Sunday, August 4, 2019

سیکولر پارٹیوں نے بار بار اپنی منافقت کا اظہار کیا ہے

شریعت میں کھلم کھلا مداخلت والا تین طلاق بِل راجیہ سَبھا سے کبھی پاس نہ ہوتا اگر غیرحاضر رہ کر مخالف پارٹیوں نے بی جے پی کا تعاون نہ کیا ہوتا.
ملائم سنگھ اور اکھلیش یادو کی سماج وادی پارٹی, مایاوتی کی بہوجن سماج پارٹی, تلنگانہ وزیرِ اعلی KCR کی تلنگانہ راشٹر سمیتی TRS, نتیش کمار کی جنتا دل U, شرد پوار کی راشٹروادی کانگریس پارٹی, تمل ناڈو کی اے ڈی ایم کے, اور مزید ایک دو پارٹیوں کے ممبران نے راجیہ سبھا سے غیر حاضر رَہ کر یا واک آؤٹ (دورانِ بحث باہر نکل) کر کے راجیہ سبھا سے یہ بِل پاس کرانے میں حکمراں جماعت بی جے پی کو اپنا تعاون پیش کیا.
اسی تعاون سے خوش ہو کر بی جے پی کے قومی جنرل سکریٹری رام مادھو زیرِ نظر تصویر میں اِن پارٹیوں اور ممبران کا شکریہ ادا کرنے  کی خواہش ظاہر کر رہے ہیں. !!!
کیا اب بھی کوئی شبہہ رہ جاتا ہے کہ یہ واک آؤٹ اور غیر حاضری منظم منصوبے کا حصہ تھی؟

مسلمان !! کب تک تو اِن نام نہاد سیکولر پارٹیوں کے ذریعے ٹھگا جاتا رہے گا؟
یہ تمھارے جان و مال, عزت و آبرو حتی کہ دین و مذہب کے خلاف سازشوں میں شریک ہیں, پھر بھی تو کس جگر کے ساتھ اِن کا جھنڈا اٹھائے پھر رہا ہے ؟
اللہ کے بندے ! ذرا سوچ لے تو کون سے ہاتھ مضبوط کر رہا ہے ؟؟

📝 #نثارمصباحی
2ذی الحجہ 1440ھ
........................................................................
سیکولر پارٹیوں نے آج پہلی بار نہیں بلکہ بار بار اپنی منافقت کا کھلا اظہار کیا ہے... مسلمان کو سوچنا چاہیے کہ آخر وہ ان سیکولر پارٹیوں کے لئے کیوں پاگل ہیں؟ کیا سیکولرزم کی ساری ذمہ داری ہماری ہے؟
اب بھی وقت ہے کہ مسلمان اپنی سیاسی قیادت کھڑی کریں غیروں کو قائد بنا کر 70 سال سے ہم نے صرف کھویا ہے پایا کچھ نہیں, اب ایک بار اپنی قیادت کو ڈیولیپ کرکے دیکھیں یقیناً ان سے اچھا تجربہ ہوگا
مولانا غلام مصطفی نعیمی
ایڈیٹر: ماہنامہ سواد اعظم دہلی۔

Saturday, August 3, 2019

دو شیر تھے

دو شیر تھے..............
ایک جوان اور ایک بوڑھا
دونوں میں بہت اچھی دوستی تھی۔
دونوں میں ایک دن کچھ غلط فہمی ہوگئ۔
دونوں ایک دوسرے کے دشمن ہو گیے۔
ایک دن بوڑھے شیر کو 25-30  کتوں نے گھیر لیا اور کاٹنا شروع کیا۔۔۔۔ تب وہاں وہ جوان شیر آیا اور ایسا دہاڑا کہ سارے کتے وہاں سے بھاگ گئے۔اور جوان شیر وہاں سے چلا گیا۔۔ یہ سب دیکھ کر دوسرے شیر نے اس جوان شیر سے پوچھا کہ تم  ایک دوسرے سے بات بھی نہیں کرتے ہو  تو اسے بچایا کیوں ؟؟؟؟
تب جوان شیر نے کہا۔۔۔آپس میں ناراضگی بھلے ہی ہو لیکن سماج میں ایسی کمزوری نہیں ہونی چاہیئے کہ کتے بھی اسکا فایدہ اٹھا لیں۔

کہاں گم ہو چترویدیوں؟

کہاں ہیں ؟ذرا ڈھونڈو تو سہی!

