مولانا شاھد رضا مصباحی ایک عظیم
ہندوستان ہمارا بہت پیارا ملک ہے یہاں پر مختلف تہذیبیں اور مختلف مذھب کے ماننے والےلوگ بستے ہیں.یہاں پر کافی تعداد میں مسلم بھی آباد ہیں ہر شخص کو اپنے مذھب پر عمل کی اجازت ہے کسی بھی طرح کی تعلیم حاصل کرنے کا اختیار ہے اور باقاعدہ ہر شعبے کے الگ الگ ڈپارٹمنٹ قائم ہیں اور مزید اس میں ترقی کی راہیں سامنے آرہی ہیں لوگ آیے دن ترقی کے زینے کو چھورہے ہیں اور گویا یہ کہ رہے ہیں کہ ستاروں کے آگے جہاں اور بھی ہیں.
انھیں ترقی حاصل کرنے والوں میں سے ایک نام محمد شاھد رضا مصباحی کا بھی ہے جنھوں نے ips آفیسر کا جو مقام حاصل کیا ہے وہ مصباحی برادران اور تمام مسلمانوں کے لیے بڑی خوشی کا موقع ہے
زمانہ طالب علمی میں جامعہ اشرفیہ میں شاھد صاحب سے کبھی کبھی ملاقات ہوجاتی تھی آج ان کی یہ عظیم کامیابی دیکھ کر گزشتہ زمانہ یاد آگیا
اللہ تعالی انھیں مزید ترقیاں عطا فرمائے
ہندوستان میں زمانہ قدیم سے مدارس کا ایک طویل سلسلہ جاری ہے ہر دن اس کی تعداد میں اضافہ ہی ہورہا ہے فارغین کی تعداد بھی بڑھتی جارہی ہے والدین کی بے لوث خدمات کے بعد ایک طالب علم اعدادیہ سے فضیلت تک تمام مراحل پاس کرلیتا ہے اور اس کے بعد والدین کی آنکھوں میں ایک امید کی کرن روشن ہوتی ہے کہ بیٹا ان کے بڑھاپے کا سہارا بنے گا ان کو کماکر کھلائے گا لیکن حال یہ ہے طالب علم اگر اچھے نمبر اور مشہور جامعہ یا مدرسے سے فارغ ہے تو تلاش و جستجو کے بعد زیادہ سے زیادہ دس ہزار کی نوکری حاصل کرلیتا ہے لیکن اس میں بھی بے شمار تکالیف بات بات پر انتظامیہ کمیٹی کی بے تکی باتیں ہر وقت معزول کیے جانے کا ڈر لگا رہتا ہے اپنی جگہ برقرار رکھنے کے لیے چندہ کرنا ضروری ہے ورنہ جگہ جانے کاخطرہ ہے اگر سرکاری نوکری حاصل کرنا ہے تو مدارس کی موٹی کمائی پر راج کرنے والوں کو پہلے رشوت کے طور پر 20.سے 25لاکھ روپیے دینا ضروری ہوتے ہیں ایسے عالم میں ایک قابل باصلاحیت اور غریب عالم اس منصب کی حصول یابی سے محروم رہ جاتا ہے کیوں کہ اس کے پاس اتنی دولت نہیں ہے جس سے ان کا شکم پر کرسکے اور اس منصب پر ایسا مالدار شخص متمکن ہوجاتا ہے جس نے اپنے شب وروز مستی میں گزارے تھے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج کامیاب اور باصلاحیت طلبہ کم اور کم علم. زیادہ فارغ ہورہے ہیں کیوں کہ مسند زریں پر بیٹھنے والا خود علم سے کورا ہے وہ دوسرے کی رہنمائی کیسے کرے گا ہر جگہ اگرچہ ایسا نہیں ہے لیکن آج کے دور میں اکثر ایسا ہی ہورہا ہے
ہندوستان ہمارا بہت پیارا ملک ہے یہاں پر مختلف تہذیبیں اور مختلف مذھب کے ماننے والےلوگ بستے ہیں.یہاں پر کافی تعداد میں مسلم بھی آباد ہیں ہر شخص کو اپنے مذھب پر عمل کی اجازت ہے کسی بھی طرح کی تعلیم حاصل کرنے کا اختیار ہے اور باقاعدہ ہر شعبے کے الگ الگ ڈپارٹمنٹ قائم ہیں اور مزید اس میں ترقی کی راہیں سامنے آرہی ہیں لوگ آیے دن ترقی کے زینے کو چھورہے ہیں اور گویا یہ کہ رہے ہیں کہ ستاروں کے آگے جہاں اور بھی ہیں.
