Monday, July 22, 2019

إتحاد کرو تو صحیح پارٹ 2

Sajid Ali
شاید اتحاد کی یہ صورت ہو اور ہاں مذکورہ تمام نام اہلسنت ہی کے ہیں.

یونہی ہی بات چل رہی تھی کہ بات نکلی اگر اتفاق اور اتحاد کرنا ہی ہے تو پہل وہاں سے کی جائے جس نے جماعت اہلسنت کو الگ الگ فرقوں میں بانٹ دیا ہے پھر سوال ہوا کہ یہ کس نے کیا جواب آیا ایک ہی خانقاہ ہے جس نے متعدد مشائخ کی دل آزاری کی ہے میں نے حیرت سے پوچھا "متعدد خانقاہوں کے مشائخ کی دل آزاری"؟
جواب ملا ہاں! الیاس عطار قادری کو گمراہ کہا،
حضرت سید اشرف میاں کے بارے میں اول جلول باتیں کی گئیں،
سجادگان چشتیہ کو بھٹکا ہوا کہاگیا،
ڈاکٹر طاہرالقادری کو کافر بنادیاگیا اور پادری کہا گیا،
حضرت ثقلین میاں کو کافر قرار دیا،
خانقاہ کچھوچھہ کے بارے میں کیا نہ کثر اٹھا رکھی ہے،
حضرت سالم میاں پر کفر کا فتوہ لگایا گیا،
مداریوں کے ساتھ مارپیٹ کی گئی اور بریلی میں ان کے جلسے کو ناکام کرنے کی کوشش کی گئی
غرض یہ کہ نہ جانے کس کس صوفی و شیخ بزرگ کے خلاف کیا کیا افواہیں فتووں کے ذریعے نہ پھیلائی گئیں اب جن لوگوں نے یہ سب کیا ہے انہیں ان تمام مشائخ و صوفیہ سے معافی مانگنی چاہیئے تبھی اتحاد ممکن ہے.
میں اور حیرت زدہ ہوا اور پھر میں نے سوال کیا آخر ایسا کون کرسکتا ہے؟ وہ بھی کوئی خانقاہ! نہیں ممکن نہیں!
مجھے پھر جواب ملا کہ ہاں یہ سب سچ ہے اور ہندوستان کی ایک بڑی خانقاہ سے یہ سب ہوا ہے میں نے تعجب سے پوچھا وہ خانقاہ کونسی ہے جس نے یہ سب کرکے مسلک اہلسنت کو ہی کافر قرار دے ڈالا اور امت مسلمہ کو تقسیم کردیا؟
جواب بہت حیرت انگیز ملا کہ یہ سب خانقاہ رضویہ کی کرامت ہے............
طالب علی "شیدا"

