Wednesday, December 30, 2020

قرآن_کا_حکم_ہے_سائنس_پڑھو




وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر

 اورہم خوار ہوئے تارک قرآن ہوکر
ہم مسلمان ہیں اور ہم نے قرآن کو بھی نہیں چھوڑا ہے۔ اس کے بعد بھی  ہم ذلیل و خوار ہیں؟ اس کی وجہ کیاہے؟کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم صرف نام کے مسلمان ہیں؟ اور رسمی طور پر قرآن سے منسلک ہیں؟ یا اس کا معنیٰ یہ ہوا کہ ہم نے مسلمان ہونے اور قرآن نہ چھوڑنے کا صحیح مفہوم نہیں سمجھا ہے؟۔ آئیے ہم اسے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
قرآن و حدیث میں مسلمانوں کے متعدد طبقات کا ذکر ہے۔ مثلا مسلمان، مومن، محسن، متقی،صالح، قانع اور صابرو شاکر وغیرہ۔ لیکن ہم یہاں صرف مسلمانوں کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔ جس کی جانب علامہ اقبال نے مذکورہ شعر میں اشارہ کیا ہے کہ کس طرح کے مسلمان گزشتہ زمانے میں معزز تھے؟ کیاوہ تارک الدنیا مسلمان تھے؟ مجذوب وپاگل تھے، پیادہ پا، گدڑی پوش، ملنگ، ملیچھ، خاک آلود، خاک نشیں، ٹاٹ پوش، نیم برہنہ، اور نیم پاگل، وغیرہ تھے؟ یا وہ مسلمان معزز تھے جنہوں نے دنیا کو فتح کیا۔ جاہ و حشم کے ساتھ دنیا پر حکومت کی، بڑے بڑے شہر بسائے، حفاظت کے لیے قلعے اور آرام کے لیے محلات کی تعمیر کی، خشکی اور تری میں سفری سہولت کے لیے نئے نئے ایجادات کیے، عمدہ اور لذیذ کھانوں کے اسباب پیدا کیے، عمدہ اور آرام دہ لباس کے لیے کارخانے قائم کیے، علاج و معالجہ کے لیے شفاخانہ اور دوا ساز کمپنیاں قائم کیں، سائنس ٹیکنالوجی اور میڈیکل سائنس وغیرہ کے لیے تجربہ گاہیں اور ریسرچ سینٹر بنائے،علمی و تحقیقی ادارے اور یونیورسٹیاں قائم کیں۔ کس طرح کے مسلمانوں کو آپ کامیاب اور معزز سمجھتے ہیں؟ یا ہم کس طرح کے مسلمان بننا چاہتے ہیں؟ اس طرح کے اور بھی سیکڑوں سوالات ہیں،لیکن دو لفظوں میں اگر ہم اپنی‌تنزلی اور مغلوبیت کا راز بتاسکیں تو وہ ہے ہمارا فکری تضاد،کہ ہم بات کرتے‌ہیں‌معزز،محترم،اشرف اور خیرامت کی لیکن روش اپناتے ہیں کاہلی،سستی،بزدلی،قلندری،فقیری اور جاہلیت کی۔
 اصل واقعہ یہ ہے کہ ہم فکری تضاد کا شکار ہوکر ذلیل و خوار ہو رہے ہیں کہ ہم میں سے ہر ایک کی خواہش تو ہے کہ ہمیں شان و شوکت کی زندگی نصیب ہو جو کہ ایک اسلامی‌سوچ بھی  ہے۔ لیکن ہم نے طریقہ اپنا رکھا ہے Dark Age کے رہبانیوں اور پادریوں کا جہاں ہر طرف جہالت اور توہم پرستی کا دور دورہ تھا۔ہم فخرکناں ہیں تارک الدنیا مجذوب اور خاک نشین ہونے پر۔ یعنی تسخیرکائنات کے رموز و معارف اور قدیم و جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کا علم جس سے یہ اعجاز حاصل ہوتا ہے اسے علم دنیا کہہ کر ہم نے مسترد کر دیاہے اور اپنی ساری توانائی ایسے علم و ہنر کے حصول میں صرف کردی جس سے محض مجذوب، خاک نشیں، اورتارک الدنیا ہوا جاسکتا ہے۔
اسلامی تعلیمات اور اس کے انقلابی مزاج‌ کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔اللہ تعالی نے قرآن مقدس میں جو ہمیں تعلیم دی ہے اس میں دنیا و آخرت کی کامیابی اور عزت و حشمت کا حکم ہے۔ میں قرآن مقدس سے تین حوالے پیش کرتا ہوں۔
