Monday, August 12, 2019

چرم قربانی کے حوالہ سے اتنی بیان بازی کیوں؟


چرم قربانی کے حوالہ سے اتنی بیان بازی کیوں؟



  یہ سب پہ روشن ہے کہ اسلامی دنیا ابھی شدید بحران کا شکار ہے۔ مذہبی منافرت نے اسلام اور مسلمانوں کو اپنے حصار میں لے رکھاہے۔مسلم ممالک کی تاراجی اور مسلمانوں کی تباہی وبربادی کانہ ختم ہونے والا سلسلہ، اب اپنے وطن عزیز میں بھی اپنے خونی پنجے گاڑچکاہے۔ڈاکٹراقبال نے جس عہد میں ناسازگاری حالات کو دیکھ کر قوم مسلم کو’’ *تری بربادیوں کے تذکرے ہیں آسمانوں میں* ‘‘کا پیغام دیا تھا، آج اس سے کہیں بد تر حالات ہمارے یہاں ہیں ،مگر افسوس ہے کہ کل کی سرد مہری سے لے کر آج کی بے حسی تک ہما رے جینے کا ایک ہی انداز رہا، جس میں ماضی سے لا تعلقی ،حال سے مفاہمت اورفکر مستقبل سے بے نیازی کا عنصرغالب ہے *۔ ذاتی مفاد اور اپنی برتری کے اظہار کے لئے منھ میں زبان، قلم میں روشنائی اور وقت میں وسعت سب کچھ ہے ، مگر نہیں ہے تو قوم ،مذہب ،مسلک ،قانون شریعت ،دستور ہند اورشعائر اسلامی کے تحفظ کے لئے زبان میں گویائی ،قلم میں طاقت اوروقت میں برکت ــ(خدا محفوظ رکھے اس بلا سے )* 

