Sunday, March 31, 2019

اتحاد زندگی اور اختلاف موت

"اتحاد زندگی اور اختلاف موت"
بہت سے مدارس اسلامیہ میں" علمائے کرام " کا جو استحصال ہو رہا ہے وہ سب پر عیاں ہے جو لوگ  چاپلوس ہیں ان کو خود داری مر چکی ہے ان سے سروکار نہیں ہے لیکن  جو خود دار ہیں وہ ضرور آواز اٹھائیں آج میرے ساتھ ایک واقعہ پیش آیا جس نے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا ہوا یوں کہ جن مدارس کو مدرسہ بورڈ لکھنؤ کے امتحانات کا جانچ سینٹر بنایا گیا کچھ جگہوں پر  کاپی جانچ کرنے میں کچھ  گڑبڑی پائی گئی جس کی وجہ سے رجسٹرار صاحب نے باقاعدہ لیٹر جاری کرکے پھٹکار لگائی  اور اس کے تعلق سے  صاف ستھرا بنانے کا آڈر جاری کیا جس سے دلال اور دولت کے حریص و لالچی  اور مدارس اسلامیہ کو کاروبار بنانے والے،حرام کمائی کھانے والے منحوس لوگ بوکھلاہٹ کے شکار ہو گئے  اور اپنی غلطی ماننے کے بجائے علمائے کرام کو مکمل  قصور وار ٹھہراتے ہوئے خود کو گندی نالی کا کیڑا ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے اپنی تہذیب و ثقافت کا پتہ بتاتے ہوئے" علمائے کرام" کے لیے وہ جملے استعمال کرنے لگے جس کو علمائے کرام کے مقام و مرتبہ کا خیال کرتے ہوئے  آوارہ اور اوباش لڑکے بھی استعمال نہ کریں  اور ایسے موقع  پر وہاں پر موجود علمائے کرام کی خاموشی اس بات پر دال پر ہے کہ ان کا احساس مر چکا ہے ان کو بس اپنی نوکری پیاری ہے کل جب ان کی باری آئے گی تو انہیں اس کا احساس ہوگا! اور کچھ مدارس اسلامیہ کے متظمین ایسے کمینے اور  گستاخِ علمائے کرام  ہیں جو دن و رات صرف علمائے کرام کی برائی کرتے ہیں اور  علماء کرام کی عظمت وعزت سے غافل رہتے ہیں ان کے ساتھ انتہائی نارواتعلقات رکھتے ہیں ان کے بارے میں یہ یقین کر لیں کہ ان کی سخت  گرفت ہوگی اور ان کی کتے یا خنزیر کی طرح موت ہوگی جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو علماءسے بغض رکھنے اور
ان کی گستاخی کرنے سےمنع فرمایا ہے
آپ ﷺکا فرمان ہے کہ" اغْدُ عَالِمًا أَوْ مُتَعَلِّمًا أَوْ مُسْتَمِعًا أَوْ مُحِبًّا وَلَا تَكُنِ الْخَامِسَ فَتَهْلَكَ (مسند البزار :3626 )
ترجمہ:عالم ،متعلم،سامع یا علم سے محبت کرنے والے بنیں اگر اس کے علاوہ پانچویں بنیں گے تو ہلاک ہوجائیں گے۔‘‘
یعنی علم وعلماء سے بغض وکدروت کرنے والے نہ بنیں بلكہ محبت كرنے والے بنیں اور حضرت امام احمد بن اوزاعی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ"الوقيعة في اھل العلم ولا سيما اکابرھم من کبائر الذنوب"اہل علم کی مذمت و توہین کرنا،خاص طور سے بڑے علماء کرام کی ، کبیرہ گناہوں میں سے ہے ( الرد الوافر لابن ناصر الدين الدمشقي : 283 )
اور علامہ ابن نجیم مصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ’’الِاسْتِهْزَاءُ بِالْعِلْمِ وَالْعُلَمَاءِ كُفْرٌ‘‘علم اور علماء کی توہین کفر ہے۔ (الاشباہ والنظائر، باب الردۃ : ۱۶۰ )
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں :لحوم العلماء مسمومة، من شمها مرض، ومن أكلها مات (المعيد في أدب المفيد والمستفيد ،ص: 60)’’علماء کرام کا گوشت زہریلا ہوتا ہے جو اس کو سونگھے گا بیمار پڑ جائے گا اور جو اس کو کھائے گا مر جائے گا۔‘‘ایسے لوگوں کی زندگی باری تعالی تنگ کردیتا ہے اور ایسے افرادکو دنیا میں ہی ذلیل ورسوا کرکے تمام آنے والی نسلوں کے لیے نشان عبرت بنادیتا ہے جو لوگ علماء کرام پر تبرا بازی و الزام تراشی کیا کرتے ہیں۔
اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب میری امت اپنے علماء سے بغض رکھنے لگے گی تو اللہ تعالی ان پر چار قسم کے عذابات مسلط کرے گا:بِالْقَحْطِ مِنَ الزَّمَانِ، وَالْجَوْرِ مِنَ السُّلْطَانِ، وَالْخِيَانَةِ مِنْ ولَاةِ الْأَحْكَامِ، وَالصَّوْلَةِ مِنَ الْعَدُوِّ"قحط سالی ، بادشاہ کی جانب سے مظالم ، حکام کی خیانت ، دشمنوں کے مسلسل حملے (مستدرک حاکم 4؍361) اور امام اہل سنت اعلی حضرت قدس سرہ اپنی کتاب فتاویٰ رضویہ میں لکھتے ہیں کہ" علمائے دین کی توہین کرناسخت حرام، سخت گناہ، کبیرہ، عالم دین سُنّی صحیح العقیدہ کہ لوگوں کو حق کی طرف بلائے اور حق بات بتائے حضرت  محمد ﷺکا نائب ہے،اس کی تحقیر و توہین معاذ اللہ جناب محمدﷺکی توہین ہے اورمحمد ﷺکی بارگاہ میں گستاخی موجب ِ لعنت ِ الٰہی و عذابِ الیم ہے۔(فتاوی رضویہ ج۲۳ص۶۴۹) حضرت عبد اللہ ابن مبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں :من استخف بالعلماء ذھبت آخرتہ"جو شخص بھی علماء کی بے قدری کرے گا وہ اخروی زندگی سے محروم رہے گا اور یہ بھی واضح رہے کہ کمی کوتاہی ہر بندے سے ہوتی ہے علماء کی چھوٹی موٹی کمی کوتاہی پر اپنے منہ کو بند رکھنا چاہیے اپنی زبان کو علماء کی غیبت سے محفوظ رکھنی چاہیے علماء کی خوبی اور نیک باتوں کو اپنانا چاہیے کیونکہ علماء کا مقام امت میں نائبین انبیاء کا ہے، علماء انبیاء کے وارث ہیں جو لوگ  علماء کی شان میں گستاخی کرنا اپنا مقصد سمجھتے ہیں اور ان پر لعن و طعن کرتے ہیں انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ  علماء کی شان میں گستاخی کرنا، ان کی اہانت کرنا، ان کا مذاق اڑانا اور تحقیر کرنا یہ سب انتہائی نقصان کا باعث ہے ان باتوں سے ایمان جانے کا خطرہ ہے۔حضرت علامہ عبد الوہاب شعرانی رحمہ اللہ تعالی  جو اکابر صوفیہ میں ہیں انہوں نے کتاب عہد محمدیہ میں لکھا ہے کہ ہم سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے یہ عام عہد لیا گیا ہے کہ ہم علماء کی اور صلحاء کی اور اکابر کی تعظیم کیا کریں چاہے وہ خود اپنے علم پر عمل نہ کیا کریں اور ہم لوگ ان کے ذاتی معاملہ کو اللہ کے سپرد کر دیں اور  مولانا عبد الحی لکھنوی علیہ الرحمہ  اپنے فتوی میں لکھتے ہیں: اگر گالیاں دینے والے کا مقصود علم اور علماء کی تحقیر کی وجہ سے ہے تو فقہاء اس کے کفر کا فتوی دیتے ہیں ورنہ اگر کسی اور وجہ سے ہے تو تب اس شخص کے فاسق و فاجر ہونے میں اللہ کے غصہ اور دنیا اور آخرت کے عذاب کے مستحق ہونے میں شبہ نہیں ہے لہذا علمائے کرام  کے بارے میں اپنی زبانوں کو لگام دینے میں ہی عافیت ہے ان کی شان میں  بے ادبی،  تذلیل، حقارت اور توہین کرنا کسی صورت جائز نہیں ہے اور یہ بھی یاد رکھیں کہ ان باتوں سے اہل علم کی شان میں کوئی کمی نہیں آئے گی البتہ اپنا ہی خسارہ اور نقصان ہے۔اور آخری بات یہ ہے کہ اورکوئی  کسی عالم کی توہین کر رہا ہے تو اس گستاخ آوارہ کے خلاف سب علمائے کرام  مل کر آواز اٹھائیں اور  ان کا بائیکاٹ کریں نہ اس کا نکاح  پڑھائیں اور اس کی نماز جنازہ میں شریک ہوں اور مدارس اسلامیہ سے تعلق رکھنے والے والی تنظیموں کے ذمہ داران  سے گزارش ہے کہ ایسے شخص کے لیے  سخت ایکشن لیں اور  اس کو اس کی اوقات دیکھادیں تاکہ کسی بھی مدرسہ میں کوئی بھی ذمہ دار  کسی بھی عالم کی توہین اور گستاخی کرنے کی ہمت نہ کر سکیں اور یہ بات ہمیشہ ذہن میں کر لیں کہ ان کا کام علمائے کرام کے بغیر نہیں چلے گا ۔

