Monday, July 22, 2019

اخلاق کے دائرے می‌ رہتے ہوئے اپنا موقف ظاہرکرنا میرا شرعی و قانونی حق ہے

عرس علامہ اختر رضا خاں ازہری علیہ الرحمہ سے قبل ہی ایک تحریر عرس تاج الشریعہ کے حوالے سے شوشل میڈیا پہ گردش کررہی تھی جو سیکڑوں گروپوں سی ہوتی ہوئی مجھ تک پہنچی،اس تحریر کے آخیر میں مقیم رضا سبحانی بریلوی کا نام درج تھاجس میں حضرت کے جنازے کے حوالے لکھاتھا کہ تین دن جنازے کو گھمایا گیا، ظاہر ہے یہ خلاف واقعہ بات ہے، جنازہ تین دن تک مختلف مصالح کے تحت ریفریجریٹر میں روکا ضرور گیا مگر گھمایا نہیں گیا،کسی شاطر دماغ نے صرف مضمون کے بالائی حصے کی اسکرین شات لے کر اسے وائرل کرنا شروع کردیا، مگر مضمون کازیریں حصہ چھپادیاگیا، جس میں اصل محرر کا نام درج تھا، میں اس بے ایمانی کی سخت مذمت کرتا ہوں، دوستوں کے توجہ دلانے پر میں نے فوری طور پر اس پوسٹ کو ڈیلیٹ کردیا تھا اور اسی وقت اس کی مختلف تحریروں سے وضاحت بھی کردی تھی،میرے نزدیک جملہ علما ومشائخ اہل سنت خوردوکلاں واجب التعظیم ہیں، سب کا احترام واکرام لازم وضروری سمجھتاہوں،
البتہ اظہار رائے کی آزادی سب کو حاصل ہے، کسی بھی قومی وملی یاجماعتی مسئلے پر شریعت واخلاق کے دائرے می‌ رہتے ہوئے ہمیشہ اپنا موقف ظاہرکرنا میرا شرعی و قانونی حق ہے، اس سے ہرگز دست بردار نہیں ہوں گا،نہ کوئی مجھے روک سکتا ہے، البتہ کسی کی ذاتی برائی کرنا یا کسی کی کردار کشی کرنا سخت ناپسند کرتا ہوں، جملہ خانقاہیں اور اس کے سجادہ نشینان بشمول کچھوچھہ مقدسہ، مارہرہ شریف،اجمیر شریف، کلیر شریف، دہلی شریف،پنڈوہ شریف،دھام نگر شریف، بلگرام شریف ،کالپی شریف ،مسولی شریف،بہرائچ شریف،مبارک پور شریف،مردآباد شریف،بریلی شریف سبھی اپنے اپنے دائرے میں رہ کر کام کررہے ہیں اور کرتے رہیں گے، مجھے کسی سے اختلاف نہیں، البتہ شوشل میڈیا کے عیاروں مکاروں کا ایک طبقہ جو مجھے بد نام کرنے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتا، بلکہ نئی نئی ترکیبیں ایجاد کرتا رہتا ہے، اس سے میں سخت بیزاری کا اطہار کرتا ہوں اور اس کی مذمت بھی کرتا ہوں.
نوٹ؛ بعض احباب کا اصرار ہواکہ ایک باز مزید اس مسئلے پر وضاحتی بیان جاری کردیں، ان کی خیرجواہی کو دیکھتے ہوئے دفع فتنہ وقطع فساد کے لیےیہ وضاحتی بیان جاری کررہاہوں، اللہ تعالی دلوں کے حال کو بہتر جانتا ہے. اللھم اناالحق حقا ووفقنا لاتباعہ آمین یارب العالمین
فقط بندہ عاصی پر عاصی
مقبول احمد سالک مصباحی
بانی و مہتمم
جامعہ خواجہ قطب الدین بختیار کاکی
نئی دہلی

