ڈیجیٹل ٹکنالوجی دنیا کا چیلنج /Digital Universal Challenges: Valuable articles, World Domain,writers and thinkers in various languages, a collection of articles on humanity and socialism,
Islamic Culture is a platform of interpersonal intelligence. Valuable articles, scientific research and valuable words for great researchers, multilingual writers and thinkers. A collection of articles on humanity and socialism, and how Islam leads towards peace and satisfaction.
Wednesday, July 31, 2019
ڈیجیٹل ٹکنالوجی دنیا کا چیلنج /Digital Universal Challenges
Islamic Culture is a platform of interpersonal intelligence. Valuable articles, scientific research and valuable words for great researchers, multilingual writers and thinkers. A collection of articles on humanity and socialism, and how Islam leads towards peace and satisfaction.
ڈیجیٹل ٹکنالوجی دنیا کا چیلنج /Digital Universal Challenges: Valuable articles, World Domain,writers and thinkers in various languages, a collection of articles on humanity and socialism,
ڈیجیٹل ٹکنالوجی دنیا کا چیلنج /Digital Universal Challenges: Valuable articles, World Domain,writers and thinkers in various languages, a collection of articles on humanity and socialism,
बाज़" ऐसा पक्षी जिसे हम ईगल भी कहते है।
"बाज़" ऐसा पक्षी जिसे हम ईगल भी कहते है।
जिस उम्र में बाकी परिंदों के बच्चे चिचियाना सीखते है उस उम्र में एक मादा बाज अपने चूजे को पंजे में दबोच कर सबसे ऊंचा उड़ जाती है। पक्षियों की दुनिया में ऐसी Tough and tight training किसी भी ओर की नही होती।
मादा बाज अपने चूजे को लेकर लगभग 12 Kmt. ऊपर ले जाती है। जितने ऊपर आधुनिक जहाज उड़ा करते हैं और वह दूरी तय करने में मादा बाज 7 से 9 मिनट का समय लेती है।
मादा बाज अपने चूजे को लेकर लगभग 12 Kmt. ऊपर ले जाती है। जितने ऊपर आधुनिक जहाज उड़ा करते हैं और वह दूरी तय करने में मादा बाज 7 से 9 मिनट का समय लेती है।
यहां से शुरू होती है उस नन्हें चूजे की कठिन परीक्षा। उसे अब यहां बताया जाएगा कि तू किस लिए पैदा हुआ है? तेरी दुनिया क्या है? तेरी ऊंचाई क्या है? तेरा धर्म बहुत ऊंचा है और फिर मादा बाज उसे अपने पंजों से छोड़ देती है।
धरती की ओर ऊपर से नीचे आते वक्त लगभग 2 Kmt. उस चूजे को आभास ही नहीं होता कि उसके साथ क्या हो रहा है। 7 Kmt. के अंतराल के आने के बाद उस चूजे के पंख जो कंजाइन से जकड़े होते है, वह खुलने लगते है।
लगभग 9 Kmt. आने के बाद उनके पंख पूरे खुल जाते है। यह जीवन का पहला दौर होता है जब बाज का बच्चा पंख फड़फड़ाता है।
अब धरती से वह लगभग 3000 मीटर दूर है लेकिन अभी वह उड़ना नहीं सीख पाया है। अब धरती के बिल्कुल करीब आता है जहां से वह देख सकता है उसके स्वामित्व को। अब उसकी दूरी धरती से महज 700/800 मीटर होती है लेकिन उसका पंख अभी इतना मजबूत नहीं हुआ है की वो उड़ सके।
धरती से लगभग 400/500 मीटर दूरी पर उसे अब लगता है कि उसके जीवन की शायद अंतिम यात्रा है। फिर अचानक से एक पंजा उसे आकर अपनी गिरफ्त मे लेता है और अपने पंखों के दरमियान समा लेता है।
यह पंजा उसकी मां का होता है जो ठीक उसके उपर चिपक कर उड़ रही होती है। और उसकी यह ट्रेनिंग निरंतर चलती रहती है जब तक कि वह उड़ना नहीं सीख जाता।
लगभग 9 Kmt. आने के बाद उनके पंख पूरे खुल जाते है। यह जीवन का पहला दौर होता है जब बाज का बच्चा पंख फड़फड़ाता है।
अब धरती से वह लगभग 3000 मीटर दूर है लेकिन अभी वह उड़ना नहीं सीख पाया है। अब धरती के बिल्कुल करीब आता है जहां से वह देख सकता है उसके स्वामित्व को। अब उसकी दूरी धरती से महज 700/800 मीटर होती है लेकिन उसका पंख अभी इतना मजबूत नहीं हुआ है की वो उड़ सके।
धरती से लगभग 400/500 मीटर दूरी पर उसे अब लगता है कि उसके जीवन की शायद अंतिम यात्रा है। फिर अचानक से एक पंजा उसे आकर अपनी गिरफ्त मे लेता है और अपने पंखों के दरमियान समा लेता है।
यह पंजा उसकी मां का होता है जो ठीक उसके उपर चिपक कर उड़ रही होती है। और उसकी यह ट्रेनिंग निरंतर चलती रहती है जब तक कि वह उड़ना नहीं सीख जाता।
यह ट्रेनिंग एक कमांडो की तरह होती है। तब जाकर दुनिया को एक बाज़ मिलता है अपने से दस गुना अधिक वजनी प्राणी का भी शिकार करता है।
हिंदी में एक कहावत है... *"बाज़ के बच्चे मुँडेर पर नही उड़ते।"*
बेशक अपने बच्चों को अपने से चिपका कर रखिए पर उसे दुनियां की मुश्किलों से रूबरू कराइए, उन्हें लड़ना सिखाइए। बिना आवश्यकता के भी संघर्ष करना सिखाइए।
वर्तमान समय की अनन्त सुख सुविधाओं की आदत व अभिवावकों के बेहिसाब लाड़ प्यार ने मिलकर, आपके बच्चों को "ब्रायलर मुर्गे" जैसा बना दिया है जिसके पास मजबूत टंगड़ी तो है पर चल नही सकता। वजनदार पंख तो है पर उड़ नही सकता क्योंकि "गमले के पौधे और जंगल के पौधे में बहुत फ़र्क होता है।"
हिंदी में एक कहावत है... *"बाज़ के बच्चे मुँडेर पर नही उड़ते।"*
