Wednesday, December 30, 2020

عمل‌ پیہم کا‌ فلسفہ اور قانون فطرت

تحریر: محمد شہادت حسین فیضی

کوڈرما، جھارکھنڈ، 9431538584




بے محنتِ پیہم کوئی جوہر نہیں کھلتا

جہد پیہم کے حسیں خبط کو سر میں رکھنا
پاؤں تھک جائیں تو سوچوں کو سفر میں رکھنا

عمل پیہم کا لغوی معنی ہے: مستقل اور متواتر عمل

یقین محکم ، عملِ پیہم ، محبت فاتحِ عالم جہادِ زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں( بانگ درا)

کامیابی‌ کا زینہ ، زینہ بزینہ ہے
کامیابی کا 1% انحصار آپ کے جذبۂ عمل اور 99% انحصار آپ کی تسلسل کے ساتھ محنت پر ہوتا ہے۔”
عن عائشة رضي الله عنها ، أنها قالت: سُئل رسول الله ﷺ : أي الأعمال أحب إلى الله؟ قال: ” أدوَمها وإن قلَّ ” (متفق عليه)
ترجمہ:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، آپ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کون سا عمل اللہ تعالی کو سب سے زیادہ محبوب ہے؟ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم‌ نے فرمایا کہ "وہ عمل جو تسلسل کے ساتھ کیاجائے گرچہ وہ تھوڑا تھوڑا ہو”
اس‌حدیث پاک کی روشنی میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ:
-آہستہ آہستہ بلندی پہ چڑھنے والا تادیر بلندی پہ باقی رہتا ہے
_تدریج و استمرار اللہ کو بھی پسند ہے
-پھونک پھونک کر قدم رکھنے والا کبھی ناکام نہیں ہوتا۔
-لوگوں کے ساتھ معاملہ کرنے میں اور اس کے عمل در آوری میں تدریج واستمرار کی بہت اہمیت ہے۔
-ہروہ کامیابی جس میں نقصان کا خدشہ کم سے کم ہو اس کے لیے تدریج لازم و ضروری ہے۔
-سوچ سمجھ کر آگے بڑھنے والا کامیاب ہوتا ہے
تدریج‌ کا مفہوم:
تدریج یعنی آہستہ آہستہ رک رک کر بمقتضائے حال ترقی کی کوشش کرنا یا بلندی پہ جانے کی سعی کرنا یا سماج و معاشرہ میں تبدیلی لانے کی جدوجہد کرنا یہ سنت رسول ہے۔مشیت رب العالمین ہے۔ایک مثال سے سمجھتے ہیں پودے کے لیے تیار مٹی میں ایک ساتھ کدواورساگون (درخت) کا دانہ ڈالا گیا ایک ماہ تک آبیاری اور دیکھ ریکھ کے بعد یہ دیکھا گیا کہ ساگون کے صرف دو کونپلے نکلے ہیں جبکہ کدو کی لت کافی بڑی ہو گئی ہے۔ کاشتکار سے اس کی وجہ دریافت کی گئی تو اس عقلمند کاشتکار نے بتایا کہ اللہ تعالی کی مشیت ہے کہ جو چیز جتنی تیزی سے بڑھتی ہے اس کا خاتمہ بھی جلدی ہو جاتا ہے۔ اور جو چیز دھیرے دھیرے پروان چڑھتی ہے وہ تادیر قائم رہتی ہے۔ کدو کی لت صرف پانچ سے چھ ماہ میں اپنی عمر پوری کر کے ختم ہو جائے گی جبکہ ساگون کی عمر پچاس سے ساٹھ سال تک ہے اور پھر وہ فرنیچر وغیرہ میں سالہاسال کارآمد‌رہتا ہے اور پھر جلاون میں بھی مفید ہوکر ختم ہوتا ہے۔
تدریج کا قرآنی مفہوم