ایک عورت کی نایاب خوبی

*پھر لوگ کہتے ہیں کہ عورت نے کیا کیا ھے*۔
جب کوئی عورت بچے کی پیدائش کے وقت تکلیف سے چیخ رہی ہوتی ہے تڑپ رہی ہوتی ہے تو میرا دل چاہتا ہے کہ میں اس وقت اس کے شوہر کو لا کے ادھر کھڑا کروں تا کہ اسے پتا چلے اس کی بیوی اس کی نسل کی خاطر کیسے تڑپ رہی ہے تا کہ اسے بعد میں وہ زندگی میں کبھی نا کہہ سکے
کہ تم نے کیا ہی کیا ہے میری خاطر؟؟
تم نے اولاد پیدا کر کے کوئ انوکھا کام نہیں کیا
کبھی اسے گھر سے نکال دینے اور طلاق کی دھمکی نہ دے
ایک پل میں نہ کہہ دے اس کے ماں باپ کو کہ لے جاؤ اپنی بیٹی کو :
کاش ۔ ۔ ۔
کاش کہ ایک پل میں عورت کو ایک کوڑی کا کر دینے والے مرد بھی اس تکلیف کا اندازہ کر سکیں جو بیس ہڈیوں کے ایک ساتھ ٹوٹنے کے برابر ہوتی ہے۔

ایک عورت کی نایاب خوبی

*مرد کو سمجھنے کی جتنی صلاحیت اللہ پاک نے عورت کو بخشی ھے مرد کو اس کی ھوا بھی نہیں لگی* ،،
مرد کے معاملے میں خود اللہ پاک نے عورت میں وہ (Sensor) لگایا ھے جو دھواں سونگھ کر آگ کی خبر دیتا ھے ،، (MBA) شوھر دوست کو گھر لاتا ھے اور مڈل پاس بیوی اس کو دس منٹ میں بتا دیتی ھے کہ اس کی نظر ٹھیک نہیں ،، عورت میں مرد کے بارے میں اتنی (Applications) رکھی گئ ھیں کہ وہ اس کی نظر پڑھ سکتی ھے ، اس کی چال پڑھ سکتی ھے ، اس کے الفاظ پڑھ سکتی ھے ،، یہانتک کہ وہ مرد کی مصنوعی اور حقیقی مسکراھٹ کے فرق کو دن اور رات کی طرح جانتی ھے

*- جھوٹ پکڑنے والی مشین کو دھوکا دیا جا سکتا ھے* ،

عورت کو دھوکا دینا ناممکن ھے ، وہ مروت سے چپ کر جائے تو اس کی مہربانی ھے ،جھگڑا دفتر میں ھوتا ھے اور اس کی خبر وہ آپ کا مُکھڑا دیکھ کر دے دیتی ھے ،، آپ ٹریفک وارڈن سے لڑ کر مسکراتے ھوئے گھر میں داخل ھوں مگر وہ اچانک پیچھے سے آ کر کہتی ھے " کس سے لڑ کر آئے ھو ؟ " اور آپ کا تراہ نکل جاتا ھے ،،، جس خدا نے عورت کو جسمانی طور پہ نازک بنایا ھے اس خدا نے نفسیاتی طور پر اس کو بڑا قوی بنایا ھے ،پیغمبروں کی حفاظت عورت کو سونپی گئ ھے ،، کتنے بڑے امتحان کے لئے بھولی بھالی مریم علیہ السلام کو چنا گیا ھے " موسی علیہ السلام کی ماں سے کیا کام لیا ؟ موسی علیہ السلام کی 9 سال کی بہن سے کیا کام لے لیا ؟ فرعون کی بیوی سے کیا کام لے لیا ؟ اور شیخِ مدین کی بیٹی نے باپ کے سامنے اجنبی موسی کا پورا (Curriculum) بیان کیا تھا یا نہیں ؟ کیا وہ ان کو جانتی تھی ؟ اسے کیسے پتہ چل گیا کہ وہ مارشل آرٹس کے ماھر ھیں اور امین بھی ھیں حیاء والے بھی ھیں،
جس اللہ نے عورت کو جسمانی طور پہ کمزور بنایا ھے اس اللہ نے ہی اسے نفسیاتی طور پر بہت مظبوط بھی بنایا ہے..!
لہذا عورتوں کو ہر لحاظ سے کمزور سمجھنا یہ مردوں کی غلط فہمی ہے ۔اور ایک عورت کو وہی مقام دینا چاہیے جو ایک مرد اپنے لیے حاصل کرنا چاہتا ہے ۔ ان کی عزت ان کا اخترام ایسا ہی ضروری ہے جیسے وہ اپنےلیے دوسروں سے سوچتا ہے ۔

قرآن مجید میں سولہ دلوں کا ذکر

قرآن مجید میں سولہ دلوں کا ذکر
*(۱) سخت دل :* یہ ایسے دل ہیں جو عبرت کی بڑی بڑی نشانیاں دیکھنے کے باوجود بھی سخت ہی رہتے ہیں ۔ مگر ایسی نشانیاں دیکھنے کے بعد بھی آخر کا ر تمہارے دل سخت ہو گئے ہیں پتھروں کی طرح سخت بلکہ سختی میں کچھ ان سے بھی بڑھے ہوئے کیونکہ پتھروں میں کوئی تو ایسا بھی ہوتا ہےجس میں سے چشمے پھوٹ پڑتے ہیں ۔کوئی پھٹتا ہے اور اسمیں سے پانی نکل آتا ہے اور کوئی خدا کے خوف سے لرزکر گر بھی جاتا ہے ۔اللہ تعالیٰ ان (سخت دل والوں) سے بے خبر نہیں (الم:ع۷)

*(۲) زنگ آلود دل:* اعمال بد کی وجہ سے دلوں پر زنگ چڑھ جاتا ہے ۔اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسے انسانوں کو حق بات بھی افسانہ ہی نظر آتی ہے۔ بلکہ دراصل ان لوگوں کے دلوں پر ان کے برے اعمال کا زنگ چڑھ گیا ہے۔(المطففین:۱۴)

*(۳) گناہ آلود دل:* شہادت کو جو لوگ چھپاتے ہیں اور حق بات کہنے سے گریز کرتے ہیں سمجھ لو ان کے دل گناہ آلودہو گئے ہیںاور اللہ تمہارے اعمال سے بے خبر
نہیں۔ (البقرہ:۲۸۳)

*(۴) ٹیڑھے دل:* جو لوگ فتنہ وفسادپھیلاتے ہیں جان لو کہ ان کے دلوں میں ٹیڑھ ہے ۔لوگوں کے دلوں میں ٹیڑھ ہے وہ فتنے کی تلاش میں ہمیشہ متشابہات ہی کے پیچھے رہتے ہیں اور ان کو معنیٰ پہنانے کی کو شش کرتے ہیں ۔حالانکہ ان کا حقیقی مفہوم اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ (آل عمران :۷)

*(۵) دانش مند دل :* جسے دل کی کجی کا خوف ہو وہ دانش مند ہے۔دانش مند دل والے اللہ سے دعا کرتے ہیں۔ (آل عمران:۸)

*(۶) نہ سوچنے والے دل:* جو لوگ اپنے دلوں سے سوچتے نہیں وہ جہنمی ہیںاور حقیقت یہ ہے کہ بہت سے جن اور انسان ہیں جن کو ہم نے جہنم کیلئے پیدا کیا ہے ۔ان کے پاس دل ہیں مگر وہ ان سے سوچتے نہیں ۔ان کے پاس آنکھیں ہیں مگر وہ ان سے دیکھتے نہیں ، ان کے پاس کان ہیں مگر وہ سنتے نہیں۔ (البقرہ)

*(۷) لرز اٹھنے والے دل:* اللہ کا ذکر سن کر جس کا دل لرز اٹھے وہ سچا مومن ہے ۔(الانفال:۳)

*(۸) ٹھپہ لگے ہوئے دل:* جو حد سے گذر جائیگا اس کے دل پر ٹھپہ لگ جا ئیگا۔یعنی ہدایت حاصل نہ کر سکے گا ۔اس طرح ہم حد سے گذر جانےوالوں کے دلوں پر ٹھپہ لگا دیتے ہیں(یونس:۴۷)

*(۹) مطمئن دل:* اللہ کی یاد کرنے والا دل ہی مطمئن ہوتا ہے ۔اور ہم ہی اسے اطمنان دیتے ہیں۔ (الرعد:۲۸)

*(۱۰) مجرم دل:* اللہ کا کلام سننے کے بعد آگ کی طرح گرم ہو نے والا مجرم دل رکھتا ہے اس کے دل میں جرائم کی گرمی ہوتی ہے
(سورہ زمر:۱۱)

*(۱۱) کانپ اٹھنے والے دل:* اللہ کا ذکر سن کر جس کا دل کانپ اٹھے وہ مومن ہے ۔(الحجر)

*(۱۲) اندھے دل :* جو نشانیاں دیکھنے کے بعد بھی عبرت حاصل نہ کرے اس کا دل اندھا ہے ۔(الحج۴۵)

*(۱۳) قلب سلیم دل :* حشر کے دن صرف قلب سلیم ہی فائدہ دے گا ۔جب کہ نہ کوئی مال فائدہ دے گا نہ اولاد بجز اس کے کہ کوئی شخص قلب سلیم لئے ہوئےاللہ کے حضور حاضر ہو۔( الشعر۸۸۔۸۹)

*(۱۴) بے ایمان دل:* جس کا دل کڑھنے لگے سمجھ لو کہ وہ بے ایمان اور منکر آخرت ہے۔(الزمر۴۵)

*(۱۵) متکبر دل:* اللہ ہر متکبر اور جبار کے دل پر ٹھپہ لگا دیتا (المومن۳۴)

