"یہودی دہشت گردی کے بے نقاب چہرے "
غالبا اٹھارہویں صدی کی شروعات ہورہی تھی جب اسلام کا سورج یہودی زائچے کے تیزترین عیسائ برجی چالوں کی وجہ سے گہنا گیا تھا ، اس کے بعد سے اب تک مسلمانوں کی قسمت سے " سنی گرہ" ہٹنے کا نام نہیں لے رہاہے دوسرے لفظوں میں یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ مسلمان خود اپنی حکمت بروئے کار لاکر اس نحوست سے پیچھا چھڑانے کے روادار نہیں ہیں ۔ان تین صدیوں میں کیا کچھ نہیں ہوا؟ ۔یہودیوں نے اپنے جس مقصد کی تکمیل کے لیے جمہوریت کی ایک انجان دوشیزہ کو نئے نرالے افکار کے لباس میں سجاکر پیش کیا تھا وہ تو انہوں نے دوصدیوں کے اندر حاصل کرلیا ، لیکن جمہوریت کے بطن سے جس فکر کو جنم لینے کے بعد جوان ہوکر اسلام کے فکری قلعہ کو زمین بوس کرنا تھا وہ اس میں ہر محاذ پر ناکام رہے ہیں ۔اٹھارہویں صدی کی ابتدا کے ساتھ ہی یہودی تنظیمیں اپنی پوری پلاننگ کے ساتھ اس وقت کے سپر پاور پر چھارہے تھے ۔ اٹھارہویں صدی کی وسط تک برٹش گورنمنٹ کے تمام بڑے عہدوں پر فائز ہوکر یہودی اپنے مقصد کی تکمیل کے لیے عیسائ آفیسران کا استعمال بھی کرنے لگے تھے ۔ انہی دنوں یہودیوں نے برٹش انڈیا میں بھی اپنے خاندانی افراد تلاش لیے تھے اور ایک ہی وقت میں دو بڑی تحریکیں مذہبی اعتبار سے مسلمانوں کے خلاف کھڑی کی گئی تھیں ۔ ایک " صیہونی تحریک" جس کا بنیادی مقصد مشرق وسطی میں بسنے والے خوشحال مسلمانوں کو کچلنا تھا ۔دوسری " رام مندر " تحریک جس کا اصل مقصد برصغیر کے مسلمانوں کو ذہنی انتشار کا شکار بناکر ان کا خاتمہ کرنا تھا ۔اتنی بڑی قوم کا خاتمہ یک لخت ناممکن تھا اس لیے سوئٹ پوائزن پھیلایا گیا ۔ مشرق وسطی اور خلیجی علاقوں میں اپنے خاندان کے افراد تلاش کیے گئے جو خاص مقصد کے تحت پہلے ہی سے اسلام کا چولہ زیب تن کر چکے تھے ۔ ترکی کی طاقت کاخاتمہ ضروری تھا اس لیے ان افراد کی خدمات حاصل کی گئیں جو کچھ ہی نسل پہلے اسلام میں داخل ہوئے تھے اور جن کے دلوں میں اسلام اور مسلمانوں سے شدید نفرت تھی ، جو بلادریغ "اسلام کی سچی تعلیمات" کے نام پر مسلمانوں کا قتل عام کرسکتے تھے ۔ 1705/ کےبعد ایسے خاندان کی اندرونی مدد کی گئی جو مسلمانوں کے خون سے ان کی اپنی دھرتی کی پیاس بجھا سکتے تھے ۔پھر کیا تھا ان یہودی خاندانوں نے رات کی تاریکی میں اور دن کے اجالے میں مسلمانوں کا وہ قتل عام کیا کہ زمین کانپ گئی ۔کویت ، دبئی ، سعودیہ عربیہ ، عراق ، ایران، مصر، سوڈان ، لبنان ، شام اور فلسطین کی تین سو سالہ حالیہ تاریخ پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ ان اسلامی ممالک میں جو قتل عام ہوا وہ سیاست کے نام پر کم ہوا "درست اسلام" کے نام پر زیادہ ہوا ہے ۔ ان قتل وغارت گیری کے بعد یوروپین ممالک کا بے جا تسلط پھر ایک گہری سازش کے تحت پہلی جنگ عظیم کی شروعات ، جس کا اسلامی دنیا سے ظاہرا کوئ ربط وضبط بھی نظر نہیں آتا ا س کے باوجود انہیں اسلامی ملکوں پر جنگ کا سارا اثر مرتب ہونا تاریخ کے طالب علم کو حیرت میں ڈال دیتا ہے ۔