Wednesday, August 21, 2019

اکابر پرستی کا جنون اور مسلم معاشرہ

اکابر پرستی کا جنون اور مسلم معاشرہ
1-اکابر پرستی کا جنون اتنا معمولی نہیں ہوتا کہ ہم امت کی فلاح کی شرط پر اس سے بہ آسانی باہر آجائیں۔ اسی جنون نے تو ہر دور میں امت کی کشتی کو غرقاب کیا ہے۔ واضح رہے کہ اس حمام میں سب ایک ہی جیسے دکھتے ہیں۔ میرے لیے یہ کہنا بہت آسان ہے کہ میں آپ سے کہوں کہ آپ اکابر پرستی چھوڑ دیں اور آپ کے اکابر کی جس کتاب سے امت کا نقصان ہے، اسے بیچ چوراہے پر رکھ کر آگ لگادیں، لیکن یہی مطالبہ جب آپ مجھ سے کریں گے تو پھر میرے لیے بہت مشکل ہوجائے گا۔
2-یہ بات عمومی سطح پر کہنا تو بہت آسان ہے کہ گستاخی کا ذرا شائبہ کفر ہے، لیکن اس کی شخصی تطبیق کس قدر پیچیدہ ہے، آپ جیسے اہل نظر پر مخفی نہیں ہوگا۔ یہ تطبیق ہم آپ کے اکابر پر تو بہت آسانی سے کرلیتے ہیں لیکن جب ہمارے اکابر کی بات آتی ہے تو ہم پھر دوسرا فارمولہ پیش کرتے ہیں کہ ایک قول میں ننانوے احتمالات کفر کے ہوں اور ایک ضعیف سے ضعیف احتمال ایمان کا ہو تو ااسی ضعیف احتمال کو راجح کیا جائے گا۔
3-ان عبارتوں کو کتابوں سے نکالنا یا ان کتابوں کا جلانا بھی مسئلے کا حل نہیں ؛کیوں کہ اس کے بعد بھی مناظرین کا یہ سوال باقی رہے گا کہ کتابیں تو تم نے جلائی ہیں لیکن تمہارے اکابر تو جلائے بغیر مرگئے، ان کو کافر مانتے ہویا مسلمان؟
4-آپ ایک ایک عبارت کی بنیاد میں جو ان کے نزدیک قابل تاویل ہے، آپ ان کے اکابر کی پوری کی پوری کتاب جلانے کی بات کر رہے ہیں، بالفرض اگر انھوں نے آپ کی شرط کو مان لیا اور یہ کہا کہ لیکن ہمارے اکابر کو جن کتابوں میں کافر لکھا ہوا ہے، ان کتابوں کو بھی جلاؤ ، یا کم ازکم اس کا عہد کرو کہ آئندے سے ہمارے اکابر کو کافر نہ کہوگے، یا کم از کم من شک فی کفرہ کی تلوار اٹھالو گے تو آپ کا جواب کیا ہوگا؟
5- قرآن کتاب اعجاز ہے، کلام ربانی ہے، شواہد و حقائق کا گنجینہ ہے، دلائل و براہین کی معراج ہے، اس کے باوجود آخر میں اس نے اپنے منکرین کو کہا لکم دینکم ولی دین۔ کیا ہم ان افراد کے ساتھ جو دین کے بنیادی عقاید کے چارٹر پر ہمارے ساتھ دستخط کرنے کو تیار ہیں ، اور بعض علما کی عبارتوں میں معنی کفر کے تعین میں ہم سے مختلف ہیں، اس پر بحث و تحقیق اور مناظرہ ومجادلے کی ایک صدی گزر چکی ہے، کیا ہم ان سے یہ کہنے کی پوزیشن میں ہیں کہ اگر دین کے بنیادی عقیدے کے اقرار اور ان کے انکار کے کفر ہونے پر تم دستخط کرتے ہو تو مخصوص عبارتوں کے فہم پر جو ہمارا اختلاف ہے، اس پر ہم تمہارے ساتھ لکم دینکم ولی دین کہنے کو تیار ہیں۔
ہمیں دوسروں سے وسعت ظرفی کے مطالبے سے پہلے خود بھی کشادہ قلبی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ بصورت دیگر ہم دوسروں سے ملت اور دین کے لیے اکابر پرستی چھوڑنے کا مطالبہ تو کر رہے ہیں، لیکن ہم خود اکابر پرستی کے بدترین مرض میں مبتلا ہیں، جو ہمیں دین، ملت اور امت کے لیے سوچنے نہیں دیتا۔واضح رہے کہ ملی اتحاد جب بھی ہوگا وہ موجودہ مشترکہ نکات پر ہوگا، اس کے لیے جب ہم سابقہ شرطیں لگائیں گے تو یہ داستان محبوب کی زلف سیاہ کی طرح طویل ہوجائے گی یا معشوق کی موہوم کمر کی طرح سرے غائب ہی ہوجائے گی۔ رفع اختلاف کی شرط کے ساتھ اتحاد کا خواب محض ایک خواب ہے ، کب کہ اختلافات ہوتے ہوئے، مشترکات پر اتحاد یہی فطرت، ملت، تاریخ اور عصر حاضر کی ممکنہ ضرورت ہے۔لیکن شاید یہ بات ہم بہ آسانی قبول نہیں کرسکتے۔
از قلم ؛ ڈاکٹر ذیشان مصباحی

متحد ہو تو بدل ڈالو نظام گلشن

متحد ہو تو بدل ڈالو نظام گلشن
*یہ گستاخیاں کوئ اتفاقی نہیں بلکہ ایک بڑی پلاننگ کا حصہ ہیں,اگر ہم نے گستاخوں کو سلاخوں کے پیچھے پہونچانے کے لۓ منظم پلاننگ نا کی تو تباہی ہمارا مقدر ہوگی*

وسیم رضوی جیسے ناہنجار گستاخ کی جانب سے جو فلم ٹریلر لانچ کیا گیا ہے یہ کوئ پہلا معاملہ نہیں ہے،2015 سے ملک میں کملیش تیواری سے گستاخیوں کا جو سلسلہ شروع ہوا وہ اب تک تھمنے کا نام نہیں لے رہا ، آپ کو یاد ہوگا کہ جب 2015 میں کملیش تیواری نے گستاخیاں کی تھیں اس کے خلاف ملک کے بہت سے شھروں میں احتجاج ہوۓ تھے ، جب یہ محسوس کیا گیا کہ مسلمان غصے میں گستاخ کو کیفرکردار تک پہونچا سکتے ہیں تو اسے محفوظ کرنے کے لۓ سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا، چند مہینوں میں ہی مسلمانوں کا غصّہ ٹھنڈا ہوتے ہی وہ باہر آ گیا، باہر آتے ہی اس نے اعلان کیا کہ "محمد صاحب کی جیونی پر ایک فلم بنائیں گے"(معاذاللہ)، اعلان ہی نہیں کیا بلکہ یو ٹیوب پر ایک ٹریلر لانچ کیا جس کے خلاف چند نوجوانوں کے علاوہ(اللہ انہیں سلامت رکھے) اب تک امت مسلمہ کی طرف سے کوئ ٹھوس قدم نہیں اٹھایا گیا، کیوں۔۔۔۔۔۔؟ اس لۓ کہ ہم نے شائد اس کی ضرورت محسوس نہیں کی۔
*غزوۂ احد کے موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "سعد ابن ربیع رضی اللہ عنہ نظر نہیں آتے تلاش کرو" صحابہ کرام تلاش کرنے گۓ وہ نظر نہیں آۓ ، ایک صحابی نے آواز دی "سعد ابن ربیع تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بلا رہے ہیں" یہ آواز سن کر حضرت سعد ابن ربیع (جو کئ لاشوں کے نیچے دبے تھے) نے بڑی نحیف سی آواز میں فرمایا " رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میرا سلام کہنا اور کہنا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو میری جانب سے بہتر بدلا عطا فرمائے اور مسلمانوں سے کہنا کہ اگر کافر حضور صلی اللہ علیہ وسلم تک پہونچ گۓ اور تم میں سے ایک آنکھ بھی چمکتی رہی(کوئ ایک بھی زندہ رہا) تو اللہ کے یہاں تمہارا کوئ عزر قبول نا ہوگا"*
مگر افسوس آج ہم زمین،جائداد، کے لۓ خوب لڑتے ہیں، برادریوں اور سلسلوں کے نام پر خوب لڑتے ہیں لیکن تحفظ ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم و تحفظ شریعت کے لۓ ہندوستانی آئین کی روشنی میں متحد ہو کر لڑنے کے لۓ تیار نہیں، *یاد رکھۓ اگر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس کے لۓ متحد نا ہوۓ تو کسی بھی سلسلے سے کسی بھی پیر سےمرید ہونا ہمارا کام نا آۓ گا*، خدا کے لۓ ہوش کے ناخن لیجیۓ *اگر ہم نے آقائے کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس کا تحفظ نا کیا تو ہماری جان،مال،عزت،آبرو کچھ نا بچے گ*۔
یاد کیجئے آج سے تقریباً 100 سال قبل جب ملک ہندوستان تقسیم نہیں ہوا تھا لاہور کے راجپال نامی گستاخ نے ایک کتاب لکھی تھی ، اس کتاب کے خلاف پورے ملک سے اس پر مقدمات قائم ہوۓ تھے ، یہ الگ بات ہے کہ سماعت سے قبل ہی ایک عاشق نے اس گستاخ کو فنا فی النار کر دیا تھا لیکن بڑے منظم انداز میں اس کے خلاف مقدمے قائم ہوۓ ، آج کثرت کے ساتھ مقدمات کیوں قائم نہیں ہو رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟، آج ہم تحفظ ناموس رسالت کے لئے متحد کیوں نہیں ہیں..........؟
*اس لۓ کہ اس وقت ایسے معاملات میں بھی ملکی سطح پر ہماری قیادت متحد نہیں ہے۔  آج اکثر علماء و مشائخ اپنے مدرسوں اور خانقاہوں سے نکلنے کو ہی تیار نہیں ہیں* ، جو علماء و مشائخ درد رکھتے ہیں، کچھ کرنا چاہتے ہیں وہ یکجا نہیں ہیں، *اگر چہ ایسے علماء و مشائخ کم ہوں لیکن اگر یکجا ہو جائیں تو آج بھی ہم انقلاب لا سکتے ہیں۔
، ضرورت اس بات کی ہے کہ *ہر شہر،ہر قصبہ،ہر گاؤں کے تمام سلاسل طریقت سے وابستہ درد مند علماء،مشائخ و عوام چھوٹے چھوٹے اختلافات کو نظر انداز کر کے ساتھ آئیں، تاکہ ہم مل کر تحفظ ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم و تحفظ شریعت کے لۓ کام کر سکیں*۔
یاد رکھیں کسی قوم کے حالات سو فیصد افراد نہیں بدلتے بلکہ ایک دو فیصد افراد اٹھ کھڑے ہوتے ہیں جن کی آواز پر لبیک کہتے ہوۓ دس پندرہ فیصد افراد آگے آتے ہیں اور وہی دس پندرہ فیصد افراد پوری قوم کے حالات بدل دیتے ہیں۔
*ہم نے اپنے آپ کو ان ایک دو فیصد افراد میں گنتے ہوۓ اپنے جان،مال،عزت،اولاد کی پرواہ کۓ بغیر قدم آگے بڑھا دۓ ہیں، دیکھنا یہ ہے کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کے تحفظ، شریعت کے تحفظ و مسلمانوں کی جان،مال،عزت کے تحفظ کے لئے اپنی کتنی قربانیاں پیش کرتے ہیں*
ہم مختلف شھروں کے ان علماء،مشائخ و عوام اہلسنت کے شکر گزار ہیں جنہوں نے اب تک ہمارے ساتھ ہر طریقے کا تعاون پیش کیا ہے، اللہ تعالیٰ سبھوں کو دارین کی برکتوں سے نوازے۔