قرآن مقدس سے پہلے جتنی کتابیں اور صحائف نازل ہوئیں سب کے سب ایک بارگی نازل ہوئی انبیاء ومرسلین جنہیں کتاب یا صحیفہ ملنی تھی انہیں ایک بارگی عطا کر دی گئی۔ ایسا اس لیے بھی ہوتا تھا کہ یہ کتابیں اور صحائف ایک مخصوص قوم اور مخصوص مدت کے لیے راہ ہدایت ہوتی تھی چونکہ ان کے انبیاء و مرسلین بھی کسی خاص علاقے اور کسی خاص قوم کے لیے ہی مبعوث ہوتے تھے۔ اور انبیاءو مرسلین بھی وقفہ در وقفہ تشریف لاتے تھے۔ بلکہ ایک ہی مدت میں مختلف اقوام و ملک کے لیے متعدد انبیاء ومرسلین مبعوث ہوا کرتے تھے۔ لیکن ان کے گزرنے کے بعد بہت جلد ان کے دین کا بھی خاتمہ ہوجاتا تھا۔ بخلاف آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن مقدس کے۔ قرآن مقدس رک رک کر اور تھوڑا تھوڑا وقفہ وقفہ سے 23 سال کی مدت میں نازل ہوا. اللہ تعالی فرماتا ہے۔ ترجمہ : اور قرآن ہم نے جدا جدا کر کے اتارا تاکہ تم(اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم) لوگوں کے سامنے ٹھہر ٹھہر کر حکم سناؤ. اور ہم نے اسے تدریجاً نازل کیا (سورہ بنی اسرائیل(17) آیت نمبر 106)۔
قرآن پیدائش سے لے کر موت تک کے تمام مراحل کے لیے مشعل راہ ہے بلکہ ماقبل پیدائش اور مابعد موت کے بھی حقائق و احوال پر جامع ہے۔ جس سے ایک بہترین سماج و معاشرہ جو اپنے تمام خوبیوں کا جامع ہو تشکیل کرتا ہے۔ گویا ایک بہتر سماج و معاشرہ کی تشکیل کے لیے 23 سال کی مدت صرف ہوئی۔ ایک خراب معاشرہ سے اچھے معاشرہ کی تشکیل ارتقائی (Evolotionary) طور پر مکمل ہوئی۔کہ ایک اچھائی کے بعد دوسری اچھائی پھر تیسری،چوتھی اس طرح سے 23 سال میں اسلام اچھائیوں کا ایسا جامع دین ومذہب ہوگیا جس کو صبح قیامت تک باقی رہنا ہے۔
وہ دانائے سبل ختم الرسل مولائے کل جس نے
غبار راہ کو بخشا فروغ وادى سینا۔
تدریج اور سیرت النبی
دنیا میں خیالی انقلابی شخصیات بھی بہت ہیں لیکن مستند انقلابی شخصیات بھی ہزاروں میں ہیں اور ہمارے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کا مقام ان تمام میں اول ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے ہے کہ رسول کونین صلی اللہ علیہ وسلم نے پر امن انقلاب (Peaceful Revolution) کے ذریعہ گمراہوں کو راہبر بنادیا۔
خود نہ تھے جو راہ پر اوروں کے ہادی بن گئے
کیا نظر تھی جس نے مردوں کو مسیحا کردیا
آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اول تا آخر ذہن و فکر کی تبدیلی کے لیے تبلیغ وتحریک کو اور لوگوں میں اقامت دین کے لیے احکامات کو نافذ کرنے میں تدریج و تعدیل سے کام لیاہے۔ ردعمل کے طور پر فوری اقدام کرنا آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں نہیں ہے بلکہ حالات و واقعات کے مطابق قدم بقدم (Step by step) زینہ بزینہ آگے بڑھنا بلندی پہ جانا یا معاشرہ میں تبدیلی لانا سنت کریمہ متواترہ ہے۔
أسوۂ حسنہ کے نمونے:
اسکی مثال فتح مکہ 8 ہجری کے بعد قریب قریب پورے حجاز میں آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت قائم ہوئی۔ لیکن رسول کونین صلی اللہ علیہ وسلم کو زمین پر قبضہ نہیں کرنا تھا بلکہ زمین پر بسنے والے انسانوں کے دلوں پر قبضہ کرنا تھا۔ اس کے لیے دو طریقے اپنائے گئے۔
