Sunday, January 3, 2021

تاریخ اسلام کا ایک ورق

*اہل طائف کا شرطیہ اسلام قبول کرنا*
طائف مکہ مکرمہ سے تقریبا ایک سو ساٹھ کلومیٹر کے فاصلے پر چھوٹے چھوٹے پہاڑوں سے گھراہوا ایک خوبصورت و خوشحال شہر تھا۔ اس کے قرب و جوار کے علاقے میں انگور، سیب اور انار جیسے خوش رنگ و خوش ذائقہ پھلوں کے بکثرت باغات تھے۔ دوسرے خطۂ عرب کے مقابلے میں وہاں کے باشندے علم و ہنر میں مہارت رکھتے تھے۔ علم طب اور علم نجوم کے ماہرین کی ایک بڑی جماعت وہاں موجود تھی۔ پورے خطۂ عرب میں عربوں کی ملکیت والا وہ واحد قلعہ بند شہر تھا جس کے کنارے اونچی اونچی فصیلیں تعمیر تھیں، جسے ایرانی ماہرین آرکٹیچر اور  انجینئروں نے عربی طرز تعمیر اور خوبیوں کے ساتھ ڈیزائن کیا تھا۔ اس کی دیوار اتنی مضبوط تھی کہ منجنیق کے ذریعے پھینکے گئے بڑے بڑے پتھروں سے بھی مخدوش نہیں ہوئی۔
 *اہل طائف کو اسلام کی پہلی دعوت*
12 فروری 610 عیسوی کو پہلی وحی نازل ہوئی تو آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل مکہ کے درمیان اعلان نبوت کے ساتھ دعوت توحید دینی شروع کی۔ تو آپ کے خونی رشتہ داروں کے ساتھ پورا اہل مکہ آپ کا جانی دشمن ہو گیا۔ تاہم حضرت ابو طالب کے بنو ہاشم کے سردار ہونے کی وجہ سے اور ان کے رعب و دبدبہ کی وجہ سے اتلاف جان کا خطرہ نہیں تھا لیکن 5 رجب عام الحزن کو ان کے وصال کے بعد جب بنو ہاشم کی روایات کے مطابق ابولہب بنو ہاشم کا سردار ہوا تو اس نے آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حمایت کرنے سے انکار کر دیا۔ اسی درمیان صرف 35 دن کے بعد 10 رمضان کو حضرت ام المومنین خدیجۃ الکبری رضی اللہ تعالی عنہا کا وصال ہو گیا۔ اسی لیے اس کا نام عام الحزن ہے۔ قبائلی معاشرہ میں بغیر کسی قبیلے کی حمایت کے کسی شخص کا کوئی تحریک چلانا تو دور کی بات ہے زندہ رہنا مشکل ہے۔ ان حالات میں آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی مضبوط قبیلے کی حمایت کی سخت ضرورت تھی۔ اس کے لیے سب سے پہلے انھوں نے طائف جانا پسند فرمایاکہ قریش کے بعد سب سے مضبوط اور طاقتور قبیلہ طائف کے بنو ثقیف‌کا تھا۔ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اپنے خادم حضرت زید بن حارثہ کے ساتھ طائف تشریف لے گئے اور وہاں کے ہر گھر میں جا کر توحید کی دعوت دی۔ یہاں تک کہ طائف کے جو تین بڑے سردار تھے عبد یالیل بن عمرو۔ مسعود بن عمرو اور حبیب بن عمرو یہ تینوں سگے بھائی تھے۔ ان کے یہاں بھی جا کر انفرادی طور پر دعوت پیش کی۔ لیکن کسی نے بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت قبول نہیں کی بلکہ الٹا بداخلاقی کا ایسا مظاہرہ کیا کہ اوباش لڑکوں کو لگا دیا کہ انہیں پتھر مار کر شہر سے باہر نکال دیں۔ حضور سخت کبیدہ خاطر ہوئے لیکن رحمة اللعالمین تھے اس لیے اس دعا کے ساتھ شہر سے باہر نکلے کہ یا اللہ یہ لوگ مجھے نہیں پہچان رہے ہیں انہیں ہدایت عطا فرما تاکہ ان کی نسلیں ایمان لے آئیں۔
