دین اسلام میں جبر واکراہ کی گنجائش نہیں۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اس شریعت کے کامل و مکمل اور ابدی ہونے کا ان الفاظ میں صاف اعلان فرمادیا :
’’آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لئے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کردی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے۔‘‘ (المائدہ3)۔
اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے۔
ترجمہ:
(1) تم میں سے ہر ایک کے لیے ہم نے ایک شریعت اور عمل کی راہ بنائی ہے
(2) اوراگر اللہ تعالی چاھتا تو بنا دیتا تم سب کو ایک امت
(3) لیکن آزمانا چاہتا ہے تمہیں اس چیز میں جو اس نے تم کو دی ہے
(4) تم نیکیوں میں آگے بڑھنے کی کوشش کرو
(5) تم سب کو اللہ تعالی کی طرف ہی لوٹ کر آنا ہے پھر اللہ تعالی تمہیں آگاہ کرے گا ان باتوں سے جن میں تم جھگڑا کرتے تھے (سورہ مائدہ آیت نمبر48)
مذکورہ آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے پانچ باتوں کے بارے میں بتایا ہے:
(1) پہلی بات یہ ہے کہ چونکہ پوری دنیامیں موسم، حالات، زمینیں اور آب و ہوا یکساں نہیں ہیں۔ اس لیے اس میں بسنے والے انسانوں کے مزاج،اخلاق و عادات اور طبیعتیں بھی یکساں نہیں ہوتے۔ تو ہم نے ان کے لیے شریعت اور راہ عمل بھی الگ الگ کر دی ہے۔ اس کی مثال حضرت آدم سے عیسی تک کے تمام انبیاء کی شریعتیں ہیں۔ اور چار فقہہ اسلامی کے علاوہ فروعی اختلافات کی بنیاد پر بننے والی جماعتیں ہیں۔ واضح رہے کہ اللہ تعالی نے اختلاف کی گنجائش سہولت کے لیے دی ہے۔ جس کو آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: اختلاف امتی رحمۃ۔ میری امت کا اختلاف کرنا رحمت ہے۔
(2-3) جس طرح اللہ تعالی نے ساری کائنات کو مطیع و فرماں بردار بنایا ہے، چاہتا تو تمام انسانوں اورجناتوں کو بھی دین اسلام کا پابند بنا دیتا اور پوری دنیا کے انسانوں کا ایک ہی مذہب ہوتا۔ سب ایک ہی طرح کے رسم و رواج کے پابند ہوتے۔ پوری انسانیت جامدوساکت ہوتی۔ علامہ بیضاوی رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کریمہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اگر اللہ تعالی چاہتا تو جبرا ہرایک کو اسلام کا پابند بنا دیتا اور کسی کو مجال انکار نہیں ہوتا۔ لیکن ایسا اس نے نہیں کیا تاکہ لوگوں کی آزمائش ہو جائے کہ کون اپنے اختیار سے اس دین حق کو قبول کرتا ہے اور کون جان بوجھ کر انکار کرتا ہے۔
(4) اس آیت سے اللہ تعالی نے یہ وضاحت کر دی ہے کہ تم اس آخری دین، آخری کتاب اور آخری رسول پر ایمان لے آؤ اور نیکی کرنے میں مقابلہ کرو، سبقت کرو۔ آپس میں لڑائی جھگڑا کرکے اپنا قیمتی وقت ضائع نہ کرو۔ اور خاص کر دین کے معاملے میں ہرگز ہرگز جبرواکراہ نہ کرو۔
