Sunday, January 3, 2021

تاریخ اسلام کا ایک ورق

*اہل طائف کا شرطیہ اسلام قبول کرنا*
طائف مکہ مکرمہ سے تقریبا ایک سو ساٹھ کلومیٹر کے فاصلے پر چھوٹے چھوٹے پہاڑوں سے گھراہوا ایک خوبصورت و خوشحال شہر تھا۔ اس کے قرب و جوار کے علاقے میں انگور، سیب اور انار جیسے خوش رنگ و خوش ذائقہ پھلوں کے بکثرت باغات تھے۔ دوسرے خطۂ عرب کے مقابلے میں وہاں کے باشندے علم و ہنر میں مہارت رکھتے تھے۔ علم طب اور علم نجوم کے ماہرین کی ایک بڑی جماعت وہاں موجود تھی۔ پورے خطۂ عرب میں عربوں کی ملکیت والا وہ واحد قلعہ بند شہر تھا جس کے کنارے اونچی اونچی فصیلیں تعمیر تھیں، جسے ایرانی ماہرین آرکٹیچر اور  انجینئروں نے عربی طرز تعمیر اور خوبیوں کے ساتھ ڈیزائن کیا تھا۔ اس کی دیوار اتنی مضبوط تھی کہ منجنیق کے ذریعے پھینکے گئے بڑے بڑے پتھروں سے بھی مخدوش نہیں ہوئی۔
 *اہل طائف کو اسلام کی پہلی دعوت*
12 فروری 610 عیسوی کو پہلی وحی نازل ہوئی تو آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل مکہ کے درمیان اعلان نبوت کے ساتھ دعوت توحید دینی شروع کی۔ تو آپ کے خونی رشتہ داروں کے ساتھ پورا اہل مکہ آپ کا جانی دشمن ہو گیا۔ تاہم حضرت ابو طالب کے بنو ہاشم کے سردار ہونے کی وجہ سے اور ان کے رعب و دبدبہ کی وجہ سے اتلاف جان کا خطرہ نہیں تھا لیکن 5 رجب عام الحزن کو ان کے وصال کے بعد جب بنو ہاشم کی روایات کے مطابق ابولہب بنو ہاشم کا سردار ہوا تو اس نے آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حمایت کرنے سے انکار کر دیا۔ اسی درمیان صرف 35 دن کے بعد 10 رمضان کو حضرت ام المومنین خدیجۃ الکبری رضی اللہ تعالی عنہا کا وصال ہو گیا۔ اسی لیے اس کا نام عام الحزن ہے۔ قبائلی معاشرہ میں بغیر کسی قبیلے کی حمایت کے کسی شخص کا کوئی تحریک چلانا تو دور کی بات ہے زندہ رہنا مشکل ہے۔ ان حالات میں آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی مضبوط قبیلے کی حمایت کی سخت ضرورت تھی۔ اس کے لیے سب سے پہلے انھوں نے طائف جانا پسند فرمایاکہ قریش کے بعد سب سے مضبوط اور طاقتور قبیلہ طائف کے بنو ثقیف‌کا تھا۔ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اپنے خادم حضرت زید بن حارثہ کے ساتھ طائف تشریف لے گئے اور وہاں کے ہر گھر میں جا کر توحید کی دعوت دی۔ یہاں تک کہ طائف کے جو تین بڑے سردار تھے عبد یالیل بن عمرو۔ مسعود بن عمرو اور حبیب بن عمرو یہ تینوں سگے بھائی تھے۔ ان کے یہاں بھی جا کر انفرادی طور پر دعوت پیش کی۔ لیکن کسی نے بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت قبول نہیں کی بلکہ الٹا بداخلاقی کا ایسا مظاہرہ کیا کہ اوباش لڑکوں کو لگا دیا کہ انہیں پتھر مار کر شہر سے باہر نکال دیں۔ حضور سخت کبیدہ خاطر ہوئے لیکن رحمة اللعالمین تھے اس لیے اس دعا کے ساتھ شہر سے باہر نکلے کہ یا اللہ یہ لوگ مجھے نہیں پہچان رہے ہیں انہیں ہدایت عطا فرما تاکہ ان کی نسلیں ایمان لے آئیں۔
 *دوسری دعوت*
قبیلہ بنو ثقیف قبیلہ بنو ہوازن کی ہی شاخ تھی جو طائف میں آباد تھی۔ 8 ہجری میں فتح مکہ کے بعد قریش کی خودسپردگی سے ناراض ہوکر قبیلہ بنو ثقیف نے قبیلہ بنو ہوازن کے علاوہ قرب وجوار کے دیگر قبائل کے ساتھ مل کر حنین میں ایک خونریز جنگ کی تھی۔ یہ جنگ 10 شوال مطابق 30 جنوری 630 عیسوی کو ہوئی تھی جس میں چار صحابہ شہید ہوئے اور 70 کفار مارے گئے۔ مسلمانوں کو مال غنیمت کے طور پر (6000) چھ ہزار قیدی، چوبیس ہزار (24000) اونٹ، چالیس ہزار (40000) بکریاں اور چارہزار(4000) اوقیہ چاندی ملے تھے۔
 یہ شکست بنو ہوازن کی تھی اور بنو ثقیف کے لوگ بھاگ کر طائف میں قلعہ بند ہوگئے۔ طائف کا قلعہ بلند اور مضبوط تھا اس لئے منجنیق کے ذریعہ بڑے بڑے پتھر پھینکے گئےلیکن فصیل توڑی نہ جا سکی اور بنو ثقیف کے تیروں کی زد میں آکر 12 صحابہ شہید بھی ہو گئے۔ اور بہت سارے زخمی بھی۔ لوگوں نے آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کے لیے بد دعا کرنے کی گزارش کی توآقاکریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ اٹھا کر اللہ تعالی سے دعا کی کہ یا اللہ یہ لوگ نا سمجھ ہیں دوسری مرتبہ ہم نے انہیں اسلام میں داخل کرنے کی کوشش کی لیکن یہ جواب میں تیر اور پتھر پھینکتے ہیں یا اللہ انہیں ہدایت دے۔ انہیں اسلام کے لیے میرے پاس آنے کی توفیق عطا فرما۔ پھر صحابہ کو حکم دیا کہ محاصرہ ختم کردیا جائے۔ وہاں سے جعرانہ تشریف لائے۔ قبیلہ ہوازن کے قیدیوں کو اپنی رضاعی بہن حضرت شیما رضی اللہ تعالی عنہا اور ہوازن کےدوسرے لوگوں کی درخواست پر رہا کر دیا گیا اور کچھ ساز و سامان بھی واپس کر دیے گئے۔ اس میں ایک حکمت بھی تھی کہ اس رہائی اور عفو و درگزر سے طائف والوں کو یہ سمجھ آجائے کہ اسلام قبول کرنے کے یہ فائدے ہیں۔
 *تیسری دعوت*
حضرت عروہ بن مسعود ثقفی رضی اللہ عنہ نے آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر اسلام قبول کر لیا۔ اور اجازت چاہی کہ طائف میں جا کر اسلام کی دعوت دوں۔ آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم طائف کے مزاج کو سمجھتے تھے اس لیے انھوں نے فرمایا کہ صبر و حکمت سے کام لینا اور ایک بارگی اپنے اسلام کو ظاہر نہ کرنا۔ لیکن انہوں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اہل طائف مجھے اپنی کنواری لڑکیوں سے بھی زیادہ محبوب رکھتے ہیں۔ وہ میری باتوں کا انکار نہیں کریں گے۔ اور میری بات مان لیں گے۔ لیکن وہ اپنی اس خوش فہمی کے ساتھ جب طائف پہنچے اور اپنے چھت کی بلندی پر جا کر خود کو مسلمان ہونے کا اعلان کیا اور اسلام کی دعوت پیش کی۔ تو لوگوں نے تیروں سے حملہ کر کے شہید کر دیا۔ آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب حضرت عروہ بن مسعود ثقفی رضی اللہ عنہ کی شہادت کی اطلاع ملی تو ان کے بلندی درجات کی دعا مانگی اور فرمایا کہ عروہ بن مسعود ثقفی میرے بھائی حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام کی طرح ہیں۔ عملا اور شکلا بھی۔آنحضرت ﷺ نے فرمایا عروہ کے مثال صاحبِ یسین (حضرت عیسیٰ) جیسی ہے جنہوں نے اپنی قوم کو خدا کی طرف بلایا اور اس نے ان کو شہید کردیا (مستدرک حاکم: ٦١٦/٣)
عروہ بن مسعود ثقفی صاحب یسین(حضرت عیسی ابن مریم علیہ السلام) کی طرح کیسے ہیں، اس مماثلت کو سمجھنے کے لیے ذرا سورۂ یسین کی آیت نمبر 13 سے 25 کا مطالعہ کریں۔
ترجمہ:
 اور بیان کرو ان سے اس شہر والوں کی مثال۔ کہ جب ان کے پاس آئے رسول۔ اور ہم نے ان کے پاس دو رسول بھیجے۔ تو شہر والوں نے ان کو جھٹلایا۔ تو ہم نے تیسرےرسول کے ذریعے طاقت بخشی۔ پس ان تینوں نے شہر والوں سے کہا کہ ہم لوگ تم لوگوں کو اللہ تعالی کی وحدانیت کی دعوت دینے کے لیے بھیجے گئے ہیں۔ تو شہر والوں نے کہا کہ تم لوگ تو ہم ہی لوگوں کی طرح بشر ہو۔ رحمان نے کچھ نہیں بھیجا ہے تم لوگ جھوٹے ہو۔ انہوں نے کہا کہ اللہ تعالی جانتا ہے کہ اس نے ہمہیں تمہاری طرف بھیجاہے۔ اور ہماری ذمہ داری تو صرف صاف صاف اللہ کا حکم پہنچانا ہے۔ تو شہر والوں نے کہا کہ ہم لوگ تمہیں منحوس سمجھتے ہیں۔ تم لوگ اپنی حرکتوں سے باز آجاؤ نہیں تو ہم لوگ ضرور تمہیں سنگسار کریں گے۔ اور ہم لوگوں کے ذریعہ تمہیں سخت دردناک تکلیف پہنچے گی۔ انہوں نے کہا کہ تمہاری نحوست ہی تمہارے ساتھ ہے۔ تمہیں سمجھایا جاتا ہے تو تم بدکتےہو۔ بلکہ تم حد سے بڑھنے والے لوگ ہو۔
*اسی درمیان شہر کے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آیا۔اور کہا کہ اے میری قوم!ان رسولوں کی پیروی کرو۔ یہ تم سے کچھ بدلہ نہیں مانگتے۔ اور یہ ہدایت یافتہ ہیں۔ ہمیں کیا ہو گیا ہے؟ کہ ہم اس کی بندگی نہ کریں جس نے مجھے پیدا کیا۔ اور اس کی طرف سب کو لوٹنا ہے۔ کیا اللہ تعالی کے سوا اور کوئی خدا ٹھہراؤں؟ اگر رحمان میرا کچھ برا چاہے تو ان کی سفارش کچھ کام نہ آئے۔ اور نہ وہ مجھے بچا سکیں۔ بے شک جب تو میں کھلی گمراہی میں ہوں۔ بے شک میں تمہارے رب پہ ایمان لاتا ہوں۔ تم میری بات سنو۔وہ شہر والوں کو سمجھا رہے تھے اور بدلے میں شہر والوں نے انہیں پتھر مار کر شہید کر دیا* اسی نوجوان کی جانب اشارہ کرتے ہوئے آقا کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے حضرت عروہ بن مسعود ثقفی کی تمثیل پیش کی: کہ "انہوں نے اپنی قوم کو دین کی دعوت دی تو ان کی قوم نے تیر مار کر انہیں شہید کر دیا"۔
 *چوتھی دعوت* 
حضرت عروہ بن مسعود ثقفی رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت کے کچھ دنوں بعد انہوں نے قبیلہ ہوازن پہ نظر ڈالی جو شکست کے بعد بھی رسول کونین کے عفو و درگزر سے خوشحال تھے۔ قریش کی خود سپردگی کے بعد جعرانہ میں آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی دلجوئی کے لیے مال غنیمت میں سے اتنا دیا کہ اس کا وہ تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔ پھر قرب و جوار کے تمام قبائل کا جوق در جوق اسلام قبول کرنا اور ایک پاکیزہ زندگی کی ابتدا کرنا بھی ان کے پیش نظر تھی۔ ان اسباب وعلل کے ساتھ آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ان کے لیے تین مرتبہ ہدایت کی دعا کرنا بھی قبول ہوئی۔ *اور بنو ثقیف نے یہ مشورہ کیا کہ ہمارا بھی ایک وفد مدینہ جاکر اپنے شرطوں کے ساتھ اسلام میں داخل ہونے کی بات کرے*۔ چنانچہ ان کے سردار  عبد یالیل بن عمرو اپنے دو حلیفوں کے ساتھ اور قبیلہ بنو مالک میں سے تین کل چھ افراد پر مشتمل یہ وفد رمضان 9 ہجری میں مدینہ پہنچا۔ مسجد نبوی میں ان کے لیے خیمہ لگایا گیا تھا تاکہ یہ لوگ صحابہ کو نماز پڑھتے ہوئےدیکھ سکیں اور قرآن سن سکیں۔ پھر ایک دن ان لوگوں نے حضور کی بارگاہ میں حاضر ہو کر ان شرطوں کے ساتھ اسلام قبول کرنے کی بات کی کہ ہم نماز نہیں پڑھیں گے، زکات نہیں دیں گے، جہاد نہیں کریں گے، شراب نوشی اور سود خوری نہیں چھوڑیں گے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے منظور کر لیا۔ تو وہاں موجود صحابہ نے عرض کی کہ یا رسول اللہ یہ کیسا اسلام ہے؟ اس کے جواب میں آقا کریم کی یہ حدیث ملاحظہ کریں۔ جو حضرت جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عنقریب وہ زکات بھی دیں گے اور جہاد بھی کریں گے۔ پہلے یہ مسلمان تو ہوجائیں۔ (ابو داود کتاب الخراج باب طائف حدیث نمبر 1251-1252) 
ان لوگوں نے یہ شرط بھی رکھی کہ ہم بت نہیں توڑیں گے۔ تو آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی یہ شرط نہیں مانی۔ اور فرمایا کہ شرک کے ساتھ اسلام قبول نہیں ہے۔ بت کو توڑنے ہی ہوں گے۔ اب اگر تم اپنے ہاتھ سے نہیں توڑنا چاہتے ہو تو میں خالد بن ولید کو بھیجتا ہوں وہ طائف جاکر "لات" کے مجسمہ کو توڑ دیں گے۔ چنانچہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے طائف جاکر وہاں کے بتوں کو توڑ ڈالا تھا۔ بےشک آقاکریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام اور امن کی خاطر صلح حدیبیہ کے بعد یہ دوسرا مرحلہ تھا جب کفار کے بے جا اور نامعقول شرائط کو بھی قبول کرلیاتھا۔ لیکن نتائج کے اعتبار سے مہینوں نہیں۔ بلکہ کچھ ہی دنوں بعد طائف کے لوگ کامل مؤمن اور صحابی رسول بن گئے۔ جس کی فضیلت بے شمار ہیں۔ دین طاقت سے نہیں بلکہ اخلاق حسنہ اور حکمت عالیہ سے پھیلا ہے اور حکمت و دانائی مومن کا حق ہے۔ جو آج ہم سے دور ہے۔ کامیابی کے لیے ہمیں اصل اسلام کی طرف لوٹ کر پاکیزہ کلمات، اخلاق حسنہ اور حکمت و دانائی کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگااور دین کی دعوت پیش کرنی ہو گی۔
 محمد شہادت حسین فیضی
9431538584