میں تو تنہا ہی چلا تھا جانب منزل مگر
لوگ ساتھ  آتے گئے  اور  کارواں  بنتا گیا

از قلم؛ قمر  غنی عثمانی قادری چشتی*
صدر: تحریک فروغ اسلام
*آستانہ عالیہ چشتیہ نظامیہ درگاہ سرکار بندگی*
امیٹھی شریف،لکھنو۔

Tuesday, August 20, 2019

میدان عرفات حج 2019 کا خطبہ: عروج و زوال


میدان عرفات حج 2019 کا خطبہ: عروج و زوال
خطبہ ء حج میںسعودی شیخ نے فرمایا مسلمان خود کو سیاسی طور پر مضبوط رکھیں، یہ کہتے ہوئے انہیں یہ خیال ہی نہیں رہا کہ سعودی عرب سیاسی طور پر اتنا مستحکم ہے کہٹرمپ نے کہا ، امریکہ کی مدد کے بغیر
سعودی اقتدار آٹھ دن بھی قائم نہیں رہ سکتا ....... ،
دنیا بھر کے 20 لاکھ سے زائد مسلمانوں کا مجمع عظیم فریضہ ء حج کی ادائیگی کے لیے میدان عرفات میں موجود تھا،
اس موقع پر
سعودیوں کے شیخ، محمد بن حسن (  آل ِ شیخ ) نے خطبہ ء حج دیا، اس خطبے میں انہوں نے دنیا کے مظلوم مسلمانوں کا کہیں بھی کوئی ذکر نہیں کیا، نہ ہی مسلمانوں پر بدترین مظالم ڈھانے والوں کی مذمت کی .....
نہ ہی سعودی عرب سمیت مسلم حکمرانوں کو یہ نصیحت دی کہ وہ مختلف ممالک کے ان مظلوم مسلمانوں کے حق میں متحد ہوکر آواز بلند کریں ......
جن پر صرف اس لیے مظالم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں کہوہ مسلمان ہیں ،
اور
اللہ ورسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھتے ہیں،
ان کا تو فرض تھا
کہ وہ حج کے خطبے میں
مکہ ء معظمہ کی
مقدس سر زمین سے اس طرح کی کوئی اپیل جاری کرتے ،
جو امت مسلمہ کے لیے آس اور امید کی کرن بنتی .......
جگہ جگہ مرنے، کٹنے اور جلنے والے مسلمان بھی سوچتے .....
کہ وہ بے سہارا نہیں .....
عالم اسلام کے مسلمانوں کو ان کی فکر ہے ......
مکہ ء معظمہ سے ان کے حق میں آواز تو اٹھی .......
اب کوئی عملی اقدام بھی ممکن ہے .......
لیکن
ایسا کچھ بھی نہیں ہوا،
اس عنوان پر
وہ خاموش تھے اور خاموش ہی رہے ......
اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ سعودی علما اور حکمراں اسلام اور مسلمانوں کے متعلق کس قدر فکر مند ہیں ؟ انہیں اگر فکر ہے تو بس اپنے اقتدار کی ہے ،
.............................................
دنیا جانتی ہے کہ
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے گذشتہ برس اپنے ملک میں
ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ
ہماری مدد اور ہمارے احسانات کے بغیر سعودی حکومت آٹھ دن بھی قائم نہیں رہ سکتی ........ ،
ٹرمپ کے اس بیان پر ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ
سعودی عرب کے حکمراں اس کی مذمت کرتے،
اس لیے کہ یہ سفارتی آداب کے خلاف ایک انتہائی توہین آمیز بیان تھا .......
لیکن سعودی بادشاہ سے لے کر وزیر خارجہ تک سب خاموش تماشائی بنے رہے .......
چونکہ ٹرمپ نے کوئی جھوٹی بات نہیں کہی تھی
اس لیے وہ تردید یا مذمت کرتے بھی تو کس منہ سے کرتے ؟
سعودی اقتدار کے متعلق کل تک جو بات راز تھی
اسے ٹرمپ نے فاش کردیا ......!!!
جو لوگ
سعودی حکمرانوں کو
خادم الحرمین سمجھتے تھے
ان سب کے لیے یہ موقع تھا کہ وہ اپنی غلط فہمی کو دور کرتے .....
اور جان لیتے کہ
جنہیں وہ حرمین شریفین کا خادم سمجھتے آئے تھے، وہ سب امریکہ کے وفادار غلام ہیں ......
لیکن جو لوگ کچھ سمجھنا ہی نہیں چاہتے ........ ؟
انہیں کون سمجھا سکتا ہے ؟
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی ........
نہ ہو جس کو خیال، آپ اپنی حالت کے بدلنے کا ............!!!
.............................................
سب جانتے ہیں کہ
امریکی صدر کے مذکورہ بیان کو چند ماہ بھی نہیں گزرے تھے کہ
ایران سے جنگ کرنے کے لیے ٹرمپ نے سعودی عرب میں اپنی امریکی فوج اتار نے کا اعلان کردیا، اُدھر  آقا کا فرمان جاری ہوا، اِدھر غلام کا سر جھک گیا، آناً فاناً سعودی بادشاہ نے ایک معاہدے پر دستخط کرتے ہوئے امریکی فوج کے سعودی عرب آنے کی اجازت بھی دے دی .................. ،
یہ خبر دنیا بھر میں پھیلی،
لیکن اہل سنت وجماعت کے علاوہ دیگر مکاتب فکر سے وابستہ علما نے اس کا کوئی نوٹس ہی نہیں لیا .........
نہ ہی کسی نے سعودی بادشاہ کی مذمت کی،
نہ ہی کسی نے سعودی عرب کی حکومت سے یہ مطالبہ کیا کہ
مکہ ء معظمہ اور مدینہ ء منورہ کی مقدس سرزمین کو امریکہ اور ایران کے آپسی جھگڑے میں نہ جھونکا جائے ........... ، 
جو قوم
اپنے مرکز عقیدت کے وقار کے تحفظ کے عنوان پر اس درجہ بے حس ہوجائے تو پھر اسے عذاب الہی کا انتظار کرنا چاہیے .......
اور شاید یہی کچھ ہم لوگ دنیا میں دیکھ رہے ہیں،
.............................................
ان دو واقعات سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ
مکہ ء معظمہ اور مدینہ ء منورہ پر سعودیوں کی جو حکومت قائم ہے وہ کس قدر مضبوط اور مستحکم ہے ؟
لیکن افسوس کہ
امت کا دانش ور طبقہ بھی کبھی یہ سب نہیں سوچتا ....... ،
مسلمانوں کے عروج اور زوال پر  بھاشن بازی کرنے والے نامی گرامی علما، محققین، مصنفین اور کالم نگاران بھی کبھی اس پر غور و فکر نہیں کرتے ........ 
یہ ایک تاریخی سچائی ہے کہ
مسلمانوں کا عروج،
مسلمانوں کی شان و شوکت
اور
اقوام عالم پر مسلمانوں کا رعب ودبدبہ،
مکہ ء معظمہ
اور
مدینہ ء منورہ پر
اسلام اور مسلمانوں کی خیر خواہی کا جذبہ رکھنے والی مسلمانوں کی غیرت مند قیادت
اور
مضبوط حکومتوں کا مرہون منت تھا  .............  ،
سعودی حکومت کے قیام کے ساتھ ہی یہ سب کچھ مسلمانوں کے ہاتھوں سے جاتا رہا ........
ایک دور وہ تھا .......... ،
جب مکہ ء معظمہ اور مدینہ ء منورہ سے اٹھنے والی آواز باطل طاقتوں کے خیموں میں لرزہ پیدا کرنے کو کافی تھی ........
اور ایک زمانہ یہ ہے کہ
مکہ ء معظمہ اور مدینہ ء منورہ کی حکومت کسی شمارو قطار میں ہی نہیں ہے ............ ،
امریکی صدر اعلانیہ طور پر یہ دعویٰ کرتا ہے کہ
امریکہ کی حمایت کے بغیر سعودی عرب کی حکومت آٹھ دن بھی قائم نہیں رہ سکتی .........
لیکن اس کے باوجود سعودی علماء اور سعودی حکمرانوں کو ناز ہے کہ وہ سیاسی طور پر بہت مضبوط ہیں .......
ان کا یہ گمان بھی کچھ غلط نہیں،
اس لیے کہ سعودی علما اور سعودی حکمراں دنیا کے طاقتور ترین ملک امریکہ کی امان میں ہیں .......... ،
اللہ تبارک و تعالیٰ
ایسے ضمیر فروشوں سے
مکہ ء معظمہ اور مدینہ ء منورہ کی مقدس سر زمین کو جلد ازجلد آزاد فرمائے  .......
ترے حبیب کا
پیارا چمن کیا برباد ........
الہی نکلے
یہ نجدی بلا مدینے سے ......... !!!
آمین
شکیل احمد سبحانی

