Saturday, July 20, 2019

شادی کریں کس سے....؟

*مسلمانوں کو شکست دینی ہے تو ان کے جوانوں کو عیاش بنا دو*
آسمان سے تو لڑکے اترتے نہیں ناں
اور جو زمین پر مسلمانوں میں موجود ہیں ان کا حال کیا ہے
کوئی ماں باپ نہیں چاہتے کہ اس پُر فتن دور میں ان کی بیٹی زیادہ دن تک گھر بیٹھی رہے
ان کی بھی یہی خواہش ہوتی ہے کہ جلد از جلد بیٹی کی شادی کر کے اپنا فرض ادا کر دیں....
اور بیٹی کے بالغ ہوتے ہی یعنی   اٹھارہ  بیس سال کی عمر تک ان کی شادی ہو جائے تو اس سے بڑی خوشی کی بات کیا ہو گی بھلا
*لیکن شادی کریں کس سے.... ؟؟؟*
پچیس چھبیس سال تک تو والدین ہی بچہ سمجھتے ہیں اور کھیلنے کودنے سوری انجوائے کرنے کے یہی دن ہے کہ نام پر انہیں ناکارہ نکما بنا کر رکھتے ہیں
جو لڑکا خود پچیس سال کی عمر تک اپنے والدین پر ڈیپینڈ ہو اس لڑکے کو کوئی باپ اپنی بیٹی سولہ سال میں ہی کیا دیکھ کر دے گا؟؟؟
اور لڑکے کے والدین کیوں کریں گے اس کی شادی؟؟
یہ کہنے کے لیے کہ اسے تو ہم نے پالا اس کے بیوی بچوں کو بھی پالو؟؟؟
ایسے لڑکوں سے شادی کیوں کرے کوئی باپ،
جو بیس بائیس سال کا ہونے کے بعد بھی بچوں کی طرح ڈرے
ایک کمرے سے دوسرے اندھیرے کمرے میں جاتے ہوئے کانپ جائے
ایسے ڈرپوک اور بزدل کو اپنی بیٹی کوئی کیوں دے؟؟
آج ماں باپ خود اپنے بچوں کو بزدلی سکھاتے ہیں
بچپن سے ہی کاکروچ، چھپکلی سے ڈرایا جانے لگتا ہے
شیر آئے گا کہہ کر ڈرایا جاتا ہے
باہر آنے والے فقیر سے ڈراوے کے نام پر کھانا کھلایا جاتا ہے
کھیل کود میں ذرا سا اپنی غلطی سے بھی بچہ گِر جائے تو وہ جھگڑا ہوتا ہے جیسے پہاڑ سے گر گیا ہو
بچوں کو بچپن سے ڈر اور بزدلی سکھائی جائے گی تو جوان ہونے پر کیا ان کا ڈر جوان نہیں ہوگا؟
کیا اچانک معجزاتی طور پر بچے بہادر بن جائیں گے؟؟؟
ایک وہ وقت تھا جب آٹھ سال کے ٹیپو سلطان نے شیر سے کھیلا تھا اور شیر کے جبڑے چیر دئیے تھے
جب 15 سال کے دو بھائی حضرت معاذ و معوذ رضی اللہ عنہ نے ایک طاقتور اور وحشی کافر ابو جہل کو مار گرایا تھا
جب 18 سال کے محمد بن قاسم بصرہ سے چلے تھے اور سندھ و ہند فتح کیا تھا
اور آج کا مسلمان لڑکا؟؟