बेशक अपने बच्चों को अपने से चिपका कर रखिए पर उसे दुनियां की मुश्किलों से रूबरू कराइए, उन्हें लड़ना सिखाइए। बिना आवश्यकता के भी संघर्ष करना सिखाइए।
वर्तमान समय की अनन्त सुख सुविधाओं की आदत व अभिवावकों के बेहिसाब लाड़ प्यार ने मिलकर, आपके बच्चों को "ब्रायलर मुर्गे" जैसा बना दिया है जिसके पास मजबूत टंगड़ी तो है पर चल नही सकता। वजनदार पंख तो है पर उड़ नही सकता क्योंकि "गमले के पौधे और जंगल के पौधे में बहुत फ़र्क होता है।"
طلاق بل یعنی 30 جلائی 2019 کے بعد کیا؟
اب ہمارے لئے دو ہی راستے بچ گئے ہیں
گزشتہ کل ۳۰ جولائی ۱۹ ء کو راجیہ سبھا (ایوان بالا ) میں بھی طلاق بل کو منظوری مل گئی، جبکہ لوک سبھا میں تین بار حکمراں جماعت نے اس بل کو پاس کرایا ، یہ خبر یقینا ہم مسلمانوں کے لئے انتہائی تکلیف دہ اور افسوس ناک ہے لیکن اس سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے، اللہ تعالٰی شر میں بھی خیر کا پہلو نکالتا ہے ۔
کفر اور طاغوتی طاقت ایک پلیٹ فارم پر جمع ہے وہ ہمیں زیر کرنے کے لئے اور ہمارے عائلی نظام کو بدلنے اور کمزور کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور صرف کر رہے ہیں اور کرتے رہیں گے ۔ اس بل کی نا معقولیت اور اس کے کمزور اور بے تکا ہونے پر اپنے اور غیروں نے کھل کر بحثیں کیں ۔ لیکن اس کے باوجود حکومت کی آنکھیں نہ کھلیں،اور ان پر جوں تک نہ رینگا ۔ جس سے یہ صاف ہوگیا کہ اس کا مقصد خواتین کو تحفظ فراہم کرنا نہیں بلکہ مسلمانوں کے عائلی اور معاشرتی قوانین کو نشانہ بنانا ہے ۔
اب اگر ہم ان طاقتوں کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں تو ہمارے پاس دو ہی راستے ہیں ایک اپنی صفوں میں اتحاد و اجتماعیت اور دوسرا اسلامی احکام و مسائل عبادات و معاملات شرعی اور عائلی قوانین پر سو فیصد عمل ۔
اگر ہم نے موجودہ حالات میں ان دو راستوں کو نہیں اپنایا اور ان پر عمل پیرا نہیں ہوئے تو آگے اور مشکل اور دشوار و ناگفتہ بہ حالات کو جھیلنے کے لئے ہم تیار رہیں ۔ اس کے لئے سب سے پہلے حضرات علماء کرام کو آگے آنا پڑے گا اور خود کو سو فیصد نمونہ بنانا پڑے گا کہ وہ اپنی عملی زندگی کو شریعت کے مطابق ڈھالیں اور اپنے مقدمات کو خود دار القضا میں حل کرائیں ۔ امت میں شریعت بیداری مہم کو رسمی نہیں بلکہ حقیقی صورت میں انجام دیں اس درد اور سوز کے ساتھ امت کے پاس جائیں کہ وہ شریعت کی پاسداری اور اس پر عمل کرنے پر مجبور ہو جائیں انہیں بتائیں کہ شریعت سے دوری ہی کی وجہ سے دشمن کو یہ موقعہ ملا ہے اور وہ آج ہماری شریعت کا مذاق اڑا رہے ہیں ۔ اس میں دخل اندازی کر رہے ہیں ۔ میاں بیوی میں شکایت اور اختلاف ہو تو پہلے مرحلے میں وہ اوروں کو شامل کئے بغیر خود باہم گلے شکوے دور کریں ۔ اگر وہ اس اختلاف کو دور نہ کرسکیں تو اپنے خاندان کے مخلص حضرات کو جو اس رشتہ کے تئیں ہمدردی رکھتے ہوں ان کو اس میٹر میں شریک کریں اور ان کو فیصل اور حکم مان کر اپنے قضیہ کو رفع کرائیں ۔ اگر فیصل اور حکم کے تصفیہ کے بعد بھی معاملہ جوں کا توں رہے تو مرد کو حق ہے کہ وہ ایک طلاق دے اور دوران عدت اگر احساس ہوجائے تو رجوع کرلے ورنہ یہ طلاق رجعی عدت کے بعد طلاق بائن ہوجائے گی ۔ اب دونوں کہیں بھی اپنا رشتہ کرسکتے ہیں ۔ اگر بعد میں کبھی یہ دونوں خود آپس میں نکاح کرنا چاہیں تو اس کی گنجائش باقی رہے گی ۔ عام مسلمانوں کو شریعت کا علم بالکل نہیں ہے ان کو بتایا جائے کہ تین طلاق بیک وقت دینا انتہائی بری بات اور نازیبا عمل ہے ۔ اس لئے اس سے بچیں اور اگر مجبوری آجائے تو شریعت نے اسٹیپ بائے اسٹیپ جو طریقہ بتایا ہے اس پر عمل کریں ۔ مسلم اور غیر مسلم وکلاء جو طلاق نامہ تیار کرتے ہیں اس میں تین طلاق ہی لکھتے ہیں اور اس پر دستخط کرواتے ہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ تین طلاق دینے ہی سے طلاق واقع ہوتی ہے ۔ ان کو کچھ بھی پتہ نہیں رہتا اس لئے ایسے موقع شریعت کے ماہر عالم کو ضرور بلایا جائے اور ان کی موجودگی میں ان کے ذریعے طلاق نامہ تیار کیا جائے ۔ لڑکی اور لڑکے کے بے جوڑ نکاح سے بچا جائے اور کفو اور معیار کا خیال رکھ کر رشتہ کرایا جائے صرف دولت اور پیسے کے بنیاد پر رشتہ نہ کیا جائے بلکہ بہتر ہوگا کہ کسی ذریعہ سے لڑکی کی پسند اور ناپسند بھی معلوم کرلی جائے لڑکا اور لڑکی کی جبری شادی نہ کی جائے ۔ ہر گاؤں اور محلہ کی سطح پر مسلمانوں کی کوئ تنظیم ہو جو امارت یا جمعیت یا پرسنل لا کے ماتحت ہو علماء اس کی سرپرستی کریں اور اس طرح کے مسائل کو آپس ہی میں حل کرنے کی کوشش کریں یا دار القضا سے حل کرائیں ۔ عصری عدالت جانے کی نوبت ہی نہ آئے ۔ پوری منصوبہ بندی کے ساتھ مسلمانوں کو عائلی نظام اور اسلام کے معاشرتی قوانین سے باخبر کریں اور اس کی خوبیوں حکمتوں اور اچھائیوں سے لوگوں کو واقف کرائیں ۔