Sunday, July 21, 2019

کیا علامہ کوثری تفضیلی شیعہ تھے؟؟

تھوڑی دیر پہلے مولانا فقیر المصطفی صاحب نے فیسبک پر کسی شخص کی ایک پوسٹ پر مجھے مینشن کیا, جس پوسٹ میں "مقالاتِ کوثری" کے ٹائٹل پیج اور ایک اندرونی صفحے کی تصویر دے کر یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی تھی کہ قاطعِ رافضیت و وہابیت امام محمد زاہد کوثری مصری رحمہ اللہ (متوفی 1371ھ) سُنی نہیں بلکہ تفضیلی (شیعہ) تھے. !!!! (معاذ اللہ)
اندر کے صفحے کی جو تصویر دی گئی تھی اس میں محرر نے "نجاتِ ابو طالب" اور حضرتِ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی افضلیت یعنی افضلیتِ مولا علی کا اپنا (تفضیلی) عقیدہ ذکر کیا ہے. !!!!
چوں کہ مقالاتِ کوثری کی تصویر دی گئی ہے اس لیے اس معاملے کی وضاحت ضروری ہے تاکہ فریبیوں کے فریب میں آکر کوئی غلط فہمی میں مبتلا نہ ہو جائے.
جس نے بھی امام کوثری کی طرف اسے منسوب کیا ہے اس نے جھوٹ اور دجل و فریب سے کام لیا ہے.
یہ جو تصویر دی گئی ہے اس میں مذکور تحریر امام محمد زاہد کوثری مصری کی نہیں ہے, بلکہ آپ کے شاگرد احمد خیری کی ہے جو پہلے سُنی تھا مگر بعد میں تفضیلی رافضی ہو گیا تھا.
اس تصویر کے ساتھ انگریزی زبان میں جو فیسبک پوسٹ لکھی ہوئی ہے اس میں تفضیلیت والی اِس تحریر کا حوالہ مقالاتِ کوثری ص 434 دیا گیا ہے. !!!
ہم نے "مقالاتِ کوثری" میں حوالہ چیک کیا.
مقالاتِ کوثری کے سبز ٹائٹل والے جس نسخے کا فوٹو اس فیسبک پوسٹ میں دیا گیا ہے اس کے مذکورہ صفحہ یعنی صفحہ 434 پر ایسی کوئی بات نہیں لکھی ہے. !!!
ہم نے مقالاتِ کوثری کے 2 ایڈیشن دیکھے, مگر کسی میں مذکورہ صفحے یا اس کے آس پاس ایسی کوئی تحریر نہیں ہے. !!!!
دراصل یہ تحریر امام کوثری کی ہے ہی نہیں, بلکہ یہ اُن کے شاگرد احمد خیری تفضیلی رافضی کی ہے.
مذکورہ سبز ٹائٹل والے "مقالاتِ کوثری" کے شروع میں احمد خیری کا لکھا ہوا امام کوثری کا تفصیلی تعارف شاملِ کتاب ہے, جو درحقیقت خود ایک مستقل کتاب ہے. اسی تفصیلی تحریر (کتاب) میں احمد خیری نے چھٹی فصل میں اپنے اور امام کوثری کے درمیان تعلقات و معاملات کا تذکرہ کیا ہے اور اسی فصل میں اس نے اپنے بارے میں یہ بات لکھی ہے کہ مَیں نجاتِ ابو طالب کا اور افضلیتِ مولا علی کا قائل ہوں. اور جو تصویر دی گئی ہے اس میں موجود تحریر احمد خیری کی اسی چھٹی فصل کی ہے. مگر تصویر دے کر فریب دینے والے نے یہ چالاکی برتی ہے کہ صفحہ نمبر کی تصویر نہیں آنے دی ہے, ورنہ پوسٹ میں صفحہ نمبر 434 ہے اوراس پر صفحہ نمبر بمشکل 60 یا 70 کے آس پاس ہوتا اور فریب کار کا بھانڈا بآسانی پھوٹ جاتا. !!!
احمد خیری نے اسی تحریر میں یہ بھی کہا ہے کہ افضلیت والے مسئلے پر میری ایک کتاب *"القول الجلی"* ہے. !!!
اہلِ علم جانتے ہیں کہ افضلیت کے مسئلے پر *القول الجلی* نامی کتاب احمد خیری کی ہے. امام کوثری کی اس نام کی کوئی کتاب نہیں ہے. !!!
یہاں دلیلیں اور بھی دی جا سکتی ہیں مگر ان شاء اللہ فریب کار کے فریب کا پردہ چاک کرنے کے لیے اتنا ہی کافی ہے.
حاصل یہ کہ تصویر میں مذکور تحریر امام کوثری کی نہیں ہے, بلکہ ان کے شاگرد احمد خیری کی ہے جو پہلے سُنی تھا مگر بعد میں تفضیلی رافضی ہو گیا تھا.
جس نے بھی یہ فریب کیا ہے اس نے سُنیوں کے زبردست محقق علامہ محمد زاہد کوثری رَحِمَہ اللہ پر بہت بڑا بہتان باندھا ہے.
سیعلم الذین ظلموا أی منقلب ینقلبون
تحریر : نثار مصباحی

