Thursday, April 4, 2019

قصیدہ معراجیہ

امام احمد رضاؔ اور قصیدۂ معراجیہ
1856ء میں روہیل کھنڈ بریلی کی علمی و ادبی فضا میں ایک پھول کھلا جس سے مشام علم و ادب معطر و معنبر ہو گئی- امام احمد رضا محدث بریلوی اُفق علم و ادب پر مہر درخشاں بن کر جلوہ بار ہوئے۔ ابر کرم بن کر گلستانِ ادب پر برسے اور اس کشتِ لالہ زار کو مزید حسن و زینت بخشی ۔ وہ عالم فاضل، مفتی، محقق سائنس داں، ریاضی داں، ماہر نجوم و فلکیات و ہیئت تھے اور ساتھ ساتھ صاحب طرز ادیب و باکمال شاعر بھی۔ اس بات پر اُن کے نثری جواہر پارے نیز نعتیہ دیوان ’’حدائق بخشش‘‘ شاہد عدل ہیں۔ اُن کی حیات کے ہر ہر گوشے پر محققین تحقیق میں مصروف ہیں۔ کئی تحقیقاتی ادارے اکیڈمک طرز پر فروغ رضویات کی خدمت انجام دے رہے ہیں۔ یہاں ہم رضا بریلوی کے دیوان سے ایک قصیدہ ’’قصیدۂ معراجیہ‘‘ پر مختصر تبصرہ کریں گے۔
دبستان لکھنو کے عظیم نعت گو شاعر سیّد محمد محسن کاکوروی مرحوم (م ۲۲ ۱۳ ھ / ۱۹۰۵ء) امام احمد رضا سے ملنے بریلی گئے۔ محسن کاکوروی اپنا لکھا ہوا ایک قصیدۂ معراج سنانا چاہتے تھے جو دُنیائے شعر و ادب میں ’’قصیدۂ لامیہ'‘ سے معروف و مشہور ہے۔ ظہر کے وقت چند اشعار سنائے، طے ہو اکہ نماز عصر کے بعد محسن کا قصیدہ سنا جائے گا۔ رضا بریلوی نے نمازِ عصر سے قبل ہی ایک عظیم الشان قصیدۂ معراجیہ تحریر فرمایا۔ عصر بعد محسن سے فرمایا پہلے میرا قصیدہ سن لو۔ جب محسن کاکوروی نے رضا بریلوی کا 67؍ اشعار پر مشتمل قصیدہ سنا تو اپنا قصیدہ لپیٹ کر جیب میں ڈال لیا اور کہا کہ ’’مولانا آپ کے قصیدے کے بعد مَیں اپنا قصیدہ نہیں سنا سکتا۔‘‘
قصیدہ کیا ہے، ایک برستا جھرنا ہے جو اپنی پوری آب و تاب اور نغمگی کے ساتھ برس رہا ہے۔ ایک کیف آور اور وجد آفریں نغمہ، تشبیہات و تلمیحات اور نادر تراکیب و بندش کا مرقع ہے۔ برجستگی، شگفتگی، سلیقہ مندی و خوش اسلوبی اور سلاست و روانی کا عظیم شاہکار ہے۔ عارفانہ و عالمانہ نکات کا حامل اور کمالات شعر و سخن سے لب ریز اس قصیدے کے چند اشعار ملاحظہ ہوں ؎
وہ سرورِ کشورِ رسالت جو عرش پر جلوہ گر ہوئے تھے
نئے نرالے طرب کے ساماں عرب کے مہمان کیلئے تھے
بہار ہے شادیاں مبارک چمن کو آبادیاں مبارک
ملک فلک اپنی اپنی لے میں یہ گھر عنادل کا بولتے تھے
وہاں فلک پر یہاں زمیں میں رچی تھی شادی مچی تھی دھومیں
اُدھر سے انوار ہنستے آتے اِدھر سے نفحات اُٹھ رہے تھے
حضرت محدث اعظم ہندکچھوچھوی علیہ الرحمہ نے لکھنؤ کے استاذ شعراء کی مجلس میں جب اس قصیدہ کو سنایا تو سب پر وجد کی کیفیت طاری ہو گئی اور یہ قصیدہ ختم ہوتے ہی سب نے بیک زباں ہو کر کہا کہ ’’اس کی زبان تو کوثر و تسنیم سے دُھلی معلوم ہوتی ہے۔‘‘ ماہر رضویات ڈاکٹر عبدالنعیم عزیزی رقمطراز ہیں: ’’ یہ نظم موسیقیت اور شاعرانہ نکتہ سنجی کا مرقع ہے۔ باوجود متبحر عالم دین ہونے کے رضا نے کمال کرب کے ذکر میں قرآن و حدیث کے الفاظ کے استعمال یااقتباسات کے ساتھ ریاضی کی اصطلاحات پر مبنی شعر کہے ہیں۔ تاکہ اِس نازک مضمون کو نبھا بھی سکیں اور شرعی پاس و وقار بھی برقرار رہے اور قارئین کو معانی کی بھول بھلیوں میں گم نہ کر کے اُن کے اذہان میں مضمون کو بآسانی اُتار بھی سکیں ؎
محیط و مرکز میں فرق مشکل رہے نہ فاصل خطوط واصل
کمانیں حیرت میں سر جھکائے عجیب چکر میں دائرے تھے