مردے کا پوسٹ مارٹم کرانا کیسا ہے


پوسٹ مارٹم کا شرعی حکم؟ 
مردے کا پوسٹ مارٹم کرانا کیسا ہے
سائل: مولانا محمد آصف رضا بھوپال 
الجواب:
پوسٹ مارٹم بوجہ تکریم انسانی نا جائز وحرام ہے۔ جہاں قانوناً مجبور ہو  معذور ہے۔
(مجلس شرعی جامعہ اشرفیہ کے پچیسویں فقہی سیمینار2018کا  فیصلہ یہ ہے)
" پوسٹ مارٹم میں کچھ ایسے ناپسندیدہ امور پائے جاتے ہیں جن کی اجازت عام حالات میں شریعت اسلامی نہیں دیتی۔اس لیے جہاں تک قانون کی رو سے بچنے کی گنجائش ہو بچے اور جہاں مجبور،ہو معذور ہے۔*
جن صورتوں میں قانوناً پوسٹ مارٹم لازمی و ناگزیر ہو، وہاں  اولیاء کو خاموش رہنا چاہیے۔قاتل اور اس کےاولیاء خون بہا ادا کر دیں،  یا مقتول کے اولیا  خون بہا معاف کر دیں تو فریقین کوشش کریں کہ           " پنچنامہ" کے ذریعہ  کام چل جائے  اور لاش کا پوسٹ مارٹم نہ ہو۔"
"(ماہنامہ اشرفیہ جنوری 2019 صفحہ نمبر 28)

کاش ہم اپنے بچوں کی تربیت کے لیے اس تحریر پر عمل کر لیں


کاش ہم اپنے بچوں کی تربیت کے لیے اس تحریر پر عمل کر لیں!
آج اس تحریر کا مطالعہ کیا کافی پسند آئی.
وہ لوگ جو اپنے گھرانوں کے بچوں کے کردار کی بہترین تربیت کے خواہشمند ہیں، انکی خدمت میں کچھ گزارشات ہیں جن سے
انشاءاللہ تعالیٰ آپ کے بچوں میں پاکیزگی پیدا ہوگی.
❶ - *بچوں کو زیادہ وقت تنہا مت رہنے دیں*
*آج کل بچوں کو ہم الگ کمرہ، کمپیوٹر اور موبائل جیسی سہولیات دے کر ان سے غافل ہو جاتے ہیں…. یہ قطعاً غلط ہے* بچوں پر غیر محسوس طور پر نظر رکھیں
اور خاص طور پر انہیں اپنے کمرے کا دروازہ بند کر کے بیٹھنے مت دیں. کیونکہ تنہائی شیطانی خیالات کو جنم دیتی ہے. جس سے بچوں میں منفی خیالات جنم لیتے ہیں اور وہ غلط سرگرمیوں کا شکار ہونے لگتے ہیں۔
❷- *بچوں کے دوستوں اور بچیوں کی سہیلیوں پہ خاص نظر رکھیں. تاکہ آپ کے علم میں ہو کہ آپکا بچہ یا بچی کا میل جول کس قسم کے لوگوں سے ہے.*
❸ - *بچوں بچیوں کے دوستوں اور سہیلیوں کو بھی ان کے ساتھ کمرہ بند کرکے نہ بیٹھنے دیں.
اگر آپ کا بچہ اپنے کمرے میں ہی بیٹھنے پر اصرار کرے تو کسی نہ کسی بہانے سے گاہے بہ گاہے چیک کرتے رہیں.
❹ *بچوں کو فارغ نہ رکھیں فارغ ذہن شیطان کی دکان ہوتا ہے* اور بچوں کا ذہن سلیٹ کی مانند صاف ہوتا ہے. بچپن ہی سے وہ عمر کے اس دور میں ہوتے ہیں جب انکا ذہن اچھی یا بری ہر قسم کی چیز کا فوراً اثر قبول کرتا ہے. اس لئے انکی دلچسپی دیکھتے ہوئے انہیں کسی صحت مند مشغلہ میں مصروف رکھیں.
*ٹی وی وقت گزاری کا بہترین مشغلہ نہیں بلکہ سفلی خیالات جنم دینے کی مشین ہے اور ویڈیو گیمز بچوں کو بے حس اور متشدد بناتی ہیں.*
❺ - *ایسے کھیل جن میں جسمانی مشقت زیادہ ہو وہ بچوں کے لئے بہترین ہوتے ہیں* تاکہ بچہ کھیل کود میں خوب تھکے اور اچھی گہری نیند سوئے.
❻ - *بچوں کے دوستوں اور مصروفیات پر گہری نظر رکھیں*
*یاد رکھیں والدین بننا فل ٹائم جاب ہے. اللّہ تعالی نے آپکو اولاد کی نعمت سے نواز کر ایک بھاری ذمہ داری بھی عائد کی ہے.*
❼ - *بچوں کو رزق کی کمی کے خوف سے پیدائش سے پہلے ہی ختم کردینا ہی قتل کے زمرے میں نہیں آتا، بلکہ اولاد کی ناقص تربیت کرکے انکو جہنم کا ایندھن بننے کے لئے بے لگام چھوڑ دینا بھی انکے قتل کے برابر ہے.*
❽ -*اپنے بچوں کو نماز کی تاکید کریں اور ہر وقت پاکیزہ اور صاف ستھرا رہنے کی عادت ڈالیں.
کیونکہ جسم اور لباس کی پاکیزگی ذہن اور روح پر بھی مثبت اثرات مرتب کرتی ہے.
❾- *بچیوں کو سیدھا اور لڑکوں کو الٹا لیٹنے سے منع کریں.*
*_حضرت عمر رضی اللّہ تعالیٰ اپنے گھر کی بچیوں اور بچوں پر اس بات میں سختی کرتے تھے.
*ان دو حالتوں میں لیٹنے سے سفلی خیالات زیادہ آتے ہیں. بچوں کو دائیں کروٹ سے لیٹنے کا عادی بنائیں.*
 *بلوغت کے نزدیک بچے جب واش روم میں معمول سے زیادہ دیر لگائیں تو کھٹک جائیں اور انہیں نرمی سے سمجھائیں.* اگر ان سے اس معاملے میں بار بار شکایت ہو تو تنبیہ کریں. لڑکوں کو انکے والد جبکہ لڑکیوں کو ان کی والدہ سمجھائیں.
❶❶ - *بچوں کو بچپن ہی سے اپنے مخصوص اعضاء کو مت چھیڑنے دیں.* یہ عادت آگے چل کر بلوغت کے نزدیک یا بعد میں بچوں میں اخلاقی گراوٹ اور زنا کا باعث بن سکتی ہے
❷❶- *بچوں کو اجنبیوں سے گھلنے ملنے سے منع کریں اور اگر وہ کسی رشتہ دار سے بدکتا ہے یا ضرورت سے زیادہ قریب ہے تو غیر محسوس طور پر پیار سے وجہ معلوم کریں*
❹❶- *بچوں کا 5 یا 6 سال کی عمر سے بستر اور ممکن ہو تو کمرہ بھی الگ کر دیں تاکہ انکی معصومیت تا دیر قائم رہ سکے.*
❺❶- *بچوں کے کمرے اور چیزوں کو غیر محسوس طور پر چیک کرتے رہیں.*
آپ کے علم میں ہونا چاہئے کہ آپ کے بچوں کی الماری کس قسم کی چیزوں سے بھری ہے. مسئلہ یہ ہے کہ آج کے دور میں پرائیویسی نام کا عفریت میڈیا کی مدد سے ہم پر مسلط کر دیا گیا ہے
*اس سے خود کو اور اپنے بچوں کو بچائیں. کیونکہ نوعمر بچوں کی نگرانی بھی والدین کی ذمہ داری ہے*۔
*یاد رکھیں آپ بچوں کے ماں باپ ہیں، آج کے دور میں میڈیا والدین کا مقام بچوں کی نظروں میں کم کرنے کی سرتوڑ کوشش کر رہاہے. ہمیں اپنے بچوں کو اپنے مشفقانہ عمل سے اپنی خیرخواہی کا احساس دلانا چاہئے اور نوبلوغت کے عرصے میں ان میں رونما ہونے والی جسمانی تبدیلیوں کے متعلق رہنمائی کرتے رہنا چاہیے تاکہ وہ گھر کے باہر سے حاصل ہونے والی غلط قسم کی معلومات پہ عمل کرکے اپنی زندگی خراب نہ کر لیں.*
❻❶- *بچوں کو بستر پر تب جانے دیں جب خوب نیند آ رہی ہو اور جب وہ اٹھ جائیں تو بستر پر مزید لیٹے مت رہنے دیں۔
❼❶- *والدین بچوں کے سامنے ایک دوسرے سے جسمانی بے تکلفی سے پرہیز کریں.*
*ورنہ بچے وقت سے پہلے ان باتوں کے متعلق با شعور ہو جائیں گے جن سے ایک مناسب عمر میں جا کر ہی آگاہی حاصل ہونی چاہئے* .
نیز والدین بچوں کو ان کی غلطیوں پہ سرزنش کرتے ہوئے بھی باحیا اور مہذب الفاظ کا استعمال کریں. ورنہ بچوں میں وقت سے پہلے بےباکی آ جاتی ہے جس کا خمیازہ والدین کو بھی بھگتنا پڑتا ہے۔
❽❶-*تیرہ چودہ سال کے ہوں تو لڑکوں کو انکے والد اور بچیوں کو انکی والدہ سورۃ یوسف اور سورۃ النور کی تفسیر سمجھائیں یا کسی عالم، عالمہ سے پڑھوائیں کہ کس طرح *حضرت یوسف علیہ السلام* نے بے حد خوبصورت اور نوجوان ہوتے ہوئے ایک بے مثال حسن کی مالک عورت کی ترغیب پر بھٹکے نہیں. بدلے میں *اللّہ تعالی*ٰ کے مقرب بندوں میں شمار ہوئے. اس طرح بچے بچیاں *ان شاءاللّہ تعالیٰ* اپنی پاکدامنی کو معمولی چیز نہیں سمجھیں گے اور اپنی عفت و پاکدامنی کی خوب حفاظت کریں گے۔
آخر میں گذارش یہ ہے کہ ان کے ذہنوں میں بٹھا دیں کہ اس دنیا میں حرام سے پرہیز کا روزہ رکھیں گے تو 
انشاءاللہ تعالیٰ* آخرت میں * اللّہ سبحان وتعالیٰ* کے عرش کے سائے تلے حلال سے افطاری کریں گے._
*اللّہ تعالیٰ* امت مسلمہ کے تمام بچوں کی عصمت کی حفاظت فرمائے اور ان کو شیطان اور اس کے چیلوں سے اپنی حفظ و امان میں رکھے___!!! آمین!

