Thursday, August 22, 2019

عورتیں بلاوجہ کیوں روتی ہیں؟

ﺍﯾﮏ ﻟﮍﮐﮯ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺎﮞ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ : ﺍﻣﯽ ﺁﭖ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﮐﯿﻮﮞ ﺭﻭﺗﯽ ﮨﯿﮟ؟
ﻣﺎﮞ ﻧﮯ ﻣﺴﮑﺮﺍ ﮐﺮ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ : ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﻋﻮﺭﺕ ﮨﻮﮞ۔
ﻟﮍﮐﺎ : ﻣﺠﮭﮯ ﺳﻤﺠﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺋﯽ ﺁﭖ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﯽ۔
ﻣﺎﮞ ﻧﮯ ﺑﯿﭩﮯ ﮐﻮ ﮔﻠﮯ ﻟﮕﺎﯾﺎ ﺍﻭﺭ
ﮐﮩﺎ : ﺗﻢ ﺷﺎﯾﺪ ﮐﺒﮭﯽ ﺳﻤﺠﮫ ﺑﮭﯽ ﻧﮧ ﭘﺎﺅ ﻣﯿﺮﮮ ﻟﻌﻞ۔
ﻟﮍﮐﺎ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﺑﺎ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﭼﻼ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻧﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ : ﺍﺑﺎ ﺟﺎﻥ ! ﺍﻣﯽ ﺑﻐﯿﺮ ﻭﺟﮧ ﮐﮯ ﮐﯿﻮﮞ ﺭﻭﺗﯽ ﮨﯿﮟ؟
ﺑﺎﭖ : ﺑﯿﭩﺎ ﺗﻤﺎﻡ ﻋﻮﺭﺗﯿﮟ ﺑﻐﯿﺮ ﻭﺟﮧ ﮐﮯ ﺭﻭ ﻟﯿﺘﯽ ﮨﯿﮟ۔
ﯾﻮﮞ ﻟﮍﮐﮯ ﮐﻮ ﺍﺳﻮﻗﺖ ﮐﻮﺋﯽ ﻭﺍﺿﺢ ﺟﻮﺍﺏ ﻧﮧ ﻣﻞ ﺳﮑﺎ۔
۔
ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﮐﻮ ﮐﺌﯽ ﺳﺎﻝ ﮔﺰﺭ ﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺍﺑﮭﯽ ﺑﮭﯽ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﻐﯿﺮ ﻭﺟﮧ ﮐﮯ ﺭﻭﻧﮯ ﮐﻮ ﻧﮧ ﺳﻤﺠﮫ ﭘﺎﯾﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺍﯾﮏ ﺩﺍﻧﺎ ﺑﺰﺭﮒ ﮐﺎ ﭘﺘﮧ ﻟﮕﺎ۔ ﻭﮦ ﺍﻥ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﺳﮯ ﯾﮩﯽ ﺳﻮﺍﻝ ﭘﻮﭼﮭﺎ۔ ﺍﻥ ﺑﺰﺭﮒِ ﺩﺍﻧﺎ ﻧﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ :
ﺑﯿﭩﺎ ﺟﺐ ﺍﻟﻠﮧ ﻧﮯ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﻮ ﺑﻨﺎﯾﺎ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﻮ ﻣﻀﺒﻮﻁ ﮐﻨﺪﮬﻮﮞ ﺳﮯ ﻧﻮﺍﺯﺍ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ ﺑﻮﺟﮫ ﺑﺮﺩﺍﺷﺖ ﮐﺮ ﺳﮑﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﻮ ﻧﺮﻡ , ﭘﯿﺎﺭ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺑﺎﺯﺅﻭﮞ ﺳﮯ ﻧﻮﺍﺯﺍ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺍﻥ ﺳﮯ ﺍﺳﺘﺮﺍﺣﺖ ﺩﮮ ﺳﮑﮯ۔
ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮑﻮ ﭘﻨﮩﺎﮞ ﻗﻮﺕ ﺳﮯ ﻧﻮﺍﺯﺍ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﯽ ﮐﻮﮐﮫ ﮐﺎ ﺑﻮﺟﮫ ﺑﺮﺩﺍﺷﺖ ﮐﺮ ﺳﮑﮯ ﺍﻭﺭ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﻮ ﺟﻨﻢ ﺳﮑﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﺒﮭﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺩﮬﺘﮑﺎﺭﮮ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﻏﻢ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﺳﮩﺎﺭ ﺳﮑﮯ۔
ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺍﺱ ﮐﻮ ﻭﮦ ﺧﺎﺹ ﻗﻮﺕ ﺑﮭﯽ ﻋﻄﺎ ﮐﯽ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﺧﺎﻧﺪﺍﻥ ﮐﮯ ﻏﻤﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﭘﺮﯾﺸﺎﻧﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﺑﺮﺩﺍﺷﺖ ﮐﺮ ﺳﮑﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﺎ ﺧﯿﺎﻝ ﺭﮐﮫ ﺳﮑﮯ۔
ﺍﻭﺭ ﻧﮩﺎﯾﺖ ﺳﺨﺖ ﺣﺎﻻﺕ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺑﻐﯿﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﺷﮑﻮﮦ ﺯﺑﺎﻥ ﭘﮧ ﻻﺋﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻗﺪﻣﻮﮞ ﭘﮧ ﻣﻀﺒﻮﻃﯽ ﺳﮯ ﻗﺎﺋﻢ ﺭﮦ ﺳﮑﮯ۔
ﺍﻭﺭ ﺍﻟﻠﮧ ﻧﮯ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﻮ ﻧﺎ ﺧﺘﻢ ﮨﻮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﭘﯿﺎﺭ ﺍﻭﺭ ﻣﻌﺎﻑ ﮐﺮ ﺩﯾﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺩﻝ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﻧﻮﺍﺯﺍ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺍﻭﻻﺩ ﮐﺘﻨﯽ ﮨﯽ ﮔﺴﺘﺎﺥ ﺍﻭﺭ ﻧﺎﻓﺮﻣﺎﻥ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮧ ﮨﻮ ﻭﮦ ﭘﻠﮏ ﺟﮭﭙﮑﺘﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﺍﺫﯾﺖ ﺩﯾﻨﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﺍﻭﻻﺩ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﻣﻌﺎﻑ ﮐﺮ ﺳﮑﮯ۔
ﺍﻭﺭ ﺁﺧﺮ ﻣﯿﮟ , ﺍﻟﻠﮧ ﻧﮯ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﻮ ﺁﻧﺴﻮ ﺑﮭﯽ ﻋﻄﺎ ﮐﺮ ﺩﺋﯿﮯ ﮐﮧ ﺟﺐ ﮐﺒﮭﯽ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﯽ ﺗﮑﺎﻟﯿﻒ ﺍﻭﺭ ﻣﺸﮑﻼﺕ ﺣﺪ ﺳﮯ ﺑﮍﮪ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﺗﻮ ﺍﻥ ﮐﺎ ﺑﻮﺟﮫ ﮐﻢ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﭼﻨﺪ ﺁﻧﺴﻮ ﺑﮩﺎ ﺳﮑﮯ , ﺍﭘﻨﮯ ﮐﺮﺏ ﮐﻮ ﮐﻢ ﮐﺮ ﺳﮑﮯ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﻧﺌﮯ ﺳﺮﮮ ﺳﮯ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﮯ ﻏﻤﻮﮞ ﮐﺎ ﺳﺎﻣﻨﺎ ﮐﺮ ﺳﮑﮯ۔ ﯾﮩﯽ ﺍﺳﮑﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﺎ ﻭﺍﺣﺪ ﮐﻤﺰﻭﺭ ﻧﮑﺘﮧ ﮨﮯ۔
ﺍﺳﻠﺌﮯ ﮨﻤﯿﮟ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﮯ ﺍﻥ ﺁﻧﺴﻮﺅﮞ ﮐﻮ ﻋﺰﺕ ﺩﯾﻨﯽ ﭼﺎﮨﺌﯿﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﺎ ﻣﻀﺤﮑﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﮌﺍﻧﺎ ﭼﺎﮨﺌﯿﮯ ﭼﺎﮨﮯ ﻭﮦ ﺑﻐﯿﺮ ﮐﺴﯽ ﻭﺟﮧ ﮐﮯ ﮨﯽ ﺁﻧﺴﻮ ﺑﮩﺎﺋﮯ۔
ﺑﯿﭩﺎ ! ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﺧﻮﺭﺍﮎ ﮐﯽ ﻧﺎﻟﯽ ﺍﺳﯽ ﻟﻤﺤﮯ ﮐﺎﭦ ﺩﯼ ﮔﺌﯽ ﺗﮭﯽ ﺟﺲ ﻟﻤﺤﮯ ﺗﻢ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﻗﺪﻡ ﺭﮐﮭﺎ ﻣﮕﺮ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻧﺸﺎﻥ ﻧﺎﻑ ﮐﯽ ﺻﻮﺭﺕ ﺁﺝ ﺑﮭﯽ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺟﺴﻢ ﭘﮧ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﮯ ﺗﺎ ﮐﮧ ﺗﻢ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﺍﺱ ﻋﻈﯿﻢ ﮨﺴﺘﯽ ﮐﻮ , ﺟﻮ ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﻋﻮﺭﺕ ﮨﯽ ﮨﮯ , ﯾﺎﺩ ﺭﮐﮭﻮ ﺟﺲ ﻧﮯ ﻧﻮ ﻣﺎﮦ ﺗﮏ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﮐﻮﮐﮫ ﻣﯿﮟ ﺳﯿﻨﺖ ﺳﯿﻨﺖ ﮐﺮ ﺭﮐﮭﺎ۔
۔
ﯾﻮﮞ ﺍﺱ ﻟﮍﮐﮯ ﮐﯽ ﺗﻼﺵ ﺧﺘﻢ ﮨﻮﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﺳﻮﺍﻝ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﻣﻞ ﮔﯿﺎ۔ ﺍﻟﻠﮧ ﮨﻤﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺍﮨﻞ ﻭ ﻋﯿﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﺧﻮﺍﺗﯿﻦ ﮐﯽ ﻋﺰﺕ ﻭ ﺗﮑﺮﯾﻢ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﺎ ﺣﻖ ﺍﺩﺍ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﺗﻮﻓﯿﻖ ﻧﺼﯿﺐ ﻓﺮﻣﺎﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﯼ ﻭﺍﻟﺪﮦ ﺍﻭﺭ ﺑﻘﯿﮧ ﺗﻤﺎﻡ ﻣﺎﺅﮞ ﮐﯽ ﻟﻐﺰﺷﯿﮟ ﻣﻌﺎﻑ ﻓﺮﻣﺎﺋﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﻮ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﮐﯽ ﺧﻮﺷﯿﺎﮞ ﻧﺼﯿﺐ ﻓﺮﻣﺎﺋﯿﮟ۔آمین.

