Sunday, August 4, 2019

دیر تک دیکھئے، دور تک سوچئے

'تین طلاق قانون'
دیر تک دیکھئے، دور تک سوچئے

محی الدین غازی

'تین طلاق قانون' کے مضمرات بہت گہرے ہیں، اس میں شبہ نہیں کہ یہ ملک میں پنپنے والی ہندتوا طاقتوں کی سوچی سمجھی گہری سازش کا شاخسانہ ہے۔ اگر یہ ایک سادہ اصلاحی کوشش ہوتی جیسا کہ دعوی کیا جارہا ہے تو اس طرح ہرگز نہیں انجام دی جاتی جس طرح اسے انجام دیا گیا۔

حقیقت یہ ہے کہ اس معاملے میں اتنی بھی سنجیدگی نہیں دکھائی گئی جتنی دو آدمیوں کے بیچ کسی چھوٹے سے تنازعے میں دکھائی جاتی ہے۔ اور بدنیتی کا تو اس طرح کھل کر اظہار کیا گیا کہ اس پر ہلکا سا بھی پردہ نہیں رہ گیا۔

اس میں شک نہیں کہ یہ معاملہ مسلم پرسنل لا میں مداخلت کا کھلا آغاز ہے۔ اور اس آغاز کے لئے تین طلاق کے مسئلے کو بہت سوچ سمجھ کر اختیار کیا گیا ہے۔ (شرعی حکم سے قطع نظر) تین طلاق کے عمل میں ایسی خرابی ہے جو خود اس لفظ سے ظاہر ہوتی ہے۔ تین طلاق دینے کا منظر خود اس کے خراب ہونے کی گواہی دیتا ہے۔ اور اسی وجہ سے اس ایشو کا انتخاب کیا گیا۔

ہمیں یہ ماننا چاہئے کہ مسلم معاشرے میں تین طلاق کا رواج مسلم معاشرے کی کمزوری بن چکا ہے۔ اور یہ بات اچھی طرح سمجھنے کی ہے کہ تین طلاق کا شرعی حکم اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے جتنا بڑا مسئلہ تین طلاق کا رواج ہے۔ اگر کبھی کبھار، دس ہزار طلاقوں میں ایک بار، تین طلاق کا واقعہ پیش آجائے تو تین کو تین ماننے میں بھی زیادہ مضائقہ محسوس نہیں ہوگا۔ لیکن اگر تین طلاق ہی ذہنوں میں بیٹھ جائے، اور وہی طلاق کا عام طریقہ سمجھ لیا جائے، اور ایک طلاق کا تصور ہی ذہنوں سے نکل جائے، تو یہ بہت بڑی خرابی کی بات ہے۔

بہت ممکن ہے اس قانون سے یہ رواج درست ہوجائے، اور مستقبل میں کبھی اس قانون سے نجات ملے تو اس رواج کا بھی خاتمہ ہوچکا ہو، مگر شریعت پر جو ایک داغ لگایا گیا ہے، کہ شریعت سے جڑی ایک خامی کو مسلمان خود درست نہیں کرسکے، اور اسے ہندوستان کی ہندتوا طاقتوں نے درست کیا ہے، وہ بہت تکلیف دہ اور باعث شرم ہے۔

ہمیں سمجھنا چاہئے کہ اس معاملے میں مسلمانوں کے یہاں تین طلاق کے غلط رواج نے اسلامی شریعت میں مداخلت کا راستہ آسان کیا ہے۔ یاد رہے کہ جب تک ہم اپنی کمزوریوں کو اچھی طرح نہیں سمجھیں گے، اپنا صحیح دفاع نہیں کرسکیں گے۔ 'تین طلاق قانون' کی دیوار سے سر مارنے کے بجائے، ہمیں آج ہی یہ طے کرنا ہوگا کہ اپنی دوسری کمزوریوں کے سلسلے میں ہمارا فوری موقف کیا ہونا چاہئے۔