کمان امکاں کے جھوٹے نقطو تم اوّل آخر کے پھیر میں ہو
محیط کی چال سے تو پوچھو کدھر سے آئے کدھر گئے تھے
(امام احمد رضا اور محسن و امیر، از : ڈاکٹر عزیزی ص ۱۳)
اس قصیدہ میں جہاں عصری علوم کی تراکیب و اصطلاحات کا استعمال کیا گیا ہے وہیں دینی عقائد اور اصطلاحات کی ترجمانی بھی کی گئی ہے، کہیں عقیدۂ ختم نبوت کا بیان ہے تو کہیں حضور رحمت عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی شان اولیت کا ذکر، کہیں رسول عظم صلی اللہ علیہ وسلم کی افضلیت اور نورانیت کا ذکر ہے تو کہیں خدائے بزرگ و برتر کی قدرت اور شانِ بے نیازی کا بیان ہے؎
نماز اقصیٰ میں تھا یہی سر عیاں ہو معنیِ اول آخر
کہ دست بستہ ہیں پیچھے حاضر جو سلطنت آگے کر گئے تھے
وہی ہے اول وہی ہے آخر وہی ہے باطن وہی ہے ظاہر
اُسی کے جلوے اسی سے ملنے اُسی سے اُسکی طرف گئے تھے
تبارک اللہ شان تیری تجھی کو زیبا ہے بے نیازی
کہیں تو وہ جوش لن ترانی کہیں تقاضے وصال کے تھے
رضا بریلوی کے اِس قصیدہ میں منظر کشی بھی عجیب کیف و سرور کا عالم پیدا کردیتی ہے اور علم نجوم و فلکیات کی اصطلاحات اس قصیدہ کو چار چاند لگادیتی ہیں۔ اس نوع کے چند اشعار دیکھیں ؎
یہ چھوٹ پڑتی تھی اُنکے رُخ کی کہ عرش تک چاندنی تھی چھٹکی
وہ رات کیا جگمگا رہی تھی جگہ جگہ نصب آئینے تھے
یہ جھوما میزابِ زر کا جھومر کہ آرہا کان پر ڈھلک کر
پھوہار برسی تو موتی جھڑ کر حطیم کی گود میں بھرے تھے
خدا ہی دے صبر جان پر غم دکھاؤں کیوں کر تجھے وہ عالم
جب اُنکو جھرمٹ میں لے کے قدسی جناں کا دولہا بنا رہے تھے
ضیائیں کچھ عرش پر یہ آئیں کہ ساری قندیلیں جھلملائیں
حضورِ خورشید کیا چمکتے چراغ منہ اپنا دیکھتے تھے
اِسی طرح درج ذیل اشعار میں علم نجوم و فلکیات کی اصطلاحات کو استعمال کیا گیا ہے؎
وہ برج بطحا کا ماہ پارہ بہشت کی سیر کو سدھارا
چمک پہ تھا خلد کا ستارہ کہ اِس قمر کے قدم گئے تھے
خدا کی قدرت کہ چاند حق کے کروروں منزل میں جلوہ کر کے
ابھی نہ تاروں کی چھاؤں بدلی کہ نور کے تڑکے آلئے تھے
الغرض اگر باریک بینی سے کوئی ادب شناس اس علمی و ادبی شہ پارے کا فنی و ادبی جائزہ لے تو نئے گوشے اور نئے جلوے سامنے آئیں گے۔ بقول احسن العلماء علامہ سیّد محمد حسن میاں برکاتی مارہروی علیہ الرحمہ: ’’ محدث بریلوی کے ایک ایک شعر پر ڈاکٹریٹ کیا جا سکتا ہے۔ ‘‘
(فکر رضا کے جلوے، از : توفیق احسن برکاتی , ص۳۳ ، ممبئی)
اِس بے مثال و بے نظیر قصیدے کے اختتام پر رضا بریلوی کس شان عاجزی و غلامی سے سرکار رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں رحمت سے حصہ طلب کررہے ہیں۔ اِس عدیم المثال قصیدہ کے تعلق سے وضاحت بھی کرتے ہیں کہ نہ مجھے شاعری کی ہوس و شوق ہے نہ اس بات کی پرواہ کہ اس میں کس شان و کمال علمی سے ردیف و قافیے اور تراکیب و استعمارات و محاورات کا استعمال کیا گیا ہے کہ پوری دُنیائے ادب اس کی مثال لانے سے قاصر ہے۔ یہ سب کچھ شہرت کے لئے نہیں بلکہ ہمارا مقصود و مدعا صرف اور صرف بارگاہ رسول اعظم صلی اللہ علیہ وسلم میں مقبولیت حاصل کرنا ہے اور یہ اشعار و ظیفہ کے طور پر رقم ہوئے ہیں۔ ملاحظہ ہو ؎
نبی رحمت شفیع اُمت رضا پہ للہ ہو عنایت
اسے بھی ان خلعتوں سے حصہ جو خاص رحمت کے واں بٹے تھے
ثنائے سرکار ہے وظیفہ قبول سرکار ہے تمنا
نہ شاعری کی ہوس نہ پروا روی تھی کیا کیسے قافیے تھے..
از قلم: وسیم رضا

