Monday, July 22, 2019

گیرٹ ولڈرز ملعون کے الفاظ پڑھیں

ویسے آپ سب کو گیرٹ ویلڈرز ملعون سے لیکر امریکہ انڈیا اور اسرائیل سمیت سب دشمنوں کا شکریہ ادا کرنا چاہئے کہ وہ آپ کو جگانے کی کوششیں کرتے رہتے ہیں، اس کے ساتھ جتنی لعن تعن آپ ان سب پہ کرتے ہیں اس میں سے تھوڑی سی نکال کر خود پہ بھی کر لیا کریں کہ آپ بالکل بھی جاگنا نہیں چاہتے ۔
سات فٹ سات انچ لمبا اور ساڑھے نو سو پاؤنڈ وزنی سی بی یو کلسٹر بم جب امریکی بی-ون بمبار طیارے سے ریلیز ہوکر نیچے کی طرف آتا ہے ، تو فری فال کرتے ہوے فضا ہی میں وہ کھل جاتا ہے اور اس میں سے سینکڑوں بمبلسٹس (سمارٹ بم) نکل کر پھیل جاتے ہیں اور وسیع علاقہ تباہی کی زد میں آجاتا ہے ۔
آپ کو بات یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ان سینکڑوں بمبلسٹس اور سینکڑوں اقسام کے مخلتف پونڈز کے جتنے بھی امریکی بمب ہیں ان میں بالکل بھی قطعی طور پہ ایسا کوئی سینسر نہیں ہوتا جو بریلوی دیوبندی وہابی کا فرق کرکے کسی کو بائی پاس یا کسی کو مار سکتا ہوں ۔
میں نے کسی فرقے کا فلسطینی نہیں دیکھا جو اسرائیلی مظالم سے بچ نکلے، بھارت میں جب ڈنڈوں اور تلواروں سے مسلمانوں کے ٹکڑے کرنا شروع کئے جاتے ہیں تو مارنے والے جانتے تک نہیں ہوتے کہ مرنے والا بریلوی تھا یا دیوبندی یا اہلحدیث،
میں نے ابھی تک ایسا خودکش حملہ آور نہیں دیکھا جس کے دھماکے سے نکلے نٹ بولٹ اور بال بیرنگز ڈھونڈ ڈھونڈ کر کسی خاص مکتبہ فکر کے بندے کے پرخچے اُڑائیں
آپ پہ حملہ آور آپ کا دشمن آپ کا کوئی حریف آپ کے سنی دیوبندی وہابی سلفی یا آپ کے پنجابی پٹھان بلوچی کشمیری سندھی ہونے سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتا ، اسے ایک مسلمان کو مارنا ہوتا ہے وہ گیرٹ ویلڈرز جیسا ہو تو اسے بس ایک مسلمان کا دل دکھانا ہوتا ہے، وہ جارج بش ہو اوبامہ، مودی ٹرمپ یا نیتن یاہو ہو تو اس کو صرف مسلمانوں کے خون کی ندیاں بہانا ہوتی ہیں ، انہیں فرق نہیں پڑتا کسی کے گیارہویں منانے سے یا رفع الدین کرنے سے یا جماعت میں وقت دینے یا نا دینے سے،
یہ فرق یہ تفریقیں صرف آپ لوگ اہنے ذہنوں میں بٹھائے بیٹھیں ہیں۔
پھر بھی کتنے خوشنصیب ہیں آپ کہ آپ کو مارنے والے ابھی بھی آپ کو امت سمجھتے ہیں ۔
کلسٹر بم میں بند بمبلسٹس کی طرح ۔
ہیں نا
سالار عبداللہ 

