Monday, July 22, 2019

اتحاد کرو تو صحیح

🎓 *_مفکر و مدبر عالم دین مفتی نثار احمد مصباحی لکھتے ہیں_* :

📌 *اہلِ سنت ہی امت کا سوادِ اعظم ہیں. پہلے امت کی سب سے بڑی جماعت (سوادِ اعظم اہلِ سنت) کے اتحاد کی کوششیں کر لیجیے. پھر دیگر شاذ مسالک کا رخ کیجیے گا.*

📌 *یہ عجیب و غریب منطق ہے اتحاد کے جھنڈا برداروں کی, اِن کا سارا زور دیگر مسالِک اور شاذ فرقوں سے ہی اتحاد پر ہوتا ہے. جب کہ قرینِ قیاس و عقل جو اتحاد ہے یعنی اہلِ سنت کا اتحاد, اس کے لیے کوشش نہیں کرتے.*

📌 *بدمذہبوں اور شاذ عقیدے والوں کی پیشوائی تو انھیں منظور ہوتی ہے مگر اہلِ سنت کی سرکردہ شخصیات کے سایے تلے ایک قدم چلنا گوارا نہیں کرتے. بلکہ ان کی تنقیص اور منفی تشہیر میں سرگرم رہتے ہیں.*

📌 *مسلمانوں کے داخلی اور خارجی حالات کے پیشِ نظر ہماری صفوں میں اتحاد یقینا ضروری ہے, مگر پہلے اہلِ سنت کا آپسی اتحاد زیادہ ضروری ہے. اگر یہ ہوجائے تو قوم کے اتحاد پر معلق اکثر فوائد اِسی سے حاصل ہو جائیں گے.*

📌 *یقینا اس کے لیے سعیِ بلیغ اور مثبت عملی اقدام ہونا چاہیے. اور اِس راہ میں اجتماعی مفاد پر انفرادی مفاد یا بڑی جماعت کے مفادات پر چھوٹی ٹولی کے مفادات قربان کرنے میں دریغ نہیں کرنا چاہیے.*

🕯 *یہ اتحاد ضروری بھی ہے اور قابلِ عمل بھی.*

True Story (Must Read).

۔
There was once a man who was an enemy to Islam. He had three famous questions that no person could answer. No Islamic scholar in Baghdad could answer his three questions...thus he made fun of Islam in public. He constantly ridiculed Islam and the Muslims. One day a small boy, who`s age was 10, came along and heard the man yelling and screaming at Muslims in the street. He was challenging people openly to answer the three questions.
The boy stood quietly and watched. He then decided that he would challenge the man. He walked up and told the man, "I will accept your challenge".

The man laughed at the boy and ridiculed the Muslims even more by saying, "A ten year old boy challenges me. Is this all you people have to offer!"

But the boy patiently reiterated his stance. He would challenge the man, and with Allah`s help and guidance, he would put this to an end. The man finally accepted.

The entire city gathered around a small "hill" where open addresses were usually made. The man climbed to the top, and in a loud voice asked his first question.

"What is your God doing right now?"

The small boy thought for a little while and then told the man to climb down the hill and to allow him to go up in order to address the question.

The man says "What? You want me to come down?"

The boy says, "Yes. I need to reply, right?"

The man made his way down and the small boy, age 10, with his little feet made his way up.

This small child`s reply was "Oh Allah Almighty! You be my witness in front of all these people. You have just willed that a Kafir be brought down to a low level, and that a Muslim be brought to a high level!"

The crowd cheered and screamed "Takbir"...."Allah-hu-akbar!!!"

The man was humiliated, but he boldly asked his Second question... "What existed before your God?"

The small child thought and thought.

Then he asked the man to count backwards. "Count from 10 backwards."

The man counted..."10, 9 ,8 , 7 , 6, 5, 4, 3, 2, 1,0"

The boy asked, "What comes before 0 ?"

The man: "I don`t know...nothing."

The boy: "Exactly. Nothing was before Allah, for He is eternal and absolute."

The crowd cheered again...."Takbir!"...."Allah-hu-akbar!!!!"

The man, now completely frustrated, asked his final question. "In which direction is your Allah facing?"

The boy thought and thought.