پچیس سال تک تو بچہ ہی کہلاتا ہے
اور بڑا کہلاتے ہوئے بھی تیس سال تو کروس کر ہی جاتا ہے
اور یہ ذہن ہمیں کچھ دنوں میں نہیں دیا گیا ہے
ہمیں بزدل بنانے کے لیے دشمنوں نے صدیوں محنت کی ہے جو آج ہم اپنے سائے سے بھی ڈرتے ہیں
ہماری ساری بہادری انہوں نے اپنائی اور اپنی بزدلی ہمارے اندر منتقل کی
اللہ کا واسطہ.....!!!!!
اپنے بچوں کو بچپنا اور بزدلی نہ سکھائیں
انہیں بچپن سے بہادری اور جرات سکھائیں
آج جو ہماری حالت ہے ہمیں کئی محاذ پر ایک ساتھ توجہ دینی ہے
بچوں کو بچپن سے ہی ایک طرف دنیاوی تعلیم دلائیں تو اسی ڈسپلن کے ساتھ دوسری طرف دینی تعلیم بھی دلائیں اور تیسری طرف انہیں فنون و ہنرمندی میں ماہر بنائیں
اسکول و مدارس کے علاوہ باقی کے وقت میں بچہ ہے کہہ کر کھیلنے کودنے کے لیے مت چھوڑیں
بچے نہیں سمجھتے کون سا کھیل فائدے مند ہے اسی لیے کرکٹ وغیرہ فضولیات میں پڑ جاتے ہیں
بچوں کو کیا کھیل بہتر بنائے گا اس پر توجہ دیجئے
بھاگ دوڑ
اونچی چھلانگ لگانا
تیراکی
نشانے بازی
مارشل آرٹ
یہ وہ کھیل ہیں جو بچے شوق سے کھیلیں گے بھی اور یہی فن ان کے کام بھی آئے گا
انہیں بہادر اور نڈر بنائے گا
اور ساتھ ہی انہیں ہنرمندی سکھائیں پڑھائی کے ساتھ
اب ہنرمندی میں چاہے انبیاء کرام علیہم السلام کا پیشہ سلائی آتا ہو
یا ریپیرنگ
گھر کے سامان کی ریپیرنگ
پاور سسٹم
گاڑی وغیرہ بنانا
الیکٹرانک ڈیوائس بنانا یہ تو ہر بچے کو آنا ہی چاہیے
اور ہم ہیں کہ کسی ایک فن کو پکڑ لیتے ہیں اور پوری زندگی اسی میں لگ جاتے ہیں
جب کہ یہ چیزیں روز مرہ کی بنانا اور درست کرنا بچوں کو آنا چاہیے
ہر چیز بنانی آنا چاہیے
انہیں سکھائیے
انہیں بچہ سمجھ کر کھیلنے کودنے کے لیے چھوڑنے سے بہتر یہ ہنر سکھا دئیے جائیں
بالغ (15،16 سال)ہونے تک بچے یہ ہنر سیکھ جائیں گے تو خود ہی اسکول کالج کے بعد جو ایکسٹرا وقت بچے گا اس میں اپنے اس ہنر کا استعمال کرنے کا جذبہ آئے گا اور وہ اس ہنر کے ذریعے خود کفیلی کی طرف بڑھیں گے
ان کو یہ احساس ہو گا کہ اس ہنر کا استعمال کر کے میں اپنے والدین کا ہاتھ بٹاؤں
اپنی ضروریات خود پوری کروں
جتنی جلدی بچہ خود کفیل ہو گا اتنی جلدی بچے کی شادی میں آسانی ہو گی
پھر لڑکی کے ماں باپ پڑھائی ختم ہونے اور سیٹل ہونے کا انتظار نہیں کریں گے
خود کفیل ہو جائے گا تو شادی بھی جلدی ہو جائے گی اور پڑھائی بھی چلتی رہے گی
آج ہمارے بچے موبائل ریچارج اور گاڑی کے پیٹرول تک کہ لیے اپنے والدین کے بھروسے ہوتے ہیں
خود کی ضروریات پوری کرنا اور باپ کی پریشانی بانٹنا تو دور کی بات
اپنے بچوں کو سُستی و کاہلی سکھانے والے ہم خود ہیں
بچپن میں پانی کا گلاس تک ہاتھ میں لا کر دیں گے تو جوانی میں وہ آرام پسند نہیں ہوں گے تو کیا ہوں گے؟؟؟