عمدہ گفتگو

دنیا بھر میں اور خصوصاً جنوبی ایشیا میں کچھ عرصہ پہلے تک تقریباً سبھی مسلمان اچھی طرح جانتے تھے کہ اہلِ تصوف کا سماع نہ کوئی تفریحی سرگرمی ہے، نہ ہی کوئی ثقافتی مظاہرہ. اور یہ بھی واضح تھا کہ اس کا مقصد تفنن طبع بھی نہیں. اہل تصوف کے لیے سماع کی حیثیت وہ نہیں ہے جو مثلاً ایک عام باذوق شخص کے لیے محفل موسیقی کی ہوتی ہے. سماع حصولِ لذتِ ظاہر کا ذریعہ نہیں، ایک شیوہء طریقت ہے جس کی معنویت صوفیہ کے حلقوں میں غیر معمولی اہمیت کی حامل ہے. سماع صوفیہ کے لیے اپنی کوتاہیوں اور محرومیوں پر نوحہ و زاری ہے. غم و اندوہ کے دنوں میں باطنی حزن و ملال کے اظہار کی ممانعت کیسے ہو سکتی ہے؟ اسی احترام اور باہمی محبت کی وجہ سے بہت سے دیگر مسالک کے سلجھے ہوئے افراد بھی محافل سماع میں شرکت کرتے تھے اور اب بھی بہت سے لوگ یہ عملِ خیر انجام دیتے ہیں، اگرچہ یہ تعداد روز بہ روز کم ہوتی جاتی ہے.
اگر صوفیوں میں سے کچھ لوگ سماع کو عام محفل موسیقی ہی سمجھتے ہیں تو وہ غلطی پر ہیں. انھیں اپنے فکر و عمل کی اصلاح کرنی چاہیے. اگر سماع کے آداب ملحوظ نہیں رکھے جاتے ہیں تو یہ بھی بالکل غلط ہے. آداب کے ساتھ ہو تو سماع ہے ورنہ عام محفل موسیقی سے بھی بد تر ہے. نیز اہل تصوف کو یہ ادراک، اعتراف اور اظہار بھی کرتے رہنا چاہیے کہ سماع کسی صوفی پر بھی فرض نہیں ہے اور نہ ہی دین کا حصہ ہے.
انگریزوں نے اپنے استعماری مقاصد کے حصول کے لیے مختلف اسلامی مسالک میں دوریوں کو فروغ دیا جس میں مختلف زمانوں میں مختلف عالمی چال بازیوں کی وجہ سے شدت آتی گئی. گزشتہ دو تین عشروں سے اہل تصوف اپنے بہت سے ہم دردی رکھنے والوں سے محروم ہوتے جا رہے ہیں. اب اہل تصوف کسی مسلمان کو مشرک لگتے ہیں، کسی کو بدعتی، کسی کو گمراہ، کسی کو اہل بیت کے غالی عقیدت مند، کسی کو غمِ حسین کا احترام نہ کرنے والے، کسی کو جاہل اور کسی کو بے عمل لگنا شروع ہو گئے ہیں. اہل تصوف کا دامن ان تمام تہمتوں سے بری ہے. البتہ صوفیہ کی صفوں میں بھی کم پڑھے لکھے اور عقائد و اعمال میں کوتاہی کرنے والے لوگ ہیں اور اس صورت حال سے کوئی مسلک بھی محفوظ نہیں ہے.
پروفیسر معین نظامی صاحب دام ظلہ