He then asked for a candle. A candle was brought to him. The blessed child handed it to the man and asked him to light it.

The man did so and remarked, "What is this supposed to prove?"

The young boy asked, "In which direction is light from the candle going?"

The man responded, "It is going in all directions."

The boy: "You have answered your own question. Allah`s light (noor) goes in all directions. He is everywhere. There is no where that He cannot be found.

"The crowd cheered again...."Takbir!"...."Allah-hu-akbar!!!"

The man was so impressed and so moved by the boy`s knowledge and spirituality, that he embraced Islam and became a student of the young boy.

So ended the debate.

Who was the young boy?

The young boy was one of our leaders and one of the greatest scholars, Imam Abu Hanîfa (May Allah bless him).

Your sincere :Dr Fatima Aliv Head of IT  Department , Al-Azhari Community Support Team 

https://www.facebook.com/Al-Azhari-Community-Support-Team-2264047293858500/

عرس عارفی اور اہتمام نماز

عرس کی تقریبات کے جملہ کام اس خانقاہ کے اساتذہ، طلبہ اور خدام مل کر انجام دیتے ہی
تقسیم کار کے تحت ہر ایک گروپ اپنی ذمہ داریوں کو بخوبی نبھاتا ہے. حضور داعی اسلام کی سرپرستی میں جہاں اور کاموں کے لیے گروپنگ ہوتی ہے، وہاں لوگوں کی نمازیں نہ فوت ہو جائیں، طہارت، وضو اور ادائگی نماز میں کسی کو کسی طرح کی دشواری نہ پیش آئے، اس کے لیے بھی چند نفری ایک فعال گروپ تشکیل دی جاتی ہے، جو اذان سے پہلے ہی لوگوں کو طہارت، وضو اور نماز کی تیاری کی دعوت دیتے ہیں، عرس میں آئے ہوئے زائرین، خانقاہ میں موجود دوسرے افراد اور دوکان داروں تک کو بار بار متوجہ کرایا جاتا ہے کہ اب اذان ہونے والی ہے، آپ لوگ نماز کی تیاری کریں. جبکہ اس گروپ کے بعض احباب جا نماز بچھانے اور صف درست کرانے میں لگے ہوتے ہیں. نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ باہر سے آنے والا اور خانقاہ میں موجود ہر فرد جماعت میں شامل ہو جاتا ہے اور کسی کی نماز نہیں چھوٹتی. نماز نہ چھوٹنے کی وجہ یہاں کا حسن انتظام ہے . طہارت اور وضو کے لیے جتنا انتظام یہاں ہے ، اتنا میں نے کہیں اور نہیں دیکھا . ہر لمحہ وافر پانی موجود، طہارت اور وضو خانے بالکل صاف و شفاف ہوتے ہیں تاکہ اپنی ضروریات سے فارغ ہونے والوں کو کسی قسم کی کراہت اور سستی کا سامنا نہ کرنا پڑے. کیوں کہ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ لوگ نماز کے لیے نکلتے ہیں، استنجا اور وضو کے لیے آگے بڑھتے ہیں مگر وہاں کی گندگی ان کی طبیعت کے لیے باعث کراہت ہوتی ہے، جس کی وجہ سے وہ نچاہتے ہوئے بھی لوٹ جاتے ہیں اور نماز ادا نہیں کر پاتے ہیں . یا کبھی یہ ہوتا ہے کہ استنجا اور وضو کا بہتر اور عمدہ انتظام ہوتا ہے مگر جگہ کی قلت یا جانماز نہ بچھے ہونے کی وجہ سے ترک صلات کر بیٹھتے ہیں. 
خانقاہ عارفیہ کا یہ واحد انفرادی مقام ہے کہ یہاں جس جد و جہد کے ساتھ عرس کی دیگر تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے اس سے بڑھ کر محنت اور کوشش ادائے صلات پر کی جاتی ہے. کیوں کہ دیگر تقریبات عرس کا عرفی مقام جو بھی ہو، نماز سے بڑھ کر کوئی عمل نہیں ہے، جس کی ادائگی کے لیے ترک صلات کا ارتکاب کیا جا سکے.
اس باب میں خانقاہ عارفیہ دیگر خانقاہوں اور منتظمین اعراس و جلوس کے لیے رول ماڈل ہے .
کاش لوگ اپنے یہاں کی تقریبات میں شریک ہونے والوں کے کھانے پینے اور بیٹھنے کا جس قدر اہتمام کرتے ہیں اسی قدر طہارت، وضو اور جانماز کے انتظام کے ساتھ ادائگی صلات کا بھی اہتمام کرتے تو ایک بڑا دینی اور دعوتی کام ہوتا.
پیش کش؛ القدس اکیڈمی، داراپٹی، مظفرپور، بہار.
از قلم؛ آفتاب رشک مصباحی
نزیل خانقاہ عارفیہ سید سراواں، الہ آباد
۲۲/ جولائی ۲۰۱۹ء.

