گرداب سامنے ہے ،کوئی بادباں نہیں
اب دیکھنا ہےجاکے ٹھہرتے ہیں ہم کہاں
امیر کی فرماں برداری : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اے ایمان والو !اللہ تعالی اور رسول کی اطاعت کرو۔ اور ان کی اطاعت کرو جو تمہارےامیر ہیں. (سورۃ النساء / 59 ) اللہ تعالیٰ اور رسول اکرم ﷺ کے بعد اپنے امیر کا حکم تسلیم کرنا واجب ہے۔
مذکورہ آیت کریمہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مسلمانوں کے لیے کسی کو اپنا امیر تسلیم کرنا بھی واجب ہے اور یہ حکم ہر سطح پر نافذ ہے۔ خاندان، ادارہ، جماعت، تنظیم، علاقہ، صوبہ اور ملکی سطح پہ بھی کسی نہ کسی کی سربراہی تسلیم کرنا واجب ہے۔ حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم تین آدمی ایک ساتھ سفر کرو تو آپس میں ایک کو امیر بنا لو۔ (مجمع الزوائدجلد نمبر 05 صفحہ نمبر 224)
آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم صبح قیامت تک کے تمام مسلمانوں کے لیے یکساں طور پر نافذ ہے۔ کہ مسلمانوں کی چھوٹی سی چھوٹی جماعت بھی امیر سے خالی نہ رہے۔ تاکہ مسلمانوں میں ڈسیپلین اور نظم و ضبط ہر مقام پر قائم رہے۔ اور کوئی فرد کسی بھی وقت مطلق العنان نہ رہے بلکہ ہر مسلمان ہر وقت اور ہر جگہ ایک جامع نظم و ضبط کا پابند رہے۔ جس کی سب سے بہتر مثال نماز اور حج وعمرہ ہے۔
اس سلسلہ میں مزید پانچ احادیث کریمہ ملاحظہ کریں جو بہت ہی مفید ہیں۔
(1) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص نے میری اطاعت کی اس نے اللہ تعالی کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ تعالی کی نافرمانی کی اور جس نے میرے امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے میرے امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔ (صحیح البخاری جلد دوم صفحہ نمبر 10 57)
(2) حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ روایت کرتے ہیں کہ آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ "سنو اور اطاعت کرو خواہ تم پر ایک حبشی غلام کو ہی حاکم بنا دیا جائے، جس کا سر انگور کے برابر ہو۔" (صحیح بخاری جلد دوم صفحہ نمبر 10 57)
(3) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص کو اپنے امیر کا کوئی حکم ناگوار معلوم ہو تو اس کو صبر کرنا چاہیے کیونکہ جو شخص جماعت سے ایک بالشت بھی الگ ہو کر رہے گا وہ جاہلیت کی موت مرے گا۔ (صحیح بخاری جلد دوم صفحہ نمبر 10 57)
(4) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص ایک بالشت کے برابر بھی جماعت سے الگ ہوا اس نے اپنے گلے سے اسلام کا پھندا اتار دیا۔ اور جو شخص کسی امیر سے بیعت کیے بغیر مرگیا اس کی موت جاہلیت کی موت ہے۔ اور جو شخص عصبیت کے جھنڈے تلے لڑتا ہوا مرا وہ جاھلیت کی موت مرا۔ (مجمع الزوائد جلد نمبر 5 صفحہ نمبر 224 ) یعنی ایسا شخص جس نے کسی کی سربراہی تسلیم نہیں کی اور مرگیا یا وہ آدمی جو کسی عصبیت یعنی برادری یا خاندانی، علاقائی لڑائی میں شریک ہو کر مارا گیا وہ جاہلیت کی موت مرا۔
(5) حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر مسلمان شخص پر حاکم کا حکم سننا اور اس کی اطاعت کرنا واجب ہے خواہ پسند کرے یا ناپسند جب تک کہ وہ کوئی گناہ کا حکم نہ دے اور جب وہ گناہ کا حکم دے تو نہ اس کی سنے اور نہ ہی اطاعت کرے۔ (صحیح مسلم جلد دوم صفحہ نمبر 125)
