Monday, April 1, 2019

دینی رہنمائوں کی کج فہمی

ایک سے بڑھ کر ایک ماہرین فن جن سے علمی کارنامے متوقع تھے۔ امامت و خطابت کے اس پرلطف مرغن و مچرب اور آسان  راہ پر چل پڑے جس پر چلنے کے لیے خوش الحان قاری صاحب، حافظ صاحب ، ناطرہ مکمل اور اردو میں  پانچویں پاس کافی تھا۔۔۔یہ سوچنے کا مقام ہے۔۔۔کیوں؟ آج یہ مولوی تمام پلیٹ فارم پر قوم کو ایک ہی طعنہ دیتے ہیں کہ تم دنیادار ہو جب کہ خوبصورت رومال تک انہیں مانگنے کی عادت ہے۔اور حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی قوم کی ترقی کا اہم زینہ اس کا اقتصاد ہے جو قوم اقتصادی طور پر مضبوط ہے لوگ اسی کے  حس و حرکت کی نقالی کرتے ہیں۔۔۔اگر ہم مثبت فکر کو پروموٹ کرتے تو آج ہمارے پاس سیکڑوں شیخ زائد ہوتے اور ہم اپنے علماء کو دنیا کی بہترین سہولیات دیتے۔۔۔لیکن ہم نے خود قوم کو سلمڈاگ بنایا ہے۔۔عزت و عظمت کے سب اہم ظاہری سبب کی misinterpreting کرکے قوم کو اس قدر مفلوج کیا ہے کہ آج اکیسویں صدی میں بھی وہ اپنے بچوں کی ضرورتیں پوری کرنے سے قاصر ہے۔۔جب کہ ان کی حوصلہ افزائی جاتی تو شاید وہ انہیں حوصلہ ملتا۔۔۔ میں پھر کہتا ہوں کہ اس قوم کا علاج انہیں دنیا کی قیادت سکھانے میں ہے خواہ وہ قیادت دینی ہو کہ دنیاوی اقتصادی ہو کہ فکری۔

No comments:

Post a Comment

Featured Post

*زحمت، رحمت اور فطرت* حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی جس کی بھلائی چاہتا ہے اس...