*(۱۶) ایمان والے دل :* جن لوگوں کے دل اللہ کے ذکر سے پگھلتے ہیں وہ ایمان والے ہیں ۔ (الحدید۱۶)

عوام میں مشہور غلط فہمیوں کی اصلاح

عوام میں مشہور غلط فہمیوں کی اصلاح
بشکل سوال و جواب
         
:سوال:-عوام میں مشہور ہے کہ روزہ رکھنے کے لئے سحری کھانا ضروری ہے تو کیا یہ صحیح ہے ؟
جواب :-روزہ رکھنے کیلئے سحری کھانا ضروری نہیں بغیر سحری کے بھی روزہ رکھنا جائز ہے البتہ مستحب یہ ہے کہ سحری کھا کر روزہ رہے
(فتاوی فیض الرسول
ص 513 ج 1)
:سوال:-کیا انجکشن لگوانے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے ؟
:جواب :-نہیں! انجکشن لگوانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا
(فتاوی فیض الرسول
ص 516 ج 1)
:سوال :-ناپاکی کی حالت میں میاں بیوی روزہ رہے تو روزہ ہوتا ہے یا نہیں ؟
:-جواب :-ناپاکی  کی حالت میں روزہ رہے تو روزہ ہو جائے گا البتہ نماز نہ پڑھنے کے سبب دونوں گنہگار ہوں گے
(فتاوی فیض الرسول
ص514 ج 1 )
:-سوال :-2⃣1⃣ کیا رمضان کی راتوں میں میاں بیوی کا ہم بستر ہونا گناہ ہے ؟
:-جواب :-رمضان کی راتوں میں میاں بیوی کا ہم بستر ہونا گناہ نہیں بلکہ جس طرح رمضان کی راتوں میں کھانا پینا جائز ہے اسی طرح میاں بیوی کا ہم بستر ہونا بھی جائز ہے
(فتاوی فیض الرسول
ص 516 ج1 )
:-سوال :-3⃣1⃣افطار کی دعا افطار کے   بعد  پڑھے یا پہلے ؟
:-جواب :-افطار کے بعد پڑھے (فتاوی فیض الرسول
ص 651 ج 4)
:-سوال :- 4⃣1⃣درمیان اذان افطار کریں یا اذان کے بعد ؟
:-جواب :-سورج ڈوبنے کے بعد بلا تاخیر فورا افطار کریں اور اگر افطار سے پہلے اذان شروع ہو جائے تو ٹھوڑا کھا پی کر ٹھہر جائیں اور اذان کا جواب دیں پھر اس کے بعد جو چاہیں کھائیں پئیں اس لئے کہ اذان کے وقت جواب کے علاوہ کسی دوسرے کام میں مشغول ہونا منع ہے
(فتاوی فیض الرسول
ص 514 ج  1 )
:-سوال :-5⃣1⃣ کیا روزہ دار کیلئے دوپہر بعد مسواک کرنا مکروہ ہے ؟
:-جواب :-مسواک دوپہر سے پہلے کرے یا دوپہر کے بعد کسی وقت مکروہ نہیں
بہار شریعت میں ہے" اکثر لوگوں میں مشہور ہے کہ دوپہر بعد روزہ دار کے لئے مسواک کرنا مکروہ ہے یہ ہمارے مذہب کے خلاف ہے "
(ص 997 ج 5
مکتبہ المدینہ)
:-سوال:-6⃣1⃣کچھ لوگ اعتکاف میں چپ چاپ بیٹھے رہنے کو ضروری سمجھتے ہیں کہ بولنے سے اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے  کیا یہ صحیح ہے ؟
:-جواب :- اعتکاف میں نہ چپ رہنا ضروری ہے اور نہ محض خاموشی کوئی عبادت بلکہ حالت اعتکاف میں قرآن مجید کی تلاوت کرے تسبیح درود کا ورد رکھے نوافل پڑھے اور دینی کتابوں کا مطالعہ کرے محض چپ چاپ بیٹھے نہ رہے البتہ بری باتوں سے چپ رہنا ضروری ہے
(درمختارص 441 ج 3)
:-سوال :- 7⃣1⃣کیا کھٹی ڈکار آنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے ؟
:-جواب :-کھٹی ڈکار آنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا البتہ سحری کے وقت کھانے میں احتیاط برتنا چاہئیے
(فتاوی رضویہ
ص 516 587 ج 4 )
:-سوال :-8⃣1⃣جمعہ کو روزہ کے لئے خاص کرنا کیسا ہے ؟
:-جواب :- جمعہ کو روزہ کے لئے خاص کرنا منع ہے البتہ جمعہ کے پہلے یا بعد ایک دن اور روزہ رکھے تو اب جمعہ کے دن رکھنے میں کوئی حرج نہیں
(صحیح مسلم شریف
ص 360 ج 1 )

Saturday, March 30, 2019

اذان بلال اور سورج کا نکلنا

اذان بلال اور سورج کا نکلنا
عوام الناس سے لے کر خواص تک ایک واقعہ بہت مشہور ہے کہ حضرت سیدنا بلال رضی اللہ تعالی عنہ کی زبان میں لکنت تھی جس کی وجہ سے آپ رضی اللہ تعالی عنہ اذان کے کلمات کو صحیح طور پر ادا نہیں کر پاتے تھے؛ ایک مرتبہ آپ کو اذان دینے سے روکا گیا اور جب آپ نے اذان نہیں دی تو سورج ہی نہیں نکلا!
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حضرت بلال کی "سین" اللہ تعالی کے نزدیک "شین" ہے-
اس واقعے کو کچھ مقررین بڑے شوق سے بیان کرتے ہیں اور کچھ لوگوں کو بھی ایسی مسالے دار روایات سننے میں بڑا مزا آتا ہے-
کئی معتبر علما نے اس روایت کا رد کیا ہے اور اسے موضوع و منگھڑت قرار دیا ہے لیکن پھر بھی کچھ مقررین اپنی عادت سے مجبور ہیں- مقررین کی پیشہ ورانہ مجبوری اُنھیں ایسی روایات چھوڑنے نہیں دیتی،
ع    ذرا سا جھوٹ ضروری ہے داستاں کے لیے
اس روایت کے متعلق علماے محققین کی آرا ذیل میں نقل کی جاتی ہیں:
(1) امام ابن کثیر (م774ھ) اس روایت کے بارے میں لکھتے ہیں کہ اس کی کوئی اصل نہیں ہے-
(البداية والنهاية، ج5، ص477)
(2) امام شیخ عبد الرحمن سخاوی (م904ھ) اس روایت کو نقل کرنے کے بعد برہان سفاقسی کے حوالے سے علامہ جمال الدین المزی کا قول نقل کرتے ہیں کہ یہ روایت عوام کی زبانوں پر تو مشہور ہے لیکن ہم نے کسی بھی کتاب میں اسے نہیں پایا-
(المقاصد الحسنة، ص190، ر221)
(3) امام سخاوی ایک اور مقام پر لکھتے ہیں کہ ابن کثیر نے کہا کہ اس کی کوئی اصل نہیں اور اسی طرح علامہ جمال الدین المزی کا قول گزر چکا-
(ایضاً، ص397، ر582، ملتقطاً)
(4) علامہ عبد الوہاب شعرانی (م973ھ) اس روایت کے بارے میں فرماتے ہیں کہ یہ عوام کی زبان پر تو مشہور ہے لیکن اصول میں ہم نے اس بارے میں کوئی تائید نہیں دیکھی-
(البدر المنیر فی غریب احادیث البشیر والنذیر، ص117، ر915 بہ حوالہ جمال بلال)
(5) علامہ شعرانی مزید لکھتے ہیں کہ ابن کثیر کہتے ہیں کہ اس کی کوئی اصل نہیں-
(ایضاً، ص186، ر1378)
(6) امام ملا علی قاری حنفی (م1014ھ) نے بھی اس روایت کو موضوع قرار دیا ہے-
(الاسرار المرفوعة فی الاخبار الموضوعة المعروف بالموضوعات الکبری، ص140 ،ر76)
(7) علامہ بدر الدین زرکشی (م794ھ) اس روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ حافظ جمال الدین المزی فرماتے ہیں کہ یہ روایت عوام کی زبان پر تو مشہور ہے لیکن اس بارے میں ہم نے امہات الکتب میں کچھ بھی نہیں دیکھا اور اس روایت کے بارے میں شیخ برہان الدین سفاقسی کا بھی یہی قول ہے-
(اللآلی المنثورۃ فی الاحادیث المشھورۃ، ص207، 208)
(8) علامہ ابن المبرد المقدسی (م909ھ) اس روایت کو لکھنے کے بعد علامہ جمال الدین المزی کا قول نقل کرتے ہیں کہ مستند کتب میں اس کا کوئی وجود نہیں-
(التخریج الصغیر والتحبیر الکبیر، ص109، ر554)
(9) علامہ اسماعیل بن محمد العجلونی (م1162ھ) اس روایت کو لکھنے کے بعد امام جلال الدین سیوطی کا قول نقل کرتے ہیں کہ امہات الکتب میں ایسا کچھ بھی وارد نہیں ہوا اور امام ملا علی قاری فرماتے ہیں کہ اس کی کوئی اصل نہیں اور علامہ جمال الدین المزی سے نقل کرتے ہوئے شیخ برہان سفاقسی فرماتے ہیں کہ عوام کی زبان پر تو ایسا مشہور ہے لیکن اصل کتب میں ایسا کچھ بھی وارد نہیں ہوا-
(کشف الخفاء و مزیل الالباس، ص260، ر695)
(10) علامہ عجلونی مزید لکھتے ہیں کہ ابن کثیر کہتے ہیں کہ اس کی کوئی اصل نہیں-
(ایضاً، ص530، ر1520)
(11 تا 15) اس روایت کا رد ان کتب میں بھی موجود ہے:
"تمیز الطیب من الخبیث"، "تذکرۃ الموضوعات للھندی"، "الدرر المنتثرۃ للسیوطی"، "الفوائد للکرمی"، "اسنی المطالب"-
(16) علامہ شریف الحق امجدی (م1421ھ) لکھتے ہیں کہ یہ واقعہ بعض کتابوں میں درج ہے لیکن تمام محدثین کا اس پر اتفاق ہے کہ یہ روایت موضوع، منگھڑت اور بالکلیہ جھوٹ ہے-
(فتاوی شارح بخاری، ج2 ،ص38)
(17) علامہ عبد المنان اعظمی (م1434ھ) لکھتے ہیں کہ حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ کو اذان سے معزول کرنے کا ذکر ہم کو نہیں ملا بلکہ عینی جلد پنجم، صفحہ نمبر 108 میں ہے کہ حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ رسول اللہ ﷺ کے لیے سفر اور حضر ہر دو حال میں اذان دیتے اور یہ رسول اللہ ﷺ اور حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ دونوں حضرات کی آخری زندگی تک مؤذن رہے-
(فتاوی بحر العلوم، ج1، ص109)
(18) مولانا غلام احمد رضا لکھتے ہیں کہ یہ واقعہ موضوع و منگھڑت ہے، حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے کہ حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ سے کلمات اذان صحیح (طور پر) ادا نہیں ہو پاتے تھے-
(ملتقطاً: فتاوی مرکز تربیت افتا، ج2، ص647)
ان دلائل کے بعد اب اس روایت کے موضوع و منگھڑت ہونے میں کوئی شک باقی نہیں.
کے,المصباحی