ہندتوا طاقتوں کی سیاسی ضرورت یہ ہے کہ وہ ہندو مذہب اور ہندو رسم ورواج اور ہندوانہ تصورات کا خود کو علم بردار بتاتی رہیں، اسی میں ان کی بقا اور برقراری ہے۔ اور چونکہ ان کے بس میں یہ نہیں ہے کہ وہ اسلام کی تعلیمات پر اپنی برتری ثابت کرسکیں، اس لئے ان کے سامنے ایک راستہ بس یہ بچتا ہے کہ وہ اسلام اور مسلمان دونوں کے کردار کو نشانہ بنائیں۔ مسلمانوں کو اس ملک کے لئے خطرناک بتائیں، اور اسلام کو انسانی قدروں کے لئے نقصان دہ بتائیں۔ وہ لوگ یہ بحث کبھی نہیں کرانا چاہیں گے کہ انسانیت کے لئے بہتری کس مذہب اور نظام میں ہے، ان کا سارا زور اس پر رہے گا کہ اسلام اور مسلمانوں کی اتنی اونچی آواز کے ساتھ کردار کشی کی جائے کہ اس شور شرابے میں پھر کوئی دوسری آواز سنائی نہیں دے۔

اس وقت نظریاتی طور سے ہندوستانی مسلمانوں پر یک طرف جنگ مسلط کردی گئی ہے، مسلمانوں کی اور ان کی شریعت کی خامیوں کا پروپیگنڈا کیا جارہا ہے۔ اس جنگ سے بہت سے زخم آنے کے اندیشے ہیں، تاہم اس میں بڑا فائدہ یہ پوشیدہ ہے کہ مسلمان اپنی منصبی ذمہ داری سے جو مجرمانہ غفلت برت رہے ہیں، اور دین کی دعوت کو غیر ضروری سمجھ کر اس ملک میں رہ رہے ہیں، اس غفلت سے باہر آنے کا امکان بڑھ گیا ہے۔

بہترین اور کامل دین رکھنے والی امت کا منصب تو یہ ہے کہ اس کی طرف سے دین کے ہر ہر جزء کو اس اعتماد کے ساتھ پیش کیا جائے کہ اس دین کا ہر جزء انسانیت کے لئے خیر اور بھلائی کا ضامن ہے۔ اس امت کا منصب یہ ہے کہ وہ آگے بڑھ کر انسانوں کے درمیان رائج غلطیوں کی طرف انہیں متوجہ کرے، اور ان کے مذاہب اور قوانین میں پائی جانے والی ظلم کی چھوٹی سے چھوٹی شکل کی بھی نشان دہی کر کے اس کے اوپر بھرپور تنقید کرے۔

ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ملک عزیز میں رہنے والے مسلمانوں  کی طرف سے یہاں نافذ قوانین اور یہاں رائج تصورات کی خامیاں بتائی جاتیں، ان کی اصلاح کی کوشش کی جاتی، اسلام کی خوبیوں کا خوب چرچا کیا جاتا، اور اقلیت میں ہونے کے باوجود ملک کی سب سے طاقت ور آواز اسلام کے علم برداروں کی آواز ہوتی۔ کیوں کہ وہ آواز اس یقین اور اعتماد سے بھرپور ہوتی کہ اسلام کے ہر جزء میں عدل اور خیر ہے۔

لیکن اس وقت صورت حال یہ ہے کہ تین طلاق کا حوالہ دے کر اسلام کے ایک جزء کو ظلم کی ایک شکل بتاکر پیش کیا جارہا ہے، اور مسلمان نہ تو اس پوزیشن میں ہیں کہ اس کا ظلم نہیں ہونا ثابت کرسکیں، اور نہ اس پوزیشن میں ہیں کہ اس کے غیر اسلامی ہونے کو تسلیم کرسکیں۔ ہندتوا طاقتیں کچھ اس طرح باور کرا رہی ہیں کہ جیسے انگریزوں نے ہندؤوں کی ستی کی ظالمانہ رسم کو ختم کیا اسی طرح وہ مسلمانوں کے یہاں سے تین طلاق کے ظالمانہ قانون کو ختم کرنے جارہی ہیں۔ تہذیبوں اور مذاہب کے معرکے میں اسلام اور اہل اسلام کو اس قدر خفت کا سامنا شاید ہی کبھی کرنا پڑا ہو۔

