Sunday, August 11, 2019

کیا کافر شخص کو قربانی کا گوشت دے سکتے ہیں؟

کیا کافر شخص کو قربانی کا گوشت دے سکتے ہیں؟

جواب أز ابن طفیل الأزہری ( محمد علی)

تمام فقہائے کرام کا اتفاق ہے کہ أگر کوئی کافر حربی ہو تو أسکو گوشت نہیں دے سکتے رہی بات کافر غیر حربی یا ذمی( اقلیتیں) تو أنکو دے سکتے ہیں جس پہ دلائل آگے آرہے ہیں ، 
لیکن ایک بات یاد رکھیں:
 حربی کا معنی یہ ہر گز نہیں ہوتا کہ آپ ایک کافر ملک میں رہ رہے ہیں 
أور بعض علاقوں میں کچھ کافر مسلمانوں کو نقصان پہنچائیں تو آپ سب پر کافر حربی کا فتوی جاری کردیں  بلکہ کافر حربی وہ ہوگا جسکو أس ملک کی طرف سے قانونی إجازت ہو مسلمانوں کو مارنے کی یا أس ملک میں عبادت کی اجازت نہ ہو قانونی طور پہ  تو وہ ملک حربی کہلاتا ہے أور أس میں رہنے والے حربی یا کوئی دار حرب سے جا ملے 
یہی حضور صلی الله علیہ وسلم کے فعل سے ثابت ہے جو آپ نے مدینہ منورہ میں یہودیوں کے ساتھ معاملہ فرمایا أسکی روشنی میں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کے کسی ایک قبیلہ کے نقصان پہچانے کی وجہ سے باقی قبیلوں کو حربی نہ کہا بلکہ جب جب جس قبلہ کی  طرف سے مجموعی طور پہ جو فعل صادر ہوا تو صرف ان پہ حربی ہونے کا حکم صادر فرمایا یہی حکم عکس ملک پہ بھی لگے گا۔
 أگر قانونی إجازت نہیں  أور مسلمانوں کو عبادت کی بھی إجازت ہے  أور وہ کسی دار حرب سے بھی نہیں ملا تو وہ کافر حربی نہیں کہلائے گا بلکہ وہ مجرم ہوگا أور قانون میں أسکی سزا مقرر ہے تو باقی کفار حربی نہیں کہلائیں گے
أور یہی إمام أبو حنیفہ کی تعریف کے مطابق بھی صحیح ہے جسکو إمام کاسانی نے بدائع میں بڑے أحسن انداز میں بیان کیا ہے.

عصر حاضر میں میری مبلغ علمی میں چنیدہ چنیدہ ممالک ہیں جیسے کشمیر و فلسطین وغیرہ وغیرہ جہاں مسلمان رہتے ہیں أور وہ دار حرب بھی ہیں
 لیکن کثیر ممالک عصر حاضر میں دار حرب نہیں تو لہذا آپ کفار کو قربانی کا گوشت دے سکتے ہیں درج ذیل دلائل کی روشنی میں بلکہ أنکو گوشت میں کچھ نہ کچھ حصہ دینا ایک مستحسن عمل ہے تالیف قلوب کے تحت:

پہلی دلیل:

اللہ رب العزت فرماتا ہے:

" لا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُم مِّن دِيَارِكُمْ أَن تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ"[الممتحنة : 8 ]

ترجمہ:

اللہ تمہیں ( کفار میں سے) أن لوگوں کے ساتھ إحسان اور إنصاف کرنے سے منع نہیں فرماتا جنہوں نے تمارے ساتھ قتال نہیں کیا أور نہ تمہیں گھروں سے بے دخل کیا ، بے شک اللہ إنصاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے.

لہذا یہ آیت إسلام کے حسن تعامل کی عظیم مثال پیش کرتی ہے أور ترغیب دے رہی ہے کہ جو تمہارے ساتھ اچھا کرے تم بھی أسکے ساتھ اچھا کرو تو لہذا قربانی کا گوشت دینا بھی ( أن تبروھم) کے تحت جائز ہے.

دوسری دلیل:

اللہ رب العزت فرماتا ہے:

"لِّيَشْهَدُوا مَنَافِعَ لَهُمْ وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فِي أَيَّامٍ مَّعْلُومَاتٍ عَلَىٰ مَا رَزَقَهُم مِّن بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ ۖ فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْبَائِسَ الْفَقِيرَ"[الحج:28 ]

ترجمہ: تاکہ أنکے لیے جو فوائد ہیں أسکا مشاہدہ کریں ، أور ( اللہ رب العزت) نے مویشی چوپائے جو أنکو عطاء کیے ہیں أن میں سے ( قربانی) کے مقررہ دنوں اللہ کا نام لے کر ذبح کریں ، پس وہ أن میں سے خود بھی کھائیں أور خستہ حال محتاجوں کو بھی کھلائیں.

اس آیت مبارکہ میں اللہ رب العزت نے ( خستہ حال محتاجوں) کا ذکر مطلقاً فرمایا ہے بغیر مسلم یا غیر مسلم کی قید کے لہذا قربانی کا گوشت جس طرح مسلمان کو دینا جائز ہے إسی طرح غیر مسلم کو بھی دینا جائز ہے.