 *دوسری دعوت*
قبیلہ بنو ثقیف قبیلہ بنو ہوازن کی ہی شاخ تھی جو طائف میں آباد تھی۔ 8 ہجری میں فتح مکہ کے بعد قریش کی خودسپردگی سے ناراض ہوکر قبیلہ بنو ثقیف نے قبیلہ بنو ہوازن کے علاوہ قرب وجوار کے دیگر قبائل کے ساتھ مل کر حنین میں ایک خونریز جنگ کی تھی۔ یہ جنگ 10 شوال مطابق 30 جنوری 630 عیسوی کو ہوئی تھی جس میں چار صحابہ شہید ہوئے اور 70 کفار مارے گئے۔ مسلمانوں کو مال غنیمت کے طور پر (6000) چھ ہزار قیدی، چوبیس ہزار (24000) اونٹ، چالیس ہزار (40000) بکریاں اور چارہزار(4000) اوقیہ چاندی ملے تھے۔
 یہ شکست بنو ہوازن کی تھی اور بنو ثقیف کے لوگ بھاگ کر طائف میں قلعہ بند ہوگئے۔ طائف کا قلعہ بلند اور مضبوط تھا اس لئے منجنیق کے ذریعہ بڑے بڑے پتھر پھینکے گئےلیکن فصیل توڑی نہ جا سکی اور بنو ثقیف کے تیروں کی زد میں آکر 12 صحابہ شہید بھی ہو گئے۔ اور بہت سارے زخمی بھی۔ لوگوں نے آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کے لیے بد دعا کرنے کی گزارش کی توآقاکریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ اٹھا کر اللہ تعالی سے دعا کی کہ یا اللہ یہ لوگ نا سمجھ ہیں دوسری مرتبہ ہم نے انہیں اسلام میں داخل کرنے کی کوشش کی لیکن یہ جواب میں تیر اور پتھر پھینکتے ہیں یا اللہ انہیں ہدایت دے۔ انہیں اسلام کے لیے میرے پاس آنے کی توفیق عطا فرما۔ پھر صحابہ کو حکم دیا کہ محاصرہ ختم کردیا جائے۔ وہاں سے جعرانہ تشریف لائے۔ قبیلہ ہوازن کے قیدیوں کو اپنی رضاعی بہن حضرت شیما رضی اللہ تعالی عنہا اور ہوازن کےدوسرے لوگوں کی درخواست پر رہا کر دیا گیا اور کچھ ساز و سامان بھی واپس کر دیے گئے۔ اس میں ایک حکمت بھی تھی کہ اس رہائی اور عفو و درگزر سے طائف والوں کو یہ سمجھ آجائے کہ اسلام قبول کرنے کے یہ فائدے ہیں۔
 *تیسری دعوت*
حضرت عروہ بن مسعود ثقفی رضی اللہ عنہ نے آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر اسلام قبول کر لیا۔ اور اجازت چاہی کہ طائف میں جا کر اسلام کی دعوت دوں۔ آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم طائف کے مزاج کو سمجھتے تھے اس لیے انھوں نے فرمایا کہ صبر و حکمت سے کام لینا اور ایک بارگی اپنے اسلام کو ظاہر نہ کرنا۔ لیکن انہوں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اہل طائف مجھے اپنی کنواری لڑکیوں سے بھی زیادہ محبوب رکھتے ہیں۔ وہ میری باتوں کا انکار نہیں کریں گے۔ اور میری بات مان لیں گے۔ لیکن وہ اپنی اس خوش فہمی کے ساتھ جب طائف پہنچے اور اپنے چھت کی بلندی پر جا کر خود کو مسلمان ہونے کا اعلان کیا اور اسلام کی دعوت پیش کی۔ تو لوگوں نے تیروں سے حملہ کر کے شہید کر دیا۔ آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب حضرت عروہ بن مسعود ثقفی رضی اللہ عنہ کی شہادت کی اطلاع ملی تو ان کے بلندی درجات کی دعا مانگی اور فرمایا کہ عروہ بن مسعود ثقفی میرے بھائی حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام کی طرح ہیں۔ عملا اور شکلا بھی۔آنحضرت ﷺ نے فرمایا عروہ کے مثال صاحبِ یسین (حضرت عیسیٰ) جیسی ہے جنہوں نے اپنی قوم کو خدا کی طرف بلایا اور اس نے ان کو شہید کردیا (مستدرک حاکم: ٦١٦/٣)
