Islamic Culture is a platform of interpersonal intelligence. Valuable articles, scientific research and valuable words for great researchers, multilingual writers and thinkers. A collection of articles on humanity and socialism, and how Islam leads towards peace and satisfaction.
Thursday, August 22, 2019
زندگی کو کامیا ب کیسے بنائیں؟
عورتیں بلاوجہ کیوں روتی ہیں؟
ﻣﺎﮞ ﻧﮯ ﻣﺴﮑﺮﺍ ﮐﺮ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ : ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﻋﻮﺭﺕ ﮨﻮﮞ۔
ﻟﮍﮐﺎ : ﻣﺠﮭﮯ ﺳﻤﺠﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺋﯽ ﺁﭖ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﯽ۔
ﻣﺎﮞ ﻧﮯ ﺑﯿﭩﮯ ﮐﻮ ﮔﻠﮯ ﻟﮕﺎﯾﺎ ﺍﻭﺭ
ﮐﮩﺎ : ﺗﻢ ﺷﺎﯾﺪ ﮐﺒﮭﯽ ﺳﻤﺠﮫ ﺑﮭﯽ ﻧﮧ ﭘﺎﺅ ﻣﯿﺮﮮ ﻟﻌﻞ۔
ﻟﮍﮐﺎ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﺑﺎ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﭼﻼ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻧﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ : ﺍﺑﺎ ﺟﺎﻥ ! ﺍﻣﯽ ﺑﻐﯿﺮ ﻭﺟﮧ ﮐﮯ ﮐﯿﻮﮞ ﺭﻭﺗﯽ ﮨﯿﮟ؟
ﺑﺎﭖ : ﺑﯿﭩﺎ ﺗﻤﺎﻡ ﻋﻮﺭﺗﯿﮟ ﺑﻐﯿﺮ ﻭﺟﮧ ﮐﮯ ﺭﻭ ﻟﯿﺘﯽ ﮨﯿﮟ۔
ﯾﻮﮞ ﻟﮍﮐﮯ ﮐﻮ ﺍﺳﻮﻗﺖ ﮐﻮﺋﯽ ﻭﺍﺿﺢ ﺟﻮﺍﺏ ﻧﮧ ﻣﻞ ﺳﮑﺎ۔
۔
ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﮐﻮ ﮐﺌﯽ ﺳﺎﻝ ﮔﺰﺭ ﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺍﺑﮭﯽ ﺑﮭﯽ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﻐﯿﺮ ﻭﺟﮧ ﮐﮯ ﺭﻭﻧﮯ ﮐﻮ ﻧﮧ ﺳﻤﺠﮫ ﭘﺎﯾﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺍﯾﮏ ﺩﺍﻧﺎ ﺑﺰﺭﮒ ﮐﺎ ﭘﺘﮧ ﻟﮕﺎ۔ ﻭﮦ ﺍﻥ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﺳﮯ ﯾﮩﯽ ﺳﻮﺍﻝ ﭘﻮﭼﮭﺎ۔ ﺍﻥ ﺑﺰﺭﮒِ ﺩﺍﻧﺎ ﻧﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ :
ﺑﯿﭩﺎ ﺟﺐ ﺍﻟﻠﮧ ﻧﮯ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﻮ ﺑﻨﺎﯾﺎ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﻮ ﻣﻀﺒﻮﻁ ﮐﻨﺪﮬﻮﮞ ﺳﮯ ﻧﻮﺍﺯﺍ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ ﺑﻮﺟﮫ ﺑﺮﺩﺍﺷﺖ ﮐﺮ ﺳﮑﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﻮ ﻧﺮﻡ , ﭘﯿﺎﺭ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺑﺎﺯﺅﻭﮞ ﺳﮯ ﻧﻮﺍﺯﺍ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺍﻥ ﺳﮯ ﺍﺳﺘﺮﺍﺣﺖ ﺩﮮ ﺳﮑﮯ۔
ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮑﻮ ﭘﻨﮩﺎﮞ ﻗﻮﺕ ﺳﮯ ﻧﻮﺍﺯﺍ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﯽ ﮐﻮﮐﮫ ﮐﺎ ﺑﻮﺟﮫ ﺑﺮﺩﺍﺷﺖ ﮐﺮ ﺳﮑﮯ ﺍﻭﺭ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﻮ ﺟﻨﻢ ﺳﮑﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﺒﮭﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺩﮬﺘﮑﺎﺭﮮ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﻏﻢ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﺳﮩﺎﺭ ﺳﮑﮯ۔
ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺍﺱ ﮐﻮ ﻭﮦ ﺧﺎﺹ ﻗﻮﺕ ﺑﮭﯽ ﻋﻄﺎ ﮐﯽ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﺧﺎﻧﺪﺍﻥ ﮐﮯ ﻏﻤﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﭘﺮﯾﺸﺎﻧﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﺑﺮﺩﺍﺷﺖ ﮐﺮ ﺳﮑﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﺎ ﺧﯿﺎﻝ ﺭﮐﮫ ﺳﮑﮯ۔
ﺍﻭﺭ ﻧﮩﺎﯾﺖ ﺳﺨﺖ ﺣﺎﻻﺕ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺑﻐﯿﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﺷﮑﻮﮦ ﺯﺑﺎﻥ ﭘﮧ ﻻﺋﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻗﺪﻣﻮﮞ ﭘﮧ ﻣﻀﺒﻮﻃﯽ ﺳﮯ ﻗﺎﺋﻢ ﺭﮦ ﺳﮑﮯ۔
ﺍﻭﺭ ﺍﻟﻠﮧ ﻧﮯ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﻮ ﻧﺎ ﺧﺘﻢ ﮨﻮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﭘﯿﺎﺭ ﺍﻭﺭ ﻣﻌﺎﻑ ﮐﺮ ﺩﯾﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺩﻝ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﻧﻮﺍﺯﺍ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺍﻭﻻﺩ ﮐﺘﻨﯽ ﮨﯽ ﮔﺴﺘﺎﺥ ﺍﻭﺭ ﻧﺎﻓﺮﻣﺎﻥ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮧ ﮨﻮ ﻭﮦ ﭘﻠﮏ ﺟﮭﭙﮑﺘﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﺍﺫﯾﺖ ﺩﯾﻨﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﺍﻭﻻﺩ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﻣﻌﺎﻑ ﮐﺮ ﺳﮑﮯ۔
ﺍﻭﺭ ﺁﺧﺮ ﻣﯿﮟ , ﺍﻟﻠﮧ ﻧﮯ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﻮ ﺁﻧﺴﻮ ﺑﮭﯽ ﻋﻄﺎ ﮐﺮ ﺩﺋﯿﮯ ﮐﮧ ﺟﺐ ﮐﺒﮭﯽ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﯽ ﺗﮑﺎﻟﯿﻒ ﺍﻭﺭ ﻣﺸﮑﻼﺕ ﺣﺪ ﺳﮯ ﺑﮍﮪ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﺗﻮ ﺍﻥ ﮐﺎ ﺑﻮﺟﮫ ﮐﻢ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﭼﻨﺪ ﺁﻧﺴﻮ ﺑﮩﺎ ﺳﮑﮯ , ﺍﭘﻨﮯ ﮐﺮﺏ ﮐﻮ ﮐﻢ ﮐﺮ ﺳﮑﮯ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﻧﺌﮯ ﺳﺮﮮ ﺳﮯ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﮯ ﻏﻤﻮﮞ ﮐﺎ ﺳﺎﻣﻨﺎ ﮐﺮ ﺳﮑﮯ۔ ﯾﮩﯽ ﺍﺳﮑﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﺎ ﻭﺍﺣﺪ ﮐﻤﺰﻭﺭ ﻧﮑﺘﮧ ﮨﮯ۔
ﺍﺳﻠﺌﮯ ﮨﻤﯿﮟ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﮯ ﺍﻥ ﺁﻧﺴﻮﺅﮞ ﮐﻮ ﻋﺰﺕ ﺩﯾﻨﯽ ﭼﺎﮨﺌﯿﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﺎ ﻣﻀﺤﮑﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﮌﺍﻧﺎ ﭼﺎﮨﺌﯿﮯ ﭼﺎﮨﮯ ﻭﮦ ﺑﻐﯿﺮ ﮐﺴﯽ ﻭﺟﮧ ﮐﮯ ﮨﯽ ﺁﻧﺴﻮ ﺑﮩﺎﺋﮯ۔