(5) اگر تم مومن ہو تو تمہارا یہ یقین کامل ہونا چاہیے کہ تم سب کو اللہ تعالی کی بارگاہ میں حاضر ہونا ہے ۔اس دن تم نے دنیا میں جتنے مکروفریب اور جنگ و جدال کیے ہیں اللہ سب سے پردہ اٹھا دے گا،اور سب راز کھول دیے جائیں گے۔ اس لیے اپنی زندگی کے ہر لمحے کو جواب دہ بنالو۔ تمہاری کامیابی اسی میں ہے۔ نہ کہ لڑنے جھگڑنے میں۔
*اسلامی سنگ میل اور راہ نجات:*
ایک منزل یا شہر تک پہنچنے کے متعدد راستے ہو سکتے ہیں۔ اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ اور یہ ہمارا مشاہدہ بھی ہے. لیکن انسانوں کے لیے ایک اور منزل ہے جس کو کسی نے نہیں دیکھا ہے۔ اس منزل تک پہنچنے کے بھی کئی راستے ہیں۔ اور وہ راستے بھی بنے بنائے ہیں،ہمیں صرف چلنا ہے۔ وہ ایک ایسی منزل ہے جہاں تک پہنچنے کے لیے خود سے راستہ بنانے کی اجازت نہیں۔ اس طرح کے متعینہ معلومات کو اگر ہم نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے توسط سے جانا تو اس کا نام اسلام اور ایمان ہے اور اس پر عمل پیرا ہونا ہی ہمارے لیے راہ نجات ہے۔ اور اگر ان مسائل کا حل بتوں کے ذریعہ حاصل کرنے کی کوشش کی گئی تو یہ شرک ہے اور یہی ہمارے لیے راہ نجات سے بھٹکنا ہے۔ اور اگر کسی کو یہ باتیں سمجھائی گئی یا اسے دین کی دعوت دی گئی اور اس نے اس کو ماننے سے انکار کردیا تو یہ کفر ہے۔ بایں طور انسانوں کے تین گروپ(امت) ہو گئے مسلمان، مشرک اور کافر۔ اور ایسا ہونا مشیت الہی ہے۔اور عین تقاضائے فطرت ہے۔ لیکن اگر کوئی یہ چاہے کہ دنیا کا ہر آدمی ایک ہی مذہب کا ہوجائے۔ سب ایک ہی تہذیب وثقافت کے علمبردار رہیں۔ ہر چہار جانب انسانوں میں یکسانیت آجائے۔اور اس کے لیے طاقت کا استعمال کرے تو یہ فطرت کے بھی خلاف ہے اور مشیت الہی کے بھی خلاف ہے۔
*لااکراہ فی فی الدین:*
اللہ تعالی فرماتا ہے دین کے قبول کرنے یا نہ کرنے میں کوئی جورو جبر نہیں ہے۔(البقرہ۔256) اور دین میں زبردستی نہیں ہے۔ دین کے معاملے میں دوسروں پر جبر واکراہ جائز نہیں ہے۔
*دعوت دین کا اسلامی فلسفہ:*
اسلامی فلسفہ یہ ہے کہ دین کے معاملے میں اپنے نفس پہ جبر واکراہ کرنا چاہیے، اپنے نفس کو ذلیل و رُسوا کرنا چاہیے۔ اور دوسروں کے معاملے میں ہمیشہ نرم گوشہ رکھنا چاہیے، محبت سے پیش آنا چاہیے، دوسروں کو اپنے سے اچھا خیال کرنا چاہیے۔اپنے لیے عزیمت اور دوسروں کے لیے رخصت کی روش پر چلنا چاہیے۔ لیکن ہمارا عمل یہ ہے کہ ہم اپنے ناجائز کاموں کو بھی جواز کی صورت دینے کے لیے حیلے،بہانے بناتے ہیں۔ اور جیسے تیسے کر کے جائز کر لیتے ہیں۔ اور دوسروں کے لیے جبر و اکراہ کی تلوار لے کر کھڑا رہتے ہیں۔ سنی سنائی باتوں پہ ہی فتوی دیتے ہیں۔ دوسروں کے کہنے پہ کسی کو دین میں داخل کر لیتے ہیں۔ کسی کو خارج کر دیتے ہیں۔ دراصل ہم دوسروں کے بارے میں زیادہ سوچنے کے عادی ہو گئے ہیں۔ اور اپنے کو بھول گئے ہیں۔ دوسروں کو اچھائی کا حکم دیتے ہیں، دوسروں کو اچھا کرتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں، اور دوسروں کی چھوٹی چھوٹی غلطیوں پر بھی نظر رکھتے ہیں۔ اور خود کو بھولے رہتے ہیں۔ جب کہ یہ روش خلاف ایمان ہے۔اسلام نے اس سے ہمیں منع کیا ہے۔ قرآن نے غیر مؤمنانہ صفت کہا ہے :"کہ وہ دوسروں کو نیکی کا حکم دیتے ہیں اور اپنے نفس کو بھول جاتے ہیں"۔(البقرہ۔144)
*اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب میں جبر و اکراہ لازما ہے*
مذکورہ بالا سطور کے ذریعے یہ واضح ہو چکا ہے کہ اسلام میں جبر واکراہ نہیں ہے۔ کیونکہ اسلام کے بنیادی عقائد کو ثابت کرنے کے لیے عقلی دلائل و شواہد موجود ہیں۔ اسلام کا بنیادی عقیدہ توحید باری تعالیٰ ہے۔ کہ ساری کائنات کا خالق و مالک اللہ تعالی ہے اور وہی عبادت کے لائق ہے۔ اس کے لیے ہزارہا عقلی دلائل و شواہد موجود ہیں جس سے متانت کے ساتھ یہ ثابت کیا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالی ایک ہے اور وہی عبادت کے لائق ہے۔ بخلاف دیگر مذاہب کے۔کہ ان کے پاس بت پرستی کو صحیح ثابت کرنے کے لیے کوئی عقلی دلائل و شواہد نہیں ہیں۔ مثلاً ایک شخص اپنے ہاتھ سے پتھر یا مٹی کی مورتی بنا تا ہے۔ پھر اس کے سامنے ہاتھ جوڑ کر اپنی زندگی کی بھیک مانگتا ہے۔ اسی سے دھن، دولت اور کامیابی مانگتا ہے۔ جبکہ وہ محض ایک مٹی یا پتھر کا ٹکڑا ہے۔اب پوری دنیا میں کیا ایسی کوئی دلیل یا ایسی مثال ہے جس کے ذریعے یہ ثابت کیا جاسکے کہ ان بے جان مورتیوں میں نفع یا نقصان پہنچانے کی طاقت ہے؟ یہ پتھر کا ٹکڑا کسی کو زندگی اور دولت دینے کی طاقت رکھتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ نہ ایسی کوئی مثال ہے اور نہ عقلی اورنہ نقلی دلیل ہے۔ اب اگر کوئی شخص جو بت پرست، مشرک ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ اپنا مشرکانہ دین و مذہب دوسروں کے سامنے پیش کرکے انہیں بھی اپنے مذہب میں شامل کرے تو کوئی بھی عقلمند شخص اسکے مشر کانہ عقائد کو تسلیم نہیں کرے گا۔کیونکہ اسے سمجھانے کے لیے اس کے پاس کوئی ٹھوس دلیل نہیں ہے۔ لازما اسے اپنی بات منوانے کے لیے اسے جبر و اکراہ کرنی ہوگی یا مال و دولت کی لالچ دینی ہوگی۔ *معلوم ہوا کہ دنیا میں جتنے بھی شرکیہ مذاہب ہیں ان کی تبلیغ واشاعت جبرواکراہ یا مال و دولت کی لالچ سے ہی ہوتی ہے اس کے برخلاف چو نکہ مذہب اسلام ایک عقلی اور فطری مذہب ہے، اس کو منوانے اور تسلیم کرانے کے لیے طاقت کے استعمال یادولت کی لالچ کی ضرورت نہیں پڑتی۔ بلکہ مذہب اسلام کی تبلیغ و اشاعت صرف اور صرف دعوت دینے اور سمجھانے سے ہوتی ہے، کہ مذہب اسلام ایک مکمل نظر یۂ حیات ہے جو سمجھنے اور سمجھانے سے تعلق رکھتا ہے۔ اور سلیم الفطرت لوگوں کے لیے اس میں بہت کشش ہے کہ جو دین اسلام کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے وہ آخر کار سمجھ کر مسلمان ہوہی جاتا ہے۔ اور ضدی و نادان لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہمارے باپ دادا کا مذہب ہی اچھا ہے تاہم اب بھی ایسے لوگوں میں اسلام کے قبول کرنے کے امکانات موجود ہیں۔ بشرطے کہ ہم عملی طور پر ان کے سامنے اسلام کی اصلیت کا مظاہرہ کریں۔*