علما کی زبوں حالی: اسباب و تدارک

تین قسطیں یکجا


تحریر: شہادت حسین فیضی، کوڈرما جھارکھنڈ

میں مدرسہ کی آفس میں میں تھا کہ ایک حافظ صاحب تشریف لائے جو میرے شاگرد وں میں سے تھے۔ موصوف امام ہیں اور ایک گاؤں کے مکتب میں پڑھاتے ہیں انکی چھ لڑکیاہیں اور شاید سب سے چھوٹے دولڑکے ہیں انہیں اپنی بیٹی کی شادی کرنی تھی جس کا رشتہ طئے ہو چکا تھا اور تاریخ بھی طئے تھی انہوں نے بڑی ہی لجاجت کے ساتھ اپنی بیٹی کی شادی کی دعوت پیش کی اورعرض گزار ہوئے کہ حضرت میرے لیے ایک تصدیق نامہ تحریر کر دیں تاکہ کچھ لوگوں سے مل کر بیٹی کی شادی کا انتظام کر سکوں آپ جانتے ہیں کہ میں کثیر العیال ہوں اور آمدنی کے اعتبار سے قلیل ترین آمدنی پہ گزر بسر کرتا ہوں۔ میں نے کہا تشریف رکھیں لکھ دیتا ہوں لیٹرپیڈ نکالا اور پھر لکھنے کی کوشش کی لیکن ہاتھ کانپ گیا اور آنکھ سے آنسوبھی ٹپک پڑے تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد میں نے تصدیق نامہ لکھنے سے معذرت کرلی۔ میں نے سوچا کہ یا اللہ یہ حافظ صاحب جو شریفانہ وضع قطع رکھتے ہیں انکے سینہ مبارک میں قرآن مقدس جیسی لا ریب کتاب محفوظ ہے،عرصہ سے لوگوں کی امامت کر رہے ہیں اور تعلیم قرآن جیسے عزت و شان والا کام کر رہے ہیں اتنی عظیم شخصیت حقیر سی رقم کے لیے دنیا داروں کے سامنے دست سوال دراز کریں گے؟ بیٹی کی شادی کے لئے انہیں بھیک مانگنا ہوگا؟ ایسا بھی تو ہوسکتا ہے کہ کوئی کم ظرف انہیں ڈانٹ دے جھڑک دے دروازہ سے باہر کردے۔ اگر ایسا ہوا تو کیا دنیا والوں پہ عذاب نہ آئے گا؟ یقیناً ایسا ہونا قہر خداوندی کو دعوت دیناہے۔
میں نے کہا ان شاء اللہ آپکی بیٹی کی شادی متعینہ تاریخ پہ ہی ہوگی۔ پھر میں نے انہیں تسلی دی اور کچھ مخصوص رہنمائی بھی کی۔ بیشک اللہ تعالیٰ جو کار ساز و مالک ہے اپنے حبیب پاک ﷺ کے صدقے حافظ صاحب کے مسائل کو حل فرما دیااور شادی بھی ہو گئی۔
ایک عالم دین مسنون وضع قطع کے حامل نوجوان میرے پاس تشریف لائے سلام ودعا کے بعد انہوں نے بہت ہی عاجزی کے ساتھ یہ درخواست کی کہ مجھے کہیں نہ کہیں رکھوادیں خواہ تنخواہ کتنی ہی کم کیوں نہ ہو۔ میں بہت ضرورت مند ہوں۔ میں نے کہا کہ حضرت مجھے سوال نہیں کرنا چاہئے لیکن معذرت کے ساتھ کیا میں یہ جان سکتا ہوں کہ آخر آپ کے ساتھ کیا پریشانی لاحق ہو گئی ہے؟کہ آپ کم سے کم تنخواہ میں کام کرنے کو تیار ہیں؟ان کے آنکھوں آنسو آگئے اور وہ رو پڑے۔ میں نے کسی عالم دین کو اپنی ضرورت کے لیے روتے ہوئے پہلی مرتبہ دیکھا تھا اس لیے کافی دیر تک خاموشی کے ساتھ ان کو دیکھتا رہا۔ پھر جب وہ کچھ مطمئن ہوئے تو انہوں نے کہا کہ حضرت میں فلاں گاؤں میں امامت کرتا تھا۔اللہ تعالیٰ نے مجھے اولاد نرینہ سے نوازا ،خوشی دوبالا ہوئی لیکن کچھ دنوں کے بعد میرے بچے کی طبیعت خراب ہو گئی اور مجھے باربار اسے ڈاکٹر کے پاس لے جانا ہوتاتھاجس سے میری غیر حاضری ہونے لگی اور رقم کی ضرورت بھی بڑھنے لگی خیر میں پیشگی تنخوہ اور کچھ لوگوں سے قرض لے کر بچے کا علاج کراتا رہا۔ لیکن گاؤں والے میری غیرحاضری سے ناراض ہوگئے اور انہوں نے میری چھٹی کر دی۔اب میں مقروض بھی ہوں،بے روزگار بھی ہوں اور میرا بیٹا بیمار بھی ہے۔اسے علاج کی سخت ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے مسائل کو حل فرمادیا بے شک اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو آزماتابھی ہے اور نوازتا بھی ہے۔
پڑھنے کے بعد مدرسہ ومسجدسے ۳۵سال سے منسلک ہوں اس درمیان اس طرح کے بہت سارے واقعات پیش آئے لیکن ان میں سے ماضی قریب کے یہ دو واقعہ جسکو میں نے پیش کیا ہے علمائے کرام کی زبوں حالی کو سمجھنے کے لیے کافی ہیں حالانکہ واقعات اور بھی ہیں۔
بہت سارے لوگ اس طرح کے وقعات بیان کرتے ہیں اور میں نے بھی دو واقعہ بیان کر دیاہے۔واٹس اپ،فیس بک، اخبار ات وغیرہ میں علمائے کرام و ائمہء مساجد کے بارے میں افسوس کے جملے ادا کرتے ہیں۔ کچھ لوگ اور کچھ خانقاہ یہ ا علان کررہے ہیں کہ علماء و ائمہ اس وقت بہت زیا دہ محتاج ہیں ان کی مدد کرنی چاہئے یعنی انہیں بھیک یا خیرات دینی چاہیے۔ پتہ نہیں لوگوں نے ان کی اپیل پہ عمل کیا یا نہیں۔لیکن ایک بات واضح ہو گئی کہ علماء غریب، مفلوک الحال اورقابل رحم اور زکاة وصدقات کے مستحق ہیں۔ اس معلوما ت کے بعد نہ تو کسی عام آدمی نے نہ کسی عالم نے اور نہ ہی کسی مفتی نے اس کا حل پیش کیا کہ علما ء کی مفلوک الحالی کیسے ختم ہوگی۔علماء وائمہ سے ہمدردی رکھنے والے عالموں سے اور غیر عالموں سے گذارش ہے کہ علماء و ائمہ فارغ البال کیسے ہوں اس کی ترکیب بتائی جائے۔ وہ خیرات لینے والے نہ رہیں بلکہ ان کی عالمانہ شان کا تقاضہ تو یہ ہے کہ وہ دینے والے ہوں اور یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے؟ کیا ایسا ہوبھی سکتاہے؟ ان شا ء اللہ ایسا ہوگا، لیکن کیسے؟خیرات دینے سے یا غریب علماء کانفرنس کرنے سے؟ یا علماء کی تنظیم بنانے سے؟ یا احتجاجی مظاہرہ کرنے سے؟ کیا ان سب کے علاوہ دین وسنت میں کوئی ایسی ترکیب ہے جس پہ عمل کرکے علماء باوقار ہوں؟ ان سوالوں کے جواب عنایت کریں کرم ہوگا۔
قارئین کے جواب کا انتظار رہے گا تاکہ کوئی ٹھوس پالیسی بنائی جاسکے۔

زبوں حالی کے اسباب

وجہ اول:
قیام مدارس اسلامیہ کے مقاصد کی غلط تعبیرو تعین۔ کہ فارغین مدارس اسلامیہ صرف امام،مؤذن و مکتب کے معلم ہی بنیں گے۔ انہیں بس انہیں کاموں کے لیے تیار کیا جائے گا، کیوں کہ ان کی تعلیم پہ زکوٰۃ،خیرات،صدقات کی رقم خرچ کی جاتی ہے …انہیں شرطوں کے ساتھ ہی زکوٰۃ وصدقات جو ان کے لیے حرام تھیں حلال کی گئیں ہیں کہ مدرسہ میں پڑھ کر یہ لوگ امامت کریں گے اور قرآن وحدیث کی تعلیم دیں گے۔ ان کے علاوہ اگرانہیں کوئی اور تعلیم وہنر دیا گیا تو حیلۂ شرعیہ کی جو علت ہے وہ فوت ہوجائے گی۔
گویا اے عالمو،حافظو،قاریو، مفتیو،اور خطیبو! تم زکوٰۃ، فطرات کھا کر پڑھے ہو جو عام لوگوں کے لیے حرام تھی،تم نے اپنے لیے اس کو اسی لیے حلال کیا ہے کہ تم صرف یہی کا م کروگے۔اور یہ کہہ کر علمائے کرام کو روز اول سے ہی احساس کمتری کا شکار بنایا جاتا ہے۔
وجہ دوم:
تمام مدارس اسلامیہ میں داخلہ شوال میں ہو تا ہے اورتکمیل تعلیم کی سند شعبان میں دے کر رخصت کیاجاتاہے۔تعلیم کا دورانیہ دس سا ل کا ہو یا بارہ سال کا، اول دن سے ہی ناظم اعلیٰ ہوں یا مہتمم، صدرالمدرسین ہوں یا عام مدرسین، بچوں کی تعلیم کی ابتداکچھ اس طرح کرتے ہیں۔

مثلاً

(الف) ناظم اعلیٰ بچوں کو تعلیم دیتے ہیں ”بچے آپ تمام لوگ پابندی سے نماز با جماعت ادا کیا کریں مدرسہ کے صدر صاحب کا گھر قریب ہی ہے وہ آپ کودیکھ رہے ہوتے ہیں۔ خبر دار اگر آپ نماز میں کوتا ہی کریں گے تو صدر صاحب ناراض ہوں گے-اس لیے ان کی ناراضگی سے بچنے کے لیے نمازوں کی پابندی ضروری ہے“۔
(ب) صدرالمدرسین بچوں کوموقع بموقع سمجھاتے رہتے ہیں۔ بچے آپ بڑوں کا ادب کریں راستہ میں جو ملے انہیں سلام کریں ایسا نہ ہو کہ آپ انہیں سلام نہ کریں اور نظر انداز کرکے آگے بڑھ جائیں کہ اس سے محلے کے لوگ ناراض ہوں گے پھر اگر وہ چندہ دینا بند کردیں گے تو مدرسہ کیسے چلے گا ؟ اس لئے آپ لو گ سلام ضرور کیا کریں۔
(ج) دیگر اساتذہ کچھ اس طرح بچوں کے دل ودماغ پہ اثر انداز ہوتے ہیں۔کہ بچو! مدرسہ کے عہدیداران اور اراکین واساتذہ کی خوب عزت کریں، ان سے ڈریں، وہ تمہارے لیے بڑی بڑی قربانیاں دیتے ہیں۔اگر وہ کچھ بولیں، ڈانٹیں اگرچہ زیادتی ہی کیوں نہ ہو،ان سے منہ نہ لگانا ورنہ خارجہ کردیا جائے گا۔اس لئے کہ وہی لوگ مدرسہ چلاتے ہیں، ہماری تنخواہ اور کھانے پینے کا انتظام کرتے ہیں۔ ان کو تھوڑا برداشت کرنا ہی ہوگا۔خبردار! اگر وہ ناراض ہوگئے تو تمہارا یہاں رہنا مشکل ہو جائے گا۔اور اگر وہ خوش ہوئے تو وہ بہت نوازیں گے۔
میں یہ کوئی فرضی کہانی پیش نہیں کر رہا ہوں بلکہ دوران طالب علمی میں نے یہ سب کچھ دیکھا ہے اور ابھی بھی دیکھتا ہوں، اورمیں نے پہلے بھی سنا ہے اور اب بھی سنتا ہوں۔
شروع سے اخیر تک بچوں کو صدر صاحب،سکریٹری صاحب، اراکین، عوام سے ڈرایا جاتا ہے اور انہی لوگوں کو خوش کرنے کی تعلیم دی جاتی ہے اور اسی کو دین کی خدمت کہتے ہیں۔اور اس طرح غیر محسوس طور پر علماء کرام کو شروع ہی سے مرعوب ومغلوب بنایا جاتا ہے۔نتیجتاً انکے دلوں میں عوام کا خوف اور اسباب سے محبت،اللہ کے خوف اور رسول کی محبت سے زیادہ ہو جاتی ہے۔
مثال اول:- ایک مرتبہ مجھ سے ایک صاحب نےکہا کہ ہمارے گاؤں میں فلاں مولانا صاحب امام ہیں جب وہ ہمارے یہاں ہوتے ہیں تو نماز بھی پڑھاتے ہیں اور لوگوں کو نماز کی دعوت بھی دیتے ہیں۔ لیکن جب وہ گھر جاتے ہیں تووضع قطع کے ساتھ نمازیں بھی چھوڑتے ہیں۔ میں نے کہا کہ وہ یہاں عوام کے ڈر سے نماز پڑھتے ہیں اور پڑھاتے ہیں انہیں دوران تعلیم عوام سے ہی ڈرناسکھایا گیا ہے اور عوام کو خوش رکھنے کا طریقہ ہی بتایا گیا ہے۔تو انہوں نے جو سیکھا ہے اسی پہ وہ عمل پیرا ہیں۔ اس میں تعجب کی کیا بات ہے؟۔
و ہ پڑھ رہے تھے تو عوام کو خوش کرنے کے لئے اورآج وہ پڑھا رہے ہیں تو عوام کو خوش کرنے کے لئے۔نہ کل للہیت تھی نہ آج للہیت ہے۔الا ماشاء اللہ!
مثال دوم:- ہمیں دس بارہ سال تک خوشامد پرستی سکھائی جاتی ہے نتیجتاًہم خوشامد پرست ہو جاتے ہیں، اور ہمیں بھی خوشامد پرستی ہی اچھی لگتی ہے۔ ہم سوال کرنے سے ڈرتے ہیں اور ہم سے کوئی سوال کرتا ہے تو ہم اسے ڈراتے ہیں۔کل مدرسہ سے خارجہ کا ڈر تھا اور آج بزرگوں کا بے ادب کہہ کر سماج، معاشرہ، واٹس اپ،اور اسلام سے بھی خارجہ کر دیا جاتا ہے یاخارج کردئیے جانے کا ڈر لگا رہتا ہے۔
وجہ سوم:- ڈاکٹر اقبال نے کہا تھا۔
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
مدارس اسلامیہ کے فارغین کو دوران تعلیم دس بارہ سال تک تسلسل کے ساتھ ان کے ذہن و فکر پہ ایک لکیر کھینچ دی جاتی ہے اور مسلسل کہا جاتا ہے کہ جتنی بحثیں کرنی ہو،سوال کرنا ہو اس دائرہ کے اندر رہ کر ہی کرنا ہے۔ اور اگر کوئی طالب علم جرأت و ہمت کرکے کچھ سوال کر بھی دیا تو اس کو مطمئن کرنے کے بجائے اس سے کہا جاتا ہے کہ تم فلاں امام سے زیادہ جانتے ہو؟ انہو ں نے جو کہا ہے وہی صحیح ہے اور تمہارے ذہن میں جو بات آئی ہے وہ غلط ہے۔ اب اگر اس نے پھر سوال کردیا کہ کیوں غلط ہے؟ تو اسے ڈانٹ دیا جاتاہے اور خاموش رہنے کی تلقین کی جاتی ہے اس کے باوجود اگر وہ خاموش نہ ہوا تو بزرگوں کا بے ادب کہہ کر خارجہ کر دیا جاتا ہے۔ اور اسکے خارجہ کو بطور عبرت تمام لڑکوں میں تشہیر کی جاتی ہے کہ سوال کروگے تو یہی انجام ہوگا۔خیر چاہتے ہو تو مغلوب الذہن بن کر علم حاصل کرو۔
الغرض قدامت پرستی واکابر پرستی کی ایک دیوار ہے جس سے باہر جانے کی کسی کو اجازت نہیں ہے۔
پوری دنیا میں صرف ایک کتاب ہے جسے حرف آخر کی حیثت حاصل ہے وہ قرآن مقدس ہے۔ اس کے بعد ہزاراوں ہزار کتابیں جو صحیح ہیں ان میں سے بعض اصح کتب بعد کتاب اللہ کے د رجے کے ہیں۔ جیسے بخاری شریف وغیرہ لیکن خطاکا امکان اس میں بھی موجود ہے۔
ایسے ہی انبیاء ومرسلین معصوم ہیں انکے علاوہ حرف آخر کوئی نہیں ہے۔ لیکن ہمارے ذہن وفکر پہ یہ کہہ کر تالا لگادیاجاتا ہے کہ ہمارے اکابرین کے اقوال حرف آخر ہیں، ان میں قیل و قال کرنا گمراہیت ہے۔ یہ فکر ی انجماد ہمیں لکیر کا فقیر بنا کر رکھا ہے۔ اور ہمیں نئی منزل اور نئی جہت میں جاکر دین کے ساتھ دنیا کی خوش حالی حاصل کرنے سے روکتا ہے۔
جبکہ اسلام دین فطرت ہے اور اس میں ہر سوال کا جواب موجود ہے ہر مسئلہ کا حل موجود ہے۔ اسلام کبھی کسی کے ذہن وفکر پہ پہرہ نہیں بیٹھاتا بلکہ اسلام تو آزادی فکر و رائے کا حمایتی ہے۔ ہاں سلیقہ مندی ضروری ہے، تہذیب وشائستگی لازمی ہے۔
گویا خوداری اور خودی کو ختم کرکے علمائے کرام کو نفس کشی کے نام پرتدریجاًگداگری سکھائی جاتی ہے اور اس کے نتیجے ہمارے سامنے ہیں۔
وجہ چہارم:- علماء وحفاظ کی جماعت یہ مظلوموں کی جماعت ہے۔وہ اس طرح کہ پڑھنے کے وقت ان پہ جو رقم صرف کی گئی وہ اس کے مستحق نہیں تھے بلکہ انکے لیے حرام تھی، لیکن مجبوراًانہیں عالم وحافظ بنانے کے لیے حلال کی گئی ہے۔ یعنی حرام کو حلال کہہ کر ان کو کھلایا گیااور ان پراحسان بھی جتایا گیا کہ آپ حضرات کی تعلیم ہماری زکوٰۃ وفطرہ کی رقم سے ہوئی ہے۔پھر جب یہ تعلیم یافتہ ہوگئے یعنی عالم،حافظ،مفتی بن گئے تو انہیں روز گار کے طور پر وہ کام دیا گیا جس کی اجرت لینی جائز نہیں تھی لیکن انکی مجبوری کو دیکھ کر انکے لیے حلال کیا گیا۔
امامت کرنا،آذان دینا،دین کی دعوت دینا، قرآن وحدیث کی تعلیم دیناوغیرہ۔یہ وہ عظیم کام ہیں جس کا اجر اللہ تعالیٰ ہی دیتا ہے۔ دنیاوالوں سے اس کی اجرت لینا حرام و ناجائز تھی۔
حضرت آدم علیہ السلام سے لیکرحضور اکر ﷺ تک جتنے انبیاء ومرسلین تشریف لائے کسی نے بھی دین کی تبلیغ واشاعت کے بدلے میں امت سے اجرت قبول نہیں کی۔
خلفائے راشدین،صحابہء کرام، تابعین،تبع تابعین، ائمۂ مجتہدین وغیرہم رضی اللہ عنہم میں سے کسی نے بھی دینی تبلیغ واشاعت اور امامت وخطابت کی اجرت قبول نہیں کی ہے۔
کیوں؟
اس لئے کہ یہ اتنا اہم کام ہے کہ اس کا اجر اللہ تعالیٰ ہی دیتا ہے۔ دنیا کا کوئی شخص اس کی اجرت یا قیمت دے ہی نہیں سکتا تو پھر اس کالینا کیونکر جائز ہو گا؟۔
لیکن ہم علماء کرام اور حفاظان عظام کو بلی کا بکرا بنایا گیا اور ہم ہی لوگوں نے یہ فتویٰ دیا کہ اب لوگوں میں للہیت باقی نہیں رہی،اس لئے امامت و خطابت کی اجرت لینا جائز ہے۔اور ہم اجرت لیکر امامت بھی کرتے ہیں،خطابت بھی کرتے ہیں اور دینی تعلیم بھی دیتے ہیں۔
اس کو آپ اس طرح سمجھیں کہ پڑھنے کے وقت جو جائز نہیں تھاوہ جائز بنا کر ہم کو پڑھایا گیا اور جب پڑھ چکے توہمیں ایسا روزگار دیا گیا جو جائز نہیں تھا لیکن ہما رے لیے جائزکیا گیا۔ اور اب جن لوگوں نے مذکورہ دونوں صورتوں میں جواز کا فتویٰ دیا ہے اگر ان کا فتویٰ امکان خطا کے طور پر غلط ہو گیا تو ہم علمائے کرام و حفاظان عظام کی پوری زندگی گویاکہ حرام وناجائز کاموں میں گزری ہیں۔ العیاذ باللہ۔
ذبوں حالی کے اسباب تو اور بھی ہیں، لیکن میں اسی پہ اکتفا کرتا ہوں۔