اپنے بچوں کو بچپن سے ہی ٹریننگ دیجئے کہ یہی فطرت کا قانون ہے
ورنہ ایسے ہی ذلیل ہوتے رہیں گے ہم
آج ہماری حیثیت صرف نوکروں جیسی ہے
بڑے بڑے منصب پر دشمن قابض ہیں
آج ہم اپنی مرضی کی غذا تک سے محروم ہیں
قرآن میں جس زیتون کا ذکر آیا، جو جنتی پھل ہے اس کا تیل تک ہمیں Made in Italy استعمال کرنا پڑتا ہے
روز مرہ کی چیزیں آج ہمیں غیروں سے لینی پڑ رہی ہے پھر چاہے وہ اناج ہو یا گرم مصالحہ یا دیگر اشیاء
اور اس میں بھی ناپاک اشیاء کی ملاوٹ کے ساتھ کہ پیٹ میں چلے جائے تو چالیس دن تک عبادت و ریاضت مقبول نہ ہو
Patanjali Product
کی تفصیلات پڑھیں ذرا
اور انٹرنیشنل لیول پر ساری اشیاء ایسی آنے لگی ہے کہ مسلمانوں کے لئے ناجائز و حرام ہو مگر ہمیں حلال کا ٹیگ لگا کر دی جاتی ہے اور ہم لینے پر مجبور ہیں
کیوں کہ ہمارا اپنا کچھ ہے ہی نہیں
مسلمانوں میں ٹیلینٹ بے حساب ہے
بلکہ دوسری قوموں سے زیادہ نوازا ہے اللہ نے ہمیں مگر اس کا فائدہ دوسرے لوگ اٹھا رہے ہیں
جو پڑھا لکھا اور ہنر مند طبقہ ہے ہمارا وہ بھی غیروں کی نوکری پر ہی مجبور ہے
حال میں جب ٹرمپ کم بخت نے مسلمانوں پر پابندی لگائی تو بڑی بڑی کمپنیوں نے احتجاج کیا
کیوں؟؟؟
مسلمانوں کی محبت میں؟؟؟؟
ہرگز نہیں
مسلمانوں کے ٹیلینٹ کی لالچ میں
ان کے ٹیلینٹ کو کیش کرنے کے لیے
آج ہمیں حج بھی کرنا ہو تو غیر مسلم ائیر لائن کمپنی کا سہارا لینا پڑتا ہے
ائیر انڈیا کو کروڑوں کی اِنکم ہوتی ہے حاجیوں کے ذریعے مگر سہولت دینے کو تیار نہیں،
کرایا دن بدن بڑھتا جا رہا ہے
ہمارا یوز ہر کوئی کر رہا ہے
سوائے ہمارے
اللہ کا واسطہ
اب اُٹھ جائیں
اب بات پڑوس کے بچے کی نہیں ہمارے اپنے بچے کی ہے
دشمنوں کے جاسوس نے ایک پلان پیش کیا تھا
*مسلمانوں کو شکست دینی ہے تو ان کے جوانوں کو عیاش بنا دو*
اور یہی حربہ صدیوں سے استعمال ہو رہا ہے
اور ہم گہری نیند سو رہے ہیں
فلموں اور ویڈیو کے ذریعے ہمارے بچوں کو غلط ذہن دیا جا رہا ہے اور ہم ایسا کرنے دے رہے ہیں
پچیس سال تک بچوں کی گھومنے پھرنے کی عمر ہے پھر پوری زندگی تو گھر داری ہی کرنی ہے یہ ذہن ہمیں یہیں فلموں سے ملا
پھر پچیس سال بعد وہ بڑا ہو بھی تو دو چار سال اسے سیٹل ہونے میں لگتے ہیں
پھر کہیں جا کر وہ شادی کی ذمہ داری اٹھانے کے قابل ہوتا ہے
لیکن ان ہی فلموں کے ذریعے ہمارے بچوں کے جذبات بھڑکائے جاتے ہیں 13،14سال کی عمر سے
ان کو جنسیات کی طرف راغب کیا جاتا ہے اسی کم عمری سے
اب بچہ 15 سال کا ہے، نوجوانی کا عالم ہے، فلموں نے اس کے جذبات کو آگ لگا دی ہے
شادی ہو گی 29،30 سال کی عمر تک
تو اس بیچ جو 10،15 سال کا عرصہ ہے اس میں وہ اپنے جذبات کو کیسے پرسکون کرے؟؟
کیسے اسے تسکین ملے؟؟؟
کہاں جائے وہ؟؟؟
پھر ہوتا ہے وہ جو ہم دیکھ رہے ہیں
پھر آتا ہے لڑکی اور لڑکوں کی دوستی کا ذہن
