تقسیمِ ہند کے زخم
۱۵ اگست ۱۹۴۷ یہ وہ دن ہے جس دن ہمارا ملک انگریزوں کے غاصبانہ پنجۂ اقتدار سے آزاد ہوا، اس موقع پر جہاں آزادیٔ وطن کے وہ حسین لمحات ہمارے ذہن و دماغ میں گردش کرنے لگتے ہیں جن کے تخیّل سے ہمارے قلب وجگر فرحت شادمانی سے کھیل اٹھتے ہیں، وہیں تقسیم ہند کے وہ بھیانک مناظر بھی ہمارے خیالات میں گشت کرنے لگتے ہیں جن کے تصوّر سے جسم وجاں شکستہ اور دل و دماغ افسردہ ہوجاتے ہیں۔
یہ ایک عیاں حقیقت ہے تقسیم ہند تاریخ کا وہ زخم ہے جو شاید کبھی نہ بھر سکے، جس دن تقسیم کی قراداد منظور ہوئی تھی اسی دن سے اس وطن عزیز کی مٹی نے وہ سب کچھ دیکھا جو ایک خونی انقلاب کی فطرت ہے، جسے سننے کے لیے پتھر کا کلیجہ چاہئیے، اس تقسیم کی وجہ سے ملک نے نہ صرف کئی حصوں میں بٹ کر اپنی متحدہ طاقت کھوئی تھی؛ بلکہ تقسیم کے اعلان کے ساتھ ساتھ ملک کے کئی گوشے قتل وغارت گری کی آماجگاہ بن گئے تھے، صوبہ پنجاب میں تبادلہ آبادی کی بنا پر فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ پڑے، مغربی پنجاب میں مسلمان اپنے پڑوسی ہندوؤں اور سکھوں کا قتل عام کر رہے تھے تو مشرقی پنجاب میں مسلمانوں کو چن چن کر بےدریغ قتل کیا جارہا تھا، مغرب سے آنے والی ٹرینیں مسلمانوں کی لاشوں سے تو مشرق سے جانے والی ٹرینیں مسلمانوں کی لاشوں سے بھری رہتی تھیں، دوسری طرف جب ہندو اور سکھ دہلی میں پناہ گزین ہوئے تو اُن کی شدت کی وجہ سے دہلی کی فضا بھی خون اُبلنے لگی، جگہ جگہ بڑی تعداد میں مسلمانوں کو شہید اور بچوں کو بےرحمی سے ذبح کیا گیا، عصمت عفّت کی پیکار عورتوں کی عزت و ناموس کو تار تار کیا گیا، جہاں کوئی مسلمان نظر آتا اسے موت کی نیند سلا دیا جاتا، مکانات تباہ کر دیے گیے، جامع مسجد اور ہمایوں کے مقبرے میں اس قدر لوگ پناہ لیے ہوئے تھے کہ قدم رکھنے کی بھی کوئی جگہ باقی نہیں تھی، گویا منشا یہ تھا کہ مسلمان یا تو اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھیں یا پاکستان جانے کے لیے تیار ہوجائیں، یہ نفرت و عداوت کی وہ آگ تھی جس کے شعلے آج تک سرد نہ ہوسکے، چنانچہ آج بھی ہمارے ملک میں پاکستان کے نام پر آئے دن قتل غارت گری کے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں۔
اس کے علاوہ اس تقسیم کے نتیجے میں فرقہ پرست ہندوؤں کو تو غیر متوقع کامیابی حاصل ہوئی، ملک کے بڑے بڑے آثار و ذخائر اُن کی تحویل میں چلے گئے، ہزاروں سال بعد منماني اور منچاہی حکومت کرنے کا موقع ملا (ہندوستان کے موجودہ حالات جس کی منھ بولتی تصویر ہیں) جس کا تصور کرنا بھی اُن کے لیے مشکل تھا اور قوم مسلم کا ناقابل تلافی نقصان ہوا، ملی قوت و وحدت کا شیرازہ بکھر گیا، پاکستان میں اسلامی ریاست کا قیام (جس کی بنیاد پر نظریۂ پاکستان کے علمبرداروں نے قیام پاکستان کے تحریک چلائی تھی) بھی تصوّر تک ہی محدود رہا اور صرف چند بکھرے گوشوں کے سوا کچھ ہاتھ نہ آیا۔