Monday, August 19, 2019

امیرالمومنین حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ

*امیرالمومنین حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ*
_تدبرِ عثمانی سے شوکتِ اسلام کا پھریرا بلند چوٹیوں پر لہرایا_
    اللہ کریم نے اپنے عظیم پیغمبر محبوبِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو حرم کی وادیوں میں جلوہ گر فرمایا۔ نبی آخرالزماں کے وجودِ پاک سے کعبے کو زینت بخشی۔ حکمتِ الٰہیہ تھی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ۴۰؍سال عملی زندگی کا نمونہ پیش کیا؛ پھر اعلانِ نبوت فرمایا۔ دلوں کی دُنیا میں صالح انقلاب برپا کیا۔ انسانیت کی فراموش کردہ قدروں کو اُجاگر کیا۔ دہشت گردی کا خاتمہ کیا۔ عصبیت دور کر کے اُلفت و محبت کا ماحول عطا فرمایا۔ بے مثل پیغمبرانہ اختیارات کے ذریعے انقلاب برپا کیا۔ وہ جو بے راہ تھے ہادی و رہنما بن گئے۔ رہزن؛ رہبر بنے۔ جور وستم کی آندھیاں تھم گئیں۔ آدمیت کا بول بالا ہوا۔ انقلابِ حیات بخش کے جھونکوں نے مُرجھائی کلیوں کو کھِلا دیا۔

*نگاہِ نبوت کا فیضان:*
نبوی عطا و نوازش سے فیض یاب ہونے والا مقدس گروہ ’’صحابی‘‘ کے عظیم لقب سے معنون ہوا۔ جن کی عظمتوں کا اندازا ہماری ناقص عقلیں نہیں لگا سکتیں۔ کسی ذات کو صداقت ملی۔ کسی نے عدل و انصاف میں داد پائی۔ کسی کو سخاوت عطا ہوئی۔ کسی کوشجاعت میں بے مثل منصب مِلا۔ نگاہِ نبوت کے فیض نے ایسا نوازا کہ صحابہ کی مقدس جماعت کی پیروی نجات و پختگیِ ایمان کی علامت ٹھہری۔ اسی مقدس گروہ میں خلیفۂ سوم حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا اسمِ گرامی نمایاں ہے۔ آپ کی اسلام کے لیے قربانیاں ہمہ جہت و منفردالمثال ہیں۔

*قافلہ سالارِ ہجرت:*
اسلام کے بڑھتے ہوئے سیلِ رواں کے آگے جب کفارِ قریش سدِ سکندری قائم نہ کر سکے تو مسلمانوں کے دُشمن ہو گئے۔ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کو آزار پہنچانے کی کوششیں کیں۔ عظمتوں کو جھٹلانے کے لیے ہمسری کے دعوے دار ہوئے۔ علم غیبِ نبوی کے منکر ہو کر اپنے کفر پر مہرِ تصدیق ثبت کر لی۔ اصحابِ رسول کو طرح طرح سے اذیتیں پہنچائیں۔ ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے۔ اللہ کی یکتائی کے اقرار نے ان کے کفر کو لرزا بر اندام کردیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جور وستم کے پیشِ نظر اسلام کی اولین ہجرت جانبِ حبشہ عمل میں آئی۔ نبوی حکم کی پاس داری میں جو اولین گروہِ مقدس عازمِ حبشہ ہوا اس کے قافلہ سالار کا نام -حضرت سیدنا عثمان غنی- ہے۔اس ہجرت میں آپ کے ہمراہ آپ کی زوجہ بنتِ رسول بھی تھیں۔ تاج دارِ کونین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا:
انہما اول بیت ہاجر فی سبیل اللّٰہ بعد ابراہیم ولوط علیہما السلام۔
’’یعنی حضرات ابراہیم ولوط علیہما السلام کے بعد یہ پہلا گھرانہ ہے جس نے اللہ کی راہ میں ہجرت کی۔‘‘

    اللہ کریم نے یہ فضل بھی حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو عطا فرمایا کہ آپ نے بعد کو مکہ معظمہ تشریف لانے کے بعد مدینہ منورہ ہجرت کا بھی شرف حاصل کیا۔ جس کے باعث آپ کو ’’صاحب الہجرتین‘‘ -دو ہجرت والے- بھی کہا جاتا ہے۔یہ سعادت ہی ہے جو آپ کو بارگاہِ رسالت کے فیض سے عطا ہوئی۔ جس سے آپ کے منصب و رُتبے میں اور ترقی ہوئی۔

*ذوالنورین:*
سبحان اللہ! دو نور والے۔ آپ کی عظمتوں کا یہ عالم کہ رسول کونین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنی دو صاحب زادیاں حضرت رقیہ و حضرت ام کلثوم کو آپ کی زوجیت میں عنایت فرمایا۔ اعلیٰ حضرت اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں ؎

نور کی سرکار سے پایا دو شالہ نور کا
ہو مبارک تم کو ذوالنورین جوڑا نور کا

*ایثار کی جلوہ آرائیاں:*
ایثار مقصودِ مومن ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف سے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی بھی ایثار ہے۔صحابہ کے ہر ہر عمل میں ایثار کا جلوہ مستور ہے۔ ان کی زندگی سراپا ایثار۔ ان کی ادائیں ایثار کی راز داں۔ محبتوں کی دہلیز پر ایثار کے اَن گنت چراغ روشن کر کے حضرات صحابہ نے اگلوں کی تربیت کا ساماں کیا۔ شاہراہِ حیات کو منور کردیا۔ یقیں کے روشن مینار تعمیر کیے۔ جس کی مثال پیش نہیں کی جا سکتی۔

    سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے دو مرتبہ جنت خریدی۔ ایک مرتبہ ’’بیر رومہ‘‘ یہودیوں سے خرید کر مسلمانوں کے پانی پینے کے لیے وقف کرکے اور دوسری بار ’’جیش عسرت‘‘ کے موقع پر۔ حضرت سیدنا عبدالرحمٰن ابن حباب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ میں بارگاہ نبوی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام میں حاضر تھا اور حضور اکرم نور مجسم رسول محترم صلی اللہ علیہ وسلم؛ صحابۂ کرام علیہم الرضوان کو جیش عسرت (یعنی غزوۂ تبوک کی تیاری کے لیے ترغیب) ارشاد فرمارہے تھے۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اُٹھ کر عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پالان اور دیگر متعلقہ سامان سمیت سو اونٹ میرے ذمے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر ترغیب فرمایا تو حضرت سیدنا عثمان غنی دوبارہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں تمام سامان سمیت دو سو اونٹ حاضر کرنے کی ذمہ داری لیتا ہوں۔ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابۂ کرام علیہم الرضوان سے پھر ترغیباً فرمایا کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں مع سامان تین سو(اونٹ) اپنے ذمہ قبول کرتا ہوں، راوی فرماتے ہیں: ’’میں نے دیکھا کہ حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر منبر منور سے نیچے تشریف لاکر دو مرتبہ فرمایا: آج سے عثمان (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) جو کچھ کرے اس پر مواخذہ (پوچھ گچھ) نہیں۔ شارحین نے فرمایا یہ تو ان کا اعلان تھا مگر حاضر کرنے کے وقت نو سو پچاس اونٹ، پچاس گھوڑے اور ایک ہزار اشرفیاں پیش کیں، پھر بعد میں دس ہزار اشرفیاں اور پیش کیں۔‘‘
(مراۃ المناجیح۸؍۳۹۵؛ عشرۂ مبشرہ،ص۴۳)

*مثالی نظامِ مملکت:*
حضرت سیدنا فاروق اعظم کے بعد مملکتِ اسلامیہ جس کی سرحدیں بڑے کرۂ ارضی کا احاطہ کرتی تھیں؛ کے خلیفہ بنائے گئے۔ آپ کی ذات پرسبھی صحابہ و اہلِ بیت نے اتفاق کیا۔ آپ نے نبوی منہج کے مطابق مملکتِ اسلامیہ کے نظام کو سنبھالا۔ دیانت و انصاف کو تقویت پہنچائی۔ غریبوں کی داد رَسی کی۔ اشاعتِ دین کے مبارک سلسلے کو آگے بڑھایا۔ اپنی دعوت کا میدان منکرین تک وسیع کیا۔ خود نہ تھے جو راہ پر وہ ہادی بن گئے۔ مسیحائی ایسی کہ مُردہ دل جی اُٹھے۔ ایمان کی حرارت سے باطن روشن ہوا۔آپ نے مملکتِ اسلامیہ کی توسیع بھی کی۔ افریقہ، طرابلس، سابور، قبرص، نیشاپور، طوس جیسے علاقوں میں اللہ و رسول کی عظمت و شان کے پھریرے لہرائے۔ دیانت وانصاف، رعیت کی فریاد رَسی و خدمت کا بے مثل کارنامہ انجام دیا۔ جس کی مثال آج کی مملکتیں پیش کرنے سے قاصر ہیں۔ امن و امان کو راہ دی۔ خوف و دہشت کا خاتمہ اسلامی امن و اخوت کے قیام سے فرمایا۔

    ۱۸؍ذی الحج ۳۵؍ہجری میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی۔ جنت البقیع شریف میں دفن ہوئے۔اعلیٰ حضرت نے بہت خوب فرمایا ؎

یعنی عثماں غنی صاحبِ قمیص ہدیٰ
حلہ پوش شہادت پہ لاکھوں سلام

    رب کریم کا خاص کرم ہوا۔ ارض حرمین کی دو بار حاضری نصیب ہوئی۔ مدینہ منورہ کی فضاؤں میں جو لمحے گزرے تقریباً ہر روز -جوارِ عثماں- میں حاضری ہوئی۔ اللہ اکبر! مملکتِ اسلامی کا مثالی حکمراں فاتحانہ شان کے ساتھ خاکِ بقیع میں آسودہ ہے۔ بقیع پاک کا ذرہ ذرہ آپ کی جلالت وشان کا شاہد ہے۔ اللہ کریم! ترکوں کو سلامت رکھے۔ متاعِ عشق کے ان پہرہ داروں نے نسبتوں کی حفاظت کی۔ ہر مقدس مقام پر عشق کے نشاں نصب کیے۔ روضۂ حضرت عثمانِ غنی بھی پر شکوہ گنبد میں قائم تھا جسے حامیانِ یہود ونصاریٰ کی سازشوں نے زمیں بوس کردیا۔ اور آج ہم اپنی ہی روشن تاریخ کے نشاں بے نشاں ہوتے دیکھ کر آنسوؤں کی سوغات نذر کرتے ہیں۔ بقیع پاک ہماری تاریخ کا نقش جمیل ہے جہاں سے اسلام کا عظیم کارواں سارے عالم میں فروکش ہوا۔نیل کے ساحل سے تا بہ خاکِ کاشغر اسلام کا چمنستاں انھیں اولین گروہِ مقدس کے فیض سے ایماں کی حلاوت سے شادکام ہوا۔ اور مشرقین و مغربین بھی مصطفٰی جانِ رحمت پہ ’’لاکھوں سلام‘‘ بھیج کر اسلام کی عظمتوں کے ترانے اَلاپ رہے ہیں۔ عثمانی فتوحات کے علَم ایماں کی ہر منزل پرلہرا رہے ہیں۔ جس سے فکر و نظر کو تازگی مل رہی ہے اور چمن اسلام بادِ صرصر کے تیزو تند جھونکوں میں بھی ہرا بھرا ہے۔
غلام مصطفٰی رضوی
(نوری مشن مالیگاؤں)

تاریخ ﺩﺳﺘﺮﺧﻮﺍﻥ ﭘﺮ ﭘﮍﮮ ﺍﻧﮉﮮ ،ﺟﯿﻢ ﺍﻭﺭ ﻣﮑﮭﻦ نہیں یاد رکھتی!


