اللہ تعالی فرماتا ہے دعوت دولوگوں کو اپنے رب کے راستے پر چلنے کی حکمت کے ساتھ اور عمدہ نصیحت سے۔اگر دعوت دینے میں بحث و مباحثہ کی نوبت آجائے تو بحث کرنے کے سب سے بہتر طریقہ پہ بحث کرو۔
اللہ تعالی خوب جانتا ہے کہ کون اس کے راستے سے بھٹک گیا ہے اور وہ خوب جانتا ہے کہ کون لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔(النحل آیت: 125)
یہ آیت کریمہ مبلغ اسلام کے لیے ایک ضابطۂ اخلاق اور جامع اصول ہے کہ ایک داعی کو کیسا ہونا چاہیے اور کس طرح سے دعوت دینی چاہیے۔ اس میں پانچ باتیں ہیں:
(1) "اپنے رب تعالیٰ کی طرف بلاؤ"یعنی دعوت خالصتا اللہ تعالی کے لیےہو۔ اپنی ذات کے لیے،اپنی برادری کے لیے اپنی جماعت یا جتھا کے لیے نہ ہو۔ اپنی جمعیت بڑھانے اور دکھانے کے لیے نہ ہو۔
(2) "حکمت کے ساتھ دعوت دو" یعنی اپنے مخاطب کے مطابق دعوت دو کہ اگر مخاطب تعلیم یافتہ ہے تو اس کے عقل و فہم اور معیار ذوق و شوق کے اعتبار سے ان سے گفتگو کرو۔ دلائل و امتثال بھی ان کی حیثیت کے مطابق ہو۔ اگر وہ سوال کریں یا دانستہ تمہاری بات کاٹ کر جبر و اکراہ یا نہ شائستہ جملوں کے ساتھ طنز و مزاح کرنا چاہتے ہوں، تب بھی ان کی بات خاموشی سے سن کر حسن اخلاق کے ساتھ اور موقع و محل کی نزاکت کے اعتبار سے دعوت کا آغاز کرو۔ فتح مکہ کے موقع پر آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی آیت کریمہ پر عمل کرتے ہوئے اہل مکہ کے مزاج کے مطابق اپنی حکمت عملی کو پیش کیا۔ مختصرا فتح مکہ کا روداد پڑھ لیں۔
مکہ مکرمہ عالم عرب کا مرکز تھا۔ اور اہل مکہ عرب کے سردار تھے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان نبوت کے بعد تیرہ سال تک ان کے درمیان دین کی تبلیغ کی۔ جس میں صرف سو سوا سو لوگ ہی مسلمان ہوئے اور اس کے بدلے میں ان پر اتنا ظلم ہوا کہ انہیں ہجرت کر کے مدینہ طیبہ آنا پڑا۔اور صرف آٹھ سال کے بعد جب پھر آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل مکہ کو دین کی دعوت دینی چاہی تو درج ذیل پانچ حکمتوں کے ساتھ اہل مکہ کے سامنے حاضر ہوئے۔
*اہل مکہ کو جنگ کی تیاری کی مہلت نہ دینے کی غرض سے اس رازداری کے ساتھ 10 رمضان 8 ہجری مطابق یکم جنوری 630 عیسوی کو مدینہ سے روانہ ہوئے کہ اہل مدینہ کو بھی معلوم نہ تھا کہ وہ کہاں جا رہے ہیں۔
* "مرالظہران" پہنچ کر جب لوگ خیمہ زن ہوئے تو آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ہر شخص الگ الگ آگ جلا کر کھانا بنائے۔ مقصد تھا کہ جب دس ہزار جگہ آگ جلے گی تو کثرت کا مظاہرہ ہوگا۔ تاکہ اہل مکہ مقابلے کے بارے میں سوچیں بھی نہیں۔
* ابوسفیان، حکیم اور بدیل ان تینوں نے جب یہ منظر دیکھا تو کانپ گئے۔ پھر یہ تینوں مسلمان پہرے داروں کے ذریعہ گرفتار کیے گیےاور حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی پناہ میں آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیے گئے۔ انہوں نے کلمہ پڑھ کر اسلام قبول کر لیا تو آپ نے فرمایاکہ مکہ جا کر اعلان کر دیں کہ جو لوگ اپنے گھر کا دروازہ بند کرکے اپنے گھر میں رہیں گے یا حرم میں ہونگے یا ابو سفیان کے گھر میں پناہ لیں گے۔ ان سب کو پناہ دی جاتی ہے۔
