ہمیں شہر کے ایک قریب التکمیل بائی پاس کی تکمیل کی نجی ضرورت کے تحت یوگی حکومت میں کوشش کرنا پڑی, جس کے لیے ہم نے باقی بچے کسانوں کو پچھلے کسانوں سے دوگنا معاوضہ دِلوانے تک کی بات کہی کہ وہ اپنی زمینں بائی پاس کو دے دیں, لیکن وہ نہیں مانے, حالاں کہ شروع میں اُنہوں نے خود ہی کہا تھا کہ دو گنا معاوضہ مل جائے بس, لیکن پی ڈبلیو ڈی اتنے پر راضی ہو گیا تو تین گنا کا مطالبہ رکھ دیا, ہم نے بہت منت سماجت کی لیکن نہیں مانے,
پھر کسی طرح تین گنا تک کی بات پی ڈبلیو ڈی سے منوائی تو کسانوں نے پھر دھوکہ دیا اور اب چار گنا پر پہنچ گئے, حتی کہ ایک کسان نے ہم سے کہا کہ اگر تمیں جلدی ہے تو میرے حصہ کی زمین کے چار گنا میں 32 لاکھ روپے کم ہیں وہ آپ اپنے پاس سے پورے کر دیں اور بائی پاس نکلوا لیں, ورنہ دھمکی کی کہ میں کورٹ جا کر بائی پاس کو برسوں تک لٹکا دوں گا, نتیجتاً وہ بتیس لاکھ کا اضافی چارج ہمیں نجی طور پر بکراہت قبول کرنا پڑا,
ہم نے اس کسان سے خفیہ سمجھوتہ کر لیا کہ ٹھیک ہے یہ 32 لاکھ کی اضافی رقم ہم پوری کر دیں گے مگر تم باقی کسانوں کو مت بتانا, اور وہ ڈھائی یا تین گنا پر راضی ہیں تو اُنہیں اُتنے میں رجسٹری کروانے دینا, لیکن دوسرے کی مجبوری کا ذرہ برابر احساس نہ کرنے والے اس کسان نے دوسرے ہی دن سب کسانوں کو بتا دیا کہ میں نے اپنا چار گنا پکا کر لیا, باقی تم جتنے میں رجسٹری کراو تم جانو, نتیجتاً دوسرے کسان بھی چار گنا پر پہنچ گئے اور اپنے پچھلے وعدے سے مکر گئے,
ہم چوں کہ بے حد مجبور تھے تو ہم نے اب اس کے لیے کوشش کی, اور بڑے سیاسی رسوخ کے ذریعہ اور پی ڈبلیو ڈی سے ہزار گزارش کر کے اسے چار گنا معاوضہ دینے پر کسی طرح راضی کیا, تو اب بھی صرف یہ ہوا کہ اُن میں سے آدھے ہی کسان رجسٹری کرا پائے, جب کہ بقیہ آدھوں نے آٹھ گنا کی ڈمانڈ بڑھا ڈالی, نتیجہ یہ ہوا کہ اتنی کوشش کے بعد بھی آدھا ہی بائی پاس نکل پایا اور آدھا آج بھی ویسا ہی کھیت پڑا ہے,
اور اس چار گنا تک بھی ہمیں بھاجپا کے ایک مرکزی وزیر اور صوبائی نائب وزیر اعلی تک کا سورس ڈلوانا پڑا, دو مرتبہ ہم اس کے لیے ڈی ایم سے ملے, متعدد بار اے ڈی ایم سے ملے, اور پی ڈبلیو ڈی تو مسلسل دو سال جانا پڑا, کسانوں نے ڈی ایم کی کئی میٹنگوں میں نہ اے ڈی ایم کی بات مانی اور نہ ڈی ایم کی, ایک وِدھایک تک نے گزارش کی جو نظر انداز کردی,
پھر جو آدھے کسان چار گنا پر مان گئے تھے وہ پی ڈبلیو ڈی سے کروڑوں لے کر آرام سے بیٹھ گئے اور کھیت کے پیڑ نہیں کاٹ رہے تھے تاکہ جلد روڈ پڑے جو ہماری فوری ضرورت تھی یہاں تک کہ مہینوں ہمیں گزارش کرتے گزر گئے, عذر تھا کہ لکڑی کٹان والے ریٹ زیادہ مانگ رہے ہیں, نوبت یہ ہوئی کہ اُن کی زمینوں کی لکڑی کٹان میں چالیس ہزار ہم نے اپنی جیب سے بھرے, تب جا کر لکڑی کٹی,
تو یہ ہے کسانوں کا ظلم, جب کہ بائی پاس نکلنے کا اصل فائدہ بھی اُنہیں کو ہوا اور کروڑوں میں ہوا, جو زمینیں دو تین لاکھ روپے بیگھہ تھیں وہ ایک دم تیس چالیس لاکھ روپے بیگھہ پہنچ گئیں, یعنی اگر کسی کی دس بیگھہ زمین تھی تو بائی پاس سے قبل تیس لاکھ کی تھی لیکن ایک ڈیڑھ بیگھہ زمین بائی پاس میں دینے کے بعد سیدھے تین کروڑ کی ہو گئی, جس کی ہم دہائی بھی دیتے تھے, مگر اُن ظالموں پر کوئی اثر نہیں پڑتا تھا,
تو دوستو!