اپنے ناموں کو جلسوں کے اشتہارات میں خوبصورت دیکھ کر خوش و خرم
اور بے جان کاغذ پر اپنے نام کو دیکھ کر خود کو زندہ تصور کرنے والوں کے نام۔۔۔۔۔

رہبر قوم و ملت آپ کہاں ہیں؟  جلسوں اور پروگراموں کے توسط آپ کا تعارف نامہ مجھے موصول ہوا کہ آپ کی رہبری و راہ نمائی کافی نمایاں اور کارگر ہے۔  جلسے اور پروگرامس کے پوسٹر میں  آپ کے اسم شریف کا آنا ہی کامیابی کی صد فی صد  ضمانت ہے اور شرکت و تشریف آوری سے  جلسوں کی کامیابی و بلندی اوج ثریا سے فزوں تر ہوجاتی ہے۔

ملت کے ہمدرد دو! کہاں گئی تمہاری ہمدردی؟ قوم آج درد سے کراہ رہی ہے کیا آپ اس درد کا احساس نہیں ہوتا؟
کہاں ہیں وہ شعلہ بار خطباء جن کے مونہوں سے آگ برستی تھی! کیا اب مونہوں میں کشمیری برفیں جم گئیں ہیں ؟

کہاں ہیں برق بار مقررین !جن کی زبانیں بجلی سے زیادہ تیز چلتی تھی! کیا ان زبوں کو کرنٹ لگ گئی؟

کدھر ہیں جامع معقولات منقولات؟ آپ کے عقلی اور دانشمندانہ اقوال اور نطق خاص کو کیا ہو گیا ہے؟

کہاں گم ہیں چترویدیوں؟  عقائد و نظریات کو دیگر مذاہب کی روشنی میں بیان کرنے والے !یہاں اپنا مذہب ٹارگٹ پر ہے!
کیوں امراض کے شکار تو نہیں ہوگئے؟

کہاں مفکرین جماعت؟ اپنی فکر و نظر اور قوت استخراج سے ملی مسائل کے راہ و سبیل تلاش کرنے والے، کیا بتائیں گے آپ کو کہاں تلاش کرنا ہے؟

سیف رضا اور خنجر خوں خوار کے گروہ کہاں ہیں؟ اپنوں کے خلاف خنجر کی دھار چمکانے والے!
کیا اب خنجر میں دندانے پڑ گئے یا اسے دفنا دیئے؟

  رضا کے شیرو  کس جنگل کی سیر میں مست ہو؟  آپ کی گرج دار اور خوف ناک آواز جو سامعین کو ڈرا دینے کے لیے کافی تھی!
کیا آواز میں ضعف و نقاہت آگئی یا خود شیر ایمانی و ایقانی طور پر بوڑھا ہوگیا ہے؟

اسٹیج پر نسوانی آوازوں  اور رسپیوں والی حرکات و اداوں سے  قوم و ملت کو لوٹنے والے بالغ و نابالغ  شعراء جو نعت رسول کے سہارے مذہب و ملت کو یتیم اور بےچارہ کردینے والے کدھر ہو؟

الفاظ  اور لچھے دار جملوں کے ذریعے سامعین اور حاضرین کو سولی لٹکانے والے نقیبو!
کس غار اور کھائی میں آپ کو ڈھونڈوں!

آپ کی تلاش ہے کہ آپ آغاز بزم کریں، آپ اجلاس کے مؤذن ہیں یہاں لوگ بیدار ہیں   آپ بانگ تو دیں امید ہے عادت کام آئے گی ۔۔۔۔

قوم و ملت بے سہارا ہیں، غریب اور ناتواں ہیں آپ کی شدید ضرورت ہے انہیں، سنا ہے آپ کی پھر کبھی دوبارہ ان سے ملاقات نہ ہو سکی!
دشمنان اسلام ۔اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نت نئی چال اور سازشیں رچ رہے ہیں !
اور قوم و ملت آپ کے انتظار میں !