ﺑﯿﭩﺎ ! ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﺧﻮﺭﺍﮎ ﮐﯽ ﻧﺎﻟﯽ ﺍﺳﯽ ﻟﻤﺤﮯ ﮐﺎﭦ ﺩﯼ ﮔﺌﯽ ﺗﮭﯽ ﺟﺲ ﻟﻤﺤﮯ ﺗﻢ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﻗﺪﻡ ﺭﮐﮭﺎ ﻣﮕﺮ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻧﺸﺎﻥ ﻧﺎﻑ ﮐﯽ ﺻﻮﺭﺕ ﺁﺝ ﺑﮭﯽ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺟﺴﻢ ﭘﮧ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﮯ ﺗﺎ ﮐﮧ ﺗﻢ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﺍﺱ ﻋﻈﯿﻢ ﮨﺴﺘﯽ ﮐﻮ , ﺟﻮ ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﻋﻮﺭﺕ ﮨﯽ ﮨﮯ , ﯾﺎﺩ ﺭﮐﮭﻮ ﺟﺲ ﻧﮯ ﻧﻮ ﻣﺎﮦ ﺗﮏ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﮐﻮﮐﮫ ﻣﯿﮟ ﺳﯿﻨﺖ ﺳﯿﻨﺖ ﮐﺮ ﺭﮐﮭﺎ۔
۔
ﯾﻮﮞ ﺍﺱ ﻟﮍﮐﮯ ﮐﯽ ﺗﻼﺵ ﺧﺘﻢ ﮨﻮﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﺳﻮﺍﻝ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﻣﻞ ﮔﯿﺎ۔ ﺍﻟﻠﮧ ﮨﻤﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺍﮨﻞ ﻭ ﻋﯿﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﺧﻮﺍﺗﯿﻦ ﮐﯽ ﻋﺰﺕ ﻭ ﺗﮑﺮﯾﻢ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﺎ ﺣﻖ ﺍﺩﺍ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﺗﻮﻓﯿﻖ ﻧﺼﯿﺐ ﻓﺮﻣﺎﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﯼ ﻭﺍﻟﺪﮦ ﺍﻭﺭ ﺑﻘﯿﮧ ﺗﻤﺎﻡ ﻣﺎﺅﮞ ﮐﯽ ﻟﻐﺰﺷﯿﮟ ﻣﻌﺎﻑ ﻓﺮﻣﺎﺋﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﻮ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﮐﯽ ﺧﻮﺷﯿﺎﮞ ﻧﺼﯿﺐ ﻓﺮﻣﺎﺋﯿﮟ۔آمین.
Wednesday, August 21, 2019
राजा बनो मौत के मुंह में चले जाओ
किसी मुल्क़ में एक क़ानून था कि वो एक साल बाद अपना बादशाह बदल लेते।
ایک ملک کا حکمران بنانے کا انوکھا طریقہ
ایک ملک کا حکمران چن نے کا بالکل انوکھا طریقہ تھا،وہ سال کے ختم ہوتے ہی ایک نئے بادشاہ کو اس شرط پر تخت نشین کرتے کہ سال پورا ہوتے ہی اسے ایک جزیرے میں نظر بند کردیا جائے گا۔یہ جزیرہ کوئی غیر معمولی جزیرہ نہ تھا،یہاں ہر طرح کے درندے اور خونخوار جانور پائے جاتے تھے،مانو کہ وہ کسی شکاری کا بے صبری سے انتظار کر رہے ہوں۔جب کوئی انسان اس سن سان جزیرے میں داخل ہوتا وہ کسی نہ کسی درندے کی خوراک بن جاتا۔
ہر طرف مایوسی کا پہرہ تھا،اور لوگ یہ خیال کر رہے تھے کہ یہ بادشاہ اتنا سادہ اور رعایہ پرور ہے، وہ اب ہم سے دور ہو رہا ہے، یہ سوچ کر لوگوں پر غم کے بادل گہرے ہو رہے تھے۔ہر کوئی دل ہی دل میں یہ دعائیں کر رہا تھا کہ کسی قدر یہ بادشاہ ہمیں چھوڑ کر نہ جائے۔
بلکہ ایک محسن کی جدائی کا آخری دن!
لوگ بھاری دل سے جدائی کے پل کا انتظار کر رہے ہیں!