میں نے اپنا یہ تھکا دینے والا تجربہ آپ کے سامنے اس لیے رکھا تاکہ آپ سمجھ سکیں کہ اس دنیا میں کسان بھی ایک سے ایک حرامی پڑا ہے, نام ہی کسان ہے ورنہ کوئی مجبور مل جائے تو یہ کسان بھی پورا شیطان بن جاتا ہے, ساتھ ہی صد فی صد اِس حقیقی تجرے سے میں آپ کو یہ بھی سمجھانا چاہتا ہوں کہ آپ اگر گاوں کے مکھیہ اور شہر کے ودھایک ہیں اور وکاس کرانا چاہتے ہیں تو سختی ناگزیر ہے, ورنہ اُلٹے لوگ آپ کو کھا جائیں گے, ایک مسئلہ نہ سُلجھا پائیں گے اور مدتِ کار گزر جائے گی,
میری اس کہانی سے آپ اندازہ لگائیں کہ ایک ذرا سے کام میں کتنی دشواریاں آئیں اور پھر مسلسل ڈھائی سال بعد یہ بائی پاس مکمل ہوا اور وہ بھی ون سائڈ کا, تو جو ارب ہا ارب روپے کا وکاس کرائے اور پورا شہر تعمیر و تزیین کے مرحلے سے گزارے, وہ اتنے نخرے کیسے برداشت کرے گا؟ اور یہی سب کرے گا تو کام کب کرے گا؟ لوگ اعظم خاں کی سختی کے شکوے کرتے ہیں, لیکن مجھے کوئی بتائے کہ یوپی کے کس شہر میں اتنا کام ہوا ہے؟ بلکہ شاید پورے ملک میں رامپور کی مثال نہ ملے, تو کام زیادہ, اس لیے سختی زیادہ,
تو وکاس پرش کے لیے کچھ ظالم بننا بھی اُس کی مجبوری یے, یا پھر آپ کچھ نہ کریں بس میٹھی میٹھی باتیں کریں اور ہر کام کو کہہ دیں کہ ہاں ہو جائے گا, اور آنے والے کے کاندھے پر ہاتھ پِھرا کر ایسے ہی بے وقوف بنا کر بھیج دیں, اور اگر کوئی زیادہ شور مچائے تو اس کو تھوڑا لالچ دے دیجیے, شرابی ہو تو شراب پلا دیجیے, پیسے کا لالچی ہو تو اس کو ایک آدھ اسکیم کا فائدہ پینچا دیجیے اور بس, باقی سماج کو مرنے دو, جیسا کہ آج کے ناکارہ لیڈران اکثر یہی کرتے ہیں, بدنامی بھی نہیں ہوتی, لوگ کہتے ہیں ارے یہ نیتا جی بڑے اچھے ہیں.
میں دعوے سے کہتا ہوں کہ اگر اعظم خاں اتنے سخت نہ ہوتے تو کچھ نہ کر پاتے, یہ جو بڑی بڑی سڑکیں, کشادہ بائی پاس, عظیم الشان حیات گیٹ, نجات گیٹ, بی اماں گیٹ, اردو گیٹ, مارکیٹس, پارکس, سیورج, فلائی اوور, بس اڈہ, ہاسپٹل, نگر پالکہ بلڈنگ, گاندھی مال, گاندھی سمادھی چوک, تین تین رامپور پبلک اسکولس, اور شان دار اور خوب صورت ترین محمد علی جوہر یونیورسٹی.......یہ سب خواب ہی ہوتا, زمین پر کچھ نہ ہوتا, ہاں ہم جیسے بے وقوف ضرور خوش ہوتے کہ ہمارا چبوترا نہ ٹوٹا.
از ناصر رامپوری مصباحی