چاچا فضلو کی کنواری بیٹی

جیسے ہی میں 2 لاکھ کا نیا آٸ فون خرید کر موباٸل کی دُکان سے باہر نکلا میری نظر ایک شخص پر پڑی جو قربانی کے لۓ جانور خریدکر لے جارہا تھا
یہ منظر دیکھتے ہی میری آنکھوں کے سامنے چاچا فضلو کی اُس کنواری بیٹی کا اُداس چہرہ آگیا جسکے بالوں میں چاندی بلکہ اب تو سونا اُتر آیا تھا اور وہ جہیز نا ھونے کی بدولت کنواری بیٹھی تھی
ساتھ ساتھ ہی مجھے اپنے اُس بوڑھے پڑوسی کا خیال بھی آیا جسکا چولہا کٸ دنوں سے ٹھنڈا پڑا تھا
کیا ہی اچھا ھوتا اگر وہ مسلمان اُس جانور کی قربانی کرنے کی بجاۓ چاچا فضلو کی سونا چاندی جیسی کنواری بیٹی کی شادی کروادیتا یا پھر میرے بوڑھے غریب پڑوسی کو وہ رقم دے دیتا لیکن نہیں
وہ مسلمان انسانیت کو اپنے بیل کے سَمّوں تلے روندتا کُچلتا آگے بڑھ گیا
مسلمانوں کی اِس بے حِسی اور انسانیت کی اِس تزلیل پر میری آنکھوں میں آنسوٶں کا پورا سمندر اُمڈ آیا اور میں تکلیف سے اپنا دِل گُردہ کلیجہ پھیپھڑا سب تھامےوہیں موباٸل شاپ کے باہر بیٹھ گیا اور انسانیت کی اس عظیم تزلیل پر دھاڑیں مار مار کے خوب رویا
ہاۓ ہاۓ انسانیت
اُف اُف انسانیت
اسکے بعد میں نے اپنے روتے تڑپتے پھڑکتے دِل کے ساتھ اپنے اِن عظیم خیالات کو الفاظ کا جامہ بلکہ پورا پاجامہ پہنا کر فیسبُک پر بکھیر دیا
(معصوم مُلحِد کی ڈاٸری کا ایک ورق)
میرے نئے آٸ فون کی پہلی پوسٹ سے اقتباس