حضرت ازہری میاں کے بعد


حضرت ازہری میاں کے انتقال اور مولانا عسجد رضا خاں کے انتخاب کے بعد ہمیں لگا تھا کہ جماعتِ بریلوی کے ساتھ خود جماعتِ مسلمین میں جو انتشار ہے اُس میں کمی آئے گی, لیکن حال ہی میں مولانا عسجد رضا خاں سے منسوب ایک بیان نے ہماری امیدوں پر پانی پھیر دیا, اور اب ہمیں لگتا ہے کہ خاندانِ رضوی کی طرف سے تفریق بین المسلمین کی کوششوں کا سلسلہ حسبِ روایت جاری رہے گا,
حسبِ روایت والی بات ہم اِس لیے کہہ رہے ہیں کہ یہی تفریق بین المسلمین مولانا احمد رضا خاں (اللہ اُنہیں معاف کرے) زندگی بھر کرتے رہے, اور مولانا اسمعیل دہلوی کی تقویت الایمان کے بعد بر صغیر کی دوسری سب سے تفریق انگیز اور فتنہ پرور کتاب حسام الحرمین غریب ملتِ مسلمہ کو تحفہ میں گئے, بعد میں باپ کے مشن کو بیٹے نے چلایا لیکن داخلِ بریلویت زیادہ انتشار سے بہرحال آپ بچے,
لیکن حضرت ازہری میاں نے پھر حدیں توڑ دیں, آپ زندگی بھر بلا استثناے خیش و یگانہ, انتشار, انتشار اور صرف انتشار کرتے رہے, ازہری میاں کے مثبت کام جو بھی ہوں لیکن ایک نمبر کا منفی کام تفریقِ ملتِ مسلمہ ہے, محترم اپنے جد امجد فاضل بریلوی کی روش پر چلتے رہے بلکہ انتشار کے معاملے میں تو فاضل بریلوی کے گروہ تک میں نقب زنی کر ڈالی, زندگی بھر یہ سُنی نہیں وہ سُنی نہیں کا وظیفہ پڑھ پڑھ کر,
اور افسوس کہ ازہری صاحب کے بعد اب مولانا عسجد رضا بھی اسی تفریق کی راہ چلتے دکھائی دے رہے ہیں, حالاں کہ مولانا کا معاملہ علم کے حوالے سے بہت مختلف ہے, اور وہ یہ کہ مولانا ایک ناقص مولوی ہیں, عمل و کردار بھی بتانے والے آج بہت سے لوگ ہیں, اس اعتبار سے مولانا کا زیادہ اثر لوگوں پر نہیں پڑے گا, تاجر خطیبوں اور تاجر خلیفاؤں کو چھوڑ کر,
لیکن میں یہاں بریلوی مسلک کے ذریعہ جو ایک صدی سے آج تک مسلمانوں کی صفوں میں نفرت پھیلائی گئی ہے اور ملت کو توڑ توڑ کر جو اُس کا حشر بُرا کیا گیا ہے, اس کو مجموعی طور پر سوچتا ہوں تو سچ مچ فیصلہ نہیں کر پاتا کہ آج جو بُرا حال ملتِ ہند کا ہے تو اُس کو اِس حالت تک پہنچانے میں کس کا رول زیادہ ہے, آر ایس ایس کا؟ یا بریلوی مسلک کا؟,
کیوں کہ مجموعی طور پر ہندوستانی مسلمانوں کو دو طریقے پر کم زور کیا گیا ہے ایک دشمن کو مضبوط کر کے, یعنی مسلمانوں کے خلاف سنگھی ذہنیت کو زیادہ سے زیادہ متحد کیا گیا اور یہ کام آر ایس ایس نے کیا, اور دوسرا کام مسلمانوں کو زیادہ سے زیادہ توڑا گیا اور یہ کام تقویت الایمان کے بعد اُس کی بہن کتاب حسام الحرمین نے کیا,
ویسے ہمارا تو عسجد رضا خاں کو بھی یہی مشورہ ہے کہ وہ اپنے پُرکھوں کی تفریق والی روش سے توبہ ہی کرلیں تو بہتر ہے, کیوں وہ اپنی اس روش سے سواے اپنے بڑوں کو ایکسپوز کرنے کے کچھ نہیں کر پائیں گے, بلکہ تفریق کی راہ چل کر آج کے حالات میں تو سیدھے سیدھے اپنے بزرگوں کو گالیاں ہی دِلوائیں گے, کیوں کہ لوگوں کا صبر جواب دے رہا ہے. اللہ تعالی مولانا کو ہدایت نصیب کرے. آمین!
از ناصر رامپوری مصباحی