کھلا خط

*ایک مظلوم کاچیرمین مدرسہ بورڈ کے*  
              *نام کھلا خط*
___________________________________
  چیرمین محترم ! بہار مدرسہ بورڈ پٹنہ
   السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
    شاید آپ بھی سکون کی نیند نہیں سو پارہے ہونگے، اس لئے نہیں کہ آپ کے پاس سونے کے کمرے اور آرام دہ گدہ نہیں ہے، حشم و خدم کی کمی ہے، یا پھر تیز جھلسا دینے والی گرمی سے بچنے کے لئے کولر یا اے سی کی سہولت نہیں ہے،
     حضور! آپ کے پاس سارے انتظامات ہیں، لیکن ان بچوں کی آہ جو رات کو بھوکے سو جاتے ہیں، جسے صبح تعلیم گاہ تک بھوکا جانا پڑتا ہے، جس نے عید پرانے کپڑے میں کئے ہیں، رمضان میں افطاری اور سحری میسر نہیں ہو ئے نے سونے نہیں دیا،
   میں آپ کے کئے کاموں پر تنقید نہیں کر رہا ہوں بلکہ جو طریقہ کار آپ نے اپنایا وہ اچھا نہیں ہے،  جو کام مسلم دشمن عناصر سالوں میں نہیں کرپاتے وہ آپ نے مسلمانوں کا مسیحا کہلا کر چند ماہ میں کر دیئے، اگرآپ کے پیش نظر  مدارس کی اصلاح ہی مقصود ہے تو اس کے طریقہ کار بہتر ہونے چاہئے تھے،
     آپ کے کاموں سے ایسا احساس ہوتا ہے کہ آپ کی تربیت اس گود نے نہیں کیا ہے جو گود گذشتہ زمانے کے انقلابی شخصیتوں کو میسر ہوئے تھے، آپ نے انقلاب لانے کی کوشش تو کی ہے لیکن ایسے انقلاب کے آپ داعی محسوس ہوتے ہیں جس میں تعمیر کے بجائے تخریب کا عنصر زیادہ نظر آتا ہے،
       محترم چیرمین صاحب شاید ہماری یہ بات آپ کے دل کو چوٹ پہونچا رہی ہو لیکن میرا مقصود آپ کے دل کو دکھ دینا نہیں ہے بلکہ میں چاہتا ہوں کہ تاریخ کا پنہ جب آپ کو کوس رہا ہوتو ہماری یہ باتیں سامنے رہے،
       آپ سے بات کرتے ہوئے مجھے ایسا لگ رہا ہے ہمیں کم سے کم اس طرح کی باتیں آپ سے نہیں کرنی چاہئے لیکن مجبور ہوکر کر رہا ہوں،
       محترم چیرمین صاحب !
جب آپ بہترین اے سی گاڑی پر جمعرات اور جمعہ کو جو مدارس ملحقہ کے لئے چھٹی کے دن ہوتے ہیں پہونچ کر کمیاں  نکال کر اس کے الحاق کو ختم کردیتے ہیں تو آپ کو بہت خوشی ہوتی ہے، آخر کیا وجہ ہے آپ چھٹی کے دنوں میں آتے ہیں؟ اساتذہ کے سامنے آتے ہوئے کیوں گھبراتے ہیں؟  شاید اس کا جواب آپ کے پاس نہ ہو؟ کتنے دنوں آپ اس عہدے پر براجمان رہیں گے؟ کیا مل جائے گا آپ کو کسی کے چولھے میں پانی ڈالنے سے؟ کسی کو بے ستر کرنے سے؟ کسی معصوم بچے کے منہ سے نوالہ چھین لینے سے؟  اور کتنے دنوں نتیش جی کی حکومت رہے گی؟ 