زبوں حالی کا تدارک

علماء کی زبوں حالی کے تدارک کی چار صورتیں پیش کرتا ہوں جو میرے فکر و خیال میں بہتر ہے تا ہم خطا کا امکان موجود ہے۔
اول:- قیام مدارس اسلامیہ کے مقاصد کی صحیح تعبیر وتشریح۔
(۱) مدارس اسلامیہ دینی تعلیم کے لیے قائم کیے گئے ہیں اور دینی تعلیم سے مراد صرف نماز،روزہ،حج اور زکوٰۃ کی تعلیم نہیں ہے۔ بلکہ اس میں ہروہ علم شامل ہے جس سے انسانیت کو فائدہ پہنچتی ہے۔ ہاں اس کے ہر رکن و طریقہ اورذریعہ میں شریعت کی پاسداری لازمی ہے۔ یعنی مدارس اسلامیہ میں قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل شرعیہ کی بھی تعلیم دی جائے اور معاشی خوشحالی اور صحت مند زندگی کے لیے وہ علوم وفنو ن بھی قرآن وحدیث کے حوالے سے سکھائے جائیں جواس کے لیے ضروری ہوں۔اس کی مثال اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کی ذات پاک ہے کہ انہوں نے عقائد اور نمازوغیرہ کے ساتھ طب، حکمت،اور دوسرے سائنسی واقتصادی اور معاشراتی علوم فنون بھی حاصل کیے۔ ان میں مہارت تامہ کے ساتھ کتابیں بھی تصنیف کی۔کیا ہمارے لیے ان کی زندگی نمونۂ عمل نہیں ہے؟ اگر ہے تو ہمیں بھی اپنے مدارس میں بچوں کو حسب لیاقت ان علوم و فنون سے آراستہ کرنا چاہیے جن کو حاصل کرنے کے بعد مدرسے کے فارغین صرف امامت و خطابت اور مکتب میں پڑھانے کو مجبور نہ ہوں۔
(۲) مکتب، مدرسہ،دارالعلوم اور جامعہ یہ جوچار درجے ہیں ان کے نام کے ساتھ اس کی حیثیت کا تعین کیا جائے۔ اب جن اداروں کی جو حیثیت ہو اسی اعتبار سے اس ادارے کا نام رکھا جائے اور اس میں معیاری تعلیم کا انتظام ہو۔اکثر لوگ مکتب کو جامعہ لکھتے ہیں جو اہل خرد کے نزدیک وجہ تضحیک ہے۔
(۳) علم کی تقسیم دینی تعلیم اور دنیاوی تعلیم کے نام سے نہ کیا جائے بلکہ مفید علم اور مضر علم کے اعتبار سے کیا جائے۔ جو علم مفید ہے وہ دینی تعلیم میں شامل ہے۔ اور جو علم مضر ہے یعنی جس علم سے انسانیت ومعاشرہ اور دین کو نقصان پہونچتاہو اس کو سیکھناسکھانا دونوں ناجائز و ممنوع ہے۔
(۴) اسکے بعد ان شاء اللہ فارغین مدارس اسلامیہ معاشیات کے لیے مسجد ومدرسہ کے محتاج نہیں رہیں گے اور مدرسہ ومسجد کے لیے بھی اچھے اور قابل امام ومعلم دستیاب ہوں گے اور علماء و ائمہ کی قدر ومنزلت میں اضافہ بھی ہوگاان شاء اللہ تعالیٰ۔
دوم:- طریقۂ تعلیم وتربیت کی اصلاح۔
پوری دنیا میں جہاں بھی تعلیم گاہ ہے خواہ وہ ملک کوئی بھی ہو، وہاں کا معاشرہ جیسا بھی ہو، مذہب،تہذیب وتمدن بھی الگ الگ ہو سکتے ہیں لیکن ایک چیز ہر اچھی تعلیم گاہ کے لیے مشترک ہے وہ یہ کہ وہاں تعلیم حاصل کر رہے بچوں میں تین طرح کی خوبیاں پیدا کی جاتی ہیں۔اب جن اداروں میں ان تین طرح کی خوبیاں پیدا کرنے کی صلاحیت جتنی زیادہوتی ہیں وہ ادارہ اتناہی زیادہ اچھا کہلاتا ہے اور الحمد للہ وہ تینوں خوبیاں قرآن وحدیث سے منصوص ہیں۔
پہلی خوبی:- اعتماد،بھروسہ،یقین۔
طالب علم جو علم حاصل کر رہا ہے اس پر اس کو مکمل اعتماد ہونا چاہیے کہ وہ علم سب سے بہتر علم ہے۔یہ علم اسکے روشن مستقبل کا ضامن ہے،یہ علم اسے باوقار زندگی جینے کا سلیقہ عطا کرے گا۔اس علم کے ذریعہ ہم وہ راستہ طئے کریں گے جن راستوں پہ چلنے سے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا ہے،جن پراللہ تعالی کی رحمتیں نازل ہوتی ہیں،جن راستوں کی نشاندہی آقا کریم ﷺ نے کی ہے، اس علم کے ذریعہ طالب علم میں خود اعتمادی پیدا ہو، وہ مطمئن ہو کر حصول علم میں مشغول رہے اور ہر دن اسکا اعتماد بڑھتا جائے۔ اساتذہ کی خوشگوار اورپروقار زندگی بچوں کے لیے نقش راہ ہو،نمونہ ہو،اساتذہ کی عزت ووقار دیکھ کر بچوں کو رشک آئے،اساتذہ ایسے قابل،پر اعتماد،خوددار،عزم وحوصلہ سے بھر پور،ماں باپ کی طرح مشفق و مہر بان ہوں،اور اساتذہ و بچوں کے درمیان ایسا پاکیزہ رشتہ ہو کہ جس رشتے کو باپ اور بیٹی کے پاکیزہ رشتہ سے تشبیہ دی جا سکے، اوران کی صحبت وخدمت کو بچے اپنے لیے بہت بڑی نعمت تصور کریں۔ ادارہ میں ایسا پاکیزہ ماحول ہو کہ ہر لمحہ بچوں میں پاکیزہ اعتماد کا اضافہ ہو۔
الغرض تعلیم کا مقصد یہ ہو کہ طالب علم کو اللہ تعالیٰ کی رزاقیت اور اس کی رحمت و مغفرت پہ کامل اعتمادہو، تعلیم کے ذریعہ جو اس میں صلاحیت پیدا ہورہی ہے اس صلاحیت پہ اس کو کامل اعتماد ہو کہ وہ صلاحیت ہمیں دنیا وآخرت میں کبھی بھی ذلیل نہیں ہونے دے گی، بلکہ اس خوبی سے ہمیں دنیا میں بھی عزت ووقار نصیب ہو گی اورآخرت کی کامیابی بھی حاصل ہوگی۔یقینی طور پر وہ مدارس اسلامیہ جو اپنے بچوں میں اس طرح کے اعتماد پیدا کر پارہے ہیں وہ قابل مبارکباد ہیں۔
دوسری خوبی:- ایجاد،اختراع اور نئے رنگ وآہنگ کی تلاش۔
کسی بھی کامیاب تعلیمی ادارے کی یہ روح کی حیثیت ہے کہ وہاں زیر تعلیم بچوں میں کچھ نیا کرنے کاجذبہ، نئی فکر، نئے میدان عمل کی تلاش،انسانیت کی عروج و ارتقاء کے لیے نئے نئے طریقے ایجاد کرنا، افہام وتفہیم،تبلیغ و اشاعت اورتحقیق و تفتیش کے نئے ذرائع وطریقے کا ایجاد کرنا یا استعمال کرنے کا ہنر سیکھنا،جدت طرازی وجدت پسندی کاخوگر بننااور اسکو فروغ دینا،یہ سب اور اس طرح کی دیگر خوبیوں کا پایا جانا ایک کامیاب طالب علم کا خاصہ اور ایک کامیاب تعلیمی ادارے کا حصہ ہے۔
جبکہ اکثر مدارس اسلامیہ کا حال اقبال کے اس شعر میں ہے۔
آئین نو سے ڈرنا طرز کہن پہ اڑنا
یہ مرحلے کٹھن ہیں قوموں کی زندگی میں
الا ما شا ء اللہ۔
بہت سے دینی ادارے ہیں جہاں نئے ر نگ و آہنگ کے ساتھ تعلیم دی جاتی ہے اور طلباء کو نئے چیلنجیز کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار کیا جاتا ہے،ایسے اداروں کو مزید وسعت دینے کی ضرورت ہے۔نیچے سے لیکر اوپر تک تمام مدارس اسلامیہ میں شروع ہی سے بچوں میں حوصلہ مندی، نیا جوش و جذبہ اورمحنت ولگن کے ساتھ نئی بلندیوں تک رسائی کا عزم واستقلال پیدا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ دینی ادارے میں زیر تعلیم بچے بھی احساس کمتری سے باہر نکل کر باوقار زندگی کا شعورحاصل کرسکیں اور زندگی کی حقیقت کو سمجھیں اور حالات کے سامنے زیر نہ ہوں بلکہ اس کا ڈٹ کر مقابلہ کریں۔
اگر دینی اداروں میں اس طرح کا ماحول اور سازگار فضا نہیں بنائی گئی تو دن بدن مدرسے بھی کمزور ہوں گے اور انکے فارغین بھی۔ دیکھا اور محسوس یہ کیا جا رہا ہے کہ مدرسوں میں پڑھنے کے لیے بچے دستیاب نہیں ہیں۔میں نے اس طرح کابھی اشتہار دیکھاہے کہ معلم کو اتنی اتنی تنخواہ دی جائے گی‌لیکن شرط یہ ہے کہ کم ازکم دس بچوں کو مدرسہ میں پڑھنے کے لیے لےکر آئیں۔
ضرورت ہے کہ دینی اداروں میں بھی بچوں کو ایسی کھلی فضا فراہم کی جائے جہاں وہ آزادی کے ساتھ سوچ سکیں،سوال کر سکیں، آزادی کے ساتھ لکھ سکیں اور بول سکیں۔ذہنی بالیدگی اور شعور وآگہی کے عروج و ارتقا کے لیے ضروری ہے کہ آزادانہ ماحول میں دین وسنت پہ عمل کرنے کا جذبہ پیدا کیا جائے اور اللہ تعالیٰ کاخوف،رسول اللہ ﷺ کی محبت، قرآن و سنت سے تمسک کا بچوں کے درمیان عملی مظاہرہ کیا جائے۔ پھر بچوں سے اساتذہ ومنتظمین کے نقش قدم پہ چلنے کی تلقین کی جائے۔ساتھ ہی تصوف کا رنگ،خدمت خلق کا جذبہ پیدا کیا جائے۔اکثر ہوتایہ ہے کہ اساتذہ ومنتظمین خود کو اصول و ضوابط سے ماوراء تصور کرتے ہیں اور بچوں کو سختی کے ساتھ اصول و ضوابط کا پابند بنانا چاہتے ہیں اور یہی قول وفعل کا تضادبچوں کی زندگی میں منفی اثر ڈالتا ہے۔