Wednesday, August 21, 2019

राजा बनो मौत के मुंह में चले जाओ


किसी मुल्क़ में एक क़ानून था कि वो एक साल बाद अपना बादशाह बदल लेते।
उस दिन जो भी सब से पहले शहर में दाख़िल होता उसे बादशाह चुन लेते
और इससे पहले वाले बादशाह को एक बहुत ही ख़तरनाक और मीलों फैले जंगल के बीचों बीज छोड़ आते जहां बेचारा अगर दरिंदों से किसी तरह अपने आप को बचा लेता तो भूख- प्यास से मर जाता ।
दरबारियों ने उसे इस मुल्क़ का क़ानून बताया कि हर बादशाह को एक साल बाद जंगल में छोड़ दिया जाता है और नया बादशाह चुन लिया जाता है । ये सुनते ही वो परेशान हुआ
लेकिन फिर उसने अपनी अक़्ल को इस्तिमाल करते हुए कहा कि मुझे उस जगह लेकर जाओ जहाँ तुम बादशाह को छोड़कर आते हो।

दरबारियों ने सिपाहियों को साथ लिया और बादशाह सलामत को वो जगह दिखाने जंगल में ले गए , बादशाह ने अच्छी तरह उस जगह का जायज़ा लिया और वापस आ गया
अगले दिन उसने सबसे पहला हुक्म ये दिया कि मेरे महल से जंगल तक एक सड़क तामीर की जाये और जंगल के बीचों बीज एक ख़ूबसूरत महल तामीर किया जाये जहां पर हर किस्म की सहूलियतें मौजूद हों और महल के इर्द गिर्द ख़ूबसूरत बाग़ लगाए जाएं
कुछ ही अर्से में सड़क और महल बनकर तैय्यार हो गए एक साल के पूरे होते ही बादशाह ने दरबारियों से कहा कि अपनी रस्म पूरी करो और मुझे वहां छोड़ आओ जहां मुझ से पहले बादशाहों को छोड़ के आते थे।


आज राजा की विदाई का आखिरी दिन है!
लोग नहीं चाहते भी विदाई का इंतजारकर रहे हैं!
अचानक उनसे राजा उत्पन्न होता है
दूसरे लोगो से वह खुश होकर मिलता है

दरबारियों ने कहा कि बादशाह सलामत आज से ये रस्म ख़त्म हो गई क्योंकि हमें एक अक़लमंद बादशाह मिल गया है
वहाँ तो हम इन बेवक़ूफ बादशाहों को छोड़कर आते थे जो एक साल की बादशाही के मज़े में
बाक़ी की ज़िंदगी को भूल जाते और अपने लिए कोई इंतिज़ाम ना करते,
लेकिन आप ने अक़्लमंदी का मुज़ाहरा किया कि आगे का ख़ूब बंदोबस्त फ़र्मा लिया।
हमें ऐसे ही अक़लमंद बादशाह की ज़रूरत थी
अब आप आराम से सारी ज़िंदगी राज़ करें
 लिखित