پھر عام ہوتا ہے گرل فرینڈ بوائے فرینڈ کا تصور
پھر لڑکیاں کالج کے نام پر ہوٹلنگ کرتی ہیں
پھر مذہب بہت سخت ہے
اسلام بہت شدت پسند ہے
اسلام بہت پرانا مذہب ہے
جیسے بہانے تراشے جاتے ہیں
پھر ہماری بیٹی کسی کی ضرورت پوری کر رہی ہوتی ہے
اور ہمارا بیٹے کی ضرورت کسی اور کی بیٹی پوری کر رہی ہوتی ہے
*یقین نہ آئے تو اپنی بہن، بیٹیوں، بھائیوں اور بیٹوں سے کہیں کہ اپنے موبائل کا پاس ورڈ بتاؤ*
پھر ان کے اُڑے ہوئے ہوش، پیلے پڑتے چہرے، اور نا دینے کی بہانے بازی دیکھیں
وہ کیا چھپانا چاہتے ہیں؟؟
ایسا کیا ہے کہ فوراً ہی اپنا موبائل کسی کو دے نہیں سکتے...
کیوں وہ دس منٹ بعد موبائل دینے کا بہانہ کرتے ہیں؟؟؟؟
کچھ سمجھ میں آ رہا ہے معاملہ بگڑ کیسے رہا ہے؟؟؟؟
بچپن سے ہی
پہلے والدین نے بزدل اور ناکارہ اور چھوٹا بچہ بنایا
پھر بڑے ہونے کے بعد بھی چھوٹے بچے ہی رہے
سست و کاہل ہی رہے
اسی وجہ سے عملی زندگی میں قدم رکھنے میں دیر ہوئی
اسی وجہ سے اپنی ضرورت حرام راستے سے پوری کرنے لگے اور بے حیائی بڑھنے لگی
اس سے پہلے کہ ایسا وقت آئے کہ یہ تمیز کرنا مشکل ہو جائے کہ اولاد جائز ہے یا نا جائز اپنے آپ کو سنبھال لیں
مسلم معاشرے کو پیور اور خالص خون کی ضرورت ہے
مسلم قوم کو جائز اور حلال جوانوں کی ضرورت ہے
*اللہ کا واسطہ اتنی گہری نیند میں نہ سو جائیں کہ حرام اور ناجائز پیداوار کا انبار لگ جائے*
اور ہم مزید کاٹے جائیں
بم سے اڑائے جائیں
ہمیں وہ لوگ چاہیے جو ضرورت پڑنے پر پانی سے لبالب بھرے دریا میں اتر جاتے ہیں
جو روم کے سمندر کو پھلانگ کر اندلس کے دروازے تک پہنچ جاتے ہیں
وہ لوگ چاہیے جو 313 ہو کر بھی ہزاروں سے جیت جاتے ہیں
اللہ کا واسطہ...
ہماری قوم کو وہ خالص خون دیجئے
وہ خالص نسل دیجیے
اپنے آپ کی غلطی کو سمجھیں
بچے بگڑے اس لیے کہ بڑوں نے لاپرواہی کی
ہمیں اس دنیا میں کھیل کود اور انجوائے کے لیے نہیں بھیجا گیا ہے
ہماری انجوائے منٹ کے لیے جنت سجائی گئی ہے
وہاں جا کر خوب انجوائے کرنا
ابھی قوم کو سنبھال لیں
ہم کو سنبھال لیں
ہماری عزت آبرو خطرے میں ہے
چادر چھین کر ماڈرن ازم کے نام پر نمائش بنا کر رکھ دیا گیا ہے
جو چاہے دیکھے، جو چاہے اپنے جذبات کو سکون پہنچائے
اللہ کا واسطہ بچا لیجیے
قوم کے بچوں اور بچیوں کو بچا لیجیے
ہماری بقاء ہماری حفاظت صرف اسلام کے دامن میں ہے
اسلام کے قانون کو سمجھیں اور اسے ہی اپنی زندگی کا حصہ بنائیں
ورنہ بہت جلد حلال اور خالص خون والی اولاد کی کمی ہو جائے گی
ڈھونڈنے سے بھی ملیں گے نہیں
اللہ کا واسطہ اب اُٹھ جائیے اور تنہائی میں اپنا حساب لیجیے
سمجھئے کے غلطی کہاں کہاں کی ہے
دوسروں کی غلطی ہے کہہ کر اب کام نہیں چلے گا
ہر کوئی خطاوار ہے
کہیں نا کہیں ہم سب ہی غلطی پر ہیں.