مقصود ہے اس بزم میں اصلاح مفاصد
نشتر جو لگاتا ہے وہ دشمن نہیں ہوتا

تیسری خوبی:- کردار سازی
کسی بھی تعلیمی ادارے کی اہمیت وشہرت اور اس کی ناموری اس بنیاد پہ ہوتی ہے کہ وہاں زیر تعلیم طلباء کے کردارو عمل کتنے اچھے ہیں۔ قابل اعتماد، بھروسے مند اور تہذیب واخلاق سے کس قدر آراستہ وپیراستہ ہیں۔ مدارس اسلامیہ میں کردار سازی کاعمل ہوتا ہے اس میں کوئی شک نہیں اور یہ اس کا خاصہ بھی ہے۔لیکن موجودہ دور میں حالات نے کچھ ایسے کروٹ بدلے ہیں کہ کردار سازی کا عمل کچھ رک سا گیا ہے اور کچھ بدلا بھی ہے۔آج اکثردینی ادارے دین کیلئے کردار سازی کم کرتے ہیں، مشرب ومسلک کے لیے زیادہ ذہن سازی کرتے نظر آرہے ہیں۔ اس سے دین وسنت کی روح جو اصل ہے وہ ختم ہوتی جا رہی ہے۔
ضرورت ہے کہ کردار سازی کاعمل پھر سے صحابۂ کرام و سلف صا لحین کے نقش قدم پہ چل کر اور قرآن وسنت کے مطابق کی جائے۔ فارغین ادارہ مومن کامل بن کر نکلیں اور انکے کردار وگفتار میں مومنانہ شان اور عالمانہ وقار وعظمت نظر آئے۔انہیں دیکھ کر اور سن کر اللہ یاد آئے،رسول اللہﷺ کی محبت و عقیدت میں اضافہ ہو،سلف صالحین وبزرگان دین کی محبت واطاعت کا جذبہ پیدا ہو،حسن کردار،حسن گفتار اور حسن عمل کا نمونہ نظر آئے ۔
سوم: دس بارہ سال کی طویل زندگی مدرسہ میں گزارنے کے بعد بھی طالب علم اگر صوم و صلاۃ کا پابند نہ بن سکا، نفاست وپاکیزگی کا خوگر نہ بنا،صبر و تحمل اور حلم وبرد باری کا پیکر نہ بنا، تو میں سمجھتا ہوں کہ دس بارہ سال اس کے برباد ہوگئے۔ مدرسے کی تعلیم کے بعد دین ودنیا کی کامیابی سے اس کو نزدیک ہونے کے بجائے وہ دور ہو گئے تو یہ قابل افسوس ہے۔کردار سازی:
دینی اداروں میں کردرا سازی کے لیے قرآن وسنت کے حوالے سے تین طرح کے اصول و ضوابط نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔ان ضوابط پر روشنی ڈالنے سے پہلے میں تمثیلاً ایک واقعہ پیش کرتا ہوں۔
ایک آفس کے سامنے ایک شخص نے جیب سے چشمہ نکالا اور پہن کر اپنی آفس میں داخل ہوا،انجانے میں چشمے کے ساتھ اس کا بٹوا بھی نکل کر زمین پہ آگرا،وہ شخص آفس کے کاموں میں مشغول ہوگیا اور کافی دیر تک وہ بٹوا یوں ہی زمین پہ پڑارہا، لیکن کسی نے بھی اس کی جانب توجہ نہیں دی۔ کچھ دیر بعد جب وہ شخص باہر نکلا تو اس نے اپنا بٹوا اٹھایا اور چلا گیا۔ میں نے جب غور کیا تو معلوم ہوا کہ آفس کے چاروں جانب اندر باہر سی سی کیمرے لگے ہوئے ہیں اور یہ سبھی کو معلوم بھی ہے کہ جب بھی کسی نے کسی کا گرا ہوا سامان اٹھایا وہ پکڑا گیا۔ اس لیے اس پور ے کیمپس میں کسی بھی طرح کا کرپشن نہیں ہوتا، یہاں آنے جانے والے لوگ سبھی اچھے اور ایمان دار ہیں۔ بیشک سب اچھے اور ایماندار ہوں گے۔ لیکن انہیں اچھا اور ایماندار بنانے میں سی سی ٹی وی کیمرے کابھی بہت بڑاتعاون ہے۔
زنا جسکی سزا سو کوڑے سے لیکر موت تک کی ہے اس سے روکنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ لاتقربو الزنا۔ زنا کے قریب مت جاؤ۔ زنا کرنا تو بہت ہی سنگین جرم ہے خبردار ایسے ماحول میں بھی نہ جاؤجہاں زنا ہونے کا امکا ن ہو۔ یعنی تدبیر و حکمت اور اسباب و وسائل کو بھی قدر استطاعت استعمال کرنا چاہیے تاکہ اصول و ضوابط میں پاسداری قائم رہے۔
(۱) مدارس اسلامیہ میں بھی با لکل شفافیت ہونی چاہئے۔ ایسا ماحول اور انتظام ہونا چاہیے کہ جہاں جرم کرنا محال ہو جائے۔اس کے لیے دیگر وسائل کے ساتھ پہریدا ر اور سیسی کیمرے لگائے جائیں۔ ساتھ ہی تمام بچوں کے ذہن وفکر میں یہ بات راسخ ہونی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے ہر عمل کو دیکھ رہا ہے، کراماً کاتبین ہمارے اعمال کو لکھ رہے ہیں،ہمیں قیامت میں اللہ تعالیٰ کے حضور اپنے اعمال کا حساب دینا ہے،ہمارا کوئی عمل رب قدیر کی گرفت سے باہر نہیں۔
(۲) جس طرح سے سالانہ امتحان میں اچھی کار کردگی پہ انعام دیا جاتا ہے اسی طرح اچھے اخلاق وکردار کا مظاہرہ کرنے والے بچوں کو بھی انعام واکرام سے نوازاجانا چاہیے۔ اور اس کے لیے ایک غیر جانب دار نظام ہو۔ اس لیے کہ اس میں اگر تھوڑی سی بھی جانب داری کی گئی تو سارا انعام واکرام بیکار چلاجائے گا۔ کیوں کہ ایمانداری کی پرکھ با لکل ایمانداری سے ہونی چاہیے۔
(۳) ان سب تدابیر کے باوجود بھی اگر کسی طالب علم سے کوئی غلطی ہو جائے تو اسے ایک متعینہ اصول وضوابط کے تحت ہی کوئی سزا دینی چاہیے اور اس میں بھی ادارہ واساتذہ کو بالکل غیر جانب داری کا مظاہر ہ کرنے کی ضروت ہے۔
ان شاء اللہ العزیز اگر مذکورہ بالا نکات پہ توجہ دی گئی تو علمائے کرام کی زبوں حالی بھی ختم ہو گی اور ائمۂ مساجد، خطبائے کرام ونعت خوان رسو ل اکرم ﷺ کی عزت وقار میں اضافہ بھی ہو گا۔
(۴) دینی اداروں میں زیر تعلیم بچوں کے دل ودماغ میں یہ بات ڈالی جاتی ہے کہ تم زکوٰۃ،صدقات کھا کر تعلیم حاصل کرتے ہو۔جو تمہارے لئے جائز نہیں تھا حیلۂ شرعی کے بعد جائز کیا گیا۔ لہٰذا علت حیلۂ شرعیہ کی رعایت ہر حال میں کرنی ہو گی۔
پوری زندگی علمائے کرام اس احساس کمتری میں مبتلا رہتے ہیں کہ ذریعۂ تعلیم بوجہ مجبوری ہمارے لیے جائز تھا۔اور کبھی معاشرہ بھی اس کا طعنہ دیتا ہے۔
حیلۂ شرعی کے موجودہ طریقۂ کار:
ابھی دینی اداروں کو فقراء ومساکین کے ماتحت رکھ کر کسی غریب ومسکین شخص یا کسی غریب ومسکین طالب علم کے ذریعہ اموال زکات و صدقات کاحیلۂ شرعی کرتے ہیں اور پھر مدارس اسلامیہ میں اس کو استعمال کرتے ہیں۔ یہی کام وہ دینی تنظیمیں بھی کرتی ہیں جو خود کو پاسبان ملت شمار کرتی ہیں۔
ممکنہ بہتر طریقے کی ضرورت:
میں اس سلسلے میں جسارت وجرأت کے ساتھ، نیز معذرت وتوبہ اور روجوع کے ساتھ ایک معروضہ پیش کرتا ہوں۔ اس سلسلے میں علمائے کرام سے استصواب رائے اور اتفاق رائے پیدا کرنے کی گزارش بھی کرتا ہوں۔
معروضات و نمونے:
مصارف زکوٰۃ و صدقات واجبہ کا ایک مصرف فی سبیل اللہ بھی ہے۔
(١) مجاہدین اسلام جو جہاد میں جاتے ہیں ان کے بارے میں آقا کریم ﷺ نے فرمایا کہ جو اپنے گھروں سے جہاد کے لیے نکلتا ہے وہ اللہ کے راستے میں ہے۔علمائے کرام نے اس حدیث کو سامنے رکھ کر فتویٰ دیا کہ مجاہد بھی مصارف زکوٰۃ میں شامل ہے۔ کہ وہ اللہ کے راستے میں ہے۔
(٢) آقاکریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص حج بیت اللہ کے لیے گھر سے نکلا وہ اللہ کے راستے میں ہے۔ لہٰذا حاجی بھی فی سبیل اللہ کے ضمن میں مصارف زکوٰۃمیں شامل ہے۔
(٣) رسول کونین صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں۔من خرج فی طلب العلم فھو فی سبیل اللہ۔ یعنی جو علم حاصل کرنے کے لیے نکلا وہ اللہ کے راستے میں ہے۔
مجاہد وحاجی کی طرح طالب علم کو فی سبیل اللہ میں کیوں شمار نہیں کیا جا سکتا؟ ہا ں میں یہ تسلیم کرتا ہوں کہ میں اور آپ جیسے عام مسلمان یہ کام نہیں کر سکتے بلکہ فقہائے اسلام ومفتیان عظام ہی اس سلسلے میں کوئی فیصلہ کر سکتے ہیں۔ یہ انہیں کے دائرۂ اختیار میں ہے۔جو کبھی خود مدرسہ کے طالب علم بھی رہے ہیں!۔۔۔ الا ماشاء اللہ!۔۔۔
اگر طالب علم بھی فی سبیل ا للہ میں شمار ہو جا ئے تو پھر حیلۂ شرعیہ کے بعد حلال ہونے کا مسئلہ ختم ہو جائےگا۔ اور طالب علم بھی مجاہد فی سبیل للہ اور عازم حج بیت اللہ کی طرح ایک منفرد عزت وحشمت کا حامل ہوگا۔
فوائد:
طلبۂ مدارس کی ایک عزت وقار ہوگی،اور پھر علماء کرام و مفتیان عظام و فقہائے اسلا م کو نظر حقارت سے دیکھنے کی کسی کوہمت نہیں ہوگی۔ فراغت کے بعد رقوم مرحومہ کے نام پر یہ دوکام جو ہما رے لیے عام طور پر مختص کیے جاتے ہیں یعنی امامت کرنا اور قرآن پڑھانا اور اصلا جس کی دنیاوی اجرت لینا جائز نہیں ہے۔اور فی زماننا وہ ہمارے لیے بوجہ مجبوری جائزکر کے ہمیں دیا جاجاتاہے اور ہم سے نوکروں جیسا سلوک کرکے ہم سے وہ کام بھی کروایا جاتا ہے جو امام وقت اور دینی معلم کے شان کے خلاف ہے۔اور اس روشن خیالوں کا طعنہ مستزاد، اس کا مداوا کسی‌قدرممکن ہو سکے گا۔
اس سلسلے میں میرا ناقص مشورہ ہے کہ ہر مسجد کے ساتھ ایک فلاحی ادارہ قائم ہو اور علماء و حفاظ کو اس فلاحی ادارے میں بطور فل ٹائم ملازم تقرر کیا جائے اور انہیں امامت و دعوت کا فی سبیل اللہ کام بطور عظمت دی جائے ،کہ آپ اس فلاحی ادارے کے سربراہ ہیں، اس لیے یہ آپ کی ہی شان وعظمت ہے کہ عوام‌ آپ کی امامت میں نماز اد کریں۔اور دینی تعلیم کی ترویج و اشاعت اور دعوت و اصلاح آ پ کے ذریعے ہو۔ یہ کام آپ حلقۂ درس میں کریں، تقریرو خطابت سے انجام دیں یا تحریری طور پر کریں، یہ سب آپ کا حسن عمل اور حسن کردار کامظہر ہوگا۔
گاؤں اورقصبات کے وہ لوگ جو سالانہ جلسہ میں پانچ لاکھ خرچ کر سکتے ہیں۔ پانچ لاکھ کے بجٹ سے ایک فلاحی ادارہ ضرور قائم کر سکتے ہیں۔جو ان کے دینی و دنیاوی فلاح کے لیے بہتر ادارہ ہو سکتا ہے۔ظاہر ہے کہ یہ کام ایک دن میں نہیں ہوگا۔ اس کے لیے طویل مدتی پروگرام کے تحت ذہن سازی کی ضرورت ہے۔ لیکن اگر سلیقے سے کوئی کام کیا جائے تو وہ ضرور پورا ہوگا۔لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ:

گل ادب کو کترتا ہے اب وہی ظالم
جو دیکھنے میں پورا ادیب لگتا ہے

Wednesday, December 30, 2020

عمل‌ پیہم کا‌ فلسفہ اور قانون فطرت

تحریر: محمد شہادت حسین فیضی

کوڈرما، جھارکھنڈ، 9431538584




بے محنتِ پیہم کوئی جوہر نہیں کھلتا

جہد پیہم کے حسیں خبط کو سر میں رکھنا
پاؤں تھک جائیں تو سوچوں کو سفر میں رکھنا

عمل پیہم کا لغوی معنی ہے: مستقل اور متواتر عمل

یقین محکم ، عملِ پیہم ، محبت فاتحِ عالم جہادِ زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں( بانگ درا)