ایک ملک کا حکمران بنانے کا انوکھا طریقہ


نئے بادشاہ کا انتخاب  اس شرط پر کہ سال پورا ہونے پر اسے موت کے منہ میں جاناہوگا
ایک ملک کا حکمران چن نے کا بالکل انوکھا طریقہ تھا،وہ سال کے ختم ہوتے ہی ایک نئے بادشاہ کو اس شرط پر  تخت نشین  کرتے کہ سال پورا ہوتے ہی اسے ایک جزیرے میں نظر بند کردیا جائے گا۔یہ جزیرہ کوئی غیر معمولی جزیرہ نہ تھا،یہاں ہر طرح کے درندے اور خونخوار جانور پائے جاتے تھے،مانو کہ وہ کسی شکاری کا بے صبری سے انتظار کر رہے ہوں۔جب کوئی انسان اس سن سان جزیرے میں داخل ہوتا وہ کسی نہ کسی درندے کی خوراک بن جاتا۔
کسی کو معلوم نہیں ہے کہ اس  جنگل نما جزیرے میں جانے کے بعد کتنے بادشاہوں کی موت ہوئی ، اس بار ، شہر میں داخل ہونے والا نوجوان کسی دور دراز کے علاقے سے چن کر لایا گیا تھا، سب نے آگے بڑھ کر اس کو مبارکباد دی۔اور اسے بادشاہت کی چابی سونپ دی گئی۔وہ تخت پر بیٹھتے ہی حیرت زدہ  ہونے کے ساتھ ساتھ  بہت خوش ہوا، اس نے پوچھاکہ جو بادشاہ  مجھ سے پہلے تھا وہ کہاں گیا؟
درباریوں نے اسے ملک کا قانون بتایا ؟ کہ ہر شہنشاہ کو ایک سال بعد جنگل نما جزیرے میں چھوڑ دیا  جاتا ہے اور ایک نیا شہنشاہ چن لیا جاتا ہے۔ یہ سن کر وہ ایک بار پھر پریشان ہو گیا۔
لیکن پھر اس نے اپنی دانشمندی کا استعمال کرتے ہوئے کہا: کہ مجھے اس جگہ لے چلوجہاں تم پرانے بادشاہوں کو چھوڑ آتے ہو۔
درباریوں نے سپاہیوں کو ساتھ لیا اور بادشاہ سلامت کو جنگل میں لے گئے تاکہ انہیں وہ جگہ دکھائیں۔وہاں پہنچ کر  شہنشاہ اس جگہ کا اچھی طرح جائزہ لے کر واپس لوٹ آتا ہے۔
دوسرے دن وہ  پہلا حکم یہ دیتا ہے کہ میرے محل سے جنگل تک ایک سڑک بنائی جائے اور جنگل کے وسط میں ایک خوبصورت محل تعمیر کیا جائے ،جہاں ہر طرح کی سہولیات موجود ہوں اور محل کے آس پاس خوبصورت باغات لگائے جائیں۔
بادشاہ کے حکم پر کام شروع ہوا ،اس دوران بادشاہ نے نہایت ہی سادہ زندگی گزارنا شروع کی، اس نے گو کہ خود کو کسی معمولی رعایہ کی زندگی میں ڈھال لی ہو۔وہ اپنی تمام تر آمدنی کو نئے جزیرے کی تعمیر میں صرف کرتا رہا۔خود اپنی نگرانی میں سارے کام کرواتا،یہاں تک کہ وقت رہتے وہ ویران جزیرہ ایک خوبصورت شہر میں تبدیل ہو چلا تھا۔
دھیرے دھیرے وقت گزرا اور سال پورے ہوے اور حسب دستور لوگوں نے نم آنکھوں سے بادشاہ کو جہنم نما جزیرے میں چھوڑنے کی تیاری شروع کردی۔
ہر طرف مایوسی کا پہرہ  تھا،اور لوگ یہ خیال کر رہے تھے کہ یہ بادشاہ اتنا سادہ اور رعایہ پرور ہے، وہ اب ہم سے دور ہو رہا ہے، یہ سوچ کر لوگوں پر غم کے بادل گہرے ہو رہے تھے۔ہر کوئی دل ہی دل میں یہ دعائیں کر رہا تھا کہ کسی قدر یہ بادشاہ ہمیں چھوڑ کر نہ جائے۔
آج بادشاہ کی الواداعی کا آخری دن ہے!
 بلکہ ایک محسن کی جدائی کا آخری دن!
 لوگ بھاری دل سے جدائی کے پل کا انتظار کر رہے ہیں!
 اچانک بادشاہ ان کے سامنے رونما ہوتا ہے اور  لوگوں سے ہنس مکھ چہرے اور خوش و خرم لہجے میں ملتا ہے،لوگ دوسرے بادشاہوں کے برخلاف اس بادشاہ کو خوش دیکھ کر سکتے میں چلے جاتے ہیں............ ہر ایک اپنی طرف سے اس مسکراتے چہرے کی تعبیر شروع کردیتا ہے... کوئی کہتا ہے کہ زندگی میں سادگی سے جینے والے موت سے نہیں ڈرتے...تو کوئی کہتا ہے کہ یہ اللہ والے ہیں انہیں دنیا کا کوئی غم نہیں... غرض کہ ہر کوئی خود کو سمجھانے کی کوشش کر رہا ہے لیکن کسی کو حقیقت کا علم نہ تھا، یہاں تک کہ کسی نے ہمت جٹائی اور سوال کر ہی ڈالا کہ بادشاہ سلامت دوسرے بادشاہوں کے برخلاف آپ پر جدائی کے کوئی آثار کیوں نہیں؟ 
بادشاہ نہایت  سنجیدگی سے مسکرا کر جواب دیتا ہے کہ :
ان بادشاہوں کو وہاں جانے سے ڈر اس لیے لگتا تھا کہ وہ اس مختصر زندگی میں اس قدر مست ہوگئے تھے کہ انہیں کل کی کوئی خبر ہی نہیں تھی اور مجھے کوئی شرمندگی اس لیے نہیں کہ ہم نے سب کچھ کل اور وہاں کے لیے ہی کیا ہے.. ہم نے ایک سال کی اس چھوٹی سی لذت کو بھلا کر اس کل کی تیاری میں خود کو لگادیا تھا جہاں مجھے پوری زندگی رہنی ہے اور آج میں پوری تیاری کے ساتھ وہاں جا رہا ہوں، اب ہمیں وہاں جانے میں کوئی خطرہ نہیں ہے ۔
 سنو اب وہ ویران اور کال کوٹھری نما جزیرہ خوبصورت جنت کی شکل اختیا کر چکا ہے۔
یہ سن کر درباریوں نے کہا کہ بادشاہ سلامت اب پرانے رسم و رواج کا خاتمہ ہوچکا ہے ، کیونکہ ہمیں ایک عقلمند بادشاہ کی تلاش تھی جو آج ہمیں  مل گیا ہے،وہاں تو ہم ان بے وقوف شہنشاہوں کو چھوڑ دیتے تھے جو ایک سال کی خودمختاری کا لطف اٹھاتے تھے۔اپنی ساری زندگی کو بھول جاتے اور اپنے لئے کچھ نہ کرتے،”لیکن آپ نے دانشمندی کا مظاہرہ کر کے یہ ثابت کر دیا ہے کہ آپ کے علاوہ کوئی دوسرا ہمار بادشاہ نہیں ہوسکتا ! ہمیں اسی طرح کے ایک ذہین بادشاہ کی ضرورت تھی۔
"اب آپ آرام سے اسی ملک میں  زندگی بسر کریں !
دوستو! اس واقعہ سے پتہ چلا کہ یہ زندگی بہت تھوڑی ہے اور ہمیں دوسری زندگی میں کب جانا ہے اس کا کسی کو علم نہیں۔ اس لیے ہمیں آنے والی زندگی کو اس چھوٹی سی زندگی پر ترجیح دینی چاہیے۔ اس دنیا کو مسافر کی طرح جیو جس کی منزل دوسری دنیا ہے اور وہ ہے آخرت کی دنیا۔
ازقلم : محمد نورالدین ازہری
ہندی میں پڑھنے کے لیے کلک کریں