افروز قادری مصباحی
جامعہ برکاتیہ مصباح العلوم
بنگلور کرناٹکا

سب سے خطرناک بل

#یو_اے_پی_اے_بل_اب_تک_کا_سب_سے_خطرناک_بل؟

لوک سبھا سے پاس ہونے کے پندرہ دنوں کے اندر اندر یو اے پی اے یعنی Unlawful Activities (Prevention) Act یا (انسدادِ غیر قانونی سرگرمی) [ترمیمی] بل راجیہ سبھا سے بھی بھاری اکثریت سے پاس ہو گیا. اب ظاہر ہے کہ صدرِ جمہوریہ کے دست خط ہوتے ہی یہ بل قانون کی شکل اختیار کر لے گا.

معروف آن لائن نیوز پورٹل The Wire کے بنیاد گزار  سدھارتھ وردراجن نے اس بل کو ہندوستانی تاریخ میں اب تک کا سب سے خطرناک قانون قرار دیا ہے. دراصل اس ترمیمی بل میں ایک تجویز یہ ہے کہ حکومت کسی بھی شخص کو دہشت گردوں کی حمایت کرنے، انہیں مالی تعاون فراہم کرنے یا پھر دہشت گردی پھیلانے والے لٹریچر (ابھی حال ہی میں ایک شدت پسند ہندو تنظیم نے قرآن پاک کو نفرت، جہاد اور دہشت گردی پھیلانے والی کتاب قرار دے کر وزارتِ داخلہ سے اس پر پابندی کا مطالبہ کیا ہے) رکھنے کی بنیاد پر دہشت گرد قرار دے سکتی ہے.

پہلے یہ ہوتا تھا کہ شک کی بنیاد ہی پر سہی کسی پر دہشت گردی کا الزام لگتا، چارج شیٹ داخل کی جاتی، عدالت میں کیس چلتا، طرفین سے معاملے کی شنوائی ہوتی اور پھر آخر میں ثبوت ملنے پر اس شخص کو دہشت گرد کہا جاتا. مگر اب یہ سارے جھمیلے ختم. اب سب کچھ گورنمنٹ کی مرضی پر منحصر : جب من بنے گا، کسی کو بھی آتنک وادی کہہ دیا جاے گا اور پھر اس کی جائیداد قرق کر اس کے ساتھ ساتھ اس کے خاندان کا بھی جینا دو بھر کر دیا جاے گا.

اس میں کوئی شبہہ نہیں کہ شریعت میں دخل اندازی کے سبب طلاقِ ثلاثہ بل ہمیں کسی صورت منظور نہیں. مگر مجھے لگتا ہے کہ زیر بحث بل اپنے نتائج کے اعتبار سے تین طلاق بل سے کہیں زیادہ خطرناک ہے. 2011 کی سرکاری مردم شماری کے مطابق مسلمانوں میں طلاق کی شرح 0.56% یعنی ایک فی صد سے بھی کم ہے. اس لحاظ سے دیکھیں تو اس قانون کی زد میں ہماری آبادی کے زیادہ سے زیادہ ایک فی صد لوگ آئیں گے، بلکہ اس سے بھی کم کیوں کہ ظاہر ہے : شریعت کی پاسداری میں نہ سہی، اس قانون کے خوف سے مسلمان اب تین طلاق پہلے کی بنسبت کم دیں گے.

مگر یو اے پی اے بل کی زد میں ہم میں کا ہر کوئی ہر وقت رہے گا. پتہ نہیں کب کسے دہشت گردی پھیلانے والے لٹریچر رکھنے کے 'جرم' میں دہشت گرد قرار دے دیا جاے اور پھر اس کی اور اس کے اہلِ خانہ کی زندگی جہنم بنا دی جاے.

✍️ #حیدررضامصباحی

आज 300 साल पुराना हाथ से लिखा हुआ क़ुरआन

निदनीय घटना - आज 300 साल पुराना हाथ से लिखा हुआ क़ुरआन शरीफ लाइब्रेरी से निकाल कर जमीन पर फेंक दिया गया,

तमाम प्राचीन वेद और ग्रंथ फाड़ दिए गए, स्वतंत्रता आंदोलन से जुड़ी निशानियां तहस-नहस कर दी गई,ऐंटीक फर्नीचर और पेंटिंग तोड़े गए, यूनिवर्सिटी की संपत्ति को जमींदोज कर के बदला कोई पागल-सनकी आदमी ही ले सकता है,