نبی ﷺ اعلان نبوت سے پہلے

بعد پڑھے لکھے جاہلوں کا کہنا ہے کی نبی ﷺ اعلان نبوت سے پہلےچالیس سال گمراہ اور علم نہیں تھا معاذاللہ
قران کا ترجمعہ تفسیر لکھنے کے بعد تم جاہلوں کا یہ حال ہے تو تمھارے پیچھے جو بچارے چلیں گے ان کا تو اللہ ہی حافظ ہے پھر۔
کاش کہ کسی صاحب علم سے قران پڑھا ہوتا اور عقائد کا علم حاصل کرتے
جبکہ اللہ قران میں فرماتا ہے پہلے رسولوں کے لیے کہ ضرور ضرور ایمان لانا اس نبیﷺپر۔
سورۃ آل عمران
وَاِذْ اَخَذَ اللّـٰهُ مِيْثَاقَ النَّبِيِّيْنَ لَمَآ اٰتَيْتُكُمْ مِّنْ كِتَابٍ وَّحِكْمَةٍ ثُـمَّ جَآءَكُمْ رَسُولٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهٖ وَلَتَنْصُرُنَّهٝ ۚ قَالَ ءَاَقْرَرْتُـمْ وَاَخَذْتُـمْ عَلٰى ذٰلِكُمْ اِصْرِىْ ۖ قَالُوْا اَقْرَرْنَا ۚ قَالَ فَاشْهَدُوْا وَاَنَا مَعَكُمْ مِّنَ الشَّاهِدِيْنَ (81) فَمَنْ تَوَلّـٰى بَعْدَ ذٰلِكَ فَاُولٰٓئِكَ هُـمُ الْفَاسِقُوْنَ 82
ترجمہ کنزلایمان ؛
اور یاد کرو جب اللہ نے پیغمبروں سے ان کا عہد لیا جو میں تم کو کتاب اور حکمت دوں پھر تشریف لائے تمہارے پاس وہ رسول ﷺ کہ تمہاری کتابوں کی تصدیق فرمائے تو تم ضرور ضرور اس پر ایمان لانا اور ضرور ضرور اس کی مدد کرنا، فرمایا کیوں تم نے اقرار کیا اور اس پر میرا بھاری ذمہ لیا ؟ سب نے عرض کی، ہم نے اقرار کیا، فرمایا تو ایک دوسرے پر گواہ ہو جاؤ اور میں آپ تمہارے ساتھ گواہوں میں ہوں ،
(82) تو جو کوئی اس کے بعد پھرے تو وہی لوگ فاسق ہیں
جب قران میں اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ محبوب یاد فرمائے جب وعدہ لیا اب ان کے بارے میں یہ خیال رکھنا کہ علم نہیں تھا۔
اور نبوت چالیس سال بعد ملی حضرت
بلکہ تمام انبیاء کرام کو نبوت بھی اس شرط سے ملی کہ وہ حضور علیہ الصلوۃ و السلام کی نبوت پر ایمان لائیں گے، تو حضور علیہ السلام تو عالم ارواح میں بھی نبی تھے، اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پتہ تھا بلکہ سب انبیاء کو بھی آپ کی نبوت کا پتہ تھا ۔ چالیس سال کی عمر میں مشیت الہی سے نبوت کا اظہار کیا تھا۔ اسی طرح بہت ساری احادیث سے بھی ثابت ہے کہ آپ کو اپنی نبوت کا علم تھا کہ وہ کب سے نبی ہیں ترمذی شریف میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے پوچھا گیا:
متی وجبت لک النبوة : قال صلی الله عليه و آله وسلم کنت نبيا و آدم بين الروح والجسد
میں اس وقت بھی نبی تھا جب آدم علیہ الصلوۃ و السلام روح اور جسد کے درمیان تھے۔
اور حدیث مبارک میں تو یہاں تک کہ اللہ نے سب سے پہلے میرے نور کو پیدا فرمایا
(حدیث صحیح واردشد کہ اَوَّلُ مَا خَلَقَ اللّٰہُ نُوْرِیْ (مدارج النبوۃ جلد ۲ صفحہ ۲)‘‘
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا، اے جابر! بے شک اللہ تعالیٰ نے تمام اشیاء سے پہلے تیرے نبی کا نور اپنے نور سے پیدا فرمایا، پھر یہ نور اللہ تعالیٰ کی مشیت کے موافق جہاں اس نے چاہا سیر کرتا رہا۔
اور پھر بھی سمحجھ نہ ائے تو یہ وڈیو ہی دیکھ لیں۔
بیان :
علامہ مولانا ڈاکٹر محمد کوکبِ نورانی اوکاڑوی