اس کو سمجھنے کے لیے ایک مثال پیش کرتا ہوں حضرت امام فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک مشہور واقعہ ہے کہ وہ ایک تالاب کے کنارے سےگزر رہے تھے۔ انہوں نے دیکھا کہ بہت سارے پجاری ایک مخصوص رسم و رواج کےساتھ لوگوں کو غسل کرا رہے ہیں اور نذرانہ وصول کر رہے ہیں۔ لیکن ان میں سے ایک پجاری مایوس ہوکر تالاب کے کنارے اکیلا کھڑا ہے۔ حضرت ان کے قریب جا کر دریافت فرما تے ہیں کہ آپ غم زدہ اور مایوس کیوں ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ میرا کوئی مرید غسل کرنے کے لیے نہیں آیا ہے اور مجھے پیسے کی سخت ضرورت ہے اس لیے میں مایوس اور پریشان ہوں۔ انہوں نے کہا کہ مجھے ہی آپ غسل کرا دیں مجھے ہی اپنا شیشو سمجھ لیں۔ وہ پجاری خوش ہو کر انہیں پانی کے قریب لے گیا ،تو حضرت نے خود ہی پانی میں جا کر ڈوبکی لگا لی اور پانی سے باہر آکر پجاری کو نذرانہ دے کر آگے اپنی منزل کی جانب چلے گئے۔ دوسرے دن پھر واپس آئے۔ تو پھر تالاب میں ایسے ہی بھیڑ تھی۔ لوگ غسل کر رہے تھے اور اپنے اپنے پجاری کو نذرانے دے رہے تھے۔ اور آج بھی وہ پجاری مایوس اکیلا کھڑا تھا۔حضرت پھر ان کے پاس گئے۔ تالاب میں ڈوبکی لگائی اور پجاری کو کچھ رقم دے کر آگے بڑھ گئے۔ اب وہ پجاری بھی ان کے پیچھے پیچھے آنے لگا۔ جب کچھ دور آگے نکل آئے تو حضرت نے پجاری سے دریافت فرمایا کہ بابا آپ کہاں جا رہے ہیں؟ تو پجاری نے کہا میں آپ کو بھگوان کے روپ میں دیکھ رہا ہوں۔ اب میں جاننا چاہتا ہوں کہ میرا بھگوان کون ہیں؟۔ حضرت نے جواب دیا کہ میں بھگوان نہیں ہوں۔ بلکہ ایک انسان ہوں اور اس اللہ تعالی کا بندہ ہوں جس نے سارے انسانوں کے ساتھ انسانوں کے فائدے کے لیے ساری کائنات کی تخلیق فرمائی ہے۔ وہی مالک ہے، اور وہی عبادت کے لائق ہے، وہی معبود برحق ہے، اس کے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ الغرض فلسفہ اسلام کو پیار و محبت کے ساتھ ان کے سامنے پیش فرمایا۔ یہاں تک کہ وہ پجاری حقیقی اسلام سے متاثر ہو کر مسلمان ہوں گیا۔
*جس کام میں بھی للہیت اور خلوص ہوگا خواہ وہ کام جیسا بھی ہو اللہ تعالی اسے قبول بھی فرماتا ہے اور عمل کرنے والا اس کی برکتوں سے بھی مالا مال ہوتا ہے* ۔
آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں۔ اللہ تعالی تمہارے مالوں اور تمہاری صورتوں کو نہیں دیکھتا بلکہ وہ تمہارے دلوں اور تمہارے کاموں کو دیکھتا ہے۔ (مسلم شریف) آقا کریم ارشاد فرماتے ہیں۔ جو شخص لوگوں پر رحم نہیں کرتا اللہ تعالیٰ بھی اس پر رحم نہیں کرتا۔ (متفق علیہ)