Tuesday, April 2, 2019

ایک سے بڑھ کر ایک ماہرین

ایک سے بڑھ کر ایک ماہرین فن جن سے علمی کارنامے متوقع تھے۔ امامت و خطابت کے اس پرلطف مرغن و مچرب اور آسان  راہ پر چل پڑے جس پر چلنے کے لیے خوش الحان قاری صاحب، حافظ صاحب ، ناطرہ مکمل اور اردو میں  پانچویں پاس کافی تھا۔۔۔یہ سوچنے کا مقام ہے۔۔۔کیوں؟ آج یہ مولوی تمام پلیٹ فارم پر قوم کو ایک ہی طعنہ دیتے ہیں کہ تم دنیادار ہو جب کہ خوبصورت رومال تک انہیں مانگنے کی عادت ہے۔اور حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی قوم کی ترقی کا اہم زینہ اس کا اقتصاد ہے جو قوم اقتصادی طور پر مضبوط ہے لوگ اسی کے  حس و حرکت کی نقالی کرتے ہیں۔۔۔اگر ہم مثبت فکر کو پروموٹ کرتے تو آج ہمارے پاس سیکڑوں شیخ زائد ہوتے اور ہم اپنے علماء کو دنیا کی بہترین سہولیات دیتے۔۔۔لیکن ہم نے خود قوم کو سلمڈاگ بنایا ہے۔۔عزت و عظمت کے سب سے اہم ظاہری سبب یعنی معاشیات کے لیے تگ و دو  کی misinterpreting کرکے قوم کو اس قدر مفلوج کیا ہے کہ آج اکیسویں صدی میں بھی وہ اپنے بچوں کی ضرورتیں پوری کرنے سے قاصر ہیں۔۔جب کہ ان کی حوصلہ افزائی کی جاتی تو شاید انہیں پیش قدمی کا حوصلہ ملتا۔۔۔ میں پھر کہتا ہوں کہ اس قوم کا علاج، انہیں دنیا کی قیادت سکھانے میں مضمر  ہے خواہ وہ قیادت دینی ہو کہ دنیاوی، اقتصادی ہو کہ فکری۔
۔۔۔۔۔۔۔بلوگر کے قلم سے۔۔۔۔۔۔۔

Monday, April 1, 2019

اپریل فول اور جھوٹ

ﺑِﺴْـــــــــــــﻢِﷲِﺍﻟﺮَّﺣْﻤَﻦِﺍلرَّﺣِﻴﻢ
                  1st APRIL ka jhoot ek fitna
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَهَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ قَالَا حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ أَبِي وَائِلٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ الصِّدْقَ بِرٌّ وَإِنَّ الْبِرَّ يَهْدِي إِلَى الْجَنَّةِ وَإِنَّ الْعَبْدَ لَيَتَحَرَّى الصِّدْقَ حَتَّى يُكْتَبَ عِنْدَ اللَّهِ صِدِّيقًا وَإِنَّ الْكَذِبَ فُجُورٌ وَإِنَّ الْفُجُورَ يَهْدِي إِلَى النَّارِ وَإِنَّ الْعَبْدَ لَيَتَحَرَّى الْكَذِبَ حَتَّى يُكْتَبَ كَذَّابًا قَالَ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ فِي رِوَايَتِهِ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
रसूल अल्लाह ﷺ ने फ़रमाया: सच नेकी है और नेकी जन्नत की तरफ़ रहनुमाई करती है और बंदा पूरी कोशिश से सच ही का क़सद करता रहता है हत्ता की वो अल्लाह ताला के नज़दीक सिद्दीक़(सच्चा) लिख दिया जाता है और झूट बेहूदगी है और बेहूदगी जहन्नुम की तरफ़ ले जाती है और बंदा झूट बोलने का क़सद होता रहता है हत्ता की उसे झूटा लिख दिया जाता है।
Rasool Allah ﷺ ne farmaya: sach neki hai aur neki jannat ki taraf rehnumai karti hai aur bandah poori koshish se sach hi ka qasad karta rehta hai hatta ke woh Allah taala ke nazdeek Siddiq(sachha) likh diya jata hai aur jhoot behudgi hai aur behudhi jahannum ki taraf le jati hai aur bandah jhoot bolne ka qasad hota rehta hai hatta ke usay jhoota likh diya jata hai.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سچ نیکی ہے اور نیکی جنت کی طرف رہنمائی کرتی ہے اور بندہ پوری کوشش سے سچ ہی کا قصد کرتا رہتا ہے حتی کہ وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک صدیق لکھ دیا جاتا ہے اور جھوٹ کج روی ہے اور کج روی جہنم کی طرف لے جاتی ہے اور بندہ جھوٹ بولنے کا قصد ہوتا رہتا ہے حتی کہ اسے جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے ۔
The Messenger of Allah (‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم) said: Telling of truth is a virtue and virtue leads to Paradise and the servant who endeavours to tell the truth is recorded as truthful, and lie is obscenity and obscenity leads to Hell-Fire, and the servant who endeavours to tell a lie is recorded as a liar.
 _*Sahih Muslim