Friday, March 29, 2019

ضروری اِصْطِلاحات

* ضروری اِصْطِلاحات *
جب ہم علمی کتابیں پڑھتے ہیں تو اُن میں کچھ علامات نظرآتی ہیں ، جن کی تفصیل یہ ہے -
*1:* الخ ( اَ لَ خْ ) ⬅
کسی قول ، مصرعے یا جملے وغیرہ کا کچھ حصہ لکھنے کے بعد " الخ " لکھ دیا جاتا ہے ، جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ بات یہیں پر ختم نہیں ہوئی مزید آگے بھی ہے ، اِسے آخرتک دیکھیں -
مثلاً: مصطفیٰ جان رحمت۔۔۔۔۔الخ
*2:* ١٢ ⬅ بعض کتابوں کے حاشیے کے آخر میں " ١٢ " لکھا ہوتا ہے -
علم اعداد میں لفظِ " حَد " کے بارہ عدد ہیں ، اور حد کا معنیٰ ہے اختتام ؛ تو " ١٢ " کا مطلب یہ ہوا کہ یہاں پر حاشیے کی عبارت ختم ہوگئی ہے ، حاشیے کی یہی حد ہے -
*3:* منہ ( مِ نْ ہُ ) ⬅
بعض کتابوں کے حاشیے کے آخر میں " منہ " بھی لکھا ہوتا ہے اور یہ مصنف خود لکھتاہے ؛ جس کا مطلب ہوتا ہے کہ یہ حاشیہ کسی اور کا نہیں ، میرا ( کتاب لکھنے والے کا ) اپنا ہے -
*4:* ١٢منہ ⬅
بعض حواشی میں یہ دونوں ہوتے ہیں ، جن سے یہی مراد ہوتاہے کہ یہ حاشیہ مصنف کا ہے جو کہ یہاں تک ختم ہوگیاہے ( اس سے آگے جواضافہ ہوگا وہ محشی کا ہوگا مصنف کا نہیں ) -
*5:* ایضاً ( اَ یْ ضَ نْ ) ⬅
جب ایک ہی بات ، یا حوالے کو دُھرانا مقصودہوتا ہے ، یا ایک ہی چیز کے مختلف مطالب بیان کرنا ہوتے ہیں تو بار بار تفصیل لکھنے کے بجائے نیچے " ایضاً " لکھ دیا جاتاہے -
مثلاً:
☀️ بخاری شریف کے بیالیسویں صفحے سے دو حدیثیں بیان کرنی ہیں تو پہلی حدیث کے نیچے حوالہ لکھیں گے :
بخاری شریف ص 42 -
اس کے بعد والی حدیثِ پاک لکھ کر حوالہ لکھنے کے بجائے " ایضاً " لکھ دینا ہی کافی ہوگا ؛ اِس سے پڑھنے والا سمجھ جائے گا کہ اِس حدیث کا بھی وہی حوالہ ہے جواوپر والی حدیث کا ہے -
☀️ میرزا داغ دہلوی کہتے ہیں :
جوتم کو ہم سے نفرت ہےتوہم کوتم سے ایضاً ہے
جو تم نظریں بدلتے ہو تو ہم بھی دل بدلتے ہیں
یعنی تم کوہم سے نفرت ہے تو ہم کو بھی تم سے ایضاً ( یعنی نفرت ) ہی ہے -
☀️ " بات " ، ایک لفظ ہے جس کے مختلف معانی ہیں ، جنھیں ہم اس طرح بھی بیان کرسکتے ہیں :
بات: بہ معنیٰ قول - جیسے معروف کاشعرہے:
زلف رخ پہ جوچھٹی رات ہوئی یا نہ ہوئی
کیوں نہ کہتاتھا مری بات ہوئی یا نہ ہوئی
ایضاً : شہرت - جیسے سحر کہتاہے:
اپنی توہرطرح بسر اوقات ہوگئی
وہ بات کی کہ شہر میں اک بات ہوگئی
ایضاً: عادت - جیسے امیر کا شعر ہے:
بت میں نہ وفا کی بات پائی
بے عیب خدا کی ذات پائی
یہاں ہرجگہ لفظِ بات لکھ کر اس کا معنی لکھنے کے بجائے ایضاً لکھ دیا ہے جس کا مطلب ہے کہ یہ تمام معانی " بات "  کے ہیں -
*6:* ع ⬅
یہ مصرع کی علامت ہے ، علما و اُدَبا جب مصرع نقل کرتے ہیں تو " ع " لگاتے ہیں -
*7:*  ؎  ⬅ یہ شعر یا نظم کی علامت ہے ، اگر آپ اپنی تحریر میں صرف مصرع لکھنا چاہتے ہیں تو " ع " استعمال کریں ، اور اگر ایک یا زیادہ شعر لکھنا چاہتے ہیں تو یہ "   ؎ " علامت استعمال کریں -
اِنھیں گَڈمَڈ نہیں کرنا چاہیے ؛ یہ نہ ہو کہ شعر کی جگہ مصرع کی علامت اور مصرع کی جگہ شعر کی علامت درج کردیں -
راوالپنڈی کے ایک صاحب نے کتاب لکھی تھی جس میں دیگر غلطیوں کے ساتھ ان علامات کو بھی گڈمڈ کردیا تھا -
گجرات کے ایک مفتی صاحب نے دیگر غلطیوں کے ساتھ اس پر بھی اُن کا سخت تعقب کیا اور اِسے کم علمی وجہالت قرار دیا -
کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمارے ساتھ بھی یہ ماجرا پیش آجائے ، اس لیے " ع اور  ؎ " کا استعمال ذہن میں رکھیں.

*جاگو ووٹر جاگو اپنی قیمت پہچانو !*

*ایک نیتا ووٹ مانگنے کیلئے ایک بوڑھے آدمی کے پاس گیا اور انہے/ 1000 روپئے پکڑاتے ہوئے کہا. "بابا جی. اس بار ووٹ مجھے دیں! "*
*بابا جی نے کہا ' بیٹا مجھے پیسے نہیں چاہیئے. پر تمہیں ووٹ چاہیئے تو ایک گدھا خرید کے لا دو!*
*نیتا کو ووٹ چاہیئے تھا. وہ گدھا خریدنے نکلا ! مگر کہی بھی. /20000 سے کم قیمت کوئی گدھا نہیں ملا! تو واپس آکر بابا جی سے بولا ' مناسب قیمت پر کوئی گدھا نہیں ملا !*
*کم سے کم /20000 کا گدھا ہے*
*اس لیئے میں آپ کو گدھا تو نہیں دے سکتا پر /1000 دے سکتا ھوں !*
*بابا جی نے کہا. "بیٹا اور شرمندہ نا کرو ! "*
*"تمہاری نظر میں میری قیمت گدھے سے بھی کم ہے جب گدھا /20000 سے کم میں نہیں بکا میں تو ھوں  /1000 میں کیسے بک سکتا ھوں ؟؟؟؟؟؟*
*جاگو ووٹر جاگو اپنی قیمت پہچانو !*

ذہنی مریض تھا

ذہنی مریض تھا
مگر جانتا تھا کہ یہ مسلمانوں کی مسجد ہے،
ذہنی مریض تھا
مگر جانتا تھا کہ جدید اسلحہ کیسے استعمال کرنا ہے،
ذہنی مریض تھا
مگر جانتا تھا کہ کیمرہ سر پر لگا کر ویڈیو لائیو چلانی ہے،
ذہنی مریض تھا
مگر جانتا تھا کہ ایک دو کو نہیں بلکہ تین چار درجن مسلمانوں کو شہید کرنا ہے۔
ذہنی مریض تھا
مگر جانتا تھا کہ ابھی جمعے کا وقت ہے اور ابھی ہی مسجد میں جانا چاہیے۔۔۔۔۔
کب تک؟؟؟ آخر کب تک؟؟؟
صرف مسلمان ہی دہشت گردی کا نشانہ بنتے رہیں گے؟؟؟ وہاں نیوزی لینڈ میں نمازیوں کو مار کر، پوری دنیا کا رخ کرائسٹ چرچ کی طرف پھیر کر وہاں اسرائیل نے غزہ پر حملہ کردیا جس کی کسی کو خبر ہی نہیں۔۔۔۔
وہ سب کچھ کرکے بھی امن پسند اور مسلمان کچھ نہ کرکے بھی دہشت گرد