सरकार को आज़म खान से चिढ़ नहीं है, अगर उनसे चिढ़ होती तो उन्हें जेल में डाल देती और मुकदमा चलाती,सरकार में बैठे ढोंगी को चिढ़ मौलाना "मोहम्मद अली ज़ोहर यूनिवर्सिटी"के नाम से है,

इस इदारे के आलीशान बिल्डिंग,गेट,बगीचे, क्लासरूम,हरियाली,फव्वारे उनकी आंखों में कांटों की तरह चुभ रहे थे,स्टाफ को डिटेन, शिक्षकों के साथ मारपीट,महिला कर्मचारियों को रात भर थाने में बिठाना ये दर्शाता है कि सत्ता के नशे चूर गुंडे किस हद तक गिरे हुए है,

जमीन का कब्ज़ा साबित नहीं हुआ,किताबों की चोरी का कोई प्रमाण नहीं मिला,किसी भी तरह की अनियमितता सामने नहीं आई तो यूनिवर्सिटी की संपत्ति और कर्मचारियों से बदला लिया जा रहा है,

मेडिकल कालेज के महंगे लैब इंस्ट्रूमेंट को जब्त कर लिया गया,बेशकीमती सजावट के सामान को ट्रकों में भर-भर के ले जाया गया,शिक्षा के मंदिर पर इससे बड़ा ज़ुल्म पूरे भरतीय इतिहास में नहीं हुआ होगा जितना जौहर यूनिवर्सिटी के साथ आज हो रहा है,

ये सब सिर्फ इसलिए कि ये इदारा विशेष रूप से एक खास समुदाय को शिक्षित करने की नीयत से बनाया गया है ? रामपुर जिला प्रशासन को ये नहीं भूलना चाहिए कि सत्ता हमेशा एक ब्यक्ति के हाथ मे नहीं रहती है,

वक़्त बदलेगा जो आज सत्ता में है वो कल नहीं होंगे, फिर आप क्या मुंह दिखाएंगे रामपुर की आवाम को जब वो आज के हिटलरशाही पर सवाल पूछेंगे ?

लाज़िम है कि हम भी देखेंगे,कड़ा विरोध,

कपी

شاید کے اتر جائے ترے دل میں میری بات

جو نادان آج چاروں ہاتھ پاؤں سے اعظم خان کی مخالفت میں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں  انہیں اس وقت خود معلوم  نہیں کہ وہ  بدترین مسلم مخالف سازشوں کا حصہ بن رہے ہیں جب انہیں ہوش آئے گا تب تک بہت تاخیر ہوچکی ہوگی،،،
جن لوگوں نے حضرت ٹیپو سلطان کی مخبری کی تھی وہ بھی گلمہ گو تھے اور ذاتی مفاد میں انہوں نے سلطان کے ساتھ غداری کی سمجھ رہے تھے کہ ہم خوش عیش رہیں گے لیکن تاریخ گواہ ہے کہ ان کی خواتین کی عزتیں تک محفوظ نہ رہ سکیں اور آخر میں ذلت و رسوائی ان کا مقدر بن گئی ،، آج جو لوگ اپنے اپنے انتقام کی آگ میں بالکل اندھے ہوچکے ہیں اور کسی بھی قیمت میں جوہر یونیورسٹی کو مقفل کرانے اور اعظم خان صاحب کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیجنے کے لیے ہر کوشش کر رہے ہیں انجام ان کا بھی بہت برا ہوگا اتہاس کے پنوں میں انہیں اسی طرح یاد کیا جائے گا جس طرح ٹیپو سلطان کے غداروں کو صدام حسین کی مخبری کرنے والوں کو ذلت کے ساتھ یاد کیا جاتا ہے ،،

نادانوں ! ہوش کے ناخن لیں اور ذرا سوچیں کہ  شہاب الدین سیوان ،عتیق پھول پور الہ آباد ،مختار مؤو، اکبر احمد ڈمپی، جیسی مضبوط سیاسی مسلم طاقتوں کو بے وزن کردیا گیا ہے ایسے وقت میں اعظم خان صاحب کے حوالے سے گڑے مردے اکھاڑنے کے لیے تصویر کے صرف منفی رخ کو پیش کرنے کے لیے زور قلم زور زبان کا استعمال کیا جانا قابل افسوس ہی نہیں قابل مذمت بھی ہے ،،