انھیں ترقی حاصل کرنے والوں میں سے ایک نام محمد شاھد رضا مصباحی کا بھی ہے جنھوں نے ips آفیسر کا جو مقام حاصل کیا ہے وہ مصباحی برادران اور تمام مسلمانوں کے لیے بڑی خوشی کا موقع ہے
زمانہ طالب علمی میں جامعہ اشرفیہ میں شاھد صاحب سے کبھی کبھی ملاقات ہوجاتی تھی آج ان کی یہ عظیم کامیابی دیکھ کر گزشتہ زمانہ یاد آگیا
اللہ تعالی انھیں مزید ترقیاں عطا فرمائے
ہندوستان میں زمانہ قدیم سے مدارس کا ایک طویل سلسلہ جاری ہے ہر دن اس کی تعداد میں اضافہ ہی ہورہا ہے فارغین کی تعداد بھی بڑھتی جارہی ہے والدین کی بے لوث خدمات کے بعد ایک طالب علم اعدادیہ سے فضیلت تک تمام مراحل پاس کرلیتا ہے اور اس کے بعد والدین کی آنکھوں میں ایک امید کی کرن روشن ہوتی ہے کہ بیٹا ان کے بڑھاپے کا سہارا بنے گا ان کو کماکر کھلائے گا لیکن حال یہ ہے طالب علم اگر اچھے نمبر اور مشہور جامعہ یا مدرسے سے فارغ ہے تو تلاش و جستجو کے بعد زیادہ سے زیادہ دس ہزار کی نوکری حاصل کرلیتا ہے لیکن اس میں بھی بے شمار تکالیف بات بات پر انتظامیہ کمیٹی کی بے تکی باتیں ہر وقت معزول کیے جانے کا ڈر لگا رہتا ہے اپنی جگہ برقرار رکھنے کے لیے چندہ کرنا ضروری ہے ورنہ جگہ جانے کاخطرہ ہے اگر سرکاری نوکری حاصل کرنا ہے تو مدارس کی موٹی کمائی پر راج کرنے والوں کو پہلے رشوت کے طور پر 20.سے 25لاکھ روپیے دینا ضروری ہوتے ہیں ایسے عالم میں ایک قابل باصلاحیت اور غریب عالم اس منصب کی حصول یابی سے محروم رہ جاتا ہے کیوں کہ اس کے پاس اتنی دولت نہیں ہے جس سے ان کا شکم پر کرسکے اور اس منصب پر ایسا مالدار شخص متمکن ہوجاتا ہے جس نے اپنے شب وروز مستی میں گزارے تھے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج کامیاب اور باصلاحیت طلبہ کم اور کم علم. زیادہ فارغ ہورہے ہیں کیوں کہ مسند زریں پر بیٹھنے والا خود علم سے کورا ہے وہ دوسرے کی رہنمائی کیسے کرے گا ہر جگہ اگرچہ ایسا نہیں ہے لیکن آج کے دور میں اکثر ایسا ہی ہورہا ہے
ہر کمپنی کا یہ طریقہ ہوتا ہے جتنا مال انویسٹ ہوسکے اتنا ہی مال بناتی ہے لیکن مدارس کے منتظمین ہر سال سالانہ تعطیل کے موقع پر جگہ جگہ جلسے کا اعلان کرتے ہیں کہ اس سال اتنے طلبہ فارع ہورہے ہیں اور اسی کو اپنی کامیابی تصور کرتے ہیں اور ببانگ دھل یہ اعلان کرتے ہیں کہ ہمارے جامعہ سے اتنے طلبہ فارع ہوگیے ہیں
لیکن اس پروڈکٹ کا کیا فائدہ
آپ نے کیا اپنی ذمہ داری کا حق ادا کردیا ذمہ داری کا حق تو یہ تھا کہ آپ ہر سال فارغ ہونے والوں کے لیے ان کی صلاحیت کے مطابق جگہ کا انتظام کرتے
آپ ایسا پروڈکٹ تیار کررہے ہیں جس کی مارکیٹ میں کویی ویلو نہیں ایک نمبر سے فارع ہونے والا بھی اپنی جگہ کے لیے سرگرداں نظر آتا ہے
جگہ جگہ پریشان پھرنے کے بعد کویی مدرسہ مل گیا تو ٹھیک ہے ورنہ اب مساجد کی تلاش جاری رہتی ہے اکثر فارغ التحصیل کا یہی معمول رہتا ہے اور تنخواہ بھی معمولی رہتی ہے مساجد کی کمیٹی کے ظلم کی داستان تو ہر دن سننے کو ملتی ہی رہتی ہے