سب سے زیادہ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ پہلی جنگ عظیم کی شروعات بیسویں صدی کی پہلی دہائ کے بعد ہوتی ہے اور سلطنت ترکیہ کا آپس میں بٹوارہ انیسویں کے خاتمے سے 10/ سال پہلے ہوجاتا ہے ۔یہی وہ کڑی ہے جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ پہلی جنگ عظیم چاہے جس وجہ سے شروع ہوئ ہو لیکن حقیقتا یہ جنگ اسلامی ملکوں خاص کر سلطنت ترکی کے خلاف سوچ سمجھ کر شروع کی گئی تھی ۔اس وقت میں مسلم علماء ان سازشوں کو سمجھ کر بے نقاب کر سکتے تھے ۔مسلم علماکو ذہنی طور پر مشغول رکھنے کے لیے جدید قسم کے اعتقادی مسائل اچھال کر ان کو اپنوں اور غیروں سے مناظرے میں الجھا دیا گیا تھا اور مناظرے کو ہی ہر مسائل کا حل بناکر پیش کیا گیا تھا ۔
ہندوستان میں " رام مندر " تحریک کے ساتھ جس مسئلے پر خاص توجہ دی گئی دی وہ یہ تھے ۔قضیئہ دارالحرب اور دارلاسلام ۔اس مسئلے نے مسلمانوں کو جس قدر نقصان پہونچایا اس کا عشر عشیر بھی 1857/ میں نہیں پہوچا ۔ جاہ و منصب والے مسلمان لٹ گئے ، برباد ہوگئے اور نام ونشان مٹ گیا ۔جائدادیں تباہ ہوگئیں زندگی کے ضروری وسائل برباد کرادئے گئے ۔ دوسرا مسئلہ "تحریک خلافت "تھا جس کی نمائندگی گاندھی جی کر رہے تھے ۔بہت کم لوگوں یہ راز پتہ ہے کہ مسلمانوں نے سلطنت ترکی کی مدد کے لیے جو فنڈ اکٹھا کیا تھا اس کا آج تک کسی کو پتہ نہیں چلا کہ وہ فنڈ ہوا کیا ؟ ۔فنڈ اکٹھا کیا گیا تھا ترکی کی مدد کے لیے اور سارا فنڈ اسرائیل پہوچا تھا فلسطینیوں سے زمین خریدنے کے لیے ۔سلطنت ترکی کے بچاءو کے لیے جو رضاکار بھرتی کیے گئے تھے ان سب کو آج کے اسرائیل اور اس وقت کے فلسطین میں یہودیوں کے ہاتھوں شہید کردیا گیا تھا ۔جن کی قبریں آج بھی اسرائیل میں ہیں ۔ گاندھی جی ہماری قیادت بھی کررہے تھے اور اندر ہی اندر یہودیوں کا دریافت شدہ برہمن خاندان مسلمانوں کےخلاف نفرت پھیلا رہا تھا کہ یہ " ترک ہیں اور ان کی ساری وفاداری ترکی کے ساتھ ہے " یوپی کے بہت سے علاقوں میں آج بھی مسلمانوں کو " ترک" کہ کر طنز کیا جاتا ہے ۔ ایک اندازے کے مطابق 1705/ سے لے کر دوسری جنگ عظیم کے خاتمے تک کم سے کم چار کروڑ مسلمان عرب ، خلیجی ممالک اور مشرق وسطی میں شہید کیے گئے ۔۔متحدہ ہندستان میں 1857/ کے بعد سے تقسیم وطن کے مرحلے تک ایک محتاط اندازے کے مطابق 3/لاکھ سے زائد مسلمان شہید کیے گئے ۔ تقسیم وطن کے بعد سے لے کر اب تک مختلف فسادات اور انکاءونٹر کے نام پر 150000/ ایک لاکھ پچاس ہزار افراد مارے گئے۔1996/ کے بعد سے صرف کشمیر میں تئیس ہزار 23000/ مسلمان جوان دہشت گردی کے نام پر مارے گئے ۔یہ سرکاری ریکارڈ کے مطابق ہے ورنہ تعداد یقینا زیادہ ہوگی ۔ پچاسوں لاکھ کروڑ کی جائدادوں کو نقصان پہوچایا گیا ۔جتنے مسلمان مارے گیے اس کی دگنی تعداد اپاہیج بنادی گئی ۔ہیروشیما اور ناگا ساکی کی کوئ حقیقت نہیں ہے اس قتل عام کے سامنے ۔ فلسطین میں آج بھی اس قدر قتل عام ہورہا ہے کہ انسانیت کے بوڑھے ہونے کی نوبت ہی نہیں آرہی ہے ۔