جو نادان آج چاروں ہاتھ پاؤں سے اعظم خان کی مخالفت میں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں انہیں اس وقت خود معلوم نہیں کہ وہ بدترین مسلم مخالف سازشوں کا حصہ بن رہے ہیں جب انہیں ہوش آئے گا تب تک بہت تاخیر ہوچکی ہوگی،،،
جن لوگوں نے حضرت ٹیپو سلطان کی مخبری کی تھی وہ بھی گلمہ گو تھے اور ذاتی مفاد میں انہوں نے سلطان کے ساتھ غداری کی سمجھ رہے تھے کہ ہم خوش عیش رہیں گے لیکن تاریخ گواہ ہے کہ ان کی خواتین کی عزتیں تک محفوظ نہ رہ سکیں اور آخر میں ذلت و رسوائی ان کا مقدر بن گئی ،، آج جو لوگ اپنے اپنے انتقام کی آگ میں بالکل اندھے ہوچکے ہیں اور کسی بھی قیمت میں جوہر یونیورسٹی کو مقفل کرانے اور اعظم خان صاحب کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیجنے کے لیے ہر کوشش کر رہے ہیں انجام ان کا بھی بہت برا ہوگا اتہاس کے پنوں میں انہیں اسی طرح یاد کیا جائے گا جس طرح ٹیپو سلطان کے غداروں کو صدام حسین کی مخبری کرنے والوں کو ذلت کے ساتھ یاد کیا جاتا ہے ،،
نادانوں ! ہوش کے ناخن لیں اور ذرا سوچیں کہ شہاب الدین سیوان ،عتیق پھول پور الہ آباد ،مختار مؤو، اکبر احمد ڈمپی، جیسی مضبوط سیاسی مسلم طاقتوں کو بے وزن کردیا گیا ہے ایسے وقت میں اعظم خان صاحب کے حوالے سے گڑے مردے اکھاڑنے کے لیے تصویر کے صرف منفی رخ کو پیش کرنے کے لیے زور قلم زور زبان کا استعمال کیا جانا قابل افسوس ہی نہیں قابل مذمت بھی ہے ،،
جن احمقوں نے اغیار کی گود میں بیٹھ کر اپنی سیاسی اڑان حاصل کرنے کے لیے اپنوں کے سر قلم کرادہے ان کے انجام سے ہی سبق حاصل کر لیجیے معمر قذافی کو موت کے گھاٹ اتارنے کے بعد کیا لیبیا تنزلی کی راہ پر نہیں آیا ؟
صدام حسین کی پھانسی کے بعد کیا عراق بربادی کے راستے پر نہیں ہے ؟؟
یہ جو اعظم خان کی مخالفت میں آج پاچاموں سے باہر ہیں اور فرقہ پرستوں کے کمر بند پکڑ کر مسلم مخالف سلگتی آتش میں پیٹرول ڈیزل ڈالنے کا کام کر رہے ہیں در اصل یہ طبقہ اپنی سیاسی رسہ کشی نکالنے کے لیے پوری ملت اسلامیہ کو تباہی کے دہانے کی طرف ڈھکیل رہا ہے ،
مگر ان خود غرض لوگوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ ،
ع چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں ،،
نادانو! جب مقاصد بڑھے ہوں تو ان مقاصد کی بنسبت چھوٹی باتوں پر دھیان نہیں دیا جاتا یہی عقلمندی اور سمجھداری ہے مثلاً آپ کے مکان میں آگ لگ گئی مکان میں سامان بھی ہے اور سامان کے علاوہ آپ کا کوئ اپنا بھی سلگتے مکان میں بھنسا ہوا اب ایسے میں اپنے کی جان بچانے کے لیے سامان کو نظرانداز کیا جائے گا کہ سامان تو محنت کرنے کے بعد حاصل کیا جا سکتا ہے لیکن جان چلی گئی تو سامان کا کیا کریں گے ؟ اب اسی طرح ہر طرح کے معاملات کی نوعیت دیکھنا چاہیے اعظم خان سے انتقام لینا زیادہ ضروری ہے یا اپنے بچوں کے تعلیمی مستقبل جوہر یونیورسٹی کو بچانا زیادہ ضروری ہے ؟
ع شاید کے اتر جائے ترے دل میں میری بات ،،
ملت کے مفادات کو اپنے مفادات پر جو ترجیح نہ دے سکے وہ خود غرض تو ہو سکتا ہے انسانیت نواز نہیں ،،
اس وقت سب سے زیادہ ضروری فرقہ پرستوں کے ناپاک عزائم کو ناکام بنانے کے لیے پوری قوت کے ساتھ گھڑا ہونا اور یہ اس وقت کا سب سے بڑا مقصد ہے لہذا اپنی سیاسی رنجشیں بھلا کر یا کم از کم بہتر حالات ہونے تک بالائے طاق رکھ کر ظلم و ناانصافی کے خلاف متحدہ آواز بننے کی ضرورت ہے ورنہ پھر انتظار کیجیے اپنی اپنی باری کا اور مرو ذلت کی موت اس کوبرے سانپ کی طرح جو دوسرے سانپ کو مارنے کی ضد میں خود بھی مارا جاتا ہے ،،،،
پہلے اعلی حضرت حج ہاؤس غازی آباد میں بند کیا گیا اب جوہر یونیورسٹی پر خطرات کے بادل منڈرا رہے ہیں کس لال باغ میں ہیں محترم اگلا نمبر آپ کے ادارے کا بھی ہو سکتا ہے ،،
توصیف رضا مصباحی سنبھلی
No comments:
Post a Comment