اب ایسے عالم میں والدین اپنی باقی اولاد کے بارے میں کیا کبھی یہ ارادہ کریں گے کہ اسے بھی پہلے والے لڑکے کی طرح. مدارس کے حوالے کردیں ہر گز نہیں
پہلے تو شہر میں ہی مدارس زیادہ ہوتے تھے لیکن اب تو گاؤں میں بھی مدرسوں کا ایک میلہ لگ گیا ہے ہر جبہ دستار والا ایک دوسرے جبہ دستار والے سے ہنسی خوشی سے ملنے کو تیار نہیں ہے 20.30 بچوں کو جمع کرکے اپنی دکان کی فکر کر رہا ہے ایسے عالم میں مدارس اور قوم دونوں کا نقصان ہوتا ہے چندہ بھی کئ حصوں میں تقسیم ہوجاتا ہے
اسی لیےفارغ تو زیادہ ہورہے ہیں لیکن کام کے افراد کم ہیں کیوں کہ اولا یا تو پڑھانے والے رشوت کے ذریعہ جگہ پائے ہیں یا پھر سالانہ جلسہ کے موقع فارغین کی تعداد دکھانا مقصود ہوتی ہے اسی لیے ہر مدرسے والا اس سے بہتر کی کوشش کرتا ہے لیکن یہ کوشش صرف تعداد میں اضافہ کے لیے ہوتی ہے صلاحیت مند ہے یا نہیں اس سے کوئی سرکار نہیں ہوتا ہے
میرا سوال ہر اس دین کے خیر خواہ ہر خانقاہ ھر اھل ثروت ہر مدرسے کی شکل میں دکان کھولنے والے ھل ذمہ دار سے ہے کہ مدرسوں کی تعداد بڑھانے سے کویی فایدہ نہیں اب ضرورت اس بات ہے کہ ہمارے انجینئرنگ کالج ہوں ہمارے میڈیکل کالج ہوں ہمارے ڈاکٹر ہوں ہمارے وکیل ہوں ہمارے قاضی ہوں ہمارے پولیس آفیسر ہوں ہمارے ips آفیسر ہوں لیکن یہ صرف اسی صورت میں ہوسکتا ہے کہ گاؤں کا پڑھا لکھا طبقہ صرف ایک بڑا جامعہ قائم کرے باصلاحیت ہر شعبے کے اساتذہ فراہم کرے تعلیم کا بہترین نظم ونسق قائم کرے عصری تعلیم کو خوب سے خوب فروغ دے طلبہ کی ذہنی فکروں کو پرکھیں جس میں جس فیلڈ کی خوبی دیکھیں اس کی طرف اس کی رھنمائی کریں اس سے چندہ بھی کئی حصوں میں تقسیم ہونے سے بچ جایے گا اور مقصد ایک نمایاں کامیابی ہوگا اس طرح ہر شعبے میں ایک عالم دین نظر آیے گا
کتنا پیارا وہ زمانہ ہوگا جب ہر ڈپارٹمنٹ میں عالم ہی عالم نظر آئیں گے
مدارس سے فارغ ہونے والے طلبہ کی محنت کے مقابلہ میں اسکول میں اتنے زیادہ محنتی طلبہ نہیں ہوتے ہیں
بقول اشرف میاں کامیابی کے سارے زینے تمہارے لیے ہیں لیکن رھنمائی کی ضرورت ہے
مدارس میں داخلہ لینے والوں میں ایک تعداد غریب طلبہ کی رہتی ہے بعض تو کسی طرح گزر بسر کرکے دستار فضیلت حاصل کرلیتے ہیں ان میں سے بے شمار طلبہ کی یہ خواہشات رہتی ہیں کہ یونیورسٹی جاکر اور تعلیم حاصل کریں لیکن وہاں کا خرچ اور والدین کی جیب اس بات کی اجازت نہیں دیتی ہے ادھر والدین اب سوچنے لگتے ہیں کہ بیٹا اب کماکر کھلایے گا
اب ایسے عالم میں ھل مسلم اھل ثروت ہر خانقاہ اھل ثروت اور آج تو ہر خانقاہ اھل ثروت ہے وہ پرانے بزرگوں کے واقعات صرف کتابوں میں ملتے ہیں کہ فلاں بزرگ نے اپنا سب کچھ راہ خدا میں وقف کردیا کویی تارک الدنیا ہوگیے کسی نے گھاس کے پتے کھاکر زندگی گزاری
لیکن آج کا حال ہے کہ بظاھر جبہ دستار ہے لیکن سراپا دنیا کی دولت میں گم. ہیں غریب مرید کے گھر پر جانے کا خیال بھی نہیں آتا صرف مالدار مرید ہی نظر میں بھاتے ہیں