(1) چنانچہ اللہ تعالی نے  سورہ "البقرہ"کی آیت نمبر 201/ 202  میں مسلمانوں کو جو سب سے بہتر دعا مانگنے کا سلیقہ سکھایا ہے وہ یہ ہے۔ ترجمہ: "مسلمانوں میں سے جو لوگ یہ دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں اچھی زندگی عطا فرما اور آخرت میں بھی اچھائی عطا فرما اور ہمیں دوزخ کی آگ سے بچا۔ تو اللہ تعالی وہ سب کچھ دیتا ہے جو وہ مانگتے ہیں یا کماتے ہیں اور اللہ تعالی جلد حساب لینے والا ہے۔"
 اس آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے ہمیں سب سے پہلے اچھی دنیا مانگنے کا حکم دیا ہے اور ظاہر ہے کہ جب ہم اللہ تعالی سے اچھی دنیا مانگیں گے تو اچھی دنیا کے لیے کوشش بھی کریں گے تبھی ہم مومن کامل اور عامل قرآن ہو سکتے ہیں۔ اللہ تعالی فرماتا ہے "تم ہی سر بلند رہو گے شرط ہے کہ مومن رہو."( آیت نمبر139 سورہ آل عمران)
گویا کہ مسلمانوں کا معزز ہوناایمان کے شرائط میں سے ہے اور دنیا کی اچھی زندگی کے لیے جس علم کا حصول ضروری تھا   غلط فہمی سے ہم نے اس کو علم دنیا کہہ کر اس سے دوری اختیار کرلی ہے جسکے نتائج ہمارے سامنے ہیں۔
(2) اللہ تعالی نے غار حرا میں جو پہلی پانچ آیتیں نازل فرمائی تھی وہ سب کے سب علم سے ہی متعلق ہیں۔مفسرین فرماتے ہیں کہ پہلی وحی میں إقرأ یعنی لفظ پڑھ کی تکرار بتاتا ہے کہ قرآن و اسلام کا پہلا مطالبہ ہم سب سے حصول علم کا ہے۔
پہلی وحی کے ابتدائی پانچ آیتوں کا مفہوم سمجھیں؛
(١) پڑھو اپنے رب کے نام سے جس نے ساری کائنات کی تخلیق فرمائی ہے تمہارے فائدے کے لیے۔ اپنے  رب کے نام سے ان حقائق و خصائل کی معرفت حاصل کرو جو اللہ تعالی نے اس دنیا میں پیدا فرمایا ہے،تاکہ تم اس سے مستفیض ہو سکو،اور دنیا تمہارے لیے مسخر ہو جائے۔ (٢) پڑھو عناصر اربعہ کے بارے میں جو خون کے لوتھڑے کی شکل میں ہے ،جس سے اللہ تعالی نے انسان کو پیدا فرمایا۔سوچو انسان کی تخلیق کی ابتدا کیسے ہوتی ہے؟ اوراس کی نشونما اور انتہا کیسے ہوتی ہے۔ اس کے تراکیب وحقائق کی معرفت حاصل کرو تاکہ صحت مند رہ سکو اور اللہ کی ربوبیت،خلاقیت اور صانع ازل کی نازک اور پیچیدہ ترین صنعت یعنی جسم انسانی پر غور و فکر کرکے اپنے معبود حقیقی پر ایمان پختہ کر سکو۔ (٣) پڑھو اس رب کے نام  سے جو بڑا ہی کریم ہے کہ اس سے زیادہ کرم والا اور کوئی نہیں ہے، یعنی جو بھی پڑھو اس کے کرم کی بھیک سمجھ کر‌ پڑھو،علم کا دائرہ حلت و حرمت کے دائرے سے تجاوز نہ کرے، حصول علم میں دامن اسلام اور منہج خداوندی چھوٹنے نہ پائے، کبھی علم کا غرور نہ ہونے پائے،بیشک تمہارا رب بہت ہی کرم فرمانے والا ہے۔
(٤)جس نے علم بالقلم یعنی تحریری علم حاصل کرنے کا حکم دیاہے(جن میں سب سے قیمتی قرآن مقدس ہے ،جس میں  کائنات کی ہر چیز کا روشن بیان ہے۔قلمی تحریر یہ اللہ کی بہت عظیم‌ نعمت ہے۔اس نعمت کے بعد ہم اپنی تحقیق کو لکھنے اور دوسروں کی ریسرچ کو پڑھنے کے قابل ہوے۔)
