Sunday, March 31, 2019

اتحاد زندگی اور اختلاف موت

"اتحاد زندگی اور اختلاف موت"
بہت سے مدارس اسلامیہ میں" علمائے کرام " کا جو استحصال ہو رہا ہے وہ سب پر عیاں ہے جو لوگ  چاپلوس ہیں ان کو خود داری مر چکی ہے ان سے سروکار نہیں ہے لیکن  جو خود دار ہیں وہ ضرور آواز اٹھائیں آج میرے ساتھ ایک واقعہ پیش آیا جس نے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا ہوا یوں کہ جن مدارس کو مدرسہ بورڈ لکھنؤ کے امتحانات کا جانچ سینٹر بنایا گیا کچھ جگہوں پر  کاپی جانچ کرنے میں کچھ  گڑبڑی پائی گئی جس کی وجہ سے رجسٹرار صاحب نے باقاعدہ لیٹر جاری کرکے پھٹکار لگائی  اور اس کے تعلق سے  صاف ستھرا بنانے کا آڈر جاری کیا جس سے دلال اور دولت کے حریص و لالچی  اور مدارس اسلامیہ کو کاروبار بنانے والے،حرام کمائی کھانے والے منحوس لوگ بوکھلاہٹ کے شکار ہو گئے  اور اپنی غلطی ماننے کے بجائے علمائے کرام کو مکمل  قصور وار ٹھہراتے ہوئے خود کو گندی نالی کا کیڑا ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے اپنی تہذیب و ثقافت کا پتہ بتاتے ہوئے" علمائے کرام" کے لیے وہ جملے استعمال کرنے لگے جس کو علمائے کرام کے مقام و مرتبہ کا خیال کرتے ہوئے  آوارہ اور اوباش لڑکے بھی استعمال نہ کریں  اور ایسے موقع  پر وہاں پر موجود علمائے کرام کی خاموشی اس بات پر دال پر ہے کہ ان کا احساس مر چکا ہے ان کو بس اپنی نوکری پیاری ہے کل جب ان کی باری آئے گی تو انہیں اس کا احساس ہوگا! اور کچھ مدارس اسلامیہ کے متظمین ایسے کمینے اور  گستاخِ علمائے کرام  ہیں جو دن و رات صرف علمائے کرام کی برائی کرتے ہیں اور  علماء کرام کی عظمت وعزت سے غافل رہتے ہیں ان کے ساتھ انتہائی نارواتعلقات رکھتے ہیں ان کے بارے میں یہ یقین کر لیں کہ ان کی سخت  گرفت ہوگی اور ان کی کتے یا خنزیر کی طرح موت ہوگی جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو علماءسے بغض رکھنے اور
ان کی گستاخی کرنے سےمنع فرمایا ہے
آپ ﷺکا فرمان ہے کہ" اغْدُ عَالِمًا أَوْ مُتَعَلِّمًا أَوْ مُسْتَمِعًا أَوْ مُحِبًّا وَلَا تَكُنِ الْخَامِسَ فَتَهْلَكَ (مسند البزار :3626 )
ترجمہ:عالم ،متعلم،سامع یا علم سے محبت کرنے والے بنیں اگر اس کے علاوہ پانچویں بنیں گے تو ہلاک ہوجائیں گے۔‘‘
یعنی علم وعلماء سے بغض وکدروت کرنے والے نہ بنیں بلكہ محبت كرنے والے بنیں اور حضرت امام احمد بن اوزاعی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ"الوقيعة في اھل العلم ولا سيما اکابرھم من کبائر الذنوب"اہل علم کی مذمت و توہین کرنا،خاص طور سے بڑے علماء کرام کی ، کبیرہ گناہوں میں سے ہے ( الرد الوافر لابن ناصر الدين الدمشقي : 283 )
اور علامہ ابن نجیم مصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ’’الِاسْتِهْزَاءُ بِالْعِلْمِ وَالْعُلَمَاءِ كُفْرٌ‘‘علم اور علماء کی توہین کفر ہے۔ (الاشباہ والنظائر، باب الردۃ : ۱۶۰ )
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں :لحوم العلماء مسمومة، من شمها مرض، ومن أكلها مات (المعيد في أدب المفيد والمستفيد ،ص: 60)’’علماء کرام کا گوشت زہریلا ہوتا ہے جو اس کو سونگھے گا بیمار پڑ جائے گا اور جو اس کو کھائے گا مر جائے گا۔‘‘ایسے لوگوں کی زندگی باری تعالی تنگ کردیتا ہے اور ایسے افرادکو دنیا میں ہی ذلیل ورسوا کرکے تمام آنے والی نسلوں کے لیے نشان عبرت بنادیتا ہے جو لوگ علماء کرام پر تبرا بازی و الزام تراشی کیا کرتے ہیں۔
اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب میری امت اپنے علماء سے بغض رکھنے لگے گی تو اللہ تعالی ان پر چار قسم کے عذابات مسلط کرے گا:بِالْقَحْطِ مِنَ الزَّمَانِ، وَالْجَوْرِ مِنَ السُّلْطَانِ، وَالْخِيَانَةِ مِنْ ولَاةِ الْأَحْكَامِ، وَالصَّوْلَةِ مِنَ الْعَدُوِّ"قحط سالی ، بادشاہ کی جانب سے مظالم ، حکام کی خیانت ، دشمنوں کے مسلسل حملے (مستدرک حاکم 4؍361) اور امام اہل سنت اعلی حضرت قدس سرہ اپنی کتاب فتاویٰ رضویہ میں لکھتے ہیں کہ" علمائے دین کی توہین کرناسخت حرام، سخت گناہ، کبیرہ، عالم دین سُنّی صحیح العقیدہ کہ لوگوں کو حق کی طرف بلائے اور حق بات بتائے حضرت  محمد ﷺکا نائب ہے،اس کی تحقیر و توہین معاذ اللہ جناب محمدﷺکی توہین ہے اورمحمد ﷺکی بارگاہ میں گستاخی موجب ِ لعنت ِ الٰہی و عذابِ الیم ہے۔(فتاوی رضویہ ج۲۳ص۶۴۹) حضرت عبد اللہ ابن مبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں :من استخف بالعلماء ذھبت آخرتہ"جو شخص بھی علماء کی بے قدری کرے گا وہ اخروی زندگی سے محروم رہے گا اور یہ بھی واضح رہے کہ کمی کوتاہی ہر بندے سے ہوتی ہے علماء کی چھوٹی موٹی کمی کوتاہی پر اپنے منہ کو بند رکھنا چاہیے اپنی زبان کو علماء کی غیبت سے محفوظ رکھنی چاہیے علماء کی خوبی اور نیک باتوں کو اپنانا چاہیے کیونکہ علماء کا مقام امت میں نائبین انبیاء کا ہے، علماء انبیاء کے وارث ہیں جو لوگ  علماء کی شان میں گستاخی کرنا اپنا مقصد سمجھتے ہیں اور ان پر لعن و طعن کرتے ہیں انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ  علماء کی شان میں گستاخی کرنا، ان کی اہانت کرنا، ان کا مذاق اڑانا اور تحقیر کرنا یہ سب انتہائی نقصان کا باعث ہے ان باتوں سے ایمان جانے کا خطرہ ہے۔حضرت علامہ عبد الوہاب شعرانی رحمہ اللہ تعالی  جو اکابر صوفیہ میں ہیں انہوں نے کتاب عہد محمدیہ میں لکھا ہے کہ ہم سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے یہ عام عہد لیا گیا ہے کہ ہم علماء کی اور صلحاء کی اور اکابر کی تعظیم کیا کریں چاہے وہ خود اپنے علم پر عمل نہ کیا کریں اور ہم لوگ ان کے ذاتی معاملہ کو اللہ کے سپرد کر دیں اور  مولانا عبد الحی لکھنوی علیہ الرحمہ  اپنے فتوی میں لکھتے ہیں: اگر گالیاں دینے والے کا مقصود علم اور علماء کی تحقیر کی وجہ سے ہے تو فقہاء اس کے کفر کا فتوی دیتے ہیں ورنہ اگر کسی اور وجہ سے ہے تو تب اس شخص کے فاسق و فاجر ہونے میں اللہ کے غصہ اور دنیا اور آخرت کے عذاب کے مستحق ہونے میں شبہ نہیں ہے لہذا علمائے کرام  کے بارے میں اپنی زبانوں کو لگام دینے میں ہی عافیت ہے ان کی شان میں  بے ادبی،  تذلیل، حقارت اور توہین کرنا کسی صورت جائز نہیں ہے اور یہ بھی یاد رکھیں کہ ان باتوں سے اہل علم کی شان میں کوئی کمی نہیں آئے گی البتہ اپنا ہی خسارہ اور نقصان ہے۔اور آخری بات یہ ہے کہ اورکوئی  کسی عالم کی توہین کر رہا ہے تو اس گستاخ آوارہ کے خلاف سب علمائے کرام  مل کر آواز اٹھائیں اور  ان کا بائیکاٹ کریں نہ اس کا نکاح  پڑھائیں اور اس کی نماز جنازہ میں شریک ہوں اور مدارس اسلامیہ سے تعلق رکھنے والے والی تنظیموں کے ذمہ داران  سے گزارش ہے کہ ایسے شخص کے لیے  سخت ایکشن لیں اور  اس کو اس کی اوقات دیکھادیں تاکہ کسی بھی مدرسہ میں کوئی بھی ذمہ دار  کسی بھی عالم کی توہین اور گستاخی کرنے کی ہمت نہ کر سکیں اور یہ بات ہمیشہ ذہن میں کر لیں کہ ان کا کام علمائے کرام کے بغیر نہیں چلے گا ۔

No comments:

Post a Comment

Featured Post

*زحمت، رحمت اور فطرت* حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی جس کی بھلائی چاہتا ہے اس...