نقلی نقوی اصلی اندھا

*"مختار عباس نقوی: آنکھوں والا اندھا"*

*ہندو انتہا پسند اور ہندو دہشت گردوں کے ہاتھوں بڑی منصوبہ بندی کے ساتھ ملک کی مختلف ریاستوں میں ہجومی تشدد (Mob Lynchings) جنہیں اب ہم پولیٹیکل مرڈر یا پھر مسلمانوں کا جدید شکل میں انکاؤنٹر کرنا کہہ سکتے ہیں۔ جس کی بازگشت ہمارے ملک کی سرحدوں سے نکل کر اب عالمی سطح پر پوری دنیا میں سنائی دے رہی ہے اور جس کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج اور مظاہرے ملک اور بیرون ملک میں کیے جارہے ہیں۔ عالمی برادری اور ہر انصاف پسند برادران وطن (غیر مسلم) مسلمانوں کے ساتھ شانہ بہ شانہ کھڑا ہوکر ہجومی تشدد کے واقعات کے خلاف اپنا احتجاج درج کرا رہا ہے۔*
*ہمارے ملک میں حکمراں پارٹی کا ایک ایسا لیڈر بھی ہے جس نے اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ رکھی ہے اور وہ مسلمانوں کے مسائل کو سنگھی آنکھوں سے دیکھتا ہے اور اس بہادر کا نام ہے مختار عباس نقوی جو مودی کی کابینہ میں اقلیتی بہبود کے مرکزی وزیر ہیں۔ انہوں نے ہجومی تشدد (پولیٹیکل مرڈر اور مسلمانوں انکاؤنٹر)کو لے کر بڑا بیان دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ موب لینچگ کے زیادہ تر کیس من گھڑت اور جھوٹے ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ موب لینچگ کے جتنے واقعات پورے ملک میں رونما ہورہے ہیں اور پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں سرخیوں کی زینت بن رہے ہیں وہ فرضی اور جھوٹے ہیں اور ان کی کوئی حقیقت نہیں ہے اور اس کے خلاف ملک و بیرون ملک احتجاج، دھرنے اور مظاہرے بےمعنی ہیں۔*
*بھاجپائیوں نے مختار عباس نقوی کو یونہی داماد نہیں بنایا ہے انہیں حق وفاداری بھی تو ادا کرنا ہے اور اس کام کو بحسن وخوبی انجام دے رہے ہیں اور ان کا حالیہ بیان بھی اسی پس منظر میں دیکھنا چاہیے اور آپ کو معلوم ہونا چاہیے مختار عباس نقوی وشو ہندو پریشد کے صدر رہے مرحوم اشوک سنگھل کے داماد ہیں ان کی بیٹی سیما سنگھل کے شوہر ہیں۔*
*پوری دُنیا میں ہجومی تشدد (موب لینچگ پولیٹیکل مرڈر اور مسلمانوں کا انکاؤنٹر)کا شور بپا ہے اور جس کے خلاف ہر سطح پر آواز بلند ہورہی ہے اور ہر شخص اپنی سر کی آنکھوں سے اس ظلم وتشدد کو دیکھ رہا ہے۔ لیکن اقلیتی بہبود کے مرکزی وزیر مختار عباس نقوی کو دن کے اجالے میں بھی ہندو دہشت گردوں کے ہاتھوں انجام پانے والے ہجومی تشدد ذریعے کے مسلمانوں کے قتل عام کے واقعات انہیں اپنی آنکھوں سے نظر نہیں آرہے ہیں۔ اس پس منظر ان کے تعلق سے یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ"اگر ہمارے ملک میں آنکھوں والے اندھے کو دیکھنا ہے تو وہ مختار عباس نقوی کو دیکھ لے۔"*

*محمد خالد داروگر، دولت نگر، سانتاکروز، ممبئی*

إتحاد کرو تو صحیح پارٹ 2

Sajid Ali
شاید اتحاد کی یہ صورت ہو اور ہاں مذکورہ تمام نام اہلسنت ہی کے ہیں.