* حضرت عباس کو حکم دیا کہ مکہ جانے سے پہلے ان تینوں کو فلاں درّہ (Mountain Pass) کے پاس لے جائیں جہاں ایک ایک کرکے فوج گزرے گی یہ منظر بھی انہیں دکھا دیں تاکہ اہل مکہ کو مسلمانوں کی طاقت کے بارے میں یہ لوگ اپنا مشاہدہ بتا سکیں۔
* حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی فوج کو حکم دیا کہ جب تک کوئی شخص تم پر جان لیوا حملہ نہ کرے کسی سے کوئی تعرض نہ کرنا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح اپنی حکمت بالغہ سے جنگ و جدال اور قتل و غارت گری اور شکست و فتح کو دعوت دین میں تبدیل کر دیا اور تمام اہل مکہ کو حرم میں جمع کر کے یہ اعلان فرمایا کہ میں تمہارے ساتھ وہی سلوک کرتا ہوں جو میرے بھائی یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں کے ساتھ کیا تھا تو سوائے چند لوگوں کے پورا مکہ داخل اسلام ہو گیا۔
(3) "مواعظ حسنہ" اس وعظ و نصیحت کو کہتے ہیں کہ خیر و فلاح کی دعوت اس خوش اسلوبی سے دیا جائے کہ پتھر دل انسان بھی موم کی طرح نرم ہو جائے۔ اور دعوت کا یہ طریقہ عام مسلمانوں کے لیے ہے جس میں کم علم اور بے علم سب شامل ہیں۔ انہیں للہیت، خلوص اور شفقت و محبت کے ساتھ پر اثر انداز میں خطاب کرنا چاہیے کہ ان کا ذوق واشتیاق بیدار ہو جائے۔ آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خطبات اس کی بہترین مثال ہیں۔ اور اسلاف کی تقریریں بھی ہمارے لیے نمونہ ہیں۔
(4) ایسے لوگوں تک دین کی دعوت پہنچانا جو ضدی اور بحث و تکرار والے ہیں یا وہ لوگ خود کسی مذہب کے مبلغ ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ جو لوگ مبلغ ہوتے ہیں وہ تربیت یافتہ ہوتے ہیں۔ ان کے پاس دیگر مذاہب کے تعلق سے معلومات بھی ہوتی ہیں۔ ایسی صورت میں بحث و مباحثہ ناگزیر ہے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ اگر دین کی دعوت دینے میں بحث کی نوبت آجائے تو راہ فرار اختیار نہ کرو اور نہ ہی اسلام کو کمزور ظاہر کرو۔ بلکہ انتہائی سنجیدگی اور صبر و تحمل کے ساتھ انکی باتیں غور سے سنو۔ اور جو ان کا انداز بیاں ہو اس سے بہتر انداز میں اس کا جواب دو۔ وہ تمہیں ہزار غصہ دلائیں لیکن آپ غصہ میں نہ آئیں۔ بلکہ ہر مرتبہ خوش اسلوبی کے ساتھ جواب دیں۔ اگر وہ شدت کریں تو آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم سلم کے واقعۂ طائف کی سنت کو ادا کریں۔ پھر بھی ان کی بھلائی کی ہی بات کریں۔ بے شک اسلام کی یہ وہ طاقت ہے جس نے ملکوں کو توبعد میں فتح کیا دلوں کو پہلے فتح کیاہے۔ کہ اس نے طاقت سے زیر نہیں کیا بلکہ خود نرم و ملائم ہو کر ظالم و جابر کو بھی نرم اور مسخر کرلیا۔ جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ ان کی بہن اور بہنوئی نے کیا۔