Girl friend ﺍﯾﮏ ﮔﮭﻨﺎﺅﻧﺎ ﺭﺷﺘﮧ

Girl friend ﺍﯾﮏ ﮔﮭﻨﺎﺅﻧﺎ ﺭﺷﺘﮧ
ﺍﺳﻼﻡ ﻣﯿﮟ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﻮ ﺑﮩﺖ ﻋﺰﺕ ﮐﺎ ﻣﻘﺎﻡ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ ، ﻋﻮﺭﺕ ﮐﺎ ﮨﺮ ﺭﻭﭖ ‏( ﻣﺎﮞ، ﺑﮩﻦ ، ﺑﯿﭩﯽ ، ﺑﯿﻮﯼ ‏) ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﺍﻭﺭ ﻗﺎﺑﻞ ﺍﺣﺘﺮﺍﻡ ﮨﮯ
ﻣﮕﺮ ﺁﺝ ﮐﻞ ﺑﺪﻗﺴﻤﺘﯽ ﺳﮯ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﻣﻌﺎﺷﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﻋﻮﺭﺕ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺍﻭﺭ ﻏﻠﻂ ﺭﺷﺘﮧ ﺟﻮﮌ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ ﺟﺴﮯ ‏( Girlfriend ‏) ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ .
ﯾﮧ ﺍﯾﮏ ﺍﻧﺘﮩﺎﺋﯽ ﻏﻠﯿﻆ ﺭﺷﺘﮧ ﮨﮯ ، ﮨﺮ ﺷﺮﯾﻒ ﻟﮍﮐﯽ ﺍﯾﺴﮯ ﮔﮭﻨﺎﺅﻧﮯ ﺭﺷﺘﮯ ﺳﮯ ﺩﻭﺭ ﺭﮨﺘﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﮨﺮ ﺷﺮﯾﻒ ﻟﮍﮐﺎ ﺍﺱ ﮐﻮ ﻧﻔﺮﺕ ﮐﯽ ﻧﮕﺎﮦ ﺳﮯ ﺩﯾﮑﮭﺘﺎ ﮨﮯ ،
ﻣﯿﺮﯼ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺕ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﯾﺎﺩ ﺭﮐﮭﺌﮯ ﮔﺎ ﮐﮧ ﻟﮍﮐﯿﺎﮞ ﺍﭘﻨﮯ ﻋﺰﺕ ﻭ ﻭﻗﺎﺭ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﯽ ﺍﭼﮭﯽ ﻟﮕﺘﯽ ﮨﯿﮟ، ﮐﺴﯽ ﻟﮍﮐﯽ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺑﮍﮪ ﮐﺮ ﺫﻟﺖ ﮐﯽ ﮐﯿﺎ ﺑﺎﺕ ﮨﻮ ﮔﯽ ﮐﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﻣﺮﺩ ﻣﺤﺾ ﺍﭘﻨﮯ ﻭﻗﺖ ﮐﻮ ﺭﻧﮕﯿﻦ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﺳﮯ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﮨﻮ .
ﻣﺮﺩ ﺟﺲ ﻟﮍﮐﯽ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﻋﺰﺕ ﺑﻨﺎ ﮐﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮ ﻟﮯ ﮐﺮﺟﺎﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﮨﻮ ،ﺍُﺳﮯ ﻟﮯ ﮐﺮ ﻭﮦ ﮐﺒﮭﯽ ﮨﻮﭨﻠﻮﮞ ﯾﺎ ﭘﺎﺭﮐﻮﮞﻣﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﮔﮭﻮﻣﺘﺎ . ﺍﺳﮯ ﻭﮦ ‏( Girlfriend ‏) ﻧﮩﯿﮟ ﺑﯿﻮﯼ ﺑﻨﺎﺗﺎ ﮨﮯ !
ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺑﺎﻋﺰّﺕ ﺭﺍﺳﺘﮧ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ . ﺍﯾﮏ ﺷﺮﯾﻒ ﻟﮍﮐﺎ ﺟﻮ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺳﭻ ﻣﯿﮟ ﭘﺴﻨﺪ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﻮ ﮔﺎ ﻭﮦ ﻟﮍﮐﯽ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﻭﺍﻟﺪﯾﻦ ﮐﻮ ﺑﮭﯿﺞ ﮐﺮ ﻋﺰﺕ ﺳﮯ ﺭﺷﺘﮧ ﻣﺎﻧﮕﮯ ﮔﺎ
ﺟﻮ ﻟﮍﮐﺎ ﯾﺎ ﻣﺮﺩ ﺁﭖ ﺳﮯ ﺻﺮﻑ ‏( Girlfriend ‏) ﮐﺎ ﺭﺷﺘﮧ ﺭﮐﮭﻨﺎ ﭼﺎﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻟﮍﮐﮯ / ﻣﺮﺩ ﺳﮯ ﺩﻭﺭ ﺭﮨﺌﮯ ، ﺟﻮ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺟﺎﺋﺰ ﻣﻘﺎﻡ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﮮ ﺳﮑﺘﺎ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻧﻈﺮﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺎﮞ ﺑﮩﻦ ﮐﯽ ﺑﮭﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﻋﺰﺕ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮ ﮔﯽ !
ﺍﻭﺑﺎﺵ ﻟﮍﮐﮯ ﻣﻌﺼﻮﻡ ﻟﮍﮐﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﭘﮭﻨﺴﺎ ﮐﺮ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻋﺰﺕ ﺳﮯ ﮐﮭﯿﻠﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﻧﺎﺩﺍﻥ ﻟﮍﮐﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﮨﻮﺵ ﺗﺐ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ
ﺟﺐ ﭘﺎﻧﯽ ﺳﺮ ﺳﮯ ﺍﻭﻧﭽﺎ ﮨﻮ ﭼﮑﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ
ﺧﺪﺍ ﻧﺨﻮﺍﺳﺘﮧ ﺍﮔﺮ ﺁﭖ ﺍﯾﺴﮯ ﮐﺴﯽ ﻣﺮﺩ ﮐﮯ ﺟﮭﺎﻧﺴﮯ ﻣﯿﮟ ﺁ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻧﺎﺟﺎﺋﺰ ﺗﻌﻠﻘﺎﺕ ﻗﺎﺋﻢ ﮐﺮ ﻟﯿﺘﯽ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﯾﮧ ﻣﺖ ﺑﮭﻮﻟﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﮔﺮ ﻭﮦ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺍﭼﮭﺎ ﻧﮧ ﮨﻮﺍ ﺗﻮ ﮐﻞ ﮐﻮ ﺳﺎﺭﺍ ﺧﻤﯿﺎﺯﮦ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺑﮭﮕﺘﻨﺎ ﭘﮍﮮ ﮔﺎ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﻣﻌﺎﺷﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﻣﺮﺩﻭﮞ ﮐﯽ ﮐﯽ ﮔﺌﯽ ﻏﻠﻄﯽ ﻗﺎﺑﻞ ﻣﻌﺎﻓﯽ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﻣﮕﺮ ﻟﮍﮐﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﻏﻠﻂ ﻗﺪﻡ ﺍﭨﮭﺎ ﻟﮯ ﺗﻮ ﻣﻌﺎﺷﺮﮦ ﺗﻮ ﻣﻌﺎﺷﺮﮦ ﻟﮍﮐﯽ ﮐﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮ ﻭﺍﻟﮯ ﺗﮏ ﺳﺎﺗﮫ ﺩﯾﻨﮯ ﺳﮯ ﺍﻧﮑﺎﺭ ﮐﺮ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ ،