قرآن مقدس احادیث کریمہ اور آثار صحابہ سے یہ بات واضح ہوگئ کہ مسلمان دنیا کے جس حصہ میں بھی آباد ہو اس پر واجب ہے کہ وہ جماعت کے ساتھ منسلک رہے اور کسی نہ کسی کو اپنا امیر بنا لے اور امیر خواہ وہ جس سطح کا ہو اس کا حکم سننا اور اس کی اطاعت کرنا واجب ہے۔ جب تک کہ کوئی گناہ کا حکم نہ دے۔
موجودہ دور میں جبکہ پوری دنیا سے اسلامی حکومت کا خاتمہ ہوچکا ہے۔ ہاں کچھ ممالک میں مسلمان حکمران ہیں جو مورثی بادشاہ ہونے کی حیثیت سے ہیں یا ایسی جمہوریت کے ذریعہ سے ہیں جس میں عقل نہیں سر گنے جاتے ہیں۔ اور یہ دونوں طریقے اسلامی منہج کے خلاف ہیں۔ ان حالات میں پوری دنیا کے مسلمانوں کے لیے کوئی ایک امیر کا ہونا محال ہے۔اور تمام مسلمانوں کا تو چھوڑیئے اکثر مسلمانوں کا متفق ہونا بھی محال ہے۔ اور وہ ممالک جہاں مسلمان حکمران نہیں ہیں بلکہ مسلمان اقلیت میں ہیں ان ممالک میں ملکی، صوبائی اور ضلعی سطح پہ بھی متفقہ قیادت کا ہونا مشکل ہے۔ ان حالات میں قرآن و سنت میں جو امیر کے اطاعت کا حکم دیا گیا ہے اس پر عمل کیسے کیا جا سکتا ہے؟ یہ ایک سوال ہے جس کا جواب بھی دین و سنت میں موجود ہے۔ اس لیے کہ دین اسلام ایک کامل دین ہے جس میں ہر طرح کے حالات اور ہر علاقہ جات کے ساتھ ہر زمانے کے مشکلات کا حل موجود ہے۔ سبحان اللہ۔ صحیح بخاری شریف جلد دوم صفحہ نمبر 1057 کی یہ حدیث کریمہ پڑھیں۔ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خبردار غور سے سنو! تم میں سے ہر شخص حاکم ہے۔ اور ہر شخص سےاس کی رعایا کے بارے میں (دنیا میں بھی اور قیامت میں بھی) پوچھا جائے گا ۔پس جو لوگوں کا حاکم ہے(خواہ وہ ملکی سطح کا ہو یا علاقائی سطح کا) اس سے اس کے ماتحت رعایا کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ (اور اگر اس سطح کی قیادت موجود نہیں ہے تو) گھر کا سربراہ مرد ہے اور اس سے اس کے گھر والوں کے بارے میں سوال ہوگا۔ ایسا ہی عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کے بچوں کی حاکمہ ہے اس سے اس کے بارے میں پوچھا جائے گا۔یہاں تک کہ گھر کا نوکر بھی اپنے آقا کے مال کا نگراں ہے اس سے بھی اس کے بارے میں سوال ہوگا۔ آخری جملہ کے طور پر آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر سے تاکیدا فرمایا کہ سنو تم میں سے ہر شخص حاکم ہے اور ہر ایک سے اس کی رعایا کے بارے میں پوچھا جائے گا۔
اس حدیث کی روشنی میں یہ بات سمجھ میں آئی کہ دنیا کا ہر مسلمان حاکم ہے اور ذمہ دار شہری ہے ۔اس سے اس کی ذمہ داریوں کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ بس جو مسلمان اپنی ذمہ داریوں کو تلاش کرکے ادا کرتے ہیں یا ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں وہ یقینی طور پر دنیا میں کامیاب مسلمان اورکامیاب شہری ہیں۔ اور جو ذمہ داریوں کو ادا نہیں کرتے بلکہ ہر وقت صرف اپنے ذاتی حق کے متلاشی رہتے ہیں یا پھر غیر ذمہ دارانہ حرکت وعمل کے ساتھ من مانی کرتے ہیں جیسا کہ موجودہ دور میں مسلمانوں کی عادت و خصلت اور چلن ہے۔ تو ایسی قوم ،جماعت یا فرد کی تباہی یقینی ہے ۔ مطلق العنان اور خود غرضانہ عمل دنیا کی تباہی کے ساتھ آخرت میں جہنم جانے کا سبب ہے ۔