دوسری طرف موجوہ حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے اور باطل سے آنکھ ملانے کے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنی کھوئ ہوئ طاقت کو واپس لائیں ہم متحد ہوں اور اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں ۔ یاد رکھیں *امت مسلمہ* اس وقت بہت ہی نازک اور مشکل دور سے گزر رہی ہے ، دن بدن حالات بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں ۔ اسلام کے خلاف نفرت کا ماحول بنایا جارہا ہے ، دشمنان دین ہر چہار جانب سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ریشہ دوانیوں میں مصروف ہیں ۔ میڈیا چاہے مغربی ہو یا مشرقی یہ پورا پورا بکتا ہوا نظر آرہا ہے ۔ وہ لوگ پوری طاقت اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے اور زہر گھولنے میں صرف کر رہے ہیں ۔ تو دوسری طرف مسلمان خود آپس میں تسبیح کی دانوں کی طرح بکھر گئے ہیں ان کا شیرازہ منتشر ہوگیا ہے ، وہ مسلکی اور گروہی اختلاف کو دین کی خدمت سمجھ کر انجام دے رہے ہیں۔ بہت سے لوگ تو اب اسلام اور دین کی نہیں مسلک کی تبلیغ میں طاقت و قوت صرف کر رہے ہیں اور مال و زر کا لالچ دے کر اپنے مسلک کو قبول کرنے پر آمادہ کر رہے ہیں ۔ وہ حضرات جن کو قدرت نے بلا کی ذہانت و فطانت صلاحیت و لیاقت اور فراست و عبقریت سے نوازا تھا اور جن کے اندر یہ صلاحیت تھی کہ وہ قوم و ملت کی مثبت قیادت کریں اور بیاباں کی شب تاریک میں قندیل رہبانی کا فریضہ انجام دیں وہ حضرات بھی اپنا اعتماد کھوتے نظر آرہے ہیں اور غیر ضروی بحث و مباحثہ اور بے وقت کے موضوعات میں اپنی توانائیاں صرف کرنے میں لگے ہوئے ہیں جن کی وجہ سے عوام و خواص میں بہت ہی غلط فہمیاں پیدا ہو گئی ہیں اور ان غلط فہمیوں کا سلسلہ دراز ہوتا جا رہا ہے ۔ موجودہ حالات اور ملت اسلامیہ کا یہ انتشار و افتراق ہم سب سبے نظم و اتحاد کا طالب ہے یہ امت جو قیام عدل و انصاف کے لئے برپا کی گئ تھی اور لوگوں کے نفع رسانی کے لئے وجود میں آئ تھی آج قعر مذلت میں گرتی چلی جارہی ہے اپنی برتری اور افضلیت کھوتی چلی جارہی ہے ان حالات میں ضرورت ہے کہ اس کو اس کے منصب عظیم اور مقام بلند سے واقف کرایا جائے ۔ لیکن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ افسوس کہ نیکی اور معروف کی اشاعت بدی اور فساد کے خاتمہ کے لئے جس گروہ کو پیدا کیا گیا تھا وہ آج خود فساد میں مبتلا ہو گیا اور آج اس فساد و بگاڑ اور اختلاف کی وجہ سے خود اپنی زبوں حالی اور ہمہ جہت پسماندگی کے سبب دوسروں کے لئے درس عبرت بن گیا ہے ۔ ضرورت ہے کہ اختلاف و انتشار کو ختم کیا جائے اور امت میں نئے سرے سے امنگ و حوصلہ پیدا کیا جائے کہ وہ پھر جادئہ حق و صداقت پر گامزن ہو سکے ۔ ہمیں کسی حال میں اس حقیقت کو بھولنا اور فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ اتحاد و اتفاق کسی بھی قوم وملت کا قیمتی سرمایہ اور اس کے تحفظ و بقا کا ضامن ہوا کرتا ہے جو قوم اتحاد و اتفاق اور اجتماعیت و یکجہتی سے بہرہ ور ہوتی ہے اور اس دولت سے مالا مال ہوتی ہے وہی قوم اور ملت زمانہ میں پنپتی ابھرتی نکھرتی اور عروج و بلندی کی منزلیں طے کرتی ہے اس سے وہ اپنے وجود اور اپنی حیثیت کو باقی رکھتی ہے ۔ یہ اتحاد و اتفاق اور اجتماعیت امت مسلمہ کے لئے تو بمنزلہ محور و مرکز ہے عقیدئہ توحید سے لے کر تمام عبادات و اعمال میں یہی حقیقت و اجتماعیت جلوہ گر نظر آتی ہے ۔ قرآن و حدیث میں ہمیں جابجا اجتماعیت اور اتحاد و اتفاق پر زور دیا گیا ہے اور اختلاف و انتشار سے بچنے بلکہ اس دور رہنے کی تاکید کی گئ ہے ۔ لیکن افسوس کہ پڑا لکھا انتہائی کریم جنئیس اور انٹکیچول طبقہ بھی جو آیت قرآنی *ولا تنازعوا فتفشلوا وتذھب ریحکم* (اور مت جھگڑوا ورنہ ناکام ہو جاو گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی) پر چیخ چیخ کر گھنٹوں تقریر کرتا ہے طلاقت لسانی کا جوہر دکھلاتا ہے وہ خود اختلاف و انتشار کا معجون مرکب بنا رہتا ہے ۔ ان کا خود کسی سے اتحاد نہیں یہ لوگ ہر جگہ اپنی ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد بنائے رہتے ہیں جب قوم کے رہبر اور واعظ خود عملی زندگی سے خالی ہوں گے بے عمل ہوں گے تو صرف زبانی زباں خرچ سے ملت کی تقدیر کبھی نہیں بدلی ہے اور نہ بدلے گی ۔ آج جب کہ اس امت کو (اور خصوصا ملت ہندیہ کو) نوع بنوع یورش و یلغار کا سامنا ہے اور ان حملوں کا نشانہ اس کا تشخص ،عقائد نظریہ دین و زندگی، تصور خالق و مخلوق اور تصور دنیا و آخرت ہے اور مقصد ان سب کو تبدیل کردینا ہے ایسے میں اس نئے طاغوتی طاقتوں اور طاغوتی نظام کے مقابلے میں یہ امت صرف اسی وقت کھڑی ہوسکتی ہے کہ اپنے رب کی رسی کو مضبوطی سے تھام لے آپس میں سیسہ پلائی دیوار بن جائے ۔ اور اپنے نہ ٹوٹنے والے مستحکم ستون سے پوری طرح چمٹ جائے ۔ حضرت امام مالک رحمہ اللہ کا وہ قیمتی فارمولا بھی ہمیں اپنے سامنے رکھنا پڑے گا ۔ انہوں نے فرمایا تھا *لا یصلح آخر ھذہ الأمة الا بما صلح بہ اولھا*
اس امت کے بعد کے دور کی اصلاح صرف اسی طریقے سے ہوسکتی ہے جس سے پہلے دور کی ہوئی تھی ۔ اور دور اول کی اصلاح کتاب و سنت اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے سے ہوئ تھی ۔
اللہ تعالٰی ہم سب کو اس کی توفیق بخشے آمین اور امت کو اجتماعیت کی لڑی میں پیرو دے آمین.