کیا ہوگا اگر مرنے کے بعد پتہ چلے کہ جنت و جہنم کا کوئی وجود نہیں؟

ایک سچی کہانی ایک ایسے شخص کی جس نے ایک نماز پڑھنے والے شخص سے دریافت کیا کہ کیا ہوگا اگر مرنے کے بعد ہمیں معلوم ہوکہ  نہ ہی جنت  و جہنم کا وجود ہے نہ ہی کوئی سزا اور جزا ہے پھر تم کیا کروگے ؟
اس کا جو جواب ملا وہ بہت ہی حیران کن اور تعجب خیز ہے لیجئے پوری کہانی *فرض کریں اگر* آپ کے پیش خدمت ہے :
   کہتے ہیں سنہ 2007م کی بات ہے لندن کے ایک عربی ریسٹورینٹ میں ہم لوگ مغرب کی نماز سے تھوڑی دیر پہلے ڈنر کےلئے داخل ہوئے 
 ہم لوگ ہوٹل میں بیٹھے اور ویٹر آڈر لینے کے لئے آگیا میں نے مہمانوں سے چند منٹ کے لئے اجازت طلب کی اور پھر واپس آگیا اتنے میں مہمانوں میں سے ایک شخص نے سوال کیا ڈاکٹر صاحب آپ کہاں گئے تھے آپ نے تو بڑی تاخیر کردی کہاں تھے ؟
میں نے کہا:  میں معذرت خواہ ہوں  در اصل میں نماز پڑھ رہا تھا 
اس نے مسکراتے ہوئے کہا آپ اب تک نماز پڑھتے ہیں؟ میرے بھائی آپ تو قدامت پسند ہیں 
میں نے بھی مسکراتے ہوئےپوچھا قدامت پسند ؟وہ کیوں ؟کیا اللہ تعالی صرف عربی ممالک میں ہے لندن میں نہیں ہے؟
اس نے کہا:ڈاکٹرصاحب میں آپ سے کچھ سوالات کرنا چاہتا ہوں اور آپ سے یہ درخواست کرتا ہوں کہ آپ اپنی جس کشادہ ظرفی کیلئے معروف ہیں اسی  کشادہ قلبی سے مجھے تھوڑا سا برداشت کریں گے
میں نے کہا: جی مجھے تو بڑی خوشی ہوگی لیکن میری ایک شرط ہے 
اس نے کہا :جی فرمائیں 
میں نے کہا : اپنے سوالات مکمل کرلینے کے بعد تمہیں ہار یا جیت کا اعتراف کرنا پڑے گا ٹھیک ہے ؟
اس نے کہا ٹھیک ہے مجھے منظور ہے اور یہ  رہا میرا وعدہ 
میں نے کہا :چلو بحث شروع کرتے ہیں ...فرمائیں 
اس نے کہا :آپ کب سے نماز پڑھ رہے ہیں؟ 
میں نے کہا سات سال کی عمر سے میں نے اس کو سیکھنا شروع کیا اور نو سال کی عمر میں پختہ کرلیا تب سے اب تک کبھی نماز نہیں چھوڑا اور آئندہ بھی ان شاء اللہ نہیں چھوڑوں گا . 
اس نے کہا ٹھیک ہے .. مرنے کے بعد اگر آپ کو یہ معلوم ہو کہ نہ جنت و جہنم کا وجود ہے نہ  ہی کو ئی جزا وسزا  ہے پھر آپ کیا کروگے ؟
میں نے کہا :تم سے کئے گئے عہد کے مطابق پوری کشادہ قلبی سے تمہارے سوالات کا آخر تک جواب دوں گا 
فرض کریں نہ ہی جنت وجہنم کا وجود ہوگا نہ ہی کوئی جزا وسزا ہوگی تو میں ہرگز ہی کچھ نہ کروں گا اس لئے کہ  در اصل میرا معاملہ ایساہی ہے جیسا کہ علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ نے کہا تھا :"الہی میں نے تیرے عذاب کے خوف اور جنت کی آرزو میں تیری عبادت نہیں کی ہے بلکہ میں نے اس لئے تیری عبادت کی ہے کیونکہ تو عبادت کے لائق ہے 
اس نے کہا : اور آپ کی وہ نمازیں جس کو دسیوں سال سے آپ پابندی کے ساتھ پڑھتے آرہے ہیں پھر آپکو معلوم ہو کہ نمازی اور بے نماز دونوں برابر ہیں جہنم نام کی کوئی چیز نہیں ہے پھر کیا کریں گے 
میں نے کہا:مجھے اس پر بھی کچھ پچھتاوا نہیں ہوگا کیونکہ کہ ان  نمازوں  کو ادا کرنے میں مجھے صرف چند منٹ ہی لگتے ہیں چنانچہ میں انھیں جسمانی ورزش  سمجھوں گا
 اس نے کہا:اور روزہ خصوصاً لندن میں کیونکہ یہاں روزے کا وقفہ ایک دن میں 18گھنٹے سے بھی تجاوز کرجاتا ہے ؟
میں نے کہا :میں اسے روحانی ورزش سمجھو ں گا چنانچہ وہ میری روح اور نفس کے لئے اعلی طرز کی ورزش ہے اسی طرح اس کے اندر صحت  سے جڑے بہت سارے  فوائد بھی ہیں جس کا فائدہ میری زندگی ہی میں مجھے مل چکا ہے اور  کئی  بین الاقوامی غیر اسلامی اداروں کابھی یہ ماننا ہے کہ کچھ وقفے تک کھاناپینا بند کرنا جسم کیلئے بہت مفید اور نفع بخش ہے  
اس نے کہا:آپ نے کبھی شراب پی ہے ؟
میں نے کہا :میں نے اس کو کبھی ہاتھ تک نہیں لگایا 
اس نے تعجب سے کہا: کبھی نہیں 
میں نے کہا کبھی نہیں 
اس نے کہا: اس زندگی میں اپنے آپ کو شراب نوشی کی لذت اور اس کے خمار  کے سرور سے محرومی کے بارے میں کیا کہیں گے اگر آپ لئے وہی ظاہر ہوا جو میں نے فرض کیا ہے؟ 
میں نے کہا: شراب کے  اندر  نفع  سے زیادہ  نقصان  ہے اور  میں سمجھوں گا کہ میں نے اپنے آپ کو اس  نقصان دہ چیز سے بچالیا ہے اور  اپنے  نفس  کو اس سے دور رکھا ہے چنانچہ  کتنے  ہی لوگ ایسے ہیں جو  شراب کی وجہ سے بیمار ہوگئے اور  کتنے ہی  ایسے ہیں جنھوں نے شراب کی وجہ سے اپنا گھربار  مال  واسباب سب تباہ وبرباد کرلیا ہے 