اس تعلق سے یہ حدیث پاک بھی پڑھ لیں۔ حضرت عامر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کو فرماتے ہوئے سنا کہ آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ" اللہ کے قانون (جوقانون فطرت ہے) کو قائم رکھنے والے اور اس کو توڑنے والے کی مثال ایسے لوگوں کی ہے جنہوں نے ایک کشتی کے بارے میں یہ طے کیا کہ کچھ لوگ کشتی کے نچلے حصہ میں رہیں گے اور کچھ لوگ اوپری حصے میں رہیں گے۔ پس جو لوگ نیچے تھے انہیں پانی لینے کے لیے اوپر والوں کے پاس سے گزرنا پڑتا تھا(جو انہیں ناگوار گزرتی تھی ) تو انہوں نے یہ طے کیا کہ کیوں نہ ہم نیچے کے حصہ میں جو ہم لوگوں کا حصہ ہے سوراخ کر لیں تاکہ آسانی سے ہمیں پانی مل جائے اور ان کی ناگواری سے بھی بچ جائیں۔ اب اگر اوپر والے نیچے والوں کو من مانی کرنے دیں گے تو سبھی کشتی والے ہلاک ہو جائیں گے۔ اور اوپر والے نیچے والوں کا ہاتھ پکڑ لیں تو سب بچے رہیں گے۔ (صحیح بخاری حدیث نمبر 24 93)
آج نہ ہمارا کوئی سربراہ ہے اور نہ ہی ہم کسی کو سربراہ ماننے کو تیار ہیں۔ نہ ہمارے درمیان اجتماعیت ہے نہ جماعت ہے نہ نظم و نسق ہے۔ اس سبب سے ہم دھنی ہوئی روئی کی طرح ہلکے ہو گئے ہیں۔ ہم بھاری بھرکم آندھی طوفانوں سے نہیں بلکہ ہلکے پھلکے سکے اور ہلکی پھلکی پھونک سے ہی ادھر سے ادھر ہو جاتے ہیں۔ ہر دن تباہ بھی ہو رہے ہیں ،قتل بھی کیے جا رہے ہیں، اور ہماری عزت و عصمت بھی لوٹی جا رہی ہے۔
اور اس کے خلاف ہر شخص الگ الگ ڈفلی بجا رہا ہے اور صرف اپنے مفاد کی بات کرتا ہے اور بعض تو اپنے مفاد کے لیے قوم کی عزت و آبرو کا بھی سودا کر لیتے ہیں۔ خود غرضی اور مفاد پرستی مسلمانوں میں اس قدر حاوی ہے کہ اس میں بڑے بڑے صاحب دستار اور دانشوران قوم و ملت سب شامل ہو رہے ہیں۔ جب کہ اجتماعیت اور ایثار و قربانی کے ساتھ جذبہ خیر خواہی یہ وہ صفات تھے جس کی بنیاد پر مسلمانوں نے ایک مختصر مدت میں دنیا کے بہت بڑے حصے پر اسلامی پرچم بلند کیا۔ ہمیں اپنے قائدین کی قیادت کو تسلیم کرنی چاہیے خواہ وہ کمتر ہوں یا برتر۔ اس کی مثال حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا اٹھارہ (١٨) سالہ حضرت اسامہ بن زید کو سپہ سالار بنانا ہے جس لشکر میں اکابیر صحابہ موجود تھے۔ اور جب کچھ لوگوں نے صدیق اکبر سے اس کی شکایت کی تو وہ خود لشکر کو روانہ کرنے کے لیے لشکر گاہ تشریف لے گئے۔ اور حضرت اسامہ کو حکم دیا کہ آپ گھوڑے پر سوار ہو جائیں۔ اور لشکر کی قیادت کریں۔ الحکم فوق الادب کے تحت جب وہ گھوڑے پر سوار ہو گئے تو حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ آگے بڑھ کر گھوڑے کی لگام تھام لی اور پیدل چلنے لگے۔ اپنے اس عمل سے حضرت صدیق اکبر نے آنے والی امت کے ساتھ ساتھ موجودہ صحابۂ کرام کو بھی درس دیا کہ آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بنایا ہوا سالار بدلا نہ جائے گا۔ بلکہ اس کی عظمت اتنی زیادہ ہے کہ امیر المؤمنین اس کے گھوڑے کی لگام تھام کر خادم کی طرح پیدل چل رہے ہیں۔ یہ منظر دیکھ کر وہ صحابہ کرام جنہیں حضرت اسامہ کے غلام زادہ اور نوجوان ہونے پر اعتراض تھا وہ بھی حضرت اسامہ کے مطیع و فرماں بردار ہو گئے۔ حضرت اسامہ جنگ جیت کر کامیابی کے ساتھ واپس ہوئے۔
