Wednesday, August 21, 2019

اکابر پرستی کا جنون اور مسلم معاشرہ

اکابر پرستی کا جنون اور مسلم معاشرہ
1-اکابر پرستی کا جنون اتنا معمولی نہیں ہوتا کہ ہم امت کی فلاح کی شرط پر اس سے بہ آسانی باہر آجائیں۔ اسی جنون نے تو ہر دور میں امت کی کشتی کو غرقاب کیا ہے۔ واضح رہے کہ اس حمام میں سب ایک ہی جیسے دکھتے ہیں۔ میرے لیے یہ کہنا بہت آسان ہے کہ میں آپ سے کہوں کہ آپ اکابر پرستی چھوڑ دیں اور آپ کے اکابر کی جس کتاب سے امت کا نقصان ہے، اسے بیچ چوراہے پر رکھ کر آگ لگادیں، لیکن یہی مطالبہ جب آپ مجھ سے کریں گے تو پھر میرے لیے بہت مشکل ہوجائے گا۔
2-یہ بات عمومی سطح پر کہنا تو بہت آسان ہے کہ گستاخی کا ذرا شائبہ کفر ہے، لیکن اس کی شخصی تطبیق کس قدر پیچیدہ ہے، آپ جیسے اہل نظر پر مخفی نہیں ہوگا۔ یہ تطبیق ہم آپ کے اکابر پر تو بہت آسانی سے کرلیتے ہیں لیکن جب ہمارے اکابر کی بات آتی ہے تو ہم پھر دوسرا فارمولہ پیش کرتے ہیں کہ ایک قول میں ننانوے احتمالات کفر کے ہوں اور ایک ضعیف سے ضعیف احتمال ایمان کا ہو تو ااسی ضعیف احتمال کو راجح کیا جائے گا۔
3-ان عبارتوں کو کتابوں سے نکالنا یا ان کتابوں کا جلانا بھی مسئلے کا حل نہیں ؛کیوں کہ اس کے بعد بھی مناظرین کا یہ سوال باقی رہے گا کہ کتابیں تو تم نے جلائی ہیں لیکن تمہارے اکابر تو جلائے بغیر مرگئے، ان کو کافر مانتے ہویا مسلمان؟
4-آپ ایک ایک عبارت کی بنیاد میں جو ان کے نزدیک قابل تاویل ہے، آپ ان کے اکابر کی پوری کی پوری کتاب جلانے کی بات کر رہے ہیں، بالفرض اگر انھوں نے آپ کی شرط کو مان لیا اور یہ کہا کہ لیکن ہمارے اکابر کو جن کتابوں میں کافر لکھا ہوا ہے، ان کتابوں کو بھی جلاؤ ، یا کم ازکم اس کا عہد کرو کہ آئندے سے ہمارے اکابر کو کافر نہ کہوگے، یا کم از کم من شک فی کفرہ کی تلوار اٹھالو گے تو آپ کا جواب کیا ہوگا؟
5- قرآن کتاب اعجاز ہے، کلام ربانی ہے، شواہد و حقائق کا گنجینہ ہے، دلائل و براہین کی معراج ہے، اس کے باوجود آخر میں اس نے اپنے منکرین کو کہا لکم دینکم ولی دین۔ کیا ہم ان افراد کے ساتھ جو دین کے بنیادی عقاید کے چارٹر پر ہمارے ساتھ دستخط کرنے کو تیار ہیں ، اور بعض علما کی عبارتوں میں معنی کفر کے تعین میں ہم سے مختلف ہیں، اس پر بحث و تحقیق اور مناظرہ ومجادلے کی ایک صدی گزر چکی ہے، کیا ہم ان سے یہ کہنے کی پوزیشن میں ہیں کہ اگر دین کے بنیادی عقیدے کے اقرار اور ان کے انکار کے کفر ہونے پر تم دستخط کرتے ہو تو مخصوص عبارتوں کے فہم پر جو ہمارا اختلاف ہے، اس پر ہم تمہارے ساتھ لکم دینکم ولی دین کہنے کو تیار ہیں۔
ہمیں دوسروں سے وسعت ظرفی کے مطالبے سے پہلے خود بھی کشادہ قلبی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ بصورت دیگر ہم دوسروں سے ملت اور دین کے لیے اکابر پرستی چھوڑنے کا مطالبہ تو کر رہے ہیں، لیکن ہم خود اکابر پرستی کے بدترین مرض میں مبتلا ہیں، جو ہمیں دین، ملت اور امت کے لیے سوچنے نہیں دیتا۔واضح رہے کہ ملی اتحاد جب بھی ہوگا وہ موجودہ مشترکہ نکات پر ہوگا، اس کے لیے جب ہم سابقہ شرطیں لگائیں گے تو یہ داستان محبوب کی زلف سیاہ کی طرح طویل ہوجائے گی یا معشوق کی موہوم کمر کی طرح سرے غائب ہی ہوجائے گی۔ رفع اختلاف کی شرط کے ساتھ اتحاد کا خواب محض ایک خواب ہے ، کب کہ اختلافات ہوتے ہوئے، مشترکات پر اتحاد یہی فطرت، ملت، تاریخ اور عصر حاضر کی ممکنہ ضرورت ہے۔لیکن شاید یہ بات ہم بہ آسانی قبول نہیں کرسکتے۔
از قلم ؛ ڈاکٹر ذیشان مصباحی

1 comment:

Featured Post

*زحمت، رحمت اور فطرت* حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی جس کی بھلائی چاہتا ہے اس...