طلبہ میں "حفظِ متون" کا ماحول پیدا کیجیے

ہر فن میں کچھ نہ کچھ ایسی مختصر کتابیں لکھی گئی ہیں، جنھیں *متون*  کا درجہ دیا گیا ہے. ان میں اختصار کا ایک مقصد یہ ہوتا ہے کہ طلبہ فن کے اصول و مبادی کو پہلے زبانی یاد کرلیں. اور ان کے اہم اہم مباحث سے آشنا ہوجائیں.
پھر شروح کے ذریعے ان کی تفصیلات سے آگاہی دی جائے .
لہذا برصغیر کے مدارس میں *حفظ متون* کی اہم روش کو ازسر نو زندہ کرنے کی ضرورت ہے. تاکہ بیش بہا فوائد حاصل ہوں اور  *متون وشروح* کی اپنی اپنی افادیت برقرار رہے.
مثلاً :
بچوں میں *حدیث* کا ذوق پیدا کرنا ہو تو شروع شروع میں اس کے اصول پر مشتمل  حسبِ ذیل متون کو سامنے رکھا جاسکتا ہے :
(1) المنظومۃ البیقونیہ... جس میں اصول حدیث کو 34/ عربی اشعار میں پرویا گیا ہے.
(2) نخبۃ الفکر...... جو نہایت مختصر متن ہے، اور لگ بھگ پندرہ صفحات پر مشتمل ہے.
انھیں حفظ کرادیا جائے. تو اس سے فن میں بنیاد مضبوط ہوجائے گی، پھر آگے کافی آسانی ہوگی.
ورنہ ہوتا یہ ہے کہ فضیلت کے بعد بھی طلبہ حسن اور صحیح کی تعریفیں بتانے سے قاصر رہتے ہیں.
اسی طرح *متون علم عقیدہ، متون تفسیر، متونِ اصول فقہ، متونِ فقہ* وغیرہ مختلف فنون میں اہم اور مختصر متن کا انتخاب کرکے زبانی یاد کرانے کی کوششیں فن کے مبادیات سے وابستگی کا اہم ذریعہ ثابت ہوں گی.
#فیضان-سرور-مصباحی
  جامعۃ المدینہ _ نیپال
    20/ جولائی 2019

Friday, July 19, 2019

حقائق ومعلومات عن العراق

حقائق ومعلومات عن العراق..
1- هل تعلم أن سيدنا إبراهيم عليه السلام ولد في العراق ببابل
2- هل تعلم بأن العراق له سبع إمبراطوريات عظمى في تأريخه و ما من بلد يمتلك كهذا
3- هل تعلم أن العراق هو أقدم دول العالم ؟
بلاد ما بين النهرين هي أقدم دول العالم وتعنى حرفيا “الأرض التى تقع بين نهرى دجلة والفرات” ويعود تاريخها إلى عام 5300 قبل الميلاد
4- هل تعلم بأنه في عام 1944 مطار شيكاغو ضم الدول التي تمتلك خطوط جوية مدنية عددهم 51 دولة كان العراق البلد الوحيد من ضمنهم.
5- هل تعلم بأنه يوجد في العراق أكثر من 36 مليون نخلة.
6- هل تعلم أنه في عام ١٩٧٧ أكدت اليونسكو على أن التعليم في العراق يوازي قرينه في الدول الإسكندنافية وأن الطالب العراقي هو أكثر الطلبة قبولا في الجامعات العالمية من دول العالم الثالث، ودعت العالم إلى أن يحذو حذو العراق لأنها مرسخ العلم
7- هل تعلم أن العراق أول بلد عربي سمح للمرأة فيه بمزاولة القضاء وأول قاضية عربية هي العراقية زكية حقي مارست مهامها كقاضي عام 1959.
8- هل تعلم أن أول قطر عربي أنشئت فيه محطة للبث التلفزيوني هو العراق.
9- هل تعلم بأن ‏أول مكتبة عامة عند العرب كانت في مدينة البصرة وكذلك اول مكتبة في العالم كانت في بابل.
10-هل تعلم أنه في عام ١٩٦٨ صدر العراق ألبسة ب 200 شاحنة نقل سعة 5 طن من إنتاج مصانع بابل إلى مصر كمساعدة بعد نكسة حزيران.
11- هل تعلم أنه في عام ١٩٧١ بلغ عدد السياح العراقيين في أوروبا ولبنان ٧٠ ألف مقارنة بعدد السكان آنذاك والبالغ ٨ مليون ونصف المليون نسمة.
12- هل تعلم أنه في عام ١٩٥٦ بلغ حجم الصادرات العراقية من القمح إلى بريطانيا و فرنسا وإيطاليا ٣ مليون طن.
13- هل تعلم أن بغداد تعني مدينة السلام.
14- هل تعلم أن أول تشريع قانوني كان في العراق وقد وضعه الملك حمورابي.
15- هل تعلم مقدار الجهد الذي بذلناه في جمع هذه المعلومات لك؟ كافئ جهودنا بإعجاب وتعليق