 اسی طرح  غیر اسلامی اداروں کےعالمی رپوٹ کو دیکھنے سے  بھی یہ پتہ چلتا ہے کہ وہ بھی شراب کے اثرات اور اس کو لگاتار پینے کے انجام سے متنبہ کرتی ہے 
اس نے کہا :حج وعمرہ کا سفر .جب موت کے بعد آپ کو معلوم ہوگا  کہ اس طرح کی کوئی چیز نہیں ہے اور اللہ تعالی ہی موجود نہیں ہے؟ 
میں نے کہا: میں عہد کے مطابق چلوں گا اور  پوری کشادہ ظرفی سے تمہارے سوالات کا جواب دوں گا 
میں حج وعمرہ کے سفر کو ایک خوبصورت  تفریحی سفرسے تعبیر کرونگا جس کے اندر  میں نے حد درجے کی فرحت وشادمانی محسوس کی اور اپنی روح کوآلائشوں سے پاک و صاف کیا جس طرح تم نے اپنے اس سفر کے لئے کیا ہے تاکہ تم ایک اچھا وقت گزار سکو اور اپنے عمل کے بوجھ اور معمولات زندگی کی تھکان کو دور کرکے اپنی روح کو تازگی فراہم کرسکو
    وہ میرےچہرے کو کچھ دیر  تک خاموشی سے دیکھتا رہا پھر گویا ہوا :آپ کا بہت بہت شکریہ کہ آپ نے میرے سوالات کو بڑی کشادہ قلبی کے ساتھ برداشت کیا 
میرے سوالات ختم ہوئے اور میں آپ کے سامنے اپنی ہار تسلیم کرتا ہوں 
میں نے کہا :تمہارا کیا خیال ہے تمہارے ہار تسلیم کرنے کے بعد میرے دل کی کیا کیفیت ہوگی ؟
اس نے کہا :یقیناً آپ بہت خوش ہوں گے 
میں نے کہا: ہرگز نہیں بلکہ اس کے بلکل الٹا... میں بہت دکھی ہوں 
اس نے تعجب سے کہا: دکھی ؟کیو؟
میں نے کہا :اب تم سے سوال کرنے کی میری باری ہے 
اس نے کہا :فرمائیں 
میں نےکہا: تمہاری طرح میرے پاس ڈھیر سارے سوالات نہیں ہیں صرف ایک ہی سوال ہے وہ بھی بہت سادہ اور آسان 
اس نےکہا :وہ کیا ؟
میں نے کہا :میں نے تمہارے سامنےواضح کردیا ہے کہ تمہارے مفروضہ کے واقع ہونے کے بعد بھی میں کسی طرح کے گھاٹے میں نہیں ہوں اور نہ ہی اس میں میرا کسی قسم کا نقصان ہے ... لیکن میرا وہ ایک آسان  سوال یہ ہے کہ تمہارا اس وقت کیا ہوگا اگر حالات تمہارے مفروضہ کےبرعکس ظاہر ہوئے یعنی موت کے بعد تمہیں معلوم ہو کہ اللہ  تعالی بھی موجود ہے جنت و جہنم بھی ہے سزا وجزا بھی ہے اور قرآن کے اندر بیان کئے گئے سارے مشاہد و مناظر بھی ہیں پھر تم  اسوقت کیا کروگے ؟
      وہ میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر خاموشی کے ساتھ دیر تک دیکھتا رہا... اور پھر ویٹر نے ہماری میز پر کھانا رکھتے ہوئے ہماری خاموشی کو توڑا 
میں نے اس سے کہا:مجھے ابھی جواب نہیں چاہئے کھانا حاضر ہے ہم کھانا کھائیں اور جب تمہارا جواب تیار ہوجائیگا توبراہ مہربانی  مجھے خبر کردینا ہم کھانے سے فارغ ہوئے اور مجھے اس نے کوئی جواب نہیں دیا اور میں نے بھی اس وقت اس کو جواب کے لئے کوئی تکلیف نہیں دی... ہم بہت ہی سادگی کے ساتھ جدا ہوگئے 
ایک مہینہ گزرنے کے بعد اس نے مجھ سے رابطہ کیا اور اسی ریسٹورینٹ میں ملاقات کا مطالبہ کیا 
ریسٹورینٹ میں ہماری ملاقات ہوئی ہم نے ایک دوسرے سے ہاتھ ملایا *کہ اچانک اس نےمیرے کندھے پر اپنا سر رکھ کر مجھے اپنی باہوں میں پکڑ کر رونے لگا* میں نے اپنا ہاتھ اس کی پیٹھ پر رکھا اور پوچھا کیا بات ہے تم کیوں رو رہے ہو 
اس نے کہا: میں یہاں آپ کا شکریہ ادا کرنے اور اپنے جواب سے آپ کو باخبر کرنے لئے آیا ہوں 
بیس سال سے بھی زیادہ عرصہ تک  نماز سے دور رہنے کے بعد اب میں نماز پڑھنے لگا ہوں آپ کے جملوں کی صدائے بازگشت میرے ذہن ودماغ میں بلا توقف گونجتی ہی رہی اور میں نیند کی لذت سے محروم  ہوتا رہا 
آپ نے میرے دل ودماغ اور  جسم  میں آتش فشاں چھوڑ دیا تھا اور وہ میرے اندر اثر کر گیا 
مجھے احساس ہونے لگا کہ جیسے میں کوئی اور انسان ہوں اور ایک نئی روح میرے جسم کے اندر حرکت کر رہی ہے ایک بے مثال قلبی سکون بھی محسوس کر رہا ہوں 
میں نے کہا :ہوسکتا ہے جب  تمہاری بصارت نے تمہاراساتھ  چھوڑ دیا  ہو تب ان جملوں نے تمہاری بصیرت کو بیدار کردیا ہو 
اس نے کہا: بالکل ایسا ہی ہے... یقینا  جب میری بصارت  نے میرا ساتھ چھوڑ دیا توان جملوں نے میری بصیرت کو بیدار کر دیا
اس واقعہ کو پڑھ کر یونہی مت گزرجائیں بلکہ اس کونشر کریں شاید یہ کسی شخص کی ہدایت کا ذریعہ بن جائے