اچانک بادشاہ ان کے سامنے رونما ہوتا ہے اور لوگوں سے ہنس مکھ چہرے اور خوش و خرم لہجے میں ملتا ہے،لوگ دوسرے بادشاہوں کے برخلاف اس بادشاہ کو خوش دیکھ کر سکتے میں چلے جاتے ہیں............ ہر ایک اپنی طرف سے اس مسکراتے چہرے کی تعبیر شروع کردیتا ہے... کوئی کہتا ہے کہ زندگی میں سادگی سے جینے والے موت سے نہیں ڈرتے...تو کوئی کہتا ہے کہ یہ اللہ والے ہیں انہیں دنیا کا کوئی غم نہیں... غرض کہ ہر کوئی خود کو سمجھانے کی کوشش کر رہا ہے لیکن کسی کو حقیقت کا علم نہ تھا، یہاں تک کہ کسی نے ہمت جٹائی اور سوال کر ہی ڈالا کہ بادشاہ سلامت دوسرے بادشاہوں کے برخلاف آپ پر جدائی کے کوئی آثار کیوں نہیں؟
ان بادشاہوں کو وہاں جانے سے ڈر اس لیے لگتا تھا کہ وہ اس مختصر زندگی میں اس قدر مست ہوگئے تھے کہ انہیں کل کی کوئی خبر ہی نہیں تھی اور مجھے کوئی شرمندگی اس لیے نہیں کہ ہم نے سب کچھ کل اور وہاں کے لیے ہی کیا ہے.. ہم نے ایک سال کی اس چھوٹی سی لذت کو بھلا کر اس کل کی تیاری میں خود کو لگادیا تھا جہاں مجھے پوری زندگی رہنی ہے اور آج میں پوری تیاری کے ساتھ وہاں جا رہا ہوں، اب ہمیں وہاں جانے میں کوئی خطرہ نہیں ہے ۔
سنو اب وہ ویران اور کال کوٹھری نما جزیرہ خوبصورت جنت کی شکل اختیا کر چکا ہے۔
ازقلم : محمد نورالدین ازہری
ہندی میں پڑھنے کے لیے کلک کریں
کیا ہوگا اگر مرنے کے بعد پتہ چلے کہ جنت و جہنم کا کوئی وجود نہیں؟
اکابر پرستی کا جنون اور مسلم معاشرہ
3-ان عبارتوں کو کتابوں سے نکالنا یا ان کتابوں کا جلانا بھی مسئلے کا حل نہیں ؛کیوں کہ اس کے بعد بھی مناظرین کا یہ سوال باقی رہے گا کہ کتابیں تو تم نے جلائی ہیں لیکن تمہارے اکابر تو جلائے بغیر مرگئے، ان کو کافر مانتے ہویا مسلمان؟
4-آپ ایک ایک عبارت کی بنیاد میں جو ان کے نزدیک قابل تاویل ہے، آپ ان کے اکابر کی پوری کی پوری کتاب جلانے کی بات کر رہے ہیں، بالفرض اگر انھوں نے آپ کی شرط کو مان لیا اور یہ کہا کہ لیکن ہمارے اکابر کو جن کتابوں میں کافر لکھا ہوا ہے، ان کتابوں کو بھی جلاؤ ، یا کم ازکم اس کا عہد کرو کہ آئندے سے ہمارے اکابر کو کافر نہ کہوگے، یا کم از کم من شک فی کفرہ کی تلوار اٹھالو گے تو آپ کا جواب کیا ہوگا؟
5- قرآن کتاب اعجاز ہے، کلام ربانی ہے، شواہد و حقائق کا گنجینہ ہے، دلائل و براہین کی معراج ہے، اس کے باوجود آخر میں اس نے اپنے منکرین کو کہا لکم دینکم ولی دین۔ کیا ہم ان افراد کے ساتھ جو دین کے بنیادی عقاید کے چارٹر پر ہمارے ساتھ دستخط کرنے کو تیار ہیں ، اور بعض علما کی عبارتوں میں معنی کفر کے تعین میں ہم سے مختلف ہیں، اس پر بحث و تحقیق اور مناظرہ ومجادلے کی ایک صدی گزر چکی ہے، کیا ہم ان سے یہ کہنے کی پوزیشن میں ہیں کہ اگر دین کے بنیادی عقیدے کے اقرار اور ان کے انکار کے کفر ہونے پر تم دستخط کرتے ہو تو مخصوص عبارتوں کے فہم پر جو ہمارا اختلاف ہے، اس پر ہم تمہارے ساتھ لکم دینکم ولی دین کہنے کو تیار ہیں۔