عروہ بن مسعود ثقفی صاحب یسین(حضرت عیسی ابن مریم علیہ السلام) کی طرح کیسے ہیں، اس مماثلت کو سمجھنے کے لیے ذرا سورۂ یسین کی آیت نمبر 13 سے 25 کا مطالعہ کریں۔
ترجمہ:
 اور بیان کرو ان سے اس شہر والوں کی مثال۔ کہ جب ان کے پاس آئے رسول۔ اور ہم نے ان کے پاس دو رسول بھیجے۔ تو شہر والوں نے ان کو جھٹلایا۔ تو ہم نے تیسرےرسول کے ذریعے طاقت بخشی۔ پس ان تینوں نے شہر والوں سے کہا کہ ہم لوگ تم لوگوں کو اللہ تعالی کی وحدانیت کی دعوت دینے کے لیے بھیجے گئے ہیں۔ تو شہر والوں نے کہا کہ تم لوگ تو ہم ہی لوگوں کی طرح بشر ہو۔ رحمان نے کچھ نہیں بھیجا ہے تم لوگ جھوٹے ہو۔ انہوں نے کہا کہ اللہ تعالی جانتا ہے کہ اس نے ہمہیں تمہاری طرف بھیجاہے۔ اور ہماری ذمہ داری تو صرف صاف صاف اللہ کا حکم پہنچانا ہے۔ تو شہر والوں نے کہا کہ ہم لوگ تمہیں منحوس سمجھتے ہیں۔ تم لوگ اپنی حرکتوں سے باز آجاؤ نہیں تو ہم لوگ ضرور تمہیں سنگسار کریں گے۔ اور ہم لوگوں کے ذریعہ تمہیں سخت دردناک تکلیف پہنچے گی۔ انہوں نے کہا کہ تمہاری نحوست ہی تمہارے ساتھ ہے۔ تمہیں سمجھایا جاتا ہے تو تم بدکتےہو۔ بلکہ تم حد سے بڑھنے والے لوگ ہو۔
*اسی درمیان شہر کے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آیا۔اور کہا کہ اے میری قوم!ان رسولوں کی پیروی کرو۔ یہ تم سے کچھ بدلہ نہیں مانگتے۔ اور یہ ہدایت یافتہ ہیں۔ ہمیں کیا ہو گیا ہے؟ کہ ہم اس کی بندگی نہ کریں جس نے مجھے پیدا کیا۔ اور اس کی طرف سب کو لوٹنا ہے۔ کیا اللہ تعالی کے سوا اور کوئی خدا ٹھہراؤں؟ اگر رحمان میرا کچھ برا چاہے تو ان کی سفارش کچھ کام نہ آئے۔ اور نہ وہ مجھے بچا سکیں۔ بے شک جب تو میں کھلی گمراہی میں ہوں۔ بے شک میں تمہارے رب پہ ایمان لاتا ہوں۔ تم میری بات سنو۔وہ شہر والوں کو سمجھا رہے تھے اور بدلے میں شہر والوں نے انہیں پتھر مار کر شہید کر دیا* اسی نوجوان کی جانب اشارہ کرتے ہوئے آقا کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے حضرت عروہ بن مسعود ثقفی کی تمثیل پیش کی: کہ "انہوں نے اپنی قوم کو دین کی دعوت دی تو ان کی قوم نے تیر مار کر انہیں شہید کر دیا"۔
 *چوتھی دعوت* 