اخلاق کے دائرے می‌ رہتے ہوئے اپنا موقف ظاہرکرنا میرا شرعی و قانونی حق ہے

عرس علامہ اختر رضا خاں ازہری علیہ الرحمہ سے قبل ہی ایک تحریر عرس تاج الشریعہ کے حوالے سے شوشل میڈیا پہ گردش کررہی تھی جو سیکڑوں گروپوں سی ہوتی ہوئی مجھ تک پہنچی،اس تحریر کے آخیر میں مقیم رضا سبحانی بریلوی کا نام درج تھاجس میں حضرت کے جنازے کے حوالے لکھاتھا کہ تین دن جنازے کو گھمایا گیا، ظاہر ہے یہ خلاف واقعہ بات ہے، جنازہ تین دن تک مختلف مصالح کے تحت ریفریجریٹر میں روکا ضرور گیا مگر گھمایا نہیں گیا،کسی شاطر دماغ نے صرف مضمون کے بالائی حصے کی اسکرین شات لے کر اسے وائرل کرنا شروع کردیا، مگر مضمون کازیریں حصہ چھپادیاگیا، جس میں اصل محرر کا نام درج تھا، میں اس بے ایمانی کی سخت مذمت کرتا ہوں، دوستوں کے توجہ دلانے پر میں نے فوری طور پر اس پوسٹ کو ڈیلیٹ کردیا تھا اور اسی وقت اس کی مختلف تحریروں سے وضاحت بھی کردی تھی،میرے نزدیک جملہ علما ومشائخ اہل سنت خوردوکلاں واجب التعظیم ہیں، سب کا احترام واکرام لازم وضروری سمجھتاہوں،
البتہ اظہار رائے کی آزادی سب کو حاصل ہے، کسی بھی قومی وملی یاجماعتی مسئلے پر شریعت واخلاق کے دائرے می‌ رہتے ہوئے ہمیشہ اپنا موقف ظاہرکرنا میرا شرعی و قانونی حق ہے، اس سے ہرگز دست بردار نہیں ہوں گا،نہ کوئی مجھے روک سکتا ہے، البتہ کسی کی ذاتی برائی کرنا یا کسی کی کردار کشی کرنا سخت ناپسند کرتا ہوں، جملہ خانقاہیں اور اس کے سجادہ نشینان بشمول کچھوچھہ مقدسہ، مارہرہ شریف،اجمیر شریف، کلیر شریف، دہلی شریف،پنڈوہ شریف،دھام نگر شریف، بلگرام شریف ،کالپی شریف ،مسولی شریف،بہرائچ شریف،مبارک پور شریف،مردآباد شریف،بریلی شریف سبھی اپنے اپنے دائرے میں رہ کر کام کررہے ہیں اور کرتے رہیں گے، مجھے کسی سے اختلاف نہیں، البتہ شوشل میڈیا کے عیاروں مکاروں کا ایک طبقہ جو مجھے بد نام کرنے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتا، بلکہ نئی نئی ترکیبیں ایجاد کرتا رہتا ہے، اس سے میں سخت بیزاری کا اطہار کرتا ہوں اور اس کی مذمت بھی کرتا ہوں.
نوٹ؛ بعض احباب کا اصرار ہواکہ ایک باز مزید اس مسئلے پر وضاحتی بیان جاری کردیں، ان کی خیرجواہی کو دیکھتے ہوئے دفع فتنہ وقطع فساد کے لیےیہ وضاحتی بیان جاری کررہاہوں، اللہ تعالی دلوں کے حال کو بہتر جانتا ہے. اللھم اناالحق حقا ووفقنا لاتباعہ آمین یارب العالمین
فقط بندہ عاصی پر عاصی
مقبول احمد سالک مصباحی
بانی و مہتمم
جامعہ خواجہ قطب الدین بختیار کاکی
نئی دہلی