اگر ہم نے موجودہ حالات میں ان دو راستوں کو نہیں اپنایا اور ان پر عمل پیرا نہیں ہوئے تو آگے اور مشکل اور دشوار و ناگفتہ بہ حالات کو جھیلنے کے لئے ہم تیار رہیں ۔ اس کے لئے سب سے پہلے حضرات علماء کرام کو آگے آنا پڑے گا اور خود کو سو فیصد نمونہ بنانا پڑے گا کہ وہ اپنی عملی زندگی کو شریعت کے مطابق ڈھالیں اور اپنے مقدمات کو خود دار القضا میں حل کرائیں ۔ امت میں شریعت بیداری مہم کو رسمی نہیں بلکہ حقیقی صورت میں انجام دیں اس درد اور سوز کے ساتھ امت کے پاس جائیں کہ وہ شریعت کی پاسداری اور اس پر عمل کرنے پر مجبور ہو جائیں انہیں بتائیں کہ شریعت سے دوری ہی کی وجہ سے دشمن کو یہ موقعہ ملا ہے اور وہ آج ہماری شریعت کا مذاق اڑا رہے ہیں ۔ اس میں دخل اندازی کر رہے ہیں ۔ میاں بیوی میں شکایت اور اختلاف ہو تو پہلے مرحلے میں وہ اوروں کو شامل کئے بغیر خود باہم گلے شکوے دور کریں ۔ اگر وہ اس اختلاف کو دور نہ کرسکیں تو اپنے خاندان کے مخلص حضرات کو جو اس رشتہ کے تئیں ہمدردی رکھتے ہوں ان کو اس میٹر میں شریک کریں اور ان کو فیصل اور حکم مان کر اپنے قضیہ کو رفع کرائیں ۔ اگر فیصل اور حکم کے تصفیہ کے بعد بھی معاملہ جوں کا توں رہے تو مرد کو حق ہے کہ وہ ایک طلاق دے اور دوران عدت اگر احساس ہوجائے تو رجوع کرلے ورنہ یہ طلاق رجعی عدت کے بعد طلاق بائن ہوجائے گی ۔ اب دونوں کہیں بھی اپنا رشتہ کرسکتے ہیں ۔ اگر بعد میں کبھی یہ دونوں خود آپس میں نکاح کرنا چاہیں تو اس کی گنجائش باقی رہے گی ۔ عام مسلمانوں کو شریعت کا علم بالکل نہیں ہے ان کو بتایا جائے کہ تین طلاق بیک وقت دینا انتہائی بری بات اور نازیبا عمل ہے ۔ اس لئے اس سے بچیں اور اگر مجبوری آجائے تو شریعت نے اسٹیپ بائے اسٹیپ جو طریقہ بتایا ہے اس پر عمل کریں ۔ مسلم اور غیر مسلم وکلاء جو طلاق نامہ تیار کرتے ہیں اس میں تین طلاق ہی لکھتے ہیں اور اس پر دستخط کرواتے ہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ تین طلاق دینے ہی سے طلاق واقع ہوتی ہے ۔ ان کو کچھ بھی پتہ نہیں رہتا اس لئے ایسے موقع شریعت کے ماہر عالم کو ضرور بلایا جائے اور ان کی موجودگی میں ان کے ذریعے طلاق نامہ تیار کیا جائے ۔ لڑکی اور لڑکے کے بے جوڑ نکاح سے بچا جائے اور کفو اور معیار کا خیال رکھ کر رشتہ کرایا جائے صرف دولت اور پیسے کے بنیاد پر رشتہ نہ کیا جائے بلکہ بہتر ہوگا کہ کسی ذریعہ سے لڑکی کی پسند اور ناپسند بھی معلوم کرلی جائے لڑکا اور لڑکی کی جبری شادی نہ کی جائے ۔ ہر گاؤں اور محلہ کی سطح پر مسلمانوں کی کوئ تنظیم ہو جو امارت یا جمعیت یا پرسنل لا کے ماتحت ہو علماء اس کی سرپرستی کریں اور اس طرح کے مسائل کو آپس ہی میں حل کرنے کی کوشش کریں یا دار القضا سے حل کرائیں ۔ عصری عدالت جانے کی نوبت ہی نہ آئے ۔ پوری منصوبہ بندی کے ساتھ مسلمانوں کو عائلی نظام اور اسلام کے معاشرتی قوانین سے باخبر کریں اور اس کی خوبیوں حکمتوں اور اچھائیوں سے لوگوں کو واقف کرائیں ۔
دوسری طرف موجوہ حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے اور باطل سے آنکھ ملانے کے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنی کھوئ ہوئ طاقت کو واپس لائیں ہم متحد ہوں اور اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں ۔ یاد رکھیں *امت مسلمہ* اس وقت بہت ہی نازک اور مشکل دور سے گزر رہی ہے ، دن بدن حالات بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں ۔ اسلام کے خلاف نفرت کا ماحول بنایا جارہا ہے ، دشمنان دین ہر چہار جانب سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ریشہ دوانیوں میں مصروف ہیں ۔ میڈیا چاہے مغربی ہو یا مشرقی یہ پورا پورا بکتا ہوا نظر آرہا ہے ۔ وہ لوگ پوری طاقت اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے اور زہر گھولنے میں صرف کر رہے ہیں ۔ تو دوسری طرف مسلمان خود آپس میں تسبیح کی دانوں کی طرح بکھر گئے ہیں ان کا شیرازہ منتشر ہوگیا ہے ، وہ مسلکی اور گروہی اختلاف کو دین کی خدمت سمجھ کر انجام دے رہے ہیں۔ بہت سے لوگ تو اب اسلام اور دین کی نہیں مسلک کی تبلیغ میں طاقت و قوت صرف کر رہے ہیں اور مال و زر کا لالچ دے کر اپنے مسلک کو قبول کرنے پر آمادہ کر رہے ہیں ۔ وہ حضرات جن کو قدرت نے بلا کی ذہانت و فطانت صلاحیت و لیاقت اور فراست و عبقریت سے نوازا تھا اور جن کے اندر یہ صلاحیت تھی کہ وہ قوم و ملت کی مثبت قیادت کریں اور بیاباں کی شب تاریک میں قندیل رہبانی کا فریضہ انجام دیں وہ حضرات بھی اپنا اعتماد کھوتے نظر آرہے ہیں اور غیر ضروی بحث و مباحثہ اور بے وقت کے موضوعات میں اپنی توانائیاں صرف کرنے میں لگے ہوئے ہیں جن کی وجہ سے عوام و خواص میں بہت ہی غلط فہمیاں پیدا ہو گئی ہیں اور ان غلط فہمیوں کا سلسلہ دراز ہوتا جا رہا ہے ۔ موجودہ حالات اور ملت اسلامیہ کا یہ انتشار و افتراق ہم سب سبے نظم و اتحاد کا طالب ہے یہ امت جو قیام عدل و انصاف کے لئے برپا کی گئ تھی اور لوگوں کے نفع رسانی کے لئے وجود میں آئ تھی آج قعر مذلت میں گرتی چلی جارہی ہے اپنی برتری اور افضلیت کھوتی چلی جارہی ہے ان حالات میں ضرورت ہے کہ اس کو اس کے منصب عظیم اور مقام بلند سے واقف کرایا جائے ۔ لیکن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ افسوس کہ نیکی اور معروف کی اشاعت بدی اور فساد کے خاتمہ کے لئے جس گروہ کو پیدا کیا گیا تھا وہ آج خود فساد میں مبتلا ہو گیا اور آج اس فساد و بگاڑ اور اختلاف کی وجہ سے خود اپنی زبوں حالی اور ہمہ جہت پسماندگی کے سبب دوسروں کے لئے درس عبرت بن گیا ہے ۔ ضرورت ہے کہ اختلاف و انتشار کو ختم کیا جائے اور امت میں نئے سرے سے امنگ و حوصلہ پیدا کیا جائے کہ وہ پھر جادئہ حق و صداقت پر گامزن ہو سکے ۔ ہمیں کسی حال میں اس حقیقت کو بھولنا اور فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ اتحاد و اتفاق کسی بھی قوم وملت کا قیمتی سرمایہ اور اس کے تحفظ و بقا کا ضامن ہوا کرتا ہے جو قوم اتحاد و اتفاق اور اجتماعیت و یکجہتی سے بہرہ ور ہوتی ہے اور اس دولت سے مالا مال ہوتی ہے وہی قوم اور ملت زمانہ میں پنپتی ابھرتی نکھرتی اور عروج و بلندی کی منزلیں طے کرتی ہے اس سے وہ اپنے وجود اور اپنی حیثیت کو باقی رکھتی ہے ۔ یہ اتحاد و اتفاق اور اجتماعیت امت مسلمہ کے لئے تو بمنزلہ محور و مرکز ہے عقیدئہ توحید سے لے کر تمام عبادات و اعمال میں یہی حقیقت و اجتماعیت جلوہ گر نظر آتی ہے ۔ قرآن و حدیث میں ہمیں جابجا اجتماعیت اور اتحاد و اتفاق پر زور دیا گیا ہے اور اختلاف و انتشار سے بچنے بلکہ اس دور رہنے کی تاکید کی گئ ہے ۔ لیکن افسوس کہ پڑا لکھا انتہائی کریم جنئیس اور انٹکیچول طبقہ بھی جو آیت قرآنی *ولا تنازعوا فتفشلوا وتذھب ریحکم* (اور مت جھگڑوا ورنہ ناکام ہو جاو گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی) پر چیخ چیخ کر گھنٹوں تقریر کرتا ہے طلاقت لسانی کا جوہر دکھلاتا ہے وہ خود اختلاف و انتشار کا معجون مرکب بنا رہتا ہے ۔ ان کا خود کسی سے اتحاد نہیں یہ لوگ ہر جگہ اپنی ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد بنائے رہتے ہیں جب قوم کے رہبر اور واعظ خود عملی زندگی سے خالی ہوں گے بے عمل ہوں گے تو صرف زبانی زباں خرچ سے ملت کی تقدیر کبھی نہیں بدلی ہے اور نہ بدلے گی ۔ آج جب کہ اس امت کو (اور خصوصا ملت ہندیہ کو) نوع بنوع یورش و یلغار کا سامنا ہے اور ان حملوں کا نشانہ اس کا تشخص ،عقائد نظریہ دین و زندگی، تصور خالق و مخلوق اور تصور دنیا و آخرت ہے اور مقصد ان سب کو تبدیل کردینا ہے ایسے میں اس نئے طاغوتی طاقتوں اور طاغوتی نظام کے مقابلے میں یہ امت صرف اسی وقت کھڑی ہوسکتی ہے کہ اپنے رب کی رسی کو مضبوطی سے تھام لے آپس میں سیسہ پلائی دیوار بن جائے ۔ اور اپنے نہ ٹوٹنے والے مستحکم ستون سے پوری طرح چمٹ جائے ۔ حضرت امام مالک رحمہ اللہ کا وہ قیمتی فارمولا بھی ہمیں اپنے سامنے رکھنا پڑے گا ۔ انہوں نے فرمایا تھا *لا یصلح آخر ھذہ الأمة الا بما صلح بہ اولھا*
اس امت کے بعد کے دور کی اصلاح صرف اسی طریقے سے ہوسکتی ہے جس سے پہلے دور کی ہوئی تھی ۔ اور دور اول کی اصلاح کتاب و سنت اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے سے ہوئ تھی ۔
اللہ تعالٰی ہم سب کو اس کی توفیق بخشے آمین اور امت کو اجتماعیت کی لڑی میں پیرو دے آمین.