ہمیں دوسروں سے وسعت ظرفی کے مطالبے سے پہلے خود بھی کشادہ قلبی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ بصورت دیگر ہم دوسروں سے ملت اور دین کے لیے اکابر پرستی چھوڑنے کا مطالبہ تو کر رہے ہیں، لیکن ہم خود اکابر پرستی کے بدترین مرض میں مبتلا ہیں، جو ہمیں دین، ملت اور امت کے لیے سوچنے نہیں دیتا۔واضح رہے کہ ملی اتحاد جب بھی ہوگا وہ موجودہ مشترکہ نکات پر ہوگا، اس کے لیے جب ہم سابقہ شرطیں لگائیں گے تو یہ داستان محبوب کی زلف سیاہ کی طرح طویل ہوجائے گی یا معشوق کی موہوم کمر کی طرح سرے غائب ہی ہوجائے گی۔ رفع اختلاف کی شرط کے ساتھ اتحاد کا خواب محض ایک خواب ہے ، کب کہ اختلافات ہوتے ہوئے، مشترکات پر اتحاد یہی فطرت، ملت، تاریخ اور عصر حاضر کی ممکنہ ضرورت ہے۔لیکن شاید یہ بات ہم بہ آسانی قبول نہیں کرسکتے۔
از قلم ؛ ڈاکٹر ذیشان مصباحی
متحد ہو تو بدل ڈالو نظام گلشن
متحد ہو تو بدل ڈالو نظام گلشن
*یہ گستاخیاں کوئ اتفاقی نہیں بلکہ ایک بڑی پلاننگ کا حصہ ہیں,اگر ہم نے گستاخوں کو سلاخوں کے پیچھے پہونچانے کے لۓ منظم پلاننگ نا کی تو تباہی ہمارا مقدر ہوگی*
وسیم رضوی جیسے ناہنجار گستاخ کی جانب سے جو فلم ٹریلر لانچ کیا گیا ہے یہ کوئ پہلا معاملہ نہیں ہے،2015 سے ملک میں کملیش تیواری سے گستاخیوں کا جو سلسلہ شروع ہوا وہ اب تک تھمنے کا نام نہیں لے رہا ، آپ کو یاد ہوگا کہ جب 2015 میں کملیش تیواری نے گستاخیاں کی تھیں اس کے خلاف ملک کے بہت سے شھروں میں احتجاج ہوۓ تھے ، جب یہ محسوس کیا گیا کہ مسلمان غصے میں گستاخ کو کیفرکردار تک پہونچا سکتے ہیں تو اسے محفوظ کرنے کے لۓ سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا، چند مہینوں میں ہی مسلمانوں کا غصّہ ٹھنڈا ہوتے ہی وہ باہر آ گیا، باہر آتے ہی اس نے اعلان کیا کہ "محمد صاحب کی جیونی پر ایک فلم بنائیں گے"(معاذاللہ)، اعلان ہی نہیں کیا بلکہ یو ٹیوب پر ایک ٹریلر لانچ کیا جس کے خلاف چند نوجوانوں کے علاوہ(اللہ انہیں سلامت رکھے) اب تک امت مسلمہ کی طرف سے کوئ ٹھوس قدم نہیں اٹھایا گیا، کیوں۔۔۔۔۔۔؟ اس لۓ کہ ہم نے شائد اس کی ضرورت محسوس نہیں کی۔
*غزوۂ احد کے موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "سعد ابن ربیع رضی اللہ عنہ نظر نہیں آتے تلاش کرو" صحابہ کرام تلاش کرنے گۓ وہ نظر نہیں آۓ ، ایک صحابی نے آواز دی "سعد ابن ربیع تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بلا رہے ہیں" یہ آواز سن کر حضرت سعد ابن ربیع (جو کئ لاشوں کے نیچے دبے تھے) نے بڑی نحیف سی آواز میں فرمایا " رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میرا سلام کہنا اور کہنا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو میری جانب سے بہتر بدلا عطا فرمائے اور مسلمانوں سے کہنا کہ اگر کافر حضور صلی اللہ علیہ وسلم تک پہونچ گۓ اور تم میں سے ایک آنکھ بھی چمکتی رہی(کوئ ایک بھی زندہ رہا) تو اللہ کے یہاں تمہارا کوئ عزر قبول نا ہوگا"*
مگر افسوس آج ہم زمین،جائداد، کے لۓ خوب لڑتے ہیں، برادریوں اور سلسلوں کے نام پر خوب لڑتے ہیں لیکن تحفظ ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم و تحفظ شریعت کے لۓ ہندوستانی آئین کی روشنی میں متحد ہو کر لڑنے کے لۓ تیار نہیں، *یاد رکھۓ اگر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس کے لۓ متحد نا ہوۓ تو کسی بھی سلسلے سے کسی بھی پیر سےمرید ہونا ہمارا کام نا آۓ گا*، خدا کے لۓ ہوش کے ناخن لیجیۓ *اگر ہم نے آقائے کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس کا تحفظ نا کیا تو ہماری جان،مال،عزت،آبرو کچھ نا بچے گ*۔