صاحب ہدایہ کا امت مسلمہ پر احسان عظیم ہے

پونہ۔۲؍ستمبر۔روشن مسجد، بھوانی پیٹھ ،پوناکے ایک وسیع و عریض ہال میں حضرت عثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہ اور صاحب ہدایہ علیہ الرحمہ کے یوم وصال کے موقع پر اپنی نوعیت کا ایک منفرد اورعظیم الشان پروگرام کا انعقاد عمل میں آیا ،جس کی قیادت و سرپرستی قائد اہل سنت حضرت مولانا ایوب اشرفی صاحب قبلہ نے فرمائی۔ حضرت مولانا غلام محمد صاحب خطیب و امام روشن مسجد نے نظامت کی ذمہ داری کے فرائض انجام دیے۔ پروگرام کا آغاز تلاوت کلام سے ہوا،بعدہ‘ نعت خواں حضرات نے حمد ونعت پیش کیے۔بعد ازاں علامہ سید احمد غوری صاحب حیدرآبادی نے حضرت عثمان ذوالنورین رضی اللہ تعالیٰ کے اولیات و خصوصیات پرایک جامع اور پُر مغز خطاب فرمایا۔آپ نے فرمایا کہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو صحابۂ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین میں کئی وجہوں سے اولیات و خصوصیات حاصل تھیں۔اول تو یہ کہ اللہ کے پیارے رسول ﷺ نے اپنی دو صاحب زادیوں کویکے بعد دیگرے آپ کے نکاح میں دیا۔یہ وہ شرفِ عظیم ہے،جوآپ کو حاصل ہوا، کسی دیگر صحابی کو حاصل نہ ہوسکا ۔اسی لیے آپ کو ذوالنورین کہاجاتاہے۔ آپ پہلے ایسے صحابی ہیں ، جنہوں نے اسلام کی خاطر دوہجرتیں فرمائیں،اس کے لیے آپ کو ذوالہجرتین کہاجاتاہے۔ آپ کی ایک خصوصیت و اولیت یہ بھی ہے کہ آپ کامل الحیاء والایمان کے عظیم لقب سے بھی جانے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی آپ کے بے شمار خصوصیات و امتیازات ہیں، جن سے آپ کے مقام و مرتبہ کا پتہ چلتا ہے۔
علامہ موصوف نے ہدایہ اور صاحب ہدایہ پر اپنے خطاب میں فرمایا کہ علامہ برہان الدین مرغینانی علیہ الرحمہ کا امتِ مسلمہ پر بے پناہ احسان عظیم ہے کہ آپ نے قوم و ملت کی شرعی و فقہی رہ نمائی کے لیے قرآن و احادیث سے مسائل و احکام کا استخراج و اسنباط کیا اور گراں قدر کتابیں تصنیف فرمائیں۔آپ کی تصنیف کردہ کتابوں کی تعداد بے شمار ہیں، جن میں سب سے زیادہ شہرۂ آفاق تصنیف ’’الہدایہ‘‘ ہے ، جوامام محمد علیہ الرحمہ کی ’’الجامع الصغیر‘‘ اور امام قدروری علیہ الرحمہ کی’’ المختصرالقدوری‘‘کے مسائل و احکام کا ایک دل آویز مجموعہ ہے۔یہ فقہ حنفی کا ایک عظیم شاہ کاراور انسائیکلو پیڈیا ہے۔
اس کے علاوہ ابھرتے ہوئے معروف قلم کار مولانا محسن رضا ضیائی صاحب نے ہدایہ اور صاحب ہدایہ پر ایک طویل اور تحقیقی مقالہ پیش کیا ،مقالہ کے آخر میں آپ نے اس حوالے سے اصحاب علم و فضل اور اربابِ علم و دانش کی خدمت میں چند اہم معروضات پیش کیں کہ صاحب ہدایہ علامہ مرغینانی علیہ الرحمہ جماعت اہل سنت کی ایک فراموش کردہ شخصیت ہے۔ حالاں کہ آپ کا علمی تبحر ، فقہی بصیرت اور کئی علوم و فنون میں حیرت انگیز مہارت سبھی کے نزدیک مسلم ہے۔آپ کی دینی، علمی، فقہی اورتصنیفی خدمات کا دائرہ بھی کافی وسیع ہے۔لیکن حیف صد حیف کہ ہم ان حقائق کے باوجود ایک عبقری اور ہمہ جہت شخصیت کا تعارف عوام و خواص کے درمیان نہیں کراسکے ہیں ۔لہذااب وقت ہے کہ ایسی علمی اور آفاقی شخصیت کا تعارف کرایا جائے، جس کے لیے سب سے مؤثرطریقہ یہ ہے کہ کالیجیز اور یونی ورسٹیز میں زیرِ تعلیم ایم اے، ایم فل اور پی ایچ ڈی کے طلبااپنے مقالات کے لیے ہدایہ اور صاحب ہدایہ کواپناموضوعِ تحقیق بنائیں ۔ اس سے صاحب ہدایہ علیہ الرحمہ کی ذات و شخصیت پر جہاں تحقیق و تدقیق کا ایک گراں بہاکام ہوگا، وہیں سائنٹفک اور مستند انداز میں آپ کی شخصیت کا قدرے تعارف بھی پیش ہوجائے گا۔تیسرا سب سے اہم فائدہ یہ ہوگاکہ فقہ حنقی کا عظیم سرمایہ عوام و خواص کے درمیان جدید انداز و اسلوب میں سامنے آئے گا،جو جدیداور عصری تقاضوں کو محیط ہوگا۔٭دوسرا معروضہ یہ ہے کہ آپ کی شخصیت پر کالیجیز ،یونی ور سٹیزاور مدارس میں سیمنارز،کمپیٹیشنزاور کانفرنسیز کا انعقاد عمل میں لایا جائے۔٭ تیسرا اور آخری معروضہ یہ ہے کہ آپ کی جملہ کتب پرتحقیق و تخریج اور تسہیل و ترتیب کا جدید اور سائنٹفک انداز و اسلوب میں کام کرکے ان کی اشاعتِ جدید کی جائے۔
مقالے کی افادیت و جامعیت کے پیشِ نظر پروگرام کی روح رواں شخصیت حضرت مولانا عارف اشرفی صاحب نے فرمایا کہ ان شاء اللہ اس مقالے کو جلد ہی ایک کتابی شکل میں منظر عام پرلایا جائے گا۔
اخیر میں صلوٰۃ و سلام ہوا اور پھر حضرت مولانا ایوب اشرفی صاحب قبلہ کی رقت انگیز دعا پر ایک کامیاب جلسہ کا اختتام ہوا۔اس موقع پر شہر پونا کے جملہ 
علما، ائمہ ، اسکول اور کالیجیز کے اساتذہ و طلبا بڑی تعداد میں موجود تھے۔
۔علامہ سید احمد غوری
روشن مسجد،بھوانی پیٹھ پونہ میں ایک شاندار پروگرام کا کامیاب انعقاد


عمدہ گفتگو

 دنیا بھر میں اور خصوصاً جنوبی ایشیا میں کچھ عرصہ پہلے تک تقریباً سبھی مسلمان اچھی طرح جانتے تھے کہ اہلِ تصوف کا سماع نہ کوئی تفریحی سرگرمی ہے، نہ ہی کوئی ثقافتی مظاہرہ. اور یہ بھی واضح تھا کہ اس کا مقصد تفنن طبع بھی نہیں. اہل تصوف کے لیے سماع کی حیثیت وہ نہیں ہے جو مثلاً ایک عام باذوق شخص کے لیے محفل موسیقی کی ہوتی ہے. سماع حصولِ لذتِ ظاہر کا ذریعہ نہیں، ایک شیوہء طریقت ہے جس کی معنویت صوفیہ کے حلقوں میں غیر معمولی اہمیت کی حامل ہے. سماع صوفیہ کے لیے اپنی کوتاہیوں اور محرومیوں پر نوحہ و زاری ہے. غم و اندوہ کے دنوں میں باطنی حزن و ملال کے اظہار کی ممانعت کیسے ہو سکتی ہے؟ اسی احترام اور باہمی محبت کی وجہ سے بہت سے دیگر مسالک کے سلجھے ہوئے افراد بھی محافل سماع میں شرکت کرتے تھے اور اب بھی بہت سے لوگ یہ عملِ خیر انجام دیتے ہیں، اگرچہ یہ تعداد روز بہ روز کم ہوتی جاتی ہے. اگر صوفیوں میں سے کچھ لوگ سماع کو عام محفل موسیقی ہی سمجھتے ہیں تو وہ غلطی پر ہیں. انھیں اپنے فکر و عمل کی اصلاح کرنی چاہیے. اگر سماع کے آداب ملحوظ نہیں رکھے جاتے ہیں تو یہ بھی بالکل غلط ہے. آداب کے ساتھ ہو تو سماع ہے ورنہ عام محفل موسیقی سے بھی بد تر ہے. نیز اہل تصوف کو یہ ادراک، اعتراف اور اظہار بھی کرتے رہنا چاہیے کہ سماع کسی صوفی پر بھی فرض نہیں ہے اور نہ ہی دین کا حصہ ہے. انگریزوں نے اپنے استعماری مقاصد کے حصول کے لیے مختلف اسلامی مسالک میں دوریوں کو فروغ دیا جس میں مختلف زمانوں میں مختلف عالمی چال بازیوں کی وجہ سے شدت آتی گئی. گزشتہ دو تین عشروں سے اہل تصوف اپنے بہت سے ہم دردی رکھنے والوں سے محروم ہوتے جا رہے ہیں. اب اہل تصوف کسی مسلمان کو مشرک لگتے ہیں، کسی کو بدعتی، کسی کو گمراہ، کسی کو اہل بیت کے غالی عقیدت مند، کسی کو غمِ حسین کا احترام نہ کرنے والے، کسی کو جاہل اور کسی کو بے عمل لگنا شروع ہو گئے ہیں. اہل تصوف کا دامن ان تمام تہمتوں سے بری ہے. البتہ صوفیہ کی صفوں میں بھی کم پڑھے لکھے اور عقائد و اعمال میں کوتاہی کرنے والے لوگ ہیں اور اس صورت حال سے کوئی مسلک بھی محفوظ نہیں ہے. پروفیسر معین نظامی صاحب دام ظلہ

