Friday, March 29, 2019

ضروری اِصْطِلاحات

* ضروری اِصْطِلاحات *
جب ہم علمی کتابیں پڑھتے ہیں تو اُن میں کچھ علامات نظرآتی ہیں ، جن کی تفصیل یہ ہے -
*1:* الخ ( اَ لَ خْ ) ⬅
کسی قول ، مصرعے یا جملے وغیرہ کا کچھ حصہ لکھنے کے بعد " الخ " لکھ دیا جاتا ہے ، جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ بات یہیں پر ختم نہیں ہوئی مزید آگے بھی ہے ، اِسے آخرتک دیکھیں -
مثلاً: مصطفیٰ جان رحمت۔۔۔۔۔الخ
*2:* ١٢ ⬅ بعض کتابوں کے حاشیے کے آخر میں " ١٢ " لکھا ہوتا ہے -
علم اعداد میں لفظِ " حَد " کے بارہ عدد ہیں ، اور حد کا معنیٰ ہے اختتام ؛ تو " ١٢ " کا مطلب یہ ہوا کہ یہاں پر حاشیے کی عبارت ختم ہوگئی ہے ، حاشیے کی یہی حد ہے -
*3:* منہ ( مِ نْ ہُ ) ⬅
بعض کتابوں کے حاشیے کے آخر میں " منہ " بھی لکھا ہوتا ہے اور یہ مصنف خود لکھتاہے ؛ جس کا مطلب ہوتا ہے کہ یہ حاشیہ کسی اور کا نہیں ، میرا ( کتاب لکھنے والے کا ) اپنا ہے -
*4:* ١٢منہ ⬅
بعض حواشی میں یہ دونوں ہوتے ہیں ، جن سے یہی مراد ہوتاہے کہ یہ حاشیہ مصنف کا ہے جو کہ یہاں تک ختم ہوگیاہے ( اس سے آگے جواضافہ ہوگا وہ محشی کا ہوگا مصنف کا نہیں ) -
*5:* ایضاً ( اَ یْ ضَ نْ ) ⬅
جب ایک ہی بات ، یا حوالے کو دُھرانا مقصودہوتا ہے ، یا ایک ہی چیز کے مختلف مطالب بیان کرنا ہوتے ہیں تو بار بار تفصیل لکھنے کے بجائے نیچے " ایضاً " لکھ دیا جاتاہے -
مثلاً:
☀️ بخاری شریف کے بیالیسویں صفحے سے دو حدیثیں بیان کرنی ہیں تو پہلی حدیث کے نیچے حوالہ لکھیں گے :
بخاری شریف ص 42 -
اس کے بعد والی حدیثِ پاک لکھ کر حوالہ لکھنے کے بجائے " ایضاً " لکھ دینا ہی کافی ہوگا ؛ اِس سے پڑھنے والا سمجھ جائے گا کہ اِس حدیث کا بھی وہی حوالہ ہے جواوپر والی حدیث کا ہے -
☀️ میرزا داغ دہلوی کہتے ہیں :
جوتم کو ہم سے نفرت ہےتوہم کوتم سے ایضاً ہے
جو تم نظریں بدلتے ہو تو ہم بھی دل بدلتے ہیں
یعنی تم کوہم سے نفرت ہے تو ہم کو بھی تم سے ایضاً ( یعنی نفرت ) ہی ہے -
☀️ " بات " ، ایک لفظ ہے جس کے مختلف معانی ہیں ، جنھیں ہم اس طرح بھی بیان کرسکتے ہیں :
بات: بہ معنیٰ قول - جیسے معروف کاشعرہے:
زلف رخ پہ جوچھٹی رات ہوئی یا نہ ہوئی
کیوں نہ کہتاتھا مری بات ہوئی یا نہ ہوئی
ایضاً : شہرت - جیسے سحر کہتاہے:
اپنی توہرطرح بسر اوقات ہوگئی
وہ بات کی کہ شہر میں اک بات ہوگئی
ایضاً: عادت - جیسے امیر کا شعر ہے:
بت میں نہ وفا کی بات پائی
بے عیب خدا کی ذات پائی
یہاں ہرجگہ لفظِ بات لکھ کر اس کا معنی لکھنے کے بجائے ایضاً لکھ دیا ہے جس کا مطلب ہے کہ یہ تمام معانی " بات "  کے ہیں -
*6:* ع ⬅
یہ مصرع کی علامت ہے ، علما و اُدَبا جب مصرع نقل کرتے ہیں تو " ع " لگاتے ہیں -
*7:*  ؎  ⬅ یہ شعر یا نظم کی علامت ہے ، اگر آپ اپنی تحریر میں صرف مصرع لکھنا چاہتے ہیں تو " ع " استعمال کریں ، اور اگر ایک یا زیادہ شعر لکھنا چاہتے ہیں تو یہ "   ؎ " علامت استعمال کریں -
اِنھیں گَڈمَڈ نہیں کرنا چاہیے ؛ یہ نہ ہو کہ شعر کی جگہ مصرع کی علامت اور مصرع کی جگہ شعر کی علامت درج کردیں -
راوالپنڈی کے ایک صاحب نے کتاب لکھی تھی جس میں دیگر غلطیوں کے ساتھ ان علامات کو بھی گڈمڈ کردیا تھا -
گجرات کے ایک مفتی صاحب نے دیگر غلطیوں کے ساتھ اس پر بھی اُن کا سخت تعقب کیا اور اِسے کم علمی وجہالت قرار دیا -
کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمارے ساتھ بھی یہ ماجرا پیش آجائے ، اس لیے " ع اور  ؎ " کا استعمال ذہن میں رکھیں.

No comments:

Post a Comment

Featured Post

*زحمت، رحمت اور فطرت* حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی جس کی بھلائی چاہتا ہے اس...