عربی  سے ترجمہ

اکابر پرستی کا جنون اور مسلم معاشرہ

اکابر پرستی کا جنون اور مسلم معاشرہ
1-اکابر پرستی کا جنون اتنا معمولی نہیں ہوتا کہ ہم امت کی فلاح کی شرط پر اس سے بہ آسانی باہر آجائیں۔ اسی جنون نے تو ہر دور میں امت کی کشتی کو غرقاب کیا ہے۔ واضح رہے کہ اس حمام میں سب ایک ہی جیسے دکھتے ہیں۔ میرے لیے یہ کہنا بہت آسان ہے کہ میں آپ سے کہوں کہ آپ اکابر پرستی چھوڑ دیں اور آپ کے اکابر کی جس کتاب سے امت کا نقصان ہے، اسے بیچ چوراہے پر رکھ کر آگ لگادیں، لیکن یہی مطالبہ جب آپ مجھ سے کریں گے تو پھر میرے لیے بہت مشکل ہوجائے گا۔
2-یہ بات عمومی سطح پر کہنا تو بہت آسان ہے کہ گستاخی کا ذرا شائبہ کفر ہے، لیکن اس کی شخصی تطبیق کس قدر پیچیدہ ہے، آپ جیسے اہل نظر پر مخفی نہیں ہوگا۔ یہ تطبیق ہم آپ کے اکابر پر تو بہت آسانی سے کرلیتے ہیں لیکن جب ہمارے اکابر کی بات آتی ہے تو ہم پھر دوسرا فارمولہ پیش کرتے ہیں کہ ایک قول میں ننانوے احتمالات کفر کے ہوں اور ایک ضعیف سے ضعیف احتمال ایمان کا ہو تو ااسی ضعیف احتمال کو راجح کیا جائے گا۔
3-ان عبارتوں کو کتابوں سے نکالنا یا ان کتابوں کا جلانا بھی مسئلے کا حل نہیں ؛کیوں کہ اس کے بعد بھی مناظرین کا یہ سوال باقی رہے گا کہ کتابیں تو تم نے جلائی ہیں لیکن تمہارے اکابر تو جلائے بغیر مرگئے، ان کو کافر مانتے ہویا مسلمان؟
4-آپ ایک ایک عبارت کی بنیاد میں جو ان کے نزدیک قابل تاویل ہے، آپ ان کے اکابر کی پوری کی پوری کتاب جلانے کی بات کر رہے ہیں، بالفرض اگر انھوں نے آپ کی شرط کو مان لیا اور یہ کہا کہ لیکن ہمارے اکابر کو جن کتابوں میں کافر لکھا ہوا ہے، ان کتابوں کو بھی جلاؤ ، یا کم ازکم اس کا عہد کرو کہ آئندے سے ہمارے اکابر کو کافر نہ کہوگے، یا کم از کم من شک فی کفرہ کی تلوار اٹھالو گے تو آپ کا جواب کیا ہوگا؟
5- قرآن کتاب اعجاز ہے، کلام ربانی ہے، شواہد و حقائق کا گنجینہ ہے، دلائل و براہین کی معراج ہے، اس کے باوجود آخر میں اس نے اپنے منکرین کو کہا لکم دینکم ولی دین۔ کیا ہم ان افراد کے ساتھ جو دین کے بنیادی عقاید کے چارٹر پر ہمارے ساتھ دستخط کرنے کو تیار ہیں ، اور بعض علما کی عبارتوں میں معنی کفر کے تعین میں ہم سے مختلف ہیں، اس پر بحث و تحقیق اور مناظرہ ومجادلے کی ایک صدی گزر چکی ہے، کیا ہم ان سے یہ کہنے کی پوزیشن میں ہیں کہ اگر دین کے بنیادی عقیدے کے اقرار اور ان کے انکار کے کفر ہونے پر تم دستخط کرتے ہو تو مخصوص عبارتوں کے فہم پر جو ہمارا اختلاف ہے، اس پر ہم تمہارے ساتھ لکم دینکم ولی دین کہنے کو تیار ہیں۔
ہمیں دوسروں سے وسعت ظرفی کے مطالبے سے پہلے خود بھی کشادہ قلبی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ بصورت دیگر ہم دوسروں سے ملت اور دین کے لیے اکابر پرستی چھوڑنے کا مطالبہ تو کر رہے ہیں، لیکن ہم خود اکابر پرستی کے بدترین مرض میں مبتلا ہیں، جو ہمیں دین، ملت اور امت کے لیے سوچنے نہیں دیتا۔واضح رہے کہ ملی اتحاد جب بھی ہوگا وہ موجودہ مشترکہ نکات پر ہوگا، اس کے لیے جب ہم سابقہ شرطیں لگائیں گے تو یہ داستان محبوب کی زلف سیاہ کی طرح طویل ہوجائے گی یا معشوق کی موہوم کمر کی طرح سرے غائب ہی ہوجائے گی۔ رفع اختلاف کی شرط کے ساتھ اتحاد کا خواب محض ایک خواب ہے ، کب کہ اختلافات ہوتے ہوئے، مشترکات پر اتحاد یہی فطرت، ملت، تاریخ اور عصر حاضر کی ممکنہ ضرورت ہے۔لیکن شاید یہ بات ہم بہ آسانی قبول نہیں کرسکتے۔
از قلم ؛ ڈاکٹر ذیشان مصباحی

متحد ہو تو بدل ڈالو نظام گلشن

متحد ہو تو بدل ڈالو نظام گلشن
*یہ گستاخیاں کوئ اتفاقی نہیں بلکہ ایک بڑی پلاننگ کا حصہ ہیں,اگر ہم نے گستاخوں کو سلاخوں کے پیچھے پہونچانے کے لۓ منظم پلاننگ نا کی تو تباہی ہمارا مقدر ہوگی*