Follow on F.B.

https://www.facebook.com/nooruddin.misbahi

Saturday, July 20, 2019

جینا ہے تو لڑنا سیکھیں

جینا ہے تو لڑنا سیکھیں !!!
احساس نایاب ( شیموگہ, کرناٹک )
کچھ قصے کہانیاں اتنی سبق آموز ہوتی ہیں کہ انسان کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیتی ہیں اور بہت کچھ سکھا بھی جاتی ہیں اسی طرح کی ایک کہانی آج صبح ہم بھی سُنی جس میں مسلمانوں کے موجودہ حالات کی عکاسی تھی جس کے مدنظر آپ سبھی کے ساتھ شئر کرنا ہم نے ضروری سمجھا.
کہانی کا آغاز وہاں سے ہوتا ہے جب گِدھوں کا ایک بڑا سا جھنڈ کھانے کی تلاش میں اُڑتا ہوا ایک ٹاپو پر پہنچتا ہے جہاں ڈھیر ساری مچھلیاں اور چھوٹے , کمزور جانوروں کی بھرمار تھی اور تو اور وہاں پہ کوئی جنگلی جانور بھی نہیں تھے جس سے انہیں خطرہ محسوس ہو .
یہ دیکھ کر سبھی گِدھ بہت خوش ہوگئے اور سبھی نے وہیں پہ رہنے کا فیصلا کرلیا.
وقت یونہی گذرتا جارہا تھا کسی بات کی فکر نہ تھی , زندگی بڑے ہی مزے و آرام سے گزر رہی تھی 
لیکن ایک دن اچانک بزرگ گِدھ کو احساس ہوا کہ اس ٹاپو پہ آنے کے بعد سارے نوجوان گدھ سُست, آلسی ہوچکے ہیں آرام دہ زندگی کے اتنے عادی ہوچکے ہیں کہ اپنی حقیقی پہچان کھو کر بزدل اور کمزور ہوتے جارہے ہیں نہ ان میں شکار کرنے کی صلاحیت بچی ہے نہ ہی یہ اڑان بھرنے کے قابل ہیں بس مرغیوں کی طرح زمین پہ چلتے پھرتے آسان غذا چگنے کے عادی بن گئے ہیں.
جیسے ہی اس بات کا احساس ہوا بزرگ گدھ مستقبل کو لے کر فکرمند ہوگیا وہ پریشانی کی حالت میں تمام نوجوان گِدھوں کو بلا کر سمجھانے لگا "کہ ابھی ہمیں خود کو بدلنا ہوگا اپنے اس کمفرٹ زون آرام دہ زندگی سے باہر نکل کر حقیقی دنیا میں اپنی حقیقی پہچان کو واپس حاصل کرنے کی جدوجہد کرنی ہوگی ورنہ مستقبل میں کوئی بھی ناگہانی آفت درپیش آگئی تو ہم اُس کا مقابلہ نہیں کرپائینگے. اس لئے ہماری بہتری اسی میں ہے کہ ہم واپس اپنی پرانی جگہ لوٹ چلتے ہیں وہاں پہ ہم جدوجہد کے ساتھ اپنی حقیقی زندگی جئیں گے جس سے ہم دوبارہ مشکلات کا سامنا کرنے کے قابل بن سکتے ہیں ...... 
بزرگ گدھ کی بات سن کر سارے نوجوان گدھ اُس کا مذاق اڑانے لگے اُس پہ لعن طعن کرتے ہوئے اُس کی رائے کو سرے سے نکار دیا گیا .
لیکن بزرگ گدھ سبھی کی مخالفت کے باوجود اپنے فیصلے پہ اٹل تھا........
وہ ٹاپو کو چھوڑ کر اپنی پرانی جگہ پہ واپس لوٹ آیا. 
کئی دن گذرنے کے بعد ایک دن بزرگ گدھ کو شدت سے اپنے ساتھیوں کی یاد آنے لگی تو وہ ملاقات کی نیت سے ٹاپو ہر پہنچا لیکن آج وہاں کا سارا نقشہ ہی بدلا ہوا تھا سارا ٹاپو لہولہان ہوچکا تھا, نوجوان گدھ زخمی حالت میں خون سے تربتر زمین پہ پڑے کررا رہے تھے اور کئی جان بحق ہوچکے تھے. اس منظر کو دیکھ بزرگ گدھ ہکا بکا پریشان ہوکر زخمی گدھوں سے وجہ دریافت کرنے لگا تو پتہ چلا کہ دو دن پہلے ٹاپو کے پاس ایک جہاز آکر رکا اُس میں سے کئی جنگلی کتوں کو ٹاپو پہ چھوڑا گیا, پہلے تو چنگلی کُتوں نے ڈر کر گدھوں پہ حملہ نہیں کیا لیکن جب انہیں احساس ہوا کہ ان گدھوں میں گدھ والی کوئی صلاحیت صفات نہیں بچی کے وہ اپنی دفا کے لئے لڑسکیں یا اُڑان بھر سکیں تو وہ ایک کہ بعد ایک تمام گدھوں پہ حملہ آور ہوگئے اور سبھی گِدھوں کو زیرِزمین کردیا.
اُس وقت ہمیں یہ احساس ہوا کہ خطروں سے گھبراکر بزدلی والی آرام دہ زندگی کا انتخاب کرنا ہماری سب سے بڑی بیوقوفی تھی ............