اب ایسے عالم میں ان بظاھر جبہ دستار میں ملبوس دنیا سے دل لگانے والے مشائج سے اگر یہ امید لگائی جایے کہ آپ کچھ اس طرح کے کالج کھولیں جس میں ہر فن کے ماھرین کو لاییں اور مدارس سے فارغین کو ان کے آگے کی تعلیم حاصل کے مواقع فراہم کریں تو آج ایک شاھد رضا مصباحی ips آفیسر بنا ہے کل نہ جانے کتنے آفیسرس. وکلاء ڈاکٹرس علماء کی صورت میں نظر آییں گے اور آج جو لوگ ان مدارس سے جی چراتے ہیں ان سے فارغ ہونے والوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھیں گے اور اپنے بچوں کے بارے میں بھی نیا فیصلہ کریں گے
آپ کالجز بناکر فیس بھی جاری کریں لیکن اتنی فیس رکھیں تاکہ غریب مدارس سے فارغ آگے کی تعلیم جاری رکھ سکیں ورنہ اگر فیس کے بار سے تعلیم سے روکا تو آپ میں اور ان کالجزر کے افراد میں کیا فرق رہ جایے گا.
بس اسی پر اپنی بات مکمل کرتا ہوں
ہوسکتا ہے ان میں سے کچھ باتیں کسی پر صادق آجاییں تو ھدف تنقید نہ بناییں صرف عمومی بات کی گئ ہے.
اللہ کرے دل میں اتر جایے میری بات.
محمد گل ریز رضا مصباحی
لیکن اس پروڈکٹ کا کیا فائدہ
آپ نے کیا اپنی ذمہ داری کا حق ادا کردیا ذمہ داری کا حق تو یہ تھا کہ آپ ہر سال فارغ ہونے والوں کے لیے ان کی صلاحیت کے مطابق جگہ کا انتظام کرتے
آپ ایسا پروڈکٹ تیار کررہے ہیں جس کی مارکیٹ میں کویی ویلو نہیں ایک نمبر سے فارع ہونے والا بھی اپنی جگہ کے لیے سرگرداں نظر آتا ہے
جگہ جگہ پریشان پھرنے کے بعد کویی مدرسہ مل گیا تو ٹھیک ہے ورنہ اب مساجد کی تلاش جاری رہتی ہے اکثر فارغ التحصیل کا یہی معمول رہتا ہے اور تنخواہ بھی معمولی رہتی ہے مساجد کی کمیٹی کے ظلم کی داستان تو ہر دن سننے کو ملتی ہی رہتی ہے
اب ایسے عالم میں والدین اپنی باقی اولاد کے بارے میں کیا کبھی یہ ارادہ کریں گے کہ اسے بھی پہلے والے لڑکے کی طرح. مدارس کے حوالے کردیں ہر گز نہیں
پہلے تو شہر میں ہی مدارس زیادہ ہوتے تھے لیکن اب تو گاؤں میں بھی مدرسوں کا ایک میلہ لگ گیا ہے ہر جبہ دستار والا ایک دوسرے جبہ دستار والے سے ہنسی خوشی سے ملنے کو تیار نہیں ہے 20.30 بچوں کو جمع کرکے اپنی دکان کی فکر کر رہا ہے ایسے عالم میں مدارس اور قوم دونوں کا نقصان ہوتا ہے چندہ بھی کئ حصوں میں تقسیم ہوجاتا ہے
اسی لیےفارغ تو زیادہ ہورہے ہیں لیکن کام کے افراد کم ہیں کیوں کہ اولا یا تو پڑھانے والے رشوت کے ذریعہ جگہ پائے ہیں یا پھر سالانہ جلسہ کے موقع فارغین کی تعداد دکھانا مقصود ہوتی ہے اسی لیے ہر مدرسے والا اس سے بہتر کی کوشش کرتا ہے لیکن یہ کوشش صرف تعداد میں اضافہ کے لیے ہوتی ہے صلاحیت مند ہے یا نہیں اس سے کوئی سرکار نہیں ہوتا ہے