تبلیغ دین کے معاملے میں اسلامی فلسفہ کا پہلا طریقہ یہ ہے کہ ہم کسی پر جبر و اکراہ نہیں کریں گے بلکہ جس کو ہم دعوت دینا چاہتے ہیں ہم ان کے پاس جا کر عاجزی سے دعوت پیش کریں گے۔ اور مدعو قوم پہ سختی نہیں بلکہ نرمی، شفقت و محبت اور عزت و تکریم کا معاملہ کریں گے۔ سلف صالحین کی زندگی اس کی بہترین مثالیں ہیں۔
دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ہر مسلمان بحیثیت مسلمان وہ ہر وقت اور ہر جگہ مبلغ اور داعی ہے خواہ سفر ہو کہ حضر۔ اور جہاں اسے موقع ملے اسے دین کی دعوت دینی چاہیے جیسا کہ حضرت فخرالدین رازی علیہ الرحمہ نے کیا ۔ اور تیسری صورت یہ ہوتی ہے کہ جب کوئی غیر مسلم کسی مسلمان کے پاس آئے یا اس کا گھر آئے اور بد اخلاقی کے ساتھ جبر و اکراہ کا مظاہرہ کرے، تو ان حالات میں بھی ہمیں اپنے پیارے آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ پر عمل کرنا چاہیے۔ چند نمونے پیش خدمت ہیں۔
(1)حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں یہودیوں کی ایک جماعت آئی اور کہا کہ تم پر موت ہو (السام علیکم) حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میں ان کی باتیں سمجھ گئی۔ تو میں نے کہا کہ تم پر موت ہو اور اللہ تعالی کی لعنت ہو۔ اس پر آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ اے عائشہ انہیں چھوڑ دو۔ میں نے کہا کہ یا رسول اللہ! آپ نے سنا نہیں کہ ان لوگوں نے آپ کو کیا کہا؟ تو آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: "ہر کام میں نرمی کرو، اللہ تعالی نرمی کو پسند فرماتا ہے"۔ (یعنی سختی کرنے والے کے ساتھ بھی نرمی کرو۔ یہ ہے گھر آکر بداخلاقی کا مظاہرہ کرنے والوں کے ساتھ پیش آنے کا اسلامی طریقہ) (بخاری شریف جلد دوم صفحہ نمبر 890)
(2) یحیی بن سعید سے روایت ہے کہ ایک اعرابی مسجد میں داخل ہوا اور پیشاب کرنے لگا تو لوگ اسے مارنے کے لیے اٹھے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ اس کا پیشاب نہ روکو(بلکہ اس کو پیشاب کرنے دو) اور جب وہ پیشاب کر چکا تو آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ڈول پانی منگوایا اور اس پر بہا دیا۔ (بخاری شریف)
اسلامی فلسفہ یہ ہے کہ زیادتی کرنے والوں کے ساتھ بھی پیار اور شفقت کیا جائے۔ اور ان حالات میں غصہ کوضبط کر کے حسن اخلاق سے پیش آنا یہ اسوہ صرف اور صرف میرے آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے۔ اور بعد میں ہمارے اسلاف نے اس پرعمل کیا اور آج ہمیں بھی عمل کرنا چاہیے۔
*تکریم انسانیت:*