یونہی ہی بات چل رہی تھی کہ بات نکلی اگر اتفاق اور اتحاد کرنا ہی ہے تو پہل وہاں سے کی جائے جس نے جماعت اہلسنت کو الگ الگ فرقوں میں بانٹ دیا ہے پھر سوال ہوا کہ یہ کس نے کیا جواب آیا ایک ہی خانقاہ ہے جس نے متعدد مشائخ کی دل آزاری کی ہے میں نے حیرت سے پوچھا "متعدد خانقاہوں کے مشائخ کی دل آزاری"؟
جواب ملا ہاں! الیاس عطار قادری کو گمراہ کہا،
حضرت سید اشرف میاں کے بارے میں اول جلول باتیں کی گئیں،
سجادگان چشتیہ کو بھٹکا ہوا کہاگیا،
ڈاکٹر طاہرالقادری کو کافر بنادیاگیا اور پادری کہا گیا،
حضرت ثقلین میاں کو کافر قرار دیا،
خانقاہ کچھوچھہ کے بارے میں کیا نہ کثر اٹھا رکھی ہے،
حضرت سالم میاں پر کفر کا فتوہ لگایا گیا،
مداریوں کے ساتھ مارپیٹ کی گئی اور بریلی میں ان کے جلسے کو ناکام کرنے کی کوشش کی گئی
غرض یہ کہ نہ جانے کس کس صوفی و شیخ بزرگ کے خلاف کیا کیا افواہیں فتووں کے ذریعے نہ پھیلائی گئیں اب جن لوگوں نے یہ سب کیا ہے انہیں ان تمام مشائخ و صوفیہ سے معافی مانگنی چاہیئے تبھی اتحاد ممکن ہے.
میں اور حیرت زدہ ہوا اور پھر میں نے سوال کیا آخر ایسا کون کرسکتا ہے؟ وہ بھی کوئی خانقاہ! نہیں ممکن نہیں!
مجھے پھر جواب ملا کہ ہاں یہ سب سچ ہے اور ہندوستان کی ایک بڑی خانقاہ سے یہ سب ہوا ہے میں نے تعجب سے پوچھا وہ خانقاہ کونسی ہے جس نے یہ سب کرکے مسلک اہلسنت کو ہی کافر قرار دے ڈالا اور امت مسلمہ کو تقسیم کردیا؟
جواب بہت حیرت انگیز ملا کہ یہ سب خانقاہ رضویہ کی کرامت ہے............
طالب علی "شیدا"