یاد کیجئے آج سے تقریباً 100 سال قبل جب ملک ہندوستان تقسیم نہیں ہوا تھا لاہور کے راجپال نامی گستاخ نے ایک کتاب لکھی تھی ، اس کتاب کے خلاف پورے ملک سے اس پر مقدمات قائم ہوۓ تھے ، یہ الگ بات ہے کہ سماعت سے قبل ہی ایک عاشق نے اس گستاخ کو فنا فی النار کر دیا تھا لیکن بڑے منظم انداز میں اس کے خلاف مقدمے قائم ہوۓ ، آج کثرت کے ساتھ مقدمات کیوں قائم نہیں ہو رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟، آج ہم تحفظ ناموس رسالت کے لئے متحد کیوں نہیں ہیں..........؟
*اس لۓ کہ اس وقت ایسے معاملات میں بھی ملکی سطح پر ہماری قیادت متحد نہیں ہے۔ آج اکثر علماء و مشائخ اپنے مدرسوں اور خانقاہوں سے نکلنے کو ہی تیار نہیں ہیں* ، جو علماء و مشائخ درد رکھتے ہیں، کچھ کرنا چاہتے ہیں وہ یکجا نہیں ہیں، *اگر چہ ایسے علماء و مشائخ کم ہوں لیکن اگر یکجا ہو جائیں تو آج بھی ہم انقلاب لا سکتے ہیں۔
، ضرورت اس بات کی ہے کہ *ہر شہر،ہر قصبہ،ہر گاؤں کے تمام سلاسل طریقت سے وابستہ درد مند علماء،مشائخ و عوام چھوٹے چھوٹے اختلافات کو نظر انداز کر کے ساتھ آئیں، تاکہ ہم مل کر تحفظ ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم و تحفظ شریعت کے لۓ کام کر سکیں*۔
یاد رکھیں کسی قوم کے حالات سو فیصد افراد نہیں بدلتے بلکہ ایک دو فیصد افراد اٹھ کھڑے ہوتے ہیں جن کی آواز پر لبیک کہتے ہوۓ دس پندرہ فیصد افراد آگے آتے ہیں اور وہی دس پندرہ فیصد افراد پوری قوم کے حالات بدل دیتے ہیں۔
*ہم نے اپنے آپ کو ان ایک دو فیصد افراد میں گنتے ہوۓ اپنے جان،مال،عزت،اولاد کی پرواہ کۓ بغیر قدم آگے بڑھا دۓ ہیں، دیکھنا یہ ہے کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کے تحفظ، شریعت کے تحفظ و مسلمانوں کی جان،مال،عزت کے تحفظ کے لئے اپنی کتنی قربانیاں پیش کرتے ہیں*
ہم مختلف شھروں کے ان علماء،مشائخ و عوام اہلسنت کے شکر گزار ہیں جنہوں نے اب تک ہمارے ساتھ ہر طریقے کا تعاون پیش کیا ہے، اللہ تعالیٰ سبھوں کو دارین کی برکتوں سے نوازے۔
میں تو تنہا ہی چلا تھا جانب منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا
از قلم؛ قمر غنی عثمانی قادری چشتی*
صدر: تحریک فروغ اسلام
*آستانہ عالیہ چشتیہ نظامیہ درگاہ سرکار بندگی*
امیٹھی شریف،لکھنو۔
Featured Post
*زحمت، رحمت اور فطرت* حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی جس کی بھلائی چاہتا ہے اس...
-
نظامت کے واسطے بہترین اشعار ایک موقع پر ڈاکٹر راحت اندوری نے کہا تھا کہ اگر خلاف ہے تو ہونے دو کوئی جان تھوڑئ ہے ...
-
جو ممالک اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی گزار رہے ہیں، ان میں سب سے پہلا نمبر نیوزی لینڈ کا، دوسرا لکسیم برگ، تیسرا آئر لینڈ، چوتھا آئیس لینڈ...
-
صبح کی سیر دل کے دورے اور فالج کے خطرے کو کم کر دیتی ہے . یہ خون کی گردش کو بہتر بناتا ہے . واک اچھا کولیسٹرول ہے اور ایل ڈی ایل کی سطح ( ...