Sunday, July 21, 2019

کیا علامہ کوثری تفضیلی شیعہ تھے؟؟

تھوڑی دیر پہلے مولانا فقیر المصطفی صاحب نے فیسبک پر کسی شخص کی ایک پوسٹ پر مجھے مینشن کیا, جس پوسٹ میں "مقالاتِ کوثری" کے ٹائٹل پیج اور ایک اندرونی صفحے کی تصویر دے کر یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی تھی کہ قاطعِ رافضیت و وہابیت امام محمد زاہد کوثری مصری رحمہ اللہ (متوفی 1371ھ) سُنی نہیں بلکہ تفضیلی (شیعہ) تھے. !!!! (معاذ اللہ)
اندر کے صفحے کی جو تصویر دی گئی تھی اس میں محرر نے "نجاتِ ابو طالب" اور حضرتِ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی افضلیت یعنی افضلیتِ مولا علی کا اپنا (تفضیلی) عقیدہ ذکر کیا ہے. !!!!
چوں کہ مقالاتِ کوثری کی تصویر دی گئی ہے اس لیے اس معاملے کی وضاحت ضروری ہے تاکہ فریبیوں کے فریب میں آکر کوئی غلط فہمی میں مبتلا نہ ہو جائے.
جس نے بھی امام کوثری کی طرف اسے منسوب کیا ہے اس نے جھوٹ اور دجل و فریب سے کام لیا ہے.
یہ جو تصویر دی گئی ہے اس میں مذکور تحریر امام محمد زاہد کوثری مصری کی نہیں ہے, بلکہ آپ کے شاگرد احمد خیری کی ہے جو پہلے سُنی تھا مگر بعد میں تفضیلی رافضی ہو گیا تھا.
اس تصویر کے ساتھ انگریزی زبان میں جو فیسبک پوسٹ لکھی ہوئی ہے اس میں تفضیلیت والی اِس تحریر کا حوالہ مقالاتِ کوثری ص 434 دیا گیا ہے. !!!
ہم نے "مقالاتِ کوثری" میں حوالہ چیک کیا.
مقالاتِ کوثری کے سبز ٹائٹل والے جس نسخے کا فوٹو اس فیسبک پوسٹ میں دیا گیا ہے اس کے مذکورہ صفحہ یعنی صفحہ 434 پر ایسی کوئی بات نہیں لکھی ہے. !!!
ہم نے مقالاتِ کوثری کے 2 ایڈیشن دیکھے, مگر کسی میں مذکورہ صفحے یا اس کے آس پاس ایسی کوئی تحریر نہیں ہے. !!!!
دراصل یہ تحریر امام کوثری کی ہے ہی نہیں, بلکہ یہ اُن کے شاگرد احمد خیری تفضیلی رافضی کی ہے.
مذکورہ سبز ٹائٹل والے "مقالاتِ کوثری" کے شروع میں احمد خیری کا لکھا ہوا امام کوثری کا تفصیلی تعارف شاملِ کتاب ہے, جو درحقیقت خود ایک مستقل کتاب ہے. اسی تفصیلی تحریر (کتاب) میں احمد خیری نے چھٹی فصل میں اپنے اور امام کوثری کے درمیان تعلقات و معاملات کا تذکرہ کیا ہے اور اسی فصل میں اس نے اپنے بارے میں یہ بات لکھی ہے کہ مَیں نجاتِ ابو طالب کا اور افضلیتِ مولا علی کا قائل ہوں. اور جو تصویر دی گئی ہے اس میں موجود تحریر احمد خیری کی اسی چھٹی فصل کی ہے. مگر تصویر دے کر فریب دینے والے نے یہ چالاکی برتی ہے کہ صفحہ نمبر کی تصویر نہیں آنے دی ہے, ورنہ پوسٹ میں صفحہ نمبر 434 ہے اوراس پر صفحہ نمبر بمشکل 60 یا 70 کے آس پاس ہوتا اور فریب کار کا بھانڈا بآسانی پھوٹ جاتا. !!!
احمد خیری نے اسی تحریر میں یہ بھی کہا ہے کہ افضلیت والے مسئلے پر میری ایک کتاب *"القول الجلی"* ہے. !!!
اہلِ علم جانتے ہیں کہ افضلیت کے مسئلے پر *القول الجلی* نامی کتاب احمد خیری کی ہے. امام کوثری کی اس نام کی کوئی کتاب نہیں ہے. !!!
یہاں دلیلیں اور بھی دی جا سکتی ہیں مگر ان شاء اللہ فریب کار کے فریب کا پردہ چاک کرنے کے لیے اتنا ہی کافی ہے.
حاصل یہ کہ تصویر میں مذکور تحریر امام کوثری کی نہیں ہے, بلکہ ان کے شاگرد احمد خیری کی ہے جو پہلے سُنی تھا مگر بعد میں تفضیلی رافضی ہو گیا تھا.
جس نے بھی یہ فریب کیا ہے اس نے سُنیوں کے زبردست محقق علامہ محمد زاہد کوثری رَحِمَہ اللہ پر بہت بڑا بہتان باندھا ہے.
سیعلم الذین ظلموا أی منقلب ینقلبون
تحریر : نثار مصباحی