'تین طلاق قانون" کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ اس کے ذریعہ اسلامی شریعت کو انسانیت کے پہلو سے عیب دار قرار دیا گیا ہے۔ اور دین کو بدنام کرنے اور اس کی دعوت کے سامنے ایک بڑی رکاوٹ کھڑی کرنے کی خطرناک سازش رچی گئی ہے۔

اسلام کی سب بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ اول تا آخر خوبیوں سے عبارت ہے۔ دنیا کے کسی مذہب یا نظریے کے ماننے والے اپنے مذہب یا نظریے کی خوبیوں کے سلسلے میں اس قدر پریقین اور پراعتماد نہیں ہوسکتے ہیں، جس قدر اسلام کے ماننے والے ہوسکتے ہیں۔ "صرف خوبیاں" اسلام کا بہت بڑا امتیاز ہے۔ اسلام میں اگر کہیں کوئی خامی نظر آتی ہے تو وہ اسلام کی خامی نہیں ہے، یا تو مسلم علماء کی اجتہادی غلطی ہے، یا مسلم عوام کے رویہ کا بگاڑ ہے۔ ہم ایسی غلطیوں اور ایسے بگاڑ کی اصلاح پر کتنی قدرت رکھتے ہیں، یہی ہمارا امتحان ہے، اور اسی میں ہماری فتح کا راز مضمر ہے۔

مناظروں کے تناظر میں ایک تحریر

مناظروں کے تناظر میں ایک تحریر

ہم مسلمانان اہل سنت و جماعت ایک سچے دین و مسلک سے وابستگی کا اعزاز رکھتے ہیں، مگر افسوس کہ ایک طویل عرصے سے ہماری باگ دوڑ کچھ ایسے ہاتھوں میں ہے جو ناعاقبت اندیشی کی انتہا کو پہنچے ہوئے ہیں.
مسلکی عقائد و معمولات کے تحفظ کے لیے ڈیڑھ دو صدیوں سے تقریری و تحریری مناظروں کا کلچر ہمیں ورثے میں ملا ہے.
مسلک کی بقا کے لیے گہرا تفکر و تدبر رکھنے والے حضرات طویل غور و خوض کے بعد بجا طور پر اس نتیجے تک پہنچے ہیں کہ مناظروں کے کلچر نے اہل سنت کو نفع کم اور نقصان زیادہ پہنچایا ہے.
ان "ھل من مبارز" قسم کے مناظروں سے جو نقصانات پہنچتے ہیں وہ حسب ذیل ہیں.

انتشار و افتراق اور فتنہ و فساد میں اضافہ ہوتا ہے.

عداوتیں اور منافرتیں پروان چڑھتی ہیں.

علمی خمار دماغ پہ چڑھ کر اسے آلودہ کر دیتا ہے.

اتحاد و اتفاق پارہ پارہ ہو جاتا ہے .

تزکیہ نفس تباہ و برباد ہو کے رہ جاتا ہے.

فریق مخالف ضد میں آ کر قبول حق سے دور ہو جاتا ہے.

اغیار کو ہنسنے کا موقع فراہم ہوتا ہے.

عوام علماے کرام سے بد ظن ہو جاتے ہیں.

کفر، ضلال، الحاد اور باطل کو پھلنے پھولنے اور کھل کھیلنے کا موقع ملتا ہے.

سیکولر حکومتوں کو مولویوں کی آپس کی پھوٹ پر سکون و اطمینان حاصل ہوتا ہے.

سرمایہ، وقت اور صلاحیت جیسی قیمتی نعمتوں کا سراسر زیان ہوتا ہے.

دعوت و تبلیغ کی راہیں مسدود ہوتی ہیں.

حکمرانوں کے لیے مذہبی طبقے کو اپنے پنجہ استبداد میں دبوچنے میں بہت زیادہ آسانی حاصل ہوتی ہے.

اہل دین کا وقار، رعب اور دبدبہ جاتا رہتا ہے.

دین و مسلک کا نہایت مکروہ چہرہ دنیا کے سامنے آتا ہے.

مخالفین کو پروپیگنڈے کے لیے بہترین مواد فراہم ہوتا ہے.