جن احمقوں نے اغیار کی گود میں بیٹھ کر اپنی سیاسی اڑان حاصل کرنے کے لیے اپنوں کے سر قلم کرادہے ان کے انجام سے ہی سبق حاصل کر لیجیے معمر قذافی کو موت کے گھاٹ اتارنے کے بعد کیا لیبیا تنزلی کی راہ پر نہیں آیا ؟

صدام حسین کی پھانسی کے بعد کیا عراق بربادی کے راستے پر نہیں ہے ؟؟

یہ جو  اعظم خان کی مخالفت میں آج  پاچاموں سے باہر ہیں اور فرقہ پرستوں کے کمر بند پکڑ کر مسلم مخالف سلگتی آتش میں پیٹرول ڈیزل ڈالنے کا کام کر رہے ہیں در اصل یہ طبقہ اپنی سیاسی رسہ کشی نکالنے کے لیے پوری ملت اسلامیہ کو تباہی کے دہانے کی طرف ڈھکیل رہا ہے ،
مگر ان خود غرض لوگوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ ،
    
      ع چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں ،،

نادانو!  جب مقاصد بڑھے ہوں تو ان مقاصد کی بنسبت چھوٹی باتوں پر دھیان نہیں دیا جاتا یہی عقلمندی اور سمجھداری ہے مثلاً آپ کے مکان میں آگ لگ گئی مکان میں سامان بھی ہے اور سامان کے علاوہ آپ کا کوئ اپنا بھی سلگتے مکان میں بھنسا ہوا اب ایسے میں اپنے کی جان بچانے کے لیے سامان کو نظرانداز کیا جائے گا کہ سامان تو محنت کرنے کے بعد حاصل کیا جا سکتا ہے لیکن جان چلی گئی تو سامان کا کیا کریں گے ؟  اب اسی طرح ہر طرح کے معاملات کی نوعیت دیکھنا چاہیے اعظم خان سے انتقام لینا زیادہ ضروری ہے یا اپنے بچوں کے تعلیمی مستقبل جوہر یونیورسٹی کو بچانا زیادہ ضروری ہے ؟

      ع شاید کے اتر جائے ترے دل میں میری بات ،،

ملت کے مفادات کو  اپنے مفادات پر  جو ترجیح نہ دے سکے وہ خود غرض تو ہو سکتا ہے انسانیت نواز نہیں ،،
اس وقت سب سے زیادہ ضروری فرقہ پرستوں کے ناپاک عزائم کو ناکام بنانے کے لیے پوری قوت کے ساتھ گھڑا ہونا اور یہ اس وقت کا سب سے بڑا مقصد ہے لہذا اپنی سیاسی رنجشیں بھلا کر یا کم از کم بہتر حالات ہونے تک بالائے طاق رکھ کر ظلم و ناانصافی کے خلاف متحدہ آواز بننے کی ضرورت ہے ورنہ پھر انتظار کیجیے اپنی اپنی باری کا اور مرو ذلت کی موت اس کوبرے سانپ کی طرح جو دوسرے سانپ کو مارنے کی ضد میں خود بھی مارا جاتا ہے ،،،،

پہلے اعلی حضرت حج ہاؤس غازی آباد میں بند کیا گیا اب جوہر یونیورسٹی پر خطرات کے بادل منڈرا رہے ہیں کس لال باغ میں ہیں محترم اگلا نمبر آپ کے ادارے کا بھی ہو سکتا ہے ،،
  توصیف رضا مصباحی سنبھلی

اعظم خان اور رام پور وکاس کی داستان

ہمیں شہر کے ایک قریب التکمیل بائی پاس کی تکمیل کی نجی ضرورت کے تحت یوگی حکومت میں کوشش کرنا پڑی, جس کے لیے ہم نے باقی بچے کسانوں کو پچھلے کسانوں سے دوگنا معاوضہ دِلوانے تک کی بات کہی کہ وہ اپنی زمینں بائی پاس کو دے دیں, لیکن وہ نہیں مانے, حالاں کہ شروع میں اُنہوں نے خود ہی کہا تھا کہ دو گنا معاوضہ مل جائے بس, لیکن پی ڈبلیو ڈی اتنے پر راضی ہو گیا تو تین گنا کا مطالبہ رکھ دیا, ہم نے بہت منت سماجت کی لیکن نہیں مانے,