کامیابی‌ کا زینہ ، زینہ بزینہ ہے
کامیابی کا 1% انحصار آپ کے جذبۂ عمل اور 99% انحصار آپ کی تسلسل کے ساتھ محنت پر ہوتا ہے۔”
عن عائشة رضي الله عنها ، أنها قالت: سُئل رسول الله ﷺ : أي الأعمال أحب إلى الله؟ قال: ” أدوَمها وإن قلَّ ” (متفق عليه)
ترجمہ:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، آپ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کون سا عمل اللہ تعالی کو سب سے زیادہ محبوب ہے؟ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم‌ نے فرمایا کہ "وہ عمل جو تسلسل کے ساتھ کیاجائے گرچہ وہ تھوڑا تھوڑا ہو”
اس‌حدیث پاک کی روشنی میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ:
-آہستہ آہستہ بلندی پہ چڑھنے والا تادیر بلندی پہ باقی رہتا ہے
_تدریج و استمرار اللہ کو بھی پسند ہے
-پھونک پھونک کر قدم رکھنے والا کبھی ناکام نہیں ہوتا۔
-لوگوں کے ساتھ معاملہ کرنے میں اور اس کے عمل در آوری میں تدریج واستمرار کی بہت اہمیت ہے۔
-ہروہ کامیابی جس میں نقصان کا خدشہ کم سے کم ہو اس کے لیے تدریج لازم و ضروری ہے۔
-سوچ سمجھ کر آگے بڑھنے والا کامیاب ہوتا ہے
تدریج‌ کا مفہوم:
تدریج یعنی آہستہ آہستہ رک رک کر بمقتضائے حال ترقی کی کوشش کرنا یا بلندی پہ جانے کی سعی کرنا یا سماج و معاشرہ میں تبدیلی لانے کی جدوجہد کرنا یہ سنت رسول ہے۔مشیت رب العالمین ہے۔ایک مثال سے سمجھتے ہیں پودے کے لیے تیار مٹی میں ایک ساتھ کدواورساگون (درخت) کا دانہ ڈالا گیا ایک ماہ تک آبیاری اور دیکھ ریکھ کے بعد یہ دیکھا گیا کہ ساگون کے صرف دو کونپلے نکلے ہیں جبکہ کدو کی لت کافی بڑی ہو گئی ہے۔ کاشتکار سے اس کی وجہ دریافت کی گئی تو اس عقلمند کاشتکار نے بتایا کہ اللہ تعالی کی مشیت ہے کہ جو چیز جتنی تیزی سے بڑھتی ہے اس کا خاتمہ بھی جلدی ہو جاتا ہے۔ اور جو چیز دھیرے دھیرے پروان چڑھتی ہے وہ تادیر قائم رہتی ہے۔ کدو کی لت صرف پانچ سے چھ ماہ میں اپنی عمر پوری کر کے ختم ہو جائے گی جبکہ ساگون کی عمر پچاس سے ساٹھ سال تک ہے اور پھر وہ فرنیچر وغیرہ میں سالہاسال کارآمد‌رہتا ہے اور پھر جلاون میں بھی مفید ہوکر ختم ہوتا ہے۔
تدریج کا قرآنی مفہوم
قرآن مقدس سے پہلے جتنی کتابیں اور صحائف نازل ہوئیں سب کے سب ایک بارگی نازل ہوئی انبیاء ومرسلین جنہیں کتاب یا صحیفہ ملنی تھی انہیں ایک بارگی عطا کر دی گئی۔ ایسا اس لیے بھی ہوتا تھا کہ یہ کتابیں اور صحائف ایک مخصوص قوم اور مخصوص مدت کے لیے راہ ہدایت ہوتی تھی چونکہ ان کے انبیاء و مرسلین بھی کسی خاص علاقے اور کسی خاص قوم کے لیے ہی مبعوث ہوتے تھے۔ اور انبیاءو مرسلین بھی وقفہ در وقفہ تشریف لاتے تھے۔ بلکہ ایک ہی مدت میں مختلف اقوام و ملک کے لیے متعدد انبیاء ومرسلین مبعوث ہوا کرتے تھے۔ لیکن ان کے گزرنے کے بعد بہت جلد ان کے دین کا بھی خاتمہ ہوجاتا تھا۔ بخلاف آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن مقدس کے۔ قرآن مقدس رک رک کر اور تھوڑا تھوڑا وقفہ وقفہ سے 23 سال کی مدت میں نازل ہوا. اللہ تعالی فرماتا ہے۔ ترجمہ : اور قرآن ہم نے جدا جدا کر کے اتارا تاکہ تم(اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم) لوگوں کے سامنے ٹھہر ٹھہر کر حکم سناؤ. اور ہم نے اسے تدریجاً نازل کیا (سورہ بنی اسرائیل(17) آیت نمبر 106)۔
قرآن پیدائش سے لے کر موت تک کے تمام مراحل کے لیے مشعل راہ ہے بلکہ ماقبل پیدائش اور مابعد موت کے بھی حقائق و احوال پر جامع ہے۔ جس سے ایک بہترین سماج و معاشرہ جو اپنے تمام خوبیوں کا جامع ہو تشکیل کرتا ہے۔ گویا ایک بہتر سماج و معاشرہ کی تشکیل کے لیے 23 سال کی مدت صرف ہوئی۔ ایک خراب معاشرہ سے اچھے معاشرہ کی تشکیل ارتقائی (Evolotionary) طور پر مکمل ہوئی۔کہ ایک اچھائی کے بعد دوسری اچھائی پھر تیسری،چوتھی اس طرح سے 23 سال میں اسلام اچھائیوں کا ایسا جامع دین ومذہب ہوگیا جس کو صبح قیامت تک باقی رہنا ہے۔
وہ دانائے سبل ختم الرسل مولائے کل جس نے
غبار راہ کو بخشا فروغ وادى سینا۔
تدریج اور سیرت النبی
دنیا میں خیالی انقلابی شخصیات بھی بہت ہیں لیکن مستند انقلابی شخصیات بھی ہزاروں میں ہیں اور ہمارے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کا مقام ان تمام میں اول ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے ہے کہ رسول کونین صلی اللہ علیہ وسلم نے پر امن انقلاب (Peaceful Revolution) کے ذریعہ گمراہوں کو راہبر بنادیا۔
خود نہ تھے جو راہ پر اوروں کے ہادی بن گئے
کیا نظر تھی جس نے مردوں کو مسیحا کردیا
آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اول تا آخر ذہن و فکر کی تبدیلی کے لیے تبلیغ وتحریک کو اور لوگوں میں اقامت دین کے لیے احکامات کو نافذ کرنے میں تدریج و تعدیل سے کام لیاہے۔ ردعمل کے طور پر فوری اقدام کرنا آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں نہیں ہے بلکہ حالات و واقعات کے مطابق قدم بقدم (Step by step) زینہ بزینہ آگے بڑھنا بلندی پہ جانا یا معاشرہ میں تبدیلی لانا سنت کریمہ متواترہ ہے۔
أسوۂ حسنہ کے نمونے:
اسکی مثال فتح مکہ 8 ہجری کے بعد قریب قریب پورے حجاز میں آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت قائم ہوئی۔ لیکن رسول کونین صلی اللہ علیہ وسلم کو زمین پر قبضہ نہیں کرنا تھا بلکہ زمین پر بسنے والے انسانوں کے دلوں پر قبضہ کرنا تھا۔ اس کے لیے دو طریقے اپنائے گئے۔
(1) فوری طور پر احسان و سلوک کا معاملہ کیا گیا کہ سب کو پناہ دی گئی۔ پھر سب کو معاف کر دیا گیا۔ اور ثقیف و ہوازن کے مال غنیمت میں سے انہیں اتنا دیا گیا کہ وہ اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔(2) دوسری جانب قدیم رسم و رواج کو ختم کرنے اور اسلامی شرعی احکام و قوانین کے نفاذ میں تدریجاً عمل کیاگیا۔ چنانچہ فتح مکہ رمضان 8 ہجری کےدو ماہ بعد جو پہلا حج ہوا وہ قدیم زمانۂ جاہلیت کے رسم و رواج کے مطابق ہی ہوا۔ یعنی آقاکریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلے بطور اصلاح شرک کا خاتمہ کیا کہ انسانی گناہوں میں سب سے بڑا گناہ شرک ہے جسے اللہ تعالی معاف نہیں فرماتا ہے۔ ایک سال تک حج و عمرہ کے رسم و رواج میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی کہ حج و عمرہ ان کے لیے ایک جذباتی عمل تھا۔ جس میں تعرض اصلاح سے فرقہ بندی اور گروپ بندی ہونےکا خدشہ تھا۔ اور جب ایک سال تک لوگ توحید پر قائم رہ لیے تو دوسرے سال یعنی 9 ہجری کا حج بھی دو طریقے سے ادا کیے گئے مسلمانوں نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی قیادت میں آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے مطابق حج ادا کیے جبکہ کفار و مشرکین کو چھوٹ تھی کہ وہ جیسے چاہیں حج ادا کریں۔ تاہم 9 ہجری کے حج کے لیے حضرت ابوبکر کو روانہ کرنے کے بعد ہی سورۂ توبہ کی آیت نمبر 28 نازل ہوئی جس میں کفار و مشرکین کو حرم شریف میں آنے سے روکا گیا ہے۔ آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو اس آیت کریمہ کے ساتھ مکہ بھیجا تاکہ لوگوں کے درمیان یہ اعلان کردیں کہ آئندہ سال سے کفار و مشرکین حرم میں داخل نہیں ہو سکتے۔ یہ پابندی دو حج کے بعد تیسرے حج سے نافذالعمل ہوا۔ اس کی حکمتیں کیا تھیں؟ ہمیں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ چونکہ مشرکین کا مشرکانہ طور پر حج کرنا یا برہنہ ہو کر خانہ کعبہ کا طواف کرنا آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت ناپسند تھا۔ اپنی اس نظافت طبع کی بنیاد پر آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم اقتدار حاصل ہونے کے بعد بھی دو سال تک خود کو حج کرنے سے روک لیا اور کفار و مشرکین کو دو سال تک حج و عمرہ کی اجازت دی تاکہ وہ مسلمانوں سے مل جل کر اور انہیں دیکھ کر، سمجھ کر اسلام قبول کر لیں۔ اور اس کے بہتر و مثبت نتائج سامنے آئے کہ اس دو سال کے بعد پورے خطۂ حجاز میں ایک بھی کافر و مشرک باقی نہ رہا۔
تدریج اور نفوذ شریعت
10 ہجری کا حج جسے حجۃ الوداع کہا جاتا ہے کے موقع پر اللہ تعالی نے آیت کریمہ "آج تمہارے لیے تمہارے دین کو مکمل کر دیا” نازل فرمایا یعنی 10 ہجری کو دین مکمل ہوا۔ جس کی ابتدا تئیس سال قبل دعوت توحید سے ہوئی تھی۔ انسانوں سے بے شمار گناہ سرزد ہوئے ہیں ان میں سب سے عظیم گناہ شرک ہے اور ہزاروں نیکیاں ہیں لیکن تمام نیکیوں کی اصل عقیدۂ توحید ہے۔ آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلے سب سے بڑی نیکی جو اصل نیکی ہے توحید کی دعوت دی اور سب سے بڑے گناہ شرک سے بچا یا۔ پھر تدریجاً دوسرے گناہوں سے روکا اور دوسری نیکیوں کا حکم دیا۔ بخاری شریف کی یہ حدیث ملاحظہ کریں۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ قرآن کریم کا جو حصہ پہلے نازل ہوا وہ مفصل سورتوں میں سے ایک سورہ ہے جس میں جنت اور جہنم کا ذکر ہے۔یہاں تک کہ جب لوگوں کے دلوں میں اسلام راسخ ہو گیا تو اس کے بعد حلال و حرام کے احکامات نازل ہوئے۔ اگر شروع میں ہی یہ حکم نازل ہوتا کہ شراب نا پینا تو لوگ کہتے کے شراب کبھی نہیں چھوڑیں گے۔ اور اگر یہ حکم نازل ہوتا کہ زنا نہ کرنا تو لوگ کہتے کہ ہم زنا کبھی ترک نہیں کریں گے (بخاری شریف کتاب التفسیر باب تالیف القرآن)
اللہ تعالی نے دین اسلام کے تمام قوانین و احکامات ایک بارگی امت پر نازل نہیں فرمائی بلکہ تدریجا تئیس سال کی مدت میں پورا قرآن نازل ہوا اور دین مکمل ہوا۔ معلوم ہوا کہ تدریج نہ صرف آقا کریم کی سنت ہے بلکہ یہ سنت الہی بھی ہے۔
ایک آدمی چھلانگ لگا کر چھت پر چڑھ سکتا ہے لیکن اس کے گر کر مجروح ہونے کا خدشہ ہے جبکہ سیڑھی کے ذریعے چڑھنے والے کا بغیر کسی نقصان کے منزل تک پہنچنا یقینی ہے۔
ایک عام کافر و مشرک کو مسلمان بنانے میں بھی تدریجی عمل کی ضرورت ہے ایسا ہی ایک عام مسلمان کو کامل مؤمن بنانے میں بھی تدریجی عمل کی ضرورت ہے۔ ایسا ہی سماج و معاشرہ میں بھی اصلاح و تبدیلی کے لیے منصوبہ بند تدریجی عمل کی ضرورت ہے۔
پچھلی دو صدیوں کی تنزلی‌ کے اسباب
پچھلے دو سو سالوں میں مسلمانوں کی تنزلی پر اگر نظر ڈالی جائے تو یہ محسوس ہوگا کہ اس درمیان پوری دنیا میں سب سے زیادہ مسلمان قتل کیے گئے یا شہید ہوئے۔ پھر ان مظالم سے بچنے کے لیے سب سے زیادہ تنظیم اور تحریک مسلمانوں نے ہی بنائی ہے اور چلائی ہے اور اس حفاظتی اقدام سے بھی مسلمانوں کا ہی جانی و مالی نقصان ہوا۔ نتیجے کے اعتبار سے یہ ساری تنظیمیں تحریکیں صفر ثابت ہوئی ہیں اور ختم بھی ہوگئیں۔ اور اگر ان میں سے کچھ باقی بھی ہیں تو وہ کالعدم ہیں حالانکہ اس درمیان حج و عمرہ کرنے والوں کی تعداد میں کافی اضافہ ہوا ہے۔ علماء، حفاظ اورقراء کی تعداد میں بھی کافی اضافہ ہوا ہے اور دینی تبلیغ و اشاعت کے کام بھی زور و شور سے چل رہے ہیں۔ کثرت سے دینی مدارس و جامعات قائم ہوے ہیں۔ کثیر تعداد میں مساجد تعمیر ہوئی ہیں اور ہو رہی ہیں۔ ساتھ ہی نمازیوں میں بھی کافی اضافہ ہوا ہے۔ ان سب کے باوجود مسلمان ہر دن تنزلی کی جانب گامزن ہیں۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ ہمیں اسی کو دریافت کرنا ہے میری ناقص فکروفہم کے مطابق اس کی وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ ہم نے مسواک، نکاح، وضو، نماز جیسے عبادات کی سنتوں پر خصوصی توجہ دی اور اسی کو دین کامل سمجھ لیا ہے جب کہ اقامت دین اور حصول اقتدار اعلی کی کوشش کے تعلق سے آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جو سنتیں ہیں مثلا ہر معاملے میں عدل و احسان، تدریجی اقدام، توازن و میانہ روی، عفوودرگزر، مشاورت میں اختلاف رائے کو قبول کرنا، سب وشتم کرنے والوں کو لقمہ تر سے خاموش کرنا، انتقام نہ لیناوغیرہ جیسی سنتوں سے روگردانی کرنا ہے۔
بمصطفے برساں خویش راکہ دیں ہمہ اوست
چوں باونرسیدی ہمہ بو لہبی است