ﺗﺎﺭﯾﺦ ﺻﺮﻑ ﻓﺘﻮﺣﺎﺕ ﮔﻨﺘﯽ ﮨﮯ۔
ﺩﺳﺘﺮ ﺧﻮﺍﻥ ﭘﺮ ﭘﮍﮮ ﺍﻧﮉﮮ ،ﺟﯿﻢ ﺍﻭﺭ ﻣﮑﮭﻦ ﻧﮩﯿﮟ !
ﯾﮧ 1973 ﺀ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﮨﮯ۔
ﻋﺮﺑﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻞ ﮐﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﺟﻨﮓ ﭼﮭﮍﻧﮯ ﮐﻮ ﺗﮭﯽ۔
ﺍﯾﺴﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺍﻣﺮﯾﮑﯽ ﺳﻨﯿﭩﺮ ﺍﯾﮏ ﺍﮨﻢ ﮐﺎﻡ ﮐﮯ ﺳﻠﺴﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻞ ﺁﯾﺎ۔ ﻭﮦ ﺍﺳﻠﺤﮧ ﮐﻤﯿﭩﯽ ﮐﺎ ﺳﺮﺑﺮﺍﮦ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﺳﮯ ﻓﻮﺭﺍً ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻞ ﮐﯽ ﻭﺯﯾﺮﺍﻋﻈﻢ ” ﮔﻮﻟﮉﮦ ﻣﺎﺋﯿﺮ “ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﻟﮯ ﺟﺎﯾﺎ ﮔﯿﺎ۔ ﮔﻮﻟﮉﮦ ﻣﺎﺋﯿﺮ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﮔﮭﺮﯾﻠﻮ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﯽ ﻣﺎﻧﻨﺪ ﺳﻨﯿﭩﺮ ﮐﺎ ﺍﺳﺘﻘﺒﺎﻝ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﮐﭽﻦ ﻣﯿﮟ ﻟﮯ ﮔﺌﯽ۔ ﯾﮩﺎﮞ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﻣﺮﯾﮑﯽ ﺳﻨﯿﭩﺮ ﮐﻮ ﺍﯾﮏ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﺳﯽ ﮈﺍﺋﻨﻨﮓ ﭨﯿﺒﻞ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﮐﺮﺳﯽ ﭘﺮ ﺑﭩﮭﺎ ﮐﺮ ﭼﻮﻟﮩﮯ ﭘﺮ ﭼﺎﺋﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﭘﺎﻧﯽ ﺭﮐﮫ ﺩﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﺩ ﺑﮭﯽ ﻭﮨﯿﮟ ﺁ ﺑﯿﭩﮭﯽ۔ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻃﯿﺎﺭﻭﮞ، ﻣﯿﺰﺍﺋﻠﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺗﻮﭘﻮﮞ ﮐﺎ ﺳﻮﺩﺍ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ۔
ﺍﺑﮭﯽ ﺑﮭﺎﺅ ﺗﺎﺅ ﺟﺎﺭﯼ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﺳﮯ ﭼﺎﺋﮯ ﭘﮑﻨﮯ ﮐﯽ ﺧﻮﺷﺒﻮ ﺁﺋﯽ۔ ﻭﮦ ﺧﺎﻣﻮﺷﯽ ﺳﮯ ﺍﭨﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﭼﺎﺋﮯ ﺩﻭ ﭘﯿﺎﻟﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﮉﯾﻠﯽ۔ ﺍﯾﮏ ﭘﯿﺎﻟﯽ ﺳﻨﯿﭩﺮ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺭﮐﮫ ﺩﯼ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﮔﯿﭧ ﭘﺮ ﮐﮭﮍﮮ ﺍﻣﺮﯾﮑﯽ ﮔﺎﺭﮈ ﮐﻮ ﺗﮭﻤﺎ ﺩﯼ۔ ﭘﮭﺮ ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ ﻣﯿﺰ ﭘﺮ ﺁ ﺑﯿﭩﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﻣﺮﯾﮑﯽ ﺳﻨﯿﭩﺮ ﺳﮯ ﻣﺤﻮ ﮐﻼﻡ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ۔
ﭼﻨﺪ ﻟﻤﺤﻮﮞ ﮐﯽ ﮔﻔﺖ ﻭ ﺷﻨﯿﺪ ﺍﻭﺭ ﺑﮭﺎﺅ ﺗﺎﺅ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺷﺮﺍﺋﻂ ﻃﮯ ﭘﺎ ﮔﺌﯿﮟ۔ ﺍﺱ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﮔﻮﻟﮉﮦ ﻣﺎﺋﯿﺮ ﺍﭨﮭﯽ، ﭘﯿﺎﻟﯿﺎﮞ ﺳﻤﯿﭩﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺩﮬﻮ ﮐﺮ ﻭﺍﭘﺲ ﺳﻨﯿﭩﺮ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﭘﻠﭩﯽ ﺍﻭﺭ ﺑﻮﻟﯽ ” ﻣﺠﮭﮯ ﯾﮧ ﺳﻮﺩﺍ ﻣﻨﻈﻮﺭ ﮨﮯ۔ ﺁﭖ ﺗﺤﺮﯾﺮﯼ ﻣﻌﺎﮨﺪﮮ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﺳﯿﮑﺮﭨﺮﯼ ﻣﯿﺮﮮ ﺳﯿﮑﺮﭨﺮﯼ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺑﮭﺠﻮﺍ ﺩﯾﺠﺌﮯ۔
ﯾﺎﺩ ﺭﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻞ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺍﻗﺘﺼﺎﺩﯼ ﺑﺤﺮﺍﻥ ﮐﺎ ﺷﮑﺎﺭ ﺗﮭﺎ، ﻣﮕﺮ ﮔﻮﻟﮉﮦ ﻣﺎﺋﯿﺮ ﻧﮯ ﮐﺘﻨﯽ ” ﺳﺎﺩﮔﯽ “ ﺳﮯ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻞ ﮐﯽ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﻠﺤﮯ ﮐﯽ ﺧﺮﯾﺪﺍﺭﯼ ﮐﺎ ﺍﺗﻨﺎ ﺑﮍﺍ ﺳﻮﺩﺍ ﮐﺮ ﮈﺍﻻ۔ ﺣﯿﺮﺕ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺧﻮﺩ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻠﯽ ﮐﺎﺑﯿﻨﮧ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺑﮭﺎﺭﯼ ﺳﻮﺩﮮ ﮐﻮ ﺭﺩ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ۔ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻣﻮﻗﻒ ﺗﮭﺎ، ﺍﺱ ﺧﺮﯾﺪﺍﺭﯼ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻠﯽ ﻗﻮﻡ ﮐﻮ ﺑﺮﺳﻮﮞ ﺗﮏ ﺩﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﻭﻗﺖ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﭘﺮ ﺍﮐﺘﻔﺎ ﮐﺮﻧﺎ ﭘﮍﮮ ﮔﺎ۔
ﮔﻮﻟﮉﮦ ﻣﺎﺋﯿﺮ ﻧﮯ ﺍﺭﮐﺎﻥ ﮐﺎﺑﯿﻨﮧ ﮐﺎ ﻣﻮﻗﻒ ﺳﻨﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ :
” ﺁﭖ ﮐﺎ ﺧﺪﺷﮧ ﺩﺭﺳﺖ ﮨﮯ، ﻟﯿﮑﻦ ﺍﮔﺮ ﮨﻢ ﯾﮧ ﺟﻨﮓ ﺟﯿﺖ ﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﮨﻢ ﻧﮯ ﻋﺮﺑﻮﮞ ﮐﻮ ﭘﺴﭙﺎﺋﯽ ﭘﺮ ﻣﺠﺒﻮﺭ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﺗﻮ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﮨﻤﯿﮟ ﻓﺎﺗﺢ ﻗﺮﺍﺭ ﺩﯾﮕﯽ ﺍﻭﺭ ﺟﺐ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﮐﺴﯽ ﻗﻮﻡ ﮐﻮ ﻓﺎﺗﺢ ﻗﺮﺍﺭ ﺩﯾﺘﯽ ﮨﮯ، ﺗﻮ ﻭﮦ ﺑﮭﻮﻝ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺟﻨﮓ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﻓﺎﺗﺢ ﻗﻮﻡ ﻧﮯ ﮐﺘﻨﮯ ﺍﻧﮉﮮ ﮐﮭﺎﺋﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺭﻭﺯﺍﻧﮧ ﮐﺘﻨﯽ ﺑﺎﺭ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﮐﮭﺎﯾﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﺳﮑﮯ ﺩﺳﺘﺮ ﺧﻮﺍﻥ ﭘﺮ ﺷﮩﺪ، ﻣﮑﮭﻦ، ﺟﯿﻢ ﺗﮭﺎ ﯾﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺟﻮﺗﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮐﺘﻨﮯ ﺳﻮﺭﺍﺥ ﺗﮭﮯ ﯾﺎ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺗﻠﻮﺍﺭﻭﮞ ﮐﮯ ﻧﯿﺎﻡ ﭘﮭﭩﮯ ﭘﺮﺍﻧﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﻓﺎﺗﺢ ﺻﺮﻑ ﻓﺎﺗﺢ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ۔ “