وسیم رضوی جیسے ناہنجار گستاخ کی جانب سے جو فلم ٹریلر لانچ کیا گیا ہے یہ کوئ پہلا معاملہ نہیں ہے،2015 سے ملک میں کملیش تیواری سے گستاخیوں کا جو سلسلہ شروع ہوا وہ اب تک تھمنے کا نام نہیں لے رہا ، آپ کو یاد ہوگا کہ جب 2015 میں کملیش تیواری نے گستاخیاں کی تھیں اس کے خلاف ملک کے بہت سے شھروں میں احتجاج ہوۓ تھے ، جب یہ محسوس کیا گیا کہ مسلمان غصے میں گستاخ کو کیفرکردار تک پہونچا سکتے ہیں تو اسے محفوظ کرنے کے لۓ سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا، چند مہینوں میں ہی مسلمانوں کا غصّہ ٹھنڈا ہوتے ہی وہ باہر آ گیا، باہر آتے ہی اس نے اعلان کیا کہ "محمد صاحب کی جیونی پر ایک فلم بنائیں گے"(معاذاللہ)، اعلان ہی نہیں کیا بلکہ یو ٹیوب پر ایک ٹریلر لانچ کیا جس کے خلاف چند نوجوانوں کے علاوہ(اللہ انہیں سلامت رکھے) اب تک امت مسلمہ کی طرف سے کوئ ٹھوس قدم نہیں اٹھایا گیا، کیوں۔۔۔۔۔۔؟ اس لۓ کہ ہم نے شائد اس کی ضرورت محسوس نہیں کی۔
*غزوۂ احد کے موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "سعد ابن ربیع رضی اللہ عنہ نظر نہیں آتے تلاش کرو" صحابہ کرام تلاش کرنے گۓ وہ نظر نہیں آۓ ، ایک صحابی نے آواز دی "سعد ابن ربیع تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بلا رہے ہیں" یہ آواز سن کر حضرت سعد ابن ربیع (جو کئ لاشوں کے نیچے دبے تھے) نے بڑی نحیف سی آواز میں فرمایا " رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میرا سلام کہنا اور کہنا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو میری جانب سے بہتر بدلا عطا فرمائے اور مسلمانوں سے کہنا کہ اگر کافر حضور صلی اللہ علیہ وسلم تک پہونچ گۓ اور تم میں سے ایک آنکھ بھی چمکتی رہی(کوئ ایک بھی زندہ رہا) تو اللہ کے یہاں تمہارا کوئ عزر قبول نا ہوگا"*
مگر افسوس آج ہم زمین،جائداد، کے لۓ خوب لڑتے ہیں، برادریوں اور سلسلوں کے نام پر خوب لڑتے ہیں لیکن تحفظ ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم و تحفظ شریعت کے لۓ ہندوستانی آئین کی روشنی میں متحد ہو کر لڑنے کے لۓ تیار نہیں، *یاد رکھۓ اگر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس کے لۓ متحد نا ہوۓ تو کسی بھی سلسلے سے کسی بھی پیر سےمرید ہونا ہمارا کام نا آۓ گا*، خدا کے لۓ ہوش کے ناخن لیجیۓ *اگر ہم نے آقائے کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس کا تحفظ نا کیا تو ہماری جان،مال،عزت،آبرو کچھ نا بچے گ*۔
یاد کیجئے آج سے تقریباً 100 سال قبل جب ملک ہندوستان تقسیم نہیں ہوا تھا لاہور کے راجپال نامی گستاخ نے ایک کتاب لکھی تھی ، اس کتاب کے خلاف پورے ملک سے اس پر مقدمات قائم ہوۓ تھے ، یہ الگ بات ہے کہ سماعت سے قبل ہی ایک عاشق نے اس گستاخ کو فنا فی النار کر دیا تھا لیکن بڑے منظم انداز میں اس کے خلاف مقدمے قائم ہوۓ ، آج کثرت کے ساتھ مقدمات کیوں قائم نہیں ہو رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟، آج ہم تحفظ ناموس رسالت کے لئے متحد کیوں نہیں ہیں..........؟
*اس لۓ کہ اس وقت ایسے معاملات میں بھی ملکی سطح پر ہماری قیادت متحد نہیں ہے۔  آج اکثر علماء و مشائخ اپنے مدرسوں اور خانقاہوں سے نکلنے کو ہی تیار نہیں ہیں* ، جو علماء و مشائخ درد رکھتے ہیں، کچھ کرنا چاہتے ہیں وہ یکجا نہیں ہیں، *اگر چہ ایسے علماء و مشائخ کم ہوں لیکن اگر یکجا ہو جائیں تو آج بھی ہم انقلاب لا سکتے ہیں۔
، ضرورت اس بات کی ہے کہ *ہر شہر،ہر قصبہ،ہر گاؤں کے تمام سلاسل طریقت سے وابستہ درد مند علماء،مشائخ و عوام چھوٹے چھوٹے اختلافات کو نظر انداز کر کے ساتھ آئیں، تاکہ ہم مل کر تحفظ ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم و تحفظ شریعت کے لۓ کام کر سکیں*۔
یاد رکھیں کسی قوم کے حالات سو فیصد افراد نہیں بدلتے بلکہ ایک دو فیصد افراد اٹھ کھڑے ہوتے ہیں جن کی آواز پر لبیک کہتے ہوۓ دس پندرہ فیصد افراد آگے آتے ہیں اور وہی دس پندرہ فیصد افراد پوری قوم کے حالات بدل دیتے ہیں۔
*ہم نے اپنے آپ کو ان ایک دو فیصد افراد میں گنتے ہوۓ اپنے جان،مال،عزت،اولاد کی پرواہ کۓ بغیر قدم آگے بڑھا دۓ ہیں، دیکھنا یہ ہے کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کے تحفظ، شریعت کے تحفظ و مسلمانوں کی جان،مال،عزت کے تحفظ کے لئے اپنی کتنی قربانیاں پیش کرتے ہیں*
ہم مختلف شھروں کے ان علماء،مشائخ و عوام اہلسنت کے شکر گزار ہیں جنہوں نے اب تک ہمارے ساتھ ہر طریقے کا تعاون پیش کیا ہے، اللہ تعالیٰ سبھوں کو دارین کی برکتوں سے نوازے۔

میں تو تنہا ہی چلا تھا جانب منزل مگر
لوگ ساتھ  آتے گئے  اور  کارواں  بنتا گیا

از قلم؛ قمر  غنی عثمانی قادری چشتی*
صدر: تحریک فروغ اسلام
*آستانہ عالیہ چشتیہ نظامیہ درگاہ سرکار بندگی*
امیٹھی شریف،لکھنو۔

