Thursday, March 28, 2019

اگر حجاز مین ہم ہوتے؟

اگر سر زمین حجاز پر ہم سنیوں کی حکومت ہوجائے تو ہم کیا کریں گے؟
     
    اگر ہم "حال" کے جھروکوں سے اپنے "مستقبل" کی طرف جھاکیں تو یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ ۔۔۔۔
                 سب سے پہلے ہم خانہ کعبہ کے ارد گرد مختلف طرقِ سلاسل  کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنی حیثیت کے مطابق شان دار خانقاہیں بنائیں گے،ہر سال نہایت تزک و احتشام کے ساتھ، بڑی پابندی سے اعراس کا انعقاد کریں گے، دھمال ڈالیں گے،قوالیوں میں رقص و سرور ، قدم بوسی و قدم لیسی، طبلوں کی تن تن اور ڈھولک کی ڈھپ ڈھپ پر منازلِ سلوک طے کر کے قرب خداوندی حاصل کرنے کی کوشش کریں گے حالاں کہ اللہ  نے اپنی قرب خاص تک رسائی کے لیے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے اپنے بندوں کو  مايَزَالُ عَبْدِي يَتَقَرَّبُ إِلَيَّ بِالنَّوَافِلِ حَتَّى أُحِبَّهُ فَإِذَا أَحْبَبْتُهُ كُنْتُ سَمْعَهُ الَّذِي يَسْمَعُ بِهِ وَبَصَرَهُ الَّذِي يُبْصِرُ بِهِ وَيَدَهُ الَّتِي يَبْطِشُ بِهَا وَرِجْلَهُ الَّتِي يَمْشِي بِهَا إلى آخر الحديث" کا نسخہ عطا فرمایا لیکن مجال ہے کہ کوئی یہ طریقہ اپنائے ،کوئی یہ نسخہ آزمائے ۔
    فرصت ملتے ہی، رات رات بھر  جلسے کریں گے ، اپنے اپنے بزرگوں کی شان بیان کریں ،ان کے قصیدے پڑھیں گے ، حتی المقدورر جھوٹ بول کر اپنے مفادات کے لیے ان کی تعریف و توصیف میں زمین و آسمان کے قلابے ملائیں گے، اللہ ورسول کا ذکر کم، اپنے بزرگوں کے تذکرے زیادہ کریں گے، فجر میں سوے رہیں گے۔
    جب محرم الحرام کا مہینہ آۓ گا تو اسلام کا محرمی ڈنکا لے کر خانہ کعبہ کی چھت پر چڑھ جائیں گے، ڈھول بجا بجا کر میدان کربلا میں امام حسین رضی اللہ عنہ کی فتح اور یزید پلید کی شکست کا اعلان کریں گے ،امام حسین رضی اللہ عنہ کی یاد میں ماتم کرکے خانہ کعبہ کی پاکیزہ دیواروں کو اپنے ناپاک خون سے رنگین کریں گے ،حرمین شرفین میں تعزیے رکھیں گے کہ امام حسین کی یاد منانے کا اس سے  بہتر طریقہ ہمارے پاس ہے نہیں، خوب ادھم مچائیں گے،اگر کوئی سمجھاے گا ، تو ناصبی و خارجی قرار دے دیں گے۔
   جب مدینہ منورہ میں حاضری ہوگی تو جنت البقیع میں مدفون صحابہ کرام کے مزارات کی مٹی بطور تبرک اپنے ساتھ لے جائیں گے،وہاں کی اینٹ اور پتھر لا کر اپنے دھندوں کو ہندوستان میں بھی پڑھاوا دیں گے، فرضی مزارات اور قبریں بناکر اپنی اپنی دکان چمکائیں گے ۔ اقبال نے ہمارے ہی بارے میں کہا ہے :
ہوں نکو نام  جو  قبروں کی  تجارت  کر کے
کیا نہ بیچیں گے جو مل جائیں صنم پتھر کے
     جب رسولِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوں گے تو آدابِ رسالت مآب کو پس پشت ڈال کر، دلائل دیں گے کہ عشق و محبت کی دنیا الگ ہے اور شریعت کا حکم الگ۔
  جب غلاف کعبہ چومیں گے تو بعض حصہ کاٹ کر یا پھاڑ کر بطور تبرک اپنے ساتھ انڈیا لیتے آئیں گے ، پھر انڈیا میں زیارتوں کا سلسلہ دراز ہوگا اور ہوتا چلا جاۓ گا۔
ہر صحابی کے مزار کی بولی لگے گی جس کے بعد ایک نہایت بدخو ،بدطینت مجاور براجمان ہوگا جو  پیسے وصول کرکے اپنے اہل خانہ کی پرورش کرےگا اور کیوں نہ کرے کہ بڑی محنت اور جد و جہد کے بعد اس مقام پر پہنچے گا ۔

   یہ صرف خدشات نہیں بلکہ اگر ہمارا تسلط ہو جائے تو بہت جلد وقوع پذیر ہوں گے،

اب دیکھئے نا!
        
     ہمارے مذہبی اجارہ داروں نے اجمیر ،بہرایچ ،کچھوچھہ ،دیواں وغیرہ مزارات پر کا کیا حال بنا رکھا ہے،ہر چہار جانب مجاوروں کی گہما گہمی ہے ،کہیں قوالی ہو رہی ہے تو کہیں شیطان چھڑاے جا رہے ہیں  ، کہیں کوئی سوٹا لیے کھڑا ہے ، کہیں کوئی درخواست لکھ کر کسی کھوٹی پر لٹکا رہا ہے کہ بابا فرصت میں ہوں گے تو اطمنان سے پڑھیں گے ،کہیں مزار کے غسالہ کے لیے لمبی لائن لگی ہوئی ہے ،کوئی اسے لے کر چہرہ پر مل رہا ہے ،کوئی بوتل میں بھر رہا ہے،ملنگوں کا ایک ہجوم ہے ،کوئی ناچ رہا ہے کوئی کود رہا ہے،سب کے سب بزعم خود سلوک کے اس درجے پر پہنچ چکے ہیں کہ نماز معاف ہو چکی ہے وغیرہ۔
 
  اس موقع پر استاد محترم مفتی بدر عالم صاحب یاد  آرہے ہیں جو دورانِ درس اکثر فرماتے تھے :حرمین پر غیروں کا قبضہ اللہ تعالی کی بہت بڑی حکمت ہے ، حکیم کا فعل حکمت سے خالی نہیں ہوتا، اگر ہمارے لوگوں کا قبضہ ہو جائے تو بیچ کھائیں گے۔
✍ :محمد انیس مصباحی

No comments:

Post a Comment

Featured Post

*زحمت، رحمت اور فطرت* حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی جس کی بھلائی چاہتا ہے اس...