ﮔﻮﻟﮉﮦ ﻣﺎﺋﯿﺮ ﮐﯽ ﺩﻟﯿﻞ ﻣﯿﮟ ﻭﺯﻥ ﺗﮭﺎ، ﻟﮩٰﺬﺍ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻠﯽ ﮐﺎﺑﯿﻨﮧ ﮐﻮ ﺍﺱ ﺳﻮﺩﮮ ﮐﯽ ﻣﻨﻈﻮﺭﯼ ﺩﯾﻨﺎ ﭘﮍﯼ۔ ﺁﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻭﻗﺖ ﻧﮯ ﺛﺎﺑﺖ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﮐﮧ ﮔﻮﻟﮉﮦ ﻣﺎﺋﯿﺮ ﮐﺎ ﺍﻗﺪﺍﻡ ﺩﺭﺳﺖ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺩﻧﯿﺎ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ، ﺍﺳﯽ ﺍﺳﻠﺤﮯ ﺍﻭﺭ ﺟﮩﺎﺯﻭﮞ ﺳﮯ ﯾﮩﻮﺩﯼ ﻋﺮﺑﻮﮞ ﮐﮯ ﺩﺭﻭﺍﺯﻭﮞ ﭘﺮ ﺩﺳﺘﮏ ﺩﮮ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺟﻨﮓ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﻋﺮﺻﮧ ﺑﻌﺪ ﻭﺍﺷﻨﮕﭩﻦ ﭘﻮﺳﭧ ﮐﮯ ﻧﻤﺎﺋﻨﺪﮮ ﻧﮯ ﮔﻮﻟﮉﮦ ﻣﺎﺋﯿﺮ ﮐﺎ ﺍﻧﭩﺮﻭﯾﻮ ﻟﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺳﻮﺍﻝ ﮐﯿﺎ : ” ﺍﻣﺮﯾﮑﯽ ﺍﺳﻠﺤﮧ ﺧﺮﯾﺪﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺁﭖ ﮐﮯ ﺫﮨﻦ ﻣﯿﮟ ﺟﻮ ﺩﻟﯿﻞ ﺗﮭﯽ، ﻭﮦ ﻓﻮﺭﺍً ﺁﭖ ﮐﮯ ﺫﮨﻦ ﻣﯿﮟ ﺁﺋﯽ ﺗﮭﯽ، ﯾﺎ ﭘﮩﻠﮯ ﺳﮯ ﺣﮑﻤﺖ ﻋﻤﻠﯽ ﺗﯿﺎﺭ ﮐﺮ ﺭﮐﮭﯽ ﺗﮭﯽ؟ “ ﮔﻮﻟﮉﮦ ﻣﺎﺋﯿﺮ ﻧﮯ ﺟﻮ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ ﻭﮦ ﭼﻮﻧﮑﺎ ﺩﯾﻨﮯ ﻭﺍﻻ ﺗﮭﺎ۔ ﻭﮦ ﺑﻮﻟﯽ :
” ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﯾﮧ ﺍﺳﺘﺪﻻﻝ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﺷﻤﻨﻮﮞ ‏( ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ‏) ﮐﮯ ﻧﺒﯽ ‏( ﻣﺤﻤﺪ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ‏) ﺳﮯ ﻟﯿﺎ ﺗﮭﺎ، ﻣﯿﮟ ﺟﺐ ﻃﺎﻟﺒﮧ ﺗﮭﯽ ﺗﻮ ﻣﺬﺍﮨﺐ ﮐﺎ ﻣﻮﺍﺯﻧﮧ ﻣﯿﺮﺍ ﭘﺴﻨﺪﯾﺪﮦ ﻣﻮﺿﻮﻉ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﻧﮩﯽ ﺩﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻣﺤﻤﺪ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﯽ ﺳﻮﺍﻧﺢ ﺣﯿﺎﺕ ﭘﮍﮬﯽ۔ ﺍﺱ ﮐﺘﺎﺏ ﻣﯿﮟ ﻣﺼﻨﻒ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﺟﮕﮧ ﻟﮑﮭﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ۔۔ﺟﺐ ﻣﺤﻤﺪ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﺎ ﻭﺻﺎﻝ ﮨﻮﺍ ﺗﻮ ﺍﻥ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﺍﺗﻨﯽ ﺭﻗﻢ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﭼﺮﺍﻍ ﺟﻼﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺗﯿﻞ ﺧﺮﯾﺪﺍ ﺟﺎ ﺳﮑﮯ، ﻟﮩٰﺬﺍ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺍﮨﻠﯿﮧ ‏( ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺎﺋﺸﮧ ﺻﺪﯾﻘﮧ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮩﺎ ‏) ﻧﮯ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺯﺭﮦ ﺑﮑﺘﺮ ﺭﮨﻦ ﺭﮐﮫ ﮐﺮ ﺗﯿﻞ ﺧﺮﯾﺪﺍ، ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺑﮭﯽ ﻣﺤﻤﺪ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﮯ ﺣﺠﺮﮮ ﮐﯽ ﺩﯾﻮﺍﺭﻭﮞ ﭘﺮ ﻧﻮ ﯾﺎ ﺳﺎﺕ ﺗﻠﻮﺍﺭﯾﮟ ﻟﭩﮏ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯿﮟ۔
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺟﺐ ﯾﮧ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﭘﮍﮬﺎ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺳﻮﭼﺎ ﮐﮧ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﮐﺘﻨﮯ ﻟﻮﮒ ﮨﻮﮞ ﮔﮯ ﺟﻮ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﭘﮩﻠﯽ ﺭﯾﺎﺳﺖ ﮐﯽ ﮐﻤﺰﻭﺭ ﺍﻗﺘﺼﺎﺩﯼ ﺣﺎﻟﺖ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺟﺎﻧﺘﮯ ﮨﻮﮞ ﮔﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﺁﺩﮬﯽ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ ﻓﺎﺗﺢ ﮨﯿﮟ، ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﭘﻮﺭﯼ ﺩﻧﯿﺎ ﺟﺎﻧﺘﯽ ﮨﮯ۔ ﻟﮩٰﺬﺍ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﺍﮔﺮ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﯼ ﻗﻮﻡ ﮐﻮ ﺑﺮﺳﻮﮞ ﺑﮭﻮﮐﺎ ﺭﮨﻨﺎ ﭘﮍﮮ، ﭘﺨﺘﮧ ﻣﮑﺎﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﺑﺠﺎﺋﮯ ﺧﯿﻤﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺑﺴﺮ ﮐﺮﻧﺎ ﭘﮍﮮ، ﺗﻮ ﺑﮭﯽ ﺍﺳﻠﺤﮧ ﺧﺮﯾﺪﯾﮟ ﮔﮯ، ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﻣﻀﺒﻮﻁ ﺛﺎﺑﺖ ﮐﺮﯾﮟ ﮔﮯ ﺍﻭﺭ ﻓﺎﺗﺢ ﮐﺎ ﺍﻋﺰﺍﺯ ﭘﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ۔ “
ﮔﻮﻟﮉﮦ ﻣﺎﺋﯿﺮ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺣﻘﯿﻘﺖ ﺳﮯ ﺗﻮ ﭘﺮﺩﮦ ﺍﭨﮭﺎﯾﺎ، ﻣﮕﺮ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﯽ ﺍﻧﭩﺮﻭﯾﻮ ﻧﮕﺎﺭ ﺳﮯ ﺩﺭﺧﻮﺍﺳﺖ ﮐﯽ ﺍﺳﮯ ” ﺁﻑ ﺩﯼ ﺭﯾﮑﺎﺭﮈ “ ﺭﮐﮭﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﺷﺎﺋﻊ ﻧﮧ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺋﮯ۔ ﻭﺟﮧ ﯾﮧ ﺗﮭﯽ، ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﻧﺒﯽﷺ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﻟﯿﻨﮯ ﺳﮯ ﺟﮩﺎﮞ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻗﻮﻡ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺧﻼﻑ ﮨﻮ ﺳﮑﺘﯽ ﮨﮯ، ﻭﮨﺎﮞ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﻣﻮﻗﻒ ﮐﻮ ﺗﻘﻮﯾﺖ ﻣﻠﮯ ﮔﯽ۔ ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﻭﺍﺷﻨﮕﭩﻦ ﭘﻮﺳﭧ ﮐﮯ ﻧﻤﺎﺋﻨﺪﮮ ﻧﮯ ﯾﮧ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﺣﺬﻑ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ۔ ﻭﻗﺖ ﺩﮬﯿﺮﮮ ﺩﮬﯿﺮﮮ ﮔﺰﺭﺗﺎ ﺭﮨﺎ، ﯾﮩﺎﮞ ﺗﮏ ﮐﮧ ﮔﻮﻟﮉﮦ ﻣﺎﺋﯿﺮ ﺍﻧﺘﻘﺎﻝ ﮐﺮ ﮔﺌﯽ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺍﻧﭩﺮﻭﯾﻮ ﻧﮕﺎﺭ ﺑﮭﯽ ﻋﻤﻠﯽ ﺻﺤﺎﻓﺖ ﺳﮯ ﺍﻟﮓ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ۔