  یاد رکھئے اس عہدے سے سبکدوش ہونے کے بعد آپ پھر اسی بستی، مجلس اور دوستوں کے بیچ آئنگے جن کے ساتھ آپ نے پہلے وقت گذارا تھا، لیکن جانتے ہیں یہ لوگ آپ سے محبت کے بجائے نفرت کریں گے، استقبال کے بجائے آپ کو رسوا  کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے، جو بچے  آپ کی ان اوچھی حرکتوں کی وجہ سے رات کو بھوکے سوئے ہونگے وہ آپ کے سہارے کو کھیچ لیں گے، آپ سے ہی نہیں بلکہ آپ کی نسلوں تک سے یہ نفرت کریں گے، آپ کے بچے اگر کہیں کھاتے ہوئے ملیں گے تو ان کے سامنے سے پلیٹ چھین کر اس کے منہ پر ماردیں گے، اسکولوں اور کالجوں سے دھکے دے کر بھگا دیں گے، اسے سر عام بیچ چوراہے پر ننگا کریں گے اور لوک آپ کی نسلوں پر لعنت بھیجیں گے،
      محترم چیرمین صاحب!
تلخ باتوں کو برداشت کرنے کا بہت شکریہ ،میں محسوس کرسکتا ہوں کہ آپ اس تحریر کو پڑھ کر آگ بگولہ  ہونگے، چونکہ آپ تلخ نوائی کے خوگر نہیں ہیں،
مجھے جاننے کی کوشش کریں گے، تو مجھے بھی آپ جانئے میرا شمار بھی ان لوگوں میں ہے جس کے مدرسے کو چھٹی کے دن عین جمعہ سے قبل جاکر یہ کہتے ہوئے رد کردیا کہ اس مدرسے میں صرف چار کمرے ہیں، بنیادی سہولتوں سے محروم ہے، اس لئے اسے رد کیا جاتا ہے، ویسے تو آپ مدرسہ بورڈ کے چیرمین ہیں لیکن افسوس اس بات پر ہے کہ آپ نے ہمارے صدرمدرس اور سکریٹری صاحب کو ہندی میں نوٹس جاری کیا، ایسی کیا نفرت تھی آپ کو اردو سے؟  کیا کوئی ایسا آدمی آپ کو بورڈ میں نہیں ملا جسے اردو آتی ہو؟ویسے سنا ہے کہ آپ نے پوری زندگی اردو کے  نام پر ہی اپنے شکم بھرے ہیں،
      چیرمین محترم !
کتنے مدرسے آپ نے بنائے ہیں، یا کم سے کم زمین دیا ہے، اس مدرسے کو ہم نے زمین دیا تھا،  چار کمرے ہم نےاپنے پیسوں سے بنوائے تھے، سماج کے غریب بچوں کو ہم نے پڑھا کر اسکول، کالج اور بڑی دینی درسگاہوں میں بھیجا تھا، نہ جانے اس مدرسے سے پڑھے ہوئے کتنے بچے حافظ قرآن ہوئے،
     تف اور افسوس ہے آپ پر، تاریخ آپ پر ہنسے گی، نسلیں لعنت بھیجے گی، آپ کے بعض تیور سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کسی خاص  اشخاص سے بدلہ لینے کے لئے آئے ہوں،
      ہمیں تو ایسا احساس ہوتا ہے کہ اس عہدے کے ملنے کے بعد آپ میں ایک قسم کی رعونت آگئی ہے، گویا کہ شاہ سے بادشاہ بن گئے ہوں، کاسہ گدائی کے بعد سونے کا تمغہ مل گیا ہو،
       لوٹ جائیے اپنی حقیقت کی جانب ورنہ سب لوگ یہی کہیں گے، اب پچتاوت کیا ہوت جب چڑیا چگ گئی کھیت "
        وہ دن بہت جلد آنے والے ہیں جب آپ اپنے خاص انداز سے سر پر دوپٹہ لپیٹے  سبزی باغ کے کسی ہوٹل میں سبزی بھات کھاتے نظر آئنگے
   شکایت ان سے کرنا گو مصیبت مول لینا ہے
  مگر عاجز غزل ہم بے سنائے دم نہیں لیں گے
         والسلام 
    آپ کے ظلم سے پریشان ایک مظلوم