لہٰذا ہماری سوچی سمجھی رائے کے مطابق یہ مناظرے باز صرف اپنی وقتی واہ واہ اور علمی دستار اونچی ثابت کرنے کے لیے اہل سنت کو تباہی و بربادی کے عمیق کھائیوں میں دھکیلنے کا سبب بن رہے ہیں، عوام اہل سنت کو ان کے جھنڈے اٹھانے اور نعرے لگانے کی بجائے انہیں اپنے سروں سے اتار پھینکنا چاہیے اور ان کا مکمل سوشل بائیکاٹ کرنا چاہیے، تاکہ انہیں اپنی اس بھیانک غلطی کا احساس ہو اور وہ آئندہ ایسی قبیح و شنیع حرکتوں سے باز آ جائیں.

باقی رہ گیا احقاق حق تو اس کے لیے اصولی طریقہ یہ ہے کہ سو پچاس جید و مستند علماے کرام کا بورڈ بنا کر انہیں مسائل سلجھانے کی ذمے داری سپرد کی جائے.
اگر بوجوہ بورڈ بنانے کے فریضے میں بے توجہی یا تاخیر سے کام لیا جاتا ہے تو بھی احقاق حق کے لیے مروجہ قسم کے مناظروں کی روش ترک کر کے شائستگی، متانت، سنجیدگی وغیرہ آداب اختلاف کی رعایت کرتے ہوئے اپنا اپنا نقطہ نظر تقریرا یا تحریرا لوگوں کے سامنے رکھ دینا چاہیے ، اب صحیح کیا ہے اور غلط کیا ہے، اس کا فیصلہ فہیم حضرات خود ہی کر لیں گے.. دھاڑ دھاڑ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں.
(عون محمد سعیدی مصطفوی بہاول پور)
21-7-2019

سیکولر پارٹیوں نے بار بار اپنی منافقت کا اظہار کیا ہے

شریعت میں کھلم کھلا مداخلت والا تین طلاق بِل راجیہ سَبھا سے کبھی پاس نہ ہوتا اگر غیرحاضر رہ کر مخالف پارٹیوں نے بی جے پی کا تعاون نہ کیا ہوتا.
ملائم سنگھ اور اکھلیش یادو کی سماج وادی پارٹی, مایاوتی کی بہوجن سماج پارٹی, تلنگانہ وزیرِ اعلی KCR کی تلنگانہ راشٹر سمیتی TRS, نتیش کمار کی جنتا دل U, شرد پوار کی راشٹروادی کانگریس پارٹی, تمل ناڈو کی اے ڈی ایم کے, اور مزید ایک دو پارٹیوں کے ممبران نے راجیہ سبھا سے غیر حاضر رَہ کر یا واک آؤٹ (دورانِ بحث باہر نکل) کر کے راجیہ سبھا سے یہ بِل پاس کرانے میں حکمراں جماعت بی جے پی کو اپنا تعاون پیش کیا.
اسی تعاون سے خوش ہو کر بی جے پی کے قومی جنرل سکریٹری رام مادھو زیرِ نظر تصویر میں اِن پارٹیوں اور ممبران کا شکریہ ادا کرنے  کی خواہش ظاہر کر رہے ہیں. !!!
کیا اب بھی کوئی شبہہ رہ جاتا ہے کہ یہ واک آؤٹ اور غیر حاضری منظم منصوبے کا حصہ تھی؟

مسلمان !! کب تک تو اِن نام نہاد سیکولر پارٹیوں کے ذریعے ٹھگا جاتا رہے گا؟
یہ تمھارے جان و مال, عزت و آبرو حتی کہ دین و مذہب کے خلاف سازشوں میں شریک ہیں, پھر بھی تو کس جگر کے ساتھ اِن کا جھنڈا اٹھائے پھر رہا ہے ؟
اللہ کے بندے ! ذرا سوچ لے تو کون سے ہاتھ مضبوط کر رہا ہے ؟؟