۱۵ اگست ۱۹۴۷ یہ وہ دن ہے جس دن ہمارا ملک انگریزوں کے غاصبانہ پنجۂ اقتدار سے آزاد ہوا، اس موقع پر جہاں آزادیٔ وطن کے وہ حسین لمحات ہمارے ذہن و دماغ میں گردش کرنے لگتے ہیں جن کے تخیّل سے ہمارے قلب وجگر فرحت شادمانی سے کھیل اٹھتے ہیں، وہیں تقسیم ہند کے وہ بھیانک مناظر بھی ہمارے خیالات میں گشت کرنے لگتے ہیں جن کے تصوّر سے جسم وجاں شکستہ اور دل و دماغ افسردہ ہوجاتے ہیں۔
یہ ایک عیاں حقیقت ہے تقسیم ہند تاریخ کا وہ زخم ہے جو شاید کبھی نہ بھر سکے، جس دن تقسیم کی قراداد منظور ہوئی تھی اسی دن سے اس وطن عزیز کی مٹی نے وہ سب کچھ دیکھا جو ایک خونی انقلاب کی فطرت ہے، جسے سننے کے لیے پتھر کا کلیجہ چاہئیے، اس تقسیم کی وجہ سے ملک نے نہ صرف کئی حصوں میں بٹ کر اپنی متحدہ طاقت کھوئی تھی؛ بلکہ تقسیم کے اعلان کے ساتھ ساتھ ملک کے کئی گوشے قتل وغارت گری کی آماجگاہ بن گئے تھے، صوبہ پنجاب میں تبادلہ آبادی کی بنا پر فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ پڑے، مغربی پنجاب میں مسلمان اپنے پڑوسی ہندوؤں اور سکھوں کا قتل عام کر رہے تھے تو مشرقی پنجاب میں مسلمانوں کو چن چن کر بےدریغ قتل کیا جارہا تھا، مغرب سے آنے والی ٹرینیں مسلمانوں کی لاشوں سے تو مشرق سے جانے والی ٹرینیں مسلمانوں کی لاشوں سے بھری رہتی تھیں، دوسری طرف جب ہندو اور سکھ دہلی میں پناہ گزین ہوئے تو اُن کی شدت کی وجہ سے دہلی کی فضا بھی خون اُبلنے لگی، جگہ جگہ بڑی تعداد میں مسلمانوں کو شہید اور بچوں کو بےرحمی سے ذبح کیا گیا، عصمت عفّت کی پیکار عورتوں کی عزت و ناموس کو تار تار کیا گیا، جہاں کوئی مسلمان نظر آتا اسے موت کی نیند سلا دیا جاتا، مکانات تباہ کر دیے گیے، جامع مسجد اور ہمایوں کے مقبرے میں اس قدر لوگ پناہ لیے ہوئے تھے کہ قدم رکھنے کی بھی کوئی جگہ باقی نہیں تھی، گویا منشا یہ تھا کہ مسلمان یا تو اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھیں یا پاکستان جانے کے لیے تیار ہوجائیں، یہ نفرت و عداوت کی وہ آگ تھی جس کے شعلے آج تک سرد نہ ہوسکے، چنانچہ آج بھی ہمارے ملک میں پاکستان کے نام پر آئے دن قتل غارت گری کے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں۔
اس کے علاوہ اس تقسیم کے نتیجے میں فرقہ پرست ہندوؤں کو تو غیر متوقع کامیابی حاصل ہوئی، ملک کے بڑے بڑے آثار و ذخائر اُن کی تحویل میں چلے گئے، ہزاروں سال بعد منماني اور منچاہی حکومت کرنے کا موقع ملا (ہندوستان کے موجودہ حالات جس کی منھ بولتی تصویر ہیں) جس کا تصور کرنا بھی اُن کے لیے مشکل تھا اور قوم مسلم کا ناقابل تلافی نقصان ہوا، ملی قوت و وحدت کا شیرازہ بکھر گیا، پاکستان میں اسلامی ریاست کا قیام (جس کی بنیاد پر نظریۂ پاکستان کے علمبرداروں نے قیام پاکستان کے تحریک چلائی تھی) بھی تصوّر تک ہی محدود رہا اور صرف چند بکھرے گوشوں کے سوا کچھ ہاتھ نہ آیا۔
نہ
خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم ۔ ۔ ۔ ۔!!
نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے ۔ ۔ ۔!!
ازقلم: محمد زید عظیمی
نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے ۔ ۔ ۔!!
ازقلم: محمد زید عظیمی
No comments:
Post a Comment