قرآن_کا_حکم_ہے_سائنس_پڑھو




وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر

 اورہم خوار ہوئے تارک قرآن ہوکر
ہم مسلمان ہیں اور ہم نے قرآن کو بھی نہیں چھوڑا ہے۔ اس کے بعد بھی  ہم ذلیل و خوار ہیں؟ اس کی وجہ کیاہے؟کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم صرف نام کے مسلمان ہیں؟ اور رسمی طور پر قرآن سے منسلک ہیں؟ یا اس کا معنیٰ یہ ہوا کہ ہم نے مسلمان ہونے اور قرآن نہ چھوڑنے کا صحیح مفہوم نہیں سمجھا ہے؟۔ آئیے ہم اسے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
قرآن و حدیث میں مسلمانوں کے متعدد طبقات کا ذکر ہے۔ مثلا مسلمان، مومن، محسن، متقی،صالح، قانع اور صابرو شاکر وغیرہ۔ لیکن ہم یہاں صرف مسلمانوں کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔ جس کی جانب علامہ اقبال نے مذکورہ شعر میں اشارہ کیا ہے کہ کس طرح کے مسلمان گزشتہ زمانے میں معزز تھے؟ کیاوہ تارک الدنیا مسلمان تھے؟ مجذوب وپاگل تھے، پیادہ پا، گدڑی پوش، ملنگ، ملیچھ، خاک آلود، خاک نشیں، ٹاٹ پوش، نیم برہنہ، اور نیم پاگل، وغیرہ تھے؟ یا وہ مسلمان معزز تھے جنہوں نے دنیا کو فتح کیا۔ جاہ و حشم کے ساتھ دنیا پر حکومت کی، بڑے بڑے شہر بسائے، حفاظت کے لیے قلعے اور آرام کے لیے محلات کی تعمیر کی، خشکی اور تری میں سفری سہولت کے لیے نئے نئے ایجادات کیے، عمدہ اور لذیذ کھانوں کے اسباب پیدا کیے، عمدہ اور آرام دہ لباس کے لیے کارخانے قائم کیے، علاج و معالجہ کے لیے شفاخانہ اور دوا ساز کمپنیاں قائم کیں، سائنس ٹیکنالوجی اور میڈیکل سائنس وغیرہ کے لیے تجربہ گاہیں اور ریسرچ سینٹر بنائے،علمی و تحقیقی ادارے اور یونیورسٹیاں قائم کیں۔ کس طرح کے مسلمانوں کو آپ کامیاب اور معزز سمجھتے ہیں؟ یا ہم کس طرح کے مسلمان بننا چاہتے ہیں؟ اس طرح کے اور بھی سیکڑوں سوالات ہیں،لیکن دو لفظوں میں اگر ہم اپنی‌تنزلی اور مغلوبیت کا راز بتاسکیں تو وہ ہے ہمارا فکری تضاد،کہ ہم بات کرتے‌ہیں‌معزز،محترم،اشرف اور خیرامت کی لیکن روش اپناتے ہیں کاہلی،سستی،بزدلی،قلندری،فقیری اور جاہلیت کی۔
 اصل واقعہ یہ ہے کہ ہم فکری تضاد کا شکار ہوکر ذلیل و خوار ہو رہے ہیں کہ ہم میں سے ہر ایک کی خواہش تو ہے کہ ہمیں شان و شوکت کی زندگی نصیب ہو جو کہ ایک اسلامی‌سوچ بھی  ہے۔ لیکن ہم نے طریقہ اپنا رکھا ہے Dark Age کے رہبانیوں اور پادریوں کا جہاں ہر طرف جہالت اور توہم پرستی کا دور دورہ تھا۔ہم فخرکناں ہیں تارک الدنیا مجذوب اور خاک نشین ہونے پر۔ یعنی تسخیرکائنات کے رموز و معارف اور قدیم و جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کا علم جس سے یہ اعجاز حاصل ہوتا ہے اسے علم دنیا کہہ کر ہم نے مسترد کر دیاہے اور اپنی ساری توانائی ایسے علم و ہنر کے حصول میں صرف کردی جس سے محض مجذوب، خاک نشیں، اورتارک الدنیا ہوا جاسکتا ہے۔
اسلامی تعلیمات اور اس کے انقلابی مزاج‌ کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔اللہ تعالی نے قرآن مقدس میں جو ہمیں تعلیم دی ہے اس میں دنیا و آخرت کی کامیابی اور عزت و حشمت کا حکم ہے۔ میں قرآن مقدس سے تین حوالے پیش کرتا ہوں۔
(1) چنانچہ اللہ تعالی نے  سورہ "البقرہ"کی آیت نمبر 201/ 202  میں مسلمانوں کو جو سب سے بہتر دعا مانگنے کا سلیقہ سکھایا ہے وہ یہ ہے۔ ترجمہ: "مسلمانوں میں سے جو لوگ یہ دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں اچھی زندگی عطا فرما اور آخرت میں بھی اچھائی عطا فرما اور ہمیں دوزخ کی آگ سے بچا۔ تو اللہ تعالی وہ سب کچھ دیتا ہے جو وہ مانگتے ہیں یا کماتے ہیں اور اللہ تعالی جلد حساب لینے والا ہے۔"
 اس آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے ہمیں سب سے پہلے اچھی دنیا مانگنے کا حکم دیا ہے اور ظاہر ہے کہ جب ہم اللہ تعالی سے اچھی دنیا مانگیں گے تو اچھی دنیا کے لیے کوشش بھی کریں گے تبھی ہم مومن کامل اور عامل قرآن ہو سکتے ہیں۔ اللہ تعالی فرماتا ہے "تم ہی سر بلند رہو گے شرط ہے کہ مومن رہو."( آیت نمبر139 سورہ آل عمران)
گویا کہ مسلمانوں کا معزز ہوناایمان کے شرائط میں سے ہے اور دنیا کی اچھی زندگی کے لیے جس علم کا حصول ضروری تھا   غلط فہمی سے ہم نے اس کو علم دنیا کہہ کر اس سے دوری اختیار کرلی ہے جسکے نتائج ہمارے سامنے ہیں۔
(2) اللہ تعالی نے غار حرا میں جو پہلی پانچ آیتیں نازل فرمائی تھی وہ سب کے سب علم سے ہی متعلق ہیں۔مفسرین فرماتے ہیں کہ پہلی وحی میں إقرأ یعنی لفظ پڑھ کی تکرار بتاتا ہے کہ قرآن و اسلام کا پہلا مطالبہ ہم سب سے حصول علم کا ہے۔
پہلی وحی کے ابتدائی پانچ آیتوں کا مفہوم سمجھیں؛
(١) پڑھو اپنے رب کے نام سے جس نے ساری کائنات کی تخلیق فرمائی ہے تمہارے فائدے کے لیے۔ اپنے  رب کے نام سے ان حقائق و خصائل کی معرفت حاصل کرو جو اللہ تعالی نے اس دنیا میں پیدا فرمایا ہے،تاکہ تم اس سے مستفیض ہو سکو،اور دنیا تمہارے لیے مسخر ہو جائے۔ (٢) پڑھو عناصر اربعہ کے بارے میں جو خون کے لوتھڑے کی شکل میں ہے ،جس سے اللہ تعالی نے انسان کو پیدا فرمایا۔سوچو انسان کی تخلیق کی ابتدا کیسے ہوتی ہے؟ اوراس کی نشونما اور انتہا کیسے ہوتی ہے۔ اس کے تراکیب وحقائق کی معرفت حاصل کرو تاکہ صحت مند رہ سکو اور اللہ کی ربوبیت،خلاقیت اور صانع ازل کی نازک اور پیچیدہ ترین صنعت یعنی جسم انسانی پر غور و فکر کرکے اپنے معبود حقیقی پر ایمان پختہ کر سکو۔ (٣) پڑھو اس رب کے نام  سے جو بڑا ہی کریم ہے کہ اس سے زیادہ کرم والا اور کوئی نہیں ہے، یعنی جو بھی پڑھو اس کے کرم کی بھیک سمجھ کر‌ پڑھو،علم کا دائرہ حلت و حرمت کے دائرے سے تجاوز نہ کرے، حصول علم میں دامن اسلام اور منہج خداوندی چھوٹنے نہ پائے، کبھی علم کا غرور نہ ہونے پائے،بیشک تمہارا رب بہت ہی کرم فرمانے والا ہے۔
(٤)جس نے علم بالقلم یعنی تحریری علم حاصل کرنے کا حکم دیاہے(جن میں سب سے قیمتی قرآن مقدس ہے ،جس میں  کائنات کی ہر چیز کا روشن بیان ہے۔قلمی تحریر یہ اللہ کی بہت عظیم‌ نعمت ہے۔اس نعمت کے بعد ہم اپنی تحقیق کو لکھنے اور دوسروں کی ریسرچ کو پڑھنے کے قابل ہوے۔)
(٥) اے انسان تو اللہ تعالی کا شکر ادا کرو کہ اس نے تمہارے اندر ایسی صلاحیت رکھی ہے کہ تم معلومات کی ترتیب سے مجہولات کو معلوم کر سکتے ہو۔تم دنیا کے بارے میں جو کچھ نہیں جانتے ہو جاننے کی کوشش کرو۔ جان جاؤ کہ یہ دنیا تمہارے فائدے کے لیے ہے اور اس دنیا سے فائدہ تم تبھی اٹھا سکتے ہو جب تمہارے پاس اس کے رموز و حقائق کا علم ہوگا اس لیے اللہ تعالی نے تمہیں وہ علم دیا ہے جو تم نہیں جانتے تھے۔
(آیت نمبر 1 تا 5/ سورہ علق پارہ /30)
ان پانچ آیتوں کی شکل میں اللہ کا سب سے پہلا حکم جو مسلمانوں کو دیا گیا وہ خالصتاً وہ علوم ہیں جس کو موجودہ زمانے میں سائنس و ٹیکنالوجی، بائیولوجی، سوشولوجی، میٹرولوجی، کامرس، جغرافیہ وغیرہ وغیرہ کہا جاتا ہے۔ اس لیے کہ جس وقت یہ آیت کریمہ جب نازل ہوئی اس وقت نہ تو نماز، روزہ، حج، زکوۃ، وغیرہ  فرض ہوئی تھی۔ اور نہ ہی شراب، جوا اور بیغیر اللہ کا نام لیے ذبح کئے گئے جانور کا گوشت حرام ہوا تھا۔ یعنی اس وقت اوامر و نواہی کا حکم ہی نہیں آیا تھا،جس کو موجودہ دور میں علم دین کہا جاتا ہے، تو اسے پڑھنے کا حکم کیوں کر دیا جائے گا؟ معلوم ہوا کہ ان پہلی پانچ آیاتوں میں ان علوم کو پڑھنےکا حکم دیا گیا جسے نا سمجھی کی وجہ سے ہم علم دنیا کہہ کر دوری بنائےہوئے ہیں۔ قرآن مقدس کی اس طرح کی آیتوں پر عمل نہ کرنے کو ہی علامہ اقبال نے تارک قرآں سے تعبیر کی ہے۔ یعنی اللہ تعالی کے احکامات کو نہ مان کر ہم دنیا میں ذلیل و خوار ہیں۔ 
 *(3) سورہ البقرہ آیت نمبر 31سے 34تک کا مفھوم* 
آدم علیہ السلام کی پیدائش سے پہلے ہی اللہ تعالی نے ساری کائنات کی تخلیق کے ساتھ ساتھ فرشتوں اور جناتو ں کو بھی پیدا فرما چکا تھا اور ان تمام تخلیقات میں فرشتوں کا مرتبہ سب سے افضل و اعلیٰ تھا۔ اسی لیے فرشتوں نے تخلیق آدم پر اعتراض کیا تھا۔ اور جب اللہ تعالی نے حضرت آدم کی تخلیق فرمائی تو چاہا کے ایک علمی مظاہرہ کے ذریعے فرشتوں پہ یہ واضح کردیا جائے کہ حضرت آدم تم سے افضل و اعلیٰ ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالی نے فرشتوں کو حکم دیا کہ تم اس کائنات عالم کی چیزوں کے نام وخاصیت کو بتاؤ۔ جواب میں فرشتوں نے عرض کی کہ یا رب العالمین ہمیں دنیا اور دنیا کی چیزوں سے کیا مطلب؟ ہم تو بس وہی جانتے ہیں جو تو نے ہمیں بتایا ہے.
ہمیں تو صرف تیری ہی فرماں برداری کرنی ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کو تمام چیزوں کے نام اور اس کی خاصیت بتا دی اور فرشتوں کے سامنے بلا کر حکم دیا کہ اےآدم تم ان چیزوں کے نام اور اس کی خاصیتوں  کو بتاؤ۔ حضرت آدم علیہ السلام نے سب کچھ بتا دیا۔ تواللہ تعالی نے فرشتوں سے فرمایا کہ تم نے دیکھ لیا کہ آدم تم سے افضل و اعلی ہیں۔ اس لیے اب سجدہ تعظیمی کرکے ان کی عظمت کو تسلیم کرو۔ تمام فرشتوں نے حضرت آدم کو سجدہ کر کے ان کی عظمت کو تسلیم لی۔
آدم علیہ السلام پہلےانسان ہیں۔ انہیں اللہ تعالی نے جس چیز کی سب سے پہلے تعلیم دی وہ تعلیم وہی ہے جس کو موجودہ دور میں سائنس و ٹیکنالوجی اور میڈیکل سائنس کہا جاتا ہے ہے۔ گویا انسان اول کو خلاق عالم نے سب سے پہلے سائنس کی تعلیم دی، تسخیر کائنات کا علم دیا اور پھر فرشتوں کے سامنے علمی مظاہرہ کروا کر اور فرشتوں سے سجدہ کروا کر اللہ تعالی نے یہ بتا دیا کہ عظمت، بزرگی، شان و شوکت اور جاہ و حشمت، سطوت و نکبت اور رعب و دبدبہ انہیں علوم سے حاصل ہوگی۔ اور جو ان علوم کو حاصل نہیں کریں گے اور یہ کہیں گے کہ ہمیں دنیا سے کیا مطلب ہمیں تو صرف آخرت چاہیے ایسے لوگوں کو ذلیل و خوار ہونا ہوگا، دوسروں کے سامنے جھکنا ہوگا، کیونکہ علم سائنس سے رو گردانی کرنا  یہ قرآن کے بھی خلاف ہے اور آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات عالیہ کے بھی خلاف ہے اور شان مؤمن کے بھی خلاف ہے۔
 *خلاف پیغمبر کسے راہ گزید 
ہرگز بمنزل نہ خواہد رسید* 
قرآن و حدیث پہ ہزاروں یونیورسٹیوں میں لاکھوں اسکالرس ریسرچ کر رہے ہیں، تحقیقی مقالہ لکھ رہے ہیں۔ لیکن اس کا موضوع ہے فرض، واجب سنت، مستحب، حرام، ناجائز، مکروہ تحریمی اور مکروہ تنزیہی وغیرہ وغیرہ۔ جبکہ قرآن مقدس کی پہلی آیت پہلے انسان کی پہلی تعلیم اور سب سے بہتر دعا کے ذریعہ اللہ تعالی نے جس علم کو حاصل کرنے کا حکم مسلمانوں کو دیا ہے اس اعتبار سے قرآن و حدیث ہمارا موضوع نہیں ہے۔ اور ہمارا یہ عمل اللہ تعالی کی مشیت کے بھی خلاف ہے۔ 
مذہب اسلام تقریبا ایک ہزار سال تک حالت نمو یعنی ترقی پذیر رہا۔ ان ہزار سالوں میں جو مسلمان محدث، مفسر، فقیہ اور مجتہد ہوتے تھے وہی بہترین حکیم،طبیب سیاست داں، سپہ سالار، جنرل اور کرنل ہوا کرتے تھے۔ وہی امام مسجد، امیرالمومنین اور بادشاہ وقت بھی ہوا کرتے۔ وہی سائنسداں، ریاضی داں، اور ماہر معاشیات، گورنر اورافسر ہوا کرتے تھے۔ اس کے بعد ایک منظم سازش کے تحت علم کی ناجائز تقسیم علم دین اور علم دنیا سے کی گئی اور یہ سمجھایا گیا کہ علم دین یعنی عقائد کے ساتھ نماز، روزہ وغیرہ کے مسائل و حقائق کی معرفت کی تعلیم ہی اصل تعلیم ہے۔ اور دنیا میں حصول اقتدار اور غلبہ کی کوشش کرنا یہ جہنم کا راستہ ہے اس غلط روی اور غلط زاویہ نظر نے مسلمانوں کو قعر مذلت میں پہنچا دیا ہے۔ جو اس کی منزل نہیں تھی اور جو مسلمانوں کی منزل تھی اس پر غیروں کا قبضہ ہو گیا۔ کہ انہوں نے غیر مسلم ہونے کے باوجود قرآن کے ان احکامات پر عمل کیا جس کا تعلق تسخیر کائنات یعنی سائنس سے تھا۔
اس کی مثال دنیا کے وہ پانچ ممالک ہیں جنہیں اقوام متحدہ میں ویٹو کا اختیار حاصل ہے۔اگرمسلمان اپنی حالت میں تبدیلی چاہتے ہیں تو انہیں اپنے فکر و خیال میں تبدیلی لانی ہوگی دین و سنت میں ریسرچ اور تحقیق کے ذریعہ اسے کامل کرنے کی فکر چھوڑنی ہوگی۔ کیوں کہ دین مکمل ہو چکا ہے۔  مزید بیجا تحقیق سے فرقہ بندی ہی پیدا ہوگی۔ اس لیے ہمارے اسلاف نے چار فقہ اسلامی پہ اجماع کرکے اجتہاد کا راستہ بند کردیاہے۔ ضرورت ہے کہ پھر سے مسلمانوں کی جامعات میں ریسرچ اور تحقیق کا موضوع دنیا و مافیہا اور اس سے استفادہ کی صورتیں ہوں۔ ہمیں پھر تسخیر کائنات اور استفادہ من الکائنات کا علم و ہنر سیکھنا ہوگا تبھی ہمیں ہماری منزل ملے گی۔ 
محمد شہادت حسین فیضی
9431538584