बुरा समय एक अवसर भी होता है।
ईमानदारी से कहूं तो मुस्लिम समाज में भी एक नए और आधुनिक समाज सुधार आन्दोलन की आवश्यकता है। शिक्षा, रोज़गार, आधुनिक दृष्टि, जेंडर जस्टिस और फ़िरक़ों के बीच की नफरत को दूर करने के लिए अगर एक व्यापक सामाजिक आन्दोलन इस समाज के भीतर हो सका तो वह न केवल मुसलमानों बल्कि पूरे देश के लिए शानदार होगा। अगर ऐसा आंदोलन पहले हुआ होता तो तीन तलाक़ समाज के भीतर से ही ख़त्म किया जा सकता था और उसका फ़ायदा उठाने का किसी और को मौक़ा नहीं मिलता।
बुरा समय एक अवसर भी होता है।
बुरा समय एक अवसर भी होता है।
تین طلاق بل کے بعد کی تدبیریں
تین طلاق بل ایوان بالا سے بھی منظور ہوگیا ہے اور اب یہ صدر جمہوریہ کے دستخط کے بعد اس ادھیادیش کی جگہ لے گا جو تقریبا دوسالوں سے نافذالعمل ہے۔گر چہ پچھلے دوسالوں میں اس تعلق سے مسلمانوں پہ کوئی بڑی مصیبت نازل نہیں ہوئی۔ باوجود اس کے کہ یہ (ادھیادیش)قانون سراسر ظلم و ناانصافی پہ مبنی ہونے کے ساتھ ساتھ مسلم پرسنل لاء اور ہمارے دین میں مداخلت ہے۔
اب جب کہ یہ بل قانونی شکل لینے والا ہے لہذا ہمیں اس کے بعد کی تدبیریں کرنا ناگزیر ہے تاکہ اس کالا قانون کے دینی و دنیاوی مضر اثرات کو کم سے کم تر کیا جاسکے۔
اس حوالے سے درج ذیل منصوبوں پہ کام کرنے کی سخت ضرورت ہے۔
1. قرآن و سنت کے مطابق احسن طریقہ طلاق کوعوامی موضوع سخن بنا کر خوب عام کیا جائے۔
2. ایک ساتھ تین طلاق جو قرآن و سنت کے خلاف اور حرام ہے،نیز موجودہ جبریہ ملکی قانون کے بھی خلاف ہے۔ اس لیے اس کو بھی ممبرومحراب سے لیکر چائے اور پان کی دکان تک عوامی مذاکرہ کی شکل دی جائے۔اور لوگوں کو تین طلاق سے بچنے کی سمت تاکید کی جائے۔
3. عام لوگ جو دین و سنت سے واقف نہیں ہیں وہ یہ سمجھتے ہیں کہ بیوی سے جدائی کے لیے تین طلاق دینا ضروری ہے چنانچہ ان پر جب جہالت کی کیفیت طاری ہوتی ہے تو وہ تین طلاق کہہ دیتے ہیں اور جب ہوش آتا ہے تو خود کو مصیبتوں میں گھراہوا محسوس کرتے ہیں اور افسوس کرتے ہیں جس کا کوئی فائدہ نہیں۔لہذا اس حوالے سے انہیں طلاق کے مسائل سکھائے جائیں۔
4. ایک طلاق سے ہی عدت گزرنے کے بعد بیوی جدا ہوجاتی ہے اور وہ دوسرے سے نکاح کر سکتی ہے اور اسی طرح شوہر بھی آزاد ہو جاتا ہے ۔مذکورہ باتیں لوگوں کے دل و دماغ میں بٹھانے کی ضرورت ہے کہ بیوی سے مکمل جدائی کے لیے ایک ہی طلاق کافی ہے۔اور ایک ساتھ تین طلاق دینا شرعا حرام اور قانونا جرم ہے۔
جب ان باتوں سے عام مسلمانوں کی مکمل واقفیت ہوگی تو حالات جیسے بھی ہوں اور جس قدر بھی غصے کی کیفیت کیوں نہ ہو اس کے منہ سے ایک ہی طلاق نکلے گا اور وہ دو اور تین طلاق کہ طرف بڑھنے کی کوشش بھی نہیں کرے گا۔
إن شاء الله اگر ہم ایسا کر سکیں تو یقینا ہم گناہوں سے بھی بچیں گے اور ملکی قانون کے مضر اثرات سے بھی۔
5۔ میری ذاتی رائے ہے کہ علمائے دین و قائدین ملت ملک بند،روڈجام اور احتجاجی جلسہ و جلوس کو چھوڑ کر عوامی بیداری تحریک چلائیں اور تعلیمی بیداری کے ساتھ اتحاد و اتفاق کی ایسی مہم شروع کریں کہ ہم متحد ہو جائیں۔ ساتھ ہی ان معاملات کو ایسی خوبصورتی کے ساتھ عمل میں لائیں کہ حکومت کے برے منشاء پہ پانی پھر جائے۔
حکومت اس بل کو لاکر یہ چاہتی ہے کہ ہم مسلمان ٹکڑوں میں تقسیم ہوکر ذلیل و خوار ہوں اور ہمارے جذبات کا استحصال ہوتا رہے۔اگر مسلم قائدین اس مصیبت کو مسلمانوں کے لیے فال نیک بنانے میں کامیاب ہو جائیں تو یہ کارنامہ یقینی طور پر ایمانی بصیرت کا نتیجہ ثابت ہوگا۔
محمد شہادت حسین فیضی
اب جب کہ یہ بل قانونی شکل لینے والا ہے لہذا ہمیں اس کے بعد کی تدبیریں کرنا ناگزیر ہے تاکہ اس کالا قانون کے دینی و دنیاوی مضر اثرات کو کم سے کم تر کیا جاسکے۔
اس حوالے سے درج ذیل منصوبوں پہ کام کرنے کی سخت ضرورت ہے۔
1. قرآن و سنت کے مطابق احسن طریقہ طلاق کوعوامی موضوع سخن بنا کر خوب عام کیا جائے۔
2. ایک ساتھ تین طلاق جو قرآن و سنت کے خلاف اور حرام ہے،نیز موجودہ جبریہ ملکی قانون کے بھی خلاف ہے۔ اس لیے اس کو بھی ممبرومحراب سے لیکر چائے اور پان کی دکان تک عوامی مذاکرہ کی شکل دی جائے۔اور لوگوں کو تین طلاق سے بچنے کی سمت تاکید کی جائے۔