ﺍﻭﺭ ﺍﯾﺴﯽ ﺻﻮﺭﺕ ﻣﯿﮟ ﺯﺑﺮﺩﺳﺘﯽ ﮐﺮﺍﺋﯽ ﮔﺌﯽ ﺷﺎﺩﯼ ﮐﯽ ﺻﻮﺭﺕ ﻣﯿﮟ ﺳﺴﺮﺍﻝ ﻭﺍﻟﮯ ﺗﮏ ﺍﯾﺴﯽ ﺑﮩﻮ ﮐﻮ ﺩﻝ ﺳﮯ ﻗﺒﻮﻟﻨﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﮯ ، ﯾﮧ ﺍﯾﮏ ﺗﻠﺦ ﺳﭽﺎﺋﯽ ﮨﮯ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﻣﻌﺎﺷﺮﮮ ﮐﯽ !
ﮔﺰﺍﺭﺵ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺑﺮﺍﮦ ﻣﮩﺮﺑﺎﻧﯽ ﻧﯿﭧ ﭘﺮ ﻟﮍﮐﻮﮞ ﺳﮯ ﺭﺷﺘﮯ ﺩﺍﺭﯾﺎﮞ ﻧﮩﺒﻨﺎﺋﯿﮟ ، ﻧﮧ ﮨﯽ ﺍﻥ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﻓﻮﭨﻮ ﻭﻏﯿﺮﮦ ﺩﮐﮭﺎﺋﯿﮟ ،
ﺿﺮﻭﺭﺕ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ﺁﺧﺮ ، ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﻧﻤﺎﺋﺶ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﭘﯿﺶ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ؟؟؟
ﮐﯿﺎ ﺁﭖ ﮐﻮ ﮨﻮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺍﻥ ﻧﻘﺼﺎﻧﺎﺕ ﮐﺎ ﺍﻧﺪﺍﺯﮦ ﮨﮯﺟﻮ ﮐﻞ ﺁﭖ ﮐﯽ ﺁﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺗﮏ ﺗﺒﺎﮦ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ ؟؟؟
ﺍﭘﻨﯽ ﺗﺼﺎﻭﯾﺮ ﺍﭘﻨﯽ ﻓﯿﻤﻠﯽ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺭﮐﮭﯿﮟ ، ﻧﯿﭧ ﭘﺮ ﺍﻥ ﺗﺼﺎﻭﯾﺮﮐﺎ ﺑﻨﺎ ﺍﺟﺎﺯﺕ ﮐﺎﭘﯽ ﮐﺮ ﮐﮯ ﻏﻠﻂ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﺑﮭﯽ ﮨﻮ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺧﺒﺮ ﺗﮏ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﯽ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﭼﯿﺰ ﺁﭖ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﻧﻘﺼﺎﻥ ﮐﺎ ﺑﺎﻋﺚ ﺑﮭﯽ ﺑﻦ ﺳﮑﺘﯽ ﮨﮯ !!!
ﺍﯾﺴﮯ ﮐﺌﯽ ﻭﺍﻗﻌﺎﺕ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺁﺋﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﮩﺎﮞ ﻟﮍﮐﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﺗﺼﺎﻭﯾﺮ ﯾﺎ ﻭﮈﯾﻮ ﺑﻨﺎﺋﯽ ﮔﺌﯽ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺍﻧﮭﯿﮟ ﺑﻠﯿﮏ ﻣﯿﻞ ﮐﺮ ﮐﮯ ﻏﻠﻂ ﮐﺎﻡ ﮐﺮﻧﮯ ﭘﺮ ﻣﺠﺒﻮﺭ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﺟﺲ ﮐﮯ ﻧﺘﯿﺠﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﺌﯽ ﻟﮍﮐﯿﻮﮞ ﻧﮯﺧﻮﺩﮐﺸﯽ ﮐﺮ ﻟﯽ !
ﺑﮩﺖ ﻟﻤﺒﯽ ﺑﺤﺚ ﻣﯿﮟ ﻧﮧ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺑﺲ ﺍﺗﻨﺎ ﮐﮩﻨﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺁﭖ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﮨﻮ،
ﯾﮧ ﻏﯿﺮ ﻣﺴﻠﻢ ﻗﻮﻣﻮﮞ ﮐﺎ ﻓﻌﻞ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﻧﮧ ﮐﺮﻭ ﺟﻮ ﺍﺧﻼﻗﯽ ﭘﺴﺘﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮔﺮ ﮐﺮ ﺗﺒﺎﮦ ﮨﻮ ﭼﮑﯽ ﮨﯿﮟ ،
ﺍﺱ ﻣﻐﺮﺑﯽ ﮐﻠﭽﺮ ﮐﯽ ﯾﻠﻐﺎﺭ ﮐﺎ ﻣﻘﺼﺪ ﺻﺮﻑ ﺍﻭﺭ ﺻﺮﻑ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺭﻭﺣﺎﻧﯽ ﺗﺒﺎﮨﯽ ﮨﮯ ﺗﺎﮐﮧ ﮬﻢ ﺑﮭﯽ ﺻﺮﻑ ﺍﺱ ﻣﺎﺩﯼ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ ﺑﮭﻨﻮﺭ ﻣﯿﮟ ﭘﮭﻨﺲ ﮐﺮ ﺭﮦ ﺟﺎﺋﯿﮟ !
ﺍﺱ ﻟﺌﮯ
ﺍﭘﻨﮯ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺍﯾﺴﺎ ﭼﺎﻧﺪ ﻧﮧ ﺑﻨﺎﺅ ﺟﺲ ﭘﺮ ﮨﺮ ﮐﺴﯿﮑﯽ ﻧﻈﺮ ﭘﮍﮮ
ﺑﻠﮑﮧ ﺍﯾﺴﺎ ﺳﻮ ﺭﺝ ﺑﻨﻮ ﺟﺲ ﭘﺮ ﻧﻈﺮ ﭘﮍﺗﮯ ﮨﯽ ﺟﮭﮏ ﺟﺎﺋﮯ
ﺍﻭﺭ ﺩﻋﺎ ﮐﯿﺠﺌﮯ ﮐﮧ
ﯾﺎﺭﺏّ ﺍﻟﻌﺰّﺕ ﺳﺐ ﮐﻮﺍﻣﯽ ﻋﺎﺋﺸﮧ ﺍﻭﺭ ﺣﻀﺮﺕ ﻓﺎﻃﻤﮧ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮩﻤﺎ ﺟﯿﺴﯽ ﺳﯿﺮﺕ ﻭ ﮐﺮﺩﺍﺭ ﻋﻄﺎ ﻓﺮﻣﺎ ﮐﺮ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﺴﯽ ﺍﭼﮭﯽ ﺑﯿﭩﯽ، ﺑﮩﻦ، ﺑﯿﻮﯼ ﺍﻭﺭ ﻣﺎﮞ ﺑﻨﻨﮯ ﮐﯽ ﺗﻮﻓﯿﻖ ﺩﮮ
ﺟﺲ ﺳﮯ ﺗﻮ ﺍﻭﺭ ﺗﯿﺮﺍ ﭘﯿﺎﺭﺍ ﺣﺒﯿﺐ ﺻﻠﻲ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺁﻟﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﺭﺍﺿﯽ ﮨﻮﮞ
ﺍﻭﺭ ﺍﻣﺖ ﻣﺤﻤﺪ ﷺ ﮐﮯ ﻓﺮﺯﻧﺪﻭﮞ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﷺ ﮐﯽ ﮨﺮ ﮨﺮ ﺳﻨﺖ ﺍﭘﻨﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﻻﮔﻮ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﺗﻮﻓﯿﻖ ﻋﻄﺎ ﻓﺮﻣﺎﺋﮯ.