آج مسلمانوں کا حال ہوبہو ان بزدل آلسی گدھوں سا ہوگیا ہے. 
ایک دور تھا جب ہماری پہچان محمد بن قاسم, صلاحدین ایوبی و ٹیپوسلطان جیسے جنگجو سپاہیوں سے کی جاتی تھی جن کی فتح کے ڈنکے ساری دنیا میں بج رہے تھے.
جن کی بہادری , دلیری عدل و انصاف کے قصے دشمنان اسلام کی زبانوں پر تھے آج وہی مسلمان اپنے حق و انصاف کے خاطر اوروں کے محتاج ہیں, اپنی اصل پہچان کھو کر زمین پہ رینگنے والے بنا ریڈھ کی ہڈی کے جاندار بن چکے ہیں اور ہماری اس بزدلی کی وجہ سے دشمن کبھی ہمارے گھروں میں گھس کر ہماری باحیا پردی نشین بہنوں کی عزتیں پامال کررہے ہیں تو کبھی 8 سالہ عظیم اور آصفہ جیسے معصوم  بچوں کو روندھ رہے ہیں تو کبھی گلیوں, چوراہوں پہ ہمارے بزرگوں کی داڑھیاں نوچی جارہی ہیں . 
کہیں کسی پہلو خان و جنید کو جانور کے نام پہ قتل کیا جارہا ہے تو کہیں بےگناہ افرزول کو زندہ آگ میں جلایا جارہا ہے .
دن بہ دن ان دہشتگرد سنگھیوں کے حوصلے اتنے بلند ہوچکے ہیں کہ اب یہ وندے ماترم اور جئے شری رام و جئے ہنومان کے نعرے لگاتے ہوئے کسی پر بھی جنگلی کتوں کی طرح جھپٹ پڑتے ہیں اور تبریز انصاری , ثنااللہ جیسے ناجانے کتنے ہی بےگناہ نوجوانوں کو تڑپا تڑپا کر قتل کیا جارہا ہے.