حافظ قرآن اور تراویح


 حافظ قرآن اور تراویح میں قرآن
فراٹے کے ساتھ.....
تیز دوڑتی اور پھسلتی زبان ،
شتابدی سے بھی تیز ،
راجدھانی سے بھی آگے ،
ہوائ جہاز کی رفتار کا مقابلہ کرنے والی زبان ،
کیا پڑھ رہی ہے پتہ نہیں ؟
مگر پڑھے جارہی ہے ،پڑھے جا رہی ہے
بہت غور سے سننے کے بعد یا کبھی رفتار کم ہو تو لگتا ہے کہ ہاں حافظ صاحب قرآنی آیات کی تلاوت فرمارہے ہیں۔
بہت حیرت ہوتی ہے  جب لوگوں کو قرآن جلد سننے کے بعد  فخریہ اسی موضوع پر بات کرتے ہوئے دیکھتا ہوں ،
جو نا تو قرآنی الفاظ کے معانی سے دلچسپی رکھتے ہیں اور ناہی مفاہیم آیات سے ان کے کوئ مطالب وابستہ ہوتے ہیں ۔
میرے ایک دوست ہیں جو بہت اچھے حافظ ہیں ، میں نے ان سے ایک دن پوچھا ، یار تم اچھے حافظ قرآن ہو تراویح کیوں نہیں سناتے ہو ؟
موصوف نے اس کے جواب میں جب راز سے پردہ اٹھایا تو میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں
۔میرے دوست نے بتایا کہ دیکھو آج کے زمانے میں ہمارے ملک میں جو تراویح رائج ہے اس میں ثواب کا تو سوال ہی نہیں ، الٹا قرآن کی لعنت سنانے والے کے نصیبے میں بھی آتی ہے اور سننے والے کے بھی ،
تم لوگ عالم ہو جانتے ہوگے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
*" بہت سے قرآن پڑھنے والے ایسے ہیں جن پر قرآن لعنت بھیجتا ہے"*
آج تم جتنے بھی تراویح میں قرآن سنانے والے حفاظ سے مل لو کسی کا مطمح نظر یہ نہیں ہوتا کہ ہم قرآن پڑھ کر ثواب حاصل کریں گے
        
           *۔الاماشاءاللہ*۔
اکثر تراویح میں ملنے والی رقوم کی لالچ میں تراویح کے لئے محنت کرتے ہیں ،
ہزار کوشش کے باوجود بھی مجھے اس بات کے تاریخی شواہد نہیں ملے کہ ہمارے ہندوستان میں الفاظ کو توڑ مروڑ کر برق رفتاری سے تراویح میں قرآن پڑھنے کی رسم کب اور کہاں سے شروع ہوئ ؟
اور علماءکرام اور مفتیان عظام نے اس بات کی طرف توجہ کیوں نہیں  دی کہ اتنی تیز رفتاری سے قرآن پڑھنے کے فوائدونقصانات کیا ہیں ہمارے مذہب مقدس میں اس نہج پر اس عظیم ترین کتاب کی تلاوت جائز بھی ہے کہ نہیں.....؟
خود قرآن جس فصاحت بلاغت کے بلند وبالا معیار کے ساتھ سب سے اونچے رتبے کے فصیح وبلیغ کی طرف سے تخلیقی کائنات کے ابلغ وافصح ذات گرامی وقار صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا  ، کیا ان سے ایک بھی روایت ایسی ملتی ہے کہ آقائے کریم علیہ الصلوہ والتسلیم نے آندھی طوفان کی طرح برق رفتاری سے قرآن پڑھا ہو یا اپنے کسی بھی جان نثار کو پڑھنے کی اجارت بھی دی ہو ۔
ہمیں تو کئی آیتیں ایسی ملتی ہیں جس میں آہستہ ، ٹھہر کراور اس کے اسرار ورموزکی طرف توجہ دے کر پڑھنے کی تاکید ملتی ہے ،
آقاء کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بظاہر یاد کرنے کے لئے قرآن کو جلدی جلدی پڑھنا چاہا تو اللہ تبارک وتعالی نے اس سے  بھی منع فرمادیا
*" ان علینا جمعہ وقرآنہ فاذا قرانہ فاتبع قرآنہ ثم ان علینا بیانہ "*
خود سوچئے جس پر قرآن نازل ہوا جب اسے بھی مصلحتا قرآن جلد جلد پڑھنے کی اجازت نہیں تو ایک عام شخص کو جسے مفہوم قرآن سے دور کا بھی واسطہ نہیں کیون کر قرآن کی توہیں کی اجازت دی جا سکتی ہے ؟
*" ولا تعجل بالقرآن من قبل ان یقضی الیک وحیہ "*
  آہستگی کے ساتھ ٹھہر کر پڑھنے کی تاکید کی
*" ورتل القرآن ترتیلا "* کہ قواعد و تجاوید کی رعایت کرتے ہوئے مکمل آہستگی کے ساتھ  رک رک کر تلاوت کی جائے
۔سورہ دخان کی آیت
*" وقال الرسول یا رب ان قومی اتخذوا ھذاالقرآن مھجورا "*
کےتحت  مفسرین فرماتے ہیں اس آیت کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ میری امت قرآن کے معانی میں  غوروفکر کرنا چھوڑ دے گی ۔
سوچئے جس برق رفتاری سے ہمارے ہندوستانی ریل حافظ اور ہوائ جہاز حافظ قرآن پڑھتے ہیں کیا قرآن کے الفاظ کے معانی سمجھنا ممکن ہیں ؟؟؟؟؟
جس طرز پر قرآن پڑھنے سے خود قرآن لعنت کرے،
پڑھنے اور سننے سے کیا فائدہ ؟؟
ایک مخصوص جماعت نے  بڑی چالاکی سے قوم مسلم میں یہ گمراہی پھیلا کر اس بدعت سیئہ کا سہرا بھی اپنے سر باندھا ہے ۔
  حضرت امام مالک رحمہ اللہ تعالی علیہ کا ایک واقعہ اس تعلق سے بڑا ہی سبق آموز ہے ، ان سے کسی نے شکایت کی کہ آپ کا فلاں شاگرد عشاء کے بعد کھڑا ہوتا ہے اور فجر سے پہلے نوافل میں پورا ایک قرآن پاک ختم کر لیتا ہے ،
امام صاحب بنفس نفیس اس شاگرد کے پاس تشریف لے گئے اور ان سے پوچھا کہ ایسا ایسا آپ کے متعلق سن رہا ہوں کیا صحیح ہے ؟
شاگرد نے اثبات میں جواب دیا آپ نے فرمایا آج رات جب آپ قرآن پڑھنے کھڑے ہوں تو تصور کیجیے گا کہ آپ قرآن مجھے سنا رہے ہو ،
اگلے دن امام مالک رحمہ اللہ علیہ نے پوچھا کہیے کیسا رہا ؟
شاگرد نے جواب دیا حضور آج تو صرف دس پارے ہی پڑھ سکا ،
آپ نے اگلا سبق دے دیا فرمایا آج کھڑے ہونا تو تصور کرنا کہ اپنے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن سنا رہا ہوں ،
اگلے دن امام مالک رحمہ اللہ علیہ نے پوچھا سنائے کیسا رہا ؟،
شاگرد نے جواب دیا حضور اس کیفیت کے ساتھ تو میں ایک پارہ بھی ایک رات میں نہیں پڑھ سکا ۔
آپ نے اس سے بھی آگے بڑھ کر اگلا سبق دے دیا ، آپ نے فرمان بردار شاگرد کو حکم کیا کہ آج پڑھنے کے لئے کھڑے ہونا تو یہ تصور کرکے پڑھنا کہ خود رب تبارک وتعالی کو قرآن سنا رہا ہوں ،
اب اگلے دن استاذ محترم کے حالات پوچھنے پر شاگرد نے جو جواب دیا وہ بڑا تعجب خیز ہے اس نے کہا حضور
" آج پوری رات اس تصور کے ساتھ سورہ فاتحہ کی تلاوت بھی نہیں کر سکا۔
ہمارے دین متین میں ہر شئی کا حق متعین ہے ،
قرآن کا حق کیا ہے ؟
یہ بات ذہن میں رہے کہ جس قدر کسی شئی کے حق کا درجہ کم ہوگا اسی درجہ ثواب بھی کم سے کم  ہوتا چلا جائے گا
۔ادنی درجا  میں قرآن کا حق یہ ہے کہ اسے ٹھہر ٹھہر کر، صاف صاف ، اطمنان سے ، خشوع وخضوع اور تجاوید قواعد کے ساتھ پڑھا جائے ۔
کیا رمضان کے مبارک مہینے میں ہمارے حفاظ قرآن کا ادنی حق بھی ادا کر رہے ہیں ؟؟
جن حفاظ کو ایک رات میں کم از کم پانچ  /5 پارہ پڑھنا ہوتا ہے کبھی ان سے پوچھئے ! خشوع خضوع ، تضرع ، انکساری اور قواعدوتجاوید کا گذر بھی ان کے دلوں پر ہوتا ہے ؟
یہ پانچ پارے بھی جب  نماز تراویح میں پڑھنا ہوں  توذہن ودماغ کی کیفیات کا کیا حال ہوتا ہے  وہی لوگ بتا سکتے ہیں جو قرآن کی لعنت کا طوق اپنے گلے میں لٹکانے کے شوقین ہیں  ۔
کیا آج کے زمانے میں منصب افتاء اور بلند وبالا علمی مسند پر قابض حضرات امام مالک رحمہ اللہ کی سنت پر عمل کر کے قوم میں رائج ہوچکی اس بدعت سیئہ  پر پابندی نہیں لگا سکتے ؟
کوشش کریں تو ضرور لگا سکتے ہیں ۔
سوچیئے.......... کہیں قوم کی تباہی اور بربادی کی ایک وجہ یہ بھی تو نہیں کہ اللہ کا مقدس کلام مہینے بھر مسلمانوں کی بڑی جماعت پر لعنت بھیجتا ہے ۔
فاعتبروا یااولی الابصار........