پھر کسی طرح تین گنا تک کی بات پی ڈبلیو ڈی سے منوائی تو کسانوں نے پھر دھوکہ دیا اور اب چار گنا پر پہنچ گئے, حتی کہ ایک کسان نے ہم سے کہا کہ اگر تمیں جلدی ہے تو میرے حصہ کی زمین کے چار گنا میں 32 لاکھ روپے کم ہیں وہ آپ اپنے پاس سے پورے کر دیں اور بائی پاس نکلوا لیں, ورنہ دھمکی کی کہ میں کورٹ جا کر بائی پاس کو برسوں تک لٹکا دوں گا, نتیجتاً وہ بتیس لاکھ کا اضافی چارج ہمیں نجی طور پر بکراہت قبول کرنا پڑا,

ہم نے اس کسان سے خفیہ سمجھوتہ کر لیا کہ ٹھیک ہے یہ 32 لاکھ کی اضافی رقم ہم پوری کر دیں گے مگر تم باقی کسانوں کو مت بتانا, اور وہ ڈھائی یا تین گنا پر راضی ہیں تو اُنہیں اُتنے میں رجسٹری کروانے دینا, لیکن دوسرے کی مجبوری کا ذرہ برابر احساس نہ کرنے والے اس کسان نے دوسرے ہی دن سب کسانوں کو بتا دیا کہ میں نے اپنا چار گنا پکا کر لیا, باقی تم جتنے میں رجسٹری کراو تم جانو, نتیجتاً دوسرے کسان بھی چار گنا پر پہنچ گئے اور اپنے پچھلے وعدے سے مکر گئے,

ہم چوں کہ بے حد مجبور تھے تو ہم نے اب اس کے لیے کوشش کی, اور بڑے سیاسی رسوخ کے ذریعہ اور پی ڈبلیو ڈی سے ہزار گزارش کر کے اسے چار گنا معاوضہ دینے پر کسی طرح راضی کیا, تو اب بھی صرف یہ ہوا کہ اُن میں سے آدھے ہی کسان رجسٹری کرا پائے, جب کہ بقیہ آدھوں نے آٹھ گنا کی ڈمانڈ بڑھا ڈالی, نتیجہ یہ ہوا کہ اتنی کوشش کے بعد بھی آدھا ہی بائی پاس نکل پایا اور آدھا آج بھی ویسا ہی کھیت پڑا ہے,

اور اس چار گنا تک بھی ہمیں بھاجپا کے ایک مرکزی وزیر اور صوبائی نائب وزیر اعلی تک کا سورس ڈلوانا پڑا, دو مرتبہ ہم اس کے لیے ڈی ایم سے ملے, متعدد بار اے ڈی ایم سے ملے, اور پی ڈبلیو ڈی تو مسلسل دو سال جانا پڑا, کسانوں نے ڈی ایم کی کئی میٹنگوں میں نہ اے ڈی ایم کی بات مانی اور نہ ڈی ایم کی, ایک وِدھایک تک نے گزارش کی جو نظر انداز کردی,

پھر جو آدھے کسان چار گنا پر مان گئے تھے وہ پی ڈبلیو ڈی سے کروڑوں لے کر آرام سے بیٹھ گئے اور کھیت کے پیڑ نہیں کاٹ رہے تھے تاکہ جلد روڈ پڑے جو ہماری فوری ضرورت تھی یہاں تک کہ مہینوں ہمیں گزارش کرتے گزر گئے, عذر تھا کہ لکڑی کٹان والے ریٹ زیادہ مانگ رہے ہیں, نوبت یہ ہوئی کہ اُن کی زمینوں کی لکڑی کٹان میں چالیس ہزار ہم نے اپنی جیب سے بھرے, تب جا کر لکڑی کٹی,