Tuesday, August 20, 2019

میدان عرفات حج 2019 کا خطبہ: عروج و زوال


میدان عرفات حج 2019 کا خطبہ: عروج و زوال
خطبہ ء حج میںسعودی شیخ نے فرمایا مسلمان خود کو سیاسی طور پر مضبوط رکھیں، یہ کہتے ہوئے انہیں یہ خیال ہی نہیں رہا کہ سعودی عرب سیاسی طور پر اتنا مستحکم ہے کہٹرمپ نے کہا ، امریکہ کی مدد کے بغیر
سعودی اقتدار آٹھ دن بھی قائم نہیں رہ سکتا ....... ،
دنیا بھر کے 20 لاکھ سے زائد مسلمانوں کا مجمع عظیم فریضہ ء حج کی ادائیگی کے لیے میدان عرفات میں موجود تھا،
اس موقع پر
سعودیوں کے شیخ، محمد بن حسن (  آل ِ شیخ ) نے خطبہ ء حج دیا، اس خطبے میں انہوں نے دنیا کے مظلوم مسلمانوں کا کہیں بھی کوئی ذکر نہیں کیا، نہ ہی مسلمانوں پر بدترین مظالم ڈھانے والوں کی مذمت کی .....
نہ ہی سعودی عرب سمیت مسلم حکمرانوں کو یہ نصیحت دی کہ وہ مختلف ممالک کے ان مظلوم مسلمانوں کے حق میں متحد ہوکر آواز بلند کریں ......
جن پر صرف اس لیے مظالم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں کہوہ مسلمان ہیں ،
اور
اللہ ورسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھتے ہیں،
ان کا تو فرض تھا
کہ وہ حج کے خطبے میں
مکہ ء معظمہ کی
مقدس سر زمین سے اس طرح کی کوئی اپیل جاری کرتے ،
جو امت مسلمہ کے لیے آس اور امید کی کرن بنتی .......
جگہ جگہ مرنے، کٹنے اور جلنے والے مسلمان بھی سوچتے .....
کہ وہ بے سہارا نہیں .....
عالم اسلام کے مسلمانوں کو ان کی فکر ہے ......
مکہ ء معظمہ سے ان کے حق میں آواز تو اٹھی .......
اب کوئی عملی اقدام بھی ممکن ہے .......
لیکن
ایسا کچھ بھی نہیں ہوا،
اس عنوان پر
وہ خاموش تھے اور خاموش ہی رہے ......
اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ سعودی علما اور حکمراں اسلام اور مسلمانوں کے متعلق کس قدر فکر مند ہیں ؟ انہیں اگر فکر ہے تو بس اپنے اقتدار کی ہے ،
.............................................
دنیا جانتی ہے کہ
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے گذشتہ برس اپنے ملک میں
ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ
ہماری مدد اور ہمارے احسانات کے بغیر سعودی حکومت آٹھ دن بھی قائم نہیں رہ سکتی ........ ،
ٹرمپ کے اس بیان پر ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ
سعودی عرب کے حکمراں اس کی مذمت کرتے،
اس لیے کہ یہ سفارتی آداب کے خلاف ایک انتہائی توہین آمیز بیان تھا .......
لیکن سعودی بادشاہ سے لے کر وزیر خارجہ تک سب خاموش تماشائی بنے رہے .......
چونکہ ٹرمپ نے کوئی جھوٹی بات نہیں کہی تھی
اس لیے وہ تردید یا مذمت کرتے بھی تو کس منہ سے کرتے ؟
سعودی اقتدار کے متعلق کل تک جو بات راز تھی
اسے ٹرمپ نے فاش کردیا ......!!!
جو لوگ
سعودی حکمرانوں کو
خادم الحرمین سمجھتے تھے
ان سب کے لیے یہ موقع تھا کہ وہ اپنی غلط فہمی کو دور کرتے .....
اور جان لیتے کہ
جنہیں وہ حرمین شریفین کا خادم سمجھتے آئے تھے، وہ سب امریکہ کے وفادار غلام ہیں ......
لیکن جو لوگ کچھ سمجھنا ہی نہیں چاہتے ........ ؟
انہیں کون سمجھا سکتا ہے ؟
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی ........
نہ ہو جس کو خیال، آپ اپنی حالت کے بدلنے کا ............!!!
.............................................
سب جانتے ہیں کہ
امریکی صدر کے مذکورہ بیان کو چند ماہ بھی نہیں گزرے تھے کہ
ایران سے جنگ کرنے کے لیے ٹرمپ نے سعودی عرب میں اپنی امریکی فوج اتار نے کا اعلان کردیا، اُدھر  آقا کا فرمان جاری ہوا، اِدھر غلام کا سر جھک گیا، آناً فاناً سعودی بادشاہ نے ایک معاہدے پر دستخط کرتے ہوئے امریکی فوج کے سعودی عرب آنے کی اجازت بھی دے دی .................. ،
یہ خبر دنیا بھر میں پھیلی،
لیکن اہل سنت وجماعت کے علاوہ دیگر مکاتب فکر سے وابستہ علما نے اس کا کوئی نوٹس ہی نہیں لیا .........
نہ ہی کسی نے سعودی بادشاہ کی مذمت کی،
نہ ہی کسی نے سعودی عرب کی حکومت سے یہ مطالبہ کیا کہ
مکہ ء معظمہ اور مدینہ ء منورہ کی مقدس سرزمین کو امریکہ اور ایران کے آپسی جھگڑے میں نہ جھونکا جائے ........... ، 
جو قوم
اپنے مرکز عقیدت کے وقار کے تحفظ کے عنوان پر اس درجہ بے حس ہوجائے تو پھر اسے عذاب الہی کا انتظار کرنا چاہیے .......
اور شاید یہی کچھ ہم لوگ دنیا میں دیکھ رہے ہیں،
.............................................
ان دو واقعات سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ
مکہ ء معظمہ اور مدینہ ء منورہ پر سعودیوں کی جو حکومت قائم ہے وہ کس قدر مضبوط اور مستحکم ہے ؟
لیکن افسوس کہ
امت کا دانش ور طبقہ بھی کبھی یہ سب نہیں سوچتا ....... ،
مسلمانوں کے عروج اور زوال پر  بھاشن بازی کرنے والے نامی گرامی علما، محققین، مصنفین اور کالم نگاران بھی کبھی اس پر غور و فکر نہیں کرتے ........ 
یہ ایک تاریخی سچائی ہے کہ
مسلمانوں کا عروج،
مسلمانوں کی شان و شوکت
اور
اقوام عالم پر مسلمانوں کا رعب ودبدبہ،
مکہ ء معظمہ
اور
مدینہ ء منورہ پر
اسلام اور مسلمانوں کی خیر خواہی کا جذبہ رکھنے والی مسلمانوں کی غیرت مند قیادت
اور
مضبوط حکومتوں کا مرہون منت تھا  .............  ،
سعودی حکومت کے قیام کے ساتھ ہی یہ سب کچھ مسلمانوں کے ہاتھوں سے جاتا رہا ........
ایک دور وہ تھا .......... ،
جب مکہ ء معظمہ اور مدینہ ء منورہ سے اٹھنے والی آواز باطل طاقتوں کے خیموں میں لرزہ پیدا کرنے کو کافی تھی ........
اور ایک زمانہ یہ ہے کہ
مکہ ء معظمہ اور مدینہ ء منورہ کی حکومت کسی شمارو قطار میں ہی نہیں ہے ............ ،
امریکی صدر اعلانیہ طور پر یہ دعویٰ کرتا ہے کہ
امریکہ کی حمایت کے بغیر سعودی عرب کی حکومت آٹھ دن بھی قائم نہیں رہ سکتی .........
لیکن اس کے باوجود سعودی علماء اور سعودی حکمرانوں کو ناز ہے کہ وہ سیاسی طور پر بہت مضبوط ہیں .......
ان کا یہ گمان بھی کچھ غلط نہیں،
اس لیے کہ سعودی علما اور سعودی حکمراں دنیا کے طاقتور ترین ملک امریکہ کی امان میں ہیں .......... ،
اللہ تبارک و تعالیٰ
ایسے ضمیر فروشوں سے
مکہ ء معظمہ اور مدینہ ء منورہ کی مقدس سر زمین کو جلد ازجلد آزاد فرمائے  .......
ترے حبیب کا
پیارا چمن کیا برباد ........
الہی نکلے
یہ نجدی بلا مدینے سے ......... !!!
آمین
شکیل احمد سبحانی

Featured Post

*زحمت، رحمت اور فطرت* حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی جس کی بھلائی چاہتا ہے اس...