میرا سوال ہر اس دین کے خیر خواہ ہر خانقاہ ھر اھل ثروت ہر مدرسے کی شکل میں دکان کھولنے والے ھل ذمہ دار سے ہے کہ مدرسوں کی تعداد بڑھانے سے کویی فایدہ نہیں اب ضرورت اس بات ہے کہ ہمارے انجینئرنگ کالج ہوں ہمارے میڈیکل کالج ہوں ہمارے ڈاکٹر ہوں ہمارے وکیل ہوں ہمارے قاضی ہوں ہمارے پولیس آفیسر ہوں ہمارے ips آفیسر ہوں لیکن یہ صرف اسی صورت میں ہوسکتا ہے کہ گاؤں کا پڑھا لکھا طبقہ صرف ایک بڑا جامعہ قائم کرے باصلاحیت ہر شعبے کے اساتذہ فراہم کرے تعلیم کا بہترین نظم ونسق قائم کرے عصری تعلیم کو خوب سے خوب فروغ دے طلبہ کی ذہنی فکروں کو پرکھیں جس میں جس فیلڈ کی خوبی دیکھیں اس کی طرف اس کی رھنمائی کریں اس سے چندہ بھی کئی حصوں میں تقسیم ہونے سے بچ جایے گا اور مقصد ایک نمایاں کامیابی ہوگا اس طرح ہر شعبے میں ایک عالم دین نظر آیے گا
کتنا پیارا وہ زمانہ ہوگا جب ہر ڈپارٹمنٹ میں عالم ہی عالم نظر آئیں گے
مدارس سے فارغ ہونے والے طلبہ کی محنت کے مقابلہ میں اسکول میں اتنے زیادہ محنتی طلبہ نہیں ہوتے ہیں
بقول اشرف میاں کامیابی کے سارے زینے تمہارے لیے ہیں لیکن رھنمائی کی ضرورت ہے
مدارس میں داخلہ لینے والوں میں ایک تعداد غریب طلبہ کی رہتی ہے بعض تو کسی طرح گزر بسر کرکے دستار فضیلت حاصل کرلیتے ہیں ان میں سے بے شمار طلبہ کی یہ خواہشات رہتی ہیں کہ یونیورسٹی جاکر اور تعلیم حاصل کریں لیکن وہاں کا خرچ اور والدین کی جیب اس بات کی اجازت نہیں دیتی ہے ادھر والدین اب سوچنے لگتے ہیں کہ بیٹا اب کماکر کھلایے گا
اب ایسے عالم میں ھل مسلم اھل ثروت ہر خانقاہ اھل ثروت اور آج تو ہر خانقاہ اھل ثروت ہے وہ پرانے بزرگوں کے واقعات صرف کتابوں میں ملتے ہیں کہ فلاں بزرگ نے اپنا سب کچھ راہ خدا میں وقف کردیا کویی تارک الدنیا ہوگیے کسی نے گھاس کے پتے کھاکر زندگی گزاری
لیکن آج کا حال ہے کہ بظاھر جبہ دستار ہے لیکن سراپا دنیا کی دولت میں گم. ہیں غریب مرید کے گھر پر جانے کا خیال بھی نہیں آتا صرف مالدار مرید ہی نظر میں بھاتے ہیں
اب ایسے عالم میں ان بظاھر جبہ دستار میں ملبوس دنیا سے دل لگانے والے مشائج سے اگر یہ امید لگائی جایے کہ آپ کچھ اس طرح کے کالج کھولیں جس میں ہر فن کے ماھرین کو لاییں اور مدارس سے فارغین کو ان کے آگے کی تعلیم حاصل کے مواقع فراہم کریں تو آج ایک شاھد رضا مصباحی ips آفیسر بنا ہے کل نہ جانے کتنے آفیسرس. وکلاء ڈاکٹرس علماء کی صورت میں نظر آییں گے اور آج جو لوگ ان مدارس سے جی چراتے ہیں ان سے فارغ ہونے والوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھیں گے اور اپنے بچوں کے بارے میں بھی نیا فیصلہ کریں گے
آپ کالجز بناکر فیس بھی جاری کریں لیکن اتنی فیس رکھیں تاکہ غریب مدارس سے فارغ آگے کی تعلیم جاری رکھ سکیں ورنہ اگر فیس کے بار سے تعلیم سے روکا تو آپ میں اور ان کالجزر کے افراد میں کیا فرق رہ جایے گا.
بس اسی پر اپنی بات مکمل کرتا ہوں
ہوسکتا ہے ان میں سے کچھ باتیں کسی پر صادق آجاییں تو ھدف تنقید نہ بناییں صرف عمومی بات کی گئ ہے.
اللہ کرے دل میں اتر جایے میری بات.
محمد گل ریز رضا مصباحی
No comments:
Post a Comment