(5) "دعوت دین کا کام اس طرح کرو کہ اس میں تفوق، تفاخراور خود نمائی نہ ہو" بلکہ ساری محنت و مشقت صرف اور صرف اللہ تعالی کی کبریائی اور رضا کے لیے ہو۔ کہ اللہ تعالی خوب جانتا ہے کہ کون بندہ ہدایت یافتہ ہے اور کون گمراہ ہے۔ تمہارے کہنے سے کوئی گمراہ نہ ہو گا اور نہ ہی تمہارے کہنے سے کوئی جنتی و پرہیزگار ہو گا۔ اس لیے تمہیں یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ کون گمراہ ہے اور کون ہدایت یافتہ ہے۔ تمہیں صرف ہدایت کی دعوت دینی ہے۔ ہماری تمام تر کوششوں کا محور صرف اور صرف دعوت ہونی چاہیے۔
*روشنی سب کے لیے*
یہ اور بات کہ آندھی ہمارے بس میں نہیں
مگر چراغ جلانا تو اختیار میں ہے
آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم امتیازی شان اور خودنمائی سے کس حد تک بچا کرتے تھے۔ کچھ واقعات پیش ہیں۔
روایت ہے کہ ایک مرتبہ آپ سفر میں تھے آپ نے اپنے صحابہ کو ایک بکری ذبح کرنے کا حکم دیا۔ ایک شخص بولا میں اس کو ذبح کروں گا، دوسرے نے کہا میں اس کی کھال اتاروں گا، تیسرے نے کہا میں اس کو بناؤں گا۔ تو آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں لکڑی لاؤں گا۔ صحابہ نے عرض کیا یارسول اللہ! ہم لوگ یہ سب کام کر لیں گے۔آپ کو کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا: "میں جانتا ہوں کے تم لوگ کر لو گے، مگر میں امتیاز کو پسند نہیں کرتا۔ اللہ تعالی کوبھی یہ پسند نہیں کہ اس کا کوئی بندہ اپنے ساتھیوں کے درمیان امتیازی شان و شوکت کے ساتھ رہے"۔یہ عمل آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا جبکہ صحابہ کی عقیدت و محبت جو ان سے تھی اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔
حضورصلی اللہ علیہ وسلم اسلامی سلطنت کے حاکم مطلق تھے۔ آپ کی زبان مبارک سے نکلی ہوئی بات قانون الہی کا درجہ رکھتی تھی۔
*صلح حدیبیہ کے موقع پر عروہ بن سعود قریش مکہ کے سفیر بن کر تشریف لائے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ جب آپ وضو کرتے ہیں تو لوگ دوڑ پڑتے ہیں کہ آپ کا غسالہ زمین پر گرنے سے پہلے ہاتھ میں لے لیں اور بطور تبرک سر آنکھوں پہ ملیں۔ *شان رسالت مآب میں ادب کا یہ حال تھا کہ لوگ ملاقات کے لیے ناخن سے آپ کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹاتے یا بیٹھ جاتے اور جب خودآقاکریم باہر تشریف لاتےتو شرف یاب ہوتے۔
*حنین اور احد میں جب کفار نے تیروں سے حملہ کیا تو کچھ صحابۂ کرام نے حضور کو اپنے گھیرے میں میں لے لیا۔ اور تیروں کو اپنے ہاتھ اور جسم سے اس طرح روکتے تھے کہ گویا وہ انسان نہیں لکڑی کے ہیں۔
*اکثر صحابہ سے یہ حدیث مروی ہے کہ ہم ادبا آقا کو نظر اٹھا کر نہیں دیکھتے تھے۔
آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان و عظمت بہت بلند و بالا تھی لیکن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود کو بلند و بالا بنا کر پیش نہیں کیا بلکہ خود کو ایک داعی کی حیثیت سے پیش کیا اور ہمارے لیے نمونہ یہ دیا کہ داعی کو ازخودامتیازپسند نہیں ہونا چاہیے۔