(٥) اے انسان تو اللہ تعالی کا شکر ادا کرو کہ اس نے تمہارے اندر ایسی صلاحیت رکھی ہے کہ تم معلومات کی ترتیب سے مجہولات کو معلوم کر سکتے ہو۔تم دنیا کے بارے میں جو کچھ نہیں جانتے ہو جاننے کی کوشش کرو۔ جان جاؤ کہ یہ دنیا تمہارے فائدے کے لیے ہے اور اس دنیا سے فائدہ تم تبھی اٹھا سکتے ہو جب تمہارے پاس اس کے رموز و حقائق کا علم ہوگا اس لیے اللہ تعالی نے تمہیں وہ علم دیا ہے جو تم نہیں جانتے تھے۔
(آیت نمبر 1 تا 5/ سورہ علق پارہ /30)
ان پانچ آیتوں کی شکل میں اللہ کا سب سے پہلا حکم جو مسلمانوں کو دیا گیا وہ خالصتاً وہ علوم ہیں جس کو موجودہ زمانے میں سائنس و ٹیکنالوجی، بائیولوجی، سوشولوجی، میٹرولوجی، کامرس، جغرافیہ وغیرہ وغیرہ کہا جاتا ہے۔ اس لیے کہ جس وقت یہ آیت کریمہ جب نازل ہوئی اس وقت نہ تو نماز، روزہ، حج، زکوۃ، وغیرہ  فرض ہوئی تھی۔ اور نہ ہی شراب، جوا اور بیغیر اللہ کا نام لیے ذبح کئے گئے جانور کا گوشت حرام ہوا تھا۔ یعنی اس وقت اوامر و نواہی کا حکم ہی نہیں آیا تھا،جس کو موجودہ دور میں علم دین کہا جاتا ہے، تو اسے پڑھنے کا حکم کیوں کر دیا جائے گا؟ معلوم ہوا کہ ان پہلی پانچ آیاتوں میں ان علوم کو پڑھنےکا حکم دیا گیا جسے نا سمجھی کی وجہ سے ہم علم دنیا کہہ کر دوری بنائےہوئے ہیں۔ قرآن مقدس کی اس طرح کی آیتوں پر عمل نہ کرنے کو ہی علامہ اقبال نے تارک قرآں سے تعبیر کی ہے۔ یعنی اللہ تعالی کے احکامات کو نہ مان کر ہم دنیا میں ذلیل و خوار ہیں۔ 
 *(3) سورہ البقرہ آیت نمبر 31سے 34تک کا مفھوم* 
آدم علیہ السلام کی پیدائش سے پہلے ہی اللہ تعالی نے ساری کائنات کی تخلیق کے ساتھ ساتھ فرشتوں اور جناتو ں کو بھی پیدا فرما چکا تھا اور ان تمام تخلیقات میں فرشتوں کا مرتبہ سب سے افضل و اعلیٰ تھا۔ اسی لیے فرشتوں نے تخلیق آدم پر اعتراض کیا تھا۔ اور جب اللہ تعالی نے حضرت آدم کی تخلیق فرمائی تو چاہا کے ایک علمی مظاہرہ کے ذریعے فرشتوں پہ یہ واضح کردیا جائے کہ حضرت آدم تم سے افضل و اعلیٰ ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالی نے فرشتوں کو حکم دیا کہ تم اس کائنات عالم کی چیزوں کے نام وخاصیت کو بتاؤ۔ جواب میں فرشتوں نے عرض کی کہ یا رب العالمین ہمیں دنیا اور دنیا کی چیزوں سے کیا مطلب؟ ہم تو بس وہی جانتے ہیں جو تو نے ہمیں بتایا ہے.
ہمیں تو صرف تیری ہی فرماں برداری کرنی ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کو تمام چیزوں کے نام اور اس کی خاصیت بتا دی اور فرشتوں کے سامنے بلا کر حکم دیا کہ اےآدم تم ان چیزوں کے نام اور اس کی خاصیتوں  کو بتاؤ۔ حضرت آدم علیہ السلام نے سب کچھ بتا دیا۔ تواللہ تعالی نے فرشتوں سے فرمایا کہ تم نے دیکھ لیا کہ آدم تم سے افضل و اعلی ہیں۔ اس لیے اب سجدہ تعظیمی کرکے ان کی عظمت کو تسلیم کرو۔ تمام فرشتوں نے حضرت آدم کو سجدہ کر کے ان کی عظمت کو تسلیم لی۔