نبی ﷺ اعلان نبوت سے پہلے

بعد پڑھے لکھے جاہلوں کا کہنا ہے کی نبی ﷺ اعلان نبوت سے پہلےچالیس سال گمراہ اور علم نہیں تھا معاذاللہ
قران کا ترجمعہ تفسیر لکھنے کے بعد تم جاہلوں کا یہ حال ہے تو تمھارے پیچھے جو بچارے چلیں گے ان کا تو اللہ ہی حافظ ہے پھر۔
کاش کہ کسی صاحب علم سے قران پڑھا ہوتا اور عقائد کا علم حاصل کرتے
جبکہ اللہ قران میں فرماتا ہے پہلے رسولوں کے لیے کہ ضرور ضرور ایمان لانا اس نبیﷺپر۔
سورۃ آل عمران
وَاِذْ اَخَذَ اللّـٰهُ مِيْثَاقَ النَّبِيِّيْنَ لَمَآ اٰتَيْتُكُمْ مِّنْ كِتَابٍ وَّحِكْمَةٍ ثُـمَّ جَآءَكُمْ رَسُولٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهٖ وَلَتَنْصُرُنَّهٝ ۚ قَالَ ءَاَقْرَرْتُـمْ وَاَخَذْتُـمْ عَلٰى ذٰلِكُمْ اِصْرِىْ ۖ قَالُوْا اَقْرَرْنَا ۚ قَالَ فَاشْهَدُوْا وَاَنَا مَعَكُمْ مِّنَ الشَّاهِدِيْنَ (81) فَمَنْ تَوَلّـٰى بَعْدَ ذٰلِكَ فَاُولٰٓئِكَ هُـمُ الْفَاسِقُوْنَ 82
ترجمہ کنزلایمان ؛
اور یاد کرو جب اللہ نے پیغمبروں سے ان کا عہد لیا جو میں تم کو کتاب اور حکمت دوں پھر تشریف لائے تمہارے پاس وہ رسول ﷺ کہ تمہاری کتابوں کی تصدیق فرمائے تو تم ضرور ضرور اس پر ایمان لانا اور ضرور ضرور اس کی مدد کرنا، فرمایا کیوں تم نے اقرار کیا اور اس پر میرا بھاری ذمہ لیا ؟ سب نے عرض کی، ہم نے اقرار کیا، فرمایا تو ایک دوسرے پر گواہ ہو جاؤ اور میں آپ تمہارے ساتھ گواہوں میں ہوں ،
(82) تو جو کوئی اس کے بعد پھرے تو وہی لوگ فاسق ہیں
جب قران میں اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ محبوب یاد فرمائے جب وعدہ لیا اب ان کے بارے میں یہ خیال رکھنا کہ علم نہیں تھا۔
اور نبوت چالیس سال بعد ملی حضرت
بلکہ تمام انبیاء کرام کو نبوت بھی اس شرط سے ملی کہ وہ حضور علیہ الصلوۃ و السلام کی نبوت پر ایمان لائیں گے، تو حضور علیہ السلام تو عالم ارواح میں بھی نبی تھے، اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پتہ تھا بلکہ سب انبیاء کو بھی آپ کی نبوت کا پتہ تھا ۔ چالیس سال کی عمر میں مشیت الہی سے نبوت کا اظہار کیا تھا۔ اسی طرح بہت ساری احادیث سے بھی ثابت ہے کہ آپ کو اپنی نبوت کا علم تھا کہ وہ کب سے نبی ہیں ترمذی شریف میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے پوچھا گیا:
متی وجبت لک النبوة : قال صلی الله عليه و آله وسلم کنت نبيا و آدم بين الروح والجسد
میں اس وقت بھی نبی تھا جب آدم علیہ الصلوۃ و السلام روح اور جسد کے درمیان تھے۔
اور حدیث مبارک میں تو یہاں تک کہ اللہ نے سب سے پہلے میرے نور کو پیدا فرمایا
(حدیث صحیح واردشد کہ اَوَّلُ مَا خَلَقَ اللّٰہُ نُوْرِیْ (مدارج النبوۃ جلد ۲ صفحہ ۲)‘‘
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا، اے جابر! بے شک اللہ تعالیٰ نے تمام اشیاء سے پہلے تیرے نبی کا نور اپنے نور سے پیدا فرمایا، پھر یہ نور اللہ تعالیٰ کی مشیت کے موافق جہاں اس نے چاہا سیر کرتا رہا۔
اور پھر بھی سمحجھ نہ ائے تو یہ وڈیو ہی دیکھ لیں۔
بیان :
علامہ مولانا ڈاکٹر محمد کوکبِ نورانی اوکاڑوی

Featured Post

*زحمت، رحمت اور فطرت* حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی جس کی بھلائی چاہتا ہے اس...