3. عام لوگ جو دین و سنت سے واقف نہیں ہیں وہ یہ سمجھتے ہیں کہ بیوی سے جدائی کے لیے تین طلاق دینا ضروری ہے چنانچہ ان پر جب جہالت کی کیفیت طاری ہوتی ہے تو وہ تین طلاق کہہ دیتے ہیں اور جب ہوش آتا ہے تو خود کو مصیبتوں میں گھراہوا محسوس کرتے ہیں اور افسوس کرتے ہیں جس کا کوئی فائدہ نہیں۔لہذا اس حوالے سے انہیں طلاق کے مسائل سکھائے جائیں۔
4. ایک طلاق سے ہی عدت گزرنے کے بعد بیوی جدا ہوجاتی ہے اور وہ دوسرے سے نکاح کر سکتی ہے اور اسی طرح شوہر بھی آزاد ہو جاتا ہے ۔مذکورہ باتیں لوگوں کے دل و دماغ میں بٹھانے کی ضرورت ہے کہ بیوی سے مکمل جدائی کے لیے ایک ہی طلاق کافی ہے۔اور ایک ساتھ تین طلاق دینا شرعا حرام اور قانونا جرم ہے۔
جب ان باتوں سے عام مسلمانوں کی مکمل واقفیت ہوگی تو حالات جیسے بھی ہوں اور جس قدر بھی غصے کی کیفیت کیوں نہ ہو اس کے منہ سے ایک ہی طلاق نکلے گا اور وہ دو اور تین طلاق کہ طرف بڑھنے کی کوشش بھی نہیں کرے گا۔
إن شاء الله اگر ہم ایسا کر سکیں تو یقینا ہم گناہوں سے بھی بچیں گے اور ملکی قانون کے مضر اثرات سے بھی۔
5۔ میری ذاتی رائے ہے کہ علمائے دین و قائدین ملت ملک بند،روڈجام اور احتجاجی جلسہ و جلوس کو چھوڑ کر عوامی بیداری تحریک چلائیں اور تعلیمی بیداری کے ساتھ اتحاد و اتفاق کی ایسی مہم شروع کریں کہ ہم متحد ہو جائیں۔ ساتھ ہی ان معاملات کو ایسی خوبصورتی کے ساتھ عمل میں لائیں کہ حکومت کے برے منشاء پہ پانی پھر جائے۔
حکومت اس بل کو لاکر یہ چاہتی ہے کہ ہم مسلمان ٹکڑوں میں تقسیم ہوکر ذلیل و خوار ہوں اور ہمارے جذبات کا استحصال ہوتا رہے۔اگر مسلم قائدین اس مصیبت کو مسلمانوں کے لیے فال نیک بنانے میں کامیاب ہو جائیں تو یہ کارنامہ یقینی طور پر ایمانی بصیرت کا نتیجہ ثابت ہوگا۔
محمد شہادت حسین فیضی
ट्रिपल तलाक विधेयक मुस्लिम महिलाओ के लिए काला कानून
ट्रिपल तलाक विधेयक मुस्लिम महिलाओ के लिए काला कानून: एदार ए शरिया झारखंड..
रांची: एदार ए शरिया झारखंड का प्रेस कॉन्फ्रेंस प्रदेश कार्यालय इस्लामी मरकज हिन्द पीडी रांची में एदार ए शरीया झारखंड के नाजिमे आला मौलाना कुतुबुद्दीन रिजवी की अध्यक्ष
ता में हुई। जिस में ट्रिपल तलाक से संबंधित केंद्र सरकार द्वारा लोक सभा और राज्य सभा में पारित किए जाने पर चर्चा हुई एवं इस के हर कानूनी पहलू पर विस्तार से शरीअत एवं संविधान के जानकारों ने अपनी बातें रखीं. विचार विमर्श के बाद सर्वसम्मति से निर्णय लेकर कहा गया कि किंन्द्र सरकार द्वारा लाएगए ट्रिपल तलाक कानुन मुस्लिम महिला विरोधी है इस कानून से उन मुस्लिम महिला को मानसिक, आर्थिक एवं शारीरिक परेशानी बढ़ेगी जो ट्रिपल तलाक से पीड़ित होंगी. चुंके कानुनु के अनुसार जब एक पति अपनी पत्नी को तीन तलाक देगा तो वह तलाक मान्य नहीं होगी और तलाक देने के बावजूद पीड़ित महिला तलाक देने वाले पति की पत्नी रहेगी फिर उस मुस्लिम महिला के पति को क्रिमिनल एकट के तेहत तीन वर्षो की सजा सीधे तोर पर हो जाएगी. सरकार कहती है कि इस दोरान पत्नी एवं बचों का खर्चा पति देगा प्रश्न ये है कि जब पति जेल में बंद कर दिया गया है तो वह खर्च कैसे दे पाएगा बैंक से पैसे निकालने या अपनी संपत्ति बेचने का समय भी नहीं दिया गया फिर अचानक पत्नी अपना एवं अपने बाल बचों की देख रेख स्कूल खान पान फीस दवा एलाज इतनी सारी जिम्मेदारीयौं से वह मुस्लिम महिला मानसिक, शारीरिक एवं आर्थिक रूप से अतिरिक्त टूट जाएगी. फिर सरकार का कहना है कि उस का पति जब जेल से तीन वर्षों बाद बाहर आएगा तो पत्नी को उसी तरह उसी के साथ रहना पडेगा। एदारा ने कहा कि इस जटिल परकरण से मुस्लिम महिला का जीवन नरक बन जायगा एवं उसके लिए जिन्दगी जीना दुश्वार हो जाएगा. उस महिला की तकलीफें बढ़ जाएंगी एवं तनाव पूर्ण जीवन हो जाए गी।