👈  ادھر چند برسوں سے ہندوستانی مسلمان کئی طرح کے مسائل سے دوچار ہیں اور ان میں آئے دن اضافہ ہی ہورہاہے ۔ان میں ایک مسئلہ مدارس کا وجود بھی ہے جو اسلام دشمن عناصر کے طاغوتی نشانہ پر ہے، پھر بھی اہل مدارس اپنی زندگی کی جد وجہد کررہے ہیں اور کرتے ہی رہیں گے کہ ہندوستان میں مدارس کا وجود اسلام کی بقاکا ضامن ہے اور اسلام کی بقاکے لئے ہماری جہد وجہد کا دائرہ انشا ء اللہ کبھی تنگ نہیں ہوسکتا۔
  *ان مسائل میں ایک مسئلہ چرم قربانی کی قیمت کا حیرت ناک حد گرجانا بھی ہے* ۔مدارس کے ذمہ داران اس صورت حال کے سبب ٹوٹ سے گئے ہیں اور نجی مجلسوں سے لے کر سوشل میڈیا تک اس کا رونا رویا جارہاہے ۔ *بعض حضرات نے اس مسئلہ میں انفرادی طور پر ادارہ شرعیہ سے رابطہ کیاکہ اس مسئلہ میں ادارہ کا فرمان کیاہے کیوں کہ ملک کا ایک بڑا طبقہ ہر مذہبی وملی معاملہ میں ادارہ شرعیہ کے فیصلہ کا انتظار کرتاہے کسی اور کا نہیں ،* چاہے فرد کے اعتبار سے کوئی شخص کتنا ہی بڑاکیوں نہ ہو۔ اس طرح کے متعدد سوالات کے بعد مناسب سمجھتے ہوئے پٹنہ کے مدارس اہل سنت کے ذمہ دارعلما ومدرسین اور ائمہ حضرات کی نشست ادارہ میں بلائی گئی *،جس میں کھال کی موجودہ قیمت ،قیمت کم ہونے کے متعدد اسباب اور اس بحران سے نجات کی صورت کیاہوسکتی ہے، تمام پہلووں پر کھل کر بحث ہوئی ،تو نتیجہ کے طور پر یہ بات سامنے آئی* :
۱)👈اب کھال کی قیمت ۱۵ روپے سے ۲۰ روپے ہے اور یہ اتنی کم ہے کہ چرم وصولنے میں جتناخرچ ہوتاہے اتنا بھی حاصل نہیں ہوپاتا۔
۲)👈بازار میں کچے اور پکے کھال کی قیمت اب بھی اتنی کم نہیں ہے جتنی ہمیں دی جارہی ہے ،یہ مدارس کے ساتھ دھوکہ ہے۔
۳)👈کھال کا سب سے بڑاتاجرہمیں نقصان پہنچاکر کھال سے کھربوں کماتاہے ،یہ مدارس کو نقصان پہنچانے کا دانستہ عمل ہے جس سے بچنے کی راہ نکالی جائے .
۴)👈کھال کی قیمت کم ہونے کا سبب ایک نہیں انیک ہے جیسے :کھال خریدنے والی کمپنیوں کاہمارے ملک سے معاہدہ نہیں کرنا،مارکیٹ میں مصنوعی چمڑے کاپایاجانا،عالمی سطح پر کھال کی قیمتوں کا گرجانا،وغیرہ ۔
 *ان تمام صورتوں کو سامنے رکھ کر ایک بات پر خاص طور سے غور کیاگیاکہ آخر پانچ سالوں میں ہر چیز کی قیمت بڑھی،کھانے پینے کی اشیا،مختلف موسموں کے کپڑے،الکٹرانک سامان ،چھوٹی سے لے کر بڑی ہر چیزکی قیمت دوگنی اورتین گنی ہوگئی، مگر اسی دنیامیں آخر چمڑے نے کیا بگاڑاتھا کہ اس کی قیمت جتنی تھی اتنی بھی نہیں رہنے دی گئی بلکہ اسے گھٹاکر ساڑھے تین سو سے ۲۰؍روپیہ کردی گئی* ۔ایسابھی نہیں کہ چمڑے کاسامان بننا بند ہوگیا ،یا بکنا موقوف ہوگیا ،یااس کا ڈیمانڈ ختم ہوگیا،بلکہ آج بھی مصنوعی چمڑے کے مقابلہ میں چمڑے کا سامان اپنے قیمتی ہونے کا احساس دلاتا ہے اور اہل ثروت اسے بطور تفاخر خریدتے ہیں۔اس سے کوئی بھی سنجیدہ اور مدبر انسان یہ سمجھ سکتاہے کہ عالمی سطح پراسلام دشمن طاقتوں نے یہ سوچ لیاہے کہ چمڑا جب تک مسلمانوں کے ہاتھوں میں ہے وہ مسلمان ہے اور اس ہاتھ سے نکلنے کے بعد وہ ترک مذہب کرکے ہرمذہب والوں کی ضرورت بن جاتاہے۔اس لئے جب تک وہ مسلمانوں کے ہاتھوں میں ہے اس کااستحصال کیاجائے۔اس فکر کو عالمی سطح پر پھیلایا گیا اور دنیا اس فکر کی تابع ہوگئی ۔جولوگ کھال کی قیمت کاالزام *عالمی منڈی پہ رکھ کر میڈیا میں اپنا چہرہ دکھارہے ہیں وہی بتائیں کہ آخر عالمی منڈی میں اس کی قیمت کم ہونے کا سبب کیا ہے اور اس کے ذمہ دار کون ہیں* ؟اس تناظر میں مدارس کے ذمہ داروں کا یہ سمجھنا کہ کھال کی کمی مدارس کے خلاف ایک سازش ہے جسے سنجیدگی سے لینا چاہئے کون سا جرم تھا ؟جسے تختہ مشق بنانے کی سعی کی جارہی ہے۔