*اہل مدینہ اپنی معلومات کے مطابق حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے استقبال کے لیے مدینہ سے باہر ہوکر شاہراہ مکہ کی جانب آگے بڑھ کر دو دن سے انتظار کر کے واپس جا چکے تھے۔ تیسرے دن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت صدیق اکبر کے ساتھ بالکل مساویانہ حیثیت سے تشریف فرما ہوئے تو اہل مدینہ جنہوں نے حضور کو دیکھا نہیں تھا وہ صدیق اکبر کی طرف پہلے متوجہ ہوتے تھے۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ اس وقت میری عمر 9 سال کی تھی۔ یوں معلوم ہوتا تھا کہ ہمارے در و دیوار حضور کے رخ زیبا سے چمک رہے ہیں، جیسے کہ سورج طلوع ہو گیا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق حضور کے ہم عمر تھے دونوں میں بہت کم فرق تھا اہل مدینہ چونکہ حضور کو دیکھے نہ تھے اس لیے پہچاننے میں دقت ہو رہی تھی۔ چند لمحوں میں ہی زائرین کی بھیڑ لگ گئی۔ صدیق اکبر لوگوں کی اس پریشانی کو سمجھ گئے تو وہ اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنی چادر تان کر حضور اکرم پر سایہ کر دیا۔ تب لوگوں کو معلوم ہوا کہ خادم کون ہیں اور مخدوم کون ہے۔
*خاک کےزروں کو ہمدوش ثریا کردیا*
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عملی تربیت کا اثر صحابۂ کرام کی زندگی میں نمایاں طور پر نظر آتا ہے اور خلفائے راشدین تو اس کے صف اول میں ہیں۔
*حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کو جب یہ معلوم ہوا کہ کچھ اکابر صحابہ کو حضرت اسامہ بن زید کی سپہ سالاری پر اعتراض ہے تو آپ نے مناظرانہ طریقہ نہیں اپنایا۔ بلکہ داعیانہ اور قائدانہ کردار اپنا یا۔ وہ اس طرح کے آپ رضی اللہ عںہ خود لشکر کو روانہ کرنے کے لیے لشکر گاہ تشریف لے گئے اور حضرت اسامہ کو حکم دیا کہ آپ گھوڑے پر سوار ہو جائیں۔ الحکم فوق الادب کے تحت وہ گھوڑے پر سوار ہو گئے تو حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے آگے بڑھ کر ان کے گھوڑے کی لگام تھام لی اور پیدل چلنے لگے۔ اپنے اس عمل سے صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے وہاں موجود صحابہ کرام کے ساتھ آنے والی امت کے لیے ایک نمونہ قائم کر دیا کہ آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بنایا ہوا سپاہ سالار بدلہ نہ جائے گا۔ اور نہ ہی وہ لشکر رد کی جائے گی جس کو آقا کریم نے روانہ فرما تھا۔
یہ منظر دیکھ کر جن صحابہ کرام کو حضرت اسامہ کی سپہ سالاری پر اعتراض تھا انہوں نے خود سے ہی اپنی اصلاح کر لی۔ اور ایک غلام زادے کی سربراہی میں اکابر صحابہ بھی ایک عام سپاہی کی طرح شریک کار رہے۔ حکمت کے ساتھ اسلام کی دعوت دینے کا یہ عملی طریقہ ہے۔