اُس پہ ستم ظریفی تو دیکھیں مظلوم ہونے کے باوجود مسلم نوجوانوں کو ہی گنہگار ٹہرا کر کھٹکھڑے میں کھڑا کیا جاتا ہے انصاف کا مطالبہ کرنے پہ گرفتار کرکے سالوں سال جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈھکیل دیا جاتا ہے یا پولس کسٹڈی میں ان کا جھوٹا اینکاؤنٹر کردیا جاتا ہے اور اس ظلم و بربریت کے خلاف آواز اٹھانے , سنگھیوں کے آگے للکارنے والے چند مٹھی بھر بیباک صحافیوں اور مفتی رئیس احمد قاسمی جیسے رہنماؤں کی آواز کو خود ہمارے اپنے ہی دبانے کی کوشش کررہے ہیں یہ کہہ کر کہ ملک میں انتشار پھیلنے , نفرت کی آگ بھڑکنے کا خدشہ ہے 
آج ہمارا ان سبھی امن کا پیغام دینے والے امن دھوتوں سے سوال ہے 
آج ہندوستان میں ایسا کونسا علاقہ بچا ہے یا کونسی جگہ بچی ہے جہاں مسلمانوں پہ امن پیار محبت کے پھول کھل رہے ہوں؟ ایسی کونسی جگہ ہے جہاں مسلمانوں و اقلیتوں پہ تشدد نہ کیا جارہا ہو ؟
اُن کے حقوق سلب نہ کئے جارہے ہوں ؟
دن دہاڑے کھُلے عام مسلم نوجوانوں کا نرسنگھار نہ ہورہا ہو ؟؟
بلکہ آشرموں سے لے کر مندروں میں تک عورتوں , بچیوں کے ساتھ درندگی کا ننگا ناچ کھیلا جارہا ہے, بے گناہوں کے خون سے ہولی کھیلی جارہی ہے. 
ایسے میں کس امن کس اتحاد اور کونسے حسن سلوک کی بات کی جارہی ہے ؟
رہنے ہی دی جئیے اگر حسن سلوک, نام اتحاد پہ ہمیں اپنے بچوں, عورتوں, بےگناہ نوجوانوں اور اپنے ایمان کی قربانی دینی ہے تو دفعہ کریں ایسے حسن سلوک کو,  خاک ڈالیں ایسے اتحاد پہ .
اگر بزدلی کا چولا پہننا ہی حکمت و صبر کی علامت ہے تو اُتار پھینکے ایسے چولے کو, اگر تھوڑی سی بھی غیرت باقی ہے اور ضمیر زندہ ہے تو ظلم کے خلاف آواز بلند کریں, مظلوموں کے حق کے خاطر سپاہی کی طرح لڑنے مرنے کے لئے تیار ہوجائیں ورنہ زنانا لباس پہن کر اپنے گھروں میں چھُپ جائیں. 
کیونکہ جو ظلم کے خلاف آواز تک نہ اٹھا سکیں ایسے بزدلوں کا سماج میں محض مردانہ لباس میں گھومنا کسی بھی قوم کی خواتین کے لئے باعث شرم ہے. 
آج ملک میں جو حالات پیش آرہے ہیں 
اب تو ہر انسان کا ایک ایک پل خوف کے سائے میں گذر رہا ہے,صبح گھر سے نکلتے ہیں تو اس بات کا یقین نہیں رہتا کہ شام میں اپنوں کو دوبارہ دیکھ پائینگے بھی یا نہیں . ملک کی آب و ہوا میں نفرت کا زہر گھول کر اس قدر خوفناک بنادیا گیا ہے کہ ہر چہرہ پہ ڈر ہر آنکھ اُداس , ہر دل مایوس و ناامید ہے 
اور اس طرح کے حالات صرف ظالم کے ظلم کی وجہ سے نہیں ہوتے بلکہ مظلوم کی خاموشی بھی برابر کی ذمہ دار ہوتی ہے کیونکہ کوئی بھی ہم پہ اُس وقت حاوی نہیں ہوسکتا جب تک ہم اُس کو موقعہ نہ دیں,  جہاں اللہ سبحان تعالیٰ نے اپنے بندوں کو بہتر طریقے سے زندگی گزارنے کے خاطر کئی قسم کی مثالیں پیش کی ہیں لیکن افسوس کے ہم اپنی جہالت میں دیکھ کر بھی نظرانداز کررہے ہیں جبکہ ایک چونٹی بھی ہاتھی پہ بھاری پڑجاتی ہے ایک حقیر سا کیڑا بھی اپنی دفا کے لئے حملہ آور ہوجاتا ہے لیکن ہم اُس چونٹی اور کیڑے سے بھی گئے گذرے ہوچکے ہیں اور ان حالات میں مسلمانوں کی قیادت کا دم بھرنے والے ملی و سیاسی قائدین تماشبین بن کر محض مذمتی بیانات جاری کرنے کو ہی اپنا اہم فریضہ سمجھ بیٹھے ہیں جبکہ ان کا فرض ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی رہنمائ سے مایوس ناامید مسلمانوں کے اندر جوش, ہمت و حوصلے کی نئی روح پھونکیں, حالات سے نمٹنے کے لئے جگہ جگہ اپنی قیادت میں دلیر نوجوانوں کی ٹیم بنائیں , انہیں ہر ناگہانی صورت حال سے نپٹنے کے لئے تیار کریں 
لیکن افسوس کہ آج ہمارے رہنماء قائد ہی ہمیں مضبوط بنانے ایک جُٹ کرنے کے بجائے اپنے اختلافی بیانات سے توڑنے اور کمزور کرنے میں لگے ہیں صبر و حکمت کے نام پہ نوجوانوں کے حوصلوں کو  پست کیا جارہا ہے

اور ہماری اس بزدلی , مفادپرستی و منافقت سے سنگھی بخوبی واقف ہیں انہیں یقین ہوچکا ہے کہ آج کا مسلمان مکمل ذہنی اپاہج ہے نہ یہ اپنی دفا میں لڑسکتا ہے نہ ہی اپنوں کی حفاظت کرسکتا ہے بلکہ اس کی حالت اتنی بدتر ہوچکی ہے کہ کوئی اسے گال پہ تھپڑ مارے تو یہ ڈر کے مارے اپنا دوسرا گال یہاں تک کہ اپنی آل و اولاد کو بھی دشمن کے سپرد کردے اور ہمارے اس ڈر کی وجہ سے ذلت بھری موت ہمارا مقدر بن چکی ہے 
یہاں پہ ہمیں بڑے ہی دکھ کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ ان تمام حالات کے ذمہ دار ہمارے رہنما و قائدین ہیں اور جو کچھ بھی ہورہا ہے یہ انہیں کی مہربانی کا نتیجہ ہے

کاش ہمارے رہنماء اُس بوڑھے گدھ کی طرح دوراندیش ہوتے اور مسلم نوجوانوں کو حکمت و مصلحت کے نام پہ بزدل بنانے کے بجائے ظلم کے خلاف لڑتے ہوئے ظالم کو منہ توڑ جواب دینے کی سیکھ دیتے جبکہ 
قرآن پاک میں اللہ سبحان تعالیٰ خود اس کا حکم دیتے ہیں کہ اپنی جان,  مال, آبرو و ایمان کے خاطر دشمنان اسلام سے جہاد کرتے ہوئے انہیں کیفرکردار تک پہنچائیں,  حق کے خاطر لڑتے ہوئے شہادت کو اپنائیں   لیکن
افسوس صد افسوس ہم نے اللہ سبحان تعالیٰ کے بتائے ہوئے احکامات کو بھلادیا ہے اس لئے ہم بار بار ستائے جارہے ہیں ذلیل و خوار کئے جارہے ہیں.
یاد رہے ہمارے حالات اُس وقت تک نہیں بدلینگے جب تک کہ ہم خود کو نہ بدلیں