بہرحال ان حالات کے پیش نظر تمام مندوبین نے اتفاق رائے سے *یہ فیصلہ لیا کہ کھالوں کی گری ہوئی قیمت اگر ایک سازش ہے تو اس سے بچنے کی اپنے اختیار میں یہی ایک صورت ہے کہ ہم کھال کو وہاں تک پہنچنے ہی نہیں دیں جو ہمارے مال سے کماکر ہمیں مارنے کی سوچ رہے ہیں،ان کھالوں کو کسی طرح اپنے استعمال میں لائیں ،اپنی فیکٹری قائم کریں اپنا سامان بنائیں اور اگر سب کچھ اختیار میں نہ ہوتو پھراسے دفن کردیں تاکہ کھربوں میں کمانے والے جب اپنا خسارہ دیکھیں گے تو انہیں دوسروں کے خسارہ کا احساس ہوگا* ۔نشست میں ایسی مثالیں بھی آئیں جس میں تھوڑانقصان سہہ کر بڑے فائدہ حاصل کئے گئے ہیں ۔یہ فیصلہ لینے والے سادہ لوح علماتھے،ان کے دل میں کوئی چھل کپٹ نہیں تھا ،انہیں بس کھوئے ہوئے اثاثہ کا غم اور تلافی مافات کی فکر تھی اور بس ۔اس لئے انہوں نے اتفاق رائے سے یہ فیصلہ لے لیا ۔
  *جب اخبار میں اس میٹنگ کی خبر چھپی تو علمائے اہل سنت کے اس مدبرانہ وحوصلہ مندانہ اقدام کو سراہاگیا، بلکہ یہاں تک کہا گیاکہ یہ فیصلہ بہت پہلے لیاجانا چاہئے تھا ،مگر بعض لوگ ایسے بھی تھے جنہوں نے مسئلہ کاصرف ظاہری رخ دیکھا اور فرمایاکہ یہ عمل ،مال کو ضائع کرنا ہے جو جائز نہیں ہے ۔یہ مسئلہ اپنی جگہ بالکل درست ہے اور اتنا بدیہی ہے کہ سب کو معلوم ہے۔ایک صاحب نے ایک قدم آگے بڑھ کرملک کے بڑے بڑے دارلافتاسے فتوے منگوالئے کہ کھال کو ضائع کرنا مال کو ضائع کرناہے۔ اگر وہ محترم ادارہ شرعیہ سے بھی رابطہ کرتے تو انہیں اتنی زحمت نہیں اٹھانی پڑتی ،انہیں یہاں سے بھی وہی جواب ملتا جو دوسرے مفتیان کرام نے دئے ہیں کہ مال کو ضائع کرنا جائز نہیں* ۔مگر یہاں تومخصوص حالات میں کھال کی گری ہوئی قیمتوں میں اضافہ کی راہ ڈھونڈنا تھا جو بہر حال مدارس کے حق میں تھا اور مدارس کے حوالہ سے پوری قوم کے مفاد میں تھا ۔اب یہ مسئلہ محض مال کے ضائع کرنے کا نہیں بلکہ کھال کی قیمتوں میں کمی کے جواسباب پائے جارہے ہیں ان میں تبدیلی حکم کا کوئی سبب پایا جارہاہے کہ نہیں یہ دیکھنے کاتھا ، *جن حضرات کے یہاں سبب پایا جارہاہے انہوں نے مدارس کے فائدے کے لئے یہ قدم اٹھایا اور جن کے نزدیک سبب متحقق نہیں ان کا جواب یقینا عدم جواز ہی کا ہوگا، اس میں کسی کے لئےحظ نفس کا کوئی سامان  نہیں ہے۔جن لوگوں نے کھال کے ضائع کرنے کوناجائز بتایاہے اپنی جگہ صحیح ہیں اور جن لوگوں نے بدلے ہوئے حالات میں اخلاص نیت کے ساتھ یہ اتفاقی فیصلہ لیاہے یقینا وہ بھی ماجور ہیں* ، ہاں جولوگ اس آڑ میں علمائے اہل سنت کے مخلصانہ عمل کی مخالفت میں جوش جنوں کا شکار ہورہے ہیں، انہیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ اللہ ان کی نیتوں سے بھی باخبرہے اورانہیں آخرت میں حساب وکتاب سے بھی گزرناہے ۔
  اخیر میں یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ *جن مدارس اور خانقاہوں نے قیمت کم ہونے کے سبب کھال وصولنا چھوڑ دیا تھا یا چھوڑدیاہے کیا وہ بالواسطہ کھال ضائع کرنے کا اشارہ یا کھال ضائع ہونے کا راستہ ہموار نہیں کررہے ہیں* ؟ کل صرف ایک مدرسہ اور خانقاہ نے کھال وصولنا بند کیا تھااب یہ سلسلہ دراز ہوگیا ہے ۔ذراسوچیں اگر ان کی نقل اتارتے ہوئے سبھوں نے کھال وصولنا بند کردیا تو پھر ان کھالوں کا کیا ہوگا ؟یہ کہہ کر جان نہیں چھڑائی جاسکتی کہ ضائع کرنا گناہ ہےاور ضائع کرنے کی راہ ہموار کرنا گناہ نہیں ہے۔قتل کرنا جرم ہے تو قتل کی راہ ہموار کرنا ہی نہیں ،پلاننگ کرنابھی جرم ہے ۔اس لئے کھال وصولنے کا سلسلہ موقوف کرنے والے حضرات کو اپنا بھی محاسبہ کرلینا چاہئے ۔
 *مرید سادہ تو رورو کے ہوگیا تائب* 
 *خداکرے کہ ملے شیخ کو بھی یہ توفیق*
 🖊 *ڈاکٹر محمد امجد رضاامجدؔ* : قاضی شریعت ادارہ شرعیہ بہار پٹنہ  

No comments:

Post a Comment

Featured Post

*زحمت، رحمت اور فطرت* حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی جس کی بھلائی چاہتا ہے اس...