مٹایا قیصر و کسریٰ کے استبداد کو کس نے - وہ کیا تھا زور حیدر، فقر بو ذر، صدق سلیمانی
ہم مسلمانوں کے لیے واجب ہے کہ ہم اپنے قائد کی قیادت تسلیم کریں۔ وہیں ہمارے قائدین کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ بھی اپنی قیادت کو تسلیم کرانے کے لیے قائدانہ صلاحیت کا استعمال کریں۔ جیسا کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اپنے فیصلے اور حضرت اسامہ بن زید کی سپہ سالاری کو تسلیم کرانے کے لیے عملی اقدام کیا۔
آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم پوری دنیا کے لیے رحمت بن کر تشریف لائے ہیں اور ہمیں بھی یہ درس دیا کہ ہم بھی دنیا کے ہر شخص کے لیے رحمت بن جائیں۔ اور اس کے لیے ایک جملے میں اس کا نسخہ عطا فرمایا کہ" تم میں سے کامل مومن وہ ہے جو اپنے بھائی کیلئے وہی پسند کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے" (بخاری شریف جلد اول صفحہ نمبر 6)
اس حدیث کے پس منظر میں تاریخ صحابہ کا ایک واقعہ پیش ہے۔
ایک صحابی اپنا قیمتی گھوڑا ضرورتا فروخت کر رہے تھے۔ ایک دوسرے صحابی حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ جنہیں گھوڑے کی ضرورت تھی خریدنے کے لیے ان کے پاس گئے اور قیمت دریافت کیا۔ انہیں چونکہ جلدی فروخت کرنی تھی اس لیے کم قیمت پانچ سو (٥٠٠) درہم بتایا۔ خریدنے والے نے گھوڑے پر سواری کر کے اسے آزمایا اور کہا کہ یہ گھوڑا تو زیادہ قیمت کا ہے ،تو اس کا چھ سو درہم لے لے۔ انھوں نے کہا میں راضی ہوں۔ پھر اس نے کہا کہ سات سو درہم لے لو۔ کہا میں اس پہ بھی راضی ہوں۔ اس کے بعد انہوں نے پھر سے کہا کہ دیکھو تمہارے گھوڑے کی صحیح قیمت آٹھ سو(٨٠٠) درہم ہے۔ یہ آٹھ سو درہم لو اور گھوڑا مجھے دے دو۔ انہوں نے درہم وصول کر کے گھوڑا حوالے کردیا۔ گھوڑا لینے کے بعد انھوں نے دریافت فرمایا کہ اے بھائی آپ کا گھوڑا جو آٹھ سو درہم کا تھا،آپ پانچ سو درہم میں کیوں فروخت کر رہے تھے؟ انہوں نے کہا کہ مجھے سخت ضرورت تھی اس لیے مجبورا میں کم قیمت میں بیچ رہا تھا تاکہ جلد فروخت ہو جائے۔لیکن اب آپ بتائیے کہ آپ کو یہ گھوڑا کم قیمت میں مل رہا تھا تو آپ نے اس کی زیادہ قیمت کیوں ادا کی؟ انھوں نے کہا کہ میری بھی ایک مجبوری تھی۔ دریافت فرمایا وہ کیا؟ انہوں نےجواب دیا کہ میرے آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ "جو تم اپنے لیے پسند کرو اپنے بھائی کے لیے بھی وہی پسند کرو۔" میں چاہتا ہوں کہ مجھے سودااچھا ملے تو میں یہ بھی چاہتا ہوں کہ میرے بھائی کو صحیح قیمت ملے۔ مجھے اپنے بھائی سے نقد دے کر سودا خریدنا ہے، اس کی مجبوری نہیں! اور کسی کی مجبوری سے فائدہ اٹھانا یہ انسانیت کے خلاف ہے۔
سبق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا، شجاعت کا - لیا جائے گا تجھ سے کام دنیاکی امامت کا
مسلمانوں کو ایسے ہی قیادت کی ضرورت ہے۔لیکن اگر قیادت ایسی نہ بھی ہو تب بھی مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ کسی نہ کسی کی قیادت کو تسلیم کریں۔
اب ڈوبنا ہے بیچ سمندر میں دیکھنا - گرداب سامنے ہے ،کوئی بادباں نہیں
اب دیکھنا ہے! جاکے ٹھہرتے ہیں ہم کہاں -گرتے ہی جارہے، جو گرے آسماں سے ہم
محمد شہادت حسین فیضی
9431538584
No comments:
Post a Comment