہیں لیکن ان کے دل دراصل ایک
دوسرے سے جدا ہیں ۔ اس لیے کہ یہ بےعقل لوگ ہیں۔
·
اہل حق کا آپسی اختلاف: یہ اجتہادی ٹکراو سے پیدا ہوے اور خون ریز جنگیں
بھی دیکھیں گئیں۔ حضرت علی و حضرت معاویہ رضی اللہ عنہما کے بیچ جو ہوا اسے اس کی ایک نظیر قرار دی جاسکتی ہے۔جسے امام
ابن حجر عسقلانے کہ یہ وہی جنگ جس کی طرف حدیث میں آیا کہ::" لا تقوم الساعة حتى يقتتل فئتان عظيمتان، فيكون بينهما
مقتلة عظيمة؛ دعواهما واحد" متفق عليه۔ ترجمہ: قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو
گی جب تک دو عظیم جماعتیں جنگ نہ کریں گی۔ ان دونوں جماعتوں کے درمیان بڑی خونریزی
ہو گی۔ حالانکہ دونوں کا دعویٰ ایک ہی ہو گا.. اور اسی تناظر میں ان اختلافات کو
بھی دیکھا جاسکتا ہے جو اہل سنت کے مذاہب فقہیہ کو لے کر ہوتے آئے ہیں جو کہ کئی
بار آپسی نزاع اور بہتان تراشی تک پہنچ گئی۔
·
حق و باطل کی جنگ:یہ وہ ٹکراو اور اختلافات ہیں جو باطل نے ہردور میں چھیڑی
اور ذاتی باری تعالی خود اس کا مداوا کرتا رہاہے۔اللہ نے اس حوالے سے
فرمایا: "وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ
بَعْضَهُم بِبَعْضٍ لَّفَسَدَتِ الْأَرْضُ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ عَلَى
الْعَالَمِينَ" (البقرة: 251) ترجمہ: اور
خدا لوگوں کو ایک دوسرے (پر چڑھائی اور حملہ کرنے) سے ہٹاتا نہ رہتا تو ملک تباہ
ہوجاتا لیکن خدا اہل عالم پر بڑا مہربان ہے...اور اسی حوالے سے وہ حدیث بھی ہے
جو حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا: "لا تَزالُ عِصابةٌ من أُمَّتي يقاتلونَ
على أمرِ اللهِ، قاهِرينَ لعَدُوِّهِم، لا يَضرُّهم مَن خالفهم،
حتى تأتيَهم الساعةُ وهم على ذلك" صحيح الجامع.
ترجمہ:
ہمیشہ میری امت کا ایک گروہ یا ایک جماعت اللہ تعالیٰ کے حکم پر لڑتی رہے گی اور
اپنے دشمن پر غالب رہے گی۔ جو کوئی ان کا خلاف کرے گا ان کو کچھ نقصان نہ پہنچا
سکے گا یہاں تک کہ قیامت آ جائے گی اور وہ اسی حال میں ہوں گے۔
مختلف جنگ
و جدل کے بیچ جو بات Common ہے وہ یہ ہے کہ ہر کوئی یہی چاہتا ہے کہ حق و صواب اس کے
ساتھ ہے۔
اس آپسی
اختلاف کا ایک پہلو تو وہ ہے جو اللہ نے فرمایا کہ:وَقَالَتِ الْيَهُودُ لَيْسَتِ النَّصَارَىٰ عَلَىٰ شَيْءٍ وَقَالَتِ
النَّصَارَىٰ لَيْسَتِ الْيَهُودُ عَلَىٰ شَيْءٍ وَهُمْ يَتْلُونَ الْكِتَابَ ۗ
كَذَٰلِكَ قَالَ الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ مِثْلَ قَوْلِهِمْ ۚ فَاللَّهُ
يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِيمَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ"
(البقرة: 113). ترجمہ:
یہود کہتے ہیں کہ نصرانی حق پر نہیں
اور نصرانی کہتے ہیں کہ یہودی حق پر نہیں ، حاﻻنکہ یہ سب لوگ تورات پڑھتے ہیں ۔ اسی طرح ان ہی جیسی بات بےعلم بھی کہتے