اعتراض: 

اس آیت میں تو حربی و غیر حربی کی بھی قید نہیں تو پھر آپ نے کیوں کہا کہ کافر حربی کو نہیں دے سکتے؟

جواب:

کافر حربی کی قید سورہ ممتحنہ کی آیت نمبر 8 میں وارد ہوچکی ہے جسکو پہلے نقل کیا جاچکا ہے لہذا اس وجہ سے کافر حربی کو دینا جائز نہیں باقی میں آیت أپنے عموم پہ رہے گی.

تیسری دلیل:

إمام ترمذی حضرت مجاہد سے روایت کرتے ہیں حضرت عبد اللہ بن عمرو کے لیے أنکے گھر میں ایک بکری ذبح کی گئی تو جب آپ گھر تشریف لائے تو آپ نے فرمایا:

أهديتم لجارنا اليهود؟ أهديتم لجارنا اليهود؟

کیا تم نے ہمارے یہودی پڑوسی کو (گوشت) کا ہدیہ دیا ؟ کیا تم نے ہمارے پڑوسی کو (گوشت) کا ہدیہ دیا؟

پھر آپ نے پڑوسی کے حقوق والی حدیث سنائی.

( سنن ترمذی ، باب ماجاء فی حق الجوار ، حدیث نمبر: 1943 ، إمام ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن غریب ہے اس طریق سے)

اللہ أکبر! یہ ہے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم أجمعین کا حسن تعامل لہذا اسلام نے ہمیشہ حق پڑوسی ، حق دوستی، حق وطنی کے تحت غیر مسلم کے ساتھ حسن معاملہ کا حکم دیا ہے ،اور صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے ثابت ہوگیا کہ جانور کا گوشت غیر مسلم کو دینا جائز ہے۔

اعتراض:

 یہاں تو مطلقاً بکری کا ذکر ہے قربانی کا تو نہیں آپ قربانی کے گوشت پہ کیسے استدلال کرسکتے ہیں؟

جواب:

جب بکری ذبح کرنے کا مطلقاً ذکر ہے تو ہم قربانی یا غیر قربانی کی قید کیسے لگاسکتے ہیں لہذا اطلاق سے استدلال بالکل واضح ہے کہ قربانی کا ہو یا غیر قربانی کا غیر مسلم کو أسکا گوشت دے سکتے ہیں۔
علامہ ابن حجر العسقلانی نے بھی حدیث کے عموم کی طرف إشارہ کیا ہے 
( فتح الباری ، باب الوصاءۃ بالجار ، ج: 10 ، ص : 442 )
أگر مان بھی لیا جائے کہ یہ بکری غیر قربانی کی تھی تو بھی علت مشترکہ سے جائز ہے وہ یہ کہ اس بکری کا گوشت دینا بھی ہدیہ ہے أور قربانی کا گوشت دینا بھی ہدیہ لہذا  کفار کو ہدیہ  دینا بالاتفاق جائز ہے إسی لیے 
فتاوی ہندیہ میں ہے:

ويهب منها ماشاء للغني والفقير والمسلم والذمي .

ترجمہ:
 وہ أس ( قربانی) میں سے امیر، غریب ، مسلم أور ذمی کافر کو جیسے چاہے ہبہ کرسکتا ہے.

( الفتاوی الھندیہ ، الباب السادس فی بیان ما یستحب فی الأضحیۃ و الانتفاع بھا ، ج: 5 ، ص : 300 )

أور إمام ابن قدامہ فرماتے ہیں:

فجاز إطعامه للذمي كسائر طعامه ، ولأنه صدقة تطوع ، فجاز إطعامها الذمي والأسير كسائر صدقة التطوع.

ترجمہ:
یہ بھی جائز ہے کہ اس [قربانی کے گوشت]سے ذمی کافر کو بھی کھلایا جائے جیسے أسکے باقی کھانے ہیں۔۔۔، کیونکہ یہ نفلی صدقہ ہے، اس لئے یہ ذمی اور قیدی کو کھلانا جائز ہے، جیسے کہ دیگر نفلي صدقات انہیں دئے جا سکتے ہیں.

( المغنی لابن قدامہ ، مسألہ : 7879 ، ج : 9 ص : 450 )

لہذا قرآن و أحادیث اور فقہائے کرام کی تائیدات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ قربانی کا گوشت غیر مسلم کو دیا جاسکتا ہے بلکہ آج کے دور میں ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ گوشت میں سے کچھ نہ کچھ حصہ غیر مسلم کو دیں أور خاص کر أنکو جنکے گھروں میں غیر مسلم ملازم ہوتے ہیں تاکہ وہ إسلام کے اس عظیم حسن معاملہ و معاشرہ کو محسوس کریں.

واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.

No comments:

Post a Comment

Featured Post

*زحمت، رحمت اور فطرت* حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی جس کی بھلائی چاہتا ہے اس...