حرب و ضرب کی تعلیم وتربیت

حرب و ضرب کی تعلیم وتربیت ھمیشہ سے انسانی زندگی کا لازمہ رہی ہے۔ ہاں زمانہ اور  جگہ کے اعتبار سے اسکی نوعیت جداگانہ رہی ہے۔ 

ساڑھے چودہ سو سال پہلے ملک حجاز میں قبائل عرب کے درمیان جومروجہ طریقہ حرب وضر ب تھا اسلام آنے کے بعد بھی آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طریقہ حرب وضر ب کو لازما عام مسلمانوں کو اس کی تعلیم وتربیت کی ترغیب دی۔ 

چناں چہ وقت ضرورت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ صحابیات عظام رضی اللہ عنہن نے  بھی اپنی جان و مال کی حفاظت کے لئے فنی تربیت کا مظاہرہ کیا ھے. پوری تاریخ اسلام اس کی گواہ ہے۔

حرب و ضرب کی تربیت یہ کھیل و تماشہ نہیں ہے بلکہ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم اپنی پرانی روایات کو زندہ کریں اور ملکی قانون کا لحاظ کرتے ہوئےآتشی اسلحہ چھوڑ دیں بقیہ ہر طرح کی تربیت حاصل کریں خواہ اس کا نام کچھ بھی ھو۔ مثلا لاٹھی، ڈنڈا،تلوار، بھالا تیر کمان بھوجالی۔ جسمانی کسرت مثلا جوڑو، کراٹا، اونچی چھلانگ، تیراکی،کمند ڈالنے کی تربیت مشکل حالات میں جان بچا کر بھاگنے کی ترکیب، تیز دوڑنے کا مشق، درختوں پر چڑھنے اور اترنے کا فن جنگلوں میں چھپ کر جنگلی جانوروں اور دشمنوں سے بچنےکی ترکیب  وغیرہ وغیرہ الغرض یہ وہ سارے علوم و فنون ہیں جسکی شریعت نے بالکل اجازت دی ہے۔ موقع محرم الحرام شریف کا ھو یا کوئی اور تمام ائمہ مساجد سے اور سربراھان انجمن سے درخواست ہے کہ آنے والے دنوں میں خاموشی کے ساتھ میٹینگیں کرکے ہر گاؤں میں اسکی شروعات کریں چونکہ محرم الحرام کے موقع پر اس طرح کے مشقی پروگرام ھوتے تھے۔ اب اگر  ہم اسی کو بہتر طور پر کریں گے تو غیروں کے ساتھ حکومت کو  بھی انگشت نمائی کا موقع نہیں ملےگا۔

یہ ھمارے لیۓ بہتر موقع ھے

محمد شھادت حسین فیضی
Mob:. 9431538584

اتحاد کرو تو صحیح

🎓 *_مفکر و مدبر عالم دین مفتی نثار احمد مصباحی لکھتے ہیں_* :

📌 *اہلِ سنت ہی امت کا سوادِ اعظم ہیں. پہلے امت کی سب سے بڑی جماعت (سوادِ اعظم اہلِ سنت) کے اتحاد کی کوششیں کر لیجیے. پھر دیگر شاذ مسالک کا رخ کیجیے گا.*

📌 *یہ عجیب و غریب منطق ہے اتحاد کے جھنڈا برداروں کی, اِن کا سارا زور دیگر مسالِک اور شاذ فرقوں سے ہی اتحاد پر ہوتا ہے. جب کہ قرینِ قیاس و عقل جو اتحاد ہے یعنی اہلِ سنت کا اتحاد, اس کے لیے کوشش نہیں کرتے.*

📌 *بدمذہبوں اور شاذ عقیدے والوں کی پیشوائی تو انھیں منظور ہوتی ہے مگر اہلِ سنت کی سرکردہ شخصیات کے سایے تلے ایک قدم چلنا گوارا نہیں کرتے. بلکہ ان کی تنقیص اور منفی تشہیر میں سرگرم رہتے ہیں.*

📌 *مسلمانوں کے داخلی اور خارجی حالات کے پیشِ نظر ہماری صفوں میں اتحاد یقینا ضروری ہے, مگر پہلے اہلِ سنت کا آپسی اتحاد زیادہ ضروری ہے. اگر یہ ہوجائے تو قوم کے اتحاد پر معلق اکثر فوائد اِسی سے حاصل ہو جائیں گے.*

📌 *یقینا اس کے لیے سعیِ بلیغ اور مثبت عملی اقدام ہونا چاہیے. اور اِس راہ میں اجتماعی مفاد پر انفرادی مفاد یا بڑی جماعت کے مفادات پر چھوٹی ٹولی کے مفادات قربان کرنے میں دریغ نہیں کرنا چاہیے.*

🕯 *یہ اتحاد ضروری بھی ہے اور قابلِ عمل بھی.*

True Story (Must Read).

۔
There was once a man who was an enemy to Islam. He had three famous questions that no person could answer. No Islamic scholar in Baghdad could answer his three questions...thus he made fun of Islam in public. He constantly ridiculed Islam and the Muslims. One day a small boy, who`s age was 10, came along and heard the man yelling and screaming at Muslims in the street. He was challenging people openly to answer the three questions.
The boy stood quietly and watched. He then decided that he would challenge the man. He walked up and told the man, "I will accept your challenge".

The man laughed at the boy and ridiculed the Muslims even more by saying, "A ten year old boy challenges me. Is this all you people have to offer!"

But the boy patiently reiterated his stance. He would challenge the man, and with Allah`s help and guidance, he would put this to an end. The man finally accepted.

The entire city gathered around a small "hill" where open addresses were usually made. The man climbed to the top, and in a loud voice asked his first question.

"What is your God doing right now?"

The small boy thought for a little while and then told the man to climb down the hill and to allow him to go up in order to address the question.

The man says "What? You want me to come down?"

The boy says, "Yes. I need to reply, right?"