آدم علیہ السلام پہلےانسان ہیں۔ انہیں اللہ تعالی نے جس چیز کی سب سے پہلے تعلیم دی وہ تعلیم وہی ہے جس کو موجودہ دور میں سائنس و ٹیکنالوجی اور میڈیکل سائنس کہا جاتا ہے ہے۔ گویا انسان اول کو خلاق عالم نے سب سے پہلے سائنس کی تعلیم دی، تسخیر کائنات کا علم دیا اور پھر فرشتوں کے سامنے علمی مظاہرہ کروا کر اور فرشتوں سے سجدہ کروا کر اللہ تعالی نے یہ بتا دیا کہ عظمت، بزرگی، شان و شوکت اور جاہ و حشمت، سطوت و نکبت اور رعب و دبدبہ انہیں علوم سے حاصل ہوگی۔ اور جو ان علوم کو حاصل نہیں کریں گے اور یہ کہیں گے کہ ہمیں دنیا سے کیا مطلب ہمیں تو صرف آخرت چاہیے ایسے لوگوں کو ذلیل و خوار ہونا ہوگا، دوسروں کے سامنے جھکنا ہوگا، کیونکہ علم سائنس سے رو گردانی کرنا  یہ قرآن کے بھی خلاف ہے اور آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات عالیہ کے بھی خلاف ہے اور شان مؤمن کے بھی خلاف ہے۔
 *خلاف پیغمبر کسے راہ گزید 
ہرگز بمنزل نہ خواہد رسید* 
قرآن و حدیث پہ ہزاروں یونیورسٹیوں میں لاکھوں اسکالرس ریسرچ کر رہے ہیں، تحقیقی مقالہ لکھ رہے ہیں۔ لیکن اس کا موضوع ہے فرض، واجب سنت، مستحب، حرام، ناجائز، مکروہ تحریمی اور مکروہ تنزیہی وغیرہ وغیرہ۔ جبکہ قرآن مقدس کی پہلی آیت پہلے انسان کی پہلی تعلیم اور سب سے بہتر دعا کے ذریعہ اللہ تعالی نے جس علم کو حاصل کرنے کا حکم مسلمانوں کو دیا ہے اس اعتبار سے قرآن و حدیث ہمارا موضوع نہیں ہے۔ اور ہمارا یہ عمل اللہ تعالی کی مشیت کے بھی خلاف ہے۔ 
مذہب اسلام تقریبا ایک ہزار سال تک حالت نمو یعنی ترقی پذیر رہا۔ ان ہزار سالوں میں جو مسلمان محدث، مفسر، فقیہ اور مجتہد ہوتے تھے وہی بہترین حکیم،طبیب سیاست داں، سپہ سالار، جنرل اور کرنل ہوا کرتے تھے۔ وہی امام مسجد، امیرالمومنین اور بادشاہ وقت بھی ہوا کرتے۔ وہی سائنسداں، ریاضی داں، اور ماہر معاشیات، گورنر اورافسر ہوا کرتے تھے۔ اس کے بعد ایک منظم سازش کے تحت علم کی ناجائز تقسیم علم دین اور علم دنیا سے کی گئی اور یہ سمجھایا گیا کہ علم دین یعنی عقائد کے ساتھ نماز، روزہ وغیرہ کے مسائل و حقائق کی معرفت کی تعلیم ہی اصل تعلیم ہے۔ اور دنیا میں حصول اقتدار اور غلبہ کی کوشش کرنا یہ جہنم کا راستہ ہے اس غلط روی اور غلط زاویہ نظر نے مسلمانوں کو قعر مذلت میں پہنچا دیا ہے۔ جو اس کی منزل نہیں تھی اور جو مسلمانوں کی منزل تھی اس پر غیروں کا قبضہ ہو گیا۔ کہ انہوں نے غیر مسلم ہونے کے باوجود قرآن کے ان احکامات پر عمل کیا جس کا تعلق تسخیر کائنات یعنی سائنس سے تھا۔
اس کی مثال دنیا کے وہ پانچ ممالک ہیں جنہیں اقوام متحدہ میں ویٹو کا اختیار حاصل ہے۔اگرمسلمان اپنی حالت میں تبدیلی چاہتے ہیں تو انہیں اپنے فکر و خیال میں تبدیلی لانی ہوگی دین و سنت میں ریسرچ اور تحقیق کے ذریعہ اسے کامل کرنے کی فکر چھوڑنی ہوگی۔ کیوں کہ دین مکمل ہو چکا ہے۔  مزید بیجا تحقیق سے فرقہ بندی ہی پیدا ہوگی۔ اس لیے ہمارے اسلاف نے چار فقہ اسلامی پہ اجماع کرکے اجتہاد کا راستہ بند کردیاہے۔ ضرورت ہے کہ پھر سے مسلمانوں کی جامعات میں ریسرچ اور تحقیق کا موضوع دنیا و مافیہا اور اس سے استفادہ کی صورتیں ہوں۔ ہمیں پھر تسخیر کائنات اور استفادہ من الکائنات کا علم و ہنر سیکھنا ہوگا تبھی ہمیں ہماری منزل ملے گی۔ 
محمد شہادت حسین فیضی
9431538584

No comments:

Post a Comment

Featured Post

*زحمت، رحمت اور فطرت* حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی جس کی بھلائی چاہتا ہے اس...