Thursday, August 1, 2019

عبرت ناک شارٹ اسٹوری

💞آج ایک قصائی کی دوکان پر بیٹھا تھا کہ ایک نوجوان سفید پوش چہرے پر داڑھی, سر پر ٹوپی, آنکھوں پر عینک لگائے دوکان میں داخل ہوا دوکان پر کافی بھیڑ تھی لوگوں کی آواز سے دوکان گونج رہی تھی بھا ئی ۱کلو گوشت دینا بھائی آدھا کلو گوشت دینا جیسے ھی نوجوان داخل ہوا قصائی نے سارے گاہکوں کو چھوڑ کر اس نوجوان سے مخاطب ہوا آدھا کلو نوجوان نے کہا, قصائی نے فوراً بہترین گوشت کا ٹکڑا کاٹا اور بوٹی بنا کر دے دی نوجوان نے پیسے دینے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو قصائی نے لینے سے انکار کر دیا نوجوان نے کہا جاوید بھائی! آپ ہمیشہ ایسا ھی کرتے ہیں قصائی مسکرا دیا اور نوجوان دوکان سے باہر نکل گیا لوگ گلے شکوے کرنے لگے کہ ھم کب سے کھڑے ھیں اور قصائی کو چربی چڑھی ہے گاہک کی قدر نہیں ہے  میرا تجسس بڑھا میں دوکان خالی ھونے کاانتظار کرنے لگا گاہک نپٹا کر جیسے ہی قصائی خالی ہوا میں نے کھا ۱کلو گوشت کرنا
پھر میں نے کہا ابھی جو نوجوان آپ کی دوکان سے گوشت لے کر گیا آپ کا کوئی قریبی رشتہ دار لگتا ہے سارے گاہک چھوڑ کرآپ نے سب سے پہلے  اُس کو گوشت دیا قصائی مسکرایا اور بولا جی نہیں
میں تعجب میں پڑھ گیااور بولا پھر ؟
قصائی بولا وہ میری مسجد کے امام صاحب ہیں جو شخص میری آخرت بنانے کی فکر میں رہتا ہے اور میری نمازوں کی ذمہ داری لے رکھی ہے میرے بچوں کو قرآن اور حدیث کا درس دیتا ہے کیا دنیا میں میں اس کے ساتھ اچھامعاملہ نہ کروں
میں نے کہا اوہ!! اچھا مگر تم نے پیسے کیوں نہیں لیے؟
قصائی پھر مسکرایا اور بولا کیا تمھیں نہیں پتا مسجدوں کے اماموں کو کیا دیا جاتا ہے اتنے کا تو صاحب آپ مہینے میں سگریٹ پی جاتے ہو
میں سوچنے لگا واقعی بات میں تو دم ہے
قصائی پھر بولا صاحب یہ ہماری قوم کا سرمایہ ھے ان کو بچانا ہماری ذمہ داری ہے بازار کی تمام دوکان والوں نے یہ متفقہ فیصلہ کیا کہ مولانا صاحب سے کوئی پیسہ نہیں لے گے صرف میں ہی نہیں یہ ناؤ یہ راشن والا یہ ٹیلر وہ ڈاکٹر صاحب میڈکل والا کرانا والا دودھ والا اور سبزی والا کوئی ان سے پیسے نہی لیتا بھائی اتنا تو ہم کر ہی سکتے ہیں اور پھر مسکرا کر کھا صاحب آدھا کلو گو شت کے بدلے جنت زیادہ منافع کا سودا ہے یہ لیجیے آپ کے گوشت کی تھیلی اس نے کہا اور میں نے پیسہ قصائی کی طرف بڑھایا اور کہا پر بھائی میں تو جاب کرتا ہوں کاش میں  بھی اس طرح کی کوئی مدد کرسکتا قصائی نے کہا بہت آسان ہے سامنے گلی میں مولانا نے سائیکل بننے کے لیے دی ہے آپ دوکان والے کو چپے سے بل ادا کر دیجے اور اس سے کہہ دیجئے کہ مولانا سے پیسے نہ لینے میں مسکرایا اور دوکان سے نکل گیا اس قصائی سے آج مدد  کا ایک نیا سبق  جو سیکھا...
یاد رہے کہ ان مولویوں میں سو برائی سہی.لیکن اس انٹرنیٹ کے دور میں ہمارے دین کے ورثہ کی مکمل حفاظت کی ہوئی ہے.ایک نقطہ میں تبدیلی نہ ہو سکی.جیسے چودہ سو سال پہلے ہمارے آقا صلی اللّٰه علیہ وآله وسلم نے یہ امانت اس امت کے علماء کو دی تھی. بنی اسرائیل کے علماء کی طرح دین کا سودا نہیں کیا.آئیں دین بچائیں جیسے قصائی نے سیکھایا.

علماء اکرام اور اپنے اساتذہ کی عزت و قدر کیجئے۔“

No comments:

Post a Comment

Featured Post

*زحمت، رحمت اور فطرت* حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی جس کی بھلائی چاہتا ہے اس...