आज रात से बड़ी बेचैनी महसूस कर रहा हूँ

बड़ी मुश्किल से दो तीन घंटे ही सो पाया हूँ .....कल एक फ़ेस्बुक पोस्ट में एक बच्चे की तस्वीर ने दिल व दिमाग़ को विचलित कर दिया .....मासूम की अकड़ी हुई लाश ने कुछ देर के लिए ज़िंदा लाश बना दिया.....रोज़ाना सीमांचल में कहीं ना कहीं लाश......बस्तियों में तड़पते लोग और उनके घर आँगन में पानी ही पानी ये प्राकृतिक आपदा है या सरकारों की अनदेखी........या एम॰एल॰ए॰,एम॰पी॰ चुने गये जनप्रतिनिधियों की सीमांचल के प्रति उदासीनता?.....आख़िर हर साल हो रहे इस प्रलय का कोई  पक्का हल है?क्या बाढ़ से पहले सभी प्रकार के इमर्जन्सी से निपटने के प्रशासनिक दावे और विनाशकारी भयावह  स्थिति पैदा हो जाने के बाद हवाई सर्वेक्षण की हवा हवाई से इन जानलेवा सैलाब से इसका परमनेंट हल हो जाएगा?........2008 में विश्व बैंक से मिली अनुदान 1500 करोड़ राशि का सरकार गमन ना करके अगर नदियों के तटबंध में लगाती तो शायद कुछ भला हो जता......2017 की विनाशकारी बाढ़ ने कितना तांडव मचाया था इसका दर्द अबतक लोग भूल नहीं पाए क्यूँ उसे  राष्ट्रीय आपदा घोषित नहीं किया गया ?क्या सिर्फ़ सरकार द्वारा 6000/- की राशि से हमारा कल्याण हो जाएगा ?कौन ज़िम्मेदार है ?.....बहुत हद तक हम सीमांचल वासी इसका उत्तरदायी है क्यूँ की सरकार के ऊपर दबाव बनाने या अपनी परेशानियों के निदान के लिए हम अपने प्रतिनिधि चुनने में भूल करते आये है हम गूँगे बहरे को विधानसभा लोकसभा में भेजे है .....और हम किसी से सवाल पूछने से भी डरते हैं .......सांसद या विधायक का काम सड़क या पुल पुल्या का अपने हाथों से मरम्मत करना नहीं है बल्कि सरकार से इसका स्थाई रूप से हल निकलवाना है.....मगर हम तो नौटंकी से ख़ुश हैं......6000/- की सरकारी भीक के लिए हाए तौबा करना हमारी आदत और मुक़द्दर बन गया है.......कुछ जन प्रतिनिधि रोड मरम्मत कर फ़ोटो अप्लोड करवा रहे हैं और कोई अपनी बात दमदारी से संसद में कहने से विफल हो रहे है ऐसे में सीमांचल का हाल अल्लाह भरोसे.....चल....चला....चल😭🤔.
(DR۔ Abu Sayem sb ki wall se)

ایسی مجرمانہ خاموشی کیوں؟


بین الاقوامی سطح پر جا کر اپنی قوم کے حق میں آواز اٹھانے کی بات تو رہنے ہی دیں اپنے ملک میں ماب لنچنگ اور مسلمانوں کے خلاف بڑھتے ہوئے تشدد خیز واقعات پر مشائخین عظام، پیران کرام، قوم کو بیچنے والے مسلم لیڈران اور راتوں رات قوم کو لوٹ کر چل دینے والے شعلہ بیان مقرر اور گلوگیر شعراء کی زبانیں گنگ کیوں ہیں... ان کے ذریعہ بنائ گئ بڑی بڑی کمیٹیاں اور تنظیموں نے اس قدر مجرمانہ خاموشی کیوں اختیار کیوں کی ہوئی ہے .. کیا ان کا کام اب صرف عید اور بقرعید کے چاند کا اعلان کرنا ہی رہ گیا ہے یا عقیدت اور نذرانے کی وصولی . کیا سب کے سب غزالی دوراں،جلال الدین سیوطی اور محی الدین ابن عربی بننا چاہتے ہیں یا کوئی اب بھی ہے جو امام احمد بن حنبل، اعلی حضرت، مجاہد ملت، مجاہد دوران، علامہ عبد العلیم میرٹھی بن کر قوم کی سہی قیادت کا فریضہ انجام دینا چاہتا ہے؟؟
سب کے سب دست بوسی اور مرکزی اداروں کی بنیاد ہی رکھنے کی آرزو رکھتے ہیں یا پھر اغیار کے بچوں کی طرح قیادت اور لیڈرشپ کی باقاعدہ تعلیمات کے ساتھ ساتھ اس تپتی ہوئی گرمی میں انڈیا اسلامک کلچر سنٹر میں آکر اپنی شخصیت سازی کے فن بھی سیکھنے چاہتےہیں؟؟؟،
سن لیں!! اگر یہی بے حسی اور روش باقی رہی تو وہ دن دور نہیں جب بأمر مجبوری آپ کی عقیدتمند عوام آپ کو کلیسا کے پادریوں کی طرح آپ کی خانقاہوں اور آپ کے مرکزی اداروں تک محدود کر دےگی....
فیاض احمد مصباحی
بلرام پوری