The man made his way down and the small boy, age 10, with his little feet made his way up.

This small child`s reply was "Oh Allah Almighty! You be my witness in front of all these people. You have just willed that a Kafir be brought down to a low level, and that a Muslim be brought to a high level!"

The crowd cheered and screamed "Takbir"...."Allah-hu-akbar!!!"

The man was humiliated, but he boldly asked his Second question... "What existed before your God?"

The small child thought and thought.

Then he asked the man to count backwards. "Count from 10 backwards."

The man counted..."10, 9 ,8 , 7 , 6, 5, 4, 3, 2, 1,0"

The boy asked, "What comes before 0 ?"

The man: "I don`t know...nothing."

The boy: "Exactly. Nothing was before Allah, for He is eternal and absolute."

The crowd cheered again...."Takbir!"...."Allah-hu-akbar!!!!"

The man, now completely frustrated, asked his final question. "In which direction is your Allah facing?"

The boy thought and thought.

He then asked for a candle. A candle was brought to him. The blessed child handed it to the man and asked him to light it.

The man did so and remarked, "What is this supposed to prove?"

The young boy asked, "In which direction is light from the candle going?"

The man responded, "It is going in all directions."

The boy: "You have answered your own question. Allah`s light (noor) goes in all directions. He is everywhere. There is no where that He cannot be found.

"The crowd cheered again...."Takbir!"...."Allah-hu-akbar!!!"

The man was so impressed and so moved by the boy`s knowledge and spirituality, that he embraced Islam and became a student of the young boy.

So ended the debate.

Who was the young boy?

The young boy was one of our leaders and one of the greatest scholars, Imam Abu Hanîfa (May Allah bless him).

Your sincere :Dr Fatima Aliv Head of IT  Department , Al-Azhari Community Support Team 

https://www.facebook.com/Al-Azhari-Community-Support-Team-2264047293858500/

عرس عارفی اور اہتمام نماز

عرس کی تقریبات کے جملہ کام اس خانقاہ کے اساتذہ، طلبہ اور خدام مل کر انجام دیتے ہی
تقسیم کار کے تحت ہر ایک گروپ اپنی ذمہ داریوں کو بخوبی نبھاتا ہے. حضور داعی اسلام کی سرپرستی میں جہاں اور کاموں کے لیے گروپنگ ہوتی ہے، وہاں لوگوں کی نمازیں نہ فوت ہو جائیں، طہارت، وضو اور ادائگی نماز میں کسی کو کسی طرح کی دشواری نہ پیش آئے، اس کے لیے بھی چند نفری ایک فعال گروپ تشکیل دی جاتی ہے، جو اذان سے پہلے ہی لوگوں کو طہارت، وضو اور نماز کی تیاری کی دعوت دیتے ہیں، عرس میں آئے ہوئے زائرین، خانقاہ میں موجود دوسرے افراد اور دوکان داروں تک کو بار بار متوجہ کرایا جاتا ہے کہ اب اذان ہونے والی ہے، آپ لوگ نماز کی تیاری کریں. جبکہ اس گروپ کے بعض احباب جا نماز بچھانے اور صف درست کرانے میں لگے ہوتے ہیں. نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ باہر سے آنے والا اور خانقاہ میں موجود ہر فرد جماعت میں شامل ہو جاتا ہے اور کسی کی نماز نہیں چھوٹتی. نماز نہ چھوٹنے کی وجہ یہاں کا حسن انتظام ہے . طہارت اور وضو کے لیے جتنا انتظام یہاں ہے ، اتنا میں نے کہیں اور نہیں دیکھا . ہر لمحہ وافر پانی موجود، طہارت اور وضو خانے بالکل صاف و شفاف ہوتے ہیں تاکہ اپنی ضروریات سے فارغ ہونے والوں کو کسی قسم کی کراہت اور سستی کا سامنا نہ کرنا پڑے. کیوں کہ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ لوگ نماز کے لیے نکلتے ہیں، استنجا اور وضو کے لیے آگے بڑھتے ہیں مگر وہاں کی گندگی ان کی طبیعت کے لیے باعث کراہت ہوتی ہے، جس کی وجہ سے وہ نچاہتے ہوئے بھی لوٹ جاتے ہیں اور نماز ادا نہیں کر پاتے ہیں . یا کبھی یہ ہوتا ہے کہ استنجا اور وضو کا بہتر اور عمدہ انتظام ہوتا ہے مگر جگہ کی قلت یا جانماز نہ بچھے ہونے کی وجہ سے ترک صلات کر بیٹھتے ہیں. 
خانقاہ عارفیہ کا یہ واحد انفرادی مقام ہے کہ یہاں جس جد و جہد کے ساتھ عرس کی دیگر تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے اس سے بڑھ کر محنت اور کوشش ادائے صلات پر کی جاتی ہے. کیوں کہ دیگر تقریبات عرس کا عرفی مقام جو بھی ہو، نماز سے بڑھ کر کوئی عمل نہیں ہے، جس کی ادائگی کے لیے ترک صلات کا ارتکاب کیا جا سکے.
اس باب میں خانقاہ عارفیہ دیگر خانقاہوں اور منتظمین اعراس و جلوس کے لیے رول ماڈل ہے .
کاش لوگ اپنے یہاں کی تقریبات میں شریک ہونے والوں کے کھانے پینے اور بیٹھنے کا جس قدر اہتمام کرتے ہیں اسی قدر طہارت، وضو اور جانماز کے انتظام کے ساتھ ادائگی صلات کا بھی اہتمام کرتے تو ایک بڑا دینی اور دعوتی کام ہوتا.
پیش کش؛ القدس اکیڈمی، داراپٹی، مظفرپور، بہار.
از قلم؛ آفتاب رشک مصباحی
نزیل خانقاہ عارفیہ سید سراواں، الہ آباد
۲۲/ جولائی ۲۰۱۹ء.