بہت بھول کردی تونے

ایک سے بڑھ کر ایک ماہرین فن جن سے علمی کارنامے متوقع تھے۔ امامت و خطابت کے اس پرلطف مرغن و مچرب اور آسان  راہ پر چل پڑے جس پر چلنے کے لیے خوش الحان قاری صاحب، حافظ صاحب ، ناطرہ مکمل اور اردو میں  پانچویں پاس کافی تھا۔۔۔یہ سوچنے کا مقام ہے۔۔۔کیوں؟ آج یہ مولوی تمام پلیٹ فارم پر قوم کو ایک ہی طعنہ دیتے ہیں کہ تم دنیادار ہو جب کہ خوبصورت رومال تک انہیں مانگنے کی عادت ہے۔اور حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی قوم کی ترقی کا اہم زینہ اس کا اقتصاد ہے جو قوم اقتصادی طور پر مضبوط ہے لوگ اسی کے  حس و حرکت کی نقالی کرتے ہیں۔۔۔اگر ہم مثبت فکر کو پروموٹ کرتے تو آج ہمارے پاس سیکڑوں شیخ زائد ہوتے اور ہم اپنے علماء کو دنیا کی بہترین سہولیات دیتے۔۔۔لیکن ہم نے خود قوم کو سلمڈاگ بنایا ہے۔۔عزت و عظمت کے سب اہم ظاہری سبب کی misinterpreting کرکے قوم کو اس قدر مفلوج کیا ہے کہ آج اکیسویں صدی میں بھی وہ اپنے بچوں کی ضرورتیں پوری کرنے سے قاصر ہے۔۔جب کہ ان کی حوصلہ افزائی جاتی تو شاید وہ انہیں حوصلہ ملتا۔۔۔ میں پھر کہتا ہوں کہ اس قوم کا علاج انہیں دنیا کی قیادت سکھانے میں ہے خواہ وہ قیادت دینی ہو کہ دنیاوی اقتصادی ہو کہ فکری۔
۔۔۔۔۔۔۔بلوگر کے قلم سے۔۔۔۔۔۔۔