ترجیحات

ترجیحات
جس قوم کے فقراء اور غرباء
کےپاس رہنے کے لئے
مکانات نہ ہو..........اور وہاں
جلسہ اور جلوس میں
لاکھوں روپئے صرف ہوتے ہو
           "کیا وہ قوم
     ترقی کرسکتی ہے؟؟؟"
          *ــــــــــــــــــــــــــ*
جس قوم میں پڑوس کی بیٹی
کنواری بیٹھی ہو
اور بیواؤں اور یتیموں کے لئے
کوئی نظم نہ ہو.....اور
قوم کے دولتمند لوگ عمرہ پر
عمرہ کررہے ہوں
              کیا وہ قوم
       ترقی کر سکتی ہے؟؟؟
            *ـــــــــــــــــــــــ*
جس قوم کے غریب بیماروں
کے پاس علاج کا کوئی
بندوبست نہ ہو.......اور قوم
کے ڈاکٹر کی فیس
غیر قوم کے ڈاکٹروں سے
زیادہ ہوں
              کیا وہ قوم
       ترقی کر سکتی ہے؟؟؟
            *ـــــــــــــــــــــــ*
جس قوم کے ہونہار نوجوان
بےروزگاری کے شکار ہوں
اور قوم کے مالدار لوگ اپنے
محلّات سجانے
اور سنوارنے میں لگے ہوں
             کیا وہ قوم
       ترقی کر سکتی ہے؟؟؟
            *ــــــــــــــــــــــ*
جس قوم کے لوگ اپنے امام
اور مؤذن کا خون
چوس رہے ہوں............اور
مسجدیں سنگ مرمر سے
سجائی جارہی ہوں
             کیا وہ قوم
       ترقی کر سکتی ہے؟؟؟

بزدلی

بزدلی اس حد تک کہ ہم پٹنے اور مرنے کے لیے ہی پیدا ہوئے ہیں سمجھ سے بالاتر ہے،،،
جب کوئی زبردستی ہم پر آکر حملہ آور ہوجائے  اور وہاں غیر جانبدار قانونی مدد بھی نہ ہو  تب کیا آپ ایسے ہی مرتے اور پٹتے رہیں ؟؟
در اصل ایمان کمزور ہوچکا ہے ہماری بری عادتوں نے صحت و تندرستی کا جنازہ نکال دیا ہمت نام  کی چیز ھرن ہوگئ ورنہ اتہاس کے پنوں میں جو عزیمت و حوصلہ افزا داستانیں رقم ہیں وہ کذب پر مشتمل نہیں
جب سامنے والے کو شرافت کی کوئ زبان سمجھ میں نہیں آئے تو شرعی اعتبار سے کھڑے کھڑے پٹتے رہنے کا حکم ہے ؟؟
ظلم کے خلاف آپ کو منظم و مربوط ہوکر نکتہ ء امن پر متحد ہونا ہی پڑے گا ورنہ یہ خوف و مایوسی کے دبیز اندھیروں سے ملت کو نکال پانا ہتیلی پر سرسوں چمانے کے مترادف ہے ،،،
ہم نے اس سے بھیانک دور دیکھے ہیں وہ دور کم سنگین نہیں تھا کہ علامہ فضل حق خیرابادی علیہ الرحمۃ کو جزیرہ ء انڈمان منتقل کردیا گیا اور بالآخر تختہ ء دار پر لٹکا دیا گیا بے شمار آزادی کے متوالوں کی قربانی رنگ لائ اور غیر منقسم ہندوستان آزاد ہوا
آج پھر وقت آن پڑا ہے فرقہ پرستوں کے مظالم سے خود کو آزاد کرانے کا یہ جو اخلاق حسین سے سلسلہ شروع ہوا جو ہنوز جاری ہے یہ ماپ لنچنگ بد ترین دہشت گردی ہے اور اس سے بڑی دہشت گردی سیاسی پارٹیز کا اس طرح کی دل دہلادینے والی واردات کو ٹھنڈے بستے میں ڈال دینا ہے ،  دل خون کے آنسو روتا ہے یہ دیکھ کر کہ حالیہ گڑگاؤں میں جو رونگٹے کھڑے کر دینے والا واقعہ رونما ہوا ان کی مدد کے لیے کسی پیر فقیر کی طرف سے کسی ملی قیادت کی طرف سے کوئ معاشی مدد کے لیے آگے نہیں آیا آخر ہم اتنا بھی نہیں کر سکتے کہ اس متأثر پریوار سے ملاقات کرلیں اور کم از کم ان کی قانونی مدد کریں ،،،،
اگر بے حسی اور بے بسی کی یہی  رفتار رہی تو پھر سب اپنی اپنی باری کا انتظار کیجیے اور مرجائیے اور ختم ہوجائیے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ،،،
خون کے آنسو رونے کا مقام ہے کہ جن کے پاس وسائل ہیں وہ بنیادی امور کی طرف توجہ کرنے کے لیے مائل نہیں الا ماشاء اللہ اور جو کچھ کرنا چاہتے ہیں، مظلوموں کے حق کی قانونی لڑائ لڑنا چاہتے ہیں وہ  دل مسوس کر رہ جاتے ہیں کہ  وسائل سے محروم ہیں کہ کریں تو کیا کہیں تو کیا.۔۔۔۔۔
سب کو صرف اور صرف اپنے اپنے خیمے کا وزن بڑھانے کی فکر ہے " ماپ لنچنگ ، شریعت میں مداخلت " جیسے بنیادی معاملات کی طرف توجہ کرنے کی فرصت نہیں ،،
   ع قوت فکر و عمل پہلے فنا ہوتی ہے
     پھر کسی قوم کی شوکت پہ زوال آتا ہے
       توصیف رضا مصباحی سنبھلی

اعتدال

اہلِ سنت و جماعت* کی اعتدال و توسط کی روِش
اور *ناصبی* و *رافضی* کی تعریف
اعلی حضرت عظیم المرتبت امام احمد رضا خان قادری برکاتی مجدد و محدث بریلوی رحمة الله تعالى عليه فتاوی رضویہ شریف جلد 10 صفحہ 201 پر فیصلہ کُن بات ارشاد فرماتے ہیں،
چنانچہ 
"بالجملہ ہم *اہلِ حق* كے نزدیک حضرت امام بخاری کو حضور پُرنور امام اعظم سے وہی نسبت ہے جو *حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنه* کو *حضور پُرنور امیر المومنین مولی المسلمین سیدنا و مولانا علی المرتضی كرم الله تعالى وجهه الاسنی* سے
کہ
*فرقِ مراتب بے شمار اور حق بدست حیدر کرار،*
*مگر معاویہ بھی ہمارے سردار،*
*طعن اُن پر بھی کارِ فجّار،*
جو *معاویہ* کی حمایت میں عیاذاً بالله  *اسدُ الله* کے سبقت و اوّليت و عظَمت و اكمليت سے آنکھ پھیرے وہ *ناصبی یزیدی*، اور
جو *علی* کی محبت میں *معاویہ* کی صحابیت و نسبت بارگاہ رسالت (صلی اللہ علیه وسلم) بُهلادے وہ *شیعی زیدی*(ہے)،
یہی روشِ آداب بحمد الله تعالى ہم *اہلِ توسط و اعتدال* کو ہر جگہ ملحوظ رہتی ہے۔
(رضى الله تعالى عنهم أجمعين)
اس پوسٹ کو پڑھ کر دوسروں تک پہنچانے کے لیے زیادہ سے زیادہ شئیر کریں۔
شکریہ۔
جَزَاكُمُ اللهُ خَيراً كَثِيراً.
 علامہ یسین اختر مصباحی صاحب زید مجدہ العزیز

میڈیا

میڈیا
کس چیز کو ثابت کرنا چاہتا ہے ؟
شاگردوں نے استاد سے پوچها :
سفسطہ /مغالطہ سے کیا مراد هے؟
استاد نے کہا : اس کے لیے ایک مثال پیش کرتا ہوں. دو مرد میرے پاس آتے ہیں. ایک صاف ستهرا اور دوسرا گندا. میں ان دونوں کو مشورہ دیتا ہوں کہ وہ غسل کرکے پاک و صاف ہو جائیں. اب آپ بتائیں کہ ان میں سے کون غسل کرے گا ؟
شاگردوں نے کہا: گندا مرد.
استاد نے کہا: نہیں بلکہ صاف آدمی ایسا کرے گا کیونکہ اسے نہانے کی عادت ہے جبکہ گندے کو صفائی کی قدر و قیمت معلوم ہی نہیں.
اب بتائیں کہ کون نہائے گا ؟
بچوں نے کہا: صاف آدمی. استاد نے کہا: نہیں بلکہ گندا نہائے گا کیونکہ اسے صفائی کی ضرورت ہے.
اب بتائیں کہ کون نہائے گا ؟
سب نے کہا: گندا. استاد نے کہا : نہیں بلکہ دونوں نہائیں گے کیونکہ صاف آدمی کو نہانے کی عادت ہے جبکہ گندے کو نہانے کی ضرورت ہے.
اب بتائیں کہ کون نہائے گا ؟
سب نے کہا :دونوں. استاد نے کہا: نہیں کوئی نہیں. کیونکہ گندے کو نہانے کی عادت نہیں جبکہ صاف کو نہانے کی حاجت نہیں.
اب بتائیں کون نہائے گا ؟
بولے :کوئی نہیں.
پهر بولے کہ استاد !
آپ ہر بار الگ جواب دیتے ہیں اور ہر جواب درست معلوم ہوتا ہے. ہمیں درست بات کیسے معلوم ہو ؟
استاد نے کہا :
سفسطہ اور مغالطہ یہی تو ہے
بچو !
آج کل اہم یہ نہیں  کہ حقیقت کیا ہے ؟ اہم یہ ہے کہ میڈیا کس چیز کو ثابت کرنا چاہتا ہے،
منقول