Tuesday, December 29, 2020

امارت_و_قیادت_کا_اسلامی_فلسفہ_اور_جدید_چیلنجز

گرداب سامنے ہے ،کوئی بادباں نہیں
اب دیکھنا ہےجاکے ٹھہرتے ہیں ہم کہاں
امیر کی فرماں برداری : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اے ایمان والو !اللہ تعالی اور رسول کی اطاعت کرو۔ اور ان کی اطاعت کرو جو تمہارےامیر ہیں. (سورۃ النساء / 59 ) اللہ تعالیٰ اور رسول اکرم ﷺ کے بعد اپنے امیر کا حکم تسلیم کرنا واجب ہے۔
مذکورہ آیت کریمہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مسلمانوں کے لیے کسی کو اپنا امیر تسلیم کرنا بھی واجب ہے اور یہ حکم ہر سطح پر نافذ ہے۔ خاندان، ادارہ، جماعت، تنظیم، علاقہ، صوبہ اور ملکی سطح پہ بھی کسی نہ کسی کی سربراہی تسلیم کرنا واجب ہے۔ حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم تین آدمی ایک ساتھ سفر کرو تو آپس میں ایک کو امیر بنا لو۔ (مجمع الزوائدجلد نمبر 05 صفحہ نمبر 224)
آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم صبح قیامت تک کے تمام مسلمانوں کے لیے یکساں طور پر نافذ ہے۔ کہ مسلمانوں کی چھوٹی سی چھوٹی جماعت بھی امیر سے خالی نہ رہے۔ تاکہ مسلمانوں میں ڈسیپلین اور نظم و ضبط ہر مقام پر قائم رہے۔ اور کوئی فرد کسی بھی وقت مطلق العنان نہ رہے بلکہ ہر مسلمان ہر وقت اور ہر جگہ ایک جامع نظم و ضبط کا پابند رہے۔ جس کی سب سے بہتر مثال نماز اور حج وعمرہ ہے۔
اس سلسلہ میں مزید پانچ احادیث کریمہ ملاحظہ کریں جو بہت ہی مفید ہیں۔
(1) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص نے میری اطاعت کی اس نے اللہ تعالی کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ تعالی کی نافرمانی کی اور جس نے میرے امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے میرے امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔ (صحیح البخاری جلد دوم صفحہ نمبر 10 57)
(2) حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ روایت کرتے ہیں کہ آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ "سنو اور اطاعت کرو خواہ تم پر ایک حبشی غلام کو ہی حاکم بنا دیا جائے، جس کا سر انگور کے برابر ہو۔" (صحیح بخاری جلد دوم صفحہ نمبر 10 57)
(3) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص کو اپنے امیر کا کوئی حکم ناگوار معلوم ہو تو اس کو صبر کرنا چاہیے کیونکہ جو شخص جماعت سے ایک بالشت بھی الگ ہو کر رہے گا وہ جاہلیت کی موت مرے گا۔ (صحیح بخاری جلد دوم صفحہ نمبر 10 57)
(4) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص ایک بالشت کے برابر بھی جماعت سے الگ ہوا اس نے اپنے گلے سے اسلام کا پھندا اتار دیا۔ اور جو شخص کسی امیر سے بیعت کیے بغیر مرگیا اس کی موت جاہلیت کی موت ہے۔ اور جو شخص عصبیت کے جھنڈے تلے لڑتا ہوا مرا وہ جاھلیت کی موت مرا۔ (مجمع الزوائد جلد نمبر 5 صفحہ نمبر 224 ) یعنی ایسا شخص جس نے کسی کی سربراہی تسلیم نہیں کی اور مرگیا یا وہ آدمی جو کسی عصبیت یعنی برادری یا خاندانی، علاقائی لڑائی میں شریک ہو کر مارا گیا وہ جاہلیت کی موت مرا۔
(5) حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر مسلمان شخص پر حاکم کا حکم سننا اور اس کی اطاعت کرنا واجب ہے خواہ پسند کرے یا ناپسند جب تک کہ وہ کوئی گناہ کا حکم نہ دے اور جب وہ گناہ کا حکم دے تو نہ اس کی سنے اور نہ ہی اطاعت کرے۔ (صحیح مسلم جلد دوم صفحہ نمبر 125)
قرآن مقدس احادیث کریمہ اور آثار صحابہ سے یہ بات واضح ہوگئ کہ مسلمان دنیا کے جس حصہ میں بھی آباد ہو اس پر واجب ہے کہ وہ جماعت کے ساتھ منسلک رہے اور کسی نہ کسی کو اپنا امیر بنا لے اور امیر خواہ وہ جس سطح کا ہو اس کا حکم سننا اور اس کی اطاعت کرنا واجب ہے۔ جب تک کہ کوئی گناہ کا حکم نہ دے۔
موجودہ دور میں جبکہ پوری دنیا سے اسلامی حکومت کا خاتمہ ہوچکا ہے۔ ہاں کچھ ممالک میں مسلمان حکمران ہیں جو مورثی بادشاہ ہونے کی حیثیت سے ہیں یا ایسی جمہوریت کے ذریعہ سے ہیں جس میں عقل نہیں سر گنے جاتے ہیں۔ اور یہ دونوں طریقے اسلامی منہج کے خلاف ہیں۔ ان حالات میں پوری دنیا کے مسلمانوں کے لیے کوئی ایک امیر کا ہونا محال ہے۔اور تمام مسلمانوں کا تو چھوڑیئے اکثر مسلمانوں کا متفق ہونا بھی محال ہے۔ اور وہ ممالک جہاں مسلمان حکمران نہیں ہیں بلکہ مسلمان اقلیت میں ہیں ان ممالک میں ملکی، صوبائی اور ضلعی سطح پہ بھی متفقہ قیادت کا ہونا مشکل ہے۔ ان حالات میں قرآن و سنت میں جو امیر کے اطاعت کا حکم دیا گیا ہے اس پر عمل کیسے کیا جا سکتا ہے؟ یہ ایک سوال ہے جس کا جواب بھی دین و سنت میں موجود ہے۔ اس لیے کہ دین اسلام ایک کامل دین ہے جس میں ہر طرح کے حالات اور ہر علاقہ جات کے ساتھ ہر زمانے کے مشکلات کا حل موجود ہے۔ سبحان اللہ۔ صحیح بخاری شریف جلد دوم صفحہ نمبر 1057 کی یہ حدیث کریمہ پڑھیں۔ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خبردار غور سے سنو! تم میں سے ہر شخص حاکم ہے۔ اور ہر شخص سےاس کی رعایا کے بارے میں (دنیا میں بھی اور قیامت میں بھی) پوچھا جائے گا ۔پس جو لوگوں کا حاکم ہے(خواہ وہ ملکی سطح کا ہو یا علاقائی سطح کا) اس سے اس کے ماتحت رعایا کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ (اور اگر اس سطح کی قیادت موجود نہیں ہے تو) گھر کا سربراہ مرد ہے اور اس سے اس کے گھر والوں کے بارے میں سوال ہوگا۔ ایسا ہی عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کے بچوں کی حاکمہ ہے اس سے اس کے بارے میں پوچھا جائے گا۔یہاں تک کہ گھر کا نوکر بھی اپنے آقا کے مال کا نگراں ہے اس سے بھی اس کے بارے میں سوال ہوگا۔ آخری جملہ کے طور پر آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر سے تاکیدا فرمایا کہ سنو تم میں سے ہر شخص حاکم ہے اور ہر ایک سے اس کی رعایا کے بارے میں پوچھا جائے گا۔
 اس حدیث کی روشنی میں یہ بات سمجھ میں آئی کہ دنیا کا ہر مسلمان حاکم ہے اور ذمہ دار شہری ہے ۔اس سے اس کی ذمہ داریوں کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ بس جو مسلمان اپنی ذمہ داریوں کو تلاش کرکے ادا کرتے ہیں یا ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں وہ یقینی طور پر دنیا میں کامیاب مسلمان اورکامیاب شہری ہیں۔ اور جو ذمہ داریوں کو ادا نہیں کرتے بلکہ ہر وقت  صرف اپنے ذاتی  حق کے متلاشی رہتے ہیں یا پھر غیر ذمہ دارانہ حرکت وعمل کے ساتھ من مانی کرتے ہیں جیسا کہ موجودہ دور میں مسلمانوں کی عادت و خصلت اور چلن ہے۔ تو ایسی قوم ،جماعت یا فرد کی تباہی یقینی ہے ۔ مطلق العنان اور خود غرضانہ عمل دنیا کی تباہی کے ساتھ آخرت میں جہنم جانے کا سبب ہے ۔اس تعلق سے یہ حدیث پاک بھی پڑھ لیں۔ حضرت عامر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کو فرماتے ہوئے سنا کہ آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ" اللہ کے قانون (جوقانون فطرت ہے) کو قائم رکھنے والے اور اس کو توڑنے والے کی مثال ایسے لوگوں کی ہے جنہوں نے ایک کشتی کے بارے میں یہ طے کیا کہ کچھ لوگ کشتی کے نچلے حصہ میں رہیں گے اور کچھ لوگ اوپری حصے میں رہیں گے۔ پس جو لوگ نیچے تھے انہیں پانی لینے کے لیے اوپر والوں کے پاس سے گزرنا پڑتا تھا(جو انہیں ناگوار گزرتی تھی ) تو انہوں نے یہ طے کیا کہ کیوں نہ ہم نیچے کے حصہ میں جو ہم لوگوں کا حصہ ہے سوراخ کر لیں تاکہ آسانی سے ہمیں پانی مل جائے اور ان کی ناگواری سے بھی بچ جائیں۔ اب اگر اوپر والے نیچے والوں کو من مانی کرنے دیں گے تو سبھی کشتی والے ہلاک ہو جائیں گے۔ اور اوپر والے نیچے والوں کا ہاتھ پکڑ لیں تو سب بچے رہیں گے۔ (صحیح بخاری حدیث نمبر 24 93)
آج نہ ہمارا کوئی سربراہ ہے اور نہ ہی ہم کسی کو سربراہ ماننے کو تیار ہیں۔ نہ ہمارے درمیان اجتماعیت ہے نہ جماعت ہے  نہ نظم و نسق ہے۔ اس سبب سے ہم دھنی ہوئی روئی کی طرح ہلکے ہو گئے ہیں۔ ہم بھاری بھرکم آندھی طوفانوں سے نہیں بلکہ ہلکے پھلکے سکے اور ہلکی پھلکی پھونک سے ہی ادھر سے ادھر ہو جاتے ہیں۔ ہر دن تباہ بھی ہو رہے ہیں ،قتل بھی کیے جا رہے ہیں، اور ہماری عزت و عصمت بھی لوٹی جا رہی ہے۔
اور اس کے خلاف ہر شخص الگ الگ ڈفلی بجا رہا ہے اور صرف اپنے مفاد کی بات کرتا ہے اور بعض تو اپنے مفاد کے لیے قوم کی عزت و آبرو کا بھی سودا کر لیتے ہیں۔ خود غرضی اور مفاد پرستی مسلمانوں میں اس قدر حاوی ہے کہ اس میں بڑے بڑے صاحب دستار اور دانشوران قوم و ملت سب شامل ہو رہے ہیں۔ جب کہ اجتماعیت اور ایثار و قربانی کے ساتھ جذبہ خیر خواہی یہ وہ صفات تھے جس کی بنیاد پر مسلمانوں نے ایک مختصر مدت میں دنیا کے بہت بڑے حصے پر اسلامی پرچم بلند کیا۔ ہمیں اپنے قائدین کی قیادت کو تسلیم کرنی چاہیے خواہ وہ کمتر ہوں یا برتر۔ اس کی مثال حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا اٹھارہ (١٨) سالہ حضرت اسامہ بن زید کو سپہ سالار بنانا ہے جس لشکر میں اکابیر صحابہ موجود تھے۔ اور جب کچھ لوگوں نے صدیق اکبر سے اس کی شکایت کی تو وہ خود لشکر کو روانہ کرنے کے لیے لشکر گاہ تشریف لے گئے۔ اور حضرت اسامہ کو حکم دیا کہ آپ گھوڑے پر سوار ہو جائیں۔ اور لشکر کی قیادت کریں۔ الحکم فوق الادب کے تحت جب وہ گھوڑے پر سوار  ہو گئے تو حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ آگے بڑھ کر گھوڑے کی لگام تھام لی اور پیدل چلنے لگے۔ اپنے اس عمل سے حضرت صدیق اکبر نے آنے والی امت کے ساتھ ساتھ موجودہ صحابۂ کرام کو بھی درس دیا کہ آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بنایا ہوا سالار بدلا نہ جائے گا۔ بلکہ اس کی عظمت اتنی زیادہ ہے کہ امیر المؤمنین اس کے گھوڑے کی لگام تھام کر خادم کی طرح پیدل چل رہے ہیں۔ یہ منظر دیکھ کر وہ صحابہ کرام جنہیں حضرت اسامہ کے غلام زادہ اور نوجوان ہونے پر اعتراض تھا وہ بھی حضرت اسامہ کے مطیع و فرماں بردار ہو گئے۔ حضرت اسامہ جنگ جیت کر کامیابی کے ساتھ واپس ہوئے۔
مٹایا قیصر و کسریٰ کے استبداد کو کس نے  -  وہ کیا تھا زور حیدر، فقر بو ذر، صدق سلیمانی
 ہم مسلمانوں کے لیے واجب ہے کہ ہم اپنے قائد کی قیادت تسلیم کریں۔ وہیں ہمارے قائدین کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ بھی اپنی قیادت کو تسلیم کرانے کے لیے قائدانہ صلاحیت کا استعمال کریں۔ جیسا کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اپنے فیصلے اور حضرت اسامہ بن زید کی سپہ سالاری کو تسلیم کرانے کے لیے عملی اقدام کیا۔ 
آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم پوری دنیا کے لیے رحمت بن کر تشریف لائے ہیں اور ہمیں بھی یہ درس دیا کہ ہم بھی دنیا کے ہر شخص کے لیے رحمت بن جائیں۔ اور اس کے لیے ایک جملے میں اس کا نسخہ عطا فرمایا کہ" تم میں سے کامل مومن وہ ہے جو اپنے بھائی کیلئے وہی پسند کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے" (بخاری شریف جلد اول صفحہ نمبر 6)
اس حدیث کے پس منظر میں تاریخ صحابہ کا ایک واقعہ پیش ہے۔
ایک صحابی اپنا قیمتی گھوڑا ضرورتا فروخت کر رہے تھے۔ ایک دوسرے صحابی حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ جنہیں گھوڑے کی ضرورت تھی خریدنے کے لیے ان کے پاس گئے اور قیمت دریافت کیا۔ انہیں چونکہ جلدی فروخت کرنی تھی اس لیے کم قیمت پانچ سو (٥٠٠) درہم بتایا۔ خریدنے والے نے گھوڑے پر سواری کر کے اسے آزمایا اور کہا کہ یہ گھوڑا تو زیادہ قیمت کا ہے ،تو اس کا چھ سو درہم لے لے۔ انھوں نے کہا میں راضی ہوں۔ پھر اس نے کہا کہ سات سو درہم لے لو۔ کہا میں اس پہ بھی راضی ہوں۔ اس کے بعد انہوں نے پھر سے کہا کہ دیکھو تمہارے گھوڑے کی صحیح قیمت آٹھ سو(٨٠٠) درہم ہے۔ یہ آٹھ سو درہم لو اور گھوڑا مجھے دے دو۔ انہوں نے درہم وصول کر کے گھوڑا حوالے کردیا۔ گھوڑا لینے کے بعد انھوں نے دریافت فرمایا کہ اے بھائی آپ کا گھوڑا جو آٹھ سو درہم کا تھا،آپ پانچ سو درہم میں کیوں فروخت کر رہے تھے؟ انہوں نے کہا کہ مجھے سخت ضرورت تھی اس لیے مجبورا میں کم قیمت میں  بیچ رہا تھا تاکہ جلد فروخت ہو جائے۔لیکن اب آپ بتائیے کہ آپ کو یہ گھوڑا کم قیمت میں مل رہا تھا تو آپ نے اس کی زیادہ قیمت کیوں ادا کی؟ انھوں نے کہا کہ میری بھی ایک مجبوری تھی۔ دریافت فرمایا وہ کیا؟ انہوں نےجواب دیا کہ میرے آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ "جو تم اپنے لیے پسند کرو اپنے بھائی کے لیے بھی وہی پسند کرو۔" میں چاہتا ہوں کہ مجھے سودااچھا ملے تو میں یہ بھی چاہتا ہوں کہ  میرے بھائی کو صحیح قیمت ملے۔ مجھے اپنے بھائی سے نقد دے کر سودا خریدنا ہے، اس کی مجبوری نہیں! اور کسی کی مجبوری سے فائدہ اٹھانا یہ انسانیت کے خلاف ہے۔ 
سبق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا، شجاعت کا  -  لیا جائے گا تجھ سے کام دنیاکی امامت کا
مسلمانوں کو ایسے ہی قیادت کی ضرورت  ہے۔لیکن اگر قیادت ایسی نہ بھی ہو تب بھی مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ کسی نہ کسی کی قیادت کو تسلیم کریں۔
اب ڈوبنا ہے    بیچ      سمندر میں دیکھنا                 -    گرداب سامنے ہے ،کوئی بادباں نہیں
اب دیکھنا ہے! جاکے ٹھہرتے ہیں ہم کہاں  -گرتے ہی جارہے، جو گرے آسماں سے ہم
محمد شہادت حسین فیضی
9431538584

دعوت و تبلیغ کے اسلامی طریقے

اللہ تعالی فرماتا ہے دعوت دولوگوں کو اپنے رب کے راستے پر چلنے کی حکمت کے ساتھ اور عمدہ نصیحت سے۔اگر دعوت دینے میں بحث و مباحثہ کی نوبت آجائے تو بحث کرنے کے سب سے بہتر طریقہ پہ بحث  کرو۔

اللہ تعالی خوب جانتا ہے کہ کون اس کے راستے سے بھٹک گیا ہے اور وہ خوب جانتا ہے کہ کون لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔(النحل آیت: 125)

یہ آیت کریمہ مبلغ اسلام کے لیے ایک ضابطۂ اخلاق اور جامع اصول ہے کہ ایک داعی کو کیسا ہونا چاہیے اور کس طرح سے دعوت دینی چاہیے۔ اس میں پانچ باتیں ہیں:

(1) "اپنے رب تعالیٰ کی طرف بلاؤ"یعنی دعوت خالصتا اللہ تعالی کے لیےہو۔ اپنی ذات کے لیے،اپنی برادری کے لیے اپنی جماعت یا جتھا کے لیے نہ ہو۔ اپنی جمعیت بڑھانے اور دکھانے کے لیے نہ ہو۔

(2) "حکمت کے ساتھ دعوت دو" یعنی اپنے مخاطب کے مطابق دعوت دو کہ اگر مخاطب تعلیم یافتہ ہے تو اس کے عقل و فہم اور معیار  ذوق و شوق کے اعتبار سے ان سے گفتگو کرو۔ دلائل و امتثال بھی ان کی حیثیت کے مطابق ہو۔ اگر وہ سوال کریں یا دانستہ تمہاری بات کاٹ کر جبر و اکراہ یا نہ شائستہ جملوں کے ساتھ طنز و مزاح کرنا چاہتے ہوں، تب بھی ان کی بات خاموشی سے سن کر حسن اخلاق کے ساتھ اور موقع و محل کی نزاکت کے اعتبار سے دعوت کا آغاز کرو۔ فتح مکہ کے موقع پر آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی آیت کریمہ پر عمل کرتے ہوئے اہل مکہ کے مزاج کے مطابق اپنی حکمت عملی کو پیش کیا۔ مختصرا فتح مکہ کا روداد پڑھ لیں۔

مکہ مکرمہ عالم عرب کا مرکز تھا۔ اور اہل مکہ عرب کے سردار تھے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان نبوت کے بعد تیرہ سال تک ان کے درمیان دین کی تبلیغ کی۔ جس میں صرف سو سوا سو لوگ ہی مسلمان ہوئے اور اس کے بدلے میں ان پر اتنا ظلم ہوا کہ انہیں ہجرت کر کے مدینہ طیبہ آنا پڑا۔اور صرف آٹھ سال کے بعد جب پھر آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل مکہ کو دین کی دعوت دینی چاہی تو درج ذیل پانچ حکمتوں کے ساتھ اہل مکہ کے سامنے حاضر ہوئے۔