چاچا فضلو کی کنواری بیٹی

جیسے ہی میں 2 لاکھ کا نیا آٸ فون خرید کر موباٸل کی دُکان سے باہر نکلا میری نظر ایک شخص پر پڑی جو قربانی کے لۓ جانور خریدکر لے جارہا تھا
یہ منظر دیکھتے ہی میری آنکھوں کے سامنے چاچا فضلو کی اُس کنواری بیٹی کا اُداس چہرہ آگیا جسکے بالوں میں چاندی بلکہ اب تو سونا اُتر آیا تھا اور وہ جہیز نا ھونے کی بدولت کنواری بیٹھی تھی
ساتھ ساتھ ہی مجھے اپنے اُس بوڑھے پڑوسی کا خیال بھی آیا جسکا چولہا کٸ دنوں سے ٹھنڈا پڑا تھا
کیا ہی اچھا ھوتا اگر وہ مسلمان اُس جانور کی قربانی کرنے کی بجاۓ چاچا فضلو کی سونا چاندی جیسی کنواری بیٹی کی شادی کروادیتا یا پھر میرے بوڑھے غریب پڑوسی کو وہ رقم دے دیتا لیکن نہیں
وہ مسلمان انسانیت کو اپنے بیل کے سَمّوں تلے روندتا کُچلتا آگے بڑھ گیا
مسلمانوں کی اِس بے حِسی اور انسانیت کی اِس تزلیل پر میری آنکھوں میں آنسوٶں کا پورا سمندر اُمڈ آیا اور میں تکلیف سے اپنا دِل گُردہ کلیجہ پھیپھڑا سب تھامےوہیں موباٸل شاپ کے باہر بیٹھ گیا اور انسانیت کی اس عظیم تزلیل پر دھاڑیں مار مار کے خوب رویا
ہاۓ ہاۓ انسانیت
اُف اُف انسانیت
اسکے بعد میں نے اپنے روتے تڑپتے پھڑکتے دِل کے ساتھ اپنے اِن عظیم خیالات کو الفاظ کا جامہ بلکہ پورا پاجامہ پہنا کر فیسبُک پر بکھیر دیا
(معصوم مُلحِد کی ڈاٸری کا ایک ورق)
میرے نئے آٸ فون کی پہلی پوسٹ سے اقتباس

Featured Post

*زحمت، رحمت اور فطرت* حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی جس کی بھلائی چاہتا ہے اس...