پولیو کا علاج اور فتنہ فرنگ

*پولیو کا علاج اور فتنہ فرنگ*
افغانستان  عراق شام فلسطین کشمیر چیچنا برما ہندوستان کے بچوں کو سر عام زبح ہوتے دیکھ کر مکمل خاموش رہنے والے کرم فرماوں کو
پاکستانی بچوں سے ہمدردی ناصرف حیرت کا مقام ہے بلکہ قوم کے لیے  دعوت فکر بھی کہ ایک  ہی ہاتھ بچے کو قتل کر کے دوسرے بچے کا خیر خواہ بن کر آے
تو اس خیر خواہی کے پیچھے جو راز ہے سمجھنے کی ضرورت ہے 
*جانوروں کو خصی کرنے کے لیے ایک مشین استعمال کی جاتی ہے بلکل اسی طرح کسی قوم کو عقل نظریات کے اعتبار سے خصی کرنے کے لیے جو مشین آلہ استعمال ہورہا ہے وہ ترقی نام سے مشہور و معروف انگریزی افکار سے مزین فرنگی تعلیم ہے *
اختلاف  کیجیے لیکن دلائل کے ساتھ
*پولیو کے قطرے مرض کا علاج یا زریعہ مرض کرم فرمائوں سے چند سوالات*
 قطرے زبردستی پلانا نہ پلانے پر قانونی کاروائی کرنا کس ملکی یا اخلاقی قانون کے تحت ہے کیا ہر بندہ اپنے نفع نقصان کو نہیں جانتا سب بے وقوف ہیں ؟
 درجنوں بیماریاں بچوں میں موجود ہسپتالوں میں دهکے ہزاروں روپے کی مہنگی ترین دوائی لیکن کیا وجہ یہ قطرے بلکل فری‎‏ ؟؟؟
 کیا بچہ واقعی پولیو کے مرض میں مبتلا ہوگا اس بات کا علم کیسے ہوا کیا بچے کو کینسر ٹی بی خسرہ تپ دق یا اور کوئی بیماری نہیں لگ سکتی ؟؟
 بیماری لگنے سے پہلے بیماری کا علاج کیا جانا کیا یہ عقل اور اسلام کے خلاف نہیں ؟؟
 یہ قطرے اتنے ہی شفا والے ہیں تو 2 ہی کیوں پلائے جاتے ہیں 5 کیوں نہیں ؟؟چیلنج 5 قطرے نہیں پلاسکتى حكومت
 5 سال سے بڑے کو کیا پولیو نہیں ہو سکتا اگر ہو سکتا ہے تو اسے کیوں نہیں پلائے جاتے ؟؟
 *دعوت فکر و خیر خواہی* 
ان قطروں سے کیا ہوتا ہےمردوں اور عورتوں کو ناکارہ کرنا کہ نئی نسل پیدا نہ ہو سکے پوری دنیا پر کافر کی حکومت ہو الله رب العزت نے یہود نصاری کی دشمنی واضح کر دی ہے پهر جو چیز وہ مفت میں دیں اس سے فائدہ ہونا نا ممکن ہے.پاکستان میں آج تک یہ قطرے ٹیسٹ نہیں کئے گئے؟
بہترین انسان وہ ہوتا ہے جو کسی کے کام آئے
اسلام کی بنیادی چیز کیا ہےنبی پاک صلی الله علیہ وآله نے فرمایا جو چیز اپنے لئے پسند کرو دوسرے کیلئے بهی وہی پسند کرو.
اچهی بات پهیلانا صدقہ ہے تاکہ کوئی دوست نقصان سے بچ جائے
نوٹ: *پرفتن دور میں ایمان ، عزت ، جان   کی خیر خواہی کا پیغام دینے والے ہر گز ہر گز دشمن نہیں ہوسکتے *

عرس

ایک عرس ایسا بھی
کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ جہاں لاکھوں کا مجمع ہو، ہزاروں دکانیں سجی ہوں ،خرید و فروخت ہو رہی ہو، ہوٹلوں میں کھان پان چل رہا ہو، اور اچانک مائک سے اعلان کرنے والے چند افراد گھوم پھر کر اعلان کرنے لگیں کہ "عرس عزیزی کا پیغام، نماز با جماعت کا اہتمام" اور پھر ساری دکانوں پر پردے ڈال دئیے جائیں، ہوٹل خالی ہوجائیں، ہاسٹل کے کمروں کے دروازے بند کردئیے جائیں، لوگوں کا گھومنا پھرنا موقوف ہوجائے اور لوگ جوق در جوق وضو خانوں اور مسجد کا رخ کرنے لگیں
جی ہاں! ایسا صرف عرس عزیزی میں ہوتا ہے جسے یقین نہ ہو وہ ایک بار آ کر دیکھ لے
یہ عرس عزیزی کی ہی خاصیت ہے کہ ہندوستان گیر پیمانے پر دوسرا سب سے بڑا مذہبی کتابی میلہ اسی عرس میں لگتا ہے
آپ کو جان کر حیرت ہوگی کہ اس عرس مبارک میں لاکھوں کی بھیڑ ہوتی ہے اور بلا تفریق مسلک و مذہب ہوتی ہے مگر ان افراد میں صرف اور صرف مرد ہوتے ہیں عورتوں کا تصور تک نہیں
حضور حافظ ملت جلالۃ العلم ابوالفیض شاہ عبدالعزیز محدث مرادابادی کے مزار مبارک پر نہ چادروں کا انبار ہوتا ہے نہ قوالی مع مزامیر ہوتی ہے
عرس کی تقریبات میں تلاوت قرآن، فاتحہ خوانی، ذکر و اذکار اور محافل و مجالس کا پاکیزہ ماحول ہوتا ہے
اس عرس کی ایک خاصیت اور بھی ہے کہ جہاں لاکھوں کا مجمع ہوتا ہے ان میں اکثریت علما، فضلا اور مشائخ کی ہوتی ہے
اور بھی بہت سے خصوصیات و تفردات ہیں ایک بار شرکت فرما کر بہ چشم خود ملاحظہ کریں اور حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ کے فیوض و برکات سے مالا مال ہوں.