📝 #نثارمصباحی
2ذی الحجہ 1440ھ
........................................................................
سیکولر پارٹیوں نے آج پہلی بار نہیں بلکہ بار بار اپنی منافقت کا کھلا اظہار کیا ہے... مسلمان کو سوچنا چاہیے کہ آخر وہ ان سیکولر پارٹیوں کے لئے کیوں پاگل ہیں؟ کیا سیکولرزم کی ساری ذمہ داری ہماری ہے؟
اب بھی وقت ہے کہ مسلمان اپنی سیاسی قیادت کھڑی کریں غیروں کو قائد بنا کر 70 سال سے ہم نے صرف کھویا ہے پایا کچھ نہیں, اب ایک بار اپنی قیادت کو ڈیولیپ کرکے دیکھیں یقیناً ان سے اچھا تجربہ ہوگا
مولانا غلام مصطفی نعیمی
ایڈیٹر: ماہنامہ سواد اعظم دہلی۔

Saturday, August 3, 2019

دو شیر تھے

دو شیر تھے..............
ایک جوان اور ایک بوڑھا
دونوں میں بہت اچھی دوستی تھی۔
دونوں میں ایک دن کچھ غلط فہمی ہوگئ۔
دونوں ایک دوسرے کے دشمن ہو گیے۔
ایک دن بوڑھے شیر کو 25-30  کتوں نے گھیر لیا اور کاٹنا شروع کیا۔۔۔۔ تب وہاں وہ جوان شیر آیا اور ایسا دہاڑا کہ سارے کتے وہاں سے بھاگ گئے۔اور جوان شیر وہاں سے چلا گیا۔۔ یہ سب دیکھ کر دوسرے شیر نے اس جوان شیر سے پوچھا کہ تم  ایک دوسرے سے بات بھی نہیں کرتے ہو  تو اسے بچایا کیوں ؟؟؟؟
تب جوان شیر نے کہا۔۔۔آپس میں ناراضگی بھلے ہی ہو لیکن سماج میں ایسی کمزوری نہیں ہونی چاہیئے کہ کتے بھی اسکا فایدہ اٹھا لیں۔

کہاں گم ہو چترویدیوں؟

کہاں ہیں ؟ذرا ڈھونڈو تو سہی!

اپنے ناموں کو جلسوں کے اشتہارات میں خوبصورت دیکھ کر خوش و خرم
اور بے جان کاغذ پر اپنے نام کو دیکھ کر خود کو زندہ تصور کرنے والوں کے نام۔۔۔۔۔

رہبر قوم و ملت آپ کہاں ہیں؟  جلسوں اور پروگراموں کے توسط آپ کا تعارف نامہ مجھے موصول ہوا کہ آپ کی رہبری و راہ نمائی کافی نمایاں اور کارگر ہے۔  جلسے اور پروگرامس کے پوسٹر میں  آپ کے اسم شریف کا آنا ہی کامیابی کی صد فی صد  ضمانت ہے اور شرکت و تشریف آوری سے  جلسوں کی کامیابی و بلندی اوج ثریا سے فزوں تر ہوجاتی ہے۔

ملت کے ہمدرد دو! کہاں گئی تمہاری ہمدردی؟ قوم آج درد سے کراہ رہی ہے کیا آپ اس درد کا احساس نہیں ہوتا؟
کہاں ہیں وہ شعلہ بار خطباء جن کے مونہوں سے آگ برستی تھی! کیا اب مونہوں میں کشمیری برفیں جم گئیں ہیں ؟

کہاں ہیں برق بار مقررین !جن کی زبانیں بجلی سے زیادہ تیز چلتی تھی! کیا ان زبوں کو کرنٹ لگ گئی؟

کدھر ہیں جامع معقولات منقولات؟ آپ کے عقلی اور دانشمندانہ اقوال اور نطق خاص کو کیا ہو گیا ہے؟

کہاں گم ہیں چترویدیوں؟  عقائد و نظریات کو دیگر مذاہب کی روشنی میں بیان کرنے والے !یہاں اپنا مذہب ٹارگٹ پر ہے!
کیوں امراض کے شکار تو نہیں ہوگئے؟

کہاں مفکرین جماعت؟ اپنی فکر و نظر اور قوت استخراج سے ملی مسائل کے راہ و سبیل تلاش کرنے والے، کیا بتائیں گے آپ کو کہاں تلاش کرنا ہے؟

سیف رضا اور خنجر خوں خوار کے گروہ کہاں ہیں؟ اپنوں کے خلاف خنجر کی دھار چمکانے والے!
کیا اب خنجر میں دندانے پڑ گئے یا اسے دفنا دیئے؟