ہیں ۔ قیامت کے دن اللہ ان کے اس اختلاف کا فیصلہ ان کے درمیان کردے گا۔
اور اس کی دوسری کڑی وہ ہے جو ہم مختلف فرقوں کے بیچ دیکھتے ہیں جہاں ہر کوئی اپنے اپنے حق میں ایک ہی آیت سے استدلال کرتے ہیں اور دونوں اسی ایک مصحف سے سچے ہونے کا ایک ساتھ قسم کھاتے ہیں۔ ۔ امام بخاری نے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:وَيْحَ عَمَّارٍ ، تَقْتُلُهُ الفِئَةُ البَاغِيَةُ، يَدْعُوهُمْ إِلَى الجَنَّةِ ، وَيَدْعُونَهُ إِلَى النار"۔ ترجمہ: افسوس! عمار کو ایک باغی جماعت مارے گی ‘ یہ تو انہیں اللہ کی (اطاعت کی) طرف دعوت دے رہا ہو گا لیکن وہ اسے جہنم کی طرف بلا رہے ہوں گے۔
اور اس کی دوسری کڑی وہ ہے جو ہم مختلف فرقوں کے بیچ دیکھتے ہیں جہاں ہر کوئی اپنے اپنے حق میں ایک ہی آیت سے استدلال کرتے ہیں اور دونوں اسی ایک مصحف سے سچے ہونے کا ایک ساتھ قسم کھاتے ہیں۔ ۔ امام بخاری نے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:وَيْحَ عَمَّارٍ ، تَقْتُلُهُ الفِئَةُ البَاغِيَةُ، يَدْعُوهُمْ إِلَى الجَنَّةِ ، وَيَدْعُونَهُ إِلَى النار"۔ ترجمہ: افسوس! عمار کو ایک باغی جماعت مارے گی ‘ یہ تو انہیں اللہ کی (اطاعت کی) طرف دعوت دے رہا ہو گا لیکن وہ اسے جہنم کی طرف بلا رہے ہوں گے۔
علامہ ابن
حجر عسقلانی فرماتے ہیں کہ : اگر یہ کہا جائے کہ اس سے جنگ صفین مراد ہے جو حضرت علی
اور حضرت معاویہ کے بیچ تھی اور جس میں حضرت علی کی شہادت کا واقعہ پیش آیا اور
دونوں طرف صحابہ کی ایک جماعت تھی، تو اصحاب معاویہ کے لیے جہنم رسید ہونے کی بد
دعا کرنا کیسے جائز ہوسکتا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس کا پس منظر یہ ہے کہ
دونوں طرف کے فریق مد مخالف سے اس گمان کے ساتھ برسر پیکار تھے کہ وہ انہیں جنت کی
طرف بلا رہے ہیں۔لہٰذا وہ مجتہدین ہیں جن پر اپنے ظن و گمان کو حوالے سے ملامت
نہیں ہونا چاہیے۔
جنگ و
اختلاف کی تیسری کڑی کی نظیر وہ تعجب خیز
واقعہ ہے کہ جہاں فرعون یہ گمان کرتا ہے کہ موسی علیہ السلام فتنہ پرور ہیں(معاذاللہ)۔ قرآن
کہتا ہے: "وَقَالَ فِرْعَوْنُ ذَرُونِي أَقْتُلْ
مُوسَىٰ وَلْيَدْعُ رَبَّهُ ۖ إِنِّي أَخَافُ أَن يُبَدِّلَ دِينَكُمْ أَوْ أَن
يُظْهِرَ فِي الْأَرْضِ الْفَسَادَ" (غافر: 26) ترجمہ: اور فرعون نے کہا مجھے چھوڑ دو کہ میں موسیٰ (علیہ السلام) کو
مار ڈالوں اور اسے چاہئے کہ اپنے رب کو پکارے ، مجھے تو ڈر ہے کہ یہ کہیں تمہارا
دین نہ بدل ڈالے یا ملک میں کوئی (بہت بڑا) فساد برپا نہ کردے۔
..ابو جہل
فرعون کے اسی راہ پر چلتے ہوے جنگ بدر سے کچھ پہلے یہ بیان دیا تھا ،جیسا کہ علامہ
ابن جریر نے اپنی تفسیر مین سند صحیح کے ساتھ روایت کی: "كان المستفتح يوم بدر أبا جهل، قال: اللهم أقطعنا للرحم، وأتانا بما
لا نعرفه، فأحنه (اقتله) الغداة.