کھلا خط

*ایک مظلوم کاچیرمین مدرسہ بورڈ کے*  
              *نام کھلا خط*
___________________________________
  چیرمین محترم ! بہار مدرسہ بورڈ پٹنہ
   السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
    شاید آپ بھی سکون کی نیند نہیں سو پارہے ہونگے، اس لئے نہیں کہ آپ کے پاس سونے کے کمرے اور آرام دہ گدہ نہیں ہے، حشم و خدم کی کمی ہے، یا پھر تیز جھلسا دینے والی گرمی سے بچنے کے لئے کولر یا اے سی کی سہولت نہیں ہے،
     حضور! آپ کے پاس سارے انتظامات ہیں، لیکن ان بچوں کی آہ جو رات کو بھوکے سو جاتے ہیں، جسے صبح تعلیم گاہ تک بھوکا جانا پڑتا ہے، جس نے عید پرانے کپڑے میں کئے ہیں، رمضان میں افطاری اور سحری میسر نہیں ہو ئے نے سونے نہیں دیا،
   میں آپ کے کئے کاموں پر تنقید نہیں کر رہا ہوں بلکہ جو طریقہ کار آپ نے اپنایا وہ اچھا نہیں ہے،  جو کام مسلم دشمن عناصر سالوں میں نہیں کرپاتے وہ آپ نے مسلمانوں کا مسیحا کہلا کر چند ماہ میں کر دیئے، اگرآپ کے پیش نظر  مدارس کی اصلاح ہی مقصود ہے تو اس کے طریقہ کار بہتر ہونے چاہئے تھے،
     آپ کے کاموں سے ایسا احساس ہوتا ہے کہ آپ کی تربیت اس گود نے نہیں کیا ہے جو گود گذشتہ زمانے کے انقلابی شخصیتوں کو میسر ہوئے تھے، آپ نے انقلاب لانے کی کوشش تو کی ہے لیکن ایسے انقلاب کے آپ داعی محسوس ہوتے ہیں جس میں تعمیر کے بجائے تخریب کا عنصر زیادہ نظر آتا ہے،
       محترم چیرمین صاحب شاید ہماری یہ بات آپ کے دل کو چوٹ پہونچا رہی ہو لیکن میرا مقصود آپ کے دل کو دکھ دینا نہیں ہے بلکہ میں چاہتا ہوں کہ تاریخ کا پنہ جب آپ کو کوس رہا ہوتو ہماری یہ باتیں سامنے رہے،
       آپ سے بات کرتے ہوئے مجھے ایسا لگ رہا ہے ہمیں کم سے کم اس طرح کی باتیں آپ سے نہیں کرنی چاہئے لیکن مجبور ہوکر کر رہا ہوں،
       محترم چیرمین صاحب !
جب آپ بہترین اے سی گاڑی پر جمعرات اور جمعہ کو جو مدارس ملحقہ کے لئے چھٹی کے دن ہوتے ہیں پہونچ کر کمیاں  نکال کر اس کے الحاق کو ختم کردیتے ہیں تو آپ کو بہت خوشی ہوتی ہے، آخر کیا وجہ ہے آپ چھٹی کے دنوں میں آتے ہیں؟ اساتذہ کے سامنے آتے ہوئے کیوں گھبراتے ہیں؟  شاید اس کا جواب آپ کے پاس نہ ہو؟ کتنے دنوں آپ اس عہدے پر براجمان رہیں گے؟ کیا مل جائے گا آپ کو کسی کے چولھے میں پانی ڈالنے سے؟ کسی کو بے ستر کرنے سے؟ کسی معصوم بچے کے منہ سے نوالہ چھین لینے سے؟  اور کتنے دنوں نتیش جی کی حکومت رہے گی؟ 
  یاد رکھئے اس عہدے سے سبکدوش ہونے کے بعد آپ پھر اسی بستی، مجلس اور دوستوں کے بیچ آئنگے جن کے ساتھ آپ نے پہلے وقت گذارا تھا، لیکن جانتے ہیں یہ لوگ آپ سے محبت کے بجائے نفرت کریں گے، استقبال کے بجائے آپ کو رسوا  کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے، جو بچے  آپ کی ان اوچھی حرکتوں کی وجہ سے رات کو بھوکے سوئے ہونگے وہ آپ کے سہارے کو کھیچ لیں گے، آپ سے ہی نہیں بلکہ آپ کی نسلوں تک سے یہ نفرت کریں گے، آپ کے بچے اگر کہیں کھاتے ہوئے ملیں گے تو ان کے سامنے سے پلیٹ چھین کر اس کے منہ پر ماردیں گے، اسکولوں اور کالجوں سے دھکے دے کر بھگا دیں گے، اسے سر عام بیچ چوراہے پر ننگا کریں گے اور لوک آپ کی نسلوں پر لعنت بھیجیں گے،
      محترم چیرمین صاحب!
تلخ باتوں کو برداشت کرنے کا بہت شکریہ ،میں محسوس کرسکتا ہوں کہ آپ اس تحریر کو پڑھ کر آگ بگولہ  ہونگے، چونکہ آپ تلخ نوائی کے خوگر نہیں ہیں،
مجھے جاننے کی کوشش کریں گے، تو مجھے بھی آپ جانئے میرا شمار بھی ان لوگوں میں ہے جس کے مدرسے کو چھٹی کے دن عین جمعہ سے قبل جاکر یہ کہتے ہوئے رد کردیا کہ اس مدرسے میں صرف چار کمرے ہیں، بنیادی سہولتوں سے محروم ہے، اس لئے اسے رد کیا جاتا ہے، ویسے تو آپ مدرسہ بورڈ کے چیرمین ہیں لیکن افسوس اس بات پر ہے کہ آپ نے ہمارے صدرمدرس اور سکریٹری صاحب کو ہندی میں نوٹس جاری کیا، ایسی کیا نفرت تھی آپ کو اردو سے؟  کیا کوئی ایسا آدمی آپ کو بورڈ میں نہیں ملا جسے اردو آتی ہو؟ویسے سنا ہے کہ آپ نے پوری زندگی اردو کے  نام پر ہی اپنے شکم بھرے ہیں،
      چیرمین محترم !
کتنے مدرسے آپ نے بنائے ہیں، یا کم سے کم زمین دیا ہے، اس مدرسے کو ہم نے زمین دیا تھا،  چار کمرے ہم نےاپنے پیسوں سے بنوائے تھے، سماج کے غریب بچوں کو ہم نے پڑھا کر اسکول، کالج اور بڑی دینی درسگاہوں میں بھیجا تھا، نہ جانے اس مدرسے سے پڑھے ہوئے کتنے بچے حافظ قرآن ہوئے،
     تف اور افسوس ہے آپ پر، تاریخ آپ پر ہنسے گی، نسلیں لعنت بھیجے گی، آپ کے بعض تیور سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کسی خاص  اشخاص سے بدلہ لینے کے لئے آئے ہوں،
      ہمیں تو ایسا احساس ہوتا ہے کہ اس عہدے کے ملنے کے بعد آپ میں ایک قسم کی رعونت آگئی ہے، گویا کہ شاہ سے بادشاہ بن گئے ہوں، کاسہ گدائی کے بعد سونے کا تمغہ مل گیا ہو،
       لوٹ جائیے اپنی حقیقت کی جانب ورنہ سب لوگ یہی کہیں گے، اب پچتاوت کیا ہوت جب چڑیا چگ گئی کھیت "
        وہ دن بہت جلد آنے والے ہیں جب آپ اپنے خاص انداز سے سر پر دوپٹہ لپیٹے  سبزی باغ کے کسی ہوٹل میں سبزی بھات کھاتے نظر آئنگے
   شکایت ان سے کرنا گو مصیبت مول لینا ہے
  مگر عاجز غزل ہم بے سنائے دم نہیں لیں گے
         والسلام 
    آپ کے ظلم سے پریشان ایک مظلوم