ﺍﺱ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﺍﯾﮏ ﺍﻭﺭ ﻧﺎﻣﮧ ﻧﮕﺎﺭ، ﺍﻣﺮﯾﮑﮧ ﮐﮯ ﺑﯿﺲ ﺑﮍﮮ ﻧﺎﻣﮧ ﻧﮕﺎﺭﻭﮞ ﮐﮯ ﺍﻧﭩﺮﻭﯾﻮ ﻟﯿﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﻣﺼﺮﻭﻑ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﺱ ﺳﻠﺴﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﻭﮦ ﺍﺳﯽ ﻧﺎﻣﮧ ﻧﮕﺎﺭ ﮐﺎ ﺍﻧﭩﺮﻭﯾﻮ ﻟﯿﻨﮯ ﻟﮕﺎ ﺟﺲ ﻧﮯ ﻭﺍﺷﻨﮕﭩﻦ ﭘﻮﺳﭧ ﮐﮯ ﻧﻤﺎﺋﻨﺪﮮ ﮐﯽ ﺣﯿﺜﯿﺖ ﺳﮯ ﮔﻮﻟﮉﮦ ﻣﺎﺋﯿﺮ ﮐﺎ ﺍﻧﭩﺮﻭﯾﻮ ﻟﯿﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﺱ ﺍﻧﭩﺮﻭﯾﻮ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﻧﮯ ﮔﻮﻟﮉﮦ ﻣﺎﺋﯿﺮ ﮐﺎ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ، ﺟﻮ ﺳﯿﺮﺕ ﻧﺒﻮﯼ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﺳﮯ ﻣﺘﻌﻠﻖ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺍﺏ ﯾﮧ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﺮﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺷﺮﻣﻨﺪﮔﯽ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ۔
ﮔﻮﻟﮉﮦ ﻣﺎﺋﯿﺮ ﮐﺎ ﺍﻧﭩﺮﻭﯾﻮ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻧﮯ ﻣﺰﯾﺪ ﮐﮩﺎ : ” ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺱ ﻭﺍﻗﻌﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺟﺐ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﺎ ﻣﻄﺎﻟﻌﮧ ﮐﯿﺎ، ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﻋﺮﺏ ﺑﺪﻭﺅﮞ ﮐﯽ ﺟﻨﮕﯽ ﺣﮑﻤﺖ ﻋﻤﻠﯿﺎﮞ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﺭﮦ ﮔﯿﺎ، ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﻣﺠﮭﮯ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﻭﮦ ﻃﺎﺭﻕ ﺑﻦ ﺯﯾﺎﺩ ﺟﺲ ﻧﮯ ﺟﺒﺮﺍﻟﭩﺮ ‏( ﺟﺒﻞ ﺍﻟﻄﺎﺭﻕ ‏) ﮐﮯ ﺭﺍﺳﺘﮯ ﺍﺳﭙﯿﻦ ﻓﺘﺢ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ، ﺍﺱ ﮐﯽ ﻓﻮﺝ ﮐﮯ ﺁﺩﮬﮯ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻣﺠﺎﮨﺪﻭﮞ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﭘﻮﺭﺍ ﻟﺒﺎﺱ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ۔ ﻭﮦ ﺑﮩﺘﺮّ ﺑﮩﺘﺮّ ﮔﮭﻨﭩﮯ ﺍﯾﮏ ﭼﮭﺎﮔﻞ ﭘﺎﻧﯽ ﺍﻭﺭ ﺳﻮﮐﮭﯽ ﺭﻭﭨﯽ ﮐﮯ ﭼﻨﺪ ﭨﮑﮍﻭﮞ ﭘﺮ ﮔﺰﺍﺭﺍ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﯾﮧ ﻭﮦ ﻣﻮﻗﻊ ﺗﮭﺎ، ﺟﺐ ﮔﻮﻟﮉﮦ ﻣﺎﺋﯿﺮ ﮐﺎ ﺍﻧﭩﺮﻭﯾﻮ ﻧﮕﺎﺭ ﻗﺎﺋﻞ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﮐﮧ۔۔
” ﺗﺎﺭﯾﺦ ﻓﺘﻮﺣﺎﺕ ﮔﻨﺘﯽ ﮨﮯ،
ﺩﺳﺘﺮ ﺧﻮﺍﻥ ﭘﺮ ﭘﮍﮮ ﺍﻧﮉﮮ، ﺟﯿﻢ ﺍﻭﺭ ﻣﮑﮭﻦ ﻧﮩﯿﮟ۔
ﮔﻮﻟﮉﮦ ﻣﺎﺋﯿﺮ ﮐﮯ ﺍﻧﭩﺮﻭﯾﻮ ﻧﮕﺎﺭ ﮐﺎ ﺍﭘﻨﺎ ﺍﻧﭩﺮﻭﯾﻮ ﺟﺐ ﮐﺘﺎﺑﯽ ﺷﮑﻞ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﺋﻊ ﮨﻮﺍ ﺗﻮ ﺩﻧﯿﺎ ﺍﺱ ﺳﺎﺭﯼ ﺩﺍﺳﺘﺎﻥ ﺳﮯ ﺁﮔﺎﮦ ﮨﻮﺋﯽ ۔ ﯾﮧ ﺣﯿﺮﺕ ﺍﻧﮕﯿﺰ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﮐﮯ ﺩﺭﯾﭽﻮﮞ ﺳﮯ ﺟﮭﺎﻧﮏ ﺟﮭﺎﻧﮏ ﮐﺮ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﺎﻥ ﻋﺎﻟﻢ ﮐﻮ ﺟﮭﻨﺠﮭﻮﮌ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ، ﺑﯿﺪﺍﺭﯼ ﮐﺎ ﺩﺭﺱ ﺩﮮ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ، ﮨﻤﯿﮟ ﺳﻤﺠﮭﺎ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﺩﮬﮍﯼ ﻋﺒﺎﺅﮞ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﭩﮯ ﺟﻮﺗﻮﮞ ﻭﺍﻟﮯ ﮔﻠﮧ ﺑﺎﻥ، ﭼﻮﺩﮦ ﺳﻮ ﺑﺮﺱ ﻗﺒﻞ ﮐﺲ ﻃﺮﺡ ﺟﮩﺎﮞ ﺑﺎﻥ ﺑﻦ ﮔﺌﮯ؟
ﺍﻥ ﮐﯽ ﻧﻨﮕﯽ ﺗﻠﻮﺍﺭ ﻧﮯ ﮐﺲ ﻃﺮﺡ ﭼﺎﺭ ﺑﺮﺍﻋﻈﻢ ﻓﺘﺢ ﮐﺮ ﻟﺌﮯ؟ ﺍﮔﺮ ﭘُﺮﺷﮑﻮﮦ ﻣﺤﻼﺕ، ﻋﺎﻟﯽ ﺷﺎﻥ ﺑﺎﻏﺎﺕ، ﺯﺭﻕ ﺑﺮﻕ ﻟﺒﺎﺱ، ﺭﯾﺸﻢ ﻭ ﮐﻤﺨﻮﺍﺏ ﺳﮯ ﺁﺭﺍﺳﺘﮧ ﻭ ﭘﯿﺮﺍﺳﺘﮧ ﺁﺭﺍﻡ ﮔﺎﮨﯿﮟ، ﺳﻮﻧﮯ، ﭼﺎﻧﺪﯼ، ﮨﯿﺮﮮ ﺍﻭﺭ ﺟﻮﺍﮨﺮﺍﺕ ﺳﮯ ﺑﮭﺮﯼ ﺗﺠﻮﺭﯾﺎﮞ، ﺧﻮﺵ ﺫﺍﺋﻘﮧ ﮐﮭﺎﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﺍﻧﺒﺎﺭ ﺍﻭﺭ ﮐﮭﻨﮑﮭﻨﺎﺗﮯ ﺳﮑﻮﮞ ﮐﯽ ﺟﮭﻨﮑﺎﺭ ﮨﻤﯿﮟ ﺑﭽﺎ ﺳﮑﺘﯽ ﺗﻮ ﺗﺎﺗﺎﺭﯾﻮﮞ ﮐﯽ ﭨﮉﯼ ﺩﻝ ﺍﻓﻮﺍﺝ ﺑﻐﺪﺍﺩ ﮐﻮ ﺭﻭﻧﺪﺗﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﻣﻌﺘﺼﻢ ﺑﺎﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﻣﺤﻞ ﺗﮏ ﻧﮧ ﭘﮩﻨﭽﺘﯽ۔
ﺁﮦ ! ﻭﮦ ﺗﺎﺭﯾﺦِ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﺎ ﮐﺘﻨﺎ ﻋﺒﺮﺕ ﻧﺎﮎ ﻣﻨﻈﺮ ﺗﮭﺎ ﺟﺐ ﻣﻌﺘﺼﻢ ﺑﺎﻟﻠﮧ ، ﺁﮨﻨﯽ ﺯﻧﺠﯿﺮﻭﮞ ﺍﻭﺭ ﺑﯿﮍﯾﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺟﮑﮍﺍ ، ﭼﻨﮕﯿﺰ ﺧﺎﻥ ﮐﮯ ﭘﻮﺗﮯ ﮨﻼﮐﻮ ﺧﺎﻥ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﮐﮭﮍﺍ ﺗﮭﺎ۔ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﻭﻗﺖ ﺁﯾﺎ ﺗﻮ ﮨﻼﮐﻮ ﺧﺎﻥ ﻧﮯ ﺧﻮﺩ ﺳﺎﺩﮦ ﺑﺮﺗﻦ ﻣﯿﮟ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﮐﮭﺎﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺧﻠﯿﻔﮧ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺳﻮﻧﮯ ﮐﯽ ﻃﺸﺘﺮﯾﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮨﯿﺮﮮ ﺍﻭﺭ ﺟﻮﺍﮨﺮﺍﺕ ﺭﮐﮫ ﺩﺋﯿﮯ۔ ﭘﮭﺮ ﻣﻌﺘﺼﻢ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ۔ :
’’ ﺟﻮ ﺳﻮﻧﺎ ﭼﺎﻧﺪﯼ ﺗﻢ ﺟﻤﻊ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺍُﺳﮯ ﮐﮭﺎﺅ ‘‘! ۔
ﺑﻐﺪﺍﺩ ﮐﺎ ﺗﺎﺝ ﺩﺍﺭ ﺑﮯ ﭼﺎﺭﮔﯽ ﻭ ﺑﮯ ﺑﺴﯽ ﮐﯽ ﺗﺼﻮﯾﺮ ﺑﻨﺎ ﮐﮭﮍﺍ ﺗﮭﺎ، ﺑﻮﻻ :
’’ ﻣﯿﮟ ﺳﻮﻧﺎ ﮐﯿﺴﮯ ﮐﮭﺎﺅﮞ؟ ‘‘
ﮨﻼﮐﻮ ﻧﮯ ﻓﻮﺭﺍً ﮐﮩﺎ
’’ ﭘﮭﺮ ﺗﻢ ﻧﮯ ﯾﮧ ﺳﻮﻧﺎ ﭼﺎﻧﺪﯼ ﺟﻤﻊ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ؟ ‘‘ ۔