دینی رہنمائوں کی کج فہمی

ایک سے بڑھ کر ایک ماہرین فن جن سے علمی کارنامے متوقع تھے۔ امامت و خطابت کے اس پرلطف مرغن و مچرب اور آسان  راہ پر چل پڑے جس پر چلنے کے لیے خوش الحان قاری صاحب، حافظ صاحب ، ناطرہ مکمل اور اردو میں  پانچویں پاس کافی تھا۔۔۔یہ سوچنے کا مقام ہے۔۔۔کیوں؟ آج یہ مولوی تمام پلیٹ فارم پر قوم کو ایک ہی طعنہ دیتے ہیں کہ تم دنیادار ہو جب کہ خوبصورت رومال تک انہیں مانگنے کی عادت ہے۔اور حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی قوم کی ترقی کا اہم زینہ اس کا اقتصاد ہے جو قوم اقتصادی طور پر مضبوط ہے لوگ اسی کے  حس و حرکت کی نقالی کرتے ہیں۔۔۔اگر ہم مثبت فکر کو پروموٹ کرتے تو آج ہمارے پاس سیکڑوں شیخ زائد ہوتے اور ہم اپنے علماء کو دنیا کی بہترین سہولیات دیتے۔۔۔لیکن ہم نے خود قوم کو سلمڈاگ بنایا ہے۔۔عزت و عظمت کے سب اہم ظاہری سبب کی misinterpreting کرکے قوم کو اس قدر مفلوج کیا ہے کہ آج اکیسویں صدی میں بھی وہ اپنے بچوں کی ضرورتیں پوری کرنے سے قاصر ہے۔۔جب کہ ان کی حوصلہ افزائی جاتی تو شاید وہ انہیں حوصلہ ملتا۔۔۔ میں پھر کہتا ہوں کہ اس قوم کا علاج انہیں دنیا کی قیادت سکھانے میں ہے خواہ وہ قیادت دینی ہو کہ دنیاوی اقتصادی ہو کہ فکری۔