ऊलामा ए केराम ने कहा कि शरीअत के अनुसार एक साथ तीन तलाक देने से तीन तलाक मानी जाएगी एवं तलाक देने वाला पति गुनाहगार होगा उस पर दैन मोहर एवं ईददत खर्च वाजिब है पत्नी का सारा सामान भी देना होगा। ऊलामा ने कहा कि उसे तीन नहीं पांच वर्षों की सजा सुनाई जानी चाहिए लेकिन सरकार तलाक को तलाक तो पहले मान कर पत्नी को तो आजाद करने का कानून लाकर पीड़ित महिला को सशक्त करे मगर सरकार को तो चुनावी लाभ लेना है इस लिए मुस्लिम महिला को विकास के रास्ते पर लेजाना नहीं चाहेगी। बैठक में इस विधेयक का कड़ा विरोध किया गया एवं इस को मुस्लिम महिला विरोधी के साथ संविधान में दी गई धार्मिक स्वतंत्रता के विपरीत करार देते हुए नफरत की सेयासत करने एवं मुस्लिम महिलाओं के अधिकारों पर हमला करने का आरोप केंद्र सरकार पर लगाकर देश को कमजोर करने की साजिश बताया. और कहा कि केंद्र सरकार की नीयत साफ है तो हर सरकारी विभागों में 33% आरक्षण निर्धारित कर के दिखाए साथ ही जिन मुस्लिम महिलाओं के पति मॉब लिनचिंग के शिकार हुवे उन महिलाओं के साथ इन्साफ करे. बैठक में एदारा शरिया झारखंड के नाजिमे आला मोलाना क़ुतुबुद्दीन रिजवी, मोलाना जासीमुददीन खां, कारी ऐयूब रिजवी, मुफ्ती अब्दुल मालिक मिस्बाही, मोलाना डॉ ताजउद्दीन रिजवी, मोलाना नेजामुउद्दीन मिस्बाही, मोलाना मुफ्ती फैजूल्लाह मिस्बाही, मोलाना मुजीबउर रहमान, अधिवक्ता इरशाद खान, अधिवक्ता इम्तियाज अली, प्रो अब्दुल कायूम अंसारी, मोलाना मुफ्ती अब्दुल कुद्दूस मिस्बाही, मोलाना अशरफउल्ला फैजी, एस एम मोइन, मोलाना रेयाजूद्दीन, मौलाना अब्बास, मौलाना आफताब ज़िया, मौलाना शाहिद रज़ा, मौलाना गुलाम हैदर, हाफिज जावेद, मौलाना मंज़ूर हसन बरकाती, मौलाना वारिस जमाल, मौलाना नसीम अख्तर ताज, मौलाना शमशाद मिस्बाही, मौलाना नेजाम मिस्बाही, आदी शामिल थे.
मौलाना कुतुबुददीन रिजवी
![]() |
Add caption |
9199780992
तलाक पर कुछ jaruri points
3 तलाक पर कुछ jaruri points..जो मुस्लिम समाज कि माँ बहनो को समझना चाहिए..... या उनको समझाना चाहीये गुजारिश है कि पोस्ट पूरी पढ़े....
- (1)मर्द ने गुस्से में आकर तलाक बोल दिया
- (2) औरत ने भी गुस्से में पुलिस में शिकायत कर दी
- (3) पुलिस ने मर्द को गैर जमानती अपराध में जेल में डाल दिया
- (4) अब औरत की जिम्मेदारी है कि वह साबित करें कि मर्द ने तलाक बोला है जो कि बहुत मुश्किल है।
- (5) साबित हो गया तो मर्द को 3 साल कैद की सजा।
- (6) अब औरत और बच्चों को कोन देखेगा?
- (7) औरत अब दुसरी शादी भी नहीं कर सकती क्योंकि सुप्रीम कोर्ट के आदेश के अनुसार उनका तलाक नहीं हुआ
- (8) अब उस औरत के सास ससुर, देवर जेठ ननद उसको उसी घर में रखेंगे क्या जिनके बेटे को उसने जेल में बंद करा दिया?
- (9) अब मर्द क्या उस औरत को अपनी बीवी मानेगा जिसने उसे 3 साल जेल की सजा दिलवाई?किसी भी हालत में नहीं1
- (10) अब वो मर्द उसे कानूनी तौर पर तलाक देगा।
- (11) इस सब प्रक्रिया में जो उनमें आपसी सुलह की गुंजाइश थी वह भी खत्म हो जाएगी
जो पार्टी हम मुसलमानों को गद्दार, देशद्रोही, कटवा, मुल्ला, आतंकवादी, पाकिस्तानी से सम्बोधित करती हैं जो गाय, बीफ और लव जिहाद के नाम पर मुसलमानों का कत्ल करती हैं, क्या वो कभी मुसलमानों का भला सोच सकती हैं??
तीन तलाक बिल मुसलमान, शरियत और मुस्लिम औरतों के हक में नहीं बल्कि मर्द और औरत के खिलाफ़ हैं।
भाजपा चाहती है दोनों अलग होंगे पति जेल में मरेगा और पत्नी दर दर भटक कर कोई गन्दा काम कर लेगी
जो मुस्लिमों को बर्बादी कि तरफ लें जायेगी
यह सरकार मुस्लिमों के ख़िलाफ़ है. ((((यह पोस्ट मुस्लिम समाज की ओरतो को समझाने के लिए है ईसपर गैर मुस्लिम बहस न करे ।
Subscribe to:
Posts (Atom)
Featured Post
*زحمت، رحمت اور فطرت* حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی جس کی بھلائی چاہتا ہے اس...
-
نظامت کے واسطے بہترین اشعار ایک موقع پر ڈاکٹر راحت اندوری نے کہا تھا کہ اگر خلاف ہے تو ہونے دو کوئی جان تھوڑئ ہے ...
-
جو ممالک اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی گزار رہے ہیں، ان میں سب سے پہلا نمبر نیوزی لینڈ کا، دوسرا لکسیم برگ، تیسرا آئر لینڈ، چوتھا آئیس لینڈ...
-
صبح کی سیر دل کے دورے اور فالج کے خطرے کو کم کر دیتی ہے . یہ خون کی گردش کو بہتر بناتا ہے . واک اچھا کولیسٹرول ہے اور ایل ڈی ایل کی سطح ( ...