ﻭﮦ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﺟﺴﮯ ﺍُﺳﮑﺎ ﺩﯾﻦ ﮨﺘﮭﯿﺎﺭ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﺍﻭﺭ ﮔﮭﻮﮌﮮ ﭘﺎﻟﻨﮯ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺗﺮﻏﯿﺐ ﺩﯾﺘﺎ ﺗﮭﺎ، ﮐﭽﮫ ﺟﻮﺍﺏ ﻧﮧ ﺩﮮ ﺳﮑﺎ۔ ﮨﻼﮐﻮ ﺧﺎﻥ ﻧﮯ ﻧﻈﺮﯾﮟ ﮔﮭﻤﺎ ﮐﺮ ﻣﺤﻞ ﮐﯽ ﺟﺎﻟﯿﺎﮞ ﺍﻭﺭ ﻣﻀﺒﻮﻁ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﺩﯾﮑﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺳﻮﺍﻝ ﮐﯿﺎ : ’’ ﺗﻢ ﻧﮯ ﺍِﻥ ﺟﺎﻟﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﭘﮕﮭﻼ ﮐﺮ ﺁﮨﻨﯽ ﺗﯿﺮ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮧ ﺑﻨﺎﺋﮯ ؟ ﺗﻢ ﻧﮯ ﯾﮧ ﺟﻮﺍﮨﺮﺍﺕ ﺟﻤﻊ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﺑﺠﺎﺋﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺳﭙﺎﮨﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﺭﻗﻢ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮧ ﺩﯼ، ﺗﺎﮐﮧ ﻭﮦ ﺟﺎﻧﺒﺎﺯﯼ ﺍﻭﺭ ﺩﻟﯿﺮﯼ ﺳﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﺍﻓﻮﺍﺝ ﮐﺎ ﻣﻘﺎﺑﻠﮧ ﮐﺮﺗﮯ؟ ‘‘ ۔
ﺧﻠﯿﻔﮧ ﻧﮯ ﺗﺎﺳﻒ ﺳﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ۔
’’ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﯾﮩﯽ ﻣﺮﺿﯽ ﺗﮭﯽ ‘‘ ۔
ﮨﻼﮐﻮ ﻧﮯ ﮐﮍﮎ ﺩﺍﺭ ﻟﮩﺠﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﺎ : ’’ ﭘﮭﺮ ﺟﻮ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﻮﻧﯿﻮﺍﻻ ﮨﮯ ، ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﺧﺪﺍ ﮐﯽ ﻣﺮﺿﯽ ﮨﻮﮔﯽ۔ ‘‘ ۔
ﭘﮭﺮ ﮨﻼﮐﻮ ﺧﺎﻥ ﻧﮯ ﻣﻌﺘﺼﻢ ﺑﺎﻟﻠﮧ ﮐﻮ ﻣﺨﺼﻮﺹ ﻟﺒﺎﺩﮮ ﻣﯿﮟ ﻟﭙﯿﭧ ﮐﺮ ﮔﮭﻮﮌﻭﮞ ﮐﯽ ﭨﺎﭘﻮﮞ ﺗﻠﮯ ﺭﻭﻧﺪ ﮈﺍﻻ، ﺑﻐﺪﺍﺩ ﮐﻮ ﻗﺒﺮﺳﺘﺎﻥ ﺑﻨﺎ ﮈﺍﻻ۔ ﮨﻼﮐﻮ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ’’ ﺁﺝ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺑﻐﺪﺍﺩ ﮐﻮ ﺻﻔﺤﮧ ﮨﺴﺘﯽ ﺳﮯ ﻣﭩﺎ ﮈﺍﻻ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍَﺏ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﻃﺎﻗﺖ ﺍﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﻭﺍﻻ ﺑﻐﺪﺍﺩ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻨﺎ ﺳﮑﺘﯽ۔ ‘‘ ۔
ﺗﺎﺭﯾﺦ ﺗﻮ ﻓﺘﻮﺣﺎﺕ ﮔﻨﺘﯽ ﮨﮯ ۔ ﻣﺤﻞ، ﻟﺒﺎﺱ، ﮨﯿﺮﮮ، ﺟﻮﺍﮨﺮﺍﺕ ﻟﺬﯾﺰ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﻧﮩﯿﮟ۔ ﺍﮔﺮ ﮨﻢ ﺫﺭﺍ ﺳﯽ ﺑﮭﯽ ﻋﻘﻞ ﻭ ﺷﻌﻮﺭ ﺳﮯ ﮐﺎﻡ ﻟﯿﺘﮯ ﺗﻮ ﺑﺮﺻﻐﯿﺮ ﻣﯿﮟ ﻣﻐﻠﯿﮧ ﺳﻠﻄﻨﺖ ﮐﺎ ﺁﻓﺘﺎﺏ ﮐﺒﮭﯽ ﻏﺮﻭﺏ ﻧﮧ ﮨﻮﺗﺎ۔ ﺍﻧﺪﺍﺯﮦ ﮐﺮﻭ ﺟﺐ ﯾﻮﺭﭖ ﮐﮯ ﭼﭙﮯ ﭼﭙﮯ ﭘﺮ ﺗﺠﺮﺑﮧ ﮔﺎﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺗﺤﻘﯿﻘﯽ ﻣﺮﺍﮐﺰ ﻗﺎﺋﻢ ﮨﻮ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺗﺐ ﯾﮩﺎﮞ ﺍﯾﮏ ﺷﮩﻨﺸﺎﮦ ﺩﻭﻟﺖ ﮐﺎ ﺳﮩﺎﺭﺍ ﻟﯿﮑﺮ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﯽ ﯾﺎﺩ ﻣﯿﮟ ﺗﺎﺝ ﻣﺤﻞ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﮐﺮﻭﺍ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺟﺐ ﻣﻐﺮﺏ ﻣﯿﮟ ﻋﻠﻮﻡ ﻭ ﻓﻨﻮﻥ ﮐﮯ ﺑﻢ ﭘﮭﭧ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺗﺐ ﯾﮩﺎﮞ ﺗﺎﻥ ﺳﯿﻦ ﺟﯿﺴﮯ ﮔﻮﺋﯿﮯ ﻧﺌﮯ ﻧﺌﮯ ﺭﺍﮒ ﺍﯾﺠﺎﺩ ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺟﺐ ﺍﻧﮕﺮﯾﺰﻭﮞ، ﻓﺮﺍﻧﺴﯿﺴﯿﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﭘﺮﺗﮕﺎﻟﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﺤﺮﯼ ﺑﯿﮍﮮ ﺑﺮﺻﻐﯿﺮ ﮐﮯ ﺩﺭﻭﺍﺯﻭﮞ ﭘﺮ ﺩﺳﺘﮏ ﺩﮮ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ، ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺍَﺭﺑﺎﺏ ﻭ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﺷﺮﺍﺏ ﻭ ﮐﺒﺎﺏ ﺍﻭﺭ ﻃﺎﺅﺱ ﻭ ﺭﺑﺎﺏ ﺳﮯ ﻣﺪﮨﻮﺵ ﭘﮍﮮ ﺗﮭﮯ۔ ﺗﻦ ﺁﺳﺎﻧﯽ، ﻋﯿﺶ ﮐﻮﺷﯽ ﺍﻭﺭ ﻋﯿﺶ ﭘﺴﻨﺪﯼ ﻧﮯ ﮨﻤﯿﮟ ﮐﮩﯿﮟ ﮐﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﭼﮭﻮﮌﺍ۔
ﮨﻤﺎﺭﺍ ﺑﻮﺳﯿﺪﮦ ﺍﻭﺭ ﺩﯾﻤﮏ ﺯﺩﮦ ﻧﻈﺎﻡ ﺑﮑﮭﺮ ﮔﯿﺎ، ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﮐﻮ ﺍِﺱ ﺑﺎﺕ ﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﻏﺮﺽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺋﯽ ﮐﮧ ﺣﮑﻤﺮﺍﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﺗﺠﻮﺭﯾﺎﮞ ﺑﮭﺮﯼ ﮨﯿﮟ ﯾﺎ ﺧﺎﻟﯽ؟ ﺷﮩﻨﺸﺎﮨﻮﮞ ﮐﮯ ﺗﺎﺝ ﻣﯿﮟ ﮨﯿﺮﮮ ﺟﮍﮮ ﮨﯿﮟ ﯾﺎ ﻧﮩﯿﮟ ؟ ﺩﺭﺑﺎﺭﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺷﺎﻣﺪﯾﻮﮞ، ﻣﺮﺍﺛﯿﻮﮞ، ﻃﺒﻠﮧ ﻧﻮﺍﺯﻭﮞ ﺍﻭﺭ ﻭﻇﯿﻔﮧ ﺧﻮﺍﺭ ﺷﺎﻋﺮﻭﮞ ﮐﺎ ﺟﮭﺮﻣﭧ ﮨﮯ ﯾﺎ ﻧﮩﯿﮟ ؟ ﯾﺎﺩ ﺭﮐﮭﯿﮯ ! ﺗﺎﺭﯾﺦ ﮐﻮ ﺻﺮﻑ ﮐﺎﻣﯿﺎﺑﯿﻮﮞ ﺳﮯ ﻏﺮﺽ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﻋُﺬﺭ ﻗﺒﻮﻝ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﯽ۔
ﺍﻓﺴﻮﺱ ﺻﺪ ﺍﻓﺴﻮﺱ !
ﺳﯿﺮﺕ ﻧﺒﻮﯼ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﯾﮩﻮﺩﯼ ﻋﻮﺭﺕ ﻧﮯ ﺗﻮ ﺳﺒﻖ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮ ﻟﯿﺎ۔ ﻣﮕﺮ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﺍِﺱ ﭘﮩﻠﻮ ﺳﮯ ﻧﺎ ﺁﺷﻨﺎ ﺭﮨﮯ۔ ﺳﺎﺋﻨﺲ ﻭ ﭨﯿﮑﻨﺎﻟﻮﺟﯽ، ﻋﻠﻮﻡ ﻭ ﻓﻨﻮﻥ ﭘﺮ ﺩﺳﺘﺮﺱ ﺭﮐﮭﻨﮯ ﮐﯽ ﺑﺠﺎﺋﮯ ﻻﺣﺎﺻﻞ ﺑﺤﺜﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﻏﯿﺮ ﺿﺮﺭﻭﯼ ﮐﺎﻡ ﻣﯿﮟ ﻣﮕﻦ ﺭﮨﮯ۔ ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﺯﻭﺍﻝ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﻣﻘﺪﺭ ﭨﮭﮩﺮﺍ۔ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﺑﮍﯼ ﺑﮯ ﺭﺣﻢ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ

Featured Post

*زحمت، رحمت اور فطرت* حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی جس کی بھلائی چاہتا ہے اس...