(1) فوری طور پر احسان و سلوک کا معاملہ کیا گیا کہ سب کو پناہ دی گئی۔ پھر سب کو معاف کر دیا گیا۔ اور ثقیف و ہوازن کے مال غنیمت میں سے انہیں اتنا دیا گیا کہ وہ اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔(2) دوسری جانب قدیم رسم و رواج کو ختم کرنے اور اسلامی شرعی احکام و قوانین کے نفاذ میں تدریجاً عمل کیاگیا۔ چنانچہ فتح مکہ رمضان 8 ہجری کےدو ماہ بعد جو پہلا حج ہوا وہ قدیم زمانۂ جاہلیت کے رسم و رواج کے مطابق ہی ہوا۔ یعنی آقاکریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلے بطور اصلاح شرک کا خاتمہ کیا کہ انسانی گناہوں میں سب سے بڑا گناہ شرک ہے جسے اللہ تعالی معاف نہیں فرماتا ہے۔ ایک سال تک حج و عمرہ کے رسم و رواج میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی کہ حج و عمرہ ان کے لیے ایک جذباتی عمل تھا۔ جس میں تعرض اصلاح سے فرقہ بندی اور گروپ بندی ہونےکا خدشہ تھا۔ اور جب ایک سال تک لوگ توحید پر قائم رہ لیے تو دوسرے سال یعنی 9 ہجری کا حج بھی دو طریقے سے ادا کیے گئے مسلمانوں نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی قیادت میں آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے مطابق حج ادا کیے جبکہ کفار و مشرکین کو چھوٹ تھی کہ وہ جیسے چاہیں حج ادا کریں۔ تاہم 9 ہجری کے حج کے لیے حضرت ابوبکر کو روانہ کرنے کے بعد ہی سورۂ توبہ کی آیت نمبر 28 نازل ہوئی جس میں کفار و مشرکین کو حرم شریف میں آنے سے روکا گیا ہے۔ آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو اس آیت کریمہ کے ساتھ مکہ بھیجا تاکہ لوگوں کے درمیان یہ اعلان کردیں کہ آئندہ سال سے کفار و مشرکین حرم میں داخل نہیں ہو سکتے۔ یہ پابندی دو حج کے بعد تیسرے حج سے نافذالعمل ہوا۔ اس کی حکمتیں کیا تھیں؟ ہمیں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ چونکہ مشرکین کا مشرکانہ طور پر حج کرنا یا برہنہ ہو کر خانہ کعبہ کا طواف کرنا آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت ناپسند تھا۔ اپنی اس نظافت طبع کی بنیاد پر آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم اقتدار حاصل ہونے کے بعد بھی دو سال تک خود کو حج کرنے سے روک لیا اور کفار و مشرکین کو دو سال تک حج و عمرہ کی اجازت دی تاکہ وہ مسلمانوں سے مل جل کر اور انہیں دیکھ کر، سمجھ کر اسلام قبول کر لیں۔ اور اس کے بہتر و مثبت نتائج سامنے آئے کہ اس دو سال کے بعد پورے خطۂ حجاز میں ایک بھی کافر و مشرک باقی نہ رہا۔
تدریج اور نفوذ شریعت
10 ہجری کا حج جسے حجۃ الوداع کہا جاتا ہے کے موقع پر اللہ تعالی نے آیت کریمہ "آج تمہارے لیے تمہارے دین کو مکمل کر دیا” نازل فرمایا یعنی 10 ہجری کو دین مکمل ہوا۔ جس کی ابتدا تئیس سال قبل دعوت توحید سے ہوئی تھی۔ انسانوں سے بے شمار گناہ سرزد ہوئے ہیں ان میں سب سے عظیم گناہ شرک ہے اور ہزاروں نیکیاں ہیں لیکن تمام نیکیوں کی اصل عقیدۂ توحید ہے۔ آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلے سب سے بڑی نیکی جو اصل نیکی ہے توحید کی دعوت دی اور سب سے بڑے گناہ شرک سے بچا یا۔ پھر تدریجاً دوسرے گناہوں سے روکا اور دوسری نیکیوں کا حکم دیا۔ بخاری شریف کی یہ حدیث ملاحظہ کریں۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ قرآن کریم کا جو حصہ پہلے نازل ہوا وہ مفصل سورتوں میں سے ایک سورہ ہے جس میں جنت اور جہنم کا ذکر ہے۔یہاں تک کہ جب لوگوں کے دلوں میں اسلام راسخ ہو گیا تو اس کے بعد حلال و حرام کے احکامات نازل ہوئے۔ اگر شروع میں ہی یہ حکم نازل ہوتا کہ شراب نا پینا تو لوگ کہتے کے شراب کبھی نہیں چھوڑیں گے۔ اور اگر یہ حکم نازل ہوتا کہ زنا نہ کرنا تو لوگ کہتے کہ ہم زنا کبھی ترک نہیں کریں گے (بخاری شریف کتاب التفسیر باب تالیف القرآن)