  رضا کے شیرو  کس جنگل کی سیر میں مست ہو؟  آپ کی گرج دار اور خوف ناک آواز جو سامعین کو ڈرا دینے کے لیے کافی تھی!
کیا آواز میں ضعف و نقاہت آگئی یا خود شیر ایمانی و ایقانی طور پر بوڑھا ہوگیا ہے؟

اسٹیج پر نسوانی آوازوں  اور رسپیوں والی حرکات و اداوں سے  قوم و ملت کو لوٹنے والے بالغ و نابالغ  شعراء جو نعت رسول کے سہارے مذہب و ملت کو یتیم اور بےچارہ کردینے والے کدھر ہو؟

الفاظ  اور لچھے دار جملوں کے ذریعے سامعین اور حاضرین کو سولی لٹکانے والے نقیبو!
کس غار اور کھائی میں آپ کو ڈھونڈوں!

آپ کی تلاش ہے کہ آپ آغاز بزم کریں، آپ اجلاس کے مؤذن ہیں یہاں لوگ بیدار ہیں   آپ بانگ تو دیں امید ہے عادت کام آئے گی ۔۔۔۔

قوم و ملت بے سہارا ہیں، غریب اور ناتواں ہیں آپ کی شدید ضرورت ہے انہیں، سنا ہے آپ کی پھر کبھی دوبارہ ان سے ملاقات نہ ہو سکی!
دشمنان اسلام ۔اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نت نئی چال اور سازشیں رچ رہے ہیں !
اور قوم و ملت آپ کے انتظار میں !

افروز قادری مصباحی
جامعہ برکاتیہ مصباح العلوم
بنگلور کرناٹکا

سب سے خطرناک بل

#یو_اے_پی_اے_بل_اب_تک_کا_سب_سے_خطرناک_بل؟

لوک سبھا سے پاس ہونے کے پندرہ دنوں کے اندر اندر یو اے پی اے یعنی Unlawful Activities (Prevention) Act یا (انسدادِ غیر قانونی سرگرمی) [ترمیمی] بل راجیہ سبھا سے بھی بھاری اکثریت سے پاس ہو گیا. اب ظاہر ہے کہ صدرِ جمہوریہ کے دست خط ہوتے ہی یہ بل قانون کی شکل اختیار کر لے گا.

معروف آن لائن نیوز پورٹل The Wire کے بنیاد گزار  سدھارتھ وردراجن نے اس بل کو ہندوستانی تاریخ میں اب تک کا سب سے خطرناک قانون قرار دیا ہے. دراصل اس ترمیمی بل میں ایک تجویز یہ ہے کہ حکومت کسی بھی شخص کو دہشت گردوں کی حمایت کرنے، انہیں مالی تعاون فراہم کرنے یا پھر دہشت گردی پھیلانے والے لٹریچر (ابھی حال ہی میں ایک شدت پسند ہندو تنظیم نے قرآن پاک کو نفرت، جہاد اور دہشت گردی پھیلانے والی کتاب قرار دے کر وزارتِ داخلہ سے اس پر پابندی کا مطالبہ کیا ہے) رکھنے کی بنیاد پر دہشت گرد قرار دے سکتی ہے.

پہلے یہ ہوتا تھا کہ شک کی بنیاد ہی پر سہی کسی پر دہشت گردی کا الزام لگتا، چارج شیٹ داخل کی جاتی، عدالت میں کیس چلتا، طرفین سے معاملے کی شنوائی ہوتی اور پھر آخر میں ثبوت ملنے پر اس شخص کو دہشت گرد کہا جاتا. مگر اب یہ سارے جھمیلے ختم. اب سب کچھ گورنمنٹ کی مرضی پر منحصر : جب من بنے گا، کسی کو بھی آتنک وادی کہہ دیا جاے گا اور پھر اس کی جائیداد قرق کر اس کے ساتھ ساتھ اس کے خاندان کا بھی جینا دو بھر کر دیا جاے گا.