خطاب دينی اور ہماری شعوری سطح

درس برائے طلبہ:
حضرت استاد العلماء علامہ مفتی حق النبي سکندری الازہری دامت برکاتہ شاہپور چاکر شريف.
اس جديد دور کے چیلنجز میں جہاں ہر چیز اپنے حقيقی معانی کھو کر مادیاتی حملوں کی زد میں ہے وہاں اس کائنات کی سب سے اہم چیز انسان اور وہ بھی مسلمان انتہائی بے یقینی کی کیفيت كا شكار ہے۔
مسلم نوجوان اپنے ذہن میں ہزارون سوالات لئیے پھر رہا ہے جنکا تعلق اسکے دین سے ہے نہ اسے کوئی گلے لگاکر اچھے طریقے سے سمجھانے والا ہے نہ ہی اس صلاحيت کے مذہبی عقول دستیاب ہیں جو جدید سوالات کے معقول جوابات دے سکیں۔
پوری دنیا میں مسلم نوجوانون کیلئے علماء نت نئے طریقوں سے انہیں دین کے قریب کرنی کی کوشش میں ہیں البتہ ایسا کوئی اقدام سرزمین پاک پر نظر نہیں آتا۔
دینی خطاب کی سطح نہایت سطحيت کو پہنچی ہوئی ہے کہ دقیق علمی مباحث يا تو زیر بحث ہی نہیں آتے کہ ان پر بحث کی صلاحيت والے ناپید ہیں یا ایسے مباحث زير بحث ہیں جو ہونے نہیں چاہئینن۔
مجھے سال میں ایک دو بار غيرملکی دوروں پر جانے کا اتفاق ہوتا ہے تو دیگر مسلم ممالک میں زیر بحث مسائل دیکھ کر حيرانی ہوتی ہے کہ سرزمین پاک وہند مین مبحوثہ مسائل کس قدر سطحيت کا شکار ہیں۔
بات چلی تھی نوجوانون سے تو اتنا کہنا ہے کہ پوری دنیا میں کئی ایسے نوجوان عالم اس نہج پر کام کر رہے ہیں کہ دینی مدارس سے ہٹ کر عام مسلم نوجوانون کیلئے انہین دینی علوم کو قدرے آسان لب ولہجہ میں جدید مناہج سے پہنچا رہے ہیں جسکا مقصد نہ تو انکو عالم بنانا ہے نہ مفتی وفقيہ بلکہ انکی فكری تربیت مقصود ہے جس سے وہ اپنی اسلامی اقدار کے بھی قریب رہیں اور دین اسلام پر علی سبیل العلم والدليل ثابت رہیں۔
ایسے مناہج قدیم کتب کی تبسیط پر مشتمل ہیں اگرچہ اب تک وہ انفرادی کوشش ہی ہیں پر نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر ہے۔
کیا وطن عزیز میں ایسی کوئی کوشش؟ تنظيم المدارس کی کل کائنات درس نظامی سے ہٹ کر کوئی کوشش ؟
جس تنظيم کو اس قدر پڑھا لکھا جہان دیدہ صدر ميسر ہو اور وہ بھی کچھ نہ کرسکے تو باقی بچارے کیا کرسکتے ہیں۔
فكری سوچ کا معیار اور سمجھ بوجھ کی قوت کا اندازہ کرنا ہو تو اس پوسٹ کے پیغام کو سمجھ لیجیئے پھر اس پر کمنٹس کے معیار کو جانچ لینا کافی ہوگا جس سے معاشرتی دینی علمی اپروچ کا معیار پتہ چل جائیگا۔

"سعودی عریبیہ کی هسٹری"