اسلام میں انسانیت کی تکریم کا درس ہے۔ اس میں مسلم اور غیر مسلم سب شامل ہیں بلکہ مطلق انسان انسان ہونے کے ناطے قابل تکریم و تعظیم ہے اور اس پر جبر و اکراہ کرنا حرام و ناجائز ہے اور ناپسندیدہ ہے۔اور یہ ناپسندیدگی جانوروں کے ساتھ بھی ہے۔ یہاں تک کہ اگر کوئی شخص جانوروں پر بھی ظلم کرتا ہے تو اس کی بھی گرفت ہوگی۔ یہ حدیث ملاحظہ کریں۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک عورت ایک بلی کو تکلیف دینے کی وجہ سے جہنم میں ڈالی گئی۔ اس عورت نے بلی کو باندھ کر چھوڑ دی تھی یہاں تک کہ وہ بلی بھوک اور پیاس سے مر گئی۔ اس لیے کہ اسے ہمیشہ باندھے رکھتی تھی اور نہ اسے کھلاتی تھی نہ پلاتی تھی اور نہ ہی اسے چھوڑتی تھی کہ وہ زمین کے کیڑے مکوڑے کھا لیتی۔ (بخاری شریف)
دوسرے احادیث میں اس کی تفصیل موجود ہے کہ وہ عورت بنی اسرائیل کی مسلمان عورت تھی، عابدہ اور زاہد تھی۔لیکن اس نے ایک بلی پہ ظلم کیا اس لیے وہ جہنم میں ڈالی گئی۔ اور اگر کوئی شخص جانور پر بھی رحم کرتا ہے تو اللہ تعالی اس پر بھی نیکی عطا فرماتا ہے، اس کے گناہ کو مٹاتا ہے اور جنت عطا فرماتا ہے۔
یہ حدیث ملاحظہ کریں۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک شخص راستہ چل رہا تھا کہ اسے سخت پیاس لگی ۔اس نے ایک کنواں دیکھا جس میں اتر کر اس نے پانی پی لی۔ جب وہ باہر نکلا تو دیکھا کہ ایک کتا ہانف رہا ہے اور شدت پیاس کی وجہ سے مٹی چاٹ رہا ہے۔ اس نے سوچا کہ یقینا اس کتے کو میری طرح پیاس لگی ہے۔ پس وہ کنویں میں اتر کراپنے موزے میں پانی بھرا اور کتے کے منہ میں ڈال دیا اور کتے نے پانی پی لیا۔ اللہ تعالی کو اس کا یہ عمل پسند آگیا اور اس کی مغفرت فرما دی۔ لوگوں نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا چوپایوں میں بھی ہمارے لیے اجر ہے؟ فرمایا ہر اس کام میں اجر ہے جو دل پہ اثر کرے (بخاری شریف)
بے شک مذہب اسلام میں کسی بھی زاویۂ نظر سے ظلم و جبر اور اکراہ جائز نہیں ہے اور اسلام میں تبلیغ و اشاعت کے لیے صرف ایک ہی طریقہ بتایا گیا ہے اور وہ ہے دعوت۔ تمام انبیاء و مرسلین داعی تھے اور ہر مسلمان داعی ہے۔ اور آج بھی اگر اسلام پھیل رہا ہے تو دعوت کے ذریعے ہی پھیل رہا ہے۔ بخلاف دیگر مذاہب کے کہ اسلام کے علاوہ دنیا میں جتنے بھی مذاہب ہیں یہودی، عیسائی، بدھشٹ،پارسی، ہندو یہ سب کے سب اپنے مذہب کی تبلیغ کے لیے لالچ اور اکراہ دونوں کا استعمال کرتے ہیں۔ اس لیے کہ جسے یہ اپنے مذہب میں شامل کرنے کے لیے سمجھانا چاہتےہیں۔ انہیں سمجھانے کے لیے ان کے پاس صاف ستھرا اور پاکیزہ دلیل نہیں ہے۔ انکے مذاھب نہ عقل کے اعتبار سے صحیح ہیں اور نہ ہی روایات کے اعتبار سے صحیح ہیں۔ اس لیے مجبورا انہیں اپنے باطل مذہب کو پھیلانے کے لیے دولت و طاقت کا استعمال کرنا ہوتا ہے۔
مذہب اسلام سہل ،آسان اور فطری مذہب ہے لوگ اسے سمجھ کر ہی قبول کرتے ہیں۔
محمد شہادت حسین فیضی
9431538584
No comments:
Post a Comment