اللہ تعالی نے دین اسلام کے تمام قوانین و احکامات ایک بارگی امت پر نازل نہیں فرمائی بلکہ تدریجا تئیس سال کی مدت میں پورا قرآن نازل ہوا اور دین مکمل ہوا۔ معلوم ہوا کہ تدریج نہ صرف آقا کریم کی سنت ہے بلکہ یہ سنت الہی بھی ہے۔
ایک آدمی چھلانگ لگا کر چھت پر چڑھ سکتا ہے لیکن اس کے گر کر مجروح ہونے کا خدشہ ہے جبکہ سیڑھی کے ذریعے چڑھنے والے کا بغیر کسی نقصان کے منزل تک پہنچنا یقینی ہے۔
ایک عام کافر و مشرک کو مسلمان بنانے میں بھی تدریجی عمل کی ضرورت ہے ایسا ہی ایک عام مسلمان کو کامل مؤمن بنانے میں بھی تدریجی عمل کی ضرورت ہے۔ ایسا ہی سماج و معاشرہ میں بھی اصلاح و تبدیلی کے لیے منصوبہ بند تدریجی عمل کی ضرورت ہے۔
پچھلی دو صدیوں کی تنزلی‌ کے اسباب
پچھلے دو سو سالوں میں مسلمانوں کی تنزلی پر اگر نظر ڈالی جائے تو یہ محسوس ہوگا کہ اس درمیان پوری دنیا میں سب سے زیادہ مسلمان قتل کیے گئے یا شہید ہوئے۔ پھر ان مظالم سے بچنے کے لیے سب سے زیادہ تنظیم اور تحریک مسلمانوں نے ہی بنائی ہے اور چلائی ہے اور اس حفاظتی اقدام سے بھی مسلمانوں کا ہی جانی و مالی نقصان ہوا۔ نتیجے کے اعتبار سے یہ ساری تنظیمیں تحریکیں صفر ثابت ہوئی ہیں اور ختم بھی ہوگئیں۔ اور اگر ان میں سے کچھ باقی بھی ہیں تو وہ کالعدم ہیں حالانکہ اس درمیان حج و عمرہ کرنے والوں کی تعداد میں کافی اضافہ ہوا ہے۔ علماء، حفاظ اورقراء کی تعداد میں بھی کافی اضافہ ہوا ہے اور دینی تبلیغ و اشاعت کے کام بھی زور و شور سے چل رہے ہیں۔ کثرت سے دینی مدارس و جامعات قائم ہوے ہیں۔ کثیر تعداد میں مساجد تعمیر ہوئی ہیں اور ہو رہی ہیں۔ ساتھ ہی نمازیوں میں بھی کافی اضافہ ہوا ہے۔ ان سب کے باوجود مسلمان ہر دن تنزلی کی جانب گامزن ہیں۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ ہمیں اسی کو دریافت کرنا ہے میری ناقص فکروفہم کے مطابق اس کی وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ ہم نے مسواک، نکاح، وضو، نماز جیسے عبادات کی سنتوں پر خصوصی توجہ دی اور اسی کو دین کامل سمجھ لیا ہے جب کہ اقامت دین اور حصول اقتدار اعلی کی کوشش کے تعلق سے آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جو سنتیں ہیں مثلا ہر معاملے میں عدل و احسان، تدریجی اقدام، توازن و میانہ روی، عفوودرگزر، مشاورت میں اختلاف رائے کو قبول کرنا، سب وشتم کرنے والوں کو لقمہ تر سے خاموش کرنا، انتقام نہ لیناوغیرہ جیسی سنتوں سے روگردانی کرنا ہے۔
بمصطفے برساں خویش راکہ دیں ہمہ اوست
چوں باونرسیدی ہمہ بو لہبی است

No comments:

Post a Comment

Featured Post

*زحمت، رحمت اور فطرت* حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی جس کی بھلائی چاہتا ہے اس...