Sunday, March 31, 2019

اتحاد زندگی اور اختلاف موت

"اتحاد زندگی اور اختلاف موت"
بہت سے مدارس اسلامیہ میں" علمائے کرام " کا جو استحصال ہو رہا ہے وہ سب پر عیاں ہے جو لوگ  چاپلوس ہیں ان کو خود داری مر چکی ہے ان سے سروکار نہیں ہے لیکن  جو خود دار ہیں وہ ضرور آواز اٹھائیں آج میرے ساتھ ایک واقعہ پیش آیا جس نے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا ہوا یوں کہ جن مدارس کو مدرسہ بورڈ لکھنؤ کے امتحانات کا جانچ سینٹر بنایا گیا کچھ جگہوں پر  کاپی جانچ کرنے میں کچھ  گڑبڑی پائی گئی جس کی وجہ سے رجسٹرار صاحب نے باقاعدہ لیٹر جاری کرکے پھٹکار لگائی  اور اس کے تعلق سے  صاف ستھرا بنانے کا آڈر جاری کیا جس سے دلال اور دولت کے حریص و لالچی  اور مدارس اسلامیہ کو کاروبار بنانے والے،حرام کمائی کھانے والے منحوس لوگ بوکھلاہٹ کے شکار ہو گئے  اور اپنی غلطی ماننے کے بجائے علمائے کرام کو مکمل  قصور وار ٹھہراتے ہوئے خود کو گندی نالی کا کیڑا ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے اپنی تہذیب و ثقافت کا پتہ بتاتے ہوئے" علمائے کرام" کے لیے وہ جملے استعمال کرنے لگے جس کو علمائے کرام کے مقام و مرتبہ کا خیال کرتے ہوئے  آوارہ اور اوباش لڑکے بھی استعمال نہ کریں  اور ایسے موقع  پر وہاں پر موجود علمائے کرام کی خاموشی اس بات پر دال پر ہے کہ ان کا احساس مر چکا ہے ان کو بس اپنی نوکری پیاری ہے کل جب ان کی باری آئے گی تو انہیں اس کا احساس ہوگا! اور کچھ مدارس اسلامیہ کے متظمین ایسے کمینے اور  گستاخِ علمائے کرام  ہیں جو دن و رات صرف علمائے کرام کی برائی کرتے ہیں اور  علماء کرام کی عظمت وعزت سے غافل رہتے ہیں ان کے ساتھ انتہائی نارواتعلقات رکھتے ہیں ان کے بارے میں یہ یقین کر لیں کہ ان کی سخت  گرفت ہوگی اور ان کی کتے یا خنزیر کی طرح موت ہوگی جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو علماءسے بغض رکھنے اور
ان کی گستاخی کرنے سےمنع فرمایا ہے
آپ ﷺکا فرمان ہے کہ" اغْدُ عَالِمًا أَوْ مُتَعَلِّمًا أَوْ مُسْتَمِعًا أَوْ مُحِبًّا وَلَا تَكُنِ الْخَامِسَ فَتَهْلَكَ (مسند البزار :3626 )
ترجمہ:عالم ،متعلم،سامع یا علم سے محبت کرنے والے بنیں اگر اس کے علاوہ پانچویں بنیں گے تو ہلاک ہوجائیں گے۔‘‘
یعنی علم وعلماء سے بغض وکدروت کرنے والے نہ بنیں بلكہ محبت كرنے والے بنیں اور حضرت امام احمد بن اوزاعی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ"الوقيعة في اھل العلم ولا سيما اکابرھم من کبائر الذنوب"اہل علم کی مذمت و توہین کرنا،خاص طور سے بڑے علماء کرام کی ، کبیرہ گناہوں میں سے ہے ( الرد الوافر لابن ناصر الدين الدمشقي : 283 )
اور علامہ ابن نجیم مصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ’’الِاسْتِهْزَاءُ بِالْعِلْمِ وَالْعُلَمَاءِ كُفْرٌ‘‘علم اور علماء کی توہین کفر ہے۔ (الاشباہ والنظائر، باب الردۃ : ۱۶۰ )
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں :لحوم العلماء مسمومة، من شمها مرض، ومن أكلها مات (المعيد في أدب المفيد والمستفيد ،ص: 60)’’علماء کرام کا گوشت زہریلا ہوتا ہے جو اس کو سونگھے گا بیمار پڑ جائے گا اور جو اس کو کھائے گا مر جائے گا۔‘‘ایسے لوگوں کی زندگی باری تعالی تنگ کردیتا ہے اور ایسے افرادکو دنیا میں ہی ذلیل ورسوا کرکے تمام آنے والی نسلوں کے لیے نشان عبرت بنادیتا ہے جو لوگ علماء کرام پر تبرا بازی و الزام تراشی کیا کرتے ہیں۔
اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب میری امت اپنے علماء سے بغض رکھنے لگے گی تو اللہ تعالی ان پر چار قسم کے عذابات مسلط کرے گا:بِالْقَحْطِ مِنَ الزَّمَانِ، وَالْجَوْرِ مِنَ السُّلْطَانِ، وَالْخِيَانَةِ مِنْ ولَاةِ الْأَحْكَامِ، وَالصَّوْلَةِ مِنَ الْعَدُوِّ"قحط سالی ، بادشاہ کی جانب سے مظالم ، حکام کی خیانت ، دشمنوں کے مسلسل حملے (مستدرک حاکم 4؍361) اور امام اہل سنت اعلی حضرت قدس سرہ اپنی کتاب فتاویٰ رضویہ میں لکھتے ہیں کہ" علمائے دین کی توہین کرناسخت حرام، سخت گناہ، کبیرہ، عالم دین سُنّی صحیح العقیدہ کہ لوگوں کو حق کی طرف بلائے اور حق بات بتائے حضرت  محمد ﷺکا نائب ہے،اس کی تحقیر و توہین معاذ اللہ جناب محمدﷺکی توہین ہے اورمحمد ﷺکی بارگاہ میں گستاخی موجب ِ لعنت ِ الٰہی و عذابِ الیم ہے۔(فتاوی رضویہ ج۲۳ص۶۴۹) حضرت عبد اللہ ابن مبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں :من استخف بالعلماء ذھبت آخرتہ"جو شخص بھی علماء کی بے قدری کرے گا وہ اخروی زندگی سے محروم رہے گا اور یہ بھی واضح رہے کہ کمی کوتاہی ہر بندے سے ہوتی ہے علماء کی چھوٹی موٹی کمی کوتاہی پر اپنے منہ کو بند رکھنا چاہیے اپنی زبان کو علماء کی غیبت سے محفوظ رکھنی چاہیے علماء کی خوبی اور نیک باتوں کو اپنانا چاہیے کیونکہ علماء کا مقام امت میں نائبین انبیاء کا ہے، علماء انبیاء کے وارث ہیں جو لوگ  علماء کی شان میں گستاخی کرنا اپنا مقصد سمجھتے ہیں اور ان پر لعن و طعن کرتے ہیں انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ  علماء کی شان میں گستاخی کرنا، ان کی اہانت کرنا، ان کا مذاق اڑانا اور تحقیر کرنا یہ سب انتہائی نقصان کا باعث ہے ان باتوں سے ایمان جانے کا خطرہ ہے۔حضرت علامہ عبد الوہاب شعرانی رحمہ اللہ تعالی  جو اکابر صوفیہ میں ہیں انہوں نے کتاب عہد محمدیہ میں لکھا ہے کہ ہم سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے یہ عام عہد لیا گیا ہے کہ ہم علماء کی اور صلحاء کی اور اکابر کی تعظیم کیا کریں چاہے وہ خود اپنے علم پر عمل نہ کیا کریں اور ہم لوگ ان کے ذاتی معاملہ کو اللہ کے سپرد کر دیں اور  مولانا عبد الحی لکھنوی علیہ الرحمہ  اپنے فتوی میں لکھتے ہیں: اگر گالیاں دینے والے کا مقصود علم اور علماء کی تحقیر کی وجہ سے ہے تو فقہاء اس کے کفر کا فتوی دیتے ہیں ورنہ اگر کسی اور وجہ سے ہے تو تب اس شخص کے فاسق و فاجر ہونے میں اللہ کے غصہ اور دنیا اور آخرت کے عذاب کے مستحق ہونے میں شبہ نہیں ہے لہذا علمائے کرام  کے بارے میں اپنی زبانوں کو لگام دینے میں ہی عافیت ہے ان کی شان میں  بے ادبی،  تذلیل، حقارت اور توہین کرنا کسی صورت جائز نہیں ہے اور یہ بھی یاد رکھیں کہ ان باتوں سے اہل علم کی شان میں کوئی کمی نہیں آئے گی البتہ اپنا ہی خسارہ اور نقصان ہے۔اور آخری بات یہ ہے کہ اورکوئی  کسی عالم کی توہین کر رہا ہے تو اس گستاخ آوارہ کے خلاف سب علمائے کرام  مل کر آواز اٹھائیں اور  ان کا بائیکاٹ کریں نہ اس کا نکاح  پڑھائیں اور اس کی نماز جنازہ میں شریک ہوں اور مدارس اسلامیہ سے تعلق رکھنے والے والی تنظیموں کے ذمہ داران  سے گزارش ہے کہ ایسے شخص کے لیے  سخت ایکشن لیں اور  اس کو اس کی اوقات دیکھادیں تاکہ کسی بھی مدرسہ میں کوئی بھی ذمہ دار  کسی بھی عالم کی توہین اور گستاخی کرنے کی ہمت نہ کر سکیں اور یہ بات ہمیشہ ذہن میں کر لیں کہ ان کا کام علمائے کرام کے بغیر نہیں چلے گا ۔

Featured Post

*زحمت، رحمت اور فطرت* حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی جس کی بھلائی چاہتا ہے اس...