"سعودی عریبیہ کی هسٹری"
عرب شریف میں 1922 تک ترکی کی حکومت تهی.
جسے خلافت_عثمانیہ کے نام سے جانا جاتا هے.
جب بهی دنیا میں مسلمانوں پر ظلم و ستم هوتا تها تو ترکی حکومت اس کا منہ توڑ جواب دیتی.
امریکہ ، برطانیہ ، یورپین ، نصرانی اور یہودیوں کو اگر سب سے زیادہ خوف تها تو وہ خلافت_عثمانیہ حکومت کا تها.
امریکہ ، یورپ جیسوں کو معلوم تها کہ جب تک خلافت_عثمانیہ هے' هم مسلمانوں کا کچهہ بهی نہیں بگاڑ سکتے هیں.
امریکہ و یورپ نے خلافت_عثمانیہ کو ختم کرنے کی سازش شروع کی.
امریکہ یورپ نے سب سے پہلے اک شخص کو کهڑا کیا جو کرسچیئن تها ' ایسی عربی زبان بولتا تها کہ کسی کو اس پر شک تک نہیں آیا
اس نے عرب کے لوگوں کو خلافت_عثمانیہ کے خلاف یہ کہہ کر گمراہ کرنے کی ناکام کوشش کی کہ تم عربی هو اور یہ ترکی عجمی(غیر عربی) هیں
هم عجمی کی حکومت کو کیسے برداشت کر رهے هیں
پر لوگوں نے
(اسوقت کے عرب سنیوں)
اسکی ایک نہ مانی.
یہ شخص "لارنس آف عریبین" کے نام سے مشہور هوا
(آپ لارنس آف عریبین لکهہ کر گوگل پر سرچ کریں)
پهر امریکہ نے ایک شخص کو کهڑا کیا جس کا نام "همفر" تها
(آپ گوگل پر همفر کو سرچ کرکے پڑهہ سکتے هو)
همفر کی ملاقات ابن عبدالوهاب نجدی اور عرب کے ایک ڈاکو سے هوئی
اس ڈاکو کا نام ابن سعود تها
همفر نے ابن سعود کو عرب کا حکمران بنانے کا لالچ دیا
پهر ابن سعود نے مکہ ، مدینہ اور طائف میں ترکی کے خلاف جنگ شروع کر دی
مکہ ، مدینہ شریف اور طائف کے لاکهوں مسلمان ابن سعود کی ڈاکو فوج کے هاتهوں شہید هوئے
جب ترکی نے دیکها کہ ابن سعود همیں عرب سے نکالنے اور خود عرب پر حکومت کرنے کے لیے مکہ ، مدینہ شریف اور طائف کے بے قصور مسلمانوں کو شہید کر رها هے تب ترکی نے عالمی طور پر یہ اعلان کر دیا کہ
"هم اس پاک سرزمین پر قتل و غارت پسند نہیں کرتے"
اس وجہ سے هم خلافت_عثمانیہ کو ختم کر کے اپنے وطن واپس جا رهے هیں
پهر عرب اور کے مسلمانوں کا زوال شروع هوا
حجاز_مقدس کا نام 1400 سال کی تواریخ میں پہلی بار بدلا گیا
ابن سعود نے حجاز_مقدس کا نام اپنے نام پر سعودیہ رکهہ دیا
جنت البقیع اور جنت المعلی میں صحابہ رضوان الله اجمعین اور اهل_بیت علیهم السلام کے مزارات پر بلڈوزر چلایا گیا
حرم شریف کے جن دروازوں کے نام صحابہ اور اهل_بیت کے نام پر تهے
ان کا نام آل_سعود(ڈاکو) کے نام پر رکها گیا
یہود و نصاری کو عرب میں آنے کی اجازت مل گئی
جس دن ابن سعود عرب کا بادشاہ بنا اس دن اک جشن هوا
اس جشن میں امریکہ ، برطانیہ اور دوسرے کافر ملکوں کے پرائم منسٹر ابن سعود کو مبارک باد دینے پہنچ گئے
جس عرب کے نام سے یہود و نصاری کانپتے تهے وه سعودیہ ' امریکہ کے اشارے پر ناچنے لگا
اور آج بهی رندوں کے ساتهہ ناچ رها هے
یہود و نصاری کی اس ناپاک سازش کا ذکر کرتے هوئے
"علامہ ڈاکٹر محمد اقبال نے اپنے کلام میں لکها هے"
وہ فاقہ کش جو موت سے ڈرتا نہیں ذرا
روح محمدﷺ اسکے دل سے نکال دو
فکر_عرب کو دے کر فرنگی تخیلات
اسلام کو حجاز اور یمن سے نکال دو
(بحوالہ تاریخ_نجد و حجاز) —

Featured Post

*زحمت، رحمت اور فطرت* حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی جس کی بھلائی چاہتا ہے اس...