تو یہ ہے کسانوں کا ظلم, جب کہ بائی پاس نکلنے کا اصل فائدہ بھی اُنہیں کو ہوا اور کروڑوں میں ہوا, جو زمینیں دو تین لاکھ روپے بیگھہ تھیں وہ ایک دم تیس چالیس لاکھ روپے بیگھہ پہنچ گئیں, یعنی اگر کسی کی دس بیگھہ زمین تھی تو بائی پاس سے قبل تیس لاکھ کی تھی لیکن ایک ڈیڑھ بیگھہ زمین بائی پاس میں دینے کے بعد سیدھے تین کروڑ کی ہو گئی, جس کی ہم دہائی بھی دیتے تھے, مگر اُن ظالموں پر کوئی اثر نہیں پڑتا تھا,

تو دوستو!
میں نے اپنا یہ تھکا دینے والا تجربہ آپ کے سامنے اس لیے رکھا تاکہ آپ سمجھ سکیں کہ اس دنیا میں کسان بھی ایک سے ایک حرامی پڑا ہے, نام ہی کسان ہے ورنہ کوئی مجبور مل جائے تو یہ کسان بھی پورا شیطان بن جاتا ہے, ساتھ ہی صد فی صد اِس حقیقی تجرے سے میں آپ کو یہ بھی سمجھانا چاہتا ہوں کہ آپ اگر گاوں کے مکھیہ اور شہر کے ودھایک ہیں اور وکاس کرانا چاہتے ہیں تو سختی ناگزیر ہے, ورنہ اُلٹے لوگ آپ کو کھا جائیں گے, ایک مسئلہ نہ سُلجھا پائیں گے اور مدتِ کار گزر جائے گی,

میری اس کہانی سے آپ اندازہ لگائیں کہ ایک ذرا سے کام میں کتنی دشواریاں آئیں اور پھر مسلسل ڈھائی سال بعد یہ بائی پاس مکمل ہوا اور وہ بھی ون سائڈ کا, تو جو ارب ہا ارب روپے کا وکاس کرائے اور پورا شہر تعمیر و تزیین کے مرحلے سے گزارے, وہ اتنے نخرے کیسے برداشت کرے گا؟ اور یہی سب کرے گا تو کام کب کرے گا؟ لوگ اعظم خاں کی سختی کے شکوے کرتے ہیں, لیکن مجھے کوئی بتائے کہ یوپی کے کس شہر میں اتنا کام ہوا ہے؟ بلکہ شاید پورے ملک میں رامپور کی مثال نہ ملے, تو کام زیادہ, اس لیے سختی زیادہ,

تو وکاس پرش کے لیے کچھ ظالم بننا بھی اُس کی مجبوری یے, یا پھر آپ کچھ نہ کریں بس میٹھی میٹھی باتیں کریں اور ہر کام کو کہہ دیں کہ ہاں ہو جائے گا, اور آنے والے کے کاندھے پر ہاتھ پِھرا کر ایسے ہی بے وقوف بنا کر بھیج دیں, اور اگر کوئی زیادہ شور مچائے تو اس کو تھوڑا لالچ دے دیجیے, شرابی ہو تو شراب پلا دیجیے, پیسے کا لالچی ہو تو اس کو ایک آدھ اسکیم کا فائدہ پینچا دیجیے اور بس, باقی سماج کو مرنے دو, جیسا کہ آج کے ناکارہ لیڈران اکثر یہی کرتے ہیں, بدنامی بھی نہیں ہوتی, لوگ کہتے ہیں ارے یہ نیتا جی بڑے اچھے ہیں.

میں دعوے سے کہتا ہوں کہ اگر اعظم خاں اتنے سخت نہ ہوتے تو کچھ نہ کر پاتے, یہ جو بڑی بڑی سڑکیں, کشادہ بائی پاس, عظیم الشان حیات گیٹ, نجات گیٹ, بی اماں گیٹ, اردو گیٹ, مارکیٹس, پارکس, سیورج, فلائی اوور, بس اڈہ, ہاسپٹل, نگر پالکہ بلڈنگ, گاندھی مال, گاندھی سمادھی چوک, تین تین رامپور پبلک اسکولس, اور شان دار اور خوب صورت ترین محمد علی جوہر یونیورسٹی.......یہ سب خواب ہی ہوتا, زمین پر کچھ نہ ہوتا, ہاں ہم جیسے بے وقوف ضرور خوش ہوتے کہ ہمارا چبوترا نہ ٹوٹا.
از ناصر رامپوری مصباحی

Featured Post

*زحمت، رحمت اور فطرت* حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی جس کی بھلائی چاہتا ہے اس...