اس لئے ہماری اپنے بزرگوں سے مخلصانہ گزارش ہے  
مسلم نوجوانوں کو نام حکمت پہ بزدل نہ بنایا جائے , صبر کے نام پہ اور جنازے نہ اٹھوائے جائیں بلکہ حالات کی سنجیدگی کے مدنظر ٹھوس اقدامات اٹھائیں کیونکہ مستقل 10 سے 15 سالوں تک ملک کی موجودہ صورت حال ہرگز نہیں بدلنے والی بھلے ہم جتنے بھی محبت و عقیدت بھرے نظرانے پیش کردیں , حسن سلوک کے نام پہ جتنی چاہے جی حضوری کرلیں بدلے میں وہ ہمارے گلے کاٹتے ہی رہینگے اور جب تک ہم اُن کے آگے جھگتے رہینگے وہ ہمیں اپنے پیروں تلے کچلتے ہی رہیں گے .
ایسے میں اگر ہم اپنے حالات بدلنے کے خاطر مٹھی بھر سیکولر سوچ رکھنے والوں سے مدد کی امیدیں جوڑیں گے اُن پہ پوری طرح سے منحصر ہوجائینگے تو ماضی کی طرح بار بار ہمیں منہ کی کھانی پڑے گی ویسے بھی 2019 میں سیکولر جماعتوں کے جتنے بھی امیدواروں کو کامیاب کر کے ہم نے پارلیمنٹ تک پہنچایا تھا سبھی ایک کے بعد دیگر بھاجپا کے بھگوا  رنگ میں خود کو رنگ رہے ہیں اور ان سیکولر جماعتوں پہ یقین کرنے کی قیمت تو ہم 70 سالوں سے چکاتے ہی آرہے ہیں اگر دوبارہ یہی بیوقوفی دہرائی جائے گی تو یقیناً ہندوستان کے صفحہ ہستی سے ہمارا نام و نشان مٹتے دیر نہیں لگے گی اس پہ 
علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے

نہ سمجھوگے تو مٹ جاؤگے اے ہند کے مسلمانوں 
تمہاری داستان تک نہ ہوگی داستانوں میں

ویسے بھی دورحاضر ملک میں ہندوتوا کا جو غلبہ ہےاُس سے خود سیکولر کہلانے والوں کا انجام گوری لنکیش جیسا ہونے میں  کوئی تعجب نہیں اور یہ سب کچھ کرکے ان فسطائی طاقتوں کو کوئ فرق بھی نہیں پڑے گا کیونکہ پولس, قانون سب کچھ اُن کے گھر کی باندی ہے تمام ذرائع ابلاغ انہیں کے اشاروں پہ ناچ رہے ہیں ,
اس لئے ہمارے  چند دن کے احتجاج سے کوئی تبدیلی نہیں آنے والی نہ ہی ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی چلے گی بلکہ محض کچھ وقت کے لئے تاریخ پہ تاریخ کا ڈرامہ کیا جائیگا پھر ایک دن امت شاہ , پرگیہ سنگھ ٹھاکور اور موب لنچنگ کے اب تک کے تمام ملزمان کی طرح آئندہ بھی تمام قاتلوں کو کلین چٹ ملتی رہے گی اس بیچ ایک اور نجیب,  جنید, افرزول, گوری لنکیش جیسی صحافی , سی بی آئی کے سینئر جج جسٹس لوحیا اور تبریز جیسے مزید نوجوان ان کا شکار بنتے رہیں گے اس لئے سمجھداری اسی میں ہے کہ ہم اپنے نوجوانوں کو صبر کی تلقین دینے کے بجائے پلٹ وار کرنا سکھائیں , اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کے قابل بنائیں اور اپنے ساتھ دیگر سیکولر بھائیوں کی بھی دفا میں لڑنے مرنے کا جذبہ جگائیں 
کیونکہ اللہ سبحان تعالیٰ بھی انہیں کی مدد فرماتے ہیں جو اپنی مدد آپ کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں
ویسے بھی دنیا میں کوئی بھی کمزور کا ساتھی نہیں ہوتا
ایسے میں لڑو یا مرو کے سوا مسلمانوں کے پاس کوئی آپشن نہیں بچا , ایک بار اگر ہم پلٹ وار کرنے لگ جائیں تو ان نامردوں کی اتنی اوقات نہیں کہ وہ ہمارے آگے ٹک سکیں آج ہم ڈر رہے ہیں اس لئے وہ ہمیں ڈرا رہے ہیں,  ہم مار کھارہے ہیں تو وہ ہمیں مارے جارہے ہیں جس دن ہم مارنے لگ جائیں تو یقین جانیں انہیں بھاگنے کے لئے زمین بھی میسر نہیں ہوگی 
اس لئے ہوش کے ناخن استعمال کریں,  خواب غفلت سے خود کو جگائیں , بزدلی و چاپلوسی کو حکمت کا نام دینے کے بجائے  مردوں کی طرح حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا سیکھیں . 
بھلے پہلا وار نہ سہی اپنی اور سے آخری وار تو ایسا کریں جس کے بعد ظالم اور کسی وار کے قابل نہ رہے. 
ویسے بھی صبر کے تمام پیمانے لبریز ہوچکے ہیں اور وقت آ چکا ہے کہ سکھ بھائیوں سے سبق سیکھیں اور تسبیح کی جگہ ہاتھوں میں شمشیریں اٹھائی جائیں 
کیونکہ جہاں جنگل راج عام ہوجائے وہاں جینے کے لئے قدم قدم پہ لڑنا ضروری ہے ورنہ کوئی حیرانگی نہیں کہ ہمارا حال نوجوان گدھوں سا ہوجائیگا جو بےموت مارے گئے اس لئے جینا ہے تو آخری سانس تک لڑنا سیکھیں ............

Featured Post

*زحمت، رحمت اور فطرت* حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی جس کی بھلائی چاہتا ہے اس...