حرب و ضرب کی تعلیم وتربیت

حرب و ضرب کی تعلیم وتربیت ھمیشہ سے انسانی زندگی کا لازمہ رہی ہے۔ ہاں زمانہ اور  جگہ کے اعتبار سے اسکی نوعیت جداگانہ رہی ہے۔ 

ساڑھے چودہ سو سال پہلے ملک حجاز میں قبائل عرب کے درمیان جومروجہ طریقہ حرب وضر ب تھا اسلام آنے کے بعد بھی آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طریقہ حرب وضر ب کو لازما عام مسلمانوں کو اس کی تعلیم وتربیت کی ترغیب دی۔ 

چناں چہ وقت ضرورت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ صحابیات عظام رضی اللہ عنہن نے  بھی اپنی جان و مال کی حفاظت کے لئے فنی تربیت کا مظاہرہ کیا ھے. پوری تاریخ اسلام اس کی گواہ ہے۔

حرب و ضرب کی تربیت یہ کھیل و تماشہ نہیں ہے بلکہ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم اپنی پرانی روایات کو زندہ کریں اور ملکی قانون کا لحاظ کرتے ہوئےآتشی اسلحہ چھوڑ دیں بقیہ ہر طرح کی تربیت حاصل کریں خواہ اس کا نام کچھ بھی ھو۔ مثلا لاٹھی، ڈنڈا،تلوار، بھالا تیر کمان بھوجالی۔ جسمانی کسرت مثلا جوڑو، کراٹا، اونچی چھلانگ، تیراکی،کمند ڈالنے کی تربیت مشکل حالات میں جان بچا کر بھاگنے کی ترکیب، تیز دوڑنے کا مشق، درختوں پر چڑھنے اور اترنے کا فن جنگلوں میں چھپ کر جنگلی جانوروں اور دشمنوں سے بچنےکی ترکیب  وغیرہ وغیرہ الغرض یہ وہ سارے علوم و فنون ہیں جسکی شریعت نے بالکل اجازت دی ہے۔ موقع محرم الحرام شریف کا ھو یا کوئی اور تمام ائمہ مساجد سے اور سربراھان انجمن سے درخواست ہے کہ آنے والے دنوں میں خاموشی کے ساتھ میٹینگیں کرکے ہر گاؤں میں اسکی شروعات کریں چونکہ محرم الحرام کے موقع پر اس طرح کے مشقی پروگرام ھوتے تھے۔ اب اگر  ہم اسی کو بہتر طور پر کریں گے تو غیروں کے ساتھ حکومت کو  بھی انگشت نمائی کا موقع نہیں ملےگا۔

یہ ھمارے لیۓ بہتر موقع ھے

محمد شھادت حسین فیضی
Mob:. 9431538584

Featured Post

*زحمت، رحمت اور فطرت* حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی جس کی بھلائی چاہتا ہے اس...