حضرت عروہ بن مسعود ثقفی رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت کے کچھ دنوں بعد انہوں نے قبیلہ ہوازن پہ نظر ڈالی جو شکست کے بعد بھی رسول کونین کے عفو و درگزر سے خوشحال تھے۔ قریش کی خود سپردگی کے بعد جعرانہ میں آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی دلجوئی کے لیے مال غنیمت میں سے اتنا دیا کہ اس کا وہ تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔ پھر قرب و جوار کے تمام قبائل کا جوق در جوق اسلام قبول کرنا اور ایک پاکیزہ زندگی کی ابتدا کرنا بھی ان کے پیش نظر تھی۔ ان اسباب وعلل کے ساتھ آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ان کے لیے تین مرتبہ ہدایت کی دعا کرنا بھی قبول ہوئی۔ *اور بنو ثقیف نے یہ مشورہ کیا کہ ہمارا بھی ایک وفد مدینہ جاکر اپنے شرطوں کے ساتھ اسلام میں داخل ہونے کی بات کرے*۔ چنانچہ ان کے سردار  عبد یالیل بن عمرو اپنے دو حلیفوں کے ساتھ اور قبیلہ بنو مالک میں سے تین کل چھ افراد پر مشتمل یہ وفد رمضان 9 ہجری میں مدینہ پہنچا۔ مسجد نبوی میں ان کے لیے خیمہ لگایا گیا تھا تاکہ یہ لوگ صحابہ کو نماز پڑھتے ہوئےدیکھ سکیں اور قرآن سن سکیں۔ پھر ایک دن ان لوگوں نے حضور کی بارگاہ میں حاضر ہو کر ان شرطوں کے ساتھ اسلام قبول کرنے کی بات کی کہ ہم نماز نہیں پڑھیں گے، زکات نہیں دیں گے، جہاد نہیں کریں گے، شراب نوشی اور سود خوری نہیں چھوڑیں گے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے منظور کر لیا۔ تو وہاں موجود صحابہ نے عرض کی کہ یا رسول اللہ یہ کیسا اسلام ہے؟ اس کے جواب میں آقا کریم کی یہ حدیث ملاحظہ کریں۔ جو حضرت جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عنقریب وہ زکات بھی دیں گے اور جہاد بھی کریں گے۔ پہلے یہ مسلمان تو ہوجائیں۔ (ابو داود کتاب الخراج باب طائف حدیث نمبر 1251-1252) 
ان لوگوں نے یہ شرط بھی رکھی کہ ہم بت نہیں توڑیں گے۔ تو آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی یہ شرط نہیں مانی۔ اور فرمایا کہ شرک کے ساتھ اسلام قبول نہیں ہے۔ بت کو توڑنے ہی ہوں گے۔ اب اگر تم اپنے ہاتھ سے نہیں توڑنا چاہتے ہو تو میں خالد بن ولید کو بھیجتا ہوں وہ طائف جاکر "لات" کے مجسمہ کو توڑ دیں گے۔ چنانچہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے طائف جاکر وہاں کے بتوں کو توڑ ڈالا تھا۔ بےشک آقاکریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام اور امن کی خاطر صلح حدیبیہ کے بعد یہ دوسرا مرحلہ تھا جب کفار کے بے جا اور نامعقول شرائط کو بھی قبول کرلیاتھا۔ لیکن نتائج کے اعتبار سے مہینوں نہیں۔ بلکہ کچھ ہی دنوں بعد طائف کے لوگ کامل مؤمن اور صحابی رسول بن گئے۔ جس کی فضیلت بے شمار ہیں۔ دین طاقت سے نہیں بلکہ اخلاق حسنہ اور حکمت عالیہ سے پھیلا ہے اور حکمت و دانائی مومن کا حق ہے۔ جو آج ہم سے دور ہے۔ کامیابی کے لیے ہمیں اصل اسلام کی طرف لوٹ کر پاکیزہ کلمات، اخلاق حسنہ اور حکمت و دانائی کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگااور دین کی دعوت پیش کرنی ہو گی۔
 محمد شہادت حسین فیضی
9431538584

No comments:

Post a Comment

Featured Post

*زحمت، رحمت اور فطرت* حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی جس کی بھلائی چاہتا ہے اس...