*بیت المقدس کے فاتح اول حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ہیں۔ انہوں نے بھی بیت المقدس کو فتح کرنے کے لیے دینی دعوت کا عملی مظاہرہ کیا۔ آپ رضی اللہ عنہ جس قوم سے مصالحت کی باتیں کرنے جارہے تھے ان کے یہاں ایک چھوٹا سا افسر بھی دس پہرے داروں کے درمیان رہتا ہے۔ کیونکہ انہیں اللہ تعالی کے مقابلے بندوں سے زیادہ خوف ہے۔ جب کہ مومن کامل اللہ تعالی سے اتنا زیادہ ڈرتا ہے کہ دنیا کی ہر طاقت سے وہ بے خوف ہو جاتا ہے۔ فاروق اعظم سے لوگوں نے کہا کہ دنیاوی عظمت و شان کے ساتھ تشریف لے جائیں۔ انہوں نے لاحول پڑھا اور فرمایا کہ ہمارے لیے دین اسلام کی عظمت ہی کافی ہے۔ چنانچہ روز مرہ کے معمولی استعمال کے پیوند لگے کپڑے اور صرف ایک خادم اور ایک اونٹ کے ساتھ اس طرح سفر کرتے ہوئے بیت المقدس پہنچے کہ ایک میل فاروق اعظم اونٹ پر سوار ہوتے اور پھر ایک میل ان کا خادم اونٹ پر سوار ہوتااور وہ پیدل چلتے۔ فاروق اعظم کی شکل میں اس حقیقی دین اسلام کو دیکھ کر ہی بغیر کسی مزاحمت کے بیت المقدس کی کنجی ان کے حوالے کردی گئی۔
*غزوہ بدر میں 313 مسلمانوں کے لیے ایک گھوڑا اور 80 اونٹ تھے تھے۔ انہیں اونٹوں پہ باری باری سے تین سے چار آدمی سفر کر رہے تھے۔ آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھ حضرت علی اور مرثدابن ابو مرثد کو رکھ لیا تھا۔ یہ دونوں آقا کریم سے عرض کرتے کہ آپ ہی سوار رہیں۔ ہمیں حضور کی اونٹنی کی لگام پکڑنے کا موقع مل گیا ہے یہی ہماری خوش بختی ہے۔ جواب میں محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے "تم دونوں مجھ سے زیادہ طاقتور بھی نہیں ہو اور نہ ہی ایسا ہے کہ تم دونوں کو مجھ سے ثواب کی زیادہ ضرورت ہے۔ طلب نیکی اور طاقت میں جب ہم سب برابر ہیں تو سب کو برابر موقع ملنا چاہیے"۔
کیا مساوات کی دعوت اس سے بہتر طریقے سے دی جاسکتی ہے؟
*میدان محشر میں اکثر لوگ حقوق العباد میں ہی پکڑے جائیں گے اس کی اہمیت کو پیش کرنے اور اس سے بچنے کی دعوت دینے کے لیے آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حیات ظاہری کے آخری ایام میں تمام صحابہ کرام کو مسجد نبوی میں جمع ہونے کا حکم دیا۔ جب سب جمع ہوگئے تو حضرت علی اور ابن عباس کے سہارے ممبر پر تشریف فرما ہوئے۔ اور حقوق العباد کی اہمیت پر گفتگو کی۔ اور اس کا عملی مظاہرہ کرنے کے لیے اعلان فرمایا کہ: "میں طویل مدت تک تمہارے درمیان رہا ہوں اور اگر مجھ پہ کسی کا قرض ہو یا مجھ سے کسی پہ کوئی زیادتی ہوئی ہو، تو آج ہی طلب کر لو"۔ ایک شخص نے ایک قرض کی یاد دہانی کرائی تو حضرت ابن عباس کو اسے ادا کرنے کا حکم دیا۔ اور حضرت عکاشہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض گزار ہوئے کہ یارسول اللہ فلاں موقعے پر آپ کے کوڑے سے میری پیٹھ میں چوٹ لگی تھی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کوڑا منگوایااور چادر کو پیٹھ سے اتار دی اور فرمایا کہ آگے بڑھو اور بدلہ لے لو۔ وہ آگے بڑھے اور مہر نبوت کو چوم کر قدموں پہ گر پڑے۔ اور عرض کی یارسول اللہ مجھے بدلہ مل گیا۔
اگر مسلمان ماضی کی طرح روشن مستقبل کے خواہاں ہیں توانہیں ماضی کے اسلامی اخلاق و آداب کے ساتھ دعوت و تبلیغ کے طریقے اور اسلوب بھی ماضی سے سیکھنے ہوں گے۔
محمد شہادت حسین فیضی
9431538584
No comments:
Post a Comment