مسلمان اور دہشت گردی

 مسلمان اور دہشت گردی
قارئین کرام !
مسلمانوں کے تشخص کو بگاڑنے ، انکو بدنام کرنے اور یہ ثابت کرنے کیلئے کہ دنیا میں جتنی دہشت گردی ہوتی رہی ہے یا ہو رہی ہے اس کے ذمہ دار مسلمان ہی ہیں، مغربی ذرائع ابلاغ یہ کہتے ہیں کہ "All Muslims are not terrorists but all terrorists are muslims"یعنی سارے مسلمان تو دہشت گرد نہیں ہیں لیکن سارے دہشت گرد ضرور مسلمان ہیں! اس سے بڑا کوئی اور جھوٹ نہیں ہو سکتا ہے کیونکہ تاریخ پڑھنے والے سبھی  یہ جانتے ہیں کہ دہشت گردی مسلمانوں کا شیوہ کبھی بھی نہیں رہا ہے اور  ہمارا مذہب تو امن اور بھائی چارے کا درس دیتا ہے اور جو لوگ  اپنے آپ کو مسلمان کہہ کر دہشت گرد بنے ہوئے  ہیں وہ تو بھیڑ کی کھال میں بھیڑیے ہیں ان کے پیچھے مسلم دشمن طاقتیں ہیں جو ان کو لالچ دے کر یا  کسی طریقے سے اپنے جال میں پھنسا کر اپنے مطلب کے لیے استعمال کر رہی ہیں دراصل بات یہ ہے کہ دہشت گردوں کاکوئی مذہب نہیں ہوتا پھر بھی تاریخ اس چیز کی گواہ ہے کہ دنیا کے زیادہ تر دہشت گردی کے واقعات میں غیر مسلم ہی ملوث رہے ہیں !
قارئین کرام !
انیسویں صدی عیسوی میں شاید ہی کوئی ایسی دہشت گردی کی واردات ہوئی ہو جس میں کوئی مسلمان ملوث تھا لیکن اگر مغرب 1857 کی جنگ آزادی کو بھی دہشت گردی کہنا چاہتا ہے تو یہ  اگر دہشت گردی ہے توپھراہل امریکہ نے بھی خود کئی سو سال تک کی اور پھر ان کو آزادی نصیب ہوئی۔ حقیقت یہ ہے کہ آزادی کی جنگیں جوشمالی امریکہ سے لیکر جنوبی افریقہ تک ہر قوم نے لڑیں یا جو فلسطین ، افغانستان اور عراق میں اب لڑی جا رہی ہیں ، دہشت گردی نہیں کہی جا سکتیں  اور ہم آپ کی جانکاری و  اطلاع کے لیے  تاریخ سے چند دہشت گردی کی وارداتوں کا حوالہ دینا چاہتے ہیں  جس میں سارے غیر مسلم ہی ملوث تھے۔
٭1881میں روس کے سر الیگزینڈر دوئم کو قتل کرنیوالا (Ignus) ایک عیسائی دہشتگرد تنظیم کا رکن تھا!
٭1886 میں امریکہ میں شکاگو کے شہر میں مزدوروں کے جلسے پر گرنیڈ پھینکے گئے جس میں بارہ مزدور اور ایک پولیس والا ہلاک ہوئے اس واردات میں کوئی مسلمان ملوث نہ تھا!
٭6 ؍ستمبر 1901کو امریکی صدر ولیم کو ایک عیسائی نے قتل کر ڈالا۔اسی طرح امریکی صدر کنیڈی کا قاتل اور صدر ریگن کو گولی مارنے والے دونوں غیر مسلم تھے!
٭یکم اکتوبر 1910 میں لاس اینجلس ٹائمز اخبار کے دفتر پر حملہ ہوا جس میں 21 لوگ لقمہ اجل بن گئے اس واردات کی ذمہ داری جیمز اور جوزف نے قبول کی جوظاہر ہے مسلمان نہیں بلکہ عیسائی تھے!
٭28 جون 1914 کو بوسنیا کے ایک سرب غیر مسلم نے آسٹریا کے ڈیوک کو قتل کر ڈالا اور دہشت گردی کا یہی واقعہ پہلی جنگ عظیم کا پیش خیمہ یا فوری وجہ بن گیا اور پھر لاکھوں لوگ اس جنگ کی نظر ہو گئے اس قتل و غارت میں کوئی مسلمان فرد یا مسلمان ریاست ملوث نہ تھی!
٭16 اکتوبر 1925کو بلگیریا میں ایک چرچ پر غیر مسلم کمیونسٹ پارٹی نے حملہ کیا جس میں 105 لوگ مر گئے۔
٭9 اکتوبر 1934کو ایک غیر مسلم گن مین Lada نے یوگوسلاویہ کے بادشاہ الیگزینڈر کو قتل کر دیا
٭1968 میں گوئٹے مالا کے سفیر کو ایک عیسائی نے قتل کیا۔
٭1969 میں جاپان کے ایک سفیر کو کچھ لوگوں نے اغوا کر لیاجو مسلمان نہیں تھے
٭1969 میں برازیل کے سفیر کو اغوا کر کے قتل کر دیا گیا قاتل غیر مسلم تھا!
٭1995 میں Oklahoma شہر میں بارود سے بھرا ہوا ٹرک ایک عمارت سے ٹکرادیا گیا اور اوکلاہاما کی اس دہشت گردی سے 166لوگ مر گئے۔ یہ واردات بھی دو عیسائیوں Timmothy اور Terry نے کی ۔
٭1941 سے 1948 تک کے تقریباً آٹھ سالوں میں دہشت گردی کی 259 وارداتیں ہوئیں جن میں یہودی تنظیم "Ignon" ملوث تھی!
٭22جولائی 1946ء کوKing Davidہوٹل پر حملہ ہوا جس میں 91 لوگ مارے گئے یہ انگریزوں پر حملہ تھا جو اطلاعات کےمطابق اسرائیل کے بعد میں بننے والے وزیر اعظم بیگن نے کروایا تھا جس کو بعد میں نوبل پرائز بھی ملا اور یہ بھی واضح رہے کہ 1945سے پہلے دنیاکے نقشے پر اسرائیل کا وجود نہ تھا  اور دوسری جنگ عظیم میں جب عیسائی ہٹلر نے یہودیوں کو چن چن کر مارا اور ان کو گیس چیمبر میں جلانے والی انسانیت سوز کارروائی کی جس کو مسلمان بھی دہشتگردی اور غیر انسانی فعل کہتے ہیں تو یہودی یورپ سے بھاگے اور فلسطین پر قابض ہو گئے اور اب وہ نہتے فلسطینیوں پر ظلم کرتے ہیں جس کو ریاستی دہشت گردی نہ کہا جائے تو اور کیا کہا جائے؟
٭1968 سے 1982 تک جرمنی کے "Butter Gang" نے بہت سارے لوگ قتل کئے
٭جاپان کی بدھ مذہب کو ماننے والی فوج نے بہت سارے لوگ زیر زمین ریلوے اسٹیشنوں پر گیس سے مار دیئے اس سے 5000 مسافر متاثر ہوئے
٭آئیر لینڈ کے گوریلوں نے تقریباً ایک سو سال سے زیادہ عرصے تک برطانیہ کی اینٹ سے اینٹ بجائے رکھی اور بہت سے دھماکے کر کے لوگ مارے ان کو کسی نے بھی عیسائی دہشت گرد نہیں کہا جیسے آج مسلمان دہشت گرد کہنے کا رواج پڑ چکا ہے 2001 میں IRA نے لندن میں BBC کا دفتر بم سے اڑا دیا
٭افریقہ کی ایک بدنام زمانہ دہشت گرد عیسائی تنظیم ’’لارڈ آف سالویشن آرمی‘‘ نے بہت ساری وارداتیں کیں
٭سری لنکا کے تامل گوریلوں نے  سری لنکا میں بہت سارے خودکش حملے کیے یہ سارے دہشت گرد ہندو ہی تھے۔
٭ 5 جون 1984 کو ہندوؤں نے سکھوں کے گولڈن ٹمپل پر حملہ کیا جس میں 100 سکھ مارے گئے
٭ ہندوستانی وزیر اعظم اندرا گاندھی کو ایک غیر مسلم قتل کر دیا یہ دونوں دہشت گردی کی وارداتیں تھیں ایک ملکی اور ایک انفرادی  جس میں کوئی مسلمان  ملوث نہ تھا!
٭امریکہ کا سب سے پہلا طیارہ ایک غیر مسلم نے ہی اغوا کیا تھا جس کا تعلق کیوبا سے تھا۔
٭شمال مشرقی ہندوستان میں عیسائی دہشت گرد تنظیم ATTF قتل و غارت کرتی ہے اسکے علاوہ نیشنل لبریشن فرنٹ تری پورہ (NLFT)نے سینکڑوں ہندو مارے ہیں۔ جسکی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں
٭آسام کی دہشت گرد تنظیم ULFA نے 1999 سے لیکر 2006تک 749 دہشت گردی کی وارداتیں کی ہیں یہ تنظیم زیادہ تر مسلمانوں کو ہی قتل کرتی ہے۔
٭ہندوستان کے 600 اضلاع میں سے 150 کے اندر Maoists سرگرم عمل ہیں جیسا کہ ہندوستان  کے سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ ملک کی سلامتی کو سب سے بڑ خطرہ انہی (غیر مسلم ) دہشت گرد تنظیموں سے ہے
قارئین کرام!
مذکورہ بالا سارے حقائق تو ایک جھلکیاں ہیں ورنہ ان کے علاوہ بہت سارے حقائق ہیں جن کے لیے کافی وقت اور صفحات درکار ہیں اگر ان  کو سامنے رکھا جائے تو یہ نتیجہ اخذ کرنے میں دیر ہی نہیں لگے گی  کہ دہشت گردی پوری دنیا میں رہی ہے اب بھی ہے اور آئندہ بھی ہوتی رہے گی اور اس میں ملوث ہر طبقہ فکر کے لوگ ہیں اور رہیں گے۔ جہاں تک اسلام کا تعلق ہے یہ تو ایک عظیم مذہب ہے جو کہتا ہے کہ کسی بھی انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے کیلئے اگر بین الاقوامی ادارے اور بڑی طاقتیں دلچسپی رکھتی ہیں تو ان کو دنیا کے اندر سے ناانصافیوں کو ختم کرنا ہو گا۔اب مذب اسلام پر گفتگو کرتے ہیں تو آپ کو بتاتے ہوئے چلوں کہ اسلام لفظ سلام سے نکلا ہے جسکا مطلب ہے" امن و سلامتی اور شانتی "اور چند بھٹکے ہوئے لوگوں کے ہاتھوں خودکش دھماکوں سے قیمتی جانوں کا ضیاع تو بلا شبہ ایک بد ترین دہشت گردی ہے لیکن نیشنل اوف انٹر نیشنل سطح پر بین الاقوامی قوانین کی پرواہ کیے بغیر لاکھوں لوگوں کا قتل عام تو درندگی کے زمرے میں آئیگا۔
چند مثالیں پیش خدمت ہیں :
٭سٹالن نے 15 لاکھ لوگ مارے
٭ماؤزے تنگ نے تقریباً 20 لاکھ قتل کیے
٭اٹلی کے مسولینی کے ہاتھوں چار لاکھ لوگ تہہ تیغ ہوئے۔
٭بادشاہ آشوک اور اس کے جنگجوؤں نے 40 ہزار مسلمان قتل کیے۔
٭جارج بش نے عراق میں تقریباً 5 لاکھ بچے ، عورتیں اور بوڑھے شہید کیے
ان حقائق کے پیش نظر دہشتگردی کو صرف مسلمانوں سے منسلک کرنیوالے اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں!  دکھ کی بات یہ ہے کہ اس وقت  مسلم دنیا کی کوئی بھی قیادت  بین الاقوامی سطح پر مسلمانوں کا دفاع کرنیوالی نہیں ہے بلکہ اکثریت اسلام دشمن طاقتوں کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں اور دوسری طرف یہودی ،عیسائی ،ہندو وغیرہ کوئی بھی غیر مسلم دہشت گری پھیلائے اس کو کوئی بھی دہشت گرد کہنے والا نہیں ہے !
✍محمد عباس الازہری000

Featured Post

*زحمت، رحمت اور فطرت* حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی جس کی بھلائی چاہتا ہے اس...