ترجمہ:یعنی ’’اے اللہ (محمدﷺ ) ہم میں سب سے زیادہ رشتے کاٹنے والا ہے، اور ایسی چیز لے آیا ہے جس سے ہم واقف ہی نہیں ہیں. پس کل تو اسے ہلاک کر دیجیو!‘‘
تو
اللہ نے اس حوالے سے آیت کریمہ نازل فرمائی: "إِنْ تَسْتَفْتِحُوا فَقَدْ جَاءَكُمْ الْفَتْحُ" (الأنفال: 19).ترجمہ: اگر تم لوگ فیصلہ چاہتے ہو تو وه فیصلہ
تمہارے سامنے آموجود ہوا
ترجمہ:یعنی ’’اے اللہ (محمدﷺ ) ہم میں سب سے زیادہ رشتے کاٹنے والا ہے، اور ایسی چیز لے آیا ہے جس سے ہم واقف ہی نہیں ہیں. پس کل تو اسے ہلاک کر دیجیو!‘‘
اور یہ
اختلافات اس لیے بھی اہم ہیں کہ یہ محض اختلاف رائے کی حد تک باقی نہیں رہتے بلکہ
اسی سے عدل و انصاف، اصول و قوانین اور پھر عمل و کردار کے خدوخال سلجھائے جاتے
ہیں اور وہ فکری ٹکراو عملی زندگی میں اترآتا ہے۔
لیکن یہاں
ایک سوال جنم لیتا ہے کہ کیا کبھی کسی غلطی کرنے والے کو اپنے ناحق ہونے کا
احساس ہوتا ہے یا ہمیشہ شیطان غلطی کو خوبصورت بنا کر اس کی نظروں میں دھول
جھونکنے میں کامیاب ہوجاتا ہے؟ اور یہی بات ہے کہ چور کو لگنے لگتا ہے کہ
لوگوں کے مال میں اس کا بھی حق ہے اور جھوٹے کو یہ احساس ہوجاتا ہے کہ وہ سچ بول رہا ہے
اور ظالم وڈکٹیٹر کو یہ لگتا ہے کہ وہ اپنے آباو اجداد کی وراثت کو حاصل کررہا ہے اور ان کے کوابوں شرمندہ تعبیر کررہا ہے اور ملحد و بد دین یہ سمجھتا ہے کہ وہ آزاد ہے اور کسی دوسری کو اس کی آزادی کے
ساتھ چھیڑ چھاڑ کا حق نہیں ۔لیکن مجھے جس بات کا پورا یقین ہے وہ یہ کہ اللہ
سبحانہ تعالی کبھی کسی بندے پر اس وقت تک
پکڑ نہیں کرتا جب تک اس پر حجت نہ قائم ہوجائے۔چنانچہ فرمان باری تعالی ہے: "مَّنِ اهْتَدَىٰ فَإِنَّمَا يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ ۖ وَمَن ضَلَّ
فَإِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا ۚ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ ۗ وَمَا
كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّىٰ نَبْعَثَ رَسُولًا" (الاسراء: 15) ترجمہ: جو راه راست حاصل کرلے وه خود اپنے ہی بھلے
کے لئے راه یافتہ ہوتا ہے اور جو بھٹک جائے اس کا بوجھ اسی کے اوپر ہے ، کوئی بوجھ
والاکسی اور کا بوجھ اپنے اوپر نہ لادے گا اور ہماری سنت نہیں کہ رسول بھیجنے سے پہلے
ہی عذاب کرنے لگیں۔
اللہ رب العزت فرماتا ہے: "وَجَحَدُوا بِهَا وَاسْتَيْقَنَتْهَا أَنفُسُهُمْ ظُلْمًا وَعُلُوًّا
ۚ فَانظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِينَ" (النمل: 14) ترجمہ: انہوں
نے انکار کردیا حاﻻنکہ ان کے دل یقین کر چکے تھے صرف ﻇلم اور تکبر کی بنا پر ۔ پس دیکھ لیجئے کہ ان فتنہ پرداز
لوگوں کا انجام کیسا کچھ ہوا۔
پس ہر ایک اپنی ذات کو بہتر سمجھ سکتا ہے ۔۔بس
اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں حق کی سمجھ اور اس کی اتباع کی توفیق دے، اور باطل کی
پرکھ عطا کرے اور اس سے بچنے کی توفیق دے.آمین!
ازقلم:
محمد نورالدین الازہری
bhut hi achi tahrir he abhi tak ki
ReplyDelete