اس میں کوئی شبہہ نہیں کہ شریعت میں دخل اندازی کے سبب طلاقِ ثلاثہ بل ہمیں کسی صورت منظور نہیں. مگر مجھے لگتا ہے کہ زیر بحث بل اپنے نتائج کے اعتبار سے تین طلاق بل سے کہیں زیادہ خطرناک ہے. 2011 کی سرکاری مردم شماری کے مطابق مسلمانوں میں طلاق کی شرح 0.56% یعنی ایک فی صد سے بھی کم ہے. اس لحاظ سے دیکھیں تو اس قانون کی زد میں ہماری آبادی کے زیادہ سے زیادہ ایک فی صد لوگ آئیں گے، بلکہ اس سے بھی کم کیوں کہ ظاہر ہے : شریعت کی پاسداری میں نہ سہی، اس قانون کے خوف سے مسلمان اب تین طلاق پہلے کی بنسبت کم دیں گے.

مگر یو اے پی اے بل کی زد میں ہم میں کا ہر کوئی ہر وقت رہے گا. پتہ نہیں کب کسے دہشت گردی پھیلانے والے لٹریچر رکھنے کے 'جرم' میں دہشت گرد قرار دے دیا جاے اور پھر اس کی اور اس کے اہلِ خانہ کی زندگی جہنم بنا دی جاے.

✍️ #حیدررضامصباحی

आज 300 साल पुराना हाथ से लिखा हुआ क़ुरआन

निदनीय घटना - आज 300 साल पुराना हाथ से लिखा हुआ क़ुरआन शरीफ लाइब्रेरी से निकाल कर जमीन पर फेंक दिया गया,

तमाम प्राचीन वेद और ग्रंथ फाड़ दिए गए, स्वतंत्रता आंदोलन से जुड़ी निशानियां तहस-नहस कर दी गई,ऐंटीक फर्नीचर और पेंटिंग तोड़े गए, यूनिवर्सिटी की संपत्ति को जमींदोज कर के बदला कोई पागल-सनकी आदमी ही ले सकता है,

सरकार को आज़म खान से चिढ़ नहीं है, अगर उनसे चिढ़ होती तो उन्हें जेल में डाल देती और मुकदमा चलाती,सरकार में बैठे ढोंगी को चिढ़ मौलाना "मोहम्मद अली ज़ोहर यूनिवर्सिटी"के नाम से है,

इस इदारे के आलीशान बिल्डिंग,गेट,बगीचे, क्लासरूम,हरियाली,फव्वारे उनकी आंखों में कांटों की तरह चुभ रहे थे,स्टाफ को डिटेन, शिक्षकों के साथ मारपीट,महिला कर्मचारियों को रात भर थाने में बिठाना ये दर्शाता है कि सत्ता के नशे चूर गुंडे किस हद तक गिरे हुए है,

जमीन का कब्ज़ा साबित नहीं हुआ,किताबों की चोरी का कोई प्रमाण नहीं मिला,किसी भी तरह की अनियमितता सामने नहीं आई तो यूनिवर्सिटी की संपत्ति और कर्मचारियों से बदला लिया जा रहा है,

मेडिकल कालेज के महंगे लैब इंस्ट्रूमेंट को जब्त कर लिया गया,बेशकीमती सजावट के सामान को ट्रकों में भर-भर के ले जाया गया,शिक्षा के मंदिर पर इससे बड़ा ज़ुल्म पूरे भरतीय इतिहास में नहीं हुआ होगा जितना जौहर यूनिवर्सिटी के साथ आज हो रहा है,

ये सब सिर्फ इसलिए कि ये इदारा विशेष रूप से एक खास समुदाय को शिक्षित करने की नीयत से बनाया गया है ? रामपुर जिला प्रशासन को ये नहीं भूलना चाहिए कि सत्ता हमेशा एक ब्यक्ति के हाथ मे नहीं रहती है,

वक़्त बदलेगा जो आज सत्ता में है वो कल नहीं होंगे, फिर आप क्या मुंह दिखाएंगे रामपुर की आवाम को जब वो आज के हिटलरशाही पर सवाल पूछेंगे ?

लाज़िम है कि हम भी देखेंगे,कड़ा विरोध,

कपी

Featured Post

*زحمت، رحمت اور فطرت* حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی جس کی بھلائی چاہتا ہے اس...