*اہل مکہ کو جنگ کی تیاری کی مہلت نہ دینے کی غرض سے اس رازداری کے ساتھ 10 رمضان 8 ہجری مطابق یکم جنوری 630 عیسوی کو مدینہ سے روانہ ہوئے کہ اہل مدینہ کو بھی معلوم نہ تھا کہ وہ کہاں جا رہے ہیں۔

* "مرالظہران"  پہنچ کر جب لوگ خیمہ زن ہوئے تو آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ہر شخص الگ الگ آگ جلا کر کھانا بنائے۔ مقصد تھا کہ جب دس ہزار جگہ آگ جلے گی تو کثرت کا مظاہرہ ہوگا۔ تاکہ اہل مکہ مقابلے کے بارے میں سوچیں بھی نہیں۔

* ابوسفیان، حکیم اور بدیل ان تینوں نے جب یہ منظر دیکھا تو کانپ گئے۔ پھر یہ تینوں مسلمان پہرے داروں کے ذریعہ گرفتار کیے گیےاور حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی پناہ میں آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیے گئے۔ انہوں نے کلمہ پڑھ کر اسلام قبول کر لیا تو آپ نے فرمایاکہ مکہ جا کر اعلان کر دیں کہ جو لوگ اپنے گھر کا دروازہ بند کرکے اپنے گھر میں رہیں گے یا حرم میں ہونگے یا ابو سفیان کے گھر میں پناہ لیں گے۔ ان سب کو پناہ دی جاتی ہے۔

* حضرت عباس کو حکم دیا کہ مکہ جانے سے پہلے ان تینوں کو فلاں درّہ (Mountain Pass) کے پاس لے جائیں جہاں ایک ایک کرکے فوج گزرے گی یہ منظر بھی انہیں دکھا دیں تاکہ اہل مکہ کو مسلمانوں کی طاقت کے بارے میں یہ لوگ اپنا مشاہدہ بتا سکیں۔

* حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی فوج کو حکم دیا کہ جب تک کوئی شخص تم پر جان لیوا حملہ نہ کرے کسی سے کوئی تعرض نہ کرنا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح اپنی حکمت بالغہ سے جنگ و جدال اور قتل و غارت گری اور شکست و فتح کو دعوت دین میں تبدیل کر دیا اور تمام اہل مکہ کو حرم میں جمع کر کے یہ اعلان فرمایا کہ میں تمہارے ساتھ وہی سلوک کرتا ہوں جو میرے بھائی یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں کے ساتھ کیا تھا تو سوائے چند لوگوں کے پورا مکہ داخل اسلام ہو گیا۔

(3) "مواعظ حسنہ" اس وعظ و نصیحت کو کہتے ہیں کہ خیر و فلاح کی دعوت اس خوش اسلوبی سے دیا جائے کہ پتھر دل انسان بھی موم کی طرح نرم ہو جائے۔ اور دعوت کا یہ طریقہ عام مسلمانوں کے لیے ہے جس میں کم علم اور بے علم سب شامل ہیں۔ انہیں للہیت، خلوص اور شفقت و محبت کے ساتھ  پر اثر انداز میں خطاب کرنا چاہیے کہ ان کا ذوق واشتیاق بیدار ہو جائے۔ آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خطبات اس کی بہترین مثال ہیں۔ اور اسلاف کی تقریریں بھی ہمارے لیے نمونہ ہیں۔

(4) ایسے لوگوں تک دین کی دعوت پہنچانا جو ضدی اور بحث و تکرار والے ہیں یا وہ لوگ خود کسی مذہب کے مبلغ ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ جو لوگ مبلغ ہوتے ہیں وہ تربیت یافتہ ہوتے ہیں۔ ان کے پاس دیگر مذاہب کے تعلق سے معلومات بھی ہوتی ہیں۔ ایسی صورت میں بحث و مباحثہ ناگزیر ہے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ اگر دین کی دعوت دینے میں بحث کی نوبت آجائے تو راہ فرار اختیار نہ کرو اور نہ ہی اسلام کو کمزور ظاہر کرو۔ بلکہ انتہائی سنجیدگی اور صبر و تحمل کے ساتھ انکی باتیں غور سے سنو۔ اور جو ان کا انداز بیاں ہو اس سے بہتر انداز میں اس کا جواب دو۔ وہ تمہیں ہزار غصہ دلائیں لیکن آپ غصہ میں نہ آئیں۔ بلکہ ہر مرتبہ خوش اسلوبی کے ساتھ جواب دیں۔ اگر وہ شدت کریں تو آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم سلم کے واقعۂ طائف کی سنت کو ادا کریں۔ پھر بھی ان کی بھلائی کی ہی بات کریں۔ بے شک اسلام کی یہ وہ طاقت ہے جس نے ملکوں کو توبعد میں فتح کیا دلوں کو پہلے فتح کیاہے۔ کہ اس نے طاقت سے زیر نہیں کیا بلکہ خود نرم و ملائم ہو کر ظالم و جابر کو بھی نرم اور مسخر کرلیا۔ جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ ان کی بہن اور بہنوئی نے کیا۔

(5) "دعوت دین کا کام اس طرح  کرو کہ اس میں تفوق، تفاخراور خود نمائی نہ ہو" بلکہ ساری محنت و مشقت صرف اور صرف اللہ تعالی کی کبریائی اور رضا کے لیے ہو۔ کہ اللہ تعالی خوب جانتا ہے کہ کون بندہ ہدایت یافتہ ہے اور کون گمراہ ہے۔ تمہارے کہنے سے کوئی گمراہ نہ ہو گا اور نہ ہی تمہارے کہنے سے کوئی جنتی و پرہیزگار ہو گا۔ اس لیے تمہیں یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ کون گمراہ ہے اور کون ہدایت یافتہ ہے۔ تمہیں صرف ہدایت کی دعوت دینی ہے۔ ہماری تمام تر کوششوں کا محور صرف اور صرف دعوت ہونی چاہیے۔

*روشنی سب کے لیے*

یہ اور بات کہ آندھی ہمارے بس میں نہیں 

مگر چراغ جلانا تو اختیار میں ہے

آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم امتیازی شان اور خودنمائی سے کس حد تک بچا کرتے تھے۔ کچھ واقعات پیش ہیں۔

 روایت ہے کہ ایک مرتبہ آپ سفر میں تھے آپ نے اپنے صحابہ کو ایک بکری ذبح کرنے کا حکم دیا۔ ایک شخص بولا میں اس کو ذبح کروں گا، دوسرے نے کہا میں اس کی کھال اتاروں گا، تیسرے نے کہا میں اس کو بناؤں گا۔ تو آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں لکڑی لاؤں گا۔ صحابہ نے عرض کیا یارسول اللہ! ہم لوگ یہ سب کام کر لیں گے۔آپ کو کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا: "میں جانتا ہوں کے تم لوگ کر لو گے، مگر میں امتیاز کو پسند نہیں کرتا۔ اللہ تعالی کوبھی یہ پسند نہیں کہ اس کا کوئی بندہ اپنے ساتھیوں کے درمیان امتیازی شان و شوکت کے ساتھ رہے"۔یہ عمل آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا جبکہ صحابہ کی عقیدت و محبت جو ان سے تھی اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔

 حضورصلی اللہ علیہ وسلم اسلامی سلطنت کے حاکم مطلق تھے۔ آپ کی زبان مبارک سے نکلی ہوئی بات قانون الہی کا درجہ رکھتی تھی۔

*صلح حدیبیہ کے موقع پر عروہ بن سعود قریش مکہ کے سفیر بن کر تشریف لائے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ جب آپ وضو کرتے ہیں تو لوگ دوڑ پڑتے ہیں کہ آپ کا غسالہ زمین پر گرنے سے پہلے ہاتھ میں لے لیں اور بطور تبرک سر آنکھوں پہ ملیں۔ *شان رسالت مآب میں ادب کا یہ حال تھا کہ لوگ ملاقات کے لیے ناخن سے آپ کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹاتے یا بیٹھ جاتے اور جب خودآقاکریم باہر تشریف لاتےتو شرف یاب ہوتے۔

*حنین اور احد میں جب کفار نے تیروں سے حملہ کیا تو کچھ صحابۂ کرام نے حضور کو اپنے گھیرے میں میں لے لیا۔ اور تیروں کو اپنے ہاتھ اور جسم سے اس طرح روکتے تھے کہ گویا وہ انسان نہیں لکڑی کے ہیں۔ 

*اکثر صحابہ سے یہ حدیث مروی ہے کہ ہم ادبا آقا کو نظر اٹھا کر نہیں دیکھتے تھے۔

 آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان و عظمت بہت بلند و بالا تھی لیکن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود کو بلند و بالا بنا کر پیش نہیں کیا بلکہ خود کو ایک داعی کی حیثیت سے پیش کیا اور ہمارے لیے نمونہ یہ دیا کہ داعی کو ازخودامتیازپسند نہیں ہونا چاہیے۔

*اہل مدینہ اپنی معلومات کے مطابق حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے استقبال کے لیے مدینہ سے باہر ہوکر شاہراہ مکہ کی جانب آگے بڑھ کر دو دن سے انتظار کر کے واپس جا چکے تھے۔ تیسرے دن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت صدیق اکبر کے ساتھ بالکل مساویانہ حیثیت سے تشریف فرما ہوئے تو اہل مدینہ جنہوں نے حضور کو دیکھا نہیں تھا وہ صدیق اکبر کی طرف پہلے متوجہ ہوتے تھے۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ اس وقت میری عمر 9 سال کی تھی۔ یوں معلوم ہوتا تھا کہ ہمارے در و دیوار حضور کے رخ زیبا سے چمک رہے ہیں، جیسے کہ سورج طلوع ہو گیا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق حضور کے ہم عمر تھے دونوں میں بہت کم فرق تھا اہل مدینہ چونکہ حضور کو دیکھے نہ تھے اس لیے پہچاننے میں دقت ہو رہی تھی۔ چند لمحوں میں ہی زائرین کی بھیڑ لگ گئی۔ صدیق اکبر لوگوں کی اس پریشانی کو سمجھ گئے تو وہ اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنی چادر تان کر حضور اکرم پر سایہ کر دیا۔ تب لوگوں کو معلوم ہوا کہ خادم کون ہیں اور مخدوم کون ہے۔

*خاک کے‌زروں کو ہمدوش ثریا کردیا*

 حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عملی تربیت کا اثر صحابۂ کرام کی زندگی میں نمایاں طور پر نظر آتا ہے اور خلفائے راشدین تو اس کے صف اول میں ہیں۔

*حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کو جب یہ معلوم ہوا کہ کچھ اکابر صحابہ کو حضرت اسامہ بن زید کی سپہ سالاری پر اعتراض ہے تو آپ نے مناظرانہ طریقہ نہیں اپنایا۔ بلکہ داعیانہ اور قائدانہ کردار اپنا یا۔ وہ اس طرح کے آپ رضی اللہ عںہ خود لشکر کو روانہ کرنے کے لیے لشکر گاہ تشریف لے گئے اور حضرت اسامہ کو حکم دیا کہ آپ گھوڑے پر سوار ہو جائیں۔ الحکم فوق الادب کے تحت وہ گھوڑے پر سوار ہو گئے تو حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے آگے بڑھ کر ان کے گھوڑے کی لگام تھام لی اور پیدل چلنے لگے۔ اپنے اس عمل سے صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے وہاں موجود صحابہ کرام کے ساتھ آنے والی امت کے لیے ایک نمونہ قائم کر دیا کہ آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بنایا ہوا سپاہ سالار بدلہ نہ جائے گا۔ اور نہ ہی وہ لشکر رد کی جائے گی جس کو آقا کریم نے روانہ فرما تھا۔ 

یہ منظر دیکھ کر جن صحابہ کرام کو حضرت اسامہ کی سپہ سالاری پر اعتراض تھا انہوں نے خود سے ہی اپنی اصلاح کر لی۔ اور ایک غلام زادے کی سربراہی میں اکابر صحابہ بھی ایک عام سپاہی کی طرح شریک کار رہے۔ حکمت کے ساتھ اسلام کی دعوت دینے کا یہ عملی طریقہ ہے۔

*بیت المقدس کے فاتح اول حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ہیں۔ انہوں نے بھی بیت المقدس کو فتح کرنے کے لیے دینی دعوت کا عملی مظاہرہ کیا۔ آپ رضی اللہ عنہ جس قوم سے مصالحت کی باتیں کرنے جارہے تھے ان کے یہاں ایک چھوٹا سا افسر بھی دس پہرے داروں کے درمیان رہتا ہے۔ کیونکہ انہیں اللہ تعالی کے مقابلے بندوں سے زیادہ خوف ہے۔ جب کہ مومن کامل اللہ تعالی سے اتنا زیادہ ڈرتا ہے کہ دنیا کی ہر طاقت سے وہ بے خوف ہو جاتا ہے۔ فاروق اعظم سے لوگوں نے کہا کہ دنیاوی عظمت و شان کے ساتھ تشریف لے جائیں۔ انہوں نے لاحول پڑھا اور فرمایا کہ ہمارے لیے دین اسلام کی عظمت ہی کافی ہے۔ چنانچہ روز مرہ کے معمولی استعمال کے پیوند لگے کپڑے اور صرف ایک خادم اور ایک اونٹ کے ساتھ اس طرح سفر کرتے ہوئے بیت المقدس پہنچے کہ ایک میل فاروق اعظم اونٹ پر سوار ہوتے اور پھر ایک میل ان کا خادم اونٹ پر سوار ہوتااور وہ پیدل چلتے۔ فاروق اعظم کی شکل میں اس حقیقی دین اسلام کو دیکھ کر ہی بغیر کسی مزاحمت کے بیت المقدس کی کنجی ان کے حوالے کردی گئی۔

*غزوہ بدر میں 313 مسلمانوں کے لیے ایک گھوڑا اور 80 اونٹ تھے تھے۔ انہیں اونٹوں پہ باری باری سے تین سے چار آدمی سفر کر رہے تھے۔ آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھ حضرت علی اور مرثدابن ابو مرثد کو رکھ لیا تھا۔ یہ دونوں آقا کریم سے عرض کرتے کہ آپ ہی سوار رہیں۔ ہمیں حضور کی اونٹنی کی لگام پکڑنے کا موقع مل گیا ہے یہی ہماری خوش بختی ہے۔ جواب میں محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے "تم دونوں مجھ سے زیادہ طاقتور بھی نہیں ہو اور نہ ہی ایسا ہے کہ تم دونوں کو مجھ سے ثواب کی زیادہ ضرورت ہے۔ طلب نیکی اور طاقت میں جب ہم سب برابر ہیں تو سب کو برابر موقع ملنا چاہیے"۔ 

کیا مساوات کی دعوت اس سے بہتر طریقے سے دی جاسکتی ہے؟

*میدان محشر میں اکثر لوگ حقوق العباد میں ہی پکڑے جائیں گے اس کی اہمیت کو پیش کرنے اور اس سے بچنے کی دعوت دینے کے لیے آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حیات ظاہری کے آخری ایام میں تمام صحابہ کرام کو مسجد نبوی میں جمع ہونے کا حکم دیا۔ جب سب جمع ہوگئے تو حضرت علی اور ابن عباس کے سہارے ممبر پر تشریف فرما ہوئے۔ اور حقوق العباد کی اہمیت پر گفتگو کی۔ اور اس کا عملی مظاہرہ کرنے کے لیے اعلان فرمایا کہ: "میں طویل مدت تک تمہارے درمیان رہا ہوں اور اگر مجھ پہ کسی کا قرض ہو یا مجھ سے کسی پہ کوئی زیادتی ہوئی ہو، تو آج ہی طلب کر لو"۔  ایک شخص نے ایک قرض کی یاد دہانی کرائی تو حضرت ابن عباس کو اسے ادا کرنے کا حکم دیا۔ اور حضرت عکاشہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض گزار ہوئے کہ یارسول اللہ فلاں موقعے پر آپ کے کوڑے سے میری پیٹھ میں چوٹ لگی تھی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کوڑا منگوایااور چادر کو پیٹھ سے اتار دی اور فرمایا کہ آگے بڑھو اور بدلہ لے لو۔ وہ آگے بڑھے اور مہر نبوت کو چوم کر قدموں پہ گر پڑے۔ اور عرض کی یارسول اللہ مجھے بدلہ مل گیا۔

 اگر مسلمان ماضی کی طرح روشن مستقبل کے خواہاں ہیں توانہیں ماضی کے اسلامی اخلاق و آداب کے ساتھ دعوت و تبلیغ کے طریقے اور اسلوب بھی ماضی سے سیکھنے ہوں گے۔

محمد شہادت حسین فیضی 

9431538584



Featured Post

*زحمت، رحمت اور فطرت* حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی جس کی بھلائی چاہتا ہے اس...