فلسطین دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں بوڑھوں کی تعداد اس وقت بہت ہی کم ہے ۔نا کے برابر کہ سکتے ہیں ۔یہودی دہشت گرد اب فلسطینی جوان کو بوڑھا ہونے ہی نہیں دیتے ہیں ۔1970/ میں 25/لاکھ فلسطینی مسلمانوں کو اسرائیلی یہودیوں نے قید کیا جن میں سے بہتوں نے قید کے دوران جام شہادت نوش کیا اور جب ان کو دھیرے دھیرے آزاد کیا گیا تو ان میں سے اکثر زندہ لاش کی حیثیت رکھتے تھے ۔ایک اندازے کے مطابق اب تک 5/لاکھ سے زیادہ فلسطینی اسرائلیوں کے ہاتھوں جام شہادت نوش کرچکے ہیں ۔موجودہ زمانے میں اسلامی دنیا پر زبردستی کی مسلط کی گئی جنگ کی روداد بھی دیکھ لیں ۔عراق میں موجودہ جنگ میں 461000/ چارلاکھ اکسٹھ ہزار سے زائد مسلمان شہید ہوچکے ہیں ۔زخمیوں کی تعداد اس سے زیادہ ہے ۔افغانستان میں 60/ ہزار سے زائد مسلمان شہید کردئے گئے اور ڈیڑھ لاکھ سے زائد شدید طور پر زخمی ہوئے ۔400000/ چار لاکھ شامی مسلمان شہید کیے جاچکے ہیں ۔
نیوزی لینڈ پر حالیہ حملہ جو بالکل "پبجی "گیم کے انداز میں تھا ، اس حملے نے نیوزی لینڈ سمیت پوری دنیا کو سوگ میں ڈال دیا ۔مسلمانوں پر تو گویا قیامت گزری ، ہر شخص سکتے میں تھا ۔ایسے موقع پر بھی عالمی میڈیا نے یہودی نواز ہونے کا مکمل ثبوت پیش کیا ۔لوگ عالمی میڈیا کے خلاف بات کر رہے تھے تو مجھے ایک بات بار بار جھٹکے دے رہی تھی کہ دنیا کی دوسری سب سے بڑی قوم اور" جوانوں کے اعتبار سے سب سے بڑی قوم" کیوں اتنی ناکارہ ہوگئی ہے کہ اس کے پاس اپنا میڈیا ہاءوس تک نہیں ہے ؟ ۔نیوزی لینڈ میں مسلمان 1900/ سے 1960 تک دیگر ممالک سے ہجرت کرکے آباد ہوتے رہےہیں ، سب سے پہلے ایک ہندستانی مسلمان کے نیوزی لینڈ پہونچنے کا ذکر ملتا ہے جو شاید گجراتی نزاد تھے ۔اس کے بعد آسٹریلیا کے پاس آباد خوبصورت جزیرہ فجی سے مسلمان نیوزی لینڈ پہونچنے لگے جو اصل میں انڈین ہی ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ یہاں انڈوفجی مسلمانوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے ۔مشرق وسطی (ترکی ، لبنان ) جنوبی ایشیا پاکستان ، انڈیا اور بنگلہ دیش کے مسلمان بھی ہیں ۔صومالیہ کے مسلم بھی ہیں لیکن کم تعداد میں ہیں ۔اہل سنت عقائد کے لوگ بڑی تعداد میں ہیں ۔شیعہ اور احمدی فرقہ (قادیانیوں کو نیوزی لینڈ میں سرکاری طور پر مسلم ہی سمجھا جاتا ہے )کے افراد بہت ہی کم تعداد میں ہیں ۔2006 / کے سروے کے مطابق مسلمانوں کی کل تعداد 360072 ، تھی جو 2013/ میں بڑھ کر 46149 / ہوگئی ۔نسلی ترقی کا یہ فیصد 28/ مانا گیا ہے ۔نیوزی لینڈ میں مسلمانوں کی مساجدیں بہت ہیں جس کی تعداد کا صحیح علم نہیں ہوسکا ہے ۔مسلمانوں کے" المدینہ اور زید کالج " دوتعلیمی ادارے ہیں ۔ رفاہی کاموں کے لیے بھی بہت سے ادارے ہیں جس میں "نیوزی لینڈ مسلم ایسوسی ایشن" کو اولیت اور فوقیت حاصل ہے ۔
" نیوزی لینڈ میں مختلف مذاہب کے ماننے والوں کا فیصد "
نیوزی لینڈ وہ ملک ہے جو اپنی معاشی استحکام اور گوناں گوں خوبیوں کی وجہ سے لوگوں کے لیے مرکز توجہ بنا رہتا ہے ۔یہاں تمام مذاہب کے ماننے والے چھوٹی بڑی تعداد میں مل جاتے ہیں ۔سب سے بڑی تعداد کسی مذہب پر یقین نہ رکھنے والوں کی ہے ۔ ملحدانہ فکر ونظر کے حامل افراد 41.61فیصد ہیں ۔ اسلام 1.81 فیصد ۔ہندو ازم 2.11فیصد ، کیتھولک عیسائ 12.61 فیصد، دیگر عیسائ فرقے 15.14فیصد ، اینگلیکینزم 11.79فیصد ، بدھ ازم 1.50فیصد ۔مختلف مذاہب پر یقین کرنے والے 4. 44 فیصد ، دیگر مذاہب 1. 53فیصد ۔ مسلمانوں کا ذریعہ معاش تجارت ہے ۔اس میں بھی حلال گوشت کی تجارت کے لیے نیوزی لینڈ سرکار مسلمانوں سے مدد حاصل کرتی ہے ۔بیف اکسپورٹ کرنے کے لیے مسلمانوں کی مدد لی جاتی ہے ۔ ایک سوال پیدا ہونا لازمی امر ہے کہ جب مسلمان اس ملک میں حکومت کے زیر سایہ چین وسکون سے رہ رہے ہیں تو بلاوجہ مسجد پر حملہ کرکے ان کو شہید کیوں کیا گیا ؟ مسلمانوں کو ہراساں کرنے کی وجہ کیا ہے ؟ ۔ یہ وجہ ہوسکتی ہے یہودیوں کا مسلمانوں سے متنفر ہونا اور مسلمانوں کے خاتمے کی تکمیل کی کوشش کا ناکام ہونا ۔ یہودی اور برہمن کی خفیہ پلاننگ کے تحت 2025 / تک مسلمانوں کی بڑی تعداد کا خاتمہ کرنا تھا اور بچے ہوئے مسلمانوں کو غلامی کے لیے مجبور کرنا تھا ۔یہ ممکن نظر نہیں آرہاہے اسی لیے یہ دونوں وحشی قومیں اپنا ذہنی توازن کھوکر اب الٹی سیدھی حرکتیں کر رہی ہے ۔ مسلمان قتل بھی ہوتے ہیں اور مسلمان ہی مجرم ۔ یہ ہے وہ یہودی اور برہمنی سازش جس کا سمجھنا بہت ضروری ہے ۔
نیوزی لینڈ وہ ملک ہے جو اپنی معاشی استحکام اور گوناں گوں خوبیوں کی وجہ سے لوگوں کے لیے مرکز توجہ بنا رہتا ہے ۔یہاں تمام مذاہب کے ماننے والے چھوٹی بڑی تعداد میں مل جاتے ہیں ۔سب سے بڑی تعداد کسی مذہب پر یقین نہ رکھنے والوں کی ہے ۔ ملحدانہ فکر ونظر کے حامل افراد 41.61فیصد ہیں ۔ اسلام 1.81 فیصد ۔ہندو ازم 2.11فیصد ، کیتھولک عیسائ 12.61 فیصد، دیگر عیسائ فرقے 15.14فیصد ، اینگلیکینزم 11.79فیصد ، بدھ ازم 1.50فیصد ۔مختلف مذاہب پر یقین کرنے والے 4. 44 فیصد ، دیگر مذاہب 1. 53فیصد ۔ مسلمانوں کا ذریعہ معاش تجارت ہے ۔اس میں بھی حلال گوشت کی تجارت کے لیے نیوزی لینڈ سرکار مسلمانوں سے مدد حاصل کرتی ہے ۔بیف اکسپورٹ کرنے کے لیے مسلمانوں کی مدد لی جاتی ہے ۔ ایک سوال پیدا ہونا لازمی امر ہے کہ جب مسلمان اس ملک میں حکومت کے زیر سایہ چین وسکون سے رہ رہے ہیں تو بلاوجہ مسجد پر حملہ کرکے ان کو شہید کیوں کیا گیا ؟ مسلمانوں کو ہراساں کرنے کی وجہ کیا ہے ؟ ۔ یہ وجہ ہوسکتی ہے یہودیوں کا مسلمانوں سے متنفر ہونا اور مسلمانوں کے خاتمے کی تکمیل کی کوشش کا ناکام ہونا ۔ یہودی اور برہمن کی خفیہ پلاننگ کے تحت 2025 / تک مسلمانوں کی بڑی تعداد کا خاتمہ کرنا تھا اور بچے ہوئے مسلمانوں کو غلامی کے لیے مجبور کرنا تھا ۔یہ ممکن نظر نہیں آرہاہے اسی لیے یہ دونوں وحشی قومیں اپنا ذہنی توازن کھوکر اب الٹی سیدھی حرکتیں کر رہی ہے ۔ مسلمان قتل بھی ہوتے ہیں اور مسلمان ہی مجرم ۔ یہ ہے وہ یہودی اور برہمنی سازش جس کا سمجھنا بہت ضروری ہے ۔
محمد رضی احمد مصباحی ۔
